Zafran'S

Zafran'S Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Zafran'S, Digital creator, Abu Dhabi.

کہتے ھیں کہ پرانے زمانے میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے منبر بنائے جاتے تھے اِس لئے کہ اُس کی لکڑی بہت مضبوط اور پائیدار ھو...
04/12/2024

کہتے ھیں کہ پرانے زمانے میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے منبر بنائے جاتے تھے اِس لئے کہ اُس کی لکڑی بہت مضبوط اور پائیدار ھوتی ھے۔ یہ پھل دار بھی ھوتا ھے اور سایہ بھی کافی گھنا ھوتا ھے۔
دوسری طرف چنار کا درخت ھے جس سے پرانے زمانے میں دار (پھانسی گھاٹ) بنائے جاتے تھے۔ اِس میں کوئی پھل بھی نہیں لگتا اور کوئی خاص نہیں ھوتا۔

ایران کے مشہور تُرک نژاد شاعر شہریارؔ نے اِن دو درختوں میں بحث کو بہت خوبصورتی سے شعر میں کچھ یوں ڈھالا ھے:

گفت با طعنه منبری به چنار:
"سرفرازی چی میکنی؟ بی بار!"

( منبر نے طعنہ بھرے لہجے میں چنار کے درخت سے کہا:
"اے بے پھل کے درخت! کس زعم میں اپنی گردن اکڑائے کھڑے ھو؟")

"نه مگر ننگی ھر درختی تُو؟
کز شما ساختند چوبی دار؟"

(" تمہیں نہیں لگتا کہ درختوں کی برادری میں تم باعث ننگ و بدنامی ھو ؟
کہ تم سے صرف پھانسی گھاٹ ھی بنائے جاتے ھیں")

پس بر آشفت آن درختِ دلیر
رُو به منبر چنین نمود اخطار گفت

( اُس دلیر درخت کو بہت غصّہ آیا، اُس نے منبر کی جانب اپنا رُخ موڑ کے کہا)

"گر منبرِ تُو فائدہ داشت
کارِ مردم نه می کشید به دار"

("اگر تمہارے منبر اِتنے ھی فائدہ مند ھوتے تو لوگوں کو پھانسی سے جھولنے کی نوبت ھی نہ آتی")

~ حکایاتِ دلنشینِ فارسی

18/11/2024
14/05/2024

سفر باطن۔1

باطن کا سفر اللہ پاک کے عشق کو حاصل کرنے کا سفر ہے
اس کی ابتدا خاموشی سے ہوتی ہے جو اللہ کو دور دور سے جانتے ہیں وہ اس کو زور زور سے بلند آ واز میں پکارتے ہیں۔یعنی ذکر بالجہر اور جو لوگ اللہ کو قریب سے جانتے ہیں وہ سرگوشی میں پکارتے ہیں مثلاً زیر لب ذکر اذکار عبادات سے
اور جو اس کو پہچان لیتے ہیں وہ لوگ پھر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تنہا ئی انہیں بھاتی ہے دنیا داری ان کے دل و دماغ سے نکل جاتی ہے مراقبہ اور غور وفکر ان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے اور وہ دنیا میں رہ کر اس دنیا کو اپنے دل سے نکال کے باہر پھینک دیتے ہیں اللہ پاک ذکر ان کے دل و دماغ میں بس چکا ہوتا ہے

 بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سےپوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ ...
06/05/2024


بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سےپوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟
کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔

بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔
شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔

بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔

جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔

شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔
بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟
شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟
کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔

بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائےگا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔

بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔

سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے،کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے...!

سومنات کا مندر اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان کے سب راجے اس کے لیے جاگیریں وقف کرتے، اپنی بیٹیوں کو خدمت کے لیے وقف کرتے جوکہ ...
06/05/2024

سومنات کا مندر اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان کے سب راجے اس کے لیے جاگیریں وقف کرتے، اپنی بیٹیوں کو خدمت کے لیے وقف کرتے جوکہ ساری عمر کنواری رہتیں اور انہیں دیوداسیاں کہا جاتا، ہر وقت 2000 برہمن پوجا پاٹ کرنے کے لیے حاضر ہوتے اور 500 گانے بجانے خوبصورت عورتیں اور 300 قوال ملازم تھے، سومنات کے بت کی چھت 56 ستونوں پہ قائم تھی وہاں مصنوعی یا سورج کی روشنی کا بندوبست بالکل بھی نہیں تھا بلکہ ہال کے قندیلوں میں جڑے اعلیٰ درجے کے جواہرات روشنی مہیا کرتے تھے،
ﷲ کے دلاور سلطان محمود غزنوی بت شکن نے سونے و چاندی کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو روندنے کے بعد بادشاہ بت کے سامنے جا کھڑے ہوئے، یہ بت 6 فٹ زمین کے اندر اور 9 فٹ زمین سے بلند تھا-
اسی دوران شہر کے معزز سمجھے جانے والے ہندوؤں نے منہ مانگی مال و دولت کی پیش کش کی کہ سومنات کے بادشاہ بت کو کچھ نا کہیں، تو سلطان محمود غزنوی کے دیسی دانشوروں نے مشورہ دیا کہ پتھر کو توڑنے کا کیا فائدہ جبکہ مال و دولت مسلمانوں کے کام آئے گا (یہی کنویں میں کتے والی سوچ ہمارے آجکل کے حکمرانوں کی بے کہ جہاد میں کیا فائدہ ہم اپنی معیشت مضبوط کرتے ہیں)
سلطان محمود غزنوی نے دیسی دانشوروں کی بات سُن کر کہا کہ "اگر میں نے تمھاری بات مان لی تو دنیا اور تاریخ مجھے بت فروش کہے گی جبکہ میری چاہت یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں مجھے محمود بُت شکن کے نام سے پکارا جائے"
یہ کہتے ہی محمود بُت شکن کی توحیدی غیرت جوش میں آئی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گرز سومنات کے دے مارا، اس کا منہ ٹوٹ کر دور جا گرا، پھر سلطان کے حکم پہ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے تو اس کے پیٹ سے اس قدر بیش بہا قیمتی ہیرے، جواہرات اور موتی نکلے کہ جو ہندو معززین اور راجوں کی پیش کردہ رقم سے 100 گنا زیادہ تھے

محمود غزنوی نے وہ بت توڑا جو فتح مکہ سے ایک رات قبل بنو اُمیہ کے سردار نے کعبہ سے ٹرانسفر کروایا تھا کہ اسے سنبھال کے رکھنا ، ہم لینے آئیں گے ، وہ تو نہ آسکے لیکن بنو ہاشم سے محمود غزنوی ضرور پہنچ گیا توڑنے ..

اسی لئے کافر مورخین سلطان کو ڈاکو کہتے ہیں .. جبکہ اسلام اسے مال غنیمت کہتا ہے ۔
یاد رکھیں غیرت مند مسلمان بت شکن ہے... بت فروش نہیں..

بت شکن سلطان محمود غزنوی رح وہ ہستی ہے، جب ظاہر شاہ کی
حکومت میں 1974 ء کو زلزلہ
آیا ،محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی۔ منتظمین نے قبر کو ٹھیک کرنے کیلئے پوری قبر کھول دی۔ اس کو مرے ہوئے 1000 سال ہو گئے تھے۔ ان کی قبر میں عجیب منظر تھا، اس کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔ 1000 سال بعد بھی اس کا کفن ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس کاہاتھ سینے پر تھا اور کفن سینے سے کھلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے آج ہی کوئی قبر میں اتار کر گیا ہے۔ اس کے ہاتھ کو ہاتھ لگایا گیا تو وہ نرم و نازک تھا۔ ساری دنیا میں اس بات کی خبر پھیل گئی۔

اللہ کے دین ، ملک و ملت کی حفاظت کرنے والوں کو اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا کرتا ہے۔🌺
اللہ پاک ہم سب کو عمل نیک کرنے کی توفیق دے آمین 🌹

Address

Abu Dhabi

Telephone

+971564240809

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zafran'S posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zafran'S:

Share