23/10/2025
پاکستان میں تعلیمی نظام صرف کمزور نہیں، بلکہ معاشرتی ترجیحات کا شکار ہے۔
ایک 19 گریڈ کا پروفیسر، جس نے اپنی جوانی علم پھیلانے اور نئی نسل کو شعور دینے میں گزاری، اپنی زندگی کے آخری لمحے میں بھی ایک 70cc موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ وہ ڈمپر کے نیچے آ کر شہید ہو گیا — یہ صرف ایک حادثہ نہیں، یہ ایک نظام کی موت ہے۔
⚖️ ناانصافی کا عالم
جب ایک 17 گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر کروڑوں کی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر چند غریب ریڑھی بانوں کی ٹماٹر اور پیاز الٹ دیتا ہے،
اور وہی ملک کا پروفیسر اپنی تنخواہ سے مہران جیسی گاڑی بھی نہیں خرید پاتا،
تو پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا —
سوال یہ بنتا ہے کہ ایسے نظام میں ترقی ممکن کیسے ہو؟
💰 کرپشن اور دوغلے معیار
14 گریڈ کا ایس ایچ او، جو سرکاری تنخواہ پر ہے، کروڑوں کے بنگلوں کا مالک بن جاتا ہے۔
12 گریڈ کا پٹواری اربوں کے اثاثے بنا لیتا ہے۔
مگر وہ استاد، جس کے دم سے یہ سسٹم چلتا ہے، اپنی پوری زندگی کرائے کے مکان میں گزار دیتا ہے۔
یہ تضاد صرف افراد کا نہیں — یہ ریاستی ترجیحات کی ناکامی ہے۔
🕯️ استاد کی قربانی، نظام کی بے حسی
ہمارے ہاں استاد کو “قوم کا معمار” کہا جاتا ہے، مگر عملی طور پر اسے سب سے کم مراعات دی جاتی ہیں۔
جو نسلوں کو سنوارتا ہے، وہ خود غربت، محرومی اور بے قدری کا شکار رہتا ہے۔
اسی لیے آج کا نوجوان تعلیم سے مایوس ہے، کیونکہ اسے نظر آتا ہے کہ پروفیسر علم بانٹ کر بھی محروم رہتا ہے،
جبکہ کرپشن کرنے والا عیش و عشرت میں زندگی گزارتا ہے۔
🌍 حل کیا ہے؟
تعلیم کو مراعاتی پیشہ بنایا جائے، نہ کہ قربانی کا۔
اساتذہ کی عزت اور معاشی تحفظ کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔
کرپشن پر بےرحم احتساب ہو — رینک یا تعلقات کی بنیاد پر رعایت نہیں۔
سوشل میڈیا پر شعور اجاگر کیا جائے کہ استاد کا مقام صرف زبانی نہیں، عملی ہو۔
💔 یہ وقت ماتم کا نہیں، شعور بیدار کرنے کا ہے۔
جب تک استاد محفوظ نہیں ہوگا، معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔