
05/05/2025
---
"بوڑھا آدمی اور اس کا دوست کبوتر"
ایک گھنے اور پرسکون جنگل میں ایک بوڑھا آدمی اکیلا رہتا تھا۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا، نہ کوئی دوست۔ لیکن اس کے پاس ایک پیارا سا کبوتر تھا جسے وہ بچپن سے پال رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سچے ساتھی تھے۔ بوڑھا آدمی روز صبح کبوتر کے ساتھ باتیں کرتا، اسے دانے دیتا، اور کبوتر بھی ہر وقت اس کے کندھے پر بیٹھا رہتا۔
ایک دن صبح جب بوڑھا آدمی نیند سے جاگا، تو کبوتر پنجرے میں نہیں تھا۔ اس نے پورے جھونپڑی میں دیکھا، باہر درختوں کے نیچے، ندی کنارے، ہر جگہ تلاش کیا، لیکن کبوتر کہیں نہیں ملا۔
بوڑھا آدمی پریشان ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ بیٹھ کر رونے لگا، “اے میرے دوست، تُو کہاں چلا گیا؟ میں اب کس سے باتیں کروں گا؟”
پورا جنگل اس کے دکھ سے اداس ہو گیا۔ پرندے چپ تھے، ہوا تھم سی گئی تھی۔ اچانک شام کے وقت آسمان سے ایک پرانا، مگر پہچان کا سا پر مارنے کی آواز آئی۔ بوڑھا دوڑ کر باہر نکلا، تو کیا دیکھتا ہے — اس کا کبوتر واپس آ گیا تھا۔ وہ تھوڑا زخمی تھا، لیکن زندہ تھا۔
بوڑھے کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ اس نے کبوتر کو سینے سے لگا لیا۔ جنگل میں ایک بار پھر زندگی کی آوازیں گونجنے لگیں۔
اور یوں، ایک تنہا بوڑھا آدمی اور اس کا ننھا دوست، پھر سے ایک دوسرے کا سہارا بن گئے۔
---