
01/02/2025
تجاوزات آپریشن،حقیقی عوامی مسائل اور حکومتی ترجیحات
جب سے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی بھرپور تشہیر کے ساتھ نت نئے اعلانات سننے کو ملتے ہیں کبھی کسانوں کے لئے پیکج تو کبھی نوجوانوں کے لئے تو کبھی مفت سولر سسٹم وغیرہ وغیرہ
اور اب گزشتہ چند دنوں سے پنجاب بھر میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے گرینڈ آپریشن جاری ہے بلاشبہ اس آپریشن سے شہر گلیاں اور بازار تو خوبصورت نظر آ رہے ہیں لیکن کیا اب تک کے پنجاب حکومت کے پیکجز اور انتظامی اقدامات سے بنیادی عوامی مسائل میں کوئی کمی آئی یا نہیں
چاہے کسی ادارے کا سربراہ ہو یا صوبے کا اس کے لئے سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ اسے اس بات کا ادراک ضرور ہونا چاہئے کے میری سربراہی میں رہنے والی اکثریت کے حقیقی مسائل کیا ہیں پھر وہ سہی سمت میں پالیسیاں بنا کر ان مسائل کا تدارک کر پائے گا پورے ملک سمیت پنجاب کے سب سے بڑے مسائل لا قانونیت اور کرپشن ہیں پولیس، انتظامیہ اور محمکہ مال پاکستان کے ام المسائل ہیں یعنی تمام مسائل کی مائیں
اگر ان تین محکموں کا قبلہ درست کر دیا جائے تو 99 فیصد مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے کیونکہ ہر چھوٹے، بڑے مسلے کے پیچھے انھیں تین اداروں کے کرپٹ افسران اور اہلکاروں کی کارستانیاں ہوتیں ہیں پولیس ٹھیک ہو جائے تو منشیات فروشی، چوری ڈکیتی، قتل و غارتگری، عصمت دری سمیت تمام جرائم ختم ہو جائیں گے جب عوام کو لگنے لگے گا کہ ہم محفوظ ہیں کوئی ہماری جان و مال پر بری نظر ڈالنے کی جرات نہیں کر پائے گا تو پھر لوگ بینکوں سے پیسہ نکال کر کاروبار شروع کریں گے جس سے ملکی معیشت مستحکم ہو گی
محمکہ مال پاکستان کا ایسا ظالم محکمہ ہے جس کے گریڈ 5 یا 6 کا پٹواری اپنے لاکھ دو لاکھ کی خاطر ایک غلط رجسٹری یا انتقال کر دیتا ہے جس کا خمیازہ 20، 30 سال نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے ہر سال ہزاروں قیمتی انسانی جانیں زمینوں کے تنازع کی نظر ہو جاتیں ہی جس کی وجہ صرف ایک پٹواری کے حلق سے اترا حرام سور ہوتا ہے
اب بات کرتا ہوں انتظامیہ کی تو میں اسے دو کیٹگریز میں تقسیم کرتا ہوں ایک ظالم افسران اور دوسرے مسکین اہکار ظالم افسران ترقیاتی منصوبوں، سالانہ ٹھیکہ جات سے بڑا حصہ لوٹ کر کچھ خود رکھتے ہیں اور باقی اوپر بھیجتے ہیں ان میں اسمبلی ممبران کا حصہ بھی ہوتا ہے اور بڑے افسران کا بھی جبکہ مسکین اہکاروں کی لوٹ مار اتنی ہوتی ہے کہ کہیں بازار میں کسی دکاندار کو کھوکھا لگوا دیا تو کسی کو اپنا رشتے دار یا تعلق دار کہہ کر اپنے آفیسر سے جرمانے سے بچا کر خود فری میں سبزی، فروٹ، چینی چاول یا آٹا وغیرہ لے گیا
پاکستان کے ام المسائل ان تین محکموں اور انکے باعث معاشرے میں پیدا ہونے والی بگاڑ کا مختصر احوال آپ کے سامنے رکھا
اب آتا ہوں حکومت پنجاب کی جانب سے تجاوزات کے خاتمے سے متعلق حالیہ آپریشن پر
اچھی بات ہے تجاوزات کا خاتمہ ہونا چاہیے کوئی بھی عقل و شعور رکھنے والا شخص کسی بھی مجبوری کو جواز بنا کر ناجائز کو جائز قرار نہیں دے سکتا لیکن اگر بات ناجائز کی ہی کرنی ہے تو پھر سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ تجاوزات کر کے ریڑی پر چھولے بیچنے والا بڑا مجرم ہے یا سینکڑوں کنال غریبوں مسکینوں، کمزوروں اور بیواؤں کی زمینوں پر محکمہ مال کے پٹواری اور پولیس سے ساز باز کر کے ناجائز قبضہ کرنے والا بڑا مجرم ہے
پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کسی فٹ پاتھ پر تجاوزات کر کے برگر بیچنے والا بڑا مجرم ہے یا سڑک کی مرمت یا تعمیر میں ناقص میٹیریل استعمال کرکے مسافروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والا بڑا مجرم ہے
اگر حکومت کو جائز ناجائز کا تعین کرتے ہوئے تجاوزات والا بڑے مگرمچھوں اور ظالموں کے مقابلے میں معصوم مجرم لگے تو پھر اس معصوم مجرم سے پہلے یا کم از کم ساتھ ہی سہی معاشرے کے بڑے ناسوروں کو لگام ڈالی جائے تب جا کر پنجاب بھی درست ہو گا اور پاکستان بھی ورنہ صرف کمزوروں کو کچلنے سے کوئی مثبت تبدیلی تو نہیں آئے گی ہاں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی غرض سے ناجائز تجاوزات پر کاروبار کرنے والے کمائی کے دوسرے ذرائع تلاش کریں گے پھر چاہے وہ جائز ہوں یا جرائم
ویسے بھی پیٹ بھرا ہو اور ذہنی سکون ہو تو ہی بناؤ سنگھار اچھا لگتا ہے جب تحفظ دینے والے ہی سب سے بڑے لوٹیرے ہوں تو پھر گلیوں بازاروں کی خوبصورتی بے معنی لگتی ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ بناؤ سنگھار بھی کریں لیکن عوام کو تحفظ دے کر ذہنی سکون معیا کرے پھر بناؤ سنگھار بھی اچھا لگے گا