
04/04/2023
تاریخ کا جبر دیکھیں یہ بار بار خود کو دہراتی ہے اور اپنا فیصلہ سُناتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہی ہے کہ سچ آج بھی زندہ ہے، حال کا جبر ماضی کا سچ اور مستقبل کی گواہی ہے۔ وہ گواہی جو صدیوں گونجتی ہے۔
آج پھر چار اپریل ہے۔ وہ دن جب جمہوریت پسند نوحہ خواں اور راولپنڈی کی عدالت منتخب وزیراعظم کی قتل گاہ بن جاتی ہے۔ یہی وہ دن ہے جب ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار ہوئے۔ عوامی رہنما سرِمقتل اور آئین کے خالق سرِ دار ہوئے۔ دہائیاں گُزر گئیں مگر اس عدالتی قتل کی بازگشت آج بھی سُنائی اور انصاف کے ایوانوں میں دہائی دے رہی ہے۔
بھٹو انصاف کی عدالت میں آج بھی کھڑا ہے مگر منصف سچ سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت آج بھی نہیں رکھتا۔ موت کی کال کوٹھری میں انصاف کا تارا مسیح گواہی بن چکا ہے مگر ستم ظریفی کہ چار دہائیوں بعد بھی بھٹو کا عدالتی قتل کسی بھی طرح اور کہیں بھی انصاف کی سند نہیں پا سکا۔
چار اپریل سویلین بالادستی کا استعارہ بن گئی اور تاریخ کے ماتھے کا وہ داغ بھی جسے دھونے کے لیے ظرف چاہیے۔ داغ داغ اُجالے میں ایک اور چار اپریل ہے اور اب کی بار آئین کٹہرے میں ہے، آمریت سے فسطائیت اور جمہوریت سے عدالتی آمریت کا سوال پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔وقت کہاں بدلا ہے، ایک وزیراعظم عدالت کے ہاتھوں تختہ دار چڑھا تو دوسرا ’سیلیکٹو جسٹس‘ کا نشانہ بنا۔ نوازشریف کی پاناما کیس کی میگا کرپشن اقامہ پر نااہلی کا سبب کیسے بن گئی، تاریخ کی گواہیاں اب منظر عام پر آ رہی ہیں جبکہ عدلیہ اپنے دامن پر لگے داغوں کو دھونے کی کسی جستجو میں نہیں۔
حالات مگر اب مختلف ہیں۔ دور حاضر کی جا بجا بکھری گواہیاں کسی صورت یاداشت سے نکل نہیں سکتیں۔ واقعات جس تسلسل سے بدل رہے ہیں اُسی تسلسل سے محفوظ بھی ہو رہے ہیں۔ حالات کا جبر موجود ہے مگر مستقبل کے اثر کا اصول بھی کار فرما ہے