The News Haven

The News Haven The News Haven is a media agency dedicated to providing accurate, up-to-date news and information.

تاریخ کا جبر دیکھیں یہ بار بار خود کو دہراتی ہے اور اپنا فیصلہ سُناتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہی ہے کہ سچ آج بھی زندہ ہے، حال...
04/04/2023

تاریخ کا جبر دیکھیں یہ بار بار خود کو دہراتی ہے اور اپنا فیصلہ سُناتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہی ہے کہ سچ آج بھی زندہ ہے، حال کا جبر ماضی کا سچ اور مستقبل کی گواہی ہے۔ وہ گواہی جو صدیوں گونجتی ہے۔

آج پھر چار اپریل ہے۔ وہ دن جب جمہوریت پسند نوحہ خواں اور راولپنڈی کی عدالت منتخب وزیراعظم کی قتل گاہ بن جاتی ہے۔ یہی وہ دن ہے جب ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار ہوئے۔ عوامی رہنما سرِمقتل اور آئین کے خالق سرِ دار ہوئے۔ دہائیاں گُزر گئیں مگر اس عدالتی قتل کی بازگشت آج بھی سُنائی اور انصاف کے ایوانوں میں دہائی دے رہی ہے۔

بھٹو انصاف کی عدالت میں آج بھی کھڑا ہے مگر منصف سچ سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت آج بھی نہیں رکھتا۔ موت کی کال کوٹھری میں انصاف کا تارا مسیح گواہی بن چکا ہے مگر ستم ظریفی کہ چار دہائیوں بعد بھی بھٹو کا عدالتی قتل کسی بھی طرح اور کہیں بھی انصاف کی سند نہیں پا سکا۔

چار اپریل سویلین بالادستی کا استعارہ بن گئی اور تاریخ کے ماتھے کا وہ داغ بھی جسے دھونے کے لیے ظرف چاہیے۔ داغ داغ اُجالے میں ایک اور چار اپریل ہے اور اب کی بار آئین کٹہرے میں ہے، آمریت سے فسطائیت اور جمہوریت سے عدالتی آمریت کا سوال پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔وقت کہاں بدلا ہے، ایک وزیراعظم عدالت کے ہاتھوں تختہ دار چڑھا تو دوسرا ’سیلیکٹو جسٹس‘ کا نشانہ بنا۔ نوازشریف کی پاناما کیس کی میگا کرپشن اقامہ پر نااہلی کا سبب کیسے بن گئی، تاریخ کی گواہیاں اب منظر عام پر آ رہی ہیں جبکہ عدلیہ اپنے دامن پر لگے داغوں کو دھونے کی کسی جستجو میں نہیں۔

حالات مگر اب مختلف ہیں۔ دور حاضر کی جا بجا بکھری گواہیاں کسی صورت یاداشت سے نکل نہیں سکتیں۔ واقعات جس تسلسل سے بدل رہے ہیں اُسی تسلسل سے محفوظ بھی ہو رہے ہیں۔ حالات کا جبر موجود ہے مگر مستقبل کے اثر کا اصول بھی کار فرما ہے

4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو رات دو بجے راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گيا۔ان کو راولپنڈی جیل کے ...
04/04/2023

4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو رات دو بجے راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گيا۔

ان کو راولپنڈی جیل کے زنانے حصے میں ایک سات بائی دس فٹ کی کوٹھری میں قید کیا گیا تھا۔

بھٹو کو ایک پلنگ، گدا، چھوٹی سی میز، اور ایک بک شیلف دی گئی تھی۔ بغل میں ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جہاں ان کے لیے ایک قیدی کھانا بناتا تھا۔

ہر دس دن بعد وہ قیدی بدل دیا جاتا تھا تاکہ اس بھٹو سے انسیت نہ ہوجائے۔ کبھی کبھی بھٹو کے دوست اور دانتوں کے مشہور ڈاکٹر، ڈاکٹر نیازی ان کے لیے کھانا بھیجا کرتے تھے۔بھٹو کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف سلمان تاثیر جن کا بعد میں قتل کردیا گیا، اپنی کتاب ’بھٹو‘ میں لکھتے ہیں ’شروع کے دنوں میں بھٹو جب بیت الخلا جاتے تھے تو ایک سیکورٹی گارڈ وہاں بھی ان کی نگرانی کرتا تھا۔ بھٹو کو یہ بات اتنی ناپسند تھی کہ انھوں نے تقریباً کھانا کھانا بند کردیا تھا تاکہ انہیں بیت الخلا جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کچھ دن بعد اس طرح کی سخت نگرانی بند کردی گئی تھی اور ان کے لیے کوٹھری کے باہر علیحدہ ایک بیت الخلا بنوا دیا گیا تھا۔‘

بھٹو کو جیل کے اندر پڑھنے کی آزادی تھی۔ آخری دنوں میں وہ چارلس ملر کی ’خیبر‘، رچرڈ نکسن کی سوانح عمری، جواہر لال نہرو کی ’ڈسکوری آف انڈیا‘ اور صدیق سالخ کی ’وٹنیس ٹو سرنڈر‘ کا مطالعہ کر رہے تھے۔

پنجاب حکومت کے جلاد تارا مسیح کو بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے لاہور سے بلایا گیا تھا۔ ان کا یہ کام پشتینی پیشہ تھا۔ ان کا خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے سے پھانسی دینے کا کام کررہا تھا۔

اس وقت مسیح کی تنخواہ 375 روپے ماہانہ تھی اور ہر پھانسی دینے پر انہیں اضافی 10 روپے ملتے تھے۔جیل میں رہتے ہوئے بھٹو مسلسل اپنے مسوڑھوں میں درد سے بے حد پریشان تھے۔ ان میں پس بھی پڑ گئی تھی۔

بھٹو کو لگتا تھا کہ انہیں پھانسی نہیں ہوسکتی
ایک بار جب جیل کے اندر ڈاکٹر نیازی ایک لالٹین کی روشنی میں ان کے دانتوں کا معائنہ کررہے تھے تو بھٹو نے ان کے ساتھ مذاق کیا ’تم بھی میری طرح سے بدقسمت ہو، تمھارے کلینک میں ایک حسین لڑکی تمہاری مدد کررہی ہوتی ہے اور یہاں مدد کرنے کے لیے ایک قیدی ملا ہے۔‘

بے نظیر بھٹو 2 اپریل 1979 کی صبح اپنے بستر میں لیٹی ہوئی تھیں تبھی اچانک ان کی والدہ نصرت بھٹو کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئیں ’پنکی، گھر کے باہر جو فوجی ہیں وہ کہہ رہے ہیں ہم دونوں کو آج ہی تمہارے والد سے ملاقات کرنے جانا پڑے گا، اس کا مطلب کیا ہے؟‘بے نظیر اپنی سوانح عمری ’ڈاٹر آف دا ایسٹ‘ میں لکھتی ہیں ’مجھے معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ میری والدہ کو بھی معلوم تھا۔ لیکن ہم دونوں اس کو قبول نہیں کرپا رہے تھے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ ضیا الحق میرے والد کا قتل کرنے کو تیار تھے۔‘

نصرت اور بے نظیر بھٹو کو ایک شیورلیٹ کار میں راولپنڈی جیل لایا گیا۔ تلاشی کے بعد انہیں بھٹو کے سامنے لے جایا گیا۔ ان کے درمیان پانچ فٹ کی دوری رکھی گئی۔

بے نظیر لکھتی ہیں ’میرے والد نے پوچھا تھا کہ گھر والوں سے ملاقات کے لیے انہیں کتنا وقت دیا گیا ہے؟ جواب آیا آدھا گھنٹہ۔ میرے والد نے کہا کہ لیکن جیل کے قوانین کے مطابق پھانسی سے پہلے خاندان والوں سے ملاقات کے لیے ایک گھنٹہ ملتا ہے لیکن اہلکار نے جواب دیا کہ مجھے ایسی ہی ہدایت موصول ہوئی ہیں کہ آپ کو صرف آدھا گھنٹہ دیا جائے۔ وہ زمین پر ایک گدے پر بیٹھے تھے کیونکہ ان کی کوٹھری سے ان میز، کرسی اور پلنگ ہٹا دیے گئے تھے۔‘

بے نظیر مزید لکھتی ہیں ’انہوں نے میری لائی ہوئی کتابیں اور میگزین مجھے واپس کردیں۔‘

’میرے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد وہ لوگ انہیں ہاتھ لگائیں۔ انہوں نے مجھے ان کے وکیل کے دیے ہوئے کچھ سگار بھی واپس کیے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شام کے لیے میں نے ایک سگار بچا کر رکھا ہے۔ انہوں نے شالمیار کولون کی ایک شیشی بھی اپنے پاس رکھی تھی۔ وہ مجھے اپنی شادی کی انگوٹھی دے رہے تھے، لیکن میری والدہ نے انہیں روک دیا۔ اس پر انہوں نے کہا ’ابھی تو میں اسے پہن لیتا ہوں لیکن بعد میں اسے بےنظیر کو دے دیا جائے۔‘

تھوڑی دیر بعد جیلر نے آکر کہا کہ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے۔

بے نظیر نے کہا کہ کوٹھری کو کھولیے ’میں اپنے والد کو گلے لگانا چاہتی ہوں لیکن جیلر نے اس کی اجازت نہیں دی۔‘بےنظیر مزید لکھتی ہیں ’میں نے کہا، پلیز میرے والد پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور میں ان کی بیٹی ہوں۔ یہ میری آخری ملاقات ہے اور مجھے ان کو گلے لگانے کا حق ہے۔ لیکن جیلر نے صاف انکار کردیا۔ میں نے کہا گڈ بائے پاپا۔ میری والدہ نے سلاخوں کے درمیان ہاتھ بڑھا کر میرے والد کے ہاتھ کو چھوا۔ ہم دونوں تیزی سے باہر کی جانب نکلے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتی تھی لیکن میری ہمت جواب دے گئی۔‘

جیل سپریٹنڈنٹ یار محمد نے انہیں کالا وارنٹ پڑھ کر سنایا جسے انہوں نے چپ چاپ سنا۔

بھٹو نے کوٹھری کے باہر کھڑے گارڈ کو بلایا اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ سے کہا کہ مرنے کے بعد میری گھڑی اس کو دے دی جائے۔

آٹھ بج کر پانچ منٹ پر بھٹو نے اپنے ہیلپر عبدالرحمن سے کافی لانے کے لیے کہا۔ انہوں نے رحمان سے کہا کہ اگر میں نے تمہارے ساتھ کوئی بدسلوکی کی ہو تو اس کے لیے مجھے معاف کردینا۔سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد ان کا ریزر اس لیے واپس لے لیا گیا تھا کہ کہیں وہ اس سے خودکشی نہ کرلیں۔

سلمان تاثیر لکھتے ہیں ’بھٹو نے کہا، مجھے داڑھی بنانے کی اجازت دی جائے، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا۔‘

نو بج کر 55 منٹ پر انہوں نے اپنے دانتوں میں برش کیا، چہرہ دھویا، اور بال بنائے۔ اس کے بعد وہ سونے چلے گئے۔ رات دیڑھ بجے انہیں اٹھایا گیا۔ وہ ہلکے بادامی رنگ کی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے۔ جیل اہلکاروں نے کپڑے تبدیل کرنے پر زور نہیں دیا۔

جب سیکورٹی اہلکاروں نے ان کے ہاتھ پیچھے باندھنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔آخر کار انہوں نے زبردستی ان کے ہاتھ رسی سے باندھ دیے۔ اس کے بعد انہیں ایک سٹیچر پر لٹا کر تقریباً 40 گز کی دوری تک لے جایا گیا۔

سلمان تاثیر مزید لکھتے ہیں ’اس کے بعد بھٹو سٹیچر سے خود اتر گئے اور پھانسی کے پھندے تک خود چل کرگئے۔ جلاد نے ان کا چہرہ کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ ان کے پیر باندھ دیے گئے۔ جیسے ہی دو بج کر چار منٹ پر مجسٹریٹ بشیر احمد خان نے اشارہ کیا، جلاد تارا مسیح نے لیور کھینچا۔ بھٹو کے آخری الفاظ تھے ’فنش اٹ۔‘35 منٹ بعد بھٹو کے مردہ جسم کو ایک سٹریچر پر رکھ دیا گیا۔

اس زمانے میں راولپنڈی سینٹرل جیل میں خفیہ اہلکار رہے کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری 223 دن‘ میں لکھتے ہیں ’تھوڑی دیر بعد ایک خفیہ ایجنسی کے ایک فوٹوگرافر نے آکر بھٹو کے پرائیوٹ پارٹس کی فوٹو اتاریں۔ حکومت اس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ آیا بھٹو کی اسلامی طریقے سے ختنے بھی ہوئے تھے یا نہیں۔ تصاویر اتارنے کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ بھٹو کے ختنے ہوئے تھے۔‘

بعد میں شیام بھاٹیہ نے اپنی کتاب ’گڈبائی شہزادی‘ میں لکھا تھا کہ بےنظیر نے انہیں خود بتایا تھا کہ بھٹو کو موت کے بعد بھی اس بے عزتی سے گزرنا پڑا تھا۔بےنظیر اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں ’ممی کی دی نیند کی وولیم گولیوں کے باوجود ٹھیک دو بجے میری آنکھ کھل گئی اور میں زور سے چلائی۔ نو۔نو۔۔ میری سانس رک رہی تھی۔ جیسے کسی نے میرے گلے میں پھندا پہنا دیا ہو۔ پاپا، پاپا۔ میرے منھ سے بس یہی نکل رہا تھا۔ سخت گرمی کے باوجود میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔‘

چند گھنٹوں کے بعد سینٹرل جیل کے اسسٹنٹ جیلر اس گھر میں گئے جہاں نصرت اور بے نظیر بھٹو کو نظر بند کیا گیا تھا۔

اسے ملتے ہی بےنظیر کے پہلے الفاظ تھے ’ہم وزیراعظم کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔‘

جیلر کا جواب تھا ’انہیں تدفین کے لیے لے جایا جا چکا ہے۔‘

بے نظیر لکھتی ہیں ’مجھے لگا جیسے کسے نے مجھے گھونسا مارا ہو۔ میں نے چلا کر کہا آپ انہیں ان کے اہل خانے کے بغیر تدفین کے لیے کیسے لے جاسکتے ہیں؟‘

اس کے بعد اس جیلر نے بھٹو کی ایک چيز بے نظیر کو سونپی۔بے نظیر لکھتی ہیں ’اس نے مجھے پاپا کی شلوار قیمض دی جو پاپا نے مرنے سے پہلے پہن رکھی تھی۔ اس سے شالمیار کولون کی مہک ابھی تک آرہی تھی۔ پھر اس نے ایک ٹفن باکس دی جس میں انہیں گزشتہ دس دنوں سے کھانا بھیجا جارہا تھا جسے وہ کھا نہیں رہے تھے۔ اس نے ان کا بستر اور چائے کا کپ بھی مجھے دیا۔ میں نے پوچھا ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟ جیلر نے پوچھا ان کے پاس انگوٹھی بھی تھی کیا؟ پھر اس نے جھولے میں سے انگوٹھی تلاش کرنے کا ڈرامہ کیا اور پھر انگوٹھی مجھے پکڑا دی۔ وہ جیلر بار بار کہہ رہا تھا کہ ان کی آخرت بہت پرسکون تھی۔‘ میں نے سوچا پھانسی بھی کیا کبھی پُرسکون ہوسکتی ہے۔

بےنظیر کے خاندان کے ملازم بشیر کی نگاہ جیسے ہی بھٹو کے شلوار قمیض پر پڑی، وہ چلانے لگا۔ ’یا اللہ، یا اللہ، انھوں نے ہمارے صاحب کو مار دیا۔‘

صوبۂ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ...
04/04/2023

صوبۂ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کی سماعت پیر کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شروع کی تو عدالت نے حکمراں اتحاد میں شامل تین اہم جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے وکلا سے استفسار کیا کہ وہ اپنے کلائنٹس سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا انھیں اس بینچ پر اعتماد ہے یا نہیں۔

اس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے واضح جواب تو نہیں دیا البتہ محض اسی بات پر اکتفا کیا کہ وہ کمرۂ عدالت میں تو موجود ہیں۔

عدالت نے تینوں جماعتوں کے وکلا سے کہا کہ وہ تحریری طور پر اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں۔ لیکن سماعت ختم ہونے تک ان جماعتوں کی طرف سے عدالت کو کوئی تحریری یقین دہانی نہیں کروائی گئی۔

پیر کے روز سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور دیگر رہنما موجود تھے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے محسن شاہنواز رانجھا اور پیپلز پارٹی کے مشیر قمر زمان کائرہ کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے درخواست پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل (منگل) سنایا جائے گا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ہے کہ صرف عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے اور عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا۔

گذشتہ روز کی سماعت کا احوال

چار تین یا تین دو؟
سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے کو سننے سے پہلے یہ بات طے کرے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق از خود نوٹس لینے کا فیصلہ چار تین کا ہے یا تین دو کا، کیونکہ عدالتی حکم نامے میں ان دو ججوں کی بھی رائے شامل ہے جنھوں نے اس از خود نوٹس کی کارروائی کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے تین دو سے یہ رائے دی تھی کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو کروائے جائیں۔ لیکن اس فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحٰی آفریدی کی رائے بھی شامل تھی، جس میں انھوں نے اس از خود نوٹس کو قبل از وقت قرار دیتے ہوے ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

حکومت کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ چار تین کا ہے اور سپریم کورٹ کے چار ججوں نے ان درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔

اس تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن دو ججوں نے اس مقدمے کو سنا ہی نہیں تو ان کی رائے کو اکثریتی فیصلہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کم از کم ان ججوں کی رائے پر نظرثانی تو کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی ابہام کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فل کورٹ بنائی جائے تاکہ پوری عوام عدالت کے اس فیصلے سے متفق ہو۔

اس موقع پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی استدعا کو پہلے ہی مسترد کیا جاچکا ہے۔ البتہ اگر وہ لارجر بینچ کے بارے میں کہیں تو اس پر سوچا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ججوں کا فل کورٹ اجلاس ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہا جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہو ہو کر کہا کہ عدالت بیک جنبشِ قلم ایک آئینی ادارے کو غیر مؤثر قرار نہیں دے سکتی۔ انھوں نے کہا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے عدالت کا نہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے اس جواب پر بینچ کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں بھی سن لیا جائے، لیکن عدالت کی طرف سے انھیں متعدد بار یہی کہا گیا کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھیں اور یہ کہ انھیں ضرور سنا جائے گا۔

سیکریٹری دفاع اور خزانہ کی پیشی
عدالت کی طرف سے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران جب سیکریٹری دفاع سے انتخابات میں فوج کی تعیناتی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں عدالت کو اِن کیمرا (بند کمرے میں) بریفنگ دینا چاہیں گے کیونکہ بہت سے حساس معاملات ہیں جن کو پبلک میں نہیں لایا جا سکتا۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ چلیں خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری ہے لیکن پنجاب میں بظاہر معاملہ اتنا حساس نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پچاس فیصد پولنگ سٹیشنوں کو حساس قرار دیا ہے۔

ایک موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ پاکستان کی مسلح افواج میں صرف بری فوج ہی نہیں ہے ایئر فورس اور نیوی بھی اس کا حصہ ہیں، اور اگر بری فوج شدت پسندی کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے تو فضائیہ اور بحریہ کے اہلکاروں کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا ریٹائرڈ فوجیوں کی بھی کوئی فورس موجود ہے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اسے ریزرو فورس کہتے ہیں اور ان کو خصوصی حالات میں بلایا جاتا ہے، جس کی منظوری وفاقی کابینہ دیتی ہے۔ جواب سننے کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے اس نقطے پر زور نہیں دیا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ صرف ایک ہی دن یعنی پولنگ ڈے کے لیے فوج کو تعینات ہونا ہے اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔

فنڈز کی کمی کے معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ اور اٹارنی جنرل کی طرف سے معاونت نہ کرنے پر بینچ نے ناراضی کا اظہار کیا۔ تاہم کمرۂ عدالت میں موجود پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کا حجم سات سو ارب روپے ہے جبکہ انتخابات کے لیے صرف بیس ارب درکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک اس رقم میں سے صرف دو سو تیس ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کا کچھ حصہ متاثرہ علاقوں میں خرچ کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اور سوشل میڈیا
عدالت نے جب الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کو دلائل کے لیے طلب کیا تو چیف جسٹس نے ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ کیا وہ تین منٹ تک اپنے دلائل مکمل کر لیں گے جس پر انھوں نے بتایا کہ وہ آدھے گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔

عرفان قادر نے اپنے دلائل میں ہی چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ ’مائی لارڈ! آپ نے گذشتہ دو تین دنوں کا سوشل میڈیا دیکھا ہے؟ اس میں پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے حوالے سے آپ ہی ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں ا ور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تین رکنی بینچ کا جھکاؤ ایک جماعت کی طرف ہے۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ایک تاثر یہ بھی ابھر رہا ہے کہ یہ بینچ جانب دار ہے۔ انھوں نے کہا کہ انصاف صرف ہو نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل کے بقول انھیں اس معاملے میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

انھوں نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تین ججوں کو اس درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے وقت اور حالات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

انھوں نے کہا ملک میں گذشتہ پچاس سال کے دوران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز میں ہوتے رہے ہیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہ تو سپریم کورٹ کے پاس ہے اور نہ ہی صدر مملکت کے پاس۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں صدر مملکت ایک علامتی عہدہ ہے اور وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کر دیا گیا لیکن اسی نوعیت سے متعلق درخواست کی سماعت میں تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل کر لیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس کی کچھ وجوہات ہیں لیکن ’میں وہ وجوہات آپ کو بتانے کا پابند نہیں ہوں۔‘ اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں تو قوم کو ہی بتا دیں، جس کا چیف جسٹس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سوالات کی بوچھاڑ
الیکشن کمیشن کے وکیل جب تک دلائل دیتے رہے تو اس تین رکنی بینچ کی طرف سے ایک بھی سوال ان سے نہیں پوچھا گیا۔ جبکہ اس کے برعکس اٹارنی جنرل جب دلائل دے رہے تھے تو بینچ کی طرف سے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی اور بعض سوالات پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عرفان قادر اس پر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن عدالت انھیں موقع نہیں دے رہی تھی۔

سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس تین رکنی بینچ سے متعلق جب تحریری طور پر عدالت کو نہیں آگاہ کیا گیا تو سماعت کے آخر میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے سیاسی معاملات عدالتوں میں آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پاکستان کے عوام کے لیے کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں ڈائیلاگ پر متفق نہ ہوئیں تو عدالت کے سامنے آئین موجود ہے۔

سماعت سے پہلے اور بعد میں سپریم کورٹ کے باہر شاہراۂ دستور پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلا ٹولیوں کی شکل میں موجود تھے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ’ایک آدمی نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کو ایسے نہیں ڈرایا جتنا وہ آج ڈرے ہ...
04/04/2023

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ’ایک آدمی نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کو ایسے نہیں ڈرایا جتنا وہ آج ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ پریشان ہیں کہ مجھے کیسے باہر رکھا جائے کیونکہ لوگ مجھے واپس لانا چاہتے ہیں۔‘

امریکہ کے ٹائمز میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے لے کر موجود معاشی صورتحال اور انتخابات کے بعد دوبار حکومت میں آنے کے منصوبوں کے متعلق بات چیت کی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے اور ہم تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سیاسی استحکام انتخابات کے ذریعے آئے گا اور یہیں سے معاشی بحالی کا سفر شروع ہوتا ہے۔‘

اگر وہ دوبارہ حکومت میں آتے ہیں تو پاکستان کو دوبارہ پٹری پر لانے کے منصوبے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’فوج کے بجائے طاقت کا منبہ سیاسی ادارے ہوں، یہ یقینی بنانے کے لیے ’نئے سماجی معاہدے‘ کی ضرورت ہے۔

انھوں نے شکوہ کیا کہ اگر (سابق) آرمی چیف کرپشن کو بڑا مسئلہ سمجھتے تو آج حالات مختلف ہوتے، میں بے بس تھا۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی وہ اب بھی اقتدار میں بیٹھے ہیں اور وہ گھبرائے ہوئے ہیں کہ اگر میں واپس آیا تو ان کا احتساب کیا جائے گا۔ اسی لیے وہ زیادہ خطرناک ہیں۔‘

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران خان کی تینوں مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیع منظور کر لی گئی ہے۔عمران خان جج عبہرگل...
04/04/2023

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران خان کی تینوں مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیع منظور کر لی گئی ہے۔

عمران خان جج عبہرگل کی عدالت میں پیش ہوئے جنھوں نے بند کمرے میں عمران خان کی درخواست پر سماعت کی اور 13 اپریل تک ان کی عبوری ضمانت میں توسیع منظور کی ہے۔

عمران خان کے وکیل کے مطابق بند کمرے میں جے آئی ٹی سربراہ، عمران خان اور وکلا موجود تھے۔

یاد رہے انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے عمران خان کی تین مقدمات میں حاضری معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انھیں پیش ہونے کے لیے گیارہ بجے تک کی مہلت دی تھی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ لارجر بینچ نہ بنا تو آئینی بحران کے باعث مارشل...
04/04/2023

پاکستان کے وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ لارجر بینچ نہ بنا تو آئینی بحران کے باعث مارشل لا لگنے کا خطرہ ہے۔

لاڑکانہ میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست یرغمال ہو چکی ہے اور الیکشن کے التو پر بنایا گیا 9 رکنی بینچ اب تین رکنی رہ گیا ہے۔

انھوں نے کہا بہتر ہے اس معاملے میں چیف جسٹس آئین کے مطابق ایک لارجر بینج تشکیل دیں۔ انھوں نے پاکستان کی عدلیہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کا ماضی ہمارے سامنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستاب پیپلز پارٹی کو عمران خان کی مقبولیت کا کوئی خطرہ نہیں۔ پیپلز پارٹی ہر وقت الیکشن کے لیے تیار ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے اتحادیوں کے الیکشن پر اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات میں وزن ہے۔ عدلیہ میں جو ہو رہا ہے یہ الیکشن کا سوال نہیں بلکہ عدلیہ کا ٹرائل چل رہا ہے، یہ سپریم کورٹ کا ٹرائل ہے کہ وہ آئین کا تحفظ کرنے والا ادارہ ہے یا ٹائیگر فورس بننا چاہتے ہیں؟ یہ عدم اعتماد اپوزیشن کا نہیں ان ججوں کا ہے جو بینچ میں شامل تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’عدلیہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ قوم کے سامنے ہے، تین جج صاحبان کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہورہا ہے، سینیئر ججز کی طرف سے عدلیہ پر تنقید ہورہی ہے، دوسرے جج نے جوڈیشل نوٹ کےذریعہ کہلوایا کہ پنجاب الیکشن پر سوموٹو بنتا ہے، آپ کے اپنے ججز آپ کے کردار کے خلاف ہیں، مناسب بات ہے کہ لارجر بینچ بنا دیا جائے۔‘

ایران میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو خواتین کو ایک شخص کی جانب سے سرعام سر نہ ڈھانپنے کی پاداش میں دہی سے حملہ کیے ج...
03/04/2023

ایران میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو خواتین کو ایک شخص کی جانب سے سرعام سر نہ ڈھانپنے کی پاداش میں دہی سے حملہ کیے جانے کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔ جبکہ اس ایک شخص کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک دکان پر آنے والی دو خواتین کی ان کے بعد وہاں آنے والے ایک شخص سے تکرار ہوتی ہیں جس کے بعد وہ شخص دکان میں موجود شیلف سے دہی کا پیکٹ اٹھا کر ان کے سروں پر دے مارتا ہے۔

ایران کی عدلیہ نے کہا کہ دونوں خواتین کو اپنے بال دکھانے پر حراست میں لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایران میں خواتین کا سرعام سر نہ ڈھانپنا غیر قانونی ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس شخص کو بھی امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا یہ گرفتاریاں ملک میں کئی مہینوں سے جاری احتجاج کے بعد ہوئی ہیں جن میں حجاب کو لازمی پہننے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

فوٹیج میں دکان میں موجود خواتین کو دکھایا گیا ہے، جو سامان خریدنے کے لیے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ اتنے میں ایک شخص وہاں آتا ہے جو ان خواتین سے بات کرتا ہے ، بظاہر مختصر تکرار کے بعد وہ بار بار ان خواتین پر دہی سے حملہ کرتا ہے۔ اس کے بعد حملہ آور کو دکاندار دکان سے باہر دھکیل دیتا ہے۔

عدلیہ کی میزان نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ان افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے اور تینوں کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے دکان کے مالک کو ’نوٹس‘ جاری کیے گئے ہیں۔ایران میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب نہ پہننا غیر قانونی ہے، تاہم بڑے شہروں میں بہت سے لوگ قواعد کے باوجود اس کے بغیر گھومتے ہیں۔

اس قانون کے خلاف غصے اور مایوسی نے ایرانی معاشرے میں اختلاف کو ہوا دی ہے۔

تہران میں اخلاقی پولیس کی جانب سے ’غلط طریقے سے‘ حجاب پہننے کے الزام میں حراست میں لی گئی ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ستمبر میں ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

مظاہروں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا لیکن حکام حجاب کے حوالے سے قوانین پر قائم رہے۔ دسمبر سے اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار اور چار مظاہرین کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔

ایک سخت گیر ایرانی رکن پارلیمنٹ، حسین علی حاجی ڈیلیگانی نے عدلیہ کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اگلے 48 گھنٹوں کے اندر قوانین کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔

سنیچر کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایرانی خواتین کو ’مذہبی ضرورت‘ کے طور پر حجاب پہننا چاہیے۔

انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ حجاب ایک قانونی معاملہ ہے اور اس کی پابندی واجب ہے۔

کمزور معیشت، شدید مالی بحران، عروج کو پہنچتی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام میں گھرا پاکستان گذشتہ چند ماہ سے آئی ایم ایف...
03/04/2023

کمزور معیشت، شدید مالی بحران، عروج کو پہنچتی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام میں گھرا پاکستان گذشتہ چند ماہ سے آئی ایم ایف سے مالی قرض حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

تاہم آئی ایم ایف کے سٹاف لیول کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، یہاں تک کہ حکومت نے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی متعدد سخت شرائط کو بھی نافذ کیا ہے۔

پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے کیونکہ درآمدات اور برآمدات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے ملکی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ گراوٹ آئی ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بیرونی فنانسنگ مکمل طور پر رک چکی ہے۔

پاکستان قرض پروگرام کے تحت آئی ایم ایف سے 1.2 بلین ڈالر کی ادائیگی کا شدت سے منتظر ہے تاکہ ملک کے کم زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں جو اس وقت 4.2 بلین ڈالر ہیں۔ایسے میں پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے حکومت کو دو سال کی مدت کے دوران 24 بلین ڈالرز تک کا قرض دینے کی پیشکش کی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایکسچینج کمپنیزایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے چھ ماہ قبل حکومت کو یہ پیشکش کی تھی کہ ملک کے وسیع مفاد میں ہم انھیں 24 سے 25 بلین ڈالرز دو سال کے لیے اکٹھا کر دیتے ہیں۔‘

ان کی جانب سے اس پیشکش نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

کیا واقعی ان کی یہ پیشکش پرعمل ممکن ہے، اور اگر ایسا ہے تو حکومت پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کی پیشکش کے بجائے آئی ایم ایف کی شرائط کیوں مان رہی ہے؟ اور ملک بوستان اس رقم کا بندوبست کیسے کریں گے؟

ملک بوستان کا منصوبہ کیا ہے اور وہ رقم کیسے اکٹھی کریں گے؟ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرت ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں اس طرح سے پیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں اور اس منصوبے کو سویپ ارینجمنٹ کہتے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت سمندر پار پاکستانیوں سے آج کے ریٹ پر ڈالر خریدے جائیں گے اور دو سال بعد انھیں ڈالر کے ریٹ میں فرق ادا کر کے واپس کر دیے جائیں گے۔

ان کے مطابق ’جب پاکستان نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے تھے اس وقت حالات اس سے بھی برے تھے۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ چکی تھیں۔ ابھی تو پاکستان کو آئی ایم ایف نے انکار نہیں کیا اس وقت تو مالی قرض دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان حالات میں مجھے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بحیثیت ایکسچینج کمپنی ایسوسی ایشن کے صدر بلایا تھا۔

ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہم سے مدد مانگی تو ہم نے دنیا بھر میں موجود سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کیا اور اس وقت دو سال میں دس بلین ڈالر سویپ ارینجمنٹ کے تحت حکومت کو لے کر دیے۔ تب ڈالر کا ریٹ بھی کم ہوا۔ اب بھی ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔‘

اس منصوبے پر کیسے عمل ہو گا اور رقم کی واپسی کا ’طریقہ کیا ہو گا اس بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اورسیز پاکستانیوں جن کے پاس بینک میں ڈالرز پڑے ہیں انھیں ہم دو طرح کی پیشکش کرتے ہیں کہ وہ ہمیں یہ ڈالر بیچ دیں یا پھر ہمیں دو سال کے لیے ادھار دے دیں۔ دو سال بعد ہم واپس کر دیں گے۔ دو سال بعد ہم انھیں ان کے ڈالر اور اس کی قیمت میں آنے والا فرق بھی ادا کر دیتے ہیں۔ اور یہ معاملات بلا سُود ہوتے ہیں۔‘

’اس کے لیے باقاعدہ حکومت سے معاہدہ کرتے ہیں اور یہ بینک اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اور یہ سب رقم بینک کے ذریعے ہی منتقل کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ رقوم ایک بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جاتی ہیں جس کے بعد متعلقہ بینک یہ رقم سٹیٹ بینک میں منتقل کرتا ہے۔‘‘

ملک بوستان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ’میں نے تو چھ ماہ پہلے یہ مشورہ اسحاق ڈار کو زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں دیا تھا۔ ہم نے انھیں بتایا کے پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا۔ ہمارے پاس فارن ایکسچینج کی کمی نہیں بس اعتماد کی کمی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کاروباری لوگ خوفزدہ ہو کر پیسے باہر لے گئے ہیں۔

’ہم نے حکومت سے کہا کہ مارکیٹ میں لوگوں کو فری ہینڈ دیں، میری 53 تجاویز تھیں کہ کس طرح فارن ریزرو کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ کمیٹی ارکان نے مجھ سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہم یہ بات حکومت تک پہنچائیں گے۔‘‘

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ’میری سمندر بار پاکستانی شہریوں سے بات ہوئی ہے سب پیسے دینے کے لیے تیار ہیں۔ ایک ارب ڈالر ماہانہ دیں گے۔ دو سال میں 24 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ ہم چار سو ملین پہلے سے دے رہے ہیں‘معاشی امور کے ماہر اور ایکسچینج کمپنی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے خیال میں ملک بوستان کا پیش کردہ منصوبہ اتنا آسان نہیں ہے۔

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ’یہ سب اتنا آسان نہیں۔ ہر آدمی کے اپنے خیالات ہیں۔ میں ان کی بات کو مکمل مسترد نہیں کرتا لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’1.2 بلین کے لیے پوری حکومت ادھر ادھر دھکے کھا رہی ہے۔ اگر یہ اتنا آسان ہے تو ہر ایکسچینج کمپنی بذات خود آئی ایم ایف ہے۔ یہ میرا خیال ہے کہ ممکن نہیں ہے۔‘

ظفر پراچہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں شریک تھے۔ انھوں نے اجلاس میں ملک بوستان کی جانب سے کی گئی پیشکش پر بتایا کہ’کچھ تجاویز کے ساتھ ہم زرمبادلہ اور ترسیلات زر کی شرح تو بڑھا سکتے ہیں۔ ابھی سالانہ چھ بلین ڈالرز ترسیلات زر ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آ رہے ہیں۔ یہ پیسہ عوام سے لے کر عوام کو دیتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اب ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ بڑھانے کے لیے کچھ تجاویز پر عمل ہو سکتا ہے۔ چھ سے 12 بلین بن سکتے ہیں۔ لیکن سویپ کرنا یعنی آج 285 کے ریٹ پر ڈالر لیں اور دو سال بعد کے ریٹ پر واپس کر دیں اور فرق ادا کریں۔ اب یہ فرق حکومت کہاں سے دے گی۔‘

ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ وہ ملک بوستان کی تجاویز سے سو فیصد متفق نہیں ہیں۔

’یہ نہ ملک کے فائدے کی بات ہے نہ عوام کے فائدہ کے بات ہے۔ اگر ہم اوورسیز پاکستانی کو ایکسپورٹ انڈسٹریز کا درجہ دیں تو ہم ترسیلات زر بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے حوالہ اور سمگلنگ کو روک سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی نے ان سے تجاویز سننے کے بعد یہی کہا تھا کہ ہم ان پر غور کریں گے۔‘

’اس پر غور ضروری ہے لیکن آئی ایم ایف کا پروگرام ملکی ساکھ کا معاملہ ہے‘
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر سے جب اس تجویز پر رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ نئی تجویز ہے اور اس کو جانچنا ضروری ہے تاہم پاکستان اس وقت ایک مشکل صورت حال میں ہے اور اس وقت ہم کسی دوسرے ذریعے پر جانے کا نہیں سوچ سکتے۔

’اس منصوبے کا آئی ایم ایف سے تعلق نہیں لیکن اگر اس پر عمل ہو گیا تو یہ ہمارا مستقل حل ہو گا۔ تاہم میری نظر میں اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے ۔ اگر 12 ارب ڈالر باہر سے آنا شروع ہو جائیں تو پھر آئی ایم کی سخت شرائط پر مناسب انداز میں بات چیت کی جا سکتی ہے تاہم یہ بہت ابتدائی سٹیج ہے۔‘

محمد زبیر عمر کے مطابق ’ابھی ملک بوستان نے قائمہ کمیٹی میں ایک تجویز دی ہے ان کی رائے کو ضرور سننا چاہیے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام تو ہم کو مکمل کرنا ہی ہے۔ ہم پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری ساکھ کا دارومدار بھی اس پر ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ کب اور کتنے اچھے طریقے سے واپس جا سکتے ہیں۔‘

محمد زبیر عمر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو واپس لانے کے لیے اتنے عرصے سے جاری کوشش کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہمیں یہ رقم مل جائے بلکہ آئی ایم ایف دوست ملکوں سمیت تمام ممالک کے لیے ایک سرٹیفیکیٹ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔

’جو اہداف بھی معیشت کی بہتری کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر طے کیے ہیں وہ آئی ایم ایف کا سرٹیفیکیٹ ہے جو ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ ’پاکستان کو ایک قابل اعتماد ملک ظاہر کرتا ہے۔‘کرنسی،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ان کے مطابق موجودہ صورت حال میں ہم آئی ایم ایف کو چھوڑ کر کسی اور طرف دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی بھی دوسرے طریقے پر جانے کا سوچیں تو وہ چاہے سمندر پار پاکستانی ہوں یا کوئی بھی دوسرا طریقہ اگر قابل عمل ہے تو اس کو ساتھ ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔

مسلم لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ان کی سمندر پار پاکستانیوں میں ایک مضبوط لابی تھی جو پڑھے لکھے اور سرمایہ دار تھے۔ انھوں نے بھی اپنے دور میں سمندر پار پاکستانیوں کے کیے سکیم متعارف کروائی تھی مگر ان تعلقات کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’بیرون ملک پاکستانی ہوں یا سرمایہ کار وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ہاں سیاسی و معاشی استحکام کی صورت حال کیا ہے۔اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کے دباؤ کی وجہ سے بیرون ملک (فارن) کمپنیوں کو ان کا منافع بھیجنے سے بھی تقریباً روکا ہوا ہے۔ اور دوسری جانب ایسے میں سمندر پار پاکستانیوں کو کہا جائے کہ آپ پیسہ بھیجیں۔‘’اس تجویز میں بظاہر قباحت نہیں‘
دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ سینٹ کی کمیٹی کے بعد اب یہ بریفنگ رواں ہفتے قومی اسمبلی کی کمیٹی میں بھی لی جائے گی جس میں اس تجویز کے قابل عمل ہونے سے متعلق غور کیا جائے گا جہاں وزارت خزانہ، ایف بی ار اور دیگر متعلقہ حکام موجود ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر اس تجویز میں قباحت نہیں۔

’ترکی نے ایسے ہی ایک ماڈل پر کام کیا تھا جس کے تحت انھوں نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ ڈالر حکومت کو دیں اور ایکسچینج ریٹ میں فرق کو حکومت واپس ادا کرنے کی پابند ہو گی تو ایکچینج کمپنیوں کی جانب سے دی گئی اس تجویز میں بظاہر قباحت نہیں جس میں ایکچینج کمپنیاں سمندر پار پاکستانیوں سے رقوم ارینج کر کے معاہدے کے تحت حکومت کو دے سکتی ہیں۔‘’یہ پیشکش عملی طور پر ممکن نہیں‘
معاشی ماہر اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری بھی ملک بوستان کی حکومت کو کی گئی پیشکش کو قابل عمل نہیں سمجھتے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ کتابی طور پر تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔

عابد سلہری کا کہنا تھا کہ ’ملک بوستان کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے تحت 15 ہزار ڈالر سے کم رقم بھیجنے والی کی شناخت کا نہ یوچھا جائے، ایسا کرنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں کیونکہ ابھی حال ہی میں ملک بڑی مشکل سے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلا ہے۔ اور حکومت ایسا کوئی اقدام اٹھانا نہیں چاہے گی جو دوبارہ اسے اس لسٹ کی جانب لے جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا اہم پہلو ڈالر کے ریٹ کا ہے، جو رقم باہر سے آئے گی اس کے ڈالر ریٹ کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ اور تیسرا اہم پہلو رقم دینے والوں کو کتنی جلدی اور کس ریٹ پر وہ رقم واپس مل گی۔‘

عابد سلہری کا کہنا ہے کہ ’قلیل مدت میں اس پر عمل کرنا آسان نہیں ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن موجود ہے اور اس میں پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے رول اوور (قرضوں کی ادائیگی موخر کرنا) اور فنانشل گارنٹی پر معاملات پھنسے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اس تاخیر کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ دوست ممالک کسی ایک فرد نہیں بلکہ حکومت کو مدد فراہم کرتے ہیں اور گذشتہ ایک برس سے یہ پتا نہیں چل رہا کہ اصل حکومت کسی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں ممالک کے درمیان بننے والے نئے تعلقات میں بھی ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہماری کتنی اہمیت ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے اب سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو غیر مشروط امداد ملنا کم ہو جائے گی۔

’اگر سعودی عرب کو پاکستان کی پہلے کی طرح ضرورت نہیں ہو گی تو وہ کیوں ہمیں غیر مشروط مدد فراہم کرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک کے ساتھ رول اوور معاملات کا دراومدار پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ملکی سیاسی استحکام پر منحصر ہے۔

Address

Dubai
00000

Telephone

+971565799269

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The News Haven posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to The News Haven:

Share