Dr Saima Mohammad Nawaz

Dr Saima Mohammad Nawaz Dr Saima Muhammed Nawaz is a Clinical & Aviation Psychologist with a Doctorate degree in Clinical & Neurocogitive Psychology.

Dr Saima Mohammed Nawaz is a clinical psychologist with a Ms in Clinical and Doctorate in Neurocogitive Psychology.

28/11/2025

How to Stop Taking Things Personally ゚viralシfypシ゚viralシalシ

Why Jealousy isn't About Love اگر آپ کو دوستی یا رشتے میں جیلسی محسوس ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ اُس شخص سے بہت ...
25/11/2025

Why Jealousy isn't About Love

اگر آپ کو دوستی یا رشتے میں جیلسی محسوس ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ اُس شخص سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کے ذہن کا کوئی حصہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس آہستہ آہستہ آتا ہے اور اکثر آپ کو سمجھ بھی نہیں آتی کہ دل کے اندر کیا بدل رہا ہے۔

جیلسی دماغ کے حفاظتی نظام سے شروع ہوتی ہے۔ دماغ ایسے بنے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی انہیں کنیکشن کم ہوتا دکھائی دے، وہ فوراً خبردار ہو جاتے ہیں۔ وہ ثبوت کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ کوئی بھی چھوٹی تبدیلی فوراً خطرہ سمجھ لیتے ہیں۔ دیر سے جواب دینا، تھوڑا سا بدلنا، یا کسی اور کو زیادہ توجہ دینا بھی دماغ میں الارم پیدا کر دیتا ہے۔ دماغ آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ وہ بس آپ کو پرانے درد سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

بچپن کے بہت سے تجربات اس ردعمل کو بناتے ہیں۔ ایک بچہ جس کا موازنہ ہمیشہ بہن بھائی سے کیا گیا ہو، اہمیت کھونے سے ڈرنا سیکھ لیتا ہے۔ ایک طالب علم جسے دوستوں نے نظرانداز کیا ہو، وہ گروپ میں اپنی جگہ پر شک کرنے لگتا ہے۔ کوئی شخص جسے پچھلے رشتے میں رد کیا گیا ہو، وہ آگے چل کر ہر فاصلے کو خطرہ سمجھنے لگتا ہے۔ یہ یادیں پس منظر میں محفوظ رہتی ہیں۔ بعد میں زندگی میں کوئی چھوٹا لمحہ بھی انہیں دوبارہ جگا دیتا ہے۔

مثال کے طور پر، اگر ایک دوست کسی نئے شخص سے زیادہ بات کرے تو دماغ کہتا ہے کہ آپ کی جگہ کم ہو رہی ہے۔ اگر پارٹنر خاموش ہو جائے تو دماغ فوراً یہ سوچ لیتا ہے کہ دلچسپی ختم ہو رہی ہے۔ اگر دفتر میں کسی اور کی تعریف ہو جائے تو دماغ کو اپنی پوزیشن کمزور لگتی ہے۔ یہ حالات حقیقت میں نارمل ہوتے ہیں، مگر پرانی یادیں انہیں زیادہ بڑا دکھاتی ہیں۔

جب جیلسی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کہانیاں بنانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ خطرے کا تصور کرتا ہے۔ وہ آپ کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن تیاری کرتا ہے۔ یہ ردعمل بہت سچا لگتا ہے، مگر اکثر حقیقت سے مختلف ہوتا ہے۔ احساس درست ہوتا ہے، لیکن کہانی ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔

اس سے نکلنے کا راستہ آگاہی سے شروع ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ احساس آئے، رک جائیں۔ خود سے پوچھیں کہ یہ ڈر موجودہ لمحے کا ہے یا کسی پرانے تجربے کا اثر ہے۔ جذبات کا نام لیں اور سوچنے کی رفتار کم کریں۔ یہ چھوٹا قدم شدت کم کر دیتا ہے۔ پھر آہستہ سے حقیقت چیک کریں اور بغیر الزام کے بات کریں۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کا ردعمل خوف سے نہیں بلکہ سمجھ سے آتا ہے۔ رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور دماغ ایک محفوظ طریقہ سیکھتا ہے۔

゚viralシfypシ゚viralシalシ

24/11/2025

゚viralシfypシ゚viralシalシ

Why Do you feel like you're giving too much in Relationship کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ ذہنی طور پر تھکے ہوئے ہیں،...
28/10/2025

Why Do you feel like you're giving too much in Relationship

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ ذہنی طور پر تھکے ہوئے ہیں، جذباتی طور پر کمزور ہو گئے ہیں، یا آپ کا ذہن ہمیشہ یہ حساب لگا رہا ہے کہ آپ اپنے رشتے میں کافی کر رہے ہیں یا نہیں؟
یہ کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب رشتہ خالص محبت پر نہیں بلکہ "کارکردگی" پر قائم ہوتا ہے۔ ذہن ایک کیلکولیٹر کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ میں جذباتی، مالی یا جسمانی طور پر کتنا دے رہا ہوں؟ کیا میں زیادہ دے رہا ہوں یا کم؟ کیا وہ شخص میری قدر کرتا ہے؟
اصل محبت میں یہ حساب کتاب نہیں ہوتا۔ آپ قدرتی طور پر دیتے ہیں، بغیر دباؤ کے۔ ذہن سکون میں رہتا ہے، دل مطمئن ہوتا ہے۔ وہاں کوئی مقابلہ یا کشمکش نہیں ہوتی، صرف راحت اور تعلق ہوتا ہے۔

کارکردگی پر مبنی رشتوں میں ہر چیز ایک "فرض" بن جاتی ہے۔ آپ impress کرنے کی کوشش کرتے ہیں، زیادہ دینے لگتے ہیں، اور ہر وہ اصول اپنانے لگتے ہیں جو سوشل میڈیا آپ کو بتاتا ہے—کہ کسی کو اپنی طرف کیسے متوجہ کریں، یا کسی کو کیسے یاد آئیں۔
ایسا رشتہ قدرتی بہاؤ کے بجائے ایک کوشش بن جاتا ہے۔ محبت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کو مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ یہ فطری جذبے سے نہیں بلکہ ایک بنائے ہوئے معیار سے چل رہا ہوتا ہے۔

لیکن انسان کی توانائی اور توجہ کی ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی بھی ہمیشہ کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔ ایک وقت آتا ہے جب تھکن چھا جاتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ بڑھتی ہے، اور معمولی باتیں بھی جھگڑے میں بدل جاتی ہیں۔
پھر احساس ہوتا ہے کہ رشتہ صرف اس لیے چل رہا ہے کیونکہ آپ مسلسل محنت کر رہے تھے، نہ کہ دونوں کے درمیان محبت یا احترام کی بنیاد پر۔ یہی لمحہ مایوسی اور بے چینی لاتا ہے۔

صحت مند رشتے آپ کو یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتے کہ آپ کافی کر رہے ہیں یا نہیں۔ وہ کسی مقابلے یا دباؤ جیسے نہیں لگتے۔ جب دو لوگ سچے دل سے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں تو ذہن کو سکون ملتا ہے، آپ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
ایسے رشتوں میں کارکردگی نہیں بلکہ قربت ہوتی ہے۔ سچی محبت انسان کو تھکاتی نہیں، بلکہ طاقت دیتی ہے — وہ آپ کی توانائی کو
ختم نہیں کرتی، بلکہ اسے بڑھاتی ہے۔

25/10/2025

Feeling Lost?

زندگی کبھی کبھی الجھی یا بھاری لگ سکتی ہے۔ جب ایسا ہو، تو
رکیں اور خود سے پوچھیں:

حال ہی میں مجھے سب سے زیادہ جذباتی طور پر کیا تھکا رہا ہے؟

میری زندگی کے کس حصے کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟

میں زیادہ تر کون سے جذبات محسوس کرنا چاہتی/چاہتا ہوں، اور اسے کیا روکتا ہے؟

چند پرسکون لمحات نکال کر ایمانداری سے جواب دیں۔
یہ چھوٹی سی غور و فکر بھی وضاحت، سکون اور سمت پیدا کر سکتی ہے

゚viralシfypシ゚viralシalシ

Why You Can’t say no to Others without Guilt کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ ہر کسی کو "ہاں" کہتے کہتے تھک گئے ہیں، ...
25/10/2025

Why You Can’t say no to Others without Guilt

کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ ہر کسی کو "ہاں" کہتے کہتے تھک گئے ہیں، حالانکہ دل نہیں چاہتا تھا؟ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ "نہ" کہنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، اور یہی عادت اکثر ذہنی دباؤ، ناراضی اور تھکن کا باعث بنتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اس کی جڑیں اکثر بچپن میں ہوتی ہیں۔ بچپن سے ہی بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ "اچھا بچہ" وہ ہوتا ہے جو بڑوں کی بات مانے، دوسروں کی مدد کرے، اور کسی کو ناراض نہ کرے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ کسی کام سے انکار کرے تو اسے کہا جاتا ہے، "بدتمیزی نہ کرو، مدد کرو۔" وقت کے ساتھ، بچے کے ذہن میں یہ عقیدہ بیٹھ جاتا ہے کہ "نہ" کہنا غلط ہے۔ اسی طرح، جب بچے کو ہمیشہ بانٹنے یا دوسروں کی مدد کرنے پر تعریف ملتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ محبت اور قبولیت صرف فرمانبرداری سے ملتی ہے۔ یہ سوچ بڑی عمر تک ساتھ رہتی ہے۔

بالغ ہونے کے بعد یہی عادت "لوگوں کو خوش کرنے" والے رویے میں بدل جاتی ہے۔ ہم دفتر میں اضافی کام ماننے پر فوراً ہاں کر دیتے ہیں، چاہے ہم تھکے ہوئے ہوں۔ ہم ایسی دعوتیں قبول کر لیتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتیں، یا ایسے کام کر لیتے ہیں جو ہمیں تھکا دیتے ہیں، صرف اس خوف سے کہ کہیں کوئی ناراض نہ ہو جائے۔ مثلاً کوئی شخص ہر بار اپنے ساتھی کی مدد کرتا ہے، چاہے اس کے اپنے کام ادھورے رہ جائیں، کیونکہ اسے انکار کرنا برا لگتا ہے۔ یا کوئی ہر خاندانی فرمائش مان لیتا ہے، چاہے اس کے اپنے منصوبے خراب ہو جائیں، کیونکہ "نہ" کہنا بے وفائی جیسا لگتا ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ اس عادت کو بدلا جا سکتا ہے۔ پہلا قدم ہے **خود آگاہی۔** یہ پہچانیں کہ آپ کہاں "ہاں" صرف خوف یا گناہ کے احساس سے کہتے ہیں، نہ کہ اپنی مرضی سے۔ دوسرا قدم ہے چھوٹے انکاروں سے آغاز کرنا۔ جیسے اگر آپ تھکے ہوئے ہیں تو کسی عام دعوت پر نہ جائیں۔ نرمی سے کہیں:
"میں مدد کرنا چاہتا ہوں، لیکن آج ممکن نہیں۔"
آپ کو لمبی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں۔ مختصر اور مؤدبانہ انکار کافی ہے۔ وقت کے ساتھ آپ اپنی حدیں بہتر انداز میں قائم کرنا سیکھ جائیں گے۔

ذہن کو دوبارہ تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ خود کو یاد دلائیں کہ "نہ" کہنا خودغرضی نہیں بلکہ اپنی توانائی اور ذہنی سکون کی حفاظت ہے۔ جیسے آپ مالی وسائل ضائع نہیں کرتے، ویسے ہی اپنی توانائی بھی سوچ سمجھ کر خرچ کریں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی دوست بار بار مدد مانگتا ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں،
"اس بار نہیں کر پاؤں گا، لیکن اگلے ہفتے دیکھ لیتے ہیں۔"
اس طرح آپ رشتہ بھی برقرار رکھتے ہیں اور اپنی حد بھی محفوظ کرتے ہیں۔

"نہ" کہنا آسان نہیں، مگر یہ متوازن زندگی کے لیے ضروری ہے۔ صبر، مشق اور خود پر نرمی سے آپ صحت مند حدود قائم کر سکتے ہیں، اپنی توانائی بچا سکتے ہیں، اور ایسے رشتے بنا سکتے ہیں جو احترام پر قائم ہوں، نہ کہ مجبوری پر۔

Overthinking is not Your Enemy کیا آپ نے کبھی اپنی سوچوں کو روکنے کی کوشش کی ہے اور مایوسی محسوس کی ہے جب دماغ پھر بھی چ...
23/10/2025

Overthinking is not Your Enemy

کیا آپ نے کبھی اپنی سوچوں کو روکنے کی کوشش کی ہے اور مایوسی محسوس کی ہے جب دماغ پھر بھی چلتا رہا؟ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ذہنی سکون کا مطلب ہے کہ کوئی خیال نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ سوچنا بند نہیں کر سکتے۔ جیسے خون آپ کے جسم کے لیے ضروری ہے، ویسے ہی خیالات آپ کے ذہن کے لیے ضروری ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی رگوں میں بہتے خون کو روک دیں؟ بالکل نہیں، کیونکہ خون ہی زندگی ہے۔ اسی طرح، خیالات ذہنی زندگی کا بہاؤ ہیں۔ یہ آپ کے دماغ کو متحرک، تخلیقی اور باشعور رکھتے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ بہاؤ غیر صحت مند ہو جاتا ہے۔ جیسے بلند فشارِ خون جسم کو نقصان پہنچا سکتا ہے، ویسے ہی زیادہ سوچنا یا منفی سوچنا ذہن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اصل راز یہ نہیں کہ سوچنا بند کریں، بلکہ یہ کہ سوچ میں توازن پیدا کریں۔

صحت مند خیالات خون کے متوازن بہاؤ کی طرح ہوتے ہیں، پرسکون اور قدرتی۔ آپ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ غیر صحت مند خیالات بلند یا کم فشارِ خون کی طرح ہوتے ہیں، کبھی بہت تیز اور کبھی بہت سست، جو آپ کو بےچین یا سن کر دیتے ہیں۔ جب خیالات بار بار دہرائے جائیں یا "اگر ایسا ہو جائے تو؟" جیسے سوالوں سے بھر جائیں، تو ذہن بھاری اور تھکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ زیادہ سوچنے کا نہیں بلکہ بے سمتی سے سوچنے کا نتیجہ ہے۔

سوچوں کو روکنے کے بجائے آپ انہیں "شیڈول" کر سکتے ہیں۔ اس سے دماغ سیکھتا ہے کہ ایک حد میں کیسے سوچنا ہے، جیسے جسم اپنی قدرتی ترتیب کے مطابق کام کرتا ہے۔ دن میں ایک مقررہ وقت چنیں، مثلاً شام پانچ سے ساڑھے پانچ بجے تک۔ سونے سے پہلے کا وقت مت رکھیں، کیونکہ نیند سے پہلے ذہن کو سکون چاہیے۔ عام جگہوں سے ہٹ کر کوئی مقام چنیں۔ اگر ممکن ہو تو گھر سے باہر کسی پارک یا پرسکون گوشے میں بیٹھیں۔ اگر گھر میں ہی رہنا ہو تو ایسی جگہ چنیں جہاں آپ عام طور پر نہیں بیٹھتے، مثلاً بالکونی یا کوئی کونا۔ دماغ سمجھتا ہے کہ یہ "سوچنے کی جگہ" ہے۔ تیس منٹ کا الارم لگائیں۔ آزادانہ سوچیں، دماغ کو بہنے دیں۔ فکر، تصور، منصوبہ—جو بھی آئے، آنے دیں۔ مقابلہ نہ کریں، بس بہنے دیں۔ جب الارم بجے، فوراً رک جائیں۔ خود سے کہیں، "میرا سوچنے کا وقت ختم ہو گیا۔ میں کل سوچوں گی۔ آج خیالات کا دفتر بند ہے۔" ایسے تصور کریں جیسے کوئی سرکاری دفتر بند ہو گیا ہو—ایک بار بند ہو جائے تو کوئی اندر نہیں جا سکتا۔

شروع میں دماغ مزاحمت کرے گا اور کہے گا، "بس ایک خیال اور۔" نرمی مگر مضبوطی سے خود کو یاد دلائیں، "میں کل سوچوں گی۔" یہ عمل روزانہ ایک مہینہ جاری رکھیں۔ آہستہ آہستہ خیالات آپ کی پیروی کرنے لگیں گے۔ وہ آئیں گے مگر اپنی جگہ اور وقت پہ۔ چند ہفتوں بعد آپ چاہیں تو اسے ہر دوسرے دن یا ہفتے میں ایک بار کر سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ آپ کا اپنی سوچوں سے رشتہ بدل جائے گا۔ آپ انہیں دشمن نہیں بلکہ اشارہ سمجھنے لگیں گے—قدرتی، ضروری اور قابلِ نظم۔ جیسے متوازن خون کا بہاؤ جسم کو زندہ رکھتا ہے، ویسے ہی متوازن سوچ ذہن کو پرسکون اور صاف رکھتی ہے۔ آپ کو سوچنا بند کرنے کی ضرورت نہیں، بس اپنے خیالات کو یہ سکھانے
کی ضرورت ہے کہ کب شروع ہونا ہے اور کب رک جانا ہے۔

Address

Business Bay
Dubai
00000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Saima Mohammad Nawaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Dr Saima Mohammad Nawaz:

Share