Love Story

Love Story ������

05/09/2025

اسرائیل مٹ جائے گا، امریکہ بکھر جائے گا، مگر لبیک یا رسول اللہ کی صدائیں ہمیشہ بلند رہیں گی۔

05/09/2025

اسرائیل ختم ہو جائیگا امریکہ ختم ہو جائے گا میرے نبی کا نام ہمیشہ بلند رہیگا

امید ہے

03/09/2025

Type Allah

آپ کی درخواست کے مطابق، میں آپ کے لیے ایک مکمل ناول پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ناول: دو گھڑی سائے، دو گھڑ...
01/09/2025

آپ کی درخواست کے مطابق، میں آپ کے لیے ایک مکمل ناول پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔

ناول: دو گھڑی سائے، دو گھڑی دھوپ

کردار:

· افیاء: ایک نوجوان ماں، دو بچوں کی والدہ، مضبوط، صبر کرنے والی، محنت کش۔
· نعمان: افیاء کا شوہر، بے روزگار، مایوس، گھر سے بے گھر۔
· حسن اور حنا: افیاء اور نعمان کے دو چھوٹے بچے۔

(پہلا باب: ایک اجنبی گلی میں)

ہوا میں سردی کے تیز تیر تھے۔ افیاء نے اپنے پرانے شال سے حنا کو اور مضبوطی سے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کا چھوٹا سا جسم گرمائی کی تلاش میں ماں کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے سامنے، نعمان اپنے کندھے پر ایک پرانا، پھٹا تھیلا اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں۔ ان کے قدموں میں ایک چھوٹا سا سوٹ کیس تھا جس میں ان کے تمام دنیا کے سامان تھے۔ اور نعمان کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا جس میں ان کا bedding تھا۔

یہ کوئی نئی جگہ نہیں تھی۔ ایک پرانی عمارت کے پیچھے ایک سڑک سے ملتی ہوئی تنگ گلی۔ گلی کے آخر میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کا کرایہ نعمان کے ایک پرانے دوست نے ایک ماہ کے لیے ادا کر دیا تھا۔ یہی ان کی نئی دنیا تھی۔

"چلو اندر چلتے ہیں، سردی لگ جائے گی بچوں کو،" افیاء نے نرمی سے کہا۔ اس کی آواز میں تھکاوٹ تھی، مگر مایوسی نہیں تھی۔

نعمان نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ سوٹ کیس اٹھا کر اندر داخل ہوا۔ کمرہ چھوٹا تھا۔ ایک پرانی چارپائی، ایک ٹوٹا ہوا پنکھا اور ایک بلب۔ باہر ایک نل تھا اور ایک چھوٹی سی جگہ جہاں چولہا رکھا جا سکتا تھا۔ افیاء نے حنا کو چارپائی پر لٹایا اور حسن کے ہاتھ میں سے پرانا ٹیڈی بیر لے کر اسے بھی اس کے پاس بٹھا دیا۔

"امی، بھوک لگی ہے،" حسن نے معصوم آنکھوں سے کہا۔

افیاء نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ "ابھی امی کھانا بناتی ہیں۔ تم حنا کے ساتھ کھیلو۔"

نعمان ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں کسی اور ہی دنیا میں تھیں۔ افیاء نے پانی کے نل کے پاس جا کر برتن رکھے۔ اس کے ہاتھ کام کر رہے تھے، مگر اس کا دماغ نعمان پر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کس اذیت سے گزر رہا تھا۔ نوکری نہ ملنا۔ قرضے۔ اور پھر گھر والوں سے جھگڑا اور آخرکار گھر سے نکلنا۔ نعمان کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا مشکل تھا۔ وہ جوان تھا، خواب دیکھتا تھا، مگر قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا۔

افیاء نے اپنے تھے سے نکالے ہوئے آٹے کی روٹیاں بنائیں۔ ایک چھوٹی سی ہانڈی میں آلو کی سبزی بنائی۔ یہ ان کا پہلا کھانا تھا اپنے نئے "گھر" میں۔

کھانے کے بعد جب بچے سو گئے تو افیاء نے نعمان کے پاس بیٹھ کر کہا، "گھبرانا نہیں نعمان۔ اللہ نے دیا تھا، وہی لے گیا۔ ہم محنت کریں گے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

نعمان نے پہلی بار اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شرم تھی۔ "معاف کرنا افیاء۔ میں تم سب کو اس حال میں لے آیا ہوں۔ میں ناکام ہوں۔"

"تم ناکام نہیں ہو۔ وقت مشکل ہے۔ ہم مل کر اس سے نکلیں گے،" افیاء نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

(دوسرا باب: جدوجہد کے دن)

صبح ہوتے ہی افیاء نے کام کی تلاش شروع کر دی۔ وہ قریبی گھروں میں جا کر برتن دھونے، جھاڑو پونچا کرنے کا کام کرنے لگی۔ دن بھر کام کرتی، شام کو تھکی ہاری لوٹتی، مگر بچوں کے لیے کھانا بناتی اور انہیں سلانے کے بعد اپنے ہاتھوں پر لگے چھالوں پر لوشن لگاتی۔

نعمان بھی ہر روز نوکری کی تلاش میں نکلتا۔ مگر ہر جگہ سے ناامیدی ہی ہاتھ آتی۔ وہ دن بدن چڑچڑا ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی خود اعتمادی خاک میں مل چکی تھی۔

ایک شام جب افیاء کام سے لوٹی تو دیکھا کہ نعمان کمرے سے باہر بیٹھا ہے اور اس کی آنکھیں سرخ ہیں۔

"کیا ہوا؟" افیاء نے فوراً پوچھا۔

"وہ سوٹ کیس۔۔۔ وہ۔۔۔ چوری ہو گیا،" نعمان نے روتے ہوئے کہا۔

افیاء کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس سوٹ کیس میں ان کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب تھا۔ بچوں کے کپڑے، اس کے زیورات میں سے ایک پرانی انگوٹھی جو اس کی ماں نے دی تھی، اور تھوڑے سے پیسے جو اس نے محنت سے جمع کیے تھے۔

نعمان سر پکڑ کر رو رہا تھا۔ "میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں اپنے خاندان کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔"

افیاء نے ایک گہرا سانس لیا۔ آنسوؤں کو پی کر کہا، "نعمان، ہماری عزت چوری نہیں ہوئی۔ ہماری محنت چوری نہیں ہوئی۔ ہمارا ایمان چوری نہیں ہوا۔ بس کپڑے تھے۔ ہم دوبارہ کمائیں گے۔"

لیکن نعمان کے لیے یہ آخری کیل تھی۔ وہ ٹوٹ چکا تھا۔

(تیسرا باب: راستے جدا راستے جدا)

نعمان نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ وہ اکثر دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا۔ کبھی کبھار وہ رات گئے تک باہر رہتا۔ افیاء نے پہلے تو صبر سے کام لیا، پھر اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔

"نعمان، تمہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے۔ چھوٹا موٹا کام بھی کر لو۔"

"کون سا کام؟ رکشہ چلاؤں؟ چوکیداری کروں؟ کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟" نعمان غصے سے بولا۔

"شرم تو تب آتی ہے جب اپنے بچوں کا پیٹ نہ پل سکوں۔ محنت میں کوئی شرم نہیں ہوتی،" افیاء نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔

مگر نعمان کی انا اسے اندر ہی اندر کھا رہی تھی۔ وہ افیاء پر ہی برس پڑتا۔ "تم ہی تو ہو جو مجھے روز ٹوکتی ہو۔ تمہیں لگتا ہے تم ہی سب کچھ ہو۔ تم ہی کام کر کے لاتی ہو، تمہیں تو بڑی فخر ہے نا؟"

افیاء خاموش ہو جاتی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ نعمان کی مایوسی بول رہی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے سامنے جھگڑا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ایک دن نعمان نے افیاء سے کہا کہ اسے ملتان میں نوکری کا ایک موقع ملا ہے اور وہ وہاں جا رہا ہے۔ وہ کچھ پیسے کما کر انہیں وہاں بلائے گا۔

افیاء نے مان لیا۔ اسے امید تھی کہ شاید یہاں سے دور جا کر نعمان پھر سے کوشش کرے گا۔

نعمان چلا گیا۔ پہلے ہفتے میں اس نے فون کیا۔ پھر فون آنا کم ہو گئے۔ پھر ایک دن اس کا نمبر بند ہو گیا۔

افیاء اپنے دو بچوں کے ساتھ اس اجنبی شہر میں بالکل تنہا رہ گئی۔

(چوتھا باب: اکیلے پن کا سفر)

افیاء کے لیے اب جنگ اور بھی مشکل ہو گئی تھی۔ اسے اپنے کام پر جانے کے دوران بچوں کو کسی کے پاس چھوڑنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے ایک پرانی خاتون سے درخواست کی جو اس کے پڑوس میں رہتی تھیں۔ وہ دن میں کچھ گھنٹے بچوں کو سنبھال لیتی تھیں۔ افیاء انہیں کھانا بنا کر دیتی اور کام پر چلی جاتی۔

اس نے اپنے کام بڑھا لیے۔ وہ اب دو گھروں میں کام کرتی۔ دن کے آخر میں وہ اتنا تھک جاتی کہ اس کے پاؤں اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ مگر وہ ہار نہیں مانتی تھی۔ اس کے دماغ میں ایک ہی خیال تھا: اپنے بچوں کو تعلیم دلوانی ہے۔ انہیں اس حال میں نہیں رہنا ہے۔

اس نے اپنی آمدنی میں سے تھوڑے سے پیسے بچا کر ایک پرانی سی سلائی مشین خریدی۔ رات میں، جب بچے سو جاتے، وہ پرانے کپڑے سی کر ان کے لیے نئے کپڑے بناتی۔ کبھی کبھار وہ گھر والیوں کے لیے بھی کپڑے سی کر دےتی، جس پر اسے کچھ اضافی پیسے مل جاتے۔

اس کی محنت رنگ لائی۔ اس نے اپنے کمرے کا کرایہ خود ادا کرنا شروع کر دیا۔ بچوں کو ایک چھوٹے سے اسکول میں داخل کرا دیا۔

ایک دن وہ بازار سے کپڑا لے کر لوٹ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بک شاپ پر پڑی۔ اس کی ایک پرانی خواہش تھی کہ وہ پڑھے لکھے۔ اس نے دکان سے ایک پرانی اردو قواعد کی کتاب خریدی۔ رات کو وہ کتاب پڑھتی، الفاظ سیکھتی۔

(پانچواں باب: ایک نئی صبح، ایک پرانا سایہ)

کئی مہینے گزر گئے۔ موسم بدلا۔ گرمیاں آئیں۔ افیاء کی زندگی میں ایک معمول سا آ چکا تھا۔ مشکل تھی، مگر مستحکم۔

ایک دوپہر، جب وہ اپنے کمرے کے باہر کھانا بنا رہی تھی، اس نے دیکھا کہ دروازے پر ایک پرانا جانا پہچانا سایہ کھڑا ہے۔

نعمان۔۔۔

مگر وہ نعمان نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے کپڑے میلے تھے، بال بکھرے ہوئے تھے، اور اس کی آنکھیں اندر تک دھنسی ہوئی تھیں۔ وہ بہت کمزور لگ رہا تھا۔

"افیاء۔۔۔" اس کی آواز بھی بھرائی ہوئی تھی۔

افیاء کے دل میں ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ غصہ، ترس، نفرت، محبت۔۔۔ سب کچھ ایک ساتھ۔ اس نے دروازہ کھولا۔

نعمان اندر آیا اور بے اختیار رونے لگا۔ اس نے بتایا کہ ملتان میں نوکری کا کوئی موقع نہیں ملا۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر جوئے کی لعنت میں مبتلا ہو گیا۔ جو کچھ اس کے پاس تھا، سب ہار گیا۔ وہ شرم کے مارے واپس نہیں آ سکا۔ راستے میں ٹرکوں اور بسوں پر سفر کرتا رہا۔ بھیک مانگ کر کھایا۔

"میں تمہارے سامنے آنے کے قابل نہیں تھا،" وہ روتا ہوا بولا۔

افیاء خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ اس کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے۔ درد کے، اس کے لیے جو وہ بن سکتا تھا اور جو وہ بن گیا تھا۔

بچے باہر سے آئے۔ انہوں نے نعمان کو دیکھا۔ حسن نے پوچھا، "ابو؟"

نعمان نے شرم سے نظریں جھکا لیں۔

افیاء نے بچوں سے کہا، "جاؤ ہاتھ دھو کر آؤ۔ کھانا تیار ہے۔"

پھر اس نے نعمان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اب درد نہیں، بلکہ عزم تھا۔

"تم نے بہت غلط کیا نعمان۔ تم نے ہمیں چھوڑ دیا۔ تم نے خود کو برباد کر لیا۔ مگر۔۔ ." اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ "مگر تم میرے شوہر ہو۔ ان بچوں کے باپ ہو۔ یہ تمہارا گھر ہے۔"

نعمان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ توقع نہیں کر رہا تھا۔

"لیکن ایک شرط ہے،" افیاء نے کہا، اس کی آواز میں لوہے کی طرح ٹھوس پن تھا۔ "تمہیں اپنی انا کو اپنے اور اپنے خاندان کے راستے میں نہیں آنے دینا ہوگا۔ تمہیں دوبارہ شروع کرنا ہوگا۔ چاہے وہ چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو۔ تمہیں سیدھے راستے پر چلنا ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، لیکن میں تمہیں پھر سے ٹوٹنے نہیں دوں گی۔"

نعمان اس کے سامنے گڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شرمندگی کے ساتھ ساتھ امید کی ایک کرن بھی جاگی۔

"میں۔۔ . میں کوشش کروں گا، افیاء۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔"

افیاء نے ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھیر دی۔ "اب اٹھو۔ ہاتھ دھو کر کھانا کھاؤ۔ تمہیں طاقت کی ضرورت ہوگی۔ کل سے نئی زندگی کا آغاز ہے۔"

نعمان نے اٹھ کر دیکھا۔ اس کی بیوی، جسے وہ کمزور سمجھتا تھا، آج اس کے لیے ایک پہاڑ بن گئی تھی۔ اس کے بچے، جو اس کے بغیر پل کر بڑے ہو گئے تھے، اب بھی اسے اپنا باپ ماننے کو تیار تھے۔

اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار محسوس کیا کہ ناکامی کوئی بری چیز نہیں ہے۔ برائی تو ہمت ہار دینے میں ہے۔ اور اس نے دیکھا کہ افیاء نے کبھی ہارت ہی نہیں ماننی تھی۔

کمرے کی کھڑکی سے سورج کی ایک کرن اندر آئی اور پورے کمرے کو روشن کر گئی۔ یہ روشنی نئی امیدوں، نئی شروعات اور ایک ایسی محنت کی کہانی سناتی تھی جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

اختتام

(نوٹ: یہ ناول ایک فرضی کہانی پر مبنی ہے اور اس کا مقصد محنت، ہمت اور قربانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔)

01/09/2025

*فرض کریں آپ کا اچانک سے مدینے سے بلاوا آگیا ہے*
*آپکا ری ایکشن کیا ہوگا ایموجی میں بتائیں۔🥹*

01/09/2025

Allah hu Akbar

01/09/2025

*Start your Day with Darood Shareef*🌺

*اللّٰهُمَّ صَلٌِ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلیٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ۔۔*🩵

*اللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلىٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد۔۔*🩵
`BILAL`🌸

31/08/2025

Type Allah in Comments

Address

United Arab Emirates
Dubai
00000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Love Story posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share