
11/04/2025
گیدڑ ہمارے کھیتوں اور جنگلوں کی خوبصورتی کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہمارے ہاں جو گیدڑ پائے جاتے ہیں انہیں گولڈن جیکل کہا جاتا ہے۔ گیڈر بھی انسان کی طرح ہمہ خور ہے۔ یعنی اسے جو ملے کھا لیتا ہے۔ لیکن پسندیدہ خوراک گوشت ہی ہے۔ کبھی خود کسی پرندے یا اپنے سے کمزور جانوروں اور رینگنے والے جانوروں کا شکار کر لیتا ہے تو کبھی کسی مردہ جانور پر گزارہ کر لیتا ہے اور اس طرح ماحول کو صاف رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انسان کے برعکس گیدڑ ایک ہی جیون ساتھی پر نہ صرف گزارہ کرتا ہے بلکہ مرتے دم تک اسی کے ساتھ وفا نبھاتا ہے۔ یعنی گیدڑ پولیگیمس نہیں بلکہ مونو گیمس ہے۔ ہاں البتہ جب کوئی گیدڑی پہلی دفعہ جنسی عمل کے لیے تیار ہوتی ہے تو کئی کنوارے گیدڑ اس کو حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ نوجوان گیدڑوں میں لڑائی ہوتی ہے اور جو فاتح ٹھہرے وہ نوجوان گیدڑی کو لے اڑتا ہے اور یوں یہ نیا جوڑا ساری زندگی ایک ساتھ رہتا ہے۔ گیدڑی سال میں ایک دفعہ ہی بچے دیتی ہے اور بچے دینے کا موسم فروری سے مارچ تک ہوتا ہے۔ کتی کی طرح گیدڑی بھی ساٹھ سے پینسٹھ دن میں بچے دیتی ہے۔
گیدڑ کا ملاپ بھیڑیئے اور کتے سے بھی ہو سکتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ قدرت نے گیدڑ اور کتے کے درمیان محبت کا تعلق قائم کرنے کی صلاحیت رکھی ہے لیکن انسان کتوں کے ذریعے گیدڑ کو انتہائی سفاکی کے ساتھ مرواتا ہے اور وہ بھی صرف اور صرف اپنی تفریح کے لیے۔
گیدڑوں کا یہ جوڑا دو دن پہلے اپنے گاؤں ڈھکو کے کھیت میں دیکھا۔ آج کل ہمارے جنگلوں میں گیدڑ ہی اکیلا بادشاہ ہے کہ تیندوا اور بھیڑیا تو کب کے یہاں سے جا چکے۔ اب جنگل میں گیدڑ کا حریف صرف لومڑ ہے جس کی ایک تو تعداد بہت کم ہے اور دوسرا وہ گیدڑ سے کمزور ہے۔ شام کے وقت گیدڑوں کی آوازیں جسے ہم ہواک یا کوک کہتے ہیں جنگل میں سماں باندھ دیتی ہیں۔ گیدڑوں کی کوک سے یاد آیا کہ لڑکپن میں ہم گراؤنڈ پر کھیلنے جا رہے تھے کہ کسی دوسرے گاؤں کا ایک رکشہ ہمارے گاؤں آیا جس پر تین چار خواتین سوار تھیں جو ہمارے گاؤں کی نہیں تھیں۔ رکشے والے نے اونچی آواز میں گانے لگائے ہوئے تھے۔ غیرت اور جوش کے مارے ہم سب دوستوں نے رکشے والے کا یوں بلند آواز میں میوزک لگانا اپنے گاؤں کی عزت اور وقار پر حملہ سمجھا۔ جب ہم نے رکشے والے کو دو دو تھپڑ لگائے تو رکشے پر سوار خواتین میں سے ایک عورت نے کیا ہی یاد گار جملہ ہمارے منہ پر مارا۔۔۔
تسیں تے آہو ای گدڑاں دیاں کوکاں سنڑنے آلے، سوانوں کے لگے گانڑیاں نال۔۔
(تم تو ہو ہی گیدڑوں کی کوکیں سننے والے۔ تمہیں گانوں سے کیا لگے)۔
کاش نامعلوم گاؤں کی وہ نامعلوم عورت کبھی کسی موڑ پر مل جاتی تو اسے میں بتا سکتا کہ گیدڑوں کی کوکیں تو اب بھی سنتا ہوں لیکن موسیقی سنے بغیر نیند نہیں آتی۔