14/10/2025
میرا نام رمضان ہے۔ میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں ایک آڈیٹر ہوں۔ اکاؤنٹس آفس وہ ہوتا ہے جہاں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن وغیرہ جاری ہوتی ہے۔ چپڑاسی سے لے کر ضلعی اکاؤنٹ آفیسر تک کیونکہ رشوت لیتے ہیں۔ تو میں نے جب سروس جائن کی چند دن بعد ہی دیہاڑی لگنی شروع ہوگئی۔ اکاؤنٹ آفسز میں ہم سارے جائز ناجائز کام رشوت لے کر کرتے ہیں۔ تنخواہ ہم بس وہاں جانے آنے کی لیتے ہیں۔ وہاں ایک ورک فولڈ کرنے ، فائل اوپن کرنے، کوئی کام کرنے کے پیسے سائل کو بذریعہ کلرکس یا ہمارے چپڑاسیوں کے ذریعے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ڈائریکٹ بھی ڈیل کر لیتے ہیں۔ پولیس تو پھر بھی شاید کسی سے نہ پیسے لیتی ہو مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہاں کوئی تگڑی سفارش آجائے بڑے افسر کی یا کسی ایم این اے ایم پی اے کی تو ریٹ کم یا بندہ دیکھ کر ویسے بھی کام ہوجاتے ہیں۔
پہلے پہل احساس ندامت رہتا تھا۔ بعد میں نجانے کیسے دل مطمئن ہوگیا۔ نئے سروس جائن کرنے والوں سے لے کر ریٹائر شدہ بزگ مرد و خواتین سے میں حرام خوری کے بنا کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔ ہم لوگ سیدھا جواب نہیں دیتے بس کام کو کرتے نہیں ہیں۔ یا فضول اعتراض لگاتے رہتے ہیں۔ اگلا بندہ ذلیل ہوکر رشوت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جتنا کسی کا سکیل ہے جتنے پیسوں کا کام ہے۔ اس کا اتنا ہی ریٹ ہوگا۔ بقایا جات کی ادائیگی میں ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد ادائیگی کا ریٹ اب لاکھوں میں ہے۔
شادی ہوئی۔ پہلا بیٹا نابینا پیدا ہوا۔ ماتھا ٹھنکا کہ یہ میرے گناہوں کی سزا تو نہیں۔ جو بھی جسٹیفکیشنز بنا رکھی تھیں۔ معلوم تو بہرحال تھا کہ خود بھی حرام کھاتا ہوں اور اہل و عیال کو بھی جو عیاشیاں میسر ہیں وہ سب حرام کی کمائی سے ہیں۔ ایک سوا لاکھ تنخواہ سے کیا بنتا ہے۔ جبکہ میرے ریگولر اخراجات چار سے پانچ لاکھ تھے۔ دو تین گرل فرینڈز کے بھی تمام اخراجات ادا کرنے ہوتے تھے۔ وہ سب بھی سرکاری ملازمین ہی تھیں۔ آفس کسی کام سے آئیں تو سیٹنگ بن گئی۔
خیر دوسری بیٹی پھر نابینا پیدا ہوئی۔ اس بار تو علاج بھی بہت کروایا۔ جدید سے جدید اسکیننگ کروائی۔ پہلے بیٹے کی تو آنکھیں ہی نہیں کھلتی تھیں۔ اس بار آنکھوں کی ساخت بہت پیاری اور نارمل تھی۔ مگر نور نہیں تھا۔ اب کی بار یہ خیال بہت حاوی ہوگیا کہ پکڑ ہوگئی ہے۔ پھر تاویلیں گھڑتا کہ میرے گناہوں کی سزا ان معصوموں کو کیوں؟ اللہ ایسے کیوں کرے گا؟ اب تک رشوت لینا نہیں چھوڑی۔ بلکہ اب ریٹس بڑھا دیے۔ کہ بچوں کا علاج بھی بہت مہنگا تھا۔ وہ بھی ساتھ شروع کروا دیا۔
کبھی کبھار کسی بزرگ کا کام فری بھی کرکے خود کو بڑا دیالو اور حاتم طائی سمجھنے لگتا۔ جب ڈاکٹر نے کہا آپ کے بچے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ جو مرضی کر لیں۔ یہ پیدائشی نابینا ہیں۔ تو میری بیوی نے طلاق کا مطالبہ کر لیا۔ وجوہات کئی تھیں۔ میرے افئیرز، بچوں سے لاپرواہی، اور رشوت لینا نہ چھوڑنا۔ اس سے کوئی اچھا سلوک نہ کرنا۔ میرے گھر والوں کا اس پر ان معذور بچوں کا الزام لگانا۔ وہ پڑھی لکھی تھی۔ پہلے تو سب سہتی رہی۔ پھر اس نے بہت اچھا کام کیا اور بچے چھوڑ کر اپنے بھائی کے پاس بحرین شفٹ ہوگئی۔ عدالت سے طلاق کا بھی نوٹس بھجوا دیا۔
مجھے گھر والوں نے کہا کہ تم بچے اس کو لکھ دو۔ دیگر الفاظ میں یہ کہہ دو یہ بچے میرے نہیں ہیں۔ ہم کیوں ان کو سنبھالیں۔ میری گرل فرینڈز بھی میرے ساتھ شادی کے لیے راضی تھیں مگر ان بچوں کو کوئی قبول نہیں کرنے والا تھا۔ نجانے کیا ہوا۔
میں نے اپنا اور بچوں کا پاسپورٹ بنوایا۔ بغیر کسی کو بتائے۔ بحرین چلا آیا۔ اپنی بیوی کے پاس۔ ریزائن لکھ کر ای میل کر دیا کہ جاب نہیں کرنی۔ یہاں دونوں میاں بیوی نے ملازمت تلاش کی۔ اور ہم ایک سال کے اندر پاکستان سے تین سو گنا زیادہ پیسے کمانے لگے۔ ایک پیسہ بھی حرام نہیں تھا۔ سوچتا ہوں کاش ان سب لوگوں کو وہ رقم واپس کر سکوں جو ان سے ناجائز لی۔ اس کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ وہ پیسے کوئی چھ سات کروڑ بنتے ہیں۔ نیت کر لی ہے کہ اللہ اس قرض کو اتارنے سے پہلے موت نہ دینا۔ اس کو لوٹانے کا کوئی طریقہ تلاش کر رہا ہوں۔ اور یہ سوچتا ہوں کہ رزق ہماری قسمت میں وہی ہوتا ہے۔ بس ہمارا اپنا اختیار ہے اسے حلال ذرائع سے کمائیں یا حرام سے۔ وہاں میری پرموشن ہونی تھی اب۔ اور اتنے ہی پیسے کمانے تھے ماہانہ دس بارہ لاکھ۔ جو اب کما رہا ہوں۔ اس میں اسی فیصد حرام ہونا تھا۔ اور یہاں ایک پائی بھی حرام کی نہیں ہے۔
یہ بھی سمجھ چکا ہوں۔ معذور بچے ہمارے گناہوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ وہ ہماری لائف میں کچھ ایسا لے کر آتے ہیں۔ جو پہلے نہیں ہوتا۔ میں اپنی بات کروں تو مجھے حیوان سے انسان ہی ان بچوں نے بنایا ہے۔ہمارا ٹوٹتا ہوا تعلق ان بچوں نے بچایا ہے۔ اور مجھے وہ راہ دکھائی جس کا میں اصل میں مسافر تھا۔ یہ بچے نہ ہوتے تو شاید آج بھی میں وہی بے ضمیر، بے غیرت ، بے شرم اور شیطان صفت درندہ ہوتا۔ جو نہ کسی بیوہ کی مجبوری دیکھتا، نہ یتیم بچوں کی پینشن جاری کرتا، نہ بزرگوں کو ذلیل کرنا چھوڑتا۔لعنت ہے اس زندگی پر اس نظام پر اور اس کو ایسا بدبودار بنانے والے، چلتے رہنے دینے والے ارباب اختیار اور اسکے شراکت داروں ، سہولت کاروں، اور میرے اپنے اوپر۔
خطیب احمد