Voice of Sydney

Voice of Sydney Authentic and FASTEST WAY OF NEWS..

14/10/2025
سعد رضوی کے گھر پنجاب پولیس کے حالیہ ریڈ کے دوران برآمد ہونے والی ملکی و غیر ملکی کرنسی، طلائی زیورات، قیمتی گھڑیوں، پرا...
14/10/2025

سعد رضوی کے گھر پنجاب پولیس کے حالیہ ریڈ کے دوران برآمد ہونے والی ملکی و غیر ملکی کرنسی، طلائی زیورات، قیمتی گھڑیوں، پرائز بانڈز و دیگر سامان کی تفصیلات۔۔۔۔

14/10/2025

میرا نام رمضان ہے۔ میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں ایک آڈیٹر ہوں۔ اکاؤنٹس آفس وہ ہوتا ہے جہاں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن وغیرہ جاری ہوتی ہے۔ چپڑاسی سے لے کر ضلعی اکاؤنٹ آفیسر تک کیونکہ رشوت لیتے ہیں۔ تو میں نے جب سروس جائن کی چند دن بعد ہی دیہاڑی لگنی شروع ہوگئی۔ اکاؤنٹ آفسز میں ہم سارے جائز ناجائز کام رشوت لے کر کرتے ہیں۔ تنخواہ ہم بس وہاں جانے آنے کی لیتے ہیں۔ وہاں ایک ورک فولڈ کرنے ، فائل اوپن کرنے، کوئی کام کرنے کے پیسے سائل کو بذریعہ کلرکس یا ہمارے چپڑاسیوں کے ذریعے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ڈائریکٹ بھی ڈیل کر لیتے ہیں۔ پولیس تو پھر بھی شاید کسی سے نہ پیسے لیتی ہو مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہاں کوئی تگڑی سفارش آجائے بڑے افسر کی یا کسی ایم این اے ایم پی اے کی تو ریٹ کم یا بندہ دیکھ کر ویسے بھی کام ہوجاتے ہیں۔

پہلے پہل احساس ندامت رہتا تھا۔ بعد میں نجانے کیسے دل مطمئن ہوگیا۔ نئے سروس جائن کرنے والوں سے لے کر ریٹائر شدہ بزگ مرد و خواتین سے میں حرام خوری کے بنا کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔ ہم لوگ سیدھا جواب نہیں دیتے بس کام کو کرتے نہیں ہیں۔ یا فضول اعتراض لگاتے رہتے ہیں۔ اگلا بندہ ذلیل ہوکر رشوت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جتنا کسی کا سکیل ہے جتنے پیسوں کا کام ہے۔ اس کا اتنا ہی ریٹ ہوگا۔ بقایا جات کی ادائیگی میں ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد ادائیگی کا ریٹ اب لاکھوں میں ہے۔

شادی ہوئی۔ پہلا بیٹا نابینا پیدا ہوا۔ ماتھا ٹھنکا کہ یہ میرے گناہوں کی سزا تو نہیں۔ جو بھی جسٹیفکیشنز بنا رکھی تھیں۔ معلوم تو بہرحال تھا کہ خود بھی حرام کھاتا ہوں اور اہل و عیال کو بھی جو عیاشیاں میسر ہیں وہ سب حرام کی کمائی سے ہیں۔ ایک سوا لاکھ تنخواہ سے کیا بنتا ہے۔ جبکہ میرے ریگولر اخراجات چار سے پانچ لاکھ تھے۔ دو تین گرل فرینڈز کے بھی تمام اخراجات ادا کرنے ہوتے تھے۔ وہ سب بھی سرکاری ملازمین ہی تھیں۔ آفس کسی کام سے آئیں تو سیٹنگ بن گئی۔

خیر دوسری بیٹی پھر نابینا پیدا ہوئی۔ اس بار تو علاج بھی بہت کروایا۔ جدید سے جدید اسکیننگ کروائی۔ پہلے بیٹے کی تو آنکھیں ہی نہیں کھلتی تھیں۔ اس بار آنکھوں کی ساخت بہت پیاری اور نارمل تھی۔ مگر نور نہیں تھا۔ اب کی بار یہ خیال بہت حاوی ہوگیا کہ پکڑ ہوگئی ہے۔ پھر تاویلیں گھڑتا کہ میرے گناہوں کی سزا ان معصوموں کو کیوں؟ اللہ ایسے کیوں کرے گا؟ اب تک رشوت لینا نہیں چھوڑی۔ بلکہ اب ریٹس بڑھا دیے۔ کہ بچوں کا علاج بھی بہت مہنگا تھا۔ وہ بھی ساتھ شروع کروا دیا۔

کبھی کبھار کسی بزرگ کا کام فری بھی کرکے خود کو بڑا دیالو اور حاتم طائی سمجھنے لگتا۔ جب ڈاکٹر نے کہا آپ کے بچے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ جو مرضی کر لیں۔ یہ پیدائشی نابینا ہیں۔ تو میری بیوی نے طلاق کا مطالبہ کر لیا۔ وجوہات کئی تھیں۔ میرے افئیرز، بچوں سے لاپرواہی، اور رشوت لینا نہ چھوڑنا۔ اس سے کوئی اچھا سلوک نہ کرنا۔ میرے گھر والوں کا اس پر ان معذور بچوں کا الزام لگانا۔ وہ پڑھی لکھی تھی۔ پہلے تو سب سہتی رہی۔ پھر اس نے بہت اچھا کام کیا اور بچے چھوڑ کر اپنے بھائی کے پاس بحرین شفٹ ہوگئی۔ عدالت سے طلاق کا بھی نوٹس بھجوا دیا۔

مجھے گھر والوں نے کہا کہ تم بچے اس کو لکھ دو۔ دیگر الفاظ میں یہ کہہ دو یہ بچے میرے نہیں ہیں۔ ہم کیوں ان کو سنبھالیں۔ میری گرل فرینڈز بھی میرے ساتھ شادی کے لیے راضی تھیں مگر ان بچوں کو کوئی قبول نہیں کرنے والا تھا۔ نجانے کیا ہوا۔

میں نے اپنا اور بچوں کا پاسپورٹ بنوایا۔ بغیر کسی کو بتائے۔ بحرین چلا آیا۔ اپنی بیوی کے پاس۔ ریزائن لکھ کر ای میل کر دیا کہ جاب نہیں کرنی۔ یہاں دونوں میاں بیوی نے ملازمت تلاش کی۔ اور ہم ایک سال کے اندر پاکستان سے تین سو گنا زیادہ پیسے کمانے لگے۔ ایک پیسہ بھی حرام نہیں تھا۔ سوچتا ہوں کاش ان سب لوگوں کو وہ رقم واپس کر سکوں جو ان سے ناجائز لی۔ اس کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ وہ پیسے کوئی چھ سات کروڑ بنتے ہیں۔ نیت کر لی ہے کہ اللہ اس قرض کو اتارنے سے پہلے موت نہ دینا۔ اس کو لوٹانے کا کوئی طریقہ تلاش کر رہا ہوں۔ اور یہ سوچتا ہوں کہ رزق ہماری قسمت میں وہی ہوتا ہے۔ بس ہمارا اپنا اختیار ہے اسے حلال ذرائع سے کمائیں یا حرام سے۔ وہاں میری پرموشن ہونی تھی اب۔ اور اتنے ہی پیسے کمانے تھے ماہانہ دس بارہ لاکھ۔ جو اب کما رہا ہوں۔ اس میں اسی فیصد حرام ہونا تھا۔ اور یہاں ایک پائی بھی حرام کی نہیں ہے۔

یہ بھی سمجھ چکا ہوں۔ معذور بچے ہمارے گناہوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ وہ ہماری لائف میں کچھ ایسا لے کر آتے ہیں۔ جو پہلے نہیں ہوتا۔ میں اپنی بات کروں تو مجھے حیوان سے انسان ہی ان بچوں نے بنایا ہے۔ہمارا ٹوٹتا ہوا تعلق ان بچوں نے بچایا ہے۔ اور مجھے وہ راہ دکھائی جس کا میں اصل میں مسافر تھا۔ یہ بچے نہ ہوتے تو شاید آج بھی میں وہی بے ضمیر، بے غیرت ، بے شرم اور شیطان صفت درندہ ہوتا۔ جو نہ کسی بیوہ کی مجبوری دیکھتا، نہ یتیم بچوں کی پینشن جاری کرتا، نہ بزرگوں کو ذلیل کرنا چھوڑتا۔لعنت ہے اس زندگی پر اس نظام پر اور اس کو ایسا بدبودار بنانے والے، چلتے رہنے دینے والے ارباب اختیار اور اسکے شراکت داروں ، سہولت کاروں، اور میرے اپنے اوپر۔

خطیب احمد

13/10/2025
13/10/2025
نوٹس برائے ہڑتال             +++++نوید ملک سے ) : موجودہ ملکی حالات کے پیشِ نظر، بالخصوص مریدکے کے مقام پر تحریک لبیک پا...
13/10/2025

نوٹس برائے ہڑتال

+++++

نوید ملک سے ) : موجودہ ملکی حالات کے پیشِ نظر، بالخصوص مریدکے کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان کے نہتے کارکنان پر پولیس کی جانب سے فائرنگ اور وحشیانہ تشدد کے افسوسناک واقعہ کے نتیجے میں ملک بھر میں شدید اضطراب اور کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔

یہ اقدام سراسر غیر آئینی، غیر انسانی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے، جس کی بار ایسوسی ایشن گوجرخان سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

ان واقعات کے خلاف بطورِ احتجاج، بار ایسوسی ایشن گوجرخان نے فیصلہ کیا ہے کہ
کل بروز منگل، مورخہ 14 اکتوبر 2025ء کو مکمل ہڑتال (Strike) کی جائے گی۔

اس روز کوئی وکیل عدالتوں میں پیش نہیں ہوگا۔

یہ فیصلہ متاثرہ شہریوں سے اظہارِ یکجہتی اور ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا گیا ہے۔

محمد سعید اختر راجہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان
صدر، بار ایسوسی ایشن گوجرخان

محمد جاوید بھٹی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
سیکرٹری جنرل، بار ایسوسی ایشن گوجرخان

*امیربالاج ٹیپو کیس، طیفی بٹ کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت کے بعد پاکستان آمد کی اصل کہانی سامنے آگئی، مقامی اخبار نے بھان...
13/10/2025

*امیربالاج ٹیپو کیس، طیفی بٹ کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت کے بعد پاکستان آمد کی اصل کہانی سامنے آگئی، مقامی اخبار نے بھانڈا پھوڑ دیا*

*چوہدری مجاہد حسین RRP*

لاہور : امیربالاج ٹیپو کیس کے ملزم خواجہ تعریف گلشن بٹ عرف طیفی بٹ کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت کے بعد پاکستان آمد کی اصل کہانی مقامی اخبار سامنے لے آیا۔

روزنامہ جنگ کے لیے افضل ندیم ڈوگر نے لکھا کہ "رحیم یار خان میں مبینہ مقابلے میں ہلاک کیے گئے تعریف بٹ عرف طیفی بٹ کو پنجاب پولیس ریڈ وارنٹ پر دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان نہیں لائی بلکہ طیفی بٹ ایک عام مسافر کے طور پر غیرملکی پرواز میں تنہا دبئی سے کراچی پہنچے۔سی ٹی ڈی نے لاہور سے کراچی پہنچ کر طیفی بٹ کو ڈھائی بجے امیگریشن سے گرفتار کیا۔ دوسرے روز ہائی پروفائل ملزم کی رحیم یار خان میں مبینہ پولیس مقابلے میں موت واقع ہوئی۔
طیفی بٹ کے آخری گفتگو یہ تھی کہ پتا ہے مجھے پاکستان کیوں بلوایا گیا ہے اور میں وہ مسئلہ حل کر دونگا۔ اس نمائندے کے پاس موجود تعریف بٹ کی پاسپورٹ کی کاپی کے مطابق تعریف بٹ یکم جنوری 1957ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا پاکستانی پاسپورٹ کی 10 سال کے لیے آخری تجدید 2 دسمبر 2015ء میں کی گئی اور 29 نومبر 2025 کو زائد المیاد ہوگا"۔

ذرائع کے مطابق تعریف بٹ نے اسی پاسپورٹ پر دبئی سے کراچی کا سفر کیا۔ لاہور کے رہائشی 68 سالہ تعریف بٹ عرف طیفی بٹ پرواز ای کے 606 جمعہ کی رات 12 بجکر 48 منٹ پر کراچی پہنچے۔ کراچی ایئرپورٹ پر وہ ایک عام مسافر کے طور پر رات ڈیڑھ بجے لائن میں لگ کر امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے۔

ذرائع کے مطابق وہ کسی کی کسٹڈی میں نہیں تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اہلکار تھا بلکہ ہیڈ کوارٹر سے ملنے والی ہدایت پر سسٹم میں نام ہونے کی وجہ سے امیگریشن کاؤنٹر سے حراست میں لیا گیا۔ جس کے بعد لاہور کے چوہنگ تھانہ کے مقدمہ نمبر 1163/24 میں مطلوب ملزم کے طور پر پنجاب پولیس کو آگاہ کیا گیا۔ وہ کراچی ایئرپورٹ پر 12 گھنٹے سرکاری تحویل میں رہے۔

ایئرپورٹ ذرائع کے مطابق جمعہ کی دوپہر کی پرواز سے لاہور سے سی ٹی ڈی کی پولیس پارٹی کراچی پہنچی۔ نماز جمعہ کے بعد دوپہر ڈھائی بجے تعریف بٹ کو سی ٹی ڈی لاہور کی ٹیم کے حوالے کیا گیا۔ایئرپورٹ ذرائع کے مطابق طیفی بٹ کے پاس نہ کوئی درہم تھا اور نہ ہی روپیہ، موبائل فون یا کوئی دیگر سامان بھی نہیں تھا۔ صرف 1 پاسپورٹ اور پہنے ہوئے کپڑوں اور کیپ کے ساتھ سی ٹی ڈی پولیس کو حوالگی دی گئی۔

ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی کی ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران تعریف بٹ عرف طیفی بٹ نے کہا کہ پتہ ہے مجھے پاکستان کیوں بلوایا گیا ہے اور میں وہ مسئلہ حل کر دوں گا۔ ذرائع کے مطابق اگلے روز اس ہائی پروفائل ملزم کو کسی پرواز کی بجائے زمینی راستے سے کراچی سے لاہور کے لیے روانہ کیا گیا اور رحیم یار خان کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی موت واقع ہوئی

13/10/2025
اے حاکم وقت تیرے کردار پہ تھوتیری گفتار پہ لعنت، تیرے دربار پہ تھو🤬جس کے پلو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ۔ایسی دربار سے بخ...
13/10/2025

اے حاکم وقت تیرے کردار پہ تھو
تیری گفتار پہ لعنت، تیرے دربار پہ تھو🤬

جس کے پلو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ۔
ایسی دربار سے بخشی ہوئی دستار پہ تھو🤬

جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹتی ہو
ایسی تلوار مع صاحبِ تلوار پہ تھو۔🤬

شہر آشوب زدہ، اس پہ قصیدہ گوئی
گنبدِ دہر کے اس پالتو فنکار پہ تھو🤬

سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسر ہو خوشی
ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تھو🤬

روزِ اول سے جو غیروں کا وفادار رہا۔
شہرِ بد بخت کے اس دوغلے کردار پہ تھو🤬

زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور
عادلِ شہر! تِرے عدل کے معیار پہ تھو۔🤬

کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تِری دانش نے
اے عدو ساز! تِری دانشِ بیمار پہ تھو۔🤬

13/10/2025

لبیک یا رسول الللہ
لبیک لبیک

13/10/2025

فری فری فری فلسطین 🇵🇸
کل لندن میں ہونے والی Free Palestine Rally میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
شرکاء کا ایک ہی نعرہ تھا:
“فلسطین کو آزاد کرو!”

دنیا کے مہذب معاشرے جانتے ہیں کہ آزادیِ رائے ایک نعمت ہے —
اسی آزادی کی بدولت لوگ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔

افسوس کہ ہمارے اپنے اسلامی ملک 🇵🇰 میں
جہاں تحریک لبیک پاکستان نے بارہا مذاکرات کی اپیل کی،
وہاں جواب میں انہیں گولیوں کا تحفہ دیا گیا

FreePalestine

Address

Sydney, NSW

Telephone

+3263231818

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Voice of Sydney posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Voice of Sydney:

Share