13/12/2025
اسلام آباد کے ایک ہال میں ہر مسلک کے علماء ایسے جمع تھے جیسے امتِ مسلمہ کا درد وہیں ٹھہر گیا ہو، مگر اصل منظر تب بدلا جب وزیراعظم شہباز شریف اور ریٹائرڈ مگر عملی حکمران عاصم منیر داخل ہوئے۔ وہ علماء، جو ہر جمعے منبر پر یزید کے خلاف آگ اُگلتے ہیں اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کو جہاد بتاتے ہیں، یکدم ایسے کھڑے ہوئے جیسے کسی قطبِ زمانہ کی آمد ہو گئی ہو۔
کسی عمامے کے نیچے سے یہ سوال نہ اٹھا کہ ایک ریٹائرڈ جرنیل کس اختیار سے ملک پر قابض ہے، کس آئین میں اس بادشاہت کی گنجائش لکھی ہے؟ انسانی حقوق پامال ہیں، خواتین گھسیٹی جا رہی ہیں، سیاسی کارکن جیلوں میں سڑ رہے ہیں، مگر ان “وارثانِ دین” کے چہرے سرکاری مراعات کے نور سے جگمگا رہے تھے۔
وہی لوگ جو مدرسے کی رجسٹریشن سخت ہو جائے تو پورا ملک جام کر دیتے ہیں، آج ظلم کی چکی میں پستی خلقِ خدا پر خاموش تھے۔ نہ سانحہ ڈی چوک پوچھا، نہ لاپتہ لبیک کے علماء کا پتا، نہ یہ کہ ملک ہے یا کسی کی جاگیر۔ ہر کوئی صرف قصیدہ پڑھ کر اپنی وفاداری کی مہر لگوانے میں مصروف تھا۔
آخر میں دعائیں بھی مظلوم کی نہیں بلکہ ظالم کے حکومت کرنے کی مانگی گئیں۔ یوں لگا جیسے یزید مر چکا ہو، اس لیے نئے یزید کا احترام ہی وقت کا تقاضا ہے۔
خلاصہ کلام:= تاریخ گواہ ہے کہ ان جیسے علمائے کرام کی ہر نسل نے ہر دور میں اپنے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں بیچنے کیلئے ایمان اٹھایا ہوتا ھے۔