
09/07/2025
لومڑی کی کٹی ہوئی دُم — گروہی دباؤ، سچائی کی ثابت قدمی اور باطنی صداقت کی داستان
تحریر: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی
کہتے ہیں، ایک دن ایک لومڑی شکار میں جا پھنسی۔ تڑپتے تڑپتے اپنی دُم کھو بیٹھی۔ بےآبروئی کا بوجھ لیے جب وہ واپس اپنی بستی پہنچی، تو اس نے ایک چال چلی۔ اس نے دیگر لومڑیوں کو جمع کیا اور کہا:
"اے میری قوم! دُم محض ایک بوجھ ہے۔ یہ صرف زمانۂ جاہلیت کی علامت ہے، نہ زینت ہے، نہ کارآمد۔ آؤ، ہم سب اپنی دمیں کاٹ دیں۔ یوں ہم نئے زمانے کا آغاز کریں گے۔"
مگر ایک بوڑھی لومڑی نے غور سے سنا، تب مسکرا کر بولی:
"اے پیاری! اگر تُو یہ بات خود دُم رکھتے ہوئے کہتی، تو ہم مان لیتے۔ مگر تیری تو اپنی دُم ہے ہی نہیں۔"
یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے: جو شخص اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے سب کو گرا دینا چاہے، وہ دراصل نہ صرف خود فریب کھاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی راہِ باطل پر بلاتا ہے۔
قرآن کی روشنی میں — آزادی اور بصیرت کی دعوت
قرآنِ کریم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زبردستی ایمان نہیں آتا، اور حق و باطل کی راہیں واضح کر دی گئی ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت 256 فرماتی ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ
دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔
یہ آیت صرف عقیدے کے انتخاب کی آزادی نہیں دیتی، بلکہ ہر فکری غلامی سے نجات کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ اعلان ہے کہ انسان کو اپنی بصیرت سے کام لینا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے جذبات یا دھوکہ دہی کے پیچھے چلنا چاہیے
معاشرتی دباؤ — وہ زہر جو خاموشی سے رگوں میں اترتا ہے
آج کا انسان، اس سماج میں جیتا ہے جہاں ایک جیسا نظر آنا "محفوظ" سمجھا جاتا ہے۔ اختلاف کرنے والا "خطرہ" بن جاتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سچائی، آسانی کے لیے قربان کر دی جاتی ہے۔
برٹرینڈ رسل کا قول ہے:
> "اگر سب ایک ہی بات پر متفق ہوں، تو بھی ضروری نہیں کہ وہ بات درست ہو۔"
یہی بات اس حکایت میں جھلکتی ہے۔ جو لومڑی شور مچاتی ہے، اس کی آواز سچ کی ترجمان نہیں بن جاتی۔ سچ وہی ہوتا ہے جو دل کی گہرائی سے نکلے، نہ کہ محرومی کا لبادہ اوڑھے۔
کمدوسروں کے جذبات یا دھوکہ دہی کے پیچھے چلنا چاہیے۔
مغربی دانشوروں کی نظر میں اسکی تعریف فرد کی صدا ہجوم کے شور میں
فریڈرک نطشے، جو تہذیبوں کی جڑوں کو کھود کر دیکھتا ہے، ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان اپنی سچائی کو پہچانے — چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔
وہ کہتا ہے:
"جو کچھ انسان ہونا چھوڑ دے، وہی اس کے زوال کی نشانی ہے۔"
اس حکایت میں باقی لومڑیاں اپنی دُم کاٹنے پر رضامند ہو جاتی ہیں — نہ اس لیے کہ وہ دلیل سے قائل ہوئیں، بلکہ اس لیے کہ تنہا ہونے سے ڈرتی ہیں۔ اور یہی لمحہ ہے جب سچائی دم توڑتی ہے اور دکھاوا غالب آتا ہے۔
صداقت کی لغت
اس حکایت میں ایک آئینہ ہے — ہر اس دل کے لیے جو معاشرتی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے، سچ کی چھاؤں میں جینا چاہے۔
:صداقت کی لغت یوں ترتیب پاتی ہے
ضمیر🙏
بہتر راستہ 💝
حریت☂️
استقامت💓
تدبر💓
سچائی💡
جو دل ان الفاظ کو محض یاد نہیں رکھتا بلکہ اپنی زندگی کا اصول بناتا ہے، وہی اس فانی دنیا میں باقی رہتا ہے۔