Manqoolat

Manqoolat Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Manqoolat, News & Media Website, .

- founded by Syed Nizamuddin
- a online newspaper
- a source of neutral information
- a channel of authentic facts
- a preserver of our viewers opinions
- independent concepts and information
- digital media Plattform

لومڑی کی کٹی ہوئی دُم — گروہی دباؤ، سچائی کی ثابت قدمی اور باطنی صداقت کی داستانتحریر: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطب...
09/07/2025

لومڑی کی کٹی ہوئی دُم — گروہی دباؤ، سچائی کی ثابت قدمی اور باطنی صداقت کی داستان

تحریر: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی

کہتے ہیں، ایک دن ایک لومڑی شکار میں جا پھنسی۔ تڑپتے تڑپتے اپنی دُم کھو بیٹھی۔ بےآبروئی کا بوجھ لیے جب وہ واپس اپنی بستی پہنچی، تو اس نے ایک چال چلی۔ اس نے دیگر لومڑیوں کو جمع کیا اور کہا:
"اے میری قوم! دُم محض ایک بوجھ ہے۔ یہ صرف زمانۂ جاہلیت کی علامت ہے، نہ زینت ہے، نہ کارآمد۔ آؤ، ہم سب اپنی دمیں کاٹ دیں۔ یوں ہم نئے زمانے کا آغاز کریں گے۔"

مگر ایک بوڑھی لومڑی نے غور سے سنا، تب مسکرا کر بولی:
"اے پیاری! اگر تُو یہ بات خود دُم رکھتے ہوئے کہتی، تو ہم مان لیتے۔ مگر تیری تو اپنی دُم ہے ہی نہیں۔"

یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے: جو شخص اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے سب کو گرا دینا چاہے، وہ دراصل نہ صرف خود فریب کھاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی راہِ باطل پر بلاتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں — آزادی اور بصیرت کی دعوت

قرآنِ کریم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زبردستی ایمان نہیں آتا، اور حق و باطل کی راہیں واضح کر دی گئی ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت 256 فرماتی ہے:

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ

دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔

یہ آیت صرف عقیدے کے انتخاب کی آزادی نہیں دیتی، بلکہ ہر فکری غلامی سے نجات کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ اعلان ہے کہ انسان کو اپنی بصیرت سے کام لینا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے جذبات یا دھوکہ دہی کے پیچھے چلنا چاہیے

معاشرتی دباؤ — وہ زہر جو خاموشی سے رگوں میں اترتا ہے

آج کا انسان، اس سماج میں جیتا ہے جہاں ایک جیسا نظر آنا "محفوظ" سمجھا جاتا ہے۔ اختلاف کرنے والا "خطرہ" بن جاتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سچائی، آسانی کے لیے قربان کر دی جاتی ہے۔

برٹرینڈ رسل کا قول ہے:

> "اگر سب ایک ہی بات پر متفق ہوں، تو بھی ضروری نہیں کہ وہ بات درست ہو۔"

یہی بات اس حکایت میں جھلکتی ہے۔ جو لومڑی شور مچاتی ہے، اس کی آواز سچ کی ترجمان نہیں بن جاتی۔ سچ وہی ہوتا ہے جو دل کی گہرائی سے نکلے، نہ کہ محرومی کا لبادہ اوڑھے۔

کمدوسروں کے جذبات یا دھوکہ دہی کے پیچھے چلنا چاہیے۔

مغربی دانشوروں کی نظر میں اسکی تعریف فرد کی صدا ہجوم کے شور میں

فریڈرک نطشے، جو تہذیبوں کی جڑوں کو کھود کر دیکھتا ہے، ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان اپنی سچائی کو پہچانے — چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔
وہ کہتا ہے:
"جو کچھ انسان ہونا چھوڑ دے، وہی اس کے زوال کی نشانی ہے۔"
اس حکایت میں باقی لومڑیاں اپنی دُم کاٹنے پر رضامند ہو جاتی ہیں — نہ اس لیے کہ وہ دلیل سے قائل ہوئیں، بلکہ اس لیے کہ تنہا ہونے سے ڈرتی ہیں۔ اور یہی لمحہ ہے جب سچائی دم توڑتی ہے اور دکھاوا غالب آتا ہے۔

صداقت کی لغت

اس حکایت میں ایک آئینہ ہے — ہر اس دل کے لیے جو معاشرتی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے، سچ کی چھاؤں میں جینا چاہے۔

:صداقت کی لغت یوں ترتیب پاتی ہے
ضمیر🙏
بہتر راستہ 💝
حریت☂️
استقامت💓
تدبر💓
سچائی💡

جو دل ان الفاظ کو محض یاد نہیں رکھتا بلکہ اپنی زندگی کا اصول بناتا ہے، وہی اس فانی دنیا میں باقی رہتا ہے۔

وقتی مفاد یا وسیع تر مفاد: ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پاکستان کی علاقائی پالیسی کا امتحانتحریر:نظام الدین سیدفرینکفرٹ جرمنیمن...
20/06/2025

وقتی مفاد یا وسیع تر مفاد: ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پاکستان کی علاقائی پالیسی کا امتحان

تحریر:نظام الدین سید
فرینکفرٹ جرمنی
منقولات

جنرل عاصم منیر کی حالیہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمت عملی میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

اصولی طور پر اس طرح کی ملاقاتیں ماضی کا حصہ بھی رہی ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف مرحوم نے جو کہ انتہائی حاضر دماغ اور حالات پر نظر رکھنے والے انسان تھے ایک بہترین طریقے سے اپاکستان کے معاملات کو بین الاقوامی سیاست میں منوایا ۔ سب دیکھنا یہ ہے ۔ کہ پاکستانی فیلڈ جنرل عاصم منیر بھی جنرل پرویز مشرف کی راہ پر چلتے ہوئے انہی کی طرح کامیاب ہونگے؟

مندرج ذیل اس ملاقات کے حوالے سے ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔

اس ملاقات کو بعض حلقے وقتی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں تو بعض اسے پاکستان کی طویل المدتی خارجہ پالیسی اور اس کے روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے لیے ایک کڑا امتحان سمجھتے ہیں۔

ٹرمپ کے خیالات اور ملاقات کا پس منظر کیا تھا اور انھوں نے کس طرح اپنا نقطه نظر بیان کیا۔
صدر ٹرمپ نے اس ملاقات میں نہ صرف جنرل منیر کی تعریف کی بلکہ انہیں "انتہائی ذہین" قرار دیتے ہوئے اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ جنگ کو روکا۔ ٹرمپ نے کہا:
> "دو بہت ذہین لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس جنگ کو جاری نہ رکھا جائے، ورنہ یہ ایٹمی جنگ بن سکتی تھی۔"

ٹرمپ نے ایران-اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں بھی پاکستان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پاکستان ایران کو "بہتر جانتا ہے" اور اس کی خطے میں اہمیت برقرار ہے۔ اس ملاقات میں تجارتی تعلقات، انسداد دہشت گردی تعاون اور علاقائی استحکام پر بھی بات ہوئی۔

سید طلعت حسین جو کہ پرو اسٹیبلشمنٹ صحافی ہیں کا تجزیہ:
سینئر اینکر سید طلعت حسین نے اپنے پروگرام میں اس ملاقات کے پس منظر اور محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تعلقات اکثر "ٹرانزیکشنل" یعنی وقتی مفادات پر مبنی رہے ہیں۔ طلعت حسین نے نشاندہی کی کہ امریکہ کو پاکستان پر طالبان سے تعلقات اور 'ڈبل گیم' کا شبہ رہتا ہے، جبکہ پاکستان کو بھارت-امریکہ قربت پر تحفظات ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو خود بھی نہیں معلوم کہ اس تعلق کو کیسے آگے بڑھانا ہے، اور یہ دونوں ممالک کے لیے تشویش کی بات ہے۔
پاکستان اور امریکا کے اسٹرٹیجک ایکسپرٹ ملیحہ لودھی کا تجزیہ:

سابق سفیر ملیحہ لودھی نے اس صورتحال کو بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کے تناظر میں دیکھا۔ ان کے مطابق دنیا اب کثیر قطبی ہو رہی ہے اور پاکستان کو اپنی معاشی طاقت اور سیاسی استحکام پر توجہ دینی ہوگی۔ لودھی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں براہ راست مداخلت کے بجائے اسے دہشت گردی کا مرکز نہ بننے دینے پر زیادہ فوکس کر رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اصل پیش رفت پاکستان کی معاشی و سیاسی مضبوطی سے مشروط ہے۔

زلمے خلیل زاد کی تنقید کو مندرجہ ذیل میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اس ملاقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق پاکستانی فوج نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ "ڈبل گیم" کھیلا ہے: ایک طرف امریکی امداد لی، دوسری طرف دہشت گردوں کو پناہ دی۔ خلیل زاد کے مطابق جنرل منیر کے ایجنڈے میں امریکی سرمایہ کاری، افغانستان میں امریکی مفادات کی حفاظت، چین کے ساتھ رابطے اور اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرنا شامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل منیر پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی موجودگی اور بلوچستان میں شورش جیسے مسائل بدستور موجود ہیں۔

ٹرمپ کی پالیسی پاکستان کے لئے کیا ہے؟ وقتی رومانس یا اسٹریٹیجک تبدیلی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی پاکستان کے ساتھ حالیہ گرمجوشی کو زیادہ تر ذاتی اور وقتی مفادات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جیسے ہی خطے میں ایران-اسرائیل کشیدگی بڑھی، امریکہ نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کیا۔ ٹرمپ نے پاکستان کو چین سے دور کرنے اور امریکی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے تجارتی مراعات، جدید اسلحہ اور اقتصادی تعاون کی پیشکش کی۔ تاہم، اس کے جواب میں پاکستان کو چین اور ایران جیسے روایتی اتحادیوں کے ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
علاقائی اور داخلی اثرات پر اس ملاقات کے اثرات کا تجزیہ:

-بھارت بھی اس ملاقات کو بھارت میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔
چین کے خلاف امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کو چین کے اثر سے نکالا جائے، لیکن پاکستان کے لیے یہ توازن برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔
داخلی سیاست میں اس ملاقات نے پاکستان میں سول-ملٹری توازن اور سیاسی شفافیت پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس بات پر تنقید کر رہی ہیں کہ اہم فیصلے بند کمروں میں ہو رہے ہیں-

آخر میں تجزیاتی رائے کے طور پر کہا جاسکتا یے۔ کہ جنرل منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات پاکستان کے لیے وقتی سفارتی کامیابی ضرور ہے، لیکن اس کے طویل المدتی اثرات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ پاکستان کس طرح اپنے روایتی اتحادیوں، داخلی سیاست اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ سید طلعت حسین، ملیحہ لودھی اور زلمے خلیل زاد جیسے تجزیہ کاروں کی آراء اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ "وقتی رومانس" پاکستان کے لیے ایک بڑے اسٹریٹیجک امتحان سے کم نہیں۔

US President Donald Trump on Wednesday praised Pakistan Army Chief Asim Munir for his alleged role in preventing an escalation of the conflict between India and Pakistan, as he hosted the latter for a lunch meeting at the White House.

18/06/2025

اسرائیل کی عسکری مہم جوئی: حکمت سے عاری ایک خطرناک خودفریبی

جب ایک قوم اپنی بقا اور سلامتی کے نام پر ایسی مہمات میں الجھ جائے جن کے نتائج بارہا تاریخ کے آئینے میں ناکامی کی صورت میں سامنے آ چکے ہوں، تو یہ نہ صرف اس قوم بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ اسرائیل کی حالیہ پالیسیاں، بالخصوص ایران کے خلاف فضائی حملوں کی تیاری، ایک ایسی ہی خودفریبی کی مثال ہیں، جو نہ صرف عسکری بلکہ اخلاقی طور پر بھی ایک بند گلی (Dead End) کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
اس تناظر میں اسرائیل کی مہم جوئی جو کہ صرف جنگی جنون کی مظہر ہے، بلکہ ایک ایسی راہ ہے جس کا انجام مزید خونریزی، عدم استحکام اور عسکری شدت پسندی کی نئی لہر ہو گا — اور یہی دراصل ایک زیادہ ریڈیکل ایران کی پیدائش کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

فضائی طاقت: ایک آزمودہ اور ناکام حکمت عملی

پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لے کر اب تک، چالیس سے زائد بڑے فضائی حملوں بشمول یوکرین کی موجودہ اور غزہ پر تا حال جاری بمباری کی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی ریاستی نظام کو گرانے یا کوئی سیاسی یا جغرافیائی تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس، ان حملوں نے صرف قوم پرستی کو بڑھایا، داخلی مزاحمت کو طاقت بخشی اور خارجی مداخلت کے خلاف رائے عامہ کو مزید سخت کر دیا۔

امریکہ اور روس جیسے عسکری جائنٹ بھی صرف فضائی طاقت کے بل بوتے پر مطلوبہ اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل، جو ان کے مقابلے میں نسبتاً محدود وسائل رکھتا ہے، اسی ناکام حکمت عملی کو دہرا رہا ہے، حالانکہ نتائج کا اندازہ پہلے ہی لگایا جا سکتا ہے۔

ایران کا ایٹمی پروگرام اور اس کی حقیقت

ایران کی نیوکلیئر تنصیبات، جیسا کہ نطنز یا فردو، زمین کے اندر کئی میٹر گہرائی میں موجود ہیں۔ ان کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کے مخصوص "بنکر بسٹر" بم درکار ہیں، جو اسرائیل کے پاس موجود نہیں۔ البتہ بو شہر کا ایٹمی ری ایکٹر ایک ممکنہ ہدف ہو سکتا ہے، لیکن اس پر حملے کے نتائج نہ صرف ایران بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے ماحولیاتی تباہی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ تابکاری کے بادل سرحدوں کی تمیز نہیں رکھتے۔

جنگ کا دھوکہ اور زمینی حقائق

فرض کریں کہ اسرائیل کسی بڑی عسکری کارروائی میں کامیاب بھی ہو جائے، تو بھی کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کتنی متاثر ہوئی۔ اس کا پتہ صرف زمینی معائنہ سے لگایا جا سکتا ہے، جو عملی طور پر ناممکن ہے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی، ایران اتنا یورینیم بچا چکا ہو گا کہ وہ مختصر وقت میں دوبارہ اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو بحال کر سکتا ہے۔ یوں یہ تمام مہم ایک بے نتیجہ مشق ثابت ہو گی۔

اسلامی تناظر: طاقت کا صحیح مصرف

اسلامی تعلیمات میں جنگ آخری حل ہے، نہ کہ سیاسی ترجیحات کی تکمیل کا ذریعہ۔ قرآن کریم ہمیں انصاف، توازن اور حکمت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کی تلقین کرتا ہے:

> "وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ"
(سورۃ الانفال 8:61)

اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔

عالمی سطح پر فکری بحران

فارن افیئر جیسے معتبر ادارے اب صرف رپورٹنگ نہیں کر رہے، بلکہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں: کیا دنیا اس وقت صرف عسکری ڈیڈ اینڈ پر کھڑی ہے؟ کیا جنگ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں؟

یہ سوالات یورپ میں بھی گونج رہے ہیں، جہاں امن، مکالمہ اور قانونی حلوں پر ہمیشہ زور دیا گیا ہے۔ چین اگر پُل نہیں بن سکتا، تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ دنیا نے عقل کو قربانی کا بکرا بنا کر صرف عسکری طاقت پر انحصار کیا ہے۔

جنگی جنونیوں کے بیچ اصل جنگ اب فہم و فراست کی ہے، جہاں قوموں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھیں گی یا اسے دہراتی رہیں گی — ہر بار زیادہ تباہی کے ساتھ۔

الداعی الی الخیر
خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی

16/06/2025

آج کی مسلم امہ بقا کی جنگ میں اصولوں کی اہمیت:

مسلمانوں کی تاریخ پر اگر ایک سنجیدہ نظر ڈالی جائے تو ایک تلخ حقیقت بار بار سامنے آتی ہے: جب بھی امت مسلمہ کو بیرونی دشمن کا سامنا کرنا پڑا، اندرونی اختلافات اور خلفشار نے اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ حالیہ ایران-اسرائیل جنگ اس کی تازہ مثال ہے، جہاں دشمن نے اندرونی غداروں کے ساتھ مل کر قیادت اور دفاعی نظام کو ایک ہی وار میں کمزور کر دیا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے پوری امت کو ہلا کر رکھ دیا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اندرونی طور پر دشمن کی مدد کرتے ہیں، وہ یقیناً غدارِ قوم ہیں۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا پچاس برس تک عوام کو ریاستی طاقت سے دبانے نے اس غداری کی راہ ہموار نہیں کی؟

پاکستان کی تاریخ میں بقا کی جنگ
پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ بھی اسی المیے کی عکاس ہے۔ یہاں ہر طبقہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور رہا ہے۔ یہ جنگ بظاہر فطری عمل ہے، خاص طور پر ایک نوآزاد ریاست کے ابتدائی دور میں، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس جدوجہد میں طاقتور طبقات نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ کمزور طبقات کو اپنی مرضی کے مطابق مواقع اور میدان فراہم کیے گئے، اور اصل آزادی اور سچائی پس پشت ڈال دی گئی۔

اصل خرابی کی جڑ
پاکستانی معاشرے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ طاقتور حلقے ہمیشہ کھیل کے امپائر رہے ہیں۔ جب بھی کسی نے ان کے فیصلے کو چیلنج کیا، بساط ہی الٹ دی گئی۔ پس پردہ قوتیں ہمیشہ ڈوریاں ہلاتی رہیں اور ہار جیت کا فیصلہ انہی کے ہاتھ میں رہا۔ عام آدمی یا کمزور طبقہ صرف ایک مہرہ بن کر رہ گیا، جس کی چالیں بھی محدود اور طے شدہ تھیں۔

سیاست اور عوام
آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ بغیر طے شدہ "پیرامیٹرز" کے کچھ بھی ممکن نہیں۔ عوام کو ہر دور میں مختلف نعروں اور وعدوں کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ڈیجیٹل دور نے اس کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے، جہاں جھوٹ اور سچ کا فرق مٹتا جا رہا ہے اور سچائی کو دبانا پہلے سے زیادہ سہل ہو گیا ہے۔

شخصیت پرستی: ایک بڑی کمزوری
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری شخصیت پرستی ہے۔ ہم اصولوں اور قوانین کے بجائے افراد کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہمارا پسندیدہ ہے تو اس کا جھوٹ بھی سچ لگتا ہے، اور اگر ناپسندیدہ ہے تو اس کی سچائی بھی ہمیں قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار دھوکہ کھاتے ہیں، جیسا کہ اب تک کے ادوار میں ہوا، اور آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔

اصلاح کی راہ
اگر ہم واقعی بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرتی جدوجہد کو اصولوں اور قوانین کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ ہر فرد اور ہر طبقہ کو چاہیے کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سچائی اور انصاف کی راہ اپنائے۔ یہ سفر یقیناً مشکل اور کٹھن ہے، لیکن یہی ہمارے دین کی اصل تعلیمات بھی ہیں۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آیا ہم شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں یا اصولوں کی بنیاد پر جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔

نتیجہ
اگر ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو آنے والے وقت میں بھی ہم دھوکہ کھاتے رہیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں اور ایک اصولی و سچی جدوجہد کی بنیاد رکھیں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور انصاف پر مبنی معاشرہ مل سکے۔

الداعی الی الخیر
خاکسار: پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی

15/06/2025

سامراج کا طاقتور طبقہ اور پاکستان کا اصل مسئلہ

تحریر: خاکسار پیرزادہ نظام الدین قطبی چشتی

پاکستان اس وقت بیک وقت سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ آئے روز نئے مسائل جنم لے رہے ہیں، لیکن جب ان بحرانوں کی جڑ تلاش کی جائے تو اکثر تجزیہ نگار عوام کی بے حسی یا ریاستی اداروں کی کوتاہیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

اصل مسئلہ "رولنگ ایلیٹ" یعنی وہ اشرافیہ ہے جو مختلف اداروں سے تعلق رکھتی ہے، مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے: طاقت، وسائل اور اختیار پر مکمل قبضہ۔ یہ طبقہ اپنے آپ کو قانون، انصاف، اخلاقیات اور احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اور تمام ریاستی وسائل کو اپنے لیے مخصوص کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتا۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ستم ظریفی

سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم) کی بنیاد ہی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر رکھی گئی ہے۔ طاقتور طبقہ اپنے لیے معاشی کیک کا سب سے بڑا ٹکڑا رکھ لیتا ہے اور عوام کو صرف ٹکڑوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں یہ تقسیم ہر شعبے میں نظر آتی ہے — تعلیم سے لے کر صحت تک، بجٹ سے لے کر سبسڈی تک۔

پاکستانی اشرافیہ ہر طرح کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے، جبکہ عوام مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے کربناک مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ وہی سامراجی سوچ ہے جس کے خلاف تحریکیں اٹھیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں وہی سوچ آج ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔

دفاعی بجٹ یا اشرافیہ کا بجٹ؟

دفاعی بجٹ کا معاملہ بھی خاص تجزیے کا متقاضی ہے۔ اصولی طور پر، پاکستان جیسے ملک کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، خاص طور پر جب یہ اخراجات ڈالر میں ہوتے ہیں، اور ڈالر کی قیمت پچھلے تین برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔

مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ جب ہم اشرافیہ کے غیر ترقیاتی اخراجات دیکھتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اصل ترجیح قومی سلامتی نہیں بلکہ ذاتی آسائشیں ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکمران طبقے کے ذاتی مفادات پر ہونے والے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ دفاعی بجٹ کا اضافہ 20 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "قومی مفاد" کی آڑ میں درحقیقت ذاتی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

مذہب، حب الوطنی اور سچائی کی قربانی

بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب اور حب الوطنی جیسے پاکیزہ جذبات کو اشرافیہ کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کوئی اس ظالمانہ نظام پر سوال اٹھاتا ہے، اسے فوری طور پر "غدار" اور "پاکستان دشمن" کا لیبل دے دیا جاتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ نے نہ صرف سچائی کا گلا گھونٹا ہے بلکہ ایک اجتماعی نفاق کو جنم دیا ہے۔

سوال یہ ہے: غدار کون ہے؟ وہ جو سچ بولتا ہے، یا وہ جو اس نظام کے جھوٹ کو مضبوطی فراہم کرتا ہے؟ کیا آج کی اشرافیہ ان مقدس اسلامی شخصیات سے بھی برتر ہو گئی ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں تنقید کو کھلے دل سے سنا، برداشت کیا، اور اصلاح کو قبول کیا؟

اگر صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدینؓ نے اپنے خلاف اعتراضات پر صبر کیا، تو آج کی اشرافیہ کس بنیاد پر تنقید سے چراغ پا ہوتی ہے؟ اور پھر ریاستی طاقت کے زور پر سچ بولنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان پر الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اور ان کے چاہنے والے بغیر سوچے سمجھے ان پر لعن طعن کرتے ہیں — کیا یہ ظلم کا ساتھ دینا نہیں؟

وقت ہے بیداری کا

یہ وقت ہے کہ ہم حقیقت کو پہچانیں، سچائی سے منہ نہ موڑیں، اور اس نظام کی اصلاح کی طرف قدم بڑھائیں۔ سچ بولنے والوں کو تنہا نہ چھوڑیں، بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ کل کوئی ہمیں بھی ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین ثم آمین

07/06/2025
عالمی ڈیٹا لیک میں 18 کروڑ 40 لاکھ پاکستانی صارفین کو خطرہ: تحریر: سید نظام الدین فرینکفرٹ جرمنیگلوبل ٹیک کمپنیوں بشمول ...
27/05/2025

عالمی ڈیٹا لیک میں 18 کروڑ 40 لاکھ پاکستانی صارفین کو خطرہ:
تحریر: سید نظام الدین فرینکفرٹ جرمنی

گلوبل ٹیک کمپنیوں بشمول گوگل، مائیکروسافٹ، ایپل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین کے اکاؤنٹس کی معلومات ایک بڑے ڈیٹا لیک میں سامنے آئی ہیں۔ پاکستان کی قومی سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (این سی ای آر ٹی) نے فوری اقدامات کی ہدایت جاری کی ہے۔

بنیادی تفصیلات
انفارمیشن اسٹیلر میلویئر کے ذریعے چوری کیے گئے ڈیٹا میں صارفین کے ای میلز، پاس ورڈز اور دیگر حساس معلومات شامل ہیں۔

یہ ڈیٹا بغیر کسی خفیہ کاری (پلین ٹیکسٹ) کے عوامی طور پر دستیاب تھا، جسے کوئی بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ایکسس کر سکتا تھا۔

بینکاری، سرکاری پورٹلز اور ہیلتھ کیئر پلیٹ فارمز کے اکاؤنٹس بھی متاثر ہوئے ہیں۔

ممکنہ خطرات
اکاؤنٹ ہائی جیکنگ: چوری شدہ پاس ورڈز کی مدد سے ہیکرز آپ کے سوشل میڈیا یا بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

فشنگ حملے: ذاتی معلومات استعمال کرکے جعلی ای میلز یا میسج بھیجے جا سکتے ہیں۔

رینسم ویئر: کاروباری یا سرکاری اداروں کے سسٹمز کو لاک کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

فوری اقدامات
صارفین کے لیے:

تمام اہم اکاؤنٹس کے پاس ورڈز فوری تبدیل کریں، خاص طور پر وہ جو دہرائے جاتے ہوں۔

ملٹی فیکٹر تصدیق (MFA) کو فعال بنائیں۔

پاس ورڈز کو محفوظ رکھنے کے لیے پاس ورڈ مینیجر استعمال کریں۔

مشکوک ای میلز یا لنکس پر کلک کرنے سے گریز کریں۔

اداروں کے لیے:

ملازمین کو فشنگ آگاہی ٹریننگ دیں۔

حساس ڈیٹا تک رسائی کو کم از کم سطح (Least Privilege) تک محدود کریں۔

سسٹمز میں غیر معمولی سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔

ماضی کے واقعات سے سبق
یہ واقعہ 2024 میں نادرا کے 27 لاکھ ریکارڈز لیک ہونے کے بعد پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کے کمزور ہونے کی طرف ایک اور اشارہ ہے۔ این سی ای آر ٹی نے زور دیا ہے کہ فوری اقدامات نہ کرنے کی صورت میں حکومتی اور مالیاتی نظاموں کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

طاقت اور طاقتوروں کی حدود: معاشرے اور زندگی میں تشدد کے چکر سے نکلنے کی راہ  تحریر: سید نظام الدین فرینکفرٹ جرمنیانگلش پ...
26/05/2025

طاقت اور طاقتوروں کی حدود:
معاشرے اور زندگی میں تشدد کے چکر سے نکلنے کی راہ
تحریر: سید نظام الدین فرینکفرٹ جرمنی

انگلش پڑھنا اور پڑھانا آسان نہی سیکنڈری اسکولوں میں بتدریج انگلش کے استاد خشک مزاج لوگ ہوتے ہیں ایسے ہی ہمارے ایک محترم استاد تھے جو کہ اسکول میں بیت کی چھڑی پر اسکواش ٹیپ لگا کر لاتے تھے اور یہی انکی پہچان تھی۔ ایک دفاعی پڑنے والی چھڑی کا نشان ہفتوں نہی جاتا۔ مجھے پتہ نہیں اس پر میں فخر کروں یا پھر شرمندگی سے بیان کروں؟

زندگی کے ہر شعبے میں طاقت اور تشدد کا بے جا استعمال پاکستانی معاشرے کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل رہا ہے جہاں ہر مسائل کا حل صرف طاقت کے بل پوتے پر تلاش کیا جاتا ہے۔ گھر کی چار دیواری سے لے کر ریاستی پالیسیوں تک، ہر سطح پر جبر اور دباؤ کا کلچر معاشرتی رگوں میں زہر گھول رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف خاندانی تعلقات کو متاثر کر رہا بلکہ تعلیمی اداروں، سماجی رشتوں اور حتیٰ کہ قومی سلامتی کے تصورات کو بھی داغدار بنا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، تشدد کا یہ سلسلہ دراصل ایک ایسی نفسیاتی بیماری کی علامت ہے جو معاشرے کے اجتماعی شعور کو مفلوج کر چکی ہے۔ طاقت کے نشے میں چور ہو کر ہم یہ بھول گئے ہیں کہ حقیقی اختیار کا تعلق کسی کو زیر کرنے سے نہیں بلکہ اعتماد اور ہم آہنگی پیدا کرنے سے ہے۔

گھریلو تشدد: طاقت کا ناجائز استعمال
خاندانی ڈھانچے کا زوال
گھر کو معاشرے کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے، لیکن آج کل کے گھرانوں میں یہ اکائی اپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ چکی ہے۔ بڑوں کا رویہ چھوٹوں کے لیے رحم کی بجائے خوف کی فضا قائم کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار پیٹ، ذہنی اذیت اور جذباتی تشدد عام ہو چکا ہے۔ خاص طور پر خواتین اور بچے ان رویوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے بچے مستقبل میں یا تو مکمل طور پر مظلوم بن جاتے ہیں یا پھر تشدد کو ہی مسئلے کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔

طاقت کی نفسیاتی پیچیدگیاں
جب گھر کے بزرگ کسی اختلاف رائے پر تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ درحقیقت اپنی عقل کے بجائے عضلات کی طاقت پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی اخلاقی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ نئی نسل کو یہ غلط سبق دیتا ہے کہ طاقتور ہی حق پر ہے۔ نفسیات کی کتابوں میں اسے "سیکھی ہوئی بے بسی" (Learned Helplessness) کا نام دیا گیا ہے جہاں مظلوم اپنی حالت کو تقدیر سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں تشدد کی روایت

نصاب سے زیادہ چابک کا دبدبہ
سکول اور مدرسے وہ ادارے ہیں جو معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن آج کل یہی ادارے تشدد کی تربیت گاہیں بن چکے ہیں۔ استاد اور طالب علم کے درمیان تعلق مربی اور شاگرد کا نہیں رہا بلکہ ایک جیلر اور قیدی کا سا ہو گیا ہے۔ معمولی غلطیوں پر جسمانی سزائیں، ذہنی اذیتیں اور ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رویہ طلباء میں تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر دیتا ہے اور انہیں بغاوت پر مجبور کرتا ہے۔

خاموشی کی خطرناک ثقافت
اکثر اساتذہ خاموش جماعت کو نظم و ضبط کی علامت سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ خاموشی دراصل اندرونی کرب کا اظہار ہوتی ہے۔ جب بچے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے تو وہ دب کر رہ جاتے ہیں، اور یہ دباؤ کسی نہ کسی شکل میں پھٹتا ضرور ہے۔ کبھی یہ پھٹنے خودکشی کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

سماجی رویوں میں عدم رواداری

معمولی باتوں پر غیر متناسب ردعمل
آج کل معاشرے میں لوگوں کے چہروں پر اکھڑاپن، بات چیت میں تلخی اور رویوں میں درشتی عام ہو چکی ہے۔ کوئی معمولی سی غلطی ہو جائے تو اس پر ایسا ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ مثال کے طور پر سڑک پر ہونے والی معمولی سی ڑکڑائی کو لوگ اپنی "غیرت" کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور نتائج کی پروا کیے بغیر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ سماجی علوم کے ماہرین اس رویے کو "معاشرتی اضطراب" (Social Anxiety) کی علامت قرار دیتے ہیں۔

زبان کی جنگ سے ہتھیاروں کی جنگ تک
لفظوں کی لڑائی جب ہتھیاروں تک پہنچ جاتی ہے تو یہ پورے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں ہر سال ہزاروں کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں معمولی جھگڑوں نے قتل تک کی نوبت پہنچائی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم نے تنازعات کے پرامن حل کے طریقے سیکھنے ہی نہیں۔

ریاستی پالیسیوں میں طاقت کا کھیل

دہشت گردی کے خلاف جنگ: ایک ناکام تجربہ
ریاست نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طاقت کے بے دریغ استعمال کو ترجیح دی، لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے۔ ڈرون حملوں، فوجی آپریشنز اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں نے عوامی حمایت کھو دی اور نئی نسلوں میں ریاست کے خلاف نفرت پیدا کی۔ سیکیورٹی ماہرین کے مطابق، دہشت گردی محض فوجی مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاشی محرومیوں، تعلیمی کمی اور سماجی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔

عسکریت پسندی: وجوہات اور اثرات
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی کی وجوہات کو سمجھنے کی بجائے ریاست نے ہمیشہ طاقت کے ذریعے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ مقامی آبادی کے سیاسی اور معاشی حقوق کو نظرانداز کرنے کے نتائج میں ہمیں مزید بغاوتیں اور عدم استحکام دیکھنے کو ملا۔ بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق، طاقت کے بے جا استعمال نے مقامی لوگوں اور ریاست کے درمیان خلیج کو اور گہرا کیا ہے۔

تشدد کے متبادل: ممکنہ راستے

اخلاقی اقدار و اختیار کی بحالی
تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو اخلاقی بالادستی کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں، وہ زیادہ دیرپا اثرات چھوڑتی ہیں۔ مثال کے طور پر مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک نے برطانوی استعمار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح نلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد میں طاقت کے بجائے انسانی وقار کو ہتھیار بنایا۔

انسانی ترقی پر سرمایہ کاری
تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے ہم نوجوان نسل کو تشدد کی بجائے تعمیری سرگرمیوں کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ ماہرین معاشیات کے مطابق، ہر ڈالر جو بنیادی ڈھانچے پر خرچ کیا جاتا ہے، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر خرچ ہونے والے 10 ڈالرز کے برابر اثر رکھتا ہے۔

مہذب معاشرے میں طاقت کی نئی تعریف
طاقت کا مطلب کسی کو دبانا نہیں بلکہ خود کو سنوارنا ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں نرم گفتاری، تعلیمی اداروں میں ہمدردی اور ریاستی سطح پر انصاف کو فروغ دینا ہوگا۔ جب تک ہم طاقت کی اس نئی تعریف کو نہیں اپناتے، تشدد کا یہ چکر رکنے والا نہیں۔ آخر میں اقبال کا یہ شعر ہمارے لیے مشعل راہ ہو سکتا ہے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کر دے

بروز پیر مؤرخہ 05 مئی 2025فرینکفرٹ جرمنینظام الدین سید کے قلم سے:جرمنی کا ریاستی ادارہ تحفظ آئین (Verfassungsschutz) نے ...
05/05/2025

بروز پیر مؤرخہ 05 مئی 2025
فرینکفرٹ جرمنی
نظام الدین سید کے قلم سے:

جرمنی کا ریاستی ادارہ تحفظ آئین (Verfassungsschutz) نے بھی اے ایف ڈی (AFD) کو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی لسٹ میں شامل کردیا ہے۔

جو لوگ گزشتہ دس سالوں میں اے ایف ڈی کے سفر کو دیکھتے آئے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس جماعت نے کس طرح انتہا پسندی کا عمل طے کیا ہے-اور اس کی بڑھتی ہوئی ووٹرز کی تعداد نے ہر قدم پر اس انتہا پسندی کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بات وفاقی جمہوریہ کی مغربی جرمن پارٹی ریسرچ کی اس مفروضے کی نفی کرتی ہے کہ ایک دائیں بازو کی جماعت جتنی زیادہ انتہا پسند ہوگی، اتنے ہی ووٹرز کھو دے گی۔ اے ایف ڈی کے معاملے میں ووٹرز کا ردعمل بالکل الٹ ہے: ووٹرز نے جماعت کی ہر تقریری اور الیکشن اور اسکے علاوہ تمام پروگراموں میں انتہا پسند اظہار خیال اور اس سوچ کو رکھنے والے لوگوں کو سراہا ہے۔

جرمن معاشرے کے اعتدال پسند طبقے نے بھی اس میں وقتی طور پر حصہ لیا، جس میں انہوں نے پیگیڈا کے عروج کے بعد سے اے ایف ڈی کے ووٹرز اور حمایتیوں کو سیاسی سمجھوتے کی نرم چادر میں لپیٹ کر، خاص طور پر مشرقی جرمنی میں اس جماعت کی سیاسی معمولیت کا حصہ سمجھا۔
یہاںتک کے انہیں مین اسٹریم میڈیا میں جرمنی کے پچھلے الیکشن میں کافی سے زیادہ پذیرائی ملی۔
جس عوامی طور پر یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ جرمنی میں مہاجرین کے خلاف نفرت رکھنا اور امیگریشن کی مخالفت کرنا اس وقت کی ضرورت ہے۔
اور اس نظریہ ضرورت کے تحت اس معاملے میں دوسری جماعتوں کا سیاسی طور پر ہٹنے کا فائدہ نہی نقصان ہوا کیونکہ اس سے نہ تو ووٹرز واپس آئے اور نہ ہی حمایتی۔

- اور اب کیا آئندہ تحفظ آئین ہی اے ایف ڈی کو روکنے والا ہے؟

- اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا آئندہ تحفظ آئین کی رپورٹ اے ایف ڈی کے خلاف کسی عملی اثرات کا باعث بنے گی یا نہیں۔ اس بارے میں شبہات موجود ہیں؟

کیونکہ اصل میں یہ رپورٹ جماعت کی مقبولیت کی کمی اور اس کے موقف کی سیاسی پستی کے آغاز کی شروعات ہونی چاہیے۔

اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اے ایف ڈی کے سیاستدانوں کو ملک کی ٹاک شوز میں مدعو نہ کیا جائے، بلکہ یہ بھی ہوگا کہ جماعت کے نمائندے نازی دور کے متاثرین کی یاد میں منعقدہ تقریبات سے مکمل طور پر دور رکھے جائیں۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Manqoolat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Manqoolat:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share