26/07/2025
انسانی رویوں کے چار اہم انداز: جدید معاشرتی علوم اور اسلامی حکمت کی روشنی میں
تحریر و پیشکش: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی
گزشتہ سے پیوستہ تیسری اور آخری قسط
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آج کا ہمارا موضوع بہت اہم ہے اور ہر انسان کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ہم اس مضمون میں "انسانی رویوں کے چار بنیادی انداز" پر گفتگو کریں گے جو نہ صرف ذاتی تعلقات بلکہ ہمارے معاشرتی اور سماجی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کیوں کچھ لوگ ہمیشہ مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں اور معاشرے کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں، جبکہ کچھ افراد صرف اپنے ذاتی فائدے کے لیے کام کرتے ہیں، بعض اپنی مشکلات کے باوجود دوسروں کی فلاح کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، اور پھر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں نقصان دہ فیصلے کرتے ہیں، چاہے وہ خود بھی نفع نہ اٹھائیں؟
ان رویوں کو سمجھنا آج کے دور میں انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہماری دنیا پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ تو آئیں، ہم ان چار کرداروں کو جدید معاشرتی تحقیق، قرآن و حدیث، اور تصوف کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسانی رویوں کے چار مرکزی انداز
تصور کریں کہ کسی گاؤں میں مختلف لوگ رہتے ہیں جو چار بنیادی انداز میں پیش آتے ہیں:
1. معاشرتی تعاون کرنے والے (Pro-social / مثبت تعاون کرنے والے)
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی فلاح کے ساتھ دوسروں کے فائدے کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ جیسے جو میلاد، محلے کے فلاحی پروگرام، اور دیگر تقریبات کا اہتمام کرتی ہے، جہاں سب کو فائدہ پہنچتا ہے اور ماحول خوشگوار ہوتا ہے۔
یہ لوگ معاشرتی رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور ہر کسی کے لیے خوشخبری کا پیغام لے کر آتے ہیں۔
قرآنی پہلو:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
"وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (سورۃ القلم: ۴)
یعنی واقعی آپ (محمد ﷺ) بہت عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں واحد کامل اخلاق کی نمایاں خصوصیت رکھتے ہیں، جو pro-social رویے کی اصل تعریف ہے۔
2. موقع پرست اور خودغرض لوگ (Opportunistic / ایک طرفہ خود غرض)
یہ افراد صرف اپنی ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، دوسروں کا نقصان ہو یا نہ ہو ان کے لیے فرق نہیں پڑتا۔ فرض کریں کوئی ایسا شخص جو دفتر میں اپنے کام کبھی پورے فرض سے نہیں کرتا لیکن غیر منصفانہ طریقے سے کامیابیاں حاصل کر لیتا ہے۔
یہ لوگ سماجی نظام میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں اور معاشرتی بھروسہ کو ختم کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کی خبردار کیا ہے جو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں، ظلم کرتے ہیں اور خود غرضی میں مصروف رہتے ہیں۔
3. خود نقصان اٹھا کر دوسروں کی مدد کرنے والے (Over-adapted / Self-damaging helpers)
یہ وہ افراد ہیں جو دوسروں کے لیے اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اپنی صحت، مالی یا ذہنی حالت کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔
اسلام میں مدد و تعاون کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن اسلام معتدل رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے تاکہ کوئی اپنی ذات کو نقصان نہ پہنچائے۔
4. غیرمعقول تباہ کن رویہ رکھنے والے (Irrational / Destructive)
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے، بلکہ دوسروں کے لیے بھی نقصان دہ فیصلے کرتے ہیں، اور اکثر ان فیصلوں کا خود بھی شعور نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی سیاسی یا کاروباری فیصلہ جو ذاتی مفادات سے پاک ہو بلکہ مکمل غیر منطقی ہو اور معاشرہ یا ادارہ تباہ کر دے۔
ایسے رویے کو "ghaflah" (غفلت) کے ساتھ بھی تعبیر کیا جاتا ہے جو تصوف میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔
باب ۲: معاشرتی نقصان اور تباہ کن رویہ
جب غیر معقول اور تباہ کن رویے طاقت یا اختیار کے مواقع پر آ جاتے ہیں، تو نتیجہ انتہائی مایوس کن ہوتا ہے۔
مثلاً سیاسی قیادت میں غیر منطقی فیصلے قوم کو معاشی بحران اور سماجی انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ کاروباری حلقوں میں خودغرض اور غیر ذمہ دار عملی حکمت عملی اداروں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
ڈائیٹرش بون ہوفر نے فرمایا کہ:
"طاقت اکثر ایسے لوگوں کو جال میں پھنساتی ہے جو حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں۔"
یہی حال آج کل کے سوشل میڈیا کا بھی ہے جہاں سطحی اور جذباتی پیغامات کو ترجیح دی جاتی ہے، جبکہ سنجیدہ مباحثے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
باب ۳: روحانی زاویہ — قرآن، حدیث و تصوف کی روشنی میں
قرآن پاک میں مسلمان کو اخلاق حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس کے ساتھ عدل کا حکم دیتا ہے — جس کا مطلب ہے توازن اور انصاف۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:
"إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ"
یعنی میں بھیجا گیا ہوں تاکہ بہترین اخلاق کی تکمیل کروں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا کردار اور رویہ دین کا اہم حصّہ ہے۔
تصوف میں نفس کے اندرونی صفائی اور خودی کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے تاکہ انسان اپنی انا کو قابو پائے، اور مسلسل خود شناسی و اصلاح سے کامل بنے۔
باب ۴: روزمرہ میں اطلاق – چند عملی تجاویز
خوداحتسابی:
کیا آپ کبھی اتنا دوسروں کی مدد کرنے لگے ہیں کہ اپنی صحت اور ذہنی سکون کو نظر انداز کر بیٹھے؟ آپ کو اپنی حدود کا ادراک ہونا چاہیے۔
کبھی غور کریں، آپ کی ہر عمل کی نیت کیا ہے؟ کیا آپ کی کارروائی آپ کے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہے؟
حد بندی اور توازن:
ایثار اچھی روایت ہے، مگر خود کو برباد کرنا نہیں۔ اسلام ہمیں سیکھاتا ہے کہ یعنی مؤمن وہ ہے جو اپنے بھائی سے محبت کرتا ہے اور خود کا بھی خیال رکھتا ہے۔
معاشرتی تعاون اور تنقید کی تہذیب:
موقع پرست اور خود غرض افراد کے سامنے حساس اور دانشمندانہ انداز اپنائیں۔ ضبط نفس اور دانشمندی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں۔
باب ۵: اجتماعی بہتری — مثبت پیغام اور حوصلہ افزائی
ہم سب مل کر سماجی رویوں کو بدل سکتے ہیں، اگر ہم اپنی خامیوں کو سمجھ کر انہیں درست کرنے کی طرف قدم بڑھائیں۔
آئن اسٹائن نے کہا تھا:
"حماقت لافانی ہے، لیکن اسے سمجھ کر ہم احتیاط کر سکتے ہیں۔"
ڈائیٹرش بون ہوفر کا یہ بیان بھی یاد رکھیں:
"حماقت انسانی فلاح کا سب سے بڑا دشمن ہے۔"
آئیے، ہم سب مل کر ایک ایسا معاشرہ بنائیں جہاں عقل، اخلاق اور انسانیت کا بول بالا ہو۔ اپنے خیالات اور تجربات نیچے تبصروں میں ضرور شیئر کریں تاکہ ہمارا مکالمہ جاری رہے اور ہم سب بہتر سمجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھیں۔