08/05/2025
دوستو!
کبھی سوچا ہے کہ شریعت میں سپاہی کو سیاہ خضاب لگانے کی اجازت، بلکہ ترغیب کیوں دی گئی ہے؟
اور یہی عمل عام مسلمان کے لیے حرام کیوں ہے؟
اور شریعت میں طواف کرنے والے یا سپاہی کا اکڑ کر چلنا، غرور و فخر کا اظہار مستحسن کیوں ہے؟
اور یہ انداز عام مسلمان کے لیے مذموم کیوں ہے؟
شریعت میں جنگ کے دوران دھوکا جائز ہے، بلکہ جنگ کو ’’خالص دھوکا‘‘ کہا گیا ہے، مگر عام زندگی میں غیر مسلم کے ساتھ بھی جھوٹ اور فریب حرام کیوں ہے؟
ان مثالوں پر سوچیے اور انھیں حالات حاضرہ پر منطبق کیجیے گا!
٭
ہماری ایک پرانی عادت ہے کہ جب سفر کرنا ہو تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے تو ہر سمجھدار شخص کی طرح گاڑی اور ڈرائیور کو دیکھتے پرکھتے ہیں ہیں، جاننے والوں سے پوچھ لیتے ہیں، آپ اسے استخارہ و استشارہ کہہ لیجیے، پھر اطمینان ہونے کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ہیں مگر،
مگر پھر اسی لمحے سے خود کو خدا کے سپرد اور سبب کے درجے میں ڈرائیور کے مکمل حوالے کردیتے ہیں۔
پھر بار بار ڈرائیور کو ٹوکتے نہیں کہ بھائی اِس رفتار پر کیوں چلا رہا ہے؟
فلاں وقت بریک کیوں نہ لگائی اور جب لگائی تو کیوں لگائی؟
کیونکہ ایک تو یہ ہماری فیلڈ نہیں، دوسرے بیچ راہ میں بات بے بات ڈرائیور کو ٹوکتے رہنا دراصل گھبراہٹ زدہ زنانیاں کرتی ہیں، جس سے ڈرائیور کنفیوز ہوتا ہے اور یوں تمام سواریوں کی جان خطرے میں پڑتی ہے۔
یہی مثال جنگ پر بھی صادق آتی ہے۔
دورانِ جنگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر جوشیلے تجزیے بگھارنا، سپاہ کو ہدایات جاری کرنا، سپہ سالار پر طنز و تعریض کرنا، جنگ جیسے نازک ترین قومی معاملے کو بھی معمول کے ذاتی نظریات اور سیاسی بتوں کی عینک سے دیکھنا، یہ حماقت ہی نہیں ملک و قوم کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
تم نے یہ کام اب تک کیوں نہ کیا؟
فلاں جگہ حملہ ابھی تک کیوں نہ ہوا؟
یہاں کیوں رکے ہو؟
یہاں رک کیوں نہیں رہے!
ارے میرے بھائی! ذرا ٹھہرو تو سہی، صبر تو کرو!
ٹھیک ہے اوپر کی صفوں میں ایک دو احمق، بزدل یا بکاؤ بھی ہو سکتے ہیں، بلکہ مان لیا کہ ہیں،
لیکن سب ہرگز نہیں ہوسکتے!
اور اگر سب ایسے ہیں تو یقین مانو پھر دراصل ہم ہی ایسے ہیں کہ وہ ہمارا ہی تو چہرہ ہیں، ہمی میں سے ایک، سو پھر ہمارا مرجانا ہی بہتر ہے۔
لیکن الحمدللہ ایسا نہیں ہے!
سو میرے دوستو!
جب تم ایک بار ’’گاڑی‘‘ میں بیٹھ ہی گئے ہو، اور وہ چل پڑی ہے تو اب بس دعا کرو، توکل علی اللہ کرو، ان کی حوصلہ افزائی کرو، کوئی غلطی ہوجائے تو کچوکے دینے کی بجائے درگزر اور نظرانداز کرو، تمھارے سگے سرحد پار نہیں یہی ہیں، اُن پر اعتماد کرو اور ان پر جو فیصلہ ساز ہیں۔
٭
اک لحظہ ذرا سوچیے تو سہی کہ صبح سے یہ کھلونے جو بھیجے جارہے ہیں، ’’اُن‘‘ کا کیا مقصد ہے؟ کل سفید جھنڈا لہرا کر امن کی درخواست، اور آج یہ بچگانہ شرارت؟
تو کہیں عوام میں خوف پھیلانا، اور اپنی فوج پر سے اعتماد کم کرنا ہی تو اُن کا اصل مقصد نہیں؟
کہیں ہماری دفاعی توانائی ان کھلونوں پر خرچ ہوجائے، کہیں یہی تو مقصد نہیں؟
یاد رکھیے نہ ہم اہل غ ۔ ا ز ہیں، نہ وہ عجرائیل!
ہم بفضلِ خدا سوا سیر ہیں۔
اگر اہلِ غ ۔ ا ز محصور ہو کر بھی استقامت کی علامت بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہ ثابت قدم ہوں؟
قرآن کہتا ہے: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ!
یعنی کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو۔
گھبراہٹ سے فیصلے کمزور ہوتے ہیں جبکہ حوصلے سے تاریخ بدلی جاتی ہے۔
کسی بزرگ کا قول ہے کہ مصیبت کے وقت گھبرا جانا زیادہ بڑی مصیبت ہے۔
وقت لگ رہا ہے؟
ہاں تو ہر پختہ کام میں دیر ہوتی ہے ناں۔
مگر دیر کا مطلب ناکامی نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تاخیر تدبیر کی نشانی ہوتی ہے۔
آپ ہم مضطرب ہیں، ہمارے سینے فگار ہیں، کھول رہے ہیں تو کیا ”وہ“ بس ایسے ہی بیٹھے ہوں گے جن پر کروڑھا نگاہیں ٹکی ہیں اور جو براہ راست نشانہ ہیں؟
حوصلہ رکھیں، دعا کریں، اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں، کیونکہ اصل جنگ میدان میں نہیں بلکہ دل و دماغ میں جیتی جاتی ہے۔
٭٭٭
محمد فیصل شہزاد