معلومات

معلومات Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from معلومات, Media/News Company, Gujranwala.
(745)

معلومات پیج ایک ایسا بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں آپ کو معلوماتی مواد کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزا اور موٹیویشنل کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں معلوماتی حقائق کے ساتھ ساتھ فکر انگیز مواد بھی پیش کیا جاتا ہے۔ معلومات پیج سے جڑیں رہیں اور اس کو فالو کریں https://www.facebook.com/Dilchasp.info

دلچسپ معلومات: زبردست اور حیرت انگیز معلومات پر مبنی اردو پیج ہے۔ اوپر دیئے گئےپیج کے لنک کو ایک دفعہ وزٹ ک

ریں۔ اگر پسند آئے تو ضرور اس پیج کو لائک کریں تاکہ آپ کو اس پیج کی روزانہ دلچسپ اور حیرت انگیز پوسٹ ملتی رہیں۔ شکریہ

اگر آپ ( دلچسپ و عجیب معلومات) پیج کو پسند کرتے ہیں۔ تو اپنی فرینڈ لسٹ کو بھی اس کی دعوت دیں۔
دعوت کا طریقہ۔
نیچےاس لنک پر کلک کر کے دلچسپ معلوما ت کے پیج پر جائیں۔
https://www.facebook.com/Dilchasp.info
اور
Invite Your Friends to Like This Page
پر
Invite
کے بٹن کو دبا کر اپنے فرینڈز کو دعوت دیں۔ شکریہ

25/07/2025

تم اگر ایک سچی اور باوقار زندگی گزارنا چاہتے ہو…

قدیم زمانے میں ہندوستان کا ایک بادشاہ تھا جو اپنے دور کی عظیم سلطنت پر حکمرانی کرتا تھا۔ وہ نہایت ذہین، انصاف پسند اور رعایا کا ہمدرد سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ایک چیز اسے بے حد فکر میں ڈالے رکھتی تھی: وہ چاہتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے ملک کا مستقبل سنوارنے کے لیے ایسا حکمران منتخب ہو جو واقعی اس عظیم سلطنت کا حق دار ہو۔

بادشاہ نے اعلان کیا کہ ریاست کے ہر کونے سے نیک، بہادر اور ذہین لوگ آئیں، تاکہ وہ اُن میں سے سب سے بہترین کو اپنا جانشین بنا سکے۔ جب دن آیا، ہزاروں لوگ بادشاہ کے محل کے سامنے جمع ہوئے۔ بادشاہ نے اُنہیں دیکھ کر کہا:
"تم سب میں سے جو یہ مشکل آزمائش کامیابی سے مکمل کرے گا، وہی میرا وارث ہوگا۔"

پھر اس نے ہر شخص کو ایک چھوٹا سا بیج دیا اور کہا:
"اس بیج کو تمہیں ایک سال تک سنبھالنا ہے، اس کی حفاظت کرنا اور اسے بڑھانا ہے۔ ایک سال بعد تمہیں یہ بیج مجھے واپس دینا ہوگا، تاکہ میں فیصلہ کر سکوں۔"

لوگ جوش و خروش سے بیج لے گئے۔ ایک سال گزر گیا۔ سب لوگ اپنے پودے لے کر محل کے سامنے جمع ہوئے، کوئی گھنے درخت لایا، کوئی خوبصورت پھول۔ لیکن ایک نوجوان کانپتے ہاتھوں کے ساتھ خالی گملہ لے کر آیا۔ سب اس پر ہنسنے لگے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا:
"تمہارا پودا کہاں ہے؟"

نوجوان نے شرمندگی سے کہا:
"اے بادشاہ! میں نے اپنی پوری کوشش کی، لیکن یہ بیج نہیں اگا۔ میں نے اس کی ہر طرح سے حفاظت کی مگر ناکام رہا۔"

یہ سن کر بادشاہ مسکرایا اور کہا:
"یہی ہے میرا حقیقی وارث! جو اپنی ناکامی میں بھی سچائی نہیں چھوڑتا، وہی اس سلطنت کی حفاظت کر سکتا ہے۔ تم سب کو جو بیج دیے گئے تھے، وہ اُبالے ہوئے اور مردہ بیج تھے، ان سے کبھی کوئی پودا نہیں اگ سکتا تھا۔ تم سب نے دھوکہ دیا، صرف اس نوجوان نے سچ کا دامن تھامے رکھا۔"

پھر بادشاہ نے اعلان کیا:
"یاد رکھو! عزت، امانت اور سچائی وہ بیج ہیں جو کبھی برباد نہیں ہوتے۔ جو اپنی زندگی سچ پر قائم کرتا ہے، اُسے کامیابی کے لیے کسی ظاہری سہارے کی ضرورت نہیں۔"

فالو معلومات پلس
https://www.facebook.com/malomaatplus

24/07/2025

واپسی کمزوری نہیں، بلکہ حکمت ہے!

ایک جاپانی مفکر کا قول ہے
"اگر کبھی غلط ٹرین پر سوار ہو جاؤ، تو جتنا جلد ممکن ہو قریبی اسٹیشن پر اُتر جاؤ، کیونکہ ہر گزرتا لمحہ واپسی کو اور مشکل اور تھکا دینے والا بنا دیتا ہے۔"
یہ بات پڑھ کر ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے کہا:
"بس کرو، اب اُتر جاؤ!"
یہ صرف ٹرین کی بات نہیں، یہ ہماری زندگی کی ہے۔
ہم سب کبھی نہ کبھی ایسی راہ پر نکل پڑتے ہیں جو ہمارے خوابوں، فطرت یا مقصد سے میل نہیں کھاتی۔ چاہے وہ نوکری ہو، رشتہ، رویہ یا کوئی بوجھل عادت… مگر ضد، انا اور خوف ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اگلے اسٹیشن کا انتظار کریں، یہ سوچ کر کہ شاید اگلا پڑاؤ آسان ہو۔ لیکن دل تو سچ جانتا ہے:
یہ راستہ غلط ہے۔
یاد رکھیں،
جتنی دیر سے اُترو گے، قیمت اُتنی ہی بھاری ہوگی۔ یہ قیمت آپ کے حوصلے، سکون، صحت اور خوابوں سے وصول کی جائے گی۔ لوگ باتیں کریں گے، مذاق اڑائیں گے، لیکن دل، دماغ اور روح ہلکی ہو جائے گی۔
اگر آپ کسی ایسی "ٹرین" پر ہیں جو آپ کو اندر سے توڑ رہی ہے، تو یقین جانیے اُترنے میں کوئی عار نہیں۔ اصل حماقت یہ ہے کہ مسافر ضد میں سوار رہے اور امید کرے کہ راستہ خود بدل جائے گا۔ یاد رکھیں، جو چیز اندر سے کمزور ہو، وہ منزل تک پہنچ کر بھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔
اللہ آپ کے سفر کی مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کردے۔

Tap https://temu.to/k/efpjm1odwcs to claim Your Rs.15,000 Coupon Bundle Now!

24/07/2025

نیپال میں زندہ دیویوں کی پوجا – ایک قدیم روایت

دنیا کے کئی خطوں میں دیوی اور دیوتاؤں کی پرستش صدیوں سے انسانی عقائد کا حصہ رہی ہے۔ کچھ مذاہب میں دیویوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، اور ان کے ماننے والے پتھر، لکڑی یا دھات کی بنی ہوئی مورتیوں کے سامنے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم نیپال میں ایک ایسی منفرد اور قدیم روایت آج بھی زندہ ہے جہاں "زندہ دیویوں" یعنی کماریوں کی پوجا کی جاتی ہے۔

یہ "کماری" دراصل نابالغ لڑکیاں ہوتی ہیں جنہیں ہندو دیوی "کالی" کا اوتار تصور کیا جاتا ہے۔ کالی ہندومت میں طاقت، جنگجوئی اور قہر و غضب کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ نیپال کے مختلف شہروں میں کئی کماری دیویاں موجود ہیں، لیکن سب سے مشہور اور بااثر "شاہی کماری" ہے جو دارالحکومت کھٹمنڈو کے مرکز میں واقع تاریخی عمارت "کماری گھر" میں قیام پذیر رہتی ہے۔

"کماری" کون ہوتی ہے؟
نیپالی زبان میں "کماری" کا مطلب ہے "دوشیزہ" یا "کنواری لڑکی"۔ ایک وقت میں کسی علاقے میں صرف ایک ہی لڑکی کو زندہ دیوی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ جب وہ بلوغت کو پہنچتی ہے تو اسے "ریٹائر" کر دیا جاتا ہے، اور نئی کماری اس کی جگہ منتخب کی جاتی ہے۔ روایت کے مطابق عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ کالی دیوی کی روح کماری کے جسم میں رہتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ بالغ ہوتی ہے، یہ روح اسے چھوڑ دیتی ہے۔

کماری بننے کے لیے لڑکی کا تعلق عموماً نیپال کے نیواری بدھ مت کے مخصوص قبائل "شاکیہ" یا "بجراچاریہ" سے ہونا ضروری ہے۔ نئی کماری کے انتخاب کا عمل نہایت پیچیدہ اور روایتی ہے۔

انتخاب کا سخت عمل
پانچ سینئر بدھ پجاری، جنہیں "پنچ بدھا" کہا جاتا ہے، اور شاہی نجومی مل کر اس لڑکی کی تلاش کرتے ہیں جو دیوی کے سخت معیار پر پوری اترتی ہو۔ بنیادی شرائط میں یہ شامل ہیں کہ لڑکی مکمل صحت مند ہو، اس کا کبھی خون نہ نکلا ہو، وہ کسی مرض میں مبتلا نہ رہی ہو، اس کی جلد پر کوئی داغ دھبہ نہ ہو، اور اس کے دودھ کے دانت ابھی برقرار ہوں۔

مزید برآں، امیدوار لڑکی میں 32 جسمانی خصوصیات دیکھی جاتی ہیں، جن میں خوبصورت گردن، لمبی پلکیں، پتلی ٹانگیں، نرم اور واضح آواز، سیاہ بال اور آنکھیں، نرم و نازک ہاتھ پاؤں، اور منہ میں مکمل 20 دانت شامل ہیں۔

حوصلے کا امتحان
اہلیت کے بعد لڑکی کا سب سے مشکل امتحان ہندوؤں کے اہم تہوار "دسہرا" کے دوران لیا جاتا ہے۔ اس تہوار کی ایک رات "کل رتری" کہلاتی ہے، جس میں دیوی کالی کے نام پر 108 بھینسوں اور بکریوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ ان کے کٹے ہوئے سروں کو مندر کے باغ میں قطار سے بانسوں پر لگایا جاتا ہے، جہاں موم بتیوں کی مدھم روشنی اور نقاب پوش رقاصوں کے رقص سے ماحول مزید خوفناک ہو جاتا ہے۔

چند سال کی اس لڑکی کو ان خون آلود سروں کے درمیان تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر وہ خوفزدہ ہوئے بغیر پرسکون رہتی ہے تو اسے مزید آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے، اور آخرکار وہ کماری دیوی کے مقدس منصب پر فائز ہوتی ہے۔

کماری کی زندگی
کماری بننے کے بعد اس کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے۔ وہ اپنے خاندان، دوستوں اور عام معاشرتی زندگی سے کٹ جاتی ہے۔ اسے ایک خصوصی عمارت یا مندر میں رکھا جاتا ہے اور عام حالات میں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ صرف بڑے مذہبی تہواروں اور اہم تقریبات پر وہ عقیدت مندوں کو "درشن" دینے کے لیے باہر آتی ہے۔

کماری کو پیدل چلنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو اسے خادمائیں بازوؤں میں اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ مسلسل بیٹھے یا لیٹے رہنے کے باعث اس کی ٹانگوں کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بلوغت کے بعد عام زندگی میں واپس آنے پر اسے دوبارہ چلنا سیکھنا پڑتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے پر بھی سخت پابندی ہوتی ہے، جس کے باعث کماریوں کو عام لڑکیوں جیسا بچپن میسر نہیں آتا۔

"ریٹائرمنٹ" اور عام زندگی کی واپسی
جب کماری بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو باقاعدہ بارہ روزہ مذہبی رسم کے بعد اسے اس عہدے سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک عام لڑکی کی طرح زندگی بسر کرنے لگتی ہے، لیکن برسوں کی تنہائی اور محدود ماحول کے باعث عام زندگی سے ہم آہنگ ہونا اس کے لیے آسان نہیں ہوتا۔

آپ اس ہندوؤں کی اس رسم اور اس دیوی کے عقیدہ کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔ اپنی رائے کا اظہار کمنٹ باکس میں کریں۔ پوسٹ اور پیج کو لائک کریں شکریہ

https://www.facebook.com/MalomaatPlus/

24/07/2025

شہنشاہ اکبر کو دینِ الہیٰ بنانے کی ضرورت کیوں پڑی؟

فتح پور سیکری کے شاہی محل میں، آج فجر کی اذان کی آواز فضا میں گونجی، شہنشاہ اکبر اپنی رات کی نیند سے بیدار ہوئے ۔ وہ اپنے شاہی کمرے میں فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کے بعد، وہ اپنے خاص لباس میں ملبوس زیب تین کئے ہوئے ہیں ، جو ہفتے کے دن اور سیاروں کے رنگوں کے مطابق تھا ۔ آج، بدھ کا دن تھا، اس لیے انہوں نے سبز رنگ کا لباس منتخب کیا، جو عطارد کے سیارے سے منسوب تھا۔
نماز کے بعد، اکبر اپنے محل کے صحن میں جاتے ہیں ، جہاں وہ دین الٰہی کے عقائد کے مطابق سورج طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں اور سورج کے ہزار ایک ہندی ناموں کا وظیفہ پڑھتے۔ یہ رسم ان کے خیال میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتی تھی، اس کے بعد ، اکبر عبادت خانہ کی طرف روانہ ہوتے، جو فتح پور سیکری میں ایک عظیم الشان عمارت تھی۔ وہاں، مختلف مذاہب کے علماء، جیسے کہ مولوی، پنڈت، پادری، اور زرتشتی موبد، جمع تھے ۔ آج کا موضوع تھا: "حق کس مذہب میں ہے؟" اکبر خاموشی سے سب کی باتیں سنتے اور پھر اپنی رائے دیتے: "حق کسی ایک مذہب کی میراث نہیں، بلکہ ہر مذہب میں سچائی کے جوہر پائے جاتے ہیں۔
عبادت خانہ سے واپسی پر، اکبر اپنے دربار میں تشریف لے جاتے، جہاں عوام ان کے سامنے اپنی شکایات پیش کرتے۔ ایک کسان نے زمین کے تنازع کی بات کی، جبکہ ایک تاجر نے ٹیکس کی شکایت کی۔ اکبر نے دونوں کو انصاف فراہم کیا، جو ان کی منصفانہ حکمرانی کی علامت تھی۔
دربار کے بعد، وہ اپنے نو رتنوں، جیسے کہ بیربل اور راجا مان سنگھ، کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں ۔ وہ سلطنت کے معاملات پر تبادلہ خیال کرتے اور نئی پالیسیوں کی منصوبہ بندی کرتے، جن میں مذہبی رواداری اور عوامی خوشحالی کو خاص اہمیت دی جاتی۔
اکبر کی یہ صبح ان کی سلطنت کی عظمت اور ان کے متنازع مذہبی نظریات کی عکاسی کرتی تھی۔ وہ ایک ایسے بادشاہ تھے جو اپنی رعایا کے لیے انصاف اور اتحاد کے خواہشمند تھے، لیکن ان کے دین الٰہی کے عقائد نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ تو آخر اس دین الہیٰ کی انہیں ضرورت کیوں پیش آئی۔ آئیے اپنے دلچسپ معلومات پیج کےدوستو ں سے اس کاایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔
مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (1556ء تا 1605ء) اپنے دور حکومت کے دوران ایک ایسی سلطنت کے بانی تھے جو اپنی مذہبی رواداری اور تنوع کے حوالے سے مشہور تھی۔ اکبر نے ہندوستان کے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک نیا مذہبی نظام متعارف کرایا، جسے "دین الٰہی" کا نام دیا گیا۔ اس مذہب کا بنیادی مقصد مختلف مذاہب جیسے کہ اسلام، ہندومت، عیسائیت، جین مت، سکھ مت اور زرتشتیت کے بہترین اصولوں کو یکجا کرنا تھا تاکہ ایک ایسی مشترکہ دینی شناخت قائم کی جا سکے جو سلطنت کے استحکام کا باعث بنے۔ اکبر کا خیال تھا کہ اس طرح مذہبی اختلافات ختم ہوں گے اور عوام میں بھائی چارہ اور اتحاد پیدا ہوگا۔
اکبر کا یہ اقدام اس کے وسیع تر سیاسی اور سماجی مقاصد کا حصہ تھا۔ وہ ایک ایسی سلطنت چاہتا تھا جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔ اس کی پالیسیوں میں غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، جزیہ ٹیکس کا خاتمہ، اور ہندوؤں کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنا شامل تھا۔ دین الٰہی اسی رواداری کے فلسفے کا ایک منطقی نتیجہ تھا، لیکن اس کی عملی شکل نے کئی تنازعات کو جنم دیا۔
دین الٰہی کے فروغ کے لیے اکبر نے فتح پور سیکری میں ایک خصوصی عمارت تعمیر کی، جسے "عبادت خانہ" کہا جاتا تھا۔ یہ عمارت مختلف مذاہب کے علماء اور دانشوروں کے لیے ایک پلیٹ فارم تھی، جہاں وہ مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ ان مباحثوں میں اکبر خود بھی شریک ہوتا تھا اور اس کا مقصد مختلف مذاہب کے بنیادی اصولوں کو سمجھنا اور ان کا تقابلی جائزہ لینا تھا۔ اکبر کا یہ خیال تھا کہ سچائی اور حق کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں، بلکہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ سچائی موجود ہوتی ہے۔
تاہم، ان مباحثوں سے اکبر نے جو نتائج اخذ کیے، وہ روایتی مذاہب سے ہٹ کر تھے۔ اس نے ایک ایسی مذہبی فکر کی بنیاد رکھی جو روایتی اسلامی عقائد سے متصادم تھی۔ دین الٰہی کے بنیادی اصولوں نے اسے ایک مخلوط اور غیر روایتی مذہب کی شکل دی، جسے بہت سے علماء نے گمراہ کن قرار دیا۔
دین الٰہی کے عقائد
دین الٰہی کے عقائد روایتی مذاہب سے کافی مختلف تھے اور ان میں کئی ایسی باتیں شامل تھیں جو اسے متنازع بناتی تھیں۔ ذیل میں اس کے چند اہم عقائد کی تفصیل دی جاتی ہے:
1. آفتاب پرستی: دین الٰہی کے پیروکاروں کے لیے سورج کی پوجا لازمی تھی۔ دن میں چار مرتبہ (صبح، دوپہر، شام اور آدھی رات) سورج کی عبادت کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ، سورج کے ہزار ایک ہندی ناموں کو وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا تھا۔ یہ عقیدہ ہندو مت اور زرتشتیت سے متاثر تھا، جو فطرت کی عبادت پر زور دیتے ہیں۔
2. فطرت کی عبادت: آگ، پانی، درخت، اور دیگر مظاہر فطرت کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ گائے اور اس کے گوبر تک کو روحانیت کا علمدار کہا جاتا تھا۔ اور اسک کی تعظیم لازم تھی، جو ہندو مت کے عقائد سے واضح طور پر مستعار لیا گیا تھا۔
3. لباس اور سیاروں کا اثر: اکبر اپنے لباس کا رنگ ہفتے کے دنوں اور متعلقہ سیاروں کے رنگوں کے مطابق منتخب کرتا تھا۔ اس عقیدے کے پیچھے یہ خیال تھا کہ ہر دن کا تعلق کسی خاص سیارے سے ہوتا ہے، اور اس کا اثر انسانی زندگی پر پڑتا ہے۔
4. روح کا عقیدہ: دین الٰہی کے مطابق، کامل انسان کی روح سر کے درمیانی حصے سے نکلتی ہے۔ اس لیے اکبر سر کے درمیانی بال منڈواتا تھا، جبکہ اطراف کے بال چھوڑ دیے جاتے تھے۔ یہ عقیدہ یہ بھی مانتا تھا کہ روح کے نکلنے کے وقت ایک کڑاکے کی آواز ہوتی ہے، جو اس کی سعادت کی علامت ہوتی ہے۔
5. تقلید پر زور: دین الٰہی کے پیروکاروں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ "لا إله إلا الله" کے ساتھ "اکبر خلیفة الله" کہیں۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو اسلامی عقائد کے منافی تھی اور اسے کفر سمجھا گیا۔
6. سود اور جوئے کی اجازت: دین الٰہی نے سود اور جوئے کو جائز قرار دیا۔ شاہی خزانے سے جواریوں کو سودی قرض دیے جاتے تھے، جو اس وقت کے معاشرتی اصولوں کے خلاف تھا۔
7. شراب کی اجازت: شراب پینے کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ اس سے کوئی فتنہ یا فساد نہ ہو۔ نو روز کی تقریبات میں علماء اور حتیٰ کہ قاضیوں تک کو شراب نوشی کی ترغیب دی جاتی تھی۔
8. داڑھی کی تنقیص: داڑھی رکھنے کو غیر ضروری قرار دیا گیا اور اسے رکھنے والوں کی تضحیک کی جاتی تھی۔ دلیل دی جاتی تھی کہ داڑھی خصیوں سے جڑی ہوتی ہے، اور اسے رکھنے سے کوئی ثواب نہیں ملتا۔
9. پردے کا خاتمہ: خواتین کو باہر نکلتے وقت چہرہ کھلا رکھنے کی ہدایت کی گئی، جو اس وقت کے اسلامی معاشرتی اصولوں سے متصادم تھی۔
10. متعہ اور شیطان پورہ: متعہ کو جائز قرار دیتے ہوئے شہر سے باہر ایک ایسی بستی بنائی گئی جسے "شیطان پورہ" کہا جاتا تھا۔ یہاں باقاعدہ نگران اور محافظ تعینات تھے، اور لوگوں کو اپنا نام و نسب درج کروا کر اس سے استفادہ کرنے کی اجازت تھی۔
11. ختنہ پر پابندی: بارہ سال سے کم عمر لڑکوں کا ختنہ ممنوع قرار دیا گیا، اور اس عمر کے بعد یہ لڑکے کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔
12. میت کی تدفین: میت کو غلہ اور پکی اینٹوں کے ساتھ پانی میں ڈبویا جاتا تھا۔ اگر پانی میسر نہ ہوتا تو اسے جلا دیا جاتا تھا یا درخت سے لٹکایا جاتا تھا، جو اسلامی تدفین کے طریقوں سے بالکل مختلف تھا۔
دین الٰہی کا زوال
دین الٰہی کو زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ تاریخی روایات کے مطابق، اس کے پیروکاروں کی تعداد بہت محدود رہی اور صرف 19 افراد نے اسے قبول کیا۔ اکبر کے نو رتنوں میں سے راجا مان سنگھ نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور ہندو مت اور اسلام کو ہی واحد مذاہب قرار دیا۔ اکبر نے اس مذہب کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کی وجہ سے کئی علماء نے خوف یا لالچ میں اسے قبول کیا، جبکہ دل سے اسے قبول کرنے والے بہت کم تھے۔
شیخ احمد سرہندی کا کردار
دین الٰہی کے خلاف سب سے نمایاں مزاحمت شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کی طرف سے سامنے آئی۔ انہوں نے اکبر کے دربار میں جا کر اس کے عقائد کو چیلنج کیا اور اسے توبہ کر کے اسلامی اصولوں پر واپس آنے کی تلقین کی۔ روایت ہے کہ جب اکبر نے انہیں مباحثے کا چیلنج دیا تو قدرت نے مداخلت کی، اور ایک طوفان نے اکبر کے دربار کو آندھی نے تہس نہس کر دیا۔ اس واقعے میں اکبر اور اس کے ساتھی زخمی ہوئے، جبکہ شیخ احمد سرہندی اور ان کے ساتھیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ کچھ مورخین کے مطابق، انہی زخموں کی وجہ سے اکبر کی موت بھی واقع ہوئی، جو اس کی موت وقت تازہ ہوگئے تھے۔ جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے توبہ کرکے دوبارہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم، یہ بات متنازع ہے اور تاریخی حوالوں سے ثابت نہیں ہوتی۔

Like this page
https://www.facebook.com/MalomaatPlus/

Tap https://temu.to/k/efpjm1odwcs to claim Your Rs.15,000 Coupon Bundle Now!

23/07/2025

انکا تہذیب کا شاندار عجوبہ

ماچو پیچو صدیوں تک دنیا سے چھپا رہا، یہاں تک کہ 1911ء میں امریکی ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیرم بِنگھم نے اسے دریافت کیا۔ انہوں نے مقامی لوگوں کی رہنمائی سے اس شہر تک رسائی حاصل کی، جو گھنے جنگلوں اور پہاڑوں کے درمیان پوشیدہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہسپانوی فاتحین نے سولہویں صدی میں جنوبی امریکہ پر قبضہ کیا، وہ اس شہر تک کبھی نہ پہنچ سکے۔ اس کی بلند و بالا مقامیت اور فطری تحفظ نے اسے زمانے کی نظروں سے اوجھل رکھا، جس کی وجہ سے اسے "انکا کا گمشدہ شہر" بھی کہا جاتا ہے۔
ہیرم بِنگھم کی دریافت نے ماچو پیچو کو عالمی شہرت دی، اور اس کے بعد سے یہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین، مورخین، اور سیاحوں کے لیے ایک معمہ اور کشش کا باعث بن گیا۔ آج بھی اس شہر کے بارے میں بہت سے سوالات جواب طلب ہیں، جیسے کہ اسے کیوں اور کیسے بنایا گیا، اور اسے کیوں ترک کر دیا گیا۔

ماچو پیچو، جو پیرو کے بلند و بالا اینڈیز پہاڑوں میں واقع ہے، دنیا کے جدید عجائبات میں سے ایک ہے۔ یہ قدیم شہر انکا تہذیب کی عظمت، فنونِ لطیفہ، اور انجینئرنگ کی بے مثال صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ اس کی دلفریب خوبصورتی اور پراسراریت ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، جو اسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

ماچو پیچو پیرو کے کسکو (Cusco) خطے میں، سطح سمندر سے تقریباً 2,430 میٹر (7,970 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ شہر دو بلند پہاڑوں، ماچو پیچو (پرانا پہاڑ) اور ہوانا پیچو (نوجوان پہاڑ)، کے درمیان وادی میں بسا ہے۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن اسے نہ صرف فطری خوبصورتی عطا کرتی ہے بلکہ اسے دشمنوں سے محفوظ رکھنے میں بھی مدد دیتی تھی۔ اس مقام تک رسائی آج بھی آسان نہیں؛ سیاحوں کو پیدل چل کر انکا ٹریل کے ذریعے یہاں پہنچنا پڑتا ہے، جو خود ایک مہم جوئی ہے۔
یہ شہر تقریباً 1450ء کے آس پاس انکا سلطنت کے عروج کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شہر انکا شہنشاہوں کے لیے ایک شاہی رہائش گاہ، مذہبی مرکز، یا فلکیاتی رصدگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کی تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکا لوگ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے تھے اور اسے اپنی ثقافت و عقائد کا حصہ بناتے تھے۔
ماچو پیچو کی تعمیراتی خوبصورتی اس کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ انکا انجینئرز نے بغیر کسی جدید ٹیکنالوجی یا دھاتی اوزاروں کے، بڑے بڑے پتھروں کو تراش کر اس طرح جوڑا کہ ان کے درمیان چھری کی نوک بھی نہیں گزر سکتی۔ یہ پتھر اتنی نفاست سے کاٹے گئے کہ انہیں جوڑنے کے لیے کسی گارے یا چپکنے والی چیز کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہ تعمیرات آج بھی زلزلوں اور سخت موسمی حالات کے باوجود اپنی اصل حالت میں موجود ہیں، جو انکا لوگوں کی غیر معمولی مہارت کی گواہی دیتے ہیں۔
شہر میں شاہی محلات، مندر، رہائشی علاقے، زراعتی چھتیں، اور پانی کے نالوں کا نظام شامل ہے۔ زراعتی چھتیں، جنہیں "اینڈینیس" کہا جاتا ہے، نہ صرف کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتی تھیں بلکہ مٹی کے کٹاؤ کو روکنے اور پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد دیتی تھیں۔ پانی کا نظام بھی اتنا جدید تھا کہ وہ برساتی پانی کو جمع کر کے پورے شہر میں تقسیم کرتا تھا۔
ماچو پیچو صرف ایک شہر نہیں بلکہ انکا تہذیب کی روحانی اور ثقافتی شناخت کا عکاس ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شہر انکا شہنشاہوں کے لیے ایک مقدس مقام تھا، جہاں مذہبی رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ "سورج کا مندر" (Temple of the Sun) اور "تین کھڑکیوں کا مندر" (Temple of the Three Windows) اس کی روحانی اہمیت کے اہم ثبوت ہیں۔ انکا لوگ سورج کو اپنا خدا مانتے تھے، اور ماچو پیچو سے سورج کی حرکات کا مشاہدہ کرتے تھے، جو زراعت اور تقویمی نظام کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا تھا۔
اس کے علاوہ، ماچو پیچو فلکیاتی مشاہدات کا بھی مرکز تھا۔ یہاں کے ڈھانچے، جیسے کہ "انتہواتانا" (Intihuatana) پتھر، کو سورج کی روشنی کے زاویوں سے ہم آہنگ کیا گیا تھا تاکہ موسموں اور زرعی اوقات کا تعین کیا جا سکے۔ یہ پتھر آج بھی ماچو پیچو کے سب سے پراسرار ڈھانچوں میں سے ایک ہے۔
1983ء میں یونیسکو نے ماچو پیچو کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا، جس کے بعد سے یہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک مقناطیسی کشش بن گیا۔ ہر سال لاکھوں لوگ اسے دیکھنے کے لیے پیرو کا سفر کرتے ہیں۔ تاہم، بڑھتی ہوئی سیاحت نے اس کے تحفظ کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں۔ زیادہ پاؤں پڑنے سے مٹی کا کٹاؤ، ڈھانچوں کو نقصان، اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
پیرو کی حکومت اور عالمی اداروں نے اس تاریخی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، روزانہ آنے والے سیاحوں کی تعداد کو محدود کر دیا گیا ہے، اور انکا ٹریل کے راستے پر سخت ضابطے نافذ کیے گئے ہیں۔ مزید برآں، ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں کے ذریعے اس علاقے کی فطرت اور حیاتیاتی تنوع کو بھی بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مغربی میڈیا کا یک طرفہ پراپیگنڈا: ایران-اسرائیل جنگ کی اصل تصویران دنوں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں مغربی م...
18/06/2025

مغربی میڈیا کا یک طرفہ پراپیگنڈا: ایران-اسرائیل جنگ کی اصل تصویر
ان دنوں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں مغربی میڈیا کا کردار انتہائی متنازع اور جانبدار نظر آتا ہے۔ بین الاقوامی چینلز جیسے CNN، BBC، SKY News، Fox News، CNBC اور ABC News مسلسل ایسی خبریں نشر کر رہے ہیں جن میں صرف ایران کی تباہی کو نمایاں کیا جاتا ہے — ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے پورا نقصان صرف ایران کو ہو رہا ہے اور اسرائیل اس جنگ سے محفوظ و مامون ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے کئی شہروں میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے، لوگ محفوظ مقامات کی تلاش میں ہیں، اور اطلاعات کے مطابق درجنوں اسرائیلی شہری کشتیوں کے ذریعے سائپرس کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا نے اس پہلو کو تقریباً چھپایا ہوا ہے تاکہ دنیا کی ہمدردی صرف اسرائیل کے ساتھ رہے، اور اسرائیلی عوام کے اندر خوف یا اضطراب نہ پھیلے۔
یہ جانبدارانہ رپورٹنگ صرف ایک پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایران کے عوام کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور یوں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر براہ راست حملہ کرنے کا اخلاقی جواز حاصل ہو جائے۔
ہماری گزارش
ہم سب کو چاہیے کہ ایسے جانبدار عالمی میڈیا سے خبردار رہیں اور ان کے بیانیے کا اندھا دھند پیچھا نہ کریں۔ اس کے بجائے ایسے ذرائع کو ترجیح دی جائے جو جنگ کے دونوں پہلوؤں کو دکھاتے ہیں، جیسے:
الجزیرہ نیوز (Al Jazeera) — جو عرب دنیا کا مؤثر اور نسبتاً غیر جانبدار چینل ہے
چینی سرکاری نیوز چینل CGTN — جو مغربی میڈیا کے بیانیے سے ہٹ کر مختلف زاویہ پیش کرتا ہے
یہ وقت ہے کہ ہم حقیقت کو جانچنے اور سچائی کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ صرف وہی خبریں نہ سنیں جو دکھائی جا رہی ہیں، بلکہ اُن پہلوؤں پر بھی غور کریں جو چھپائے جا رہے ہیں۔

مغربی میڈیا کا یک طرفہ پراپیگنڈا: ایران-اسرائیل جنگ کی اصل تصویران دنوں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں مغربی م...
18/06/2025

مغربی میڈیا کا یک طرفہ پراپیگنڈا: ایران-اسرائیل جنگ کی اصل تصویر
ان دنوں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں مغربی میڈیا کا کردار انتہائی متنازع اور جانبدار نظر آتا ہے۔ بین الاقوامی چینلز جیسے CNN، BBC، SKY News، Fox News، CNBC اور ABC News مسلسل ایسی خبریں نشر کر رہے ہیں جن میں صرف ایران کی تباہی کو نمایاں کیا جاتا ہے — ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے پورا نقصان صرف ایران کو ہو رہا ہے اور اسرائیل اس جنگ سے محفوظ و مامون ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے کئی شہروں میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے، لوگ محفوظ مقامات کی تلاش میں ہیں، اور اطلاعات کے مطابق درجنوں اسرائیلی شہری کشتیوں کے ذریعے سائپرس کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا نے اس پہلو کو تقریباً چھپایا ہوا ہے تاکہ دنیا کی ہمدردی صرف اسرائیل کے ساتھ رہے، اور اسرائیلی عوام کے اندر خوف یا اضطراب نہ پھیلے۔

یہ جانبدارانہ رپورٹنگ صرف ایک پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایران کے عوام کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور یوں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر براہ راست حملہ کرنے کا اخلاقی جواز حاصل ہو جائے۔

ہماری گزارش
ہم سب کو چاہیے کہ ایسے جانبدار عالمی میڈیا سے خبردار رہیں اور ان کے بیانیے کا اندھا دھند پیچھا نہ کریں۔ اس کے بجائے ایسے ذرائع کو ترجیح دی جائے جو جنگ کے دونوں پہلوؤں کو دکھاتے ہیں، جیسے:

الجزیرہ نیوز (Al Jazeera) — جو عرب دنیا کا مؤثر اور نسبتاً غیر جانبدار چینل ہے

چینی سرکاری نیوز چینل CGTN — جو مغربی میڈیا کے بیانیے سے ہٹ کر مختلف زاویہ پیش کرتا ہے

یہ وقت ہے کہ ہم حقیقت کو جانچنے اور سچائی کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ صرف وہی خبریں نہ سنیں جو دکھائی جا رہی ہیں، بلکہ اُن پہلوؤں پر بھی غور کریں جو چھپائے جا رہے ہیں۔

اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے: دفاعی اخراجات اور جنگی معاشی دباؤایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے مشرق وسطیٰ م...
18/06/2025

اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے: دفاعی اخراجات اور جنگی معاشی دباؤ

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے مشرق وسطیٰ میں نہ صرف عسکری بلکہ معاشی سطح پر بھی ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل کو جو دفاعی اقدامات کرنے پڑے، اُن کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ جنگ کے مالی اثرات اب خود اسرائیلی معیشت پر بھی سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق، ایران کی طرف سے حالیہ دنوں میں داغے جانے والے ہر میزائل حملے کی لہر (یعنی ایک وقت میں فائر کیے گئے میزائلوں کے مجموعے) کو روکنے کی لاگت تقریباً ایک ارب اسرائیلی شیکل (تقریباً 287 ملین امریکی ڈالر) تک جا پہنچتی ہے۔

دفاعی نظام اور ان کی قیمتیں
اسرائیل کے پاس مختلف نوعیت کے جدید میزائل دفاعی نظام موجود ہیں، جن میں شامل ہیں:

آئرن ڈوم (Iron Dome)

سہِم 2 اور سہِم 3 (Arrow-2 & Arrow-3)

مقلاع داوود (David's Sling)

امریکی نظام THAAD (Terminal High Altitude Area Defense)

ان میں سے سب سے زیادہ انحصار Arrow نظام پر کیا جا رہا ہے، جو اسرائیلی ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) نے تیار کیا ہے۔

Arrow-2 فضا کے اندر میزائل تباہ کرتا ہے

Arrow-3 خلا کی سرحدوں پر میزائل کو روکتا ہے

فی میزائل لاگت:
دفاعی نظام ایک میزائل کو روکنے کی لاگت
آئرن ڈوم $30,000 (تیس ہزار ڈالر)
مقلاع داوود $700,000 (سات لاکھ ڈالر)
سہِم 2 $1,500,000 (پندرہ لاکھ ڈالر)
سہِم 3 $2,000,000 (بیس لاکھ ڈالر)

یعنی اگر ایران دسیوں بیلسٹک میزائل فائر کرے، تو اسرائیل کو اُنھیں روکنے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ یہ معاشی دباؤ اگر طویل مدت تک جاری رہا، تو اسرائیلی معیشت کیلئے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صرف چند دنوں میں ایران کی جانب سے 400 سے زائد بیلسٹک میزائل اور سینکڑوں ڈرون داغے جا چکے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 35 میزائل اسرائیلی حدود میں گرے، جن کی درست مقامات کی تفصیل نہیں دی گئی۔

اسرائیلی ایرو اسپیس انڈسٹریز کے سی ای او بوعز لیوی کا کہنا تھا:

"دنیا کا کوئی بھی ملک ایسے وسیع پیمانے پر بیلسٹک حملوں کا سامنا نہیں کر پایا، جو ہمیں برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔"

دفاعی نظام کی کامیابی کی شرح:
Arrow-3 کی کامیابی کا تناسب: 90٪

THAAD (امریکی نظام) کی کامیابی کی شرح: صرف 40٪

یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی نظام پر انحصار مکمل طور پر قابلِ اعتماد نہیں رہا۔

ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیل کے مختلف شہروں پر مہلک حملے کیے، جن سے بڑی تباہی ہوئی۔ یہ حملے اسرائیلی فضائی کارروائیوں کے جواب میں کیے گئے، جن میں ایران کی جوہری تنصیبات، فوجی مراکز، اور اعلیٰ عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا۔

ماہرین کے مطابق، اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے، تو نہ صرف عسکری بلکہ معاشی اعتبار سے بھی اسرائیل کیلئے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

ماسکو میں چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست جاری کی ہے جن پر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے بمباری کی۔ یہ فہرست نہ ص...
18/06/2025

ماسکو میں چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست جاری کی ہے جن پر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے بمباری کی۔ یہ فہرست نہ صرف امریکی جارحیت کی تاریخ کو عیاں کرتی ہے بلکہ مغربی دنیا کے دوہرے معیار کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ درج ذیل ممالک اس فہرست کا حصہ ہیں، جن پر امریکا نے مختلف اوقات میں حملے کیے:
• جاپان: 6 اور 9 اگست 1945 (ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بمباری)
• کوریا اور چین: 1950–1953 (جنگِ کوریا کے دوران)
• گواٹے مالا: 1954، 1960، 1967–1969
• انڈونیشیا: 1958
• کیوبا: 1959–1961 (خلیجِ خنازیر کا واقعہ)
• کانگو: 1964
• لاؤس: 1964–1973
• ویتنام: 1961–1973 (ویتنام جنگ)
• کمبوڈیا: 1969–1970
• گریناڈا: 1983
• لبنان: 1983، 1984 (لبنان اور شام میں اہداف پر حملے)
• لیبیا: 1986، 2011، 2015
• ایل سلواڈور: 1980
• نکاراگوا: 1980
• ایران: 1987
• پاناما: 1989
• عراق: 1991 (خلیجی جنگ)، 1991–2003 (امریکی و برطانوی حملے)، 2003–2015
• کویت: 1991
• صومالیہ: 1993، 2007–2008، 2011
• بوسنیا: 1994، 1995
• سوڈان: 1998
• افغانستان: 1998، 2001–2015
• یوگوسلاویہ: 1999
• یمن: 2002، 2009، 2011
• پاکستان: 2007–2015 (ڈرون حملے)
• شام: 2014–2015
یہ فہرست 30 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے، جو امریکی فوجی مداخلت کا شکار ہوئے۔ چین نے اس فہرست کے ذریعے واضح کیا کہ "ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عالمی امن کے لیے اصل خطرہ کون ہے۔"
چینی سفارت خانے نے یہ فہرست اس وقت جاری کی جب مغربی میڈیا اور حکومتیں ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے کی شدید مذمت کر رہی تھیں۔ اس دوران امریکا کے ماضی کے جنگی جرائم کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ چین کا یہ اقدام مغرب کے اس دوہرے معیار کو اجاگر کرنے کے لیے تھا، جو انسانی حقوق اور عالمی قانون کے نام پر ایک جانب ایران کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور دوسری جانب امریکا کی جارحیت پر خاموش رہتا ہے۔
جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو "عالمی خطرہ" قرار دیا۔ اس کے جواب میں چینی سفارت خانے نے یہ فہرست شائع کی تاکہ دنیا کو یاد دلایا جائے کہ اصل خطرہ وہ ملک ہے جس نے نصف صدی سے زائد عرصے میں درجنوں ممالک پر بمباری کی اور لاکھوں جانیں لیں۔
سوالات جو اٹھتے ہیں
• کیا مغربی معاشرے نے کبھی امریکا کی ان کارروائیوں پر غم و غصہ ظاہر کیا؟
• کیا کبھی عالمی سطح پر امریکا کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں؟
• کیا ایک بار بھی امریکا پر اس کے جرائم کی بنا پر پابندیاں عائد کی گئیں؟
بدقسمتی سے، عالمی نظام، جسے ہم "بین الاقوامی برادری" کہتے ہیں، ایک خاموش تماشائی بنا رہا۔ امریکا نے دنیا بھر کے ممالک پر حملے کیے، ان کے وسائل لوٹے، اور ان کے خوابوں کو تباہ کیا، لیکن اسے کبھی کوئی سزا نہیں ملی۔ نہ کوئی عالمی مذمت، نہ کوئی سرزنش، اور نہ ہی کوئی پابندی۔ یہ ایک بزدلانہ اور منافقانہ عالمی ضمیر کی عکاسی کرتا ہے۔
چین کا موقف
چین نے اس فہرست کے ذریعے ایک واضح پیغام دیا کہ امریکا کسی اخلاقی یا قانونی جواز سے دوسرے ممالک پر تنقید کرنے کا اہل نہیں۔ اس کا ماضی اور حال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، فوجی جارحیت، اور عالمی بدامنی سے بھرا پڑا ہے۔ چین نے زور دیا کہ مغربی میڈیا اور حکومتیں اس منافقت کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن دنیا کو سچ جاننے کا حق ہے۔
ایک عالمی پیغام
یہ فہرست نہ صرف ایک سفارتی اقدام ہے بلکہ ایک سیاسی اور اخلاقی چارج شیٹ بھی ہے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے یک طرفہ بیانیے کے خلاف پیش کی گئی۔ چین نے اسے جاری کر کے دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دوہرے معیار کو تسلیم کرے اور امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائے۔
ہمارا فرض
اس فہرست کو ہر پلیٹ فارم پر پھیلانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا، ویڈیوز، مضامین، اور ہر ممکن ذریعے سے اس حقیقت کو دنیا تک پہنچائیں۔ ایسی دستاویزی فلمیں اور رپورٹس بنائیں جو امریکی جرائم اور مغرب کے دوہرے معیار کو بے نقاب کریں۔ یہ وقت ہے کہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جائے اور سچ کو منظر عام پر لایا جائے۔
آئیے، اس فہرست کو ایک تحریک کا حصہ بنائیں جو دنیا کو یاد دلائے کہ اصل خطرہ کون ہے اور منافقت کے خلاف آواز بلند کرے!

لالچ کی دلدل میں پھنسے خوابجب ہم پاکستان میں ہونے والے مالیاتی دھوکہ دہی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں، تو دل میں ایک عجیب ...
11/06/2025

لالچ کی دلدل میں پھنسے خواب

جب ہم پاکستان میں ہونے والے مالیاتی دھوکہ دہی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں، تو دل میں ایک عجیب سی بے چینی سی پیدا ہوتی ہے۔ کبھی "ڈبل شاہ" کا نام سنائی دیتا ہے، کبھی "مضاربہ سکینڈل" کی گونج سنائی دیتی ہے، اور کبھی "ون کوائن" جیسے جدید فراڈ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ سب واقعات ایک ہی داستان کے مختلف رنگ ہیں—ایک ایسی کہانی جو لالچ کے جال میں پھنس کر خوابوں کو چکنا چور کر دیتی ہے۔ اس کہانی کا نام ہے پونزی سکیم۔ یہ کوئی نئی ایجاد نہیں، بلکہ صدیوں سے چھوٹے بڑے پیمانے پر لوگوں کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ رہا ہے۔ لیکن اسے عالمی شہرت دینے والا ایک شخص تھا—چارلس پونزی۔ آئیے، اس دلچسپ اور سبق آموز کہانی کو گہرائی سے سمجھتے ہیں، جہاں لالچ، چرب زبانی، اور دھوکہ دہی ایک ایسی کہانی رقم کرتی ہے جو آج بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
تصور کریں کہ ایک دن آپ کی ملاقات ایک خوبصورت، خوش لباس شخص سے ہوتی ہے۔ وہ آپ کو اپنی خوشحالی کی کہانی سناتا ہے—ایک ایسی کہانی جو آپ کے دل میں دولت کے خواب جگاتی ہے۔ وہ کہتا ہے، "اگر آپ مجھے ایک لاکھ روپے دیں، تو میں آپ کو ہر ماہ 25 ہزار یا اس سے بھی زیادہ منافع دوں گا۔ اور ہاں، آپ جب چاہیں اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں!" یہ وعدہ سن کر آپ کا دل للچاتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ یہ تو پانی کے بلبلوں جیسا آسان ہے—پیسہ لگاؤ اور دولت کماو۔ آپ رقم دے دیتے ہیں، اور حیرت کی بات یہ کہ اگلے مہینے آپ کو وعدے کے مطابق منافع مل جاتا ہے۔ آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اپنے دوستوں، رشتہ داروں، حتیٰ کہ پڑوسیوں کو بھی یہ "سنہری موقع" بتاتے ہیں۔ وہ بھی اس جال میں پھنس جاتے ہیں، اور آپ کو کمیشن ملتا ہے کیونکہ آپ نے نئے "سرمایہ کار" لائے۔
لیکن یہاں ایک گہرا راز ہے۔ وہ منافع جو آپ کو ملا، وہ کسی کاروبار یا سرمایہ کاری سے نہیں آیا۔ یہ دراصل اس رقم سے ادا کیا گیا جو نئے آنے والوں نے جمع کی۔ یعنی یہ ایک ایسی چکی ہے جو دوسروں کے پیسوں سے چلتی ہے۔ جب تک نئے لوگ پیسہ لگاتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لیکن ایک دن، جب نئے سرمایہ کار آنا بند ہو جاتے ہیں، تو یہ پورا ڈھانچہ دھڑام سے گر جاتا ہے۔ وہ "امیر" شخص آپ کی جمع پونجی لے کر غائب ہو جاتا ہے، اور آپ کے ہاتھ صرف پچھتاوا آتا ہے۔ یہی ہے پونزی سکیم—ایک دھوکہ، جو لالچ کی آگ پر پھلتا پھولتا ہے۔
پاکستان میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ "ڈبل شاہ" نے ہزاروں لوگوں کو لاکھوں روپے کا چونا لگایا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آپ کی رقم کو چند ماہ میں دگنا کر دے گا۔ لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی اس کے حوالے کر دی، لیکن جب وہ غائب ہوا، تو پیچھے صرف آنسو اور پچھتاوا رہ گیا۔ اسی طرح "ون کوائن" نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر لوگوں کو ورغلایا کہ وہ کرپٹو کرنسی کے ذریعے ارب پتی بن سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک عالمی پونزی سکیم تھی، جس نے بلغاریہ کی ایک خاتون روجا اگناتووا کے ذریعے دنیا بھر سے 4 بلین ڈالر اکٹھے کیے اور پھر وہ غائب ہو گئی۔ آج تک دنیا کی بڑی بڑی ایجنسیاں اسے ڈھونڈ رہی ہیں، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں۔

اس کہانی کا مرکزی کردار چارلس پونزی 1882 میں اٹلی کے شہر پارما میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عام خاندان سے تعلق رکھتا تھا، لیکن اس کے خواب بڑے تھے۔ 1903 میں وہ اپنی قسمت آزمانے امریکہ پہنچا۔ لیکن قسمت نے اس کے ساتھ مذاق کیا۔ بحری جہاز پر جوئے کی لت نے اس کی ساری جمع پونجی چھین لی، اور جب وہ بوسٹن کے ساحل پر اترا، تو اس کی جیب میں صرف ڈھائی ڈالر تھے۔ سوچیں، ایک اجنبی ملک، خالی جیب، اور مستقبل کے بڑے بڑے خواب—یہ ایک ایسی کہانی کا آغاز تھا جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے درج ہو گئی۔
پونزی نے چھوٹی موٹی نوکریاں کیں، لیکن اس کا دل کبھی مطمئن نہ ہوا۔ 1907 میں وہ کینیڈا چلا گیا اور ایک بینک میں ملازمت شروع کی۔ لیکن بدقسمتی نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ بینک دیوالیہ ہو گیا، اور پونزی پھر خالی ہاتھ رہ گیا۔ اس نے ایک چیک کے ذریعے دھوکہ دہی کی کوشش کی، لیکن پکڑا گیا اور تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل سے نکلنے کے بعد اس نے اطالوی تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر امریکہ لانے کا دھندا شروع کیا، لیکن ایک بار پھر پکڑا گیا اور دو سال کی سزا کاٹی۔
1918 میں وہ بوسٹن واپس آیا۔ یہاں اس نے شادی کی اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے اندر کا وہ بے چین انسان ابھی تک دولت کے شارٹ کٹ کی تلاش میں تھا۔ اور پھر ایک دن، اسے ایک خط ملا جس نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس خط میں ایک انٹرنیشنل ریپلائی کوپن تھا۔ اس وقت مختلف ممالک کے ڈاکخانے یہ کوپن جاری کرتے تھے، جن کے بدلے دوسرے ملکوں میں ڈاک کے ٹکٹ حاصل کیے جا سکتے تھے۔ پونزی نے دیکھا کہ سستے ممالک جیسے اٹلی میں یہ کوپن پانچ سینٹ میں خرید کر امریکہ میں 20 سینٹ کے ٹکٹوں کے بدلے بیچے جا سکتے ہیں۔ اس نے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ایک ایسی سکیم بنائی جو اسے تاریخ میں امر کر گئی۔

پونزی نے "سیکیورٹیز ایکسچینج کمپنی" کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور لوگوں کو لالچ دیا کہ وہ ڈیڑھ ماہ میں 50 فیصد یا تین ماہ میں 100 فیصد منافع دے گا۔ اس نے کہا کہ وہ دوسرے ممالک سے یہ کوپن خرید کر امریکہ میں بیچتا ہے، جس سے یہ زبردست منافع ممکن ہے۔ ابتدائی سرمایہ کاروں کو اس نے ایمانداری سے منافع دیا، حتیٰ کہ کچھ نے اپنی اصل رقم بھی واپس لی۔ اس سے پونزی کی شہرت آسمان کو چھونے لگی۔ لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر اسے پیسے دینے کو بے قرار تھے۔
فروری 1920 میں پونزی نے 5 ہزار ڈالر کا منافع کمایا۔ مارچ میں یہ 30 ہزار ڈالر ہو گیا، اور مئی تک یہ سوا چار لاکھ ڈالر تک جا پہنچا۔ ایک وقت آیا جب وہ ایک دن میں ڈھائی لاکھ ڈالر کما رہا تھا—آج کے حساب سے یہ تقریباً 33 لاکھ ڈالر روزانہ بنتے ہیں! پونزی نے ایک شاہانہ زندگی شروع کر دی۔ اس نے محل نما گھر خریدا، عالیشان گاڑیاں لیں، اور بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنے لگا۔ لیکن یہ سب ایک دھوکہ تھا۔ وہ کوئی کوپن نہیں خرید رہا تھا۔ اس کا سارا کاروبار نئے سرمایہ کاروں کے پیسوں سے چل رہا تھا۔

پونزی کی یہ چمک دھمک دیکھ کر ایک صحافی، کلیرنس بیرن، کو شک ہوا۔ بیرن کو جدید معاشی صحافت کا باپ کہا جاتا ہے۔ وہ ڈاؤ جونز اینڈ کمپنی کا صدر بھی رہا۔ اس نے پونزی کے دعوؤں کی چھان بین شروع کی۔ اسے پتہ چلا کہ اتنے بڑے منافع کے لیے جتنے کوپن درکار ہیں، وہ دنیا میں موجود ہی نہیں ہیں۔ اگر پورے بحری جہاز بھر کر کوپن لائے جائیں، تب بھی یہ منافع ممکن نہیں۔ بیرن نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اگر پونزی اتنا منافع کما رہا ہے، تو وہ خود کیوں نہیں اپنی رقم لگاتا؟ کیوں دوسروں کے پیسوں پر یہ کاروبار چلا رہا ہے؟
بیرن کی رپورٹ ایک بم کی طرح پھٹی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر، لوگوں نے اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ پونزی کی چرب زبانی اور اس کے "کامیاب" سرمایہ کاروں کی کہانیوں نے لوگوں کو اندھا کر دیا تھا۔ جس دن بیرن کی رپورٹ شائع ہوئی، لوگ پونزی کے دفتر کے باہر قطاروں میں کھڑے تھے کہ اسے پیسہ دیں۔ پونزی نے اس دن 10 ملین ڈالر (آج کے حساب سے سوا کروڑ ڈالر) کی نئی سرمایہ کاری حاصل کی۔ یہ لالچ کی طاقت تھی، جو سچائی کو دبا رہی تھی۔

لیکن پونزی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا کھیل زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ اس نے ایک پبلک ریلیشنز ایکسپرٹ ولیم میکک ماسٹر کو ہائر کیا، لیکن ولیم نے جلد ہی سمجھ لیا کہ یہ سب ایک بہارا فراڈ ہے۔ اس نے پونزی کے خلاف پریس ریلیز جاری کی اور بتایا کہ پونزی دو ملین ڈالر کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔۔ اس کے بعد وفاقی حکام نے پونزی کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ انہیں کوئی خاص تعداد میں کوپن نہیں ملے۔ پونزی پر ڈاک کے ذریعے فراڈ کے 86 الزامات عائد ہوئے۔ اس نے ایک الزام پر اقبال جرم کیا اور پانچ سال کی سزا پائی۔
سزا کے بعد بھی پونزی نے ہار نہیں مانی۔ جیل سے نکل کر اس نے نئی سکیمیں شروع کیں، لیکن ہر بار پکڑا گیا۔ آخر کار 1934 میں اسے اٹلی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ وہاں بھی اس نے فراڈ کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کی صحت خراب ہوئی، اور 1949 میں وہ برازیل کے ایک خیراتی ہسپتال میں انتقال کر گیا۔ اس کی جیب میں چند ڈالر تھے، لیکن اس کا نام پونزی سکیم کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں پونزی سکیمیں نئے روپ میں سامنے آ رہی ہیں۔ کمپنیاں جیسے "StockSons"، "EliteFxTrade"، اور "Istorm.vip" لوگوں کو روزانہ 1.7 فیصد یا ماہانہ 50 فیصد منافع کے وعدے کرتی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ آپ گھر بیٹھے، بغیر محنت کے، اپنی رقم دگنی کر سکتے ہیں۔ لیکن سوچیں—اتنا بڑا منافع کون سا کاروبار دیتا ہے؟ یہ کمپنیاں اکثر ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کو نشانہ بناتی ہیں، کیونکہ یہاں کے لوگ آسان دولت کے خوابوں میں جلدی پھنس جاتے ہیں، اور سائبر قوانین کمزور ہیں۔
یہ سکیمیں شروع میں آپ کو منافع دیتی ہیں، تاکہ آپ کا بھروسہ بن جائے۔ آپ 100 ڈالر لگاتے ہیں، اور 60 دن میں آپ کو منافع سمیت پیسہ واپس مل جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی آپ بڑی رقم لگاتے ہیں، یہ آپ سے کہتے ہیں کہ مزید لوگوں کو شامل کریں، ورنہ آپ کا اکاؤنٹ بلاک ہو جائے گا۔ جب یہ کمپنیاں کافی پیسہ اکٹھا کر لیتی ہیں، وہ ویب سائٹ بند کر کے غائب ہو جاتی ہیں۔ آپ کے ہاتھ نہ پیسہ رہتا ہے، نہ شکایت سننے والا کوئی ادارہ۔ پاکستان کے سائبر کرائم سیل میں جائیں، تو جواب ملتا ہے کہ "یہ سکیمیں رجسٹرڈ ہی نہیں، آپ نے انوسٹ کیوں کیا؟"

پونزی سکیم کی کہانی ہمیں ایک اہم سبق دیتی ہے: لالچ بری بلا ہے۔ جب کوئی آپ کو غیر معمولی منافع کا وعدہ کرے، تو اپنی عقل کے دروازے کھولیں۔ پوچھیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔؟ کون سا کاروبار اتنا منافع دیتا ہے؟؟ اگر جواب مطمئن نہ ہو، تو اپنی محنت کی کمائی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
دوسری بات، مالیاتی خواندگی بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں لوگ اکثر ایسی سکیموں کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں سرمایہ کاری کے بنیادی اصول نہیں پتہ۔ ہر وہ چیز جو بہت اچھی لگتی ہے، اس کے پیچھے ایک جال ہو سکتا ہے۔ اس لیے، سرمایہ کاری سے پہلے تحقیق کریں، ماہرین سے مشورہ کریں، اور ہمیشہ رجسٹرڈ اداروں پر بھروسہ کریں۔
تیسری بات، اپنے پیسوں کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی کمپنی رجسٹرڈ نہیں، اس کا ایڈریس مشکوک ہے، یا اس کے وعدے غیرواقعی ہیں، تو اس سے دور رہیں۔ پونزی سکیمیں صرف پیسہ نہیں چھینتیں، وہ آپ کے خواب، اعتماد، اور مستقبل بھی چھین لیتی ہیں۔

چارلس پونزی کی کہانی ایک دلچسپ لیکن افسوسناک داستان ہے۔ وہ ایک عام انسان تھا، لیکن لالچ اور چرب زبانی نے اسے فراڈ کا بادشاہ بنا دیا۔ اس کی سکیم نے ہزاروں لوگوں کے خواب تباہ کیے، لیکن اس نے ہمیں ایک سبق بھی دیا۔ آج، جب ہم ڈیجیٹل دنیا میں ایسی سکیموں کو پھرتے دیکھتے ہیں، تو ہمیں پونزی کی کہانی یاد رکھنی چاہیے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہا دولت کی دوڑ میں عقل اور صبر کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ کیونکہ سچے خواب وہ ہیں جو محنت اور ایمانداری سے پورے ہوتے ہیں، نہ کہ لالچ کے جال میں پھنس کر چکنا چور ہوتے ہیں۔

Address

Gujranwala

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when معلومات posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to معلومات:

Share