13/12/2025
مجھے سائیکل ہمیشہ سے پسند رہی ہے، مگر آج سمجھ آتا ہے کہ یہ پسند محض ایک سواری کی نہیں تھی بلکہ زندگی کے سبق سکھانے والے ایک خاموش استاد کی تھی۔
سائیکل نے مجھے تین ایسے بنیادی سبق دیے جو وقت کے ساتھ ساتھ میرے شعور کی بنیاد بنتے چلے گئے۔
پہلا سبق: شوق پورا کرنے کے لیے خود کھڑا ہونا پڑتا ہے
بچپن میں جب میں کسی سے سائیکل مانگتا تو پہلا سوال یہی ہوتا:
“چلانا آتی ہے؟”
اور میرا سادہ سا جواب ہوتا:
“نہیں”
بس یہی جواب میری خواہش کا راستہ بند کر دیتا۔ تب مجھے زندگی کی پہلی بڑی حقیقت سمجھ آئی:
اگر اپنا شوق پورا کرنا ہے تو یا تو اپنی چیز ہونی چاہیے،
یا پھر دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی سند، کوئی ثبوت، کوئی لیبل۔
خالی خواہش کافی نہیں ہوتی۔
دوسرا سبق: بے لوث سہارا زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے
ابو جی کی منت سماجت کے بعد آخرکار سائیکل آ ہی گئی۔ وہ دن آج بھی دل کے کسی کونے میں جگمگا رہا ہے۔
دوستوں نے پیچھے سے سائیکل کا کیریئر پکڑا، میں سیٹ پر بیٹھا، اور یوں میری پہلی سواری شروع ہوئی۔
میں پیڈل چلا رہا تھا، وہ ساتھ دوڑ رہے تھے۔
تب ابو جی اور ان دوستوں نے مجھے وہ بات سکھائی جو عمر بھر کام آتی ہے:
زندگی میں کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو اسٹیئرنگ تھما دیتے ہیں،
آپ کے ساتھ دوڑتے ہیں،
اور گرنے نہیں دیتے۔
یہ رشتے نہ قیمت دیکھتے ہیں، نہ فائدہ—یہ بے لوث ہوتے ہیں، اور اسی لیے بے حد قیمتی۔
تیسرا سبق: اصل سفر اعتماد کا ہوتا ہے
میں بار بار پیچھے دیکھ کر کہتا:
“کیریئر مت چھوڑنا”
وہ مسکرا کر کہتے:
“آگے دیکھو، ہم ہیں، تم نہیں گرو گے”
میری ساری توجہ اب توازن پر تھی۔
پیڈل کا ردھم بننے لگا، رفتار بڑھی، اور ڈگمگاتی سائیکل سیدھی چلنے لگی۔
جب میں نے فخر سے کہا “اب دھکا مت دو” تو کچھ دیر بعد پیچھے سے آواز آئی:
“ہم چھوڑ چکے ہیں”
ایک لمحے کو دل گھبرایا، سائیکل ہلکی سی لڑکھڑائی…
مگر اسی خوف نے مجھے توازن سکھا دیا۔
اور تب مجھے زندگی کا تیسرا، سب سے گہرا سبق ملا:
سفر ہمیشہ اپنے اعتماد پر طے ہوتا ہے۔
کوئی ہمیشہ آپ کے ساتھ دوڑتے ہوئے کیریئر نہیں پکڑ سکتا۔
ایک دن آپ کو خود چلنا ہوتا ہے،
خود سنبھلنا ہوتا ہے،
اور خود ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
سائیکل آج بھی وہی ہے،
مگر سبق ہر دن نیا ہے۔
اگر آپ گرنے کے ڈر سے رک گئے، تو کبھی چلنا نہیں سیکھ پائیں گے۔
اور اگر اعتماد کر لیا، تو ایک دن پیچھے مڑ کر دیکھیں گے اور مسکرا کر کہیں گے:
“میں خود چل رہا ہوں”