معلومات

معلومات Informazioni di contatto, mappa e indicazioni stradali, modulo di contatto, orari di apertura, servizi, valutazioni, foto, video e annunci di معلومات, Agenzia media/stampa, Bolzano.
(745)

معلومات پیج ایک ایسا بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں آپ کو معلوماتی مواد کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزا اور موٹیویشنل کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں معلوماتی حقائق کے ساتھ ساتھ فکر انگیز مواد بھی پیش کیا جاتا ہے۔ معلومات پیج سے جڑیں رہیں اور اس کو فالو کریں https://www.facebook.com/Dilchasp.info

دلچسپ معلومات: زبردست اور حیرت انگیز معلومات پر مبنی اردو پیج ہے۔ اوپر دیئے گئےپیج کے لنک کو ایک دفعہ وزٹ ک

ریں۔ اگر پسند آئے تو ضرور اس پیج کو لائک کریں تاکہ آپ کو اس پیج کی روزانہ دلچسپ اور حیرت انگیز پوسٹ ملتی رہیں۔ شکریہ

اگر آپ ( دلچسپ و عجیب معلومات) پیج کو پسند کرتے ہیں۔ تو اپنی فرینڈ لسٹ کو بھی اس کی دعوت دیں۔
دعوت کا طریقہ۔
نیچےاس لنک پر کلک کر کے دلچسپ معلوما ت کے پیج پر جائیں۔
https://www.facebook.com/Dilchasp.info
اور
Invite Your Friends to Like This Page
پر
Invite
کے بٹن کو دبا کر اپنے فرینڈز کو دعوت دیں۔ شکریہ

مجھے سائیکل ہمیشہ سے پسند رہی ہے، مگر آج سمجھ آتا ہے کہ یہ پسند محض ایک سواری کی نہیں تھی بلکہ زندگی کے سبق سکھانے والے ...
13/12/2025

مجھے سائیکل ہمیشہ سے پسند رہی ہے، مگر آج سمجھ آتا ہے کہ یہ پسند محض ایک سواری کی نہیں تھی بلکہ زندگی کے سبق سکھانے والے ایک خاموش استاد کی تھی۔
سائیکل نے مجھے تین ایسے بنیادی سبق دیے جو وقت کے ساتھ ساتھ میرے شعور کی بنیاد بنتے چلے گئے۔

پہلا سبق: شوق پورا کرنے کے لیے خود کھڑا ہونا پڑتا ہے
بچپن میں جب میں کسی سے سائیکل مانگتا تو پہلا سوال یہی ہوتا:
“چلانا آتی ہے؟”
اور میرا سادہ سا جواب ہوتا:
“نہیں”
بس یہی جواب میری خواہش کا راستہ بند کر دیتا۔ تب مجھے زندگی کی پہلی بڑی حقیقت سمجھ آئی:
اگر اپنا شوق پورا کرنا ہے تو یا تو اپنی چیز ہونی چاہیے،
یا پھر دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی سند، کوئی ثبوت، کوئی لیبل۔
خالی خواہش کافی نہیں ہوتی۔

دوسرا سبق: بے لوث سہارا زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے
ابو جی کی منت سماجت کے بعد آخرکار سائیکل آ ہی گئی۔ وہ دن آج بھی دل کے کسی کونے میں جگمگا رہا ہے۔
دوستوں نے پیچھے سے سائیکل کا کیریئر پکڑا، میں سیٹ پر بیٹھا، اور یوں میری پہلی سواری شروع ہوئی۔
میں پیڈل چلا رہا تھا، وہ ساتھ دوڑ رہے تھے۔
تب ابو جی اور ان دوستوں نے مجھے وہ بات سکھائی جو عمر بھر کام آتی ہے:
زندگی میں کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو اسٹیئرنگ تھما دیتے ہیں،
آپ کے ساتھ دوڑتے ہیں،
اور گرنے نہیں دیتے۔
یہ رشتے نہ قیمت دیکھتے ہیں، نہ فائدہ—یہ بے لوث ہوتے ہیں، اور اسی لیے بے حد قیمتی۔

تیسرا سبق: اصل سفر اعتماد کا ہوتا ہے
میں بار بار پیچھے دیکھ کر کہتا:
“کیریئر مت چھوڑنا”
وہ مسکرا کر کہتے:
“آگے دیکھو، ہم ہیں، تم نہیں گرو گے”
میری ساری توجہ اب توازن پر تھی۔
پیڈل کا ردھم بننے لگا، رفتار بڑھی، اور ڈگمگاتی سائیکل سیدھی چلنے لگی۔
جب میں نے فخر سے کہا “اب دھکا مت دو” تو کچھ دیر بعد پیچھے سے آواز آئی:
“ہم چھوڑ چکے ہیں”

ایک لمحے کو دل گھبرایا، سائیکل ہلکی سی لڑکھڑائی…
مگر اسی خوف نے مجھے توازن سکھا دیا۔
اور تب مجھے زندگی کا تیسرا، سب سے گہرا سبق ملا:
سفر ہمیشہ اپنے اعتماد پر طے ہوتا ہے۔
کوئی ہمیشہ آپ کے ساتھ دوڑتے ہوئے کیریئر نہیں پکڑ سکتا۔
ایک دن آپ کو خود چلنا ہوتا ہے،
خود سنبھلنا ہوتا ہے،
اور خود ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

سائیکل آج بھی وہی ہے،
مگر سبق ہر دن نیا ہے۔
اگر آپ گرنے کے ڈر سے رک گئے، تو کبھی چلنا نہیں سیکھ پائیں گے۔
اور اگر اعتماد کر لیا، تو ایک دن پیچھے مڑ کر دیکھیں گے اور مسکرا کر کہیں گے:
“میں خود چل رہا ہوں”

2014 میں ایک چینی شہری چن کے لیے چھٹیاں ایک عجیب اور مزاحیہ موڑ اختیار کر گئیں، جب اس کے کم عمر بیٹے نے اپنے والد کے سرک...
13/12/2025

2014 میں ایک چینی شہری چن کے لیے چھٹیاں ایک عجیب اور مزاحیہ موڑ اختیار کر گئیں، جب اس کے کم عمر بیٹے نے اپنے والد کے سرکاری سفری دستاویز — یعنی پاسپورٹ — کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین کینوس سمجھ لیا۔

نتیجہ بچوں کی شرارت کا ایک شاہکار تھا: بچے نے پاسپورٹ کے فوٹو والے صفحے پر داڑھی بنا دی، آنکھیں سیاہ کر دیں، اور اس کے اردگرد جانوروں کی تصویریں اور مختلف اشکال بنا ڈالیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب امیگریشن حکام نے دیکھا کہ یہ “فن پارہ” اب مشین کے ذریعے پڑھنے کے قابل نہیں رہا۔

اپنے بچے کی حد سے زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے باعث مسٹر چن کو ہوائی اڈے پر روک لیا گیا اور واپسی کی پرواز میں سوار ہونے کی اجازت نہ ملی۔ یہ واقعہ ایک قیمتی مگر تکلیف دہ سبق بن گیا: سفر کے دوران سرکاری دستاویزات کو ہمیشہ ننھے فنکاروں کی پہنچ سے دور رکھنا چاہیے!

گرمجوشی، مصافحہ اور وہ تاریخی انتظار جو فائلوں سے نکل کر عالمی فورم تک پہنچ گیا 😄🤝⏰ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں...
13/12/2025

گرمجوشی، مصافحہ اور وہ تاریخی انتظار جو فائلوں سے نکل کر عالمی فورم تک پہنچ گیا 😄🤝⏰

ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں امن، اعتماد اور غیرجانبداری پر کانفرنس ہو رہی تھی…
لیکن سوشل میڈیا کے مطابق اصل موضوع یہ تھا:
"پوتن کب آئیں گے؟" 😆

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف بڑے وقار اور سفارتی اعتماد کے ساتھ کانفرنس میں پہنچے۔ دل میں شاید یہی خیال ہو کہ آج تو عالمی لیول کی ملاقاتیں ہوں گی، ہاتھ ملیں گے، تصویریں بنیں گی، اور خبر چلے گی۔
ہاتھ تو ملا…
خبر بھی چلی…
بس انتظار بھی ساتھ فری ملا 😜

ایک کمرے میں شہباز شریف پاکستانی جھنڈے کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھے تھے۔ برابر میں روسی جھنڈے والی کرسی خالی، اتنی خالی کہ لگ رہا تھا ابھی کوئی کہے گا:
“بھائی یہ کرسی کس کی ہے؟” 😂

وقت گزرتا گیا…
10 منٹ…
20 منٹ…
30 منٹ…
اور شہباز شریف کے چہرے پر وہی تاثر جو عام شہری کا ہوتا ہے جب کہے:
“سر فائل اندر گئی ہوئی ہے” 😅

اسی دوران پوتن صاحب ساتھ والے کمرے میں ترک صدر اردوغان کے ساتھ ایسے مصروف تھے جیسے پرانی دوستیاں تازہ ہو رہی ہوں۔ ادھر پاکستانی وزیراعظم بیٹھے بیٹھے شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں:
“چلو خیر ہے، ملاقات ہو جائے گی… صبر بھی سفارت کاری کا حصہ ہے” 😄

پھر وہ لمحہ آیا جس نے سوشل میڈیا کو زندہ کر دیا۔
شہباز شریف خود اٹھے، دروازہ کھولا، اور سیدھا ملاقات میں جا گھسے۔
یعنی:
“انتظار بہت ہو گیا، اب خود ہی شامل ہوتے ہیں” 🚪😂

ویڈیو وائرل ہوئی،
تبصرے شروع ہوئے،
میمز بنیں،
اور ایک بار پھر ثابت ہوا کہ
پاکستانی عوام سفارت کاری کم اور تفریح زیادہ دیکھتے ہیں 😜

دفترِ خارجہ نے کہا:
“غلط فہمی تھی”
انڈین چینل نے کہا:
“پوسٹ ڈیلیٹ کر دی”
غلط فہمی میں ایکس پر پوسٹ ہوگئی تھی۔
اور سوشل میڈیا نے کہا:
“اب دیر ہو چکی ہے” 😆

روسی اخبارات نے بھی مزے لے لے کر لکھا کہ ترک صدر اور پوتن کی ملاقات اتنی لمبی ہو گئی کہ برابر والے کمرے میں بیٹھے پاکستانی وزیراعظم اکیلے بیٹھے بیٹھے تھک گئے۔
یعنی عالمی سیاست بھی اب
انتظار کے اعصاب آزماتی امتحان میں بدل چکی ہے 😄

حامیوں نے کہا:
“دیکھو! ہمارے وزیراعظم عالمی لیڈرز کے ساتھ ہیں”
ناقدین نے کہا:
“یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟”
اور عوام نے کہا:
“بس چائے ہونی چاہیے تھی” ☕😂

آخر میں ترجمان نے وضاحت دی کہ ماحول گرمجوش تھا، ملاقاتیں مثبت تھیں، اور دن کامیاب رہا۔
لیکن عوام جانتی ہے کہ اس دن کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ:

پاکستانی سیاست نے ثابت کر دیا —
انتظار ہو تو باوقار،
کرسی ہو تو جھنڈے والی،
اور کمرہ ہو تو عالمی لیول کا ہونا چاہیے 😄

کیونکہ چاہے یونین کونسل ہو یا بین الاقوامی فورم،
انتظار ہماری قومی روایت ہے 😉

یہ واقعہ ہمارے سسٹم کے وہ زخم دکھاتا ہے جن پر برسوں سے مرہم نہیں لگا… بلکہ شاید کبھی لگانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ذرا تص...
13/12/2025

یہ واقعہ ہمارے سسٹم کے وہ زخم دکھاتا ہے جن پر برسوں سے مرہم نہیں لگا… بلکہ شاید کبھی لگانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی
ذرا تصور کریں:
پاکستان نیوز رپورٹر کے مطابق ایک عام پاکستانی شہری بڑے خواب لے کر ڈرائیونگ لائسنس بنوانے پہنچا۔ دل میں خوشی کہ واہ! اب سب کچھ آن لائن، شفاف اور قانون کے مطابق ہوگا۔
لیکن سسٹم نے اسے وہ سرپرائز دیا جو صرف پاکستان میں ہی مل سکتا ہے

پتا چلا کہ جس موٹر سائیکل کو وہ برسوں سے “چوری شدہ” سمجھ کر بھول چکا تھا، اس پر دو ہزار روپے کا ای چالان بھی موجود ہے!
یعنی موٹر سائیکل چوری نہیں ہوئی تھی… وہ تو سرکاری ڈیوٹی پر تھی

اصل مزہ تو تب آیا جب چالان کی تصویر نکلوائی گئی۔ تصویر میں شہری نہیں، بلکہ ایک پولیس اہلکار بڑے فخر سے اسی چوری شدہ موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا نظر آیا—اور وہ بھی ٹریفک قوانین توڑتے ہوئے۔
ایک طرف شہری بےچارہ فائلیں اٹھائے کھڑا ہے، دوسری طرف اس کی موٹر سائیکل سرکاری سیر پر نکلی ہوئی ہے
سوچیے!
موٹر سائیکل شہری کی، چالان شہری کے نام، سواری پولیس کی… اور قصور سسٹم کا، جو ہمیشہ “اپڈیٹ” ہوتا رہتا ہے
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، یہ پورے نظام کی وہ سیلفی ہے جو کسی فلٹر کے بغیر وائرل ہو گئی۔
مانا کہ پاکستان میں برے لوگ بھی ہیں، مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اچھے لوگ اب بھی زیادہ ہیں—جو ہنستے بھی ہیں، برداشت بھی کرتے ہیں، اور پھر بھی امید رکھتے ہیں کہ ایک دن یہ نظام واقعی سیدھا ہو جائے گا۔
اور انہی لوگوں کی آواز بننا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
کیونکہ جب تک ہم غلط کو غلط نہ کہیں گے،
تب تک یہ سسٹم ہمیں روز کوئی نیا “چالان سرپرائز” دیتا رہے گا
یہ ملک صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ہمارا گھر ہے۔
اور گھر کی صفائی سب مل کر ہی کرنی پڑتی ہے—چاہے پہلے ہنستے ہوئے ہی کیوں نہ شروع کرنی پڑے

11/12/2025

دنیا کی پہلی یونیورسٹی ایک مسلمان خاتون نے بنائی

859 عیسوی میں مراکش کے شہر فاس میں ایک باہمت اور علم دوست مسلمان خاتون فاطمہ الفہری نے دنیا کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی "جامعہ القرویین" قائم کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ادارہ آج بھی فعال ہے اور یونیسکو اسے دنیا کی پہلی اور سب سے قدیم جاری یونیورسٹی تسلیم کرتا ہے۔

فاطمہ الفہری نے اپنے باپ کی وراثت علم کی خدمت میں وقف کر دی۔ اس زمانے میں تعلیم زیادہ تر مردوں تک محدود تھی، لیکن انہوں نے نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کے لیے بھی دروازے کھول دیے۔ یہاں ریاضی، فلکیات، فقہ، طب، ادبیات اور فلسفے سمیت کئی علوم پڑھائے جاتے تھے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں یورپ کے کئی سائنسدان، مفکر اور مذہبی اسکالرز بھی اسی یونیورسٹی کی تحقیق سے مستفید ہوتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپی یونیورسٹی سسٹم نے بھی کسی حد تک اسی کے ماڈل سے تحریک حاصل کی۔

یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں خواتین نے صرف گھریلو کردار ہی نہیں نبھایا بلکہ علم، تہذیب اور ترقی میں بھی عظیم کردار ادا کیا۔

11/12/2025

وہ بادشاہ جو کتابوں کو قید کرتا تھا

آپ نے بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا، مگر ایک بادشاہ ایسا بھی گزرا ہے جو قیدیوں کی جگہ کتابوں کو قید کرتا تھا!

یہ تھے مراکش کے بادشاہ المنصور۔ وہ علم کے دیوانے تھے۔ جب بھی ان کی فوج کوئی شہر فتح کرتی، تو وہ اس شہر کے بہترین علماء، خطاط اور کتابیں اپنے دربار میں لے آتے۔

دلچسپ بات؟
وہ کتابوں کے لیے الگ قید خانے بنواتے تھے—ایسے کمروں میں جہاں نمی، روشنی اور درجہ حرارت خاص طور پر کنٹرول کیا جاتا تھا تاکہ کتابیں خراب نہ ہوں۔

مورخین لکھتے ہیں کہ ان کی ذاتی لائبریری میں:

ہزاروں نایاب مخطوطے

سونے کی سیاہی سے لکھے قرآن

سائنس، فلکیات، طب اور فلسفے کی عربی و یونانی کتب

موجود تھیں، جنہیں خاص محافظ سنبھالتے تھے۔

یہ حقیقت اس بات کی گواہی ہے کہ کبھی مسلمان بادشاہ کتابوں اور علم کو خزانے کی طرح قید کر کے محفوظ رکھتے تھے—تاکہ آنے والی نسلیں جہالت سے آزاد رہیں۔

11/12/2025

وہ شہر جو کبھی غائب ہو گیا

دنیا کے عجیب و غریب تاریخی شہروں میں سے ایک ہے موہنجو داڑو، جو آج پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع ہے۔ یہ شہر تقریباً 5,000 سال پہلے دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا، اور اپنی تہذیب، سڑکوں اور پانی کے نظام کی وجہ سے دنیا کے قدیم ترین شہری منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ موہنجو داڑو اتنے اچانک غائب ہو گیا کہ مورخین آج بھی اس کے مکمل راز نہیں جان سکے۔ کچھ ماہرین کے مطابق:

شدید سیلاب یا دریائے سندھ کے رخ بدل جانے کی وجہ سے شہر زیر آب آ گیا

یا پھر کسی جنگ یا بیماری نے یہاں کی آبادی کو ختم کر دیا

شہر کے نقش و نگار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگ انتہائی ترقی یافتہ، صاف ستھرے اور منظم زندگی گزارتے تھے—جیسے آج کے شہروں میں بنیادی سہولیات موجود ہوں۔

موہنجو داڑو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قدرت کی طاقت اور انسان کی ترقی ساتھ ساتھ چلتی ہے، لیکن کبھی کبھار انسان کی محنت بھی قدرت کے آگے کمزور ثابت ہو جاتی ہے۔

11/12/2025

2000 سال پرانا کمپیوٹر: سمندر کی تہہ سے نکلا وہ قدیم یونانی معجزہ جس نے دنیا کو حیران کر دیا

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا سب سے اہم الیکٹرانک آلہ – کمپیوٹر – دراصل ایک انتہائی پراسرار اور پیچیدہ قدیم مشین سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا؟ یہ کہانی ایک گمشدہ ٹیکنالوجی کی ہے جو 2000 سال قبل یونان میں موجود تھی اور آج بھی سائنسدانوں کے لیے ایک بہت بڑا معمہ بنی ہوئی ہے۔ یہ ہے "اینٹیکیتھیرا میکانزم" (Antikythera Mechanism) کی داستان۔

یہ کہانی 1900 کی ہے، جب یونان کے جزیرے کریٹ اور میلوس کے درمیان Antikythera نامی چھوٹے سے جزیرے کے قریب سمندر کی تہہ میں چند غوطہ خوروں کو ایک قدیم یونانی بحری جہاز کا ملبہ ملا۔ یہ جہاز تقریباً 60 قبل مسیح میں ڈوبا تھا اور اس میں مجسمے، زیورات اور دیگر قیمتی نوادرات تھے۔ غوطہ خوروں نے ان نوادرات کو نکالا، لیکن ایک چیز ایسی بھی تھی جو کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

یہ ایک زنگ آلود، دھات کا ٹکڑا تھا جو لکڑی کے ڈبے میں بند تھا اور مکمل طور پر سمندری کٹاؤ کی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔ پہلے تو اسے محض ایک پتھر یا کسی خراب اوزار کا حصہ سمجھا گیا۔ لیکن جب کئی دہائیوں بعد 1950 کی دہائی میں سائنسدانوں نے اس کا بغور معائنہ کیا تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ ایکس رے اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ کوئی عام پتھر نہیں بلکہ ایک انتہائی پیچیدہ مکینیکل آلہ تھا جس میں باریک سے باریک دندانے دار پہیے (gears) اور ڈائل موجود تھے۔

یہ آلہ کسی جدید گھڑی سے بھی زیادہ پیچیدہ معلوم ہوتا تھا اور سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ اس کی ساخت اور ٹیکنالوجی اس دور سے تقریباً 1000 سال آگے تھی۔ یہ آلہ آج سے 2000 سال پہلے، یعنی جدید دور کے کمپیوٹرز کی ایجاد سے بہت پہلے بنایا گیا تھا!

سائنسدانوں نے برسوں کی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اینٹیکیتھیرا میکانزم دراصل ایک اینالاگ کمپیوٹر تھا۔ یہ ایک ایسا آلہ تھا جو فلکیاتی حسابات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس کی مدد سے قدیم یونانی سورج، چاند اور اس وقت کے معلوم سیاروں کی حرکات کا درست اندازہ لگا سکتے تھے۔ یہ آلہ نہ صرف ان کے طلوع و غروب کا وقت بتاتا تھا بلکہ چاند گرہن اور سورج گرہن کی پیش گوئی بھی کر سکتا تھا۔ اس میں اولمپک گیمز اور دیگر یونانی تہواروں کے چکر بھی موجود تھے تاکہ لوگ کیلنڈر کے حساب سے ان کی تیاری کر سکیں۔

اس آلے کی پیچیدگی آج بھی سائنسدانوں کو حیران کرتی ہے۔ اس میں 30 سے زیادہ برونز کے گیئرز لگے ہوئے تھے، ہر ایک کی اپنی مخصوص حرکت اور مقصد تھا۔ اس کی ساخت اتنی نفیس تھی کہ ایسے مکینیکل اوزار اس کے بعد 14ویں صدی تک دوبارہ نہیں بنائے گئے۔ یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم یونانیوں کے پاس نہ صرف فلکیات اور ریاضی کا گہرا علم تھا بلکہ وہ انتہائی جدید انجینئرنگ کی صلاحیتیں بھی رکھتے تھے۔

اینٹیکیتھیرا میکانزم نے تاریخ کو از سر نو لکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس قدر پیچیدہ گیئر پر مبنی ٹیکنالوجی کا آغاز یورپ میں قرونِ وسطیٰ کے اواخر میں ہوا۔ لیکن اس آلے نے ثابت کیا کہ یہ ٹیکنالوجی ہزاروں سال پہلے ہی موجود تھی۔

آج بھی یہ ایک معمہ ہے کہ اس آلے کا موجد کون تھا اور اسے کیسے استعمال کیا جاتا تھا؟ کچھ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق مشہور یونانی ریاضی دان آرکیمیدس سے ہو سکتا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد آلہ تھا یا اس جیسے اور بھی آلات بنائے گئے تھے جو وقت کے ساتھ ضائع ہو گئے۔

اینٹیکیتھیرا میکانزم سمندر کی تہہ سے نکلا ایک ایسا راز ہے جو ہمیں انسانی ذہانت کی ناقابلِ یقین صلاحیتوں اور تاریخ کے پوشیدہ شاہکاروں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ آج بھی ثابت کرتا ہے کہ قدیم دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی موجود تھی جس کا ہم آج بھی پوری طرح اندازہ نہیں لگا سکتے۔

11/12/2025

بھیڑیوں سے بچنے کے لیے انسانوں کی وہ عجیب و غریب تدبیر جو خود بھی ایک معمہ بن گئی!

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یورپ کے کچھ گاؤں میں رات کو بھیڑیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے انسانوں نے ایک ایسی خوفناک تدبیر اپنائی جو آج بھی نفسیاتی ماہرین کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے؟ یہ کہانی ان تاریک ادوار کی ہے جب انسان جنگلی حیات کے رحم و کرم پر تھے، اور جان بچانے کے لیے انہیں ایسے اقدامات کرنے پڑتے تھے جو آج کے دور میں ناقابلِ یقین لگیں۔ یہ ہے "وارولف ٹرائلز" (Werewolf Trials) یا بھیڑیا انسان کے مقدمات کی پراسرار داستان۔

16ویں اور 17ویں صدی کے یورپ میں، خاص طور پر فرانس اور جرمنی کے دیہی علاقوں میں، بھیڑیوں کا خطرہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ جنگلات وسیع تھے اور بھیڑیوں کے جھنڈ گاؤں میں گھس کر جانوروں اور بعض اوقات انسانوں کو بھی نشانہ بناتے تھے۔ اس وقت لوگوں کا ایمان تھا کہ بعض انسان جادو کے ذریعے بھیڑیوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، یعنی "وارولف" (Werewolf) بن سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ محض کہانیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ عدالتوں میں باقاعدہ ایسے مقدمات چلائے جاتے تھے جہاں لوگوں پر بھیڑیا انسان بننے کا الزام لگایا جاتا تھا۔

اب کہانی کا سب سے حیران کن اور ہولناک پہلو آتا ہے۔ ان وارولف مقدمات میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جہاں پکڑے جانے والے افراد نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ واقعی بھیڑیا انسان بن گئے تھے اور انہوں نے انسانوں کو مار کر کھایا بھی تھا۔ ان میں سے ایک مشہور واقعہ 1589 کا ہے جب پیٹر اسٹوب (Peter Stumpp) نامی ایک کسان پر جرمنی میں یہ الزام لگا کہ وہ دس سال سے زیادہ عرصے سے راتوں کو بھیڑیا بن کر لوگوں کا شکار کر رہا ہے۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ اس کے پاس ایک جادوئی بیلٹ ہے جسے پہننے سے وہ ایک خوفناک بھیڑیے میں بدل جاتا ہے، اور اس نے کئی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے کھایا ہے۔ اسے انتہائی سفاکانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

اسی طرح کے کئی دیگر مقدمات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں، جہاں ملزموں نے اپنے وارولف بننے کا اعترافی بیان دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ جادو کے ذریعے بھیڑیا بن جاتے تھے؟ یقیناً آج کی سائنس اسے مکمل طور پر رد کرتی ہے۔ تو پھر یہ لوگ ایسے اعتراف کیوں کرتے تھے؟ اس کے پیچھے کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جو انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں چھپی ہیں۔

شدید تشدد اور اذیتیں: اس وقت کے عدالتی نظام میں تشدد اور اذیتیں دے کر اعترافات حاصل کرنا عام تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں پر اتنا ظلم کیا جاتا ہو کہ وہ جان بچانے کے لیے کوئی بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہوں۔

نفسیاتی بیماریاں: کچھ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ یہ لوگ شدید نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو سکتے تھے، جیسے "لائکینتھروپی" (Lycanthropy)۔ یہ ایک ذہنی حالت ہے جس میں انسان خود کو جانور سمجھنے لگتا ہے۔

مشروم یا جڑی بوٹیوں کا استعمال: یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کسی ایسی زہریلی جڑی بوٹی یا مشروم کا استعمال کیا ہو جس سے وہ وہم اور دماغی خلل کا شکار ہو جاتے ہوں اور انہیں حقیقت اور فکشن کا فرق معلوم نہ پڑتا ہو۔

اجتماعی ہسٹیریا اور خوف: اس وقت کے معاشرے میں بھیڑیوں کا خوف، توہم پرستی اور جادو ٹونے پر گہرا ایمان تھا۔ اس اجتماعی ہسٹیریا نے لوگوں کے ذہنوں پر اس قدر گہرا اثر ڈالا ہو گا کہ بعض لوگ خود کو اس کہانی کا حصہ سمجھنے لگے۔

یہ وارولف ٹرائلز نہ صرف قانونی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں بلکہ یہ ہمیں اس وقت کے انسانی معاشرے اور اس کی نفسیات کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خوف، جہالت اور توہم پرستی کس حد تک انسانی شعور کو متاثر کر سکتی ہے اور لوگوں کو ایسے کام کرنے یا ایسے اعتراف کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جو آج کے دور میں ناقابلِ یقین لگتے ہیں۔ یہ کہانی آج بھی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا انسان کی فطرت میں کوئی ایسا پوشیدہ پہلو بھی ہے جو بعض حالات میں اسے حیوان بنا سکتا ہے، یا یہ سب محض خوف، توہم پرستی اور نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ تھا؟

11/12/2025

برف میں دفن ہونے کے بعدر پھر زندہ لوٹ آئی: 56.7°F سے واپسی کی ناقابلِ یقین کہانی

20 مئی 1999 — شمالی ناروے
29 سالہ اینا بوگن ہولم اُس زمانے میں میڈیکل کی طالبہ تھیں۔ امتحانات اور مصروفیات کے درمیان انہوں نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر ناروک کے قریب آخری بہاری برفانی ڈھلوانوں پر اسکیئنگ کا منصوبہ بنایا—موسمِ بہار ختم ہونے سے پہلے آخری بار برف سے لطف اندوز ہونے کا موقع۔
تینوں ہنس رہے تھے، ٹھنڈی ہوا چہروں سے ٹکرا رہی تھی، اردگرد پھیلی خاموشی سکون دے رہی تھی… اور پھر ایک لمحہ ایسا آیا جس نے پوری زندگی بدل دی۔
ایک پھسلن بھرا موڑ۔
ایک سخت برفانی تختہ۔
ایک غلط زاویہ۔
اینا پھسل کر سیدھا سر کے بل برف جمی ندی میں جا گریں۔ ان کے اوپر برف کی تہہ بند ہوگئی۔ وہ پانی کے نیچے پھنس چکی تھیں۔
دوست دیوانہ وار انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن بہاؤ نے انا کو برف کے نیچے مزید دور دھکیل دیا۔ وہ زندہ تھیں، پوری ہوش میں—گھٹن اور اندھیرے میں زندگی کے لیے لڑتی ہوئی۔ وہ ہاتھوں سے اوپر کی برف توڑنے کی کوشش کرتی رہیں، سانس روک کر پانی میں جدوجہد کرتی رہیں۔ پھر اچانک انہیں ایک چھوٹی سی ہوا کی جیب ملی، جہاں برف اور پانی کے درمیان چند انچ کا خالی حصہ موجود تھا۔
وہاں وہ اپنے چہرے کو اوپر رکھ کر سانس لینے لگیں—
دھیرے دھیرے… مشکل سے…
برف کا اندھیرا، جسم میں ٹھنڈ کی میخیں، اور امید کا آخری دھاگہ۔
انہوں نے چالیس منٹ اس جیب سے سانس لیتے ہوئے گزارے، مگر جیسے جیسے سردی جسم میں سرایت کرتی گئی، ان کی توانائی ختم ہونے لگی۔ کپکپی، کمزوری، ذہنی دھندلاہٹ…
اور پھر دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔
ان کا جسم جواب دے چکا تھا۔
ادھر امداد ابھی پہنچی بھی نہیں تھی۔ مزید چالیس منٹ گزر گئے۔
کل ملا کر 80 منٹ وہ برف کے نیچے رہیں۔
جب ریسکیو ٹیم نے انہیں نکالا تو انا کلینیکل ڈیتھ کی حالت میں تھیں—
نہ نبض، نہ سانس، نہ جسم میں گرمی کا کوئی نشان۔
ان کی جلد موم کی طرح سرمئی، آنکھوں کی پتلیاں بے حرکت۔
اور سب سے ہولناک بات: ان کا کور باڈی ٹمپریچر صرف 56.7°F تھا۔ یعنی وہ انسان کی زندہ رہنے کی حد سے بہت نیچے گر چکی تھیں۔
مگر ٹرومسو شہر، جو تقریباً 62 میل دور تھا، وہاں کے ڈاکٹروں نے ہار ماننے سے انکار کردیا۔
میڈیکل دنیا کا ایک اصول اُن کے ذہن میں تھا:
“جب تک جسم گرم نہ ہو جائے، کسی کو مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔”
انہیں فوراً ہارٹ-لنگ بائی پاس مشین سے جوڑا گیا۔ ان کا خون جسم سے نکالا گیا، آکسیجن شامل کی گئی، آہستہ آہستہ گرم کیا گیا، اور پھر دوبارہ جسم میں واپس بھیجا گیا۔ یہ عمل گھنٹوں جاری رہا—ملی میٹر بہ ملی میٹر، سانس بہ سانس۔
جب ان کا جسم 86°F تک پہنچا تو ایک معجزہ ہوا۔
تقریباً نو گھنٹے بعد ان کا دل پھر سے دھڑکنے لگا۔
اگلے کئی دن بحالی، بے یقینی، انتظار، اور خاموش دعاوں میں گزرے۔ پھر آہستہ آہستہ ردعمل آنے لگے۔
پھر پہلی پہچان…
پہلا جملہ…
اینا زندہ تھیں۔
اور ان کا دماغ حیرت انگیز طور پر مکمل محفوظ تھا۔
ہاں، ہاتھوں اور پیروں میں کچھ اعصابی نقصان ضرور ہوا، مگر ان کی ذہنی صلاحیت، سوچ، یادداشت—سب کچھ برقرار تھا۔
وہ چلنے پھرنے لگیں، صحت بہتر ہوئی، اور اپنی پڑھائی مکمل کی۔
سالوں بعد وہ واپس اُسی اسپتال لوٹیں—
مگر مریضہ بن کر نہیں، ریڈیولوجسٹ بن کر۔
وہ انہی راہداریوں میں چلتی رہیں جہاں انہیں موت کے دہانے سے واپس لایا گیا تھا۔ انہی مشینوں کے پاس سے گزرتیں جنہوں نے ان کے دل کو دوبارہ زندہ کیا تھا۔
ان کی فائلیں دنیا بھر کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جانے لگیں، ان کی کہانی گائیڈ لائنز کا حصہ بن گئی۔
“You’re not dead until you’re warm and dead.”
یہ اصول اب سرکاری ہدایت نامے میں شامل ہے۔
اور 56.7°F ایک تاریخی حوالہ بن چکا ہے۔
اینا 80 منٹ برف کے نیچے رہیں—
40 منٹ سانس لیتی رہیں…
40 منٹ دل بند رہا…
پھر بھی وہ جاگ اٹھیں۔
اور دوبارہ زندگی شروع کر دی۔
جس دن انا بوگن ہولم اُس برفانی ندی میں گری تھیں، اسی دن طبّی دنیا نے ایک نیا سبق سیکھا—
کہ بعض اوقات انجام وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے۔
اصل آغاز تو اُس کے بعد ہوتا ہے۔

Indirizzo

Bolzano

Sito Web

Notifiche

Lasciando la tua email puoi essere il primo a sapere quando معلومات pubblica notizie e promozioni. Il tuo indirizzo email non verrà utilizzato per nessun altro scopo e potrai annullare l'iscrizione in qualsiasi momento.

Contatta L'azienda

Invia un messaggio a معلومات:

Condividi