Wowwords

Wowwords تل وطنیں دی جاہ

نامور سرائیکی شاعر، حکایت نگار اور ناول نگار رفعت عباس کا تیسرا ناول "مسخریاں دا میلہ" ان کی تخلیقی بصیرت اور فکری گہرائ...
08/10/2025

نامور سرائیکی شاعر، حکایت نگار اور ناول نگار رفعت عباس کا تیسرا ناول "مسخریاں دا میلہ" ان کی تخلیقی بصیرت اور فکری گہرائی کا نیا باب ہے۔ اس سے پہلے وہ "لون دا جیون گھر" اور "نیلیاں سلہاں پچھوں" جیسے ناول لکھ چکے ہیں، لیکن "مسخریاں دا میلہ" ان کے فن کی بلوغت اور فکری وسعت کا ثبوت ہے۔ اس ناول میں رفعت عباس نے دنیا کو ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک دنیا کو چلانے کے لیے کسی دیوتا،سورما،حاکم،سالار،ملا،قاضی،ساہوکار یا دلال کی نہیں بلکہ ایک مسخرے کی ضرورت ہے۔

ناول کا پہلا باب مصنف کے سوانحی حوالوں سے ابھرتا ہے۔، جہاں وہ اپنی یادوں، احساسات اور خاندانی تعلقات کو بڑی سادگی مگر گہرائی سے بیان کرتے ہیں۔خاص طور پر 1965 اور 1971 کی جنگ کا احوال اور تجزیہ۔دوسرا باب بازار حسن کا اچھوتا بیانیہ ہے جس میں اس طرب بزار کا مفہوم ہی بدل دیا گیا ہے۔ اس باب کے آخر میں ملتان شہر ایک ناٹک گھر میں منقلب ہو جاتا ہے۔جہاں شہر سکندر مقدونی کو لگا ہوا اپنا زہر بجھا تیر واپس لیتا ہے اور وہ صحت یاب ہو کر بابل کی بجائے مقدونیہ کو لوٹ جاتا ہے۔جہاں ملتان اپنے قاتل ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنرل ولیم وہش کے لیے معافی کا اعلان کرتا ہے۔تیسرا حصہ کورونا وائرس کے زمانے کا بیانیہ ہے۔چوتھا باب سندھ کے سفر پر مشتمل ایک تاریخی اور اساطیری بیانیہ ہے، جو قاری کو بیرونی منظرنامے سے اندرونی معنویت کی طرف لے جاتا ہے۔جہاں جگدیش کولھی ہے جو نمک کی کیمیا سے تتلیاں،پرندے،جانور اور انسان بناتا ہے۔اس باب میں ملتان سے روانہ ہونے والے مسخرے اپنا میلہ لگاتے ہوئے " شیو " تک پہنچتے اور وہ مسخروں سے مل کر مسخرہ بن جاتا ہے اور "شیو " کی تیسری آنکھ کی نئی معنویت سامنے آتی ہے۔
یہاں سیما پر خار دار تاروں کی باڑ ہے اور نمک کا میدان ہے۔جہاں ایک رات مسخروں کے ناٹک میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ یوں "مسخریاں دا میلہ" صرف ایک داستان نہیں بلکہ وجودی شعور کا سفر ہے جس میں ذات اور کائنات ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں۔

رفعت عباس کے نزدیک مسخرا محض تفریح کا کردار نہیں بلکہ ایک فلسفی، ایک آئینہ دار، اور ایک ایسا وجود ہے جو سچ اور جھوٹ کی پرتوں کوں بدل دیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"میکوں اوڑک ڈس پئی جو ہر جنے کوں ہک مسخرے دی لوڑ ہے۔ ایں دب دروہ تے ترٹ بھج دی مار اتے آئے ہوئے ملتان شہر کوں وی ہک مسخرے دی لوڑ یے۔ سچ اکھیجے تاں ایں جگ جہان کوں وی ہک مسخرے دی لوڑ ہے… میکوں اوڑک سمجھ لگی جو مسخرا ہک شیشے ودھ کم کریندا ہے۔ شیشہ بس نقل لہیندا تے چور کو نپویندا ہے پر مسخرا اصل تئیں پجدا تے چور کوں چھڑوا گھندا ہے۔"

یہ اقتباس ناول کے فکری مرکز کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں "شیشہ" اور "مسخرے" کا تقابل دراصل دو فکری زاویوں کا تصادم ہے۔ شیشہ محض عکس دکھاتا ہے، مگر مسخرا معنی کی نئی تخلیق کرتا ہے۔ اس کے ہاں طنز اور محبت ایک ساتھ چلتے ہیں، اور یہی امتزاج انسانی نجات کی صورت بنتا ہے۔

رفعت عباس کا وژن اس ناول میں انسان دوستی اور امن کی تلاش سے عبارت ہے۔ وہ دنیا کو جنگ،موت اور طاقت کے جنون سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسخرے کا کردار اس لیے اہم ہے کہ وہ طاقت کی بجائے مسخری، حیرت اور محبت سے نظام بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کے بیانیہ میں حیرت،رومان،تشبیہ اور استعارہ اضافی قدریں بن جاتے ہیں۔وہ ان تمام قدروں کوحقیقت تک رسائی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور بیانیے کی نئی سطح کی بات کرتے ہیں۔
۔ ناول نگار لکھتے ہیں:

"اپنی حیرت تے رومان کوں جھلیم جو ایہ ڈوہیں شئیں ڈیکھنڑ، سوچنڑ تے دنیا نال ہنڈنڑ وچ اڑاند ڈیندیاں ہن۔"
(مسخریاں دا میلہ/ صفحہ 175)

"مسخریاں دا میلہ" میں رفعت عباس نے سرائیکی زبان کی قوتِ اظہار کو اپنی انتہا تک پہنچایا ہے۔ ان کی زبان میں شاعری کی لطافت، فلسفے کی گہرائی اور تہہ داری بیک وقت موجود ہے۔ یہ زبان سرائیکی ثقافت کے خمیر سے نکلی ہے مگر انسانی تجربے کی وسعتوں کو چھوتی ہے۔

آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ "مسخریاں دا میلہ" محض ایک ناول نہیں بلکہ رفعت عباس کی فکری رسائی، وجودی سرشاری اور انسان دوست نظریے کا اعلان ہے۔ یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کا اصل جمال عقل یا طاقت میں نہیں بلکہ مسخرے کی مسخری میں پوشیدہ ہے۔
(مختاراحمد)
کتاب کے حصول کے لئے عکس کے دوست محمد فہد کا رابطہ نمبر
03004827500

لکھت : سہیل بلوچ ترجمہ نگاری کا فن صرف ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام نہیں ہے ۔یہ ایک ایسا فن ہے جو مصنف ،...
05/10/2025

لکھت : سہیل بلوچ

ترجمہ نگاری کا فن صرف ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام نہیں ہے ۔یہ ایک ایسا فن ہے جو مصنف ،کتاب اور ترجمہ نگار کے درمیان ایک مضبوط رشتے کا آئینے دار ہوتا ہے ۔ترجمہ نگار مصنف کے تخیل کو جو الفاظ کی ساختیاتی روح میں بسا ہوا ہوتا ہے ،اس کو بالعموم نیا رنگ اور اسلوب دیتا ہے ۔اس رنگ کی خاص بات زبان کی حیثیت ہوتی ہے کہ وہ جوں کی توں برقرار رہے ۔ایک قاری جب دو زبانوں کو الگ الگ ایک کتاب پڑھتا ہے تو اسے معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ مصنف کے تخیل کو کس حد تک ترجمہ نگار نے اپنایا ہے ۔
"ابنارمل"بنیادی طور پر سرائیکی زبان میں لکھی گئی کہانیاں ہیں ۔اس کو مشہور سرائیکی شاعر جناب اشو لال فقیر نے لکھا تھا ۔ان کہانیوں میں "مقامیت" اور "وسوں" کا رنگ نظر آتا ہے ۔اشو لال نے ہمیشہ سرائیکی زبان و ادب ،سرائیکی تہزیب و ثقافت اور تمدنی زندگی کو اپنا حرف رمز بنایا ہے ۔
ان کی شاعری میں مقامیت کا رنگ ابھر کا سامنے آتا ہے ۔
استاد محترم جناب منیر غنی شیخ نے ان کے اس رنگ کو ، مقامیت کے تصور کو اور پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کو کچھ سالوں بعد دوبارہ اُردو زبان کے پیرائے میں زندہ کیا ہے ۔ان کے اسلوب میں سلیس پن اور ساختیاتی تناؤ ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے اشو سائیں کے تمام تر خیالات اور نظریات کو نیا رنگ و روپ دیا ہے ۔استاد محترم اور اشو سائیں کا تعلق کافی گہرا اور پرانا ہے ،تبھی تو انھوں نے ترجمہ کرتے وقت اشو سائیں کے وژن کو اور مقامی مؤقف کو سرائیکی زبان سے اُردو زبان میں منتقل کرتے وقت صاف و شفاف رکھا ہے ۔
اس کتاب کو عکس پبلشرز نے حال ہی میں شائع کیا ہے ۔کتاب کا سرورق انتہائی خوب صورت اور انتہائی پرکشش ہے کہ قاری جب ایک کہانی کو شروع کرتا ہے تو الفاظ کی لے میں چلا جاتا ہے اور بحروں کی طرح مختلف خیالات میں گھومتا جاتا ہے جو جا کر اسے درست راستہ دکھاتے ہیں ۔کتاب میں کل ۱۳ کہانیاں شامل ہیں ۔
"گنگا بشیرا اور کملی" سے ایک اقتباس دیکھیے:
"تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ ایک شخص بول سکتا ہو مگر وہ اپنی زبان ترک کر دے۔ گونگے نے کملی کے لیے اپنی زبان کو ترک کر دیا تھا اور کملی بھی گوڑے گوڑے میں سے اسے مکمل طور پر سمجھ چکی تھی۔
زبان کے فساد سے دور وہ دونوں ایک ایسی مخلوق تھے جنھیں ایک دوسرے کا مکمل الہام ہو چکا تھا، وہ دو نہیں بلکہ ایک ہو چکے تھے۔
ماں بہن کی گالیوں جیسی زبان درازی سے بستی والے اکثر دست و گریبان ہوتے رہتے۔ کبھی کبھی یہ زبان مقدس بھی ہو جاتی اور کبھی فساد کا باعث بن جاتی تھی۔"

ابنارمل کے نئے روپ کی سندھ دیوتا سے ملاقات 🙏🥰

#ابنارمل #ناول #سندھ #سندھو #ثقافت #کہانی #اشولال #تہذیب

غزلیں : فیصل ساغر ——میں گراں بار تھا اس واسطے کم مایا تھاتجھ کو کیوں روندا گیا ،  تُو تو فقط سایہ تھاکل کھلا کتنے دنوں ب...
01/10/2025

غزلیں : فیصل ساغر
——
میں گراں بار تھا اس واسطے کم مایا تھا
تجھ کو کیوں روندا گیا ، تُو تو فقط سایہ تھا

کل کھلا کتنے دنوں بعد یہ دروازہِ دل
کل کوئی کتنے دنوں بعد یہاں آیا تھا

بار بار اٹھتی تھیں آنکھیں مری خنجر کی طرف
کتنی مشکل سے مَیں شب خود کو بچا پایا تھا

پھر مرے ہاتھ میں اک روشنی در آئی تھی
مَیں نے کچھ دیر کسی ہاتھ کو سہلایا تھا

پھر مری بات سنی ان سنی کرنے لگے لوگ
مَیں نے اک روز کسی بات کو دوہرایا تھا

کل مرے کمرے میں مہکار تھی فیصل کیا کیا
کل مرے کمرے میں پھولوں کا خدا آیا تھا
—-

مجھے اپنے ہی اندر چور سا محسوس ہوتا ہے
تجھے دیکھوں تو کوئی دیکھتا محسوس ہوتا ہے

تحیّر کا یہ عالم ہے کہ جس کو دیکھ کر گزریں
پلٹ کے دیکھیے تو دوسرا محسوس ہوتا ہے

مَیں اندر سے بہت خالی ہوں لیکن تم بھی سچے ہو
کہ میرا جسم باہر سے بھرا محسوس ہوتا ہے

مرے اندر کسی شے نے بہت ہلچل مچائی ہے
جہاں بھی بیٹھتا ہوں زلزلہ محسوس ہوتا ہے

مگر اک عمر لگتی ہے یہاں تک آنے میں صاحب
جہاں نقصان میں بھی فائدہ محسوس ہوتا ہے

نہ جانے عشق کی اب کون سی منزل پہ فائز ہوں
جہاں میں ہوں وہاں فیصل خدا محسوس ہوتا ہے
——

جو تھامتے تھے مرا ہاتھ بوڑھے ہو گۓ ہیں
تبھی تو میرے خیالات بوڑھے ہو گۓ ہیں

اب اس سے بڑھ کے ہمیں اور آزماۓ گا کیا
کہ چلتے چلتے ترے ساتھ بوڑھے ہو گۓ ہیں

ہمارا بوجھ اٹھانے سے اب گریزاں ہیں
تمھارے ارض و سماوات بوڑھے ہو گۓ ہیں

سفر مزید کریں گے تو گر پڑیں گے کہیں
کہ آتے جاتے یہ دن رات بوڑھے ہو گۓ ہیں

جو میرے سر کی سفیدی پہ مسکراتے تھے
بس ایک رات رہے ساتھ، بوڑھے ہو گۓ ہیں

مَیں نسل ـ نو کا اسے المیہ سمجھتا ہوں
شجر جواں ہیں مگر پات بوڑھے ہو گۓ ہیں

تمھاری سمت سے اذنِ ـ کلام ملتا نہیں
مرے لبوں پہ سوالات بوڑھے ہو گۓ ہیں
——

اسے بھی رسم کا حصہ بتایا جاتا ھے
ہمیں گھسیٹ کے بازار لایا جاتا ھے
۔
تو کیا بعید کہ ھم سرخرو بھی ہو جائیں
ہمارا ظرف اگر آزمایا جاتا ھے
۔
گزشتہ عہد میں ھم شہر سے نکالے گئے
نجانے اب کے ھمیں کیا سنایا جاتا ھے
۔
اب ایسے حال میں کیا قہقہوں کی فرمائش
یہی بہت ھے اگر مسکرایا جاتا ھے
۔
تمہیں تو لوریاں شاید سنائی جاتی ھوں
ہمیں تو تھپکیاں دے کر سلایا جاتا ھے
۔
اسی لیے تو مجھے روشنی پسند نہیں
جہاں بھی جاؤں میرے ساتھ سایا جاتا ھے
——

صداۓ کن ہوئی یکسر وجود میں آیا
مَیں بھر چکا تو سمندر وجود میں آیا

اور اس سے پہلے یہاں کچھ نہیں تھا کچھ بھی نہیں
یہ میرے دیکھتے منظر وجود میں آیا

خدا کو شکل کی حسرت ہوئی تھی جس لمحے
سنا ہے تب میرا پیکر وجود میں آیا

اسے بتایا تھا مَیں نے مَیں رنگ لاتا نہیں
وہ جانتے ہوۓ بنجر وجود میں آیا

یہ لوگ جس کا تصور بھی کر نہیں سکتے
وہ میرے واسطے اکثر وجود میں آیا

وہ ٹوٹ پھوٹ کسی کام آ گئی فیصل
مَیں پہلے سے کہیں بہتر وجود میں آیا

فیصل ساغر

توں کون ہئیں؟ اوں توں پُچھیم."میں ہک مسخرا ہاں تے تیڈے کٹھے رَہوݨ کیتے آیا ہاں" اوں مُسکدیاں ہوئیاں آکھیا."توں میڈے نال ...
30/09/2025

توں کون ہئیں؟ اوں توں پُچھیم.
"میں ہک مسخرا ہاں تے تیڈے کٹھے رَہوݨ کیتے آیا ہاں" اوں مُسکدیاں ہوئیاں آکھیا.
"توں میڈے نال کینویں رہ سگدا ہئیں. ایں نِکڑے جیہے کمرے وچ میڈے کیتے ہکڑو پلنگ، ایہے ڈو کرسیاں ہک میز تے کتاباں دی الماری ہے" آکھیم۔
"ایہ تیڈا کمرا ہے۔ ایں وچ ٻس توں رہسیں۔ میں ہِک تیکوں نظرساں تے ایں گالھ دی تیڈے گھر والیں کوں وی ڈَس نہ پوسی جو میں اِتھاں رہندا پیا ہاں۔"
اوں وَت مُسکدیاں ہویاں آکھیا۔
"پر توں میڈے کمرے وچ کیوں رہسیں۔ یا اکھیجے میں تیکوں اِتھاں کیوں رہوݨ ڈیواں۔ ٻیا، توں ایں بند کمرے وچ کینویں لَنگھ آیا ہئیں؟"
"میڈا اِتھاں ہووݨ تیڈے اپݨے کہیں چیتے وِچوں ہے۔ توں یاد کر سگدا ہئیں جو کوئی مُلاں، قاضی، سوداگر، حاکم یا سپاہی کڈاہیں تیڈی چوݨ نی رہ گیا۔ توں ترسلا دا یاد کر سگدا ہئیں جو تیکوں نقلی، جوکر، مخولی تے مسخرے بھاندے رہ گئے ہِن۔ ایں پاروں میں تیڈے اپݨے سَیت وِچوں نِشابُر تھیا ہاں۔"
میڈے کیتے ایہ اوکھیاں گالہیں ہَن۔..............................................
مُوہری پناں " ناول مسخریاں دا میلہ"
ناول نِگار: رفعت عباس
❤️🌹❤️
#سرائیکی #ناول

Credit : wild life of chakwal
28/09/2025

Credit : wild life of chakwal

خالد جاوید اور چارلی : سروم دُکھم__قسیم اظہر یہ محض ایک تصویر نہیں بلکہ دو الگ الگ کائناتوں کے ملنے کا لمحہ ہے۔ یہ لمحہ ...
28/09/2025

خالد جاوید اور چارلی : سروم دُکھم
__قسیم اظہر

یہ محض ایک تصویر نہیں بلکہ دو الگ الگ کائناتوں کے ملنے کا لمحہ ہے۔ یہ لمحہ گویا کسی افسانے کا وہ موڑ ہے جہاں دو مختلف کردار اچانک ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں اور قاری کو لگتا ہے کہ کہانی نے اپنی سمت بدل لی ہے۔ چارلی ، جو بارش میں رونا پسند کرتا ہے تاکہ کوئی اس کے آنسو نہ دیکھ سکے اور خالد جاوید ، جو آنسو کو لفظ بنا کر صفحے پر رکھ دیتے ہیں تاکہ سب دیکھ سکیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ رہتے ہوئے بھی دراصل ایک دوسرے کے ہمزاد ہیں۔

چارلی کی کائنات میں دکھ کو چھپانے کے لیے مسکراہٹ کا پردہ ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قہقہوں اور ہلکی سی مسکراہٹ سے دکھ کو اس طرح ڈھانپ دیتا ہے جیسے بارش کی بوندیں زمین کی دراڑوں پر مٹی کی خوشبو بکھیر کر گہرے زخم کو ڈھانپ دیتی ہیں۔ اس کے ہنسی بھرے کردار دنیا کو بھلا دیتے ہیں کہ یہ ہنسی کتنا بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ ہنسی جس کے پیچھے ٹوٹے ہوئے بچپن کا سناٹا ، غربت کے دن اور بھوک کے لمحات چھپے ہوئے ہیں۔ چارلی اپنے فن سے لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ زندگی کی بے رحم حقیقتوں کو بھی ایک لطیفے میں بدلا جا سکتا ہے۔

خالد جاوید کا کائناتی منظر بالکل اس کے برعکس ہے۔ وہ بارش کا سہارا نہیں لیتے۔ وہ قاری کو سیدھا اندھیری کوٹھڑی میں لے جاتے ہیں جہاں مٹی کی باس ، سڑن ، ٹوٹے ہوئے فرنیچر کی دھول اور خاموشی کا شور سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں موت ایک عام سا کردار ہے۔ جیسے کسی محلے کی گلی کا کوئی فرد جسے سب پہچانتے ہیں۔ وہ ہنسی کو جان بوجھ کر دفن کرتے ہیں تاکہ دکھ کی عریانیت نمایاں ہو۔ ان کے کردار روشنی کی تلاش میں نہیں نکلتے بلکہ اندھیرے میں بیٹھ کر اندھیرے کو ہی دیکھتے رہتے ہیں، جیسے یہ اندھیرا ہی ان کی اصل شناخت ہے۔

یہ دونوں کائناتیں گرچہ الگ الگ ہیں مگر دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ چارلی کے قہقہے کا وجود اس وقت تک معتبر نہیں جب تک اس کے پیچھے اداسی کی جھلک نہ ہو اور خالد جاوید کی تحریروں کا دکھ اس وقت تک بامعنی نہیں جب تک قاری کو کہیں نہ کہیں یہ احساس نہ ہو کہ ہنسی بھی ایک حقیقت ہے۔ یہ دوئی ، یہ تضاد۔ دراصل انسانی وجود کی بنیادی سچائی ہے۔ رات دن کے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی۔ روشنی اندھیرے کے بغیر اپنی پہچان نہیں رکھ سکتی۔ اور خوشی دکھ کے بغیر ادھوری ہے۔ چارلی اور خالد جاوید اسی فلسفۂ دوئی کے نمائندے ہیں۔

اس منظر کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وقت کے دو دھارے ایک دوسرے سے ٹکرا گئے ہوں۔ چارلی کی مسکراہٹ خالد جاوید کے دکھ پر جھک کر جیسے تھپکی دے رہی ہے اور خالد جاوید کی آنکھیں چارلی کے قہقہے کو خاموشی کے ساتھ تسلیم کر رہی ہیں۔ یہ تصویر علامت بن جاتی ہے اس بات کی کہ فن میں ہنسی اور دکھ ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا ادھورا ہے۔

سوچیے کہ چارلی دیوار سے اتر آئے اور خالد جاوید کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جائیں۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہیں۔ پھر چارلی ہلکا سا قہقہہ لگائیں۔ وہی پرانا جو دنیا نے برسوں سنا ہے۔ خالد جاوید اس قہقہے کو سنیں اور آہستہ سے کہیں۔

”تم اپنے زخموں کو ہنسی میں چھپاتے ہو اور میں اپنے زخموں کو ننگا چھوڑ دیتا ہوں۔ تم بارش میں روتے ہو تاکہ دنیا نہ دیکھے، اور میں دن کی روشنی میں روتا ہوں تاکہ دنیا کا ہر چہرہ ان آنسوؤں کا گواہ بن جائے۔ تمہیں لوگوں کو پل بھر ہنسانے کے لیے ہر بار ایک نئی ہنسی ایجاد کرنی پڑتی ہے، اور مجھے ان کو ہمیشہ کے دکھ میں دھکیلنے کے لیے ایک سیاہ سچ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔“

چارلی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے۔
”اسی لیے تو میں نے کہا تھا۔ زندگی قریب سے دیکھی جائے تو ایک سانحہ ہے اور دور سے دیکھی جائے تو ایک کامیڈی۔ میں نے آئینے کو اپنا بہترین دوست کہا تھا کہ جب میں رو رہا ہوتا ہوں تو وہ بھی میرے ساتھ روتا ہے۔ میرے قہقہے کو مت بھولو دوست۔ وہ دکھ کے اندر لپٹے ہوئے ہیں۔ میری زندگی کی باس اور سڑاند ہی میری ہنسی کی کھاد بنی ہے۔ مگر یہی دکھ لوگوں کو ہنساتا ہے۔ ہاں۔ مجھے ہر دفعہ اپنے دکھ کو باہر لانے کے لیے ایک نئی ہنسی تراشنا پڑتی ہے۔“

خالد جاوید دھیرے سے بولتے ہیں۔
”اور میں وہ ہوں جو دکھ کو اس کی اصل صورت میں پیش کرتا ہوں۔ اس پر کسی ماسک کی تہہ نہیں چڑھاتا۔ میرے کردار روتے نہیں۔ وہ ٹوٹتے ہیں۔ ان کی زبانیں گنگ ہیں مگر ان کی خاموشی قہقہوں سے زیادہ چیختی ہے۔ میں جانتا ہوں۔ انسان کے اندر ایک مسلسل سڑن ہے۔ ایک اندھیرا ہے جو کبھی بجھتا نہیں۔ میں نے لکھا تھا۔ ہم سب کی زندگیوں میں ایک تعفن ہے۔ بس کوئی اسے سونگھ لیتا ہے اور کوئی نہیں۔“

چارلی کے قہقہے میں اداسی گھل جاتی ہے۔
”تو تم وہ ہو جو دکھ کو برہنہ کر کے سامنے رکھتے ہو اور میں وہ ہوں جو دکھ پر ہنسی کا پردہ ڈال دیتا ہوں۔ مگر دکھ بہرحال ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔“

خالد جاوید سر جھکا کر جواب دیتے ہیں۔
”ہاں .. دکھ ہی اصل میں ہماری زمین ہے۔ تم اس زمین پر پھول اگاتے ہو تاکہ لوگ خوشبو سونگھ سکیں اور میں اس زمین کی سڑاند سامنے رکھ دیتا ہوں تاکہ لوگ اپنی حقیقت کو پہچان سکیں۔“

یوں دونوں کا فن ایک دوسرے سے جُڑ جاتا ہے۔ ایک طرف وہ ہنسی جو دکھ کو ڈھک دیتی ہے اور دوسری طرف وہ تحریر جو دکھ کو ننگا کر دیتی ہے۔ دونوں کے بیچ ایک خاموش اعتراف موجود ہے کہ اصل مواد ، اصل سرمایہ ، دکھ ہی ہے۔

یہ ایک تصور ہی نہیں بلکہ فن کی سچائی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تصویر ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ یہاں چارلی اور خالد جاوید دو الگ بادشاہ نظر آتے ہیں۔ ایک ہنسی کا بادشاہ اور دوسرا اداسی کا۔ مگر حقیقت میں دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ جیسے کہکشائیں ٹکرا کر ایک نیا دھماکہ پیدا کرتی ہیں اور روشنی کی نئی صورتیں جنم دیتی ہیں، ویسے ہی یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر اپنی روشنی مکمل نہیں کر سکتے۔

آرٹ میں دکھ اور ہنسی کوئی الگ الگ کائنات نہیں بلکہ ایک ہی کائنات کے دو رخ ہیں۔ چارلی نے دکھ کو ہنسی میں بدل کر زندہ رکھا اور خالد جاوید نے ہنسی کو دکھ میں ڈبو کر امر کر دیا۔ دونوں نے اپنی اپنی راہوں سے انسان کو اس کے آئینے کے سامنے کھڑا کیا۔ دونوں نے اس کی کمزوری ، اس کی بے بسی اور اس کی مضحکہ خیز تقدیر کو دکھایا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں فن انسانی وجود کے سب سے بڑے راز کو کھول دیتا ہے۔ ہم سب کے اندر چارلی بھی رہتا ہے اور خالد جاوید بھی۔ ایک وہ جو بارش میں چھپ کر رونا پسند کرتا ہے اور دوسرا وہ جو سب کے سامنے زندگی کے زخم عریاں کر دیتا ہے۔

یہ دونوں ہماری روح کے دو چہرے ہیں اور یہی دونوں مل کر ہمیں ایک ہنسنے اور رونے والا انسان بناتے ہیں۔ مگر چارلی کی ہنسی بھی دکھ سے ہی جنم لیتی ہے۔اس لیے سب کچھ دکھ ہے۔ ہنسی اور قہقہے ایک سفید پرت کی طرح اندر کے گھاؤ اور اس کی باس کو چھپائے ہوے ہیں۔ بدھا نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ سروم دُکھم۔
All is sorrow and all is suffering.

#خالدجاوید #تصویر

Adresse

Paris

Notifications

Soyez le premier à savoir et laissez-nous vous envoyer un courriel lorsque Wowwords publie des nouvelles et des promotions. Votre adresse e-mail ne sera pas utilisée à d'autres fins, et vous pouvez vous désabonner à tout moment.

Souligner

Partager