Shahzad Idrees

Shahzad Idrees I am a content creator who makes videos and blogs on different subjects. I try to make content that can change or influence a common person's life.

My aim is to bring positive changes or teach things.Please like and follow my page for up-to date content.

کبھی بھی اپنے آئیڈیا پر کسی کی رائے نا لیں۔ بس آئیڈیا پر عمل کریں اور نتائج رب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے جس...
03/10/2025

کبھی بھی اپنے آئیڈیا پر کسی کی رائے نا لیں۔ بس آئیڈیا پر عمل کریں اور نتائج رب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے جس آئیڈیا کو کوئی شخص ناکام کہہ رہا ہو اس کا اتنا وژن ہی نا ہو۔ اور آپ کا آئیڈیا دنیا بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اگر آپ کی بیٹی آپ کو کہتی ہے کہ وہ اپنے فون پہ اپنے کسی مرد ٹیچر سے روزانہ یا ہفتہ وار بات کر رہی ہے تو اس پر نگرانی شرو...
28/09/2025

اگر آپ کی بیٹی آپ کو کہتی ہے کہ وہ اپنے فون پہ اپنے کسی مرد ٹیچر سے روزانہ یا ہفتہ وار بات کر رہی ہے تو اس پر نگرانی شروع کریں اور اس مرد ٹیچر کو پہلی فرست میں بلاک کروائیں۔

ایک استاد کے لئے کسی طالب علم کو متاثر کرنا سب سے آسان کام ہوتا ہے اور اگر یہ کم عمر بچیاں ہوں تو بات بالکل حلوہ بن جاتی ہے۔ موبائل فون آنے کے بعد سے انکے لئے نو عمر بچیاں آسان شکار بن چکی ہیں۔

یہ لوگ آسان شکار کی تلاش میں کم عمر بچیوں سے روابط بنانے سے نہیں جھجکتے حالانکہ ان کی بیٹیوں کی عمریں بھی ان بچیوں جتنی ہی ہوتی ہیں۔

اور مجھے شرم آتی ہے کہ ایسی بات کر رہا ہوں لیکن،

پاکستان میں مرد ٹیچرز کی ایک بڑی تعداد اپنی فیمیل سٹوڈنٹس کو اپنے لئے ایک آسان شکار سمجھ کر انہیں پھنسانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اور ایسے کئی کیسز میں اپنے سامنے دیکھ چکا ہوں۔ اسلامیات کا ٹیچر، اخلاقیات کا ٹیچر، بائیو کا، فزکس کا غرضیکہ سبجیکٹ کا نام لیں میں کردار بتا دوں کہ فلاں جگہ فلاں ٹیچر کو اپنی فیمیل سٹوڈنٹ سے جسمانی فوائد کی خاطر روابط بناتے ہوئے دیکھا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی حرکت پہ شرمندہ تک نہیں ہوتے ہیں اور پکڑے جانے پہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ قصور بچی کا ہے انکا نہیں۔ اور انکے کولیگ کسی قسم کی کاروائی نہیں کرواتے کیونکہ بعد میں انکے پول بھی وہ شخص کھول سکتا ہے۔

بے غیرتی کی اس کیٹیگری میں عمر کا بھی کوئی پیمانہ نہیں ستر سال کے مذہبی ٹیچر سے لیکر 20-30 سال کے لبرل نوجوان ٹیچر تک سب اس حمام میں ننگے نظر آتے ہیں۔

اس لئے اپنی بچی کے منہ سے اگر آپ کسی مرد ٹیچر کی ضرورت سے زیادہ تعریف سن رہے ہیں، بچی ہر روز اور ہر وقت اسکی تعریف کرتی ہے اور اس کے آپکی بچی پہ احسانات بھی ہو رہے ہیں اور موبائل سے روابط بھی ہیں تو آسانی سے سمجھ جائیں کہ وہ ٹیچر کس شکار کی تلاش میں ہو سکتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا یہ شرمناک پہلو جس دن دیکھا تھا اس دن مجھے حد سے زیادہ افسوس ہوا مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ حتی کہ کولیگ ٹیچر بھی جانتے ہیں کہ کس ٹھرکی کی آجکل کس سٹوڈنٹ پہ نظر ہے اور وہ اس کو آفس میں کب بلا رہا ہے۔

ہمارے ہاں اس ٹاپک کو ٹابو سمجھا جاتا ہے اور مائیں بچیوں کو نہیں بتاتی کہ آپ سے کیسی حرکت بیہودہ ہوسکتی ہے اور کیسے اگلے شخص کو لمٹس میں رکھنا چاہیے مگر یہ باتیں بچیوں کو سمجھانا بہت ضروری ہیں اس سے پہلے کہ وہ کسی کا شکار بنیں۔

نوٹ: اس پوسٹ کا مقصد سب ٹیچرز کو برا بھلا کہنا ہرگز نہیں، ہر مرد ٹیچر ایسا ہو ضروری نہیں، مگر میں نے چند ہی شریف مرد ٹیچر دیکھے ہیں مجارٹی کا سکینڈل ضرور دیکھ رکھا ہے اور یہ باتیں میرے ذاتی مشاہدے کی ہیں سو اس کی بنیاد پہ اپنا مؤقف بتا رہا ہوں۔ آپکا میری رائے سے یا میرا آپکی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Copied:- Zaigham Qadeer

پہلے وی لاگز نہیں ہوتے  تھے، ہم سفرنامے پڑھا کرتے تھے ، جن راستوں اور جن جگہوں تک رسائی بھی نہیں تھی  ان سے متعلق کہانیا...
27/09/2025

پہلے وی لاگز نہیں ہوتے تھے، ہم سفرنامے پڑھا کرتے تھے ، جن راستوں اور جن جگہوں تک رسائی بھی نہیں تھی ان سے متعلق کہانیاں فیسینیٹ کیا کرتیں تھیں، ان تک پہنچے نہیں تھے لیکن کہیں بات ہوتی تھی تو گفتگو میں شریک ہو جاتے تھے کیونکہ اس جگہ کے بارے میں سب کہانیاں جانتے تھے، ہمیں یاد ہے کہ “کے ٹو کہانی” انٹر کے امتحانوں سے پہلے ہاتھ لگی تھی اور پڑھائی سے بریک لے لے کر پڑھی گئی تھی، جیسے ہی چھٹیاں ہوئیں اپنی جیب سے فوراً ہی “یاک سراۓ “ خرید لائے اور کیا ہی شمال کے گلابی کھیتوں اور ٹریکس کا مزا آیا، اگرچہ ٹریکنگ تو اب بھی ایک خواب ہی ہے لیکن سفر کا موقع ملتا ہے تو سفرنامے لکھنے کا دل چاہتا ہے، اسی کی ماڈرن شکل وی لاگز ہیں، پہلے جن جگہوں کے بارے میں پڑھ کے انھیں دیکھنے کا دل چاہتا تھا اب انھیں دیکھ کے مزید بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے، سفر کے متعلق لکھی ہوئی کتابوں میں تصویروں کی شدید کمی محسوس ہوتی تھی ، اب ڈیجیٹل زمانے میں پوری وڈیو دیکھنے کو مل جاتی ہے۔
پہلے شکاگو کے بارے میں لکھا تھا تو کافی لوگوں نے شکاگو کا رختِ سفر باندھا ، ابھی ہوسٹن اور گیلوسٹن کا وی لاگ چل رہا ہے تو کل مزید معلومات کے لیے ایک میسج آیا کہ ہم آپ کا وی لاگ دیکھ کے ویک اینڈ پہ گیلوسٹن جا رہے ہیں، کیا بات ہے!
دوستو! سفر کیجیے، جب جس کو جہاں موقع ملے اپنے شہر میں، قریب، دور، ایک دن، دو دن یا دو ہفتے، کسی نئی جگہ کو کھوجنے نکل جائیں۔

ہماری زندگی تجربات کا مجموعہ ہوتی ہے، چیزوں پہ کم خرچ کریں، مہنگے بیگز، کپڑے، جوتے وغیرہ ان کی لائف اور اثرات بہت محدود وقت کے لیے ہوتے ہیں، ایسکسپوژر سے بڑی کوئی تعلیم نہیں، اس سے شخصیت میں اعتماد آتا ہے، جتنی دنیا دیکھنے کو ملے گی اتنی ہی ذہن کی آنکھ کھلتی چلی جاۓ گی، جب لوگوں سے ملیں گے ،وسعتوں کو دیکھیں گے تو اپنی ذات میں مزید Humble ہوتے جائیں گے، کنویں کا مینڈک سب سے زیادہ ٹّراتا ہے، جو جتنا زیادہ جانتا جاتا ہے اتنا ہی ناپ تول کے بولتا ہے، اور اگر “جا” نہیں سکتے تو “جاننے” کا سفر جاری رکھیں سقراط کا قول ہے کہ
"اصل دانائی یہی ہے کہ انسان یہ جانے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔"


صحافی نے ملک کے مشہور صنعتکار اور سیٹھ سے پوچھا آخر آپ اپنے ملازمین کو دوسروں سے زیادہ تنخواہ کیسے دیتے ہیں.؟ سیٹھ نے کہ...
27/09/2025

صحافی نے ملک کے مشہور صنعتکار اور سیٹھ سے پوچھا آخر آپ اپنے ملازمین کو دوسروں سے زیادہ تنخواہ کیسے دیتے ہیں.؟ سیٹھ نے کہا آو دکھاتا ہوں. وہ اسے پروڈکشن ہال میں لے گیا جہاں سارے ملازمین مشینوں کی طرح اپنے کام میں مصروف تھے.

کوئی وقت ضائع نہیں کر رہا تھا ایک ردھم میں سب بھاگ بھاگ کر اپنا اپنا کام کر رہے تھے. گھومتے ہوئے وہ ایک ہال میں بنے ایک آفس میں چلے گئے جہاں ایک صاحب سامنے والی کرسی پر ٹانگیں پھیلائے آرام سے لیٹے تھے. صحافی نے سیٹھ صاحب کی طرف دیکھا.

سیٹھ نے کہا یہ میرے اس بڑے کاروبار کا سب سے محنتی ورکر ہے. اسی کی سب سے زیادہ تنخواہ ہے. صحافی نے پوچھا یہ لیکن کرتے کیا ہیں.؟ سیٹھ صاحب نے کہا یہی جو آپ دیکھ رہے ہیں. یہ آرام سے لیٹ کر بیش قیمت آئیڈیاز سوچتا ہے. ان آئیڈیاز پر ہم عمل کرتے ہیں اور آج ہم ملک کی سب سے مشہور کمپنی ہیں.

یہ کہانی ہم نے اپنے ایک دوست کو سنائی تھی. جب گہری سوچ میں ڈوبا ہوا وہ چونک کر ہمیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو. ہم نے حالانکہ بس یہی پوچھا تھا کہ اب تو کوئی آئیڈیا دے دو.؟ لیکن اُلٹا اُس نے ہم سے پوچھ لیا کونسا آئیڈیا.؟

پتہ نہیں وہ پھر بیٹھ کر سوچتا کیا رہتا ہے. ہم نے تو دیکھا وارن بفٹ بل گیٹ انتہائی فرصت میں رہتے ہیں. ہفتے میں کئی کئی کتابیں پڑھ لیتے ہیں. فیس بُک کا مارک زیگربرگ اپنی چینی بیوی اور بچوں کے ناز اٹھا رہا ہوتا ہے. لیکن انہوں نے سوچ سوچ کر اتنی بڑی کمپنیاں بنا لی ہیں. جن میں لاکھوں بہترین تنخواہ پر ملازم دن رات محنت کرتے ہیں.

ہمارے یہ دوست بھی ہمیشہ فرصت میں سوچ بچار میں مشغول رہتے ہیں. لیکن ان کی کوئی کمپنی نہیں. سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر آخر یہ سوچتے کیا ہیں.؟

27/09/2025

“جو اپنے ماں باپ کا نہ بنا وہ کسی کا کیا ہوگا “

کیا آپنے کبھی یہ فقرہ کسی کو بولا ہے ؟ اگر بولا ہے تو کیا آپکو اسکی اپنے والدین سے متنفر ہونے کی وجہ معلوم تھی ؟ کیا آپکو معلوم ہے کہ والدین خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو موت کی طرف دھکیل سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو اگلی بار یہ کہنے سے پہلے رک کر سوچئےگا ضرور کہ یہ لفظ کسی کی جان لے سکتے ہیں کیوں کہ

جی ہاں، ماں باپ بھی ٹاکسک ہوتے ہیں ۔

سارا قصور ہر بار اولاد کا نہیں ہوتا ۔ ماں باپ بھی بہت بار اپنی اولاد کے ذہنی سکون تباہ کرنے کے زمہ دار ہوتے ہیں ۔

ہر رشتے کی کامیابی کا راز کچھ چیزوں کو ہمیشہ فالو کرنے میں میں پنہاں ہوتا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی چھوٹ جائے تو رشتہ بہت بری طر ح خراب ہوتا ہے ۔ وہ چیز ہے ڈکٹیٹرشپ اور اپنی اتھارٹی کا بے جا استعمال اور دوسرے رائے کی احترام نہ کرنا ۔

بہت سے ماں باپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے بچوں کی سب کے سامنے تذلیل کرتے ہیں اور پھر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ انکا حق ہے ۔

یا پھر کچھ ماں باپ اپنے بچوں کی غلطیوں پر انکی اصلاح طریقے سے کرنے کی بجائے انکو جج کرنے لگ جاتے ہیں ، طعنے دیتے ہیں نتیجتاً بچے اپنے سبسے کمزور لمحات میں اپنے سبسے قریب لوگوں پر بھروسہ کرنا چھور دیتے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ماں باپ کے بعد وہ جس پر اعتبار کرتے ہیں اکثر کیسز میں وہ بندہ بات کرنیکے بھی لائق نہیں ہوتا ۔ صرف اسلئے کہ آپنے اپنی عقل اتھارٹی کی نظر کردی آپکے بچے کو دو نمبر لوگوں پر اعتبار کرنا پڑ رہا ہے ۔

ہم انسان جِبلّی طور پر ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ ہر بندہ validation اور acceptance کی خواہش رکھتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ معصوم ذہن اسکا اظہار بھی کرتے ہیں جبکہ ہم بڑے لوگ ان کو supress کرنا سیکھ جاتے ہیں اور بس کچھ جگہ پر ہی یہ فیلنگز channelize کرتے ہیں۔

اب جب ان معصوم ذہنوں کو آپ acknowledge نہیں کرینگے کیوں کہ یہ انکے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کھانا پینا اور دیگر ضروریات ۔تو وہ کسی اور کے ذریعے یہ بھوک پوری کرینگے ۔

A strong hunger for validation and acceptance is a real deal!!

اسے ہینڈل کرنا سیکھینگے تو ہی اچھے ماں باپ بن پائینگے ۔ وہ اچھے ماں باپ جو ایک civilized معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہوں ۔

بچوں کی رائے کی اہمیت دیجئے ۔ انکی چھوٹی چھوٹی خواہشیں ضرور پوری کریں جو آپکے بس میں ہو جیسا کہ کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا ، دوستوں کا انتخاب وغیرہ وغیرہ ۔ احترام کریں انکی چیزوں کے بارے میں مختلف رائے رکھنے کی ، الگ شناخت ہونے کی ، مضامین کے انتخاب میں ،اور ہر اس چیز میں جو انکی ذاتی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کا آزادانہ حصہ ہے ۔ بچوں کو مار پیٹ مت کریں ، یقین کریں مارنے سے کوئی تربیت نہیں ہوتی بلکہ بچوں کے اندر ہمیشہ کے لئے ڈر بیٹھ جاتا ہے ، انکا کونفیڈینس ختم ہوجاتا ہے ۔

اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ دو فیصلے ہو سکتے ہوں اور دونوں رسکی ہیں ۔ایک فیصلہ آپکا اور ایک آپکے بچے کا ہے تو اپنے بچوں کی بات ماں لیں کیوں کہ رسک تو آپکی کرنی میں بھی رہیگا لیکن بچے کی مانینگے تو رسک کے ساتھ ساتھ اسکا اعتبار خزانے کی طرح جیت لینگے ۔ اگر اس پراجیکٹ میں فیل ہو جائیں تو بچے کو طعنہ مت دیں بلکہ اسے بتائیں کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور غلطیاں بھی سب کرتے ہیں اور ایسے ہی سب سیکھتے ہی ہیں ۔

اولاد نافرمان ہوتی نہیں ہے ، بہت سے کیسز میں ماں باپ خود اولاد کو بےجا روک ٹوک ،ہر وقت کی شکائتوں اور گالی گلوچ سے ایسا کر دیتے ہیں ۔ اور سبسے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں ۔ پلیز ماں باپ بننے سے پہلے ماں باپ بننا سیکھیں کیوں کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو کریگا تو غلط ایک بندہ لیکن بھگتنا پوری ایک قوم کو پڑتا ہے ۔



عالمی شہرت یافتہ وائلن نواز جوشوا بیل واشنگٹن کی میٹرو سٹیشن میں سادہ لباس میں کھڑا ہوا اپنا 3.5 ملین ڈالر کے وائلن کو ک...
26/09/2025

عالمی شہرت یافتہ وائلن نواز جوشوا بیل واشنگٹن کی میٹرو سٹیشن میں سادہ لباس میں کھڑا ہوا اپنا 3.5 ملین ڈالر کے وائلن کو کندھے پر رکھا اور اپنی مشہور دھنیں بجانی شروع کر دی. کنسرٹ میں مہنگے ٹکٹس لے کر ان دھنوں پر دیوانہ ہونے والی عوام کو تو پاگل ہو جانا چاہئے تھا.؟

لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا. اگلے 45 منٹ میں ہزار سے اوپر لوگ اس کے سامنے سے گزرے صرف 7 کچھ دیر رُکے. 32 ڈالر کی ڈونیشن اس کے سامنے ڈالی گئی. "اور بس" . کیونکہ کسی کو توقع ہی نہیں تھی کہ جوشوا بیل کسی میٹرو سٹیشن پر مفت وائلن بھی بجا سکتا ہے. کسی نے پہچاننے کی کوشش بھی نہیں کی.

یہی انسانی فطرت ہے. ہمارا لاشعور دوسرے کو تول رہا ہوتا ہے. اسے کتنی عزت دینی ہے کتنا احترام کرنا ہے کتنا اس پر بھروسہ کرنا ہے. ہماری آنکھیں اس کا سراپا اسکا پہناوا دیکھ کر ان کی قیمت طے کر رہی ہوتی ہے. سامنے رکھا فون گاڑی کی چابی کس مالیت کی ہیں.؟ ہمارا دماغ بیک گراؤنڈ میں اس کی تاریخ ٹٹول رہا ہوتا ہے.

لیکن اگر تاریخ دستیاب نہ ہو. اجنبیت ہو تب اس نے کیا پہنا ہے کونسی سواری ہے کتنا خاندانی رکھ رکھاو ہے. یہی فیصلہ کرتی ہیں اگلا بندہ آپ کو کونسی کلاس دیتا ہے. آپ بھلے وقت کے جوشوا بیل ہی کیوں نہ ہوں. آپ بھلے دنیا کی مشہور دھنیں لائیو ان کو سُنا دیں. کسی نے توجہ نہیں کرنی.

سادگی کی مثالیں دیتا اوشو بھی خود مہنگی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے. بشپ ڈیوڈ اویڈپو بھی خود شاہانہ زندگی گزارتا ہے اور منبر پر بیٹھے ہمارے مشہور مولوی بھی سادگی پر واعظ دے کر ویگو میں بیٹھ جاتے ہیں. اسی لئے ان کی باتیں اچھی بھی لگتی ہے. عام حقیقی سادہ انسان حکمت کا بازار بھی سجا دے اُس کی لیکن کوئی پہچان نہیں ہوتی. نہ ہی اس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے.

یورپ میں آپ کو پاکستان کی طرح کھمبوں پر ٹرانسفارمر ، تاروں کے جال اور کیبلز نظر نہیں آتے، اس کی بڑی وجہ وہاں بجلی کی تقس...
23/09/2025

یورپ میں آپ کو پاکستان کی طرح کھمبوں پر ٹرانسفارمر ، تاروں کے جال اور کیبلز نظر نہیں آتے، اس کی بڑی وجہ وہاں بجلی کی تقسیم کا جدید نظام ہے۔
زیادہ تر شہروں اور آبادی والے علاقوں میں بجلی کی ترسیل کے لیئے تاریں اور ٹرانسفارمر زیر زمین لگائے جاتے ہیں۔ اس سے شہر کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے اور بارش، طوفان یا حادثات کی وجہ سے بجلی بند ہونے کے امکانات نہایت کم ھو جاتے ہیں۔
جہاں پاکستان میں کھمبوں پر ٹرانسفارمر لگتے ہیں، یورپ میں وہاں چھوٹے چھوٹے سب اسٹیشنز بنائے جاتے ہیں۔ یہ سب اسٹیشن زیادہ تر زیر زمین یا کسی چھوٹے کیبن کی صورت میں سڑک کنارے نظر آتے ہیں۔ وہ ھی بجلی کے وولٹیج کو کم کرکے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔
بڑے شہروں میں ہائی وولٹیج لائنیں عموماً شہروں کے باہر سے لی جاتی ہیں اور صرف آخری تقسیم کے لیئے زیرِ زمین کیبلز استعمال ہوتی ہیں۔
یورپ میں بجلی کے نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ:--
"
• کرنٹ لگنے کے واقعات کم سے کم ہوں

• بجلی کی چوری نہ ھو سکے

• بارش، برف باری یا آندھی سے نظام متاثر نہ ہو
دیہی علاقوں میں کہیں کہیں بجلی کی اوور ہیڈ تاریں نظر آ سکتی ہیں، لیکن وہاں بھی ٹرانسفارمر کھمبوں پر کم اور زیادہ تر زمین پر یا بند کیبن میں ہوتے ہیں۔

آج تک موٹاپے کو ایک عذاب سمجھا جاتا ریا ہے۔ اسے سو بیماریوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ لیکن جدید ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ اصل میں...
20/09/2025

آج تک موٹاپے کو ایک عذاب سمجھا جاتا ریا ہے۔
اسے سو بیماریوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ لیکن جدید ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ اصل میں مٹاپا ایک نعمت ہے۔ ریسرچ میں ثابت کیا گیا ہے کہ مٹاپا بیماریوں کی جڑ نہیں بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا سبب ہے*

جدید تحقیق میں ثابت کیا گیا ہے کہ
اگر آپ 3 سے پانچ کلو اورویٹ ہیں تو آپ کے ٹی بی اور الژھمیئر سے بچنے کے چانسز 80 فیصد بڑھ جاتے ہیں

اگر آپ 7 سے 15 کلو مقررہ پیمانے سے زائد وزن رکھتے ہیں تو 50 فیصد چانسز ہیں کہ آپ نمونیہ ، ٹائیفائڈ اور یرقان کا شکار نہیں ہونگے

اگر آپ 16 سے 25 کلو اورویٹ ہیں تو 60 فیصد چانسز ہیں کہ آپ کو کڈنی، پروسٹریٹ، کولون اور مثانے کا کینسر نہیں ہوگا

اور اگر آپ 25 کلو سے زیادہ اورویٹ ہیں تو خوشخبری سن لیں۔ اس سے آپ کی نگاہ تیز ہوگی، گنج پن آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا اور نزلہ زکام اور کھانسی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔

اس جدید ریسرچ کے لیے تعاون کیا ہے:

▪سیالکوٹ سویٹس
▪محمدی نہاری
▪پھجا پاوے
▪پنجاب چانپ کارنر
▪شیخ تکہ
▪بھیا کباب ہاؤس
▪حاجی پٹھورا کارنر
▪کاکا دل گردہ
▪چمن آئسکریم
▪امرتسری ہریسہ
▪کوزی حلیم
▪ماما برگر
▪چاچا کڑاہی سینٹر
▪ بٹ مرغ چنے
▪پپو ٹکیاں والا
▪ریاض فالودہ
▪حاجی بریانی
▪شیخ سویٹ
▪ گاما حلوہ پوڑی

20/09/2025

اتنی اچھی پیکنگ ، اتنے سبھاؤ اور وقار سے متاثرین میں سامان کی تقسیم ، سب کی عزت نفس کا خیال ، ہر ایک کو بیٹھنے کے لیے الگ الگ کرسیاں ، 90 فیصد نیا خریدا گیا سامان اور بہ نفس نفیس خود ہر گاؤں ، ہر گھر جاکر نہ صرف امداد کی تقسیم بلکہ ان کو حوصلہ ، کندھا اور محبت بانٹا!! ڈونیشن میں آیا سامان نفاست سے چن کر پیک کیا اور لوگوں کو بتایا کہ چیریٹی اصل میں ہے کیا ، یہ گھر کا گند صاف کرنا نہیں ، بلکہ اپنی پیاری چیزا اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو دینا ہے ۔

بلاشبہ حدیقہ کیانی نے شوبز اور پاکستان کے افراد کے لیے مثال قائم کردی ہے ۔ بطور سلیبرٹی اپنے عوام سے بھرپور محبت لی اور پھر اسے ,, وسیلہ راہ ،، کی شکل میں ، دو گنا کرکے لوٹایا ♥️

,,میں آواں گی ہوا بن کے ۔۔۔،، صرف گایا نہیں ، ثابت کرکے دکھایا ، یہ ٹوٹی پھوٹی بستیوں اور دلوں کے لیے واقعی ٹھنڈی ہوا بن کر اتر رہی ہے ۔

صرف شامیں ہی نہیں کچھ صبحیں بھی اداس ہوتی ہیں۔جب قدم چلتے جاتے ہیں اور کان کسی کی آواز  کی دستک پہ دھرے رہتے ہیں۔آج صبح ...
19/09/2025

صرف شامیں ہی نہیں کچھ صبحیں بھی اداس ہوتی ہیں۔
جب قدم چلتے جاتے ہیں اور کان کسی کی آواز کی دستک پہ دھرے رہتے ہیں۔

آج صبح 6 بجے

Address

Glasgow

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shahzad Idrees posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share