17/11/2025
تعداد کے حوالے سے جنگ موتہ کا یہ منظر تھا۔
مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی جبکہ دشمن کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھے۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے بہادری سے لڑتے ہوئے اپنے دونوں بازو قربان کیے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی، تین دن کے بھوکے ہونے کے باوجود عزم و ہمت سے لڑے اور شہادت پائی۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر کی کمان سنبھالی، حکمت، دلیری اور تدبیر سے جنگ کا نقشہ بدل دیا۔ دشمن کو لگا کہ مسلمانوں کو نئی مدد ملی ہے، وہ پسپا ہوگئے، اور مسلمان کامیاب و سرخرو واپس آئے۔ یہ جنگ ایمان، قربانی اور قیادت کی بے مثال مثال تھی۔
وہ تین ہزار مسلمان دو لاکھ کے لشکر کے سامنے ڈٹے رہے، کیونکہ ان کے اندر ایمان، غیرت، اور مقصدِ زندگی تھا۔ آج ہمارے نوجوانوں کے سامنے تلواریں نہیں، کتابیں ہیں۔ جنگ آسان ہے۔ سامنے دشمن کی فوج نہیں بلکہ مقابلہ تعلیم، سائنس، اور ٹیکنالوجی میں ہے۔ اگر اس وقت کے مسلمان اپنی جانوں کی بازی لگا کر دنیا کو حیران کر سکتے تھے تو آج کیوں نہیں؟ آج ہمارے جوانوں کے ہاتھوں میں قلم ہے، انٹرنیٹ ہے اور علم جیسے ذرائع کا سمندر ہے۔ پھر بھی اگر ہمارے جوان لیلے ہیں تو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا اپنا بھی قصور ہے۔
آج کے جوان ایجوکیشن و ٹیکنالوجی کے میدانوں کو میدانِ جہاد سمجھیں تو اس سے بڑی ایک مسلمان کیلئے موٹیویشن نہیں ہو سکتی۔
- منقول