Human Rights Activist. Civilian Supremacy
Our Dream Our Destination
04/11/2025
پنجاب بھر کے تعلیمی ادارے نئے اوقات کار پر عمل نہیں کریں گے تو ان کے خلاف دس لاکھ تک جرمانہ کیا جائے گا۔
صوبے کے تمام سرکاری و نجی اسکول اب صبح پونے 9 بجے سے پہلے نہیں کھلیں گے، اس بارے میں ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ نے اسکولوں کے اوقاتِ کار میں تبدیلی کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صبح 8 بجکر 45 منٹ سے قبل اسکول کھولنے کی اجازت نہیں ہو گی، صوبے میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کی صورتحال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ نے کہا کہ نئی ٹائمنگز کا اطلاق فوری طور پر نافذ العمل ہے اور اس کی خلاف ورزی پر متعلقہ اسکول انتظامیہ کو پانچ سے دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اسکول ٹائمنگ کی خلاف ورزی یا شکایت کی اطلاع ای پی اے ہیلپ لائن 1373 یا گرین پنجاب ایپ کے ذریعے دی جا سکتی ہے۔
29/10/2025
زیر نظر تصویر میں نظر آنیوالا شخص صحافی نہیں بلکہ ایک بلیک میلر، سکول اسٹاف اور طالبات کو ہراسمنٹ کرنے کا شوقین ہے۔ آئے روز یہ من گھڑت پوسٹ صرف گورنمنٹ گرلز ہائی سکول شاہ صادق نہنگ کیخلاف وائرل کرتا ہے اور سکول اسٹاف اور بچیوں کو بلیک میل کرتا ہے جبکہ اسکی ایسی بنائی گئی پوسٹ میں کوئی صداقت نہیں ہوتی کوئی چاہے تو علاقہ مکین سے تصدیق کرسکتا ہے۔
اسکے خلاف ادارہ ہذا کی طرف سے کاروائی کی درخواست کی جا رہی ہے۔
ہماری ایس ایچ او واصف نول
ڈی ایس پی شورکوٹ
ڈی پی او جھنگ
ڈپٹی کمشنر جھنگ
اسسٹنٹ کمشنر شورکوٹ
سی سی ڈی جھنگ
سی ایم پنجاب مریم نواز
وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر
سے گزارش ہے کہ اس سے پہلے سکول کی بچیوں اور سکول اسٹاف کی زندگیاں دائو پر لگیں اس بلیک میلر کیخلاف سخت قانونی (پیکا ایکٹ، ہراسمنٹ) کاروائی کی جائے۔ شکریہ۔https://www.facebook.com/share/17d4SpQA9v/
یہ اسکی آئی ڈی کا لنک ہے
27/10/2025
سول ہسپتال تحصیل شورکوٹ میں مریضوں کے بیٹھنے کیلئے جدید ترین کرسیاں منگوائی گئی ہیں جو پڑی تو ہیں لیکن عام آدمی کو نظر نہیں آرہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ ہسپتال ترقی نہیں کر رہا جبکہ عوام کو ہسپتال کی ترقی نظر نہیں آرہی۔ اگر ترقی دیکھنا چاہتے ہیں تو کاغذی کاروائی میں دیکھ لیں۔
26/10/2025
شورکوٹ انجمن تاجران کے الیکشن میں انتخابی نشان چاند گروپ جیت گیا۔ شہر میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جا رہے۔
24/10/2025
ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کو کس نے مارا!!
قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں،
پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں!!!
یہ سطریں، آج اسلام آباد میں اپنی جان لینے والے ایس پی عدیل اکبر نے اپنے سوشل میڈیا پر اپریل میں لکھی تھیں. .
خزاں کی اُس رات ، سرِبالاخیال کا ہما پھڑپھڑایا ،
زبان نے لفظ کا ذائقہ چکھنا چاہا تو دانتوں نے اسے روک لیا،
پیٹ کو بھوک لگی ہے ، دانتوں کو کھانا چبانا ہے،
اور گونگے خیال کا ہما بھر اڑان جا بیٹھا اک شجرِبیمار پر ؛
آنکھیں موند، غرق ایک عارضی اونگھ میں،
منتظرِآمدِتمازتِ بہاراں۔
یہ اوپر والی نظم ایس ایس پی ابرار نیکوکارہ مرحوم نے اپنے آپ کو مارنے سے پہلے، خود لکھی تھی جو ایک حساس دل کی عکاسی کرتی ہے. سوال یہ ہے کہ ایک ذہین شخص جو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرجائے، بقول شخصے ڈی پی او کے طور پر ضلع کا مالک رہے، پستول بردار وردی پہنتا ہو اور شہر بھر میں اس کا ٹہکا ہو، وہ اپنی جان کیسے لے سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ڈپریشن کا مرض شاہ اور گدا کا فرق نہیں دیکھتا، بلکہ وہ شاہ کو زیادہ نشانہ بناتا ہے. ڈپریشن ایک ایسا ظالم مرض ہے کہ ایک جگہ کچھ بچوں کا غریب باپ، ان کے کپڑوں کے تقاضوں کی وجہ سے خودکشی کرلیتا ہے تو دوسری جگہ اپنی جان لینے والا بظاہر پاکستان کے طاقتور ترین طبقے سے تعلق رکھتا ہے.
انسان خودکشی کیوں کرتا ہے، ابرار نیکوکار کے اپنے آخری نوٹ میں لکھے الفاظ کچھ یوں ہیں " انسان خود کشی اس لیے کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اسکو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندا اپنی جان لیتا ہے تو اسکی موت پر رونا نہیں کرتے اسکے فیصلے کا احترام کرتے ہوتے ہیں". ہو سکتا ہے بعض لوگوں کو ان الفاظ میں کچھ رومانیت دکھائی دے، تاہم بہت سے لکھنے پڑھنے والوں نے خودکشی کرتے وقت اس سے ملتے جلتے نوٹ چھوڑے ہیں. تاہم نفسیاتی تجزیے کے اعتبار سے یہ نوٹ بیزاری اور اکیلے پن کی کیفیت کی عکاسی ہے جو کہ ڈپریشن کی بڑی وجوہات میں سے ہیں.
گزشتہ پندرہ برس میں جہانزیب کاکڑ، ابرار نیکوکار، عدیل اکبر، نبیحہ چوہدری، شہزاد وحید، اشعر حمید، سہیل احمد ٹیپو، بلال پاشا، اور کئی افسران، ڈپریشن کے ہاتھوں اپنی جان سے گزر چکے ہیں. یاد رہے کہ خودکشی کرنے والے افسران کی غالب تعداد کا تعلق پاکستان پولیس سروس سے ہے جو اس جاب کے نفسیاتی چیلنجز کی طرف اشارہ کرتا ہے.
آج سے چند برس پہلے جب میرے بیچ میٹ اور دوست سہیل ٹیپو، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نے خودکشی کی تو میں نے کالموں کی سیریز لکھی تھی، "سہیل ٹیپو کو کس نے مارا "؟ وجوہات میں تو بہت کچھ نظر آتا ہے. نیکوکارہ کے حوالے سے گھریلو مناقشے کا ذکر کیا گیا ہے. ٹیپو مرحوم بھی کچھ ملی جلی کیفیت میں تھا. پچھلے دس برس میں مجھے آٹھ سے دس سینئر سول سرونٹس یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنی جان اپنے ہاتھوں لی. اللہ کریم ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے.
ڈپریشن کے حوالے سے ہمیں بطور سوسائٹی بہت سیکھنے کی ضرورت ہے. وجوہات ان گنت ہوسکتی ہیں، ڈپریشن موروثی بھی ہوسکتا ہے، حادثاتی بھی اور ماحولیاتی بھی. ٹیپو اور نیکوکارہ دونوں کے حوالے سے ایسے بہت سے جملے سننے کو ملے کہ 'وہ تو بہت بہادر تھا' اور 'اتنے بڑے عہدے پر بندے کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے'. چالیس ایکڑ کی کوٹھی میں رہنے والا کتنا اکیلا ہوسکتا ہے اور یہ تاج کہاں اور کس طرح چبھتا ہے، یہ پہننے والا ہی جان سکتا ہے. بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک سول سرونٹ کس طرح تنی ہوئی تار پر چلتا ہے اور جب وہ گرتا ہے تو اپنے ساتھ خاندان کو بھی لے ڈوبتا ہے.
ہمارے ہاں ایک عمومی روایت ڈپریشن کو روحانیت کے ساتھ غلط ملط کرنے کی ہے. یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کینسر، یا شوگر یا دل کی بیماری کو روحانیت کے ساتھ مکس کرلیں کہ فلاں بندہ گنہگار ہے اس لیے اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے. ڈیپرہشن ایک پیچیدہ بیماری ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس کا نفسیاتی اور اعصابی علاج بھی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے.
ابھی تو کسی ڈپٹی کمشنر، کسی ایس پی، کسی کلکٹر کی خود کو مارنے کی خبر پھر بھی لوگوں کو متوجہ کرلیتی ہے، تاہم وطن عزیز میں عام انسانی جان ارزاں ہے، یہ نظام کلرکوں، کانسٹیبلوں وغیرہ کو تو ویسے کسی شمار قطار میں نہیں رکھتا. ورنہ سرکاری نظام کے ہاتھوں سالانہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں میں ہے.
گزشتہ برسوں میں تجویز کیا تھا کہ سول سروس کے لئے ایک ہیلپ لائن سیٹ اپ کی جائے جہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ڈپریشن کے مرض کی تشخیص اور علاج ہوسکے. پولیس میں یہ ضرورت کہیں زیادہ ہے. عام طور پر پاکستان میں ڈپریشن کو 'زنانہ' مرض سمجھا جاتا ہے جو سورماؤں کو لاحق نہیں ہوسکتا. تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی آبادی کے ہر چار میں سے ایک فرد کو کلینکل ڈپریشن کے علاج کی ضرورت ہے.
نفسیات کے شعبے میں بیس سال گزارنے کی وجہ سے، اس حوالے سے ایک کیمپین چلانی چاہی، تاکہ سول سروس میں ڈپریشن کے حوالے سے حجابات اٹھ سکیں اور ہر سال دو سال بعد قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جاسکے اور علاج موت سے پہلے مل سکے. سول سروس ہی نہیں، خودکشی سے بچاؤ کی ہاٹ لائن تک عوام تک ایسی سہولت کی رسائی ہونی چاہیے. آئی جی پنجاب اور اسلام آباد سے اس حوالے سے بات بھی ہوئی، زبردست تجویز ہے، کہ کر سراہا بھی گیا مگر کوئی عملی اقدامات نہیں لیے گئے کہ ہر شارک صفت بڑا عہدے دار اپنے گبند ذات کے حصار میں ہے اور ایسی ہی خودکشیوں کی وجوہات میں سے ایک ہے. سول سروس سے تعلق رکھنے والے احباب سے اس سلسلے میں مشورے اور توجہ کی درخواست ہے کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، یہ کام سول سرونٹس کو خود کرنا ہے، سیاست دانوں کو نہیں،، ڈپریشن ایک مرض ہے جو کسی کو بھی ہوسکتا ہے اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے. .
عدیل اکبر اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعائیں!
عارف انیس
کاپی پیسٹ
24/10/2025
شورکوٹ
افسوسناک خبر
جھنگ روڈ ہاؤسنگ کالونی میں ٹریکٹر ٹرالی کی موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مارکیٹ کمیٹی شورکوٹ کا سب انسپکٹر میاں عمر حیات کاٹھیہ جوکہ ڈیوٹی پر دفتر مارکیٹ جا رہے تھے موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ذرائع
22/10/2025
شورکوٹ کے تمام موٹر سائیکل شورومز ہنڈا کمپنی کے موٹرسائیکلز کمپنی ریٹ کی بجائے بلیک میں فروخت کر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر شورکوٹ صاحبہ سے گزارش ہے ان شورومز کیخلاف بھی ایکشن لیں۔ان شورومز پر موٹاسائیکلز موجود ہیں لیکن صرف اسے موٹر سائیکل فروخت کرتے ہیں جو کمپنی ریٹ سے ذیادہ پیسے دیتا۔
29/09/2025
وکلاء کا وفد ڈی سی آفس کمیٹی روم بسکٹ دہی بھلے
مٹھائی سے تواضع تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے
جہاں تلخ جملے چلے تھے وہاں اب مٹھاس بھری محبت چل
رہی ہے
29/09/2025
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج ، مارکیٹیں بند ، مختلف مقامات پر عوام کی بڑی تعداد احتجاج میں شریک
27/09/2025
حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ مریم صفدر کی دو ہی خوبیاں ہیں، ایک یہ کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہے، اور دوسرا یہ کہ نواز شریف اس کا باپ ہے!
27/09/2025
خواجہ آصف بڑا خوش تھا کہ امریکہ پہنچنے پر مہدی حسن کی جانب سے اسے اپروچ کیا گیا ہے۔ اسے لگا کہ جیسے اب وہ بھی عمران خان کی طرح عالمی میڈیا پر ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھرے گا۔ لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ مہدی حسن کے سوالات کی تپش کس قدر جھلسا دینے والی ہوتی ہے
پہلا وار تب ہوا جب مہدی حسن نے عام سے سوالات کے بعد اچانک کہا: "مسٹر آصف، آپ پر الزام ہے کہ آپ نے آٹھ فروری کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چرایا ہے۔ آپ کی حکومت ایک چوری شدہ مینڈیٹ پر کھڑی ہے۔ فارم 47 کے ذریعے آپ لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا۔"
یہ سنتے ہی خواجہ آصف کا چہرہ بجھ گیا۔ اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ چونک کر اینکر کی طرف دیکھنے لگا، جیسے کوئی طالبعلم امتحان میں مشکل سوال دیکھ کر گھبرا جائے۔ اس نے ہکلانے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ سب الزامات ہیں، مگر اینکر نے اگلے ہی لمحے ویڈیو کلپ چلایا جس میں خواجہ آصف خود کہہ رہا تھا کہ اس کے پاس فارم 45 موجود ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ شکست تسلیم کر چکا ہے۔
ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ مہدی حسن نے ایک اور نشتر مارا۔ اس نے کہا: "عمران خان کو غیر قانونی طور پر قید کیا گیا ہے۔ کیا یہ سیاسی انتقام نہیں؟" خواجہ آصف نے حسبِ روایت کہا کہ عمران خان کرپٹ ہیں۔ لیکن مہدی حسن نے فوراً پلٹ کر کہا: "کیا وجہ ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کے یہ مقدمے ان کی حکومت کے دوران سامنے نہیں آئے؟ ان کے ساڑھے تین سالہ دور میں تو کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ بلکہ آپ کی حکومت کے دوران تو سکینڈلز کی بھرمار ہو گئی۔ پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ عمران خان کرپٹ تھے؟"
خواجہ آصف نے عدالتوں کا ذکر کیا مگر مہدی حسن نے کمال مہارت سے جواب دیا: "کون سی عدالتیں؟ وہی عدالتیں جنہیں آپ نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کنٹرول کر لیا؟ وہی عدالتیں جن پر خود ججز نے خط لکھ کر اداروں کی مداخلت کا اعتراف کیا؟"
یہاں خواجہ آصف کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ پسینے میں شرابور ہونے لگا۔ پانی کے گھونٹ لیتا، مائیک کو دیکھتا اور بار بار گلا کھنکھارتا۔ لیکن مہدی حسن کہاں باز آنے والا تھا۔
انٹرویو کے دوران ایک موقع پر اینکر نے کہا: "پاکستان میں تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر نکالا گیا جبکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ کیا یہ سب ریاستی اداروں کے مکمل تعاون کے بغیر ممکن تھا؟"
خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایسا کیا۔ مگر مہدی حسن نے تیز لہجے میں کہا: "سپریم کورٹ نے صرف انٹرا پارٹی الیکشنز کی بنیاد پر فیصلہ کیا تو پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کی جانچ کیوں نہیں ہوئی؟ کیا یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ کھیل نہیں تھا؟"
یہ سوال سنتے ہی خواجہ آصف کے ہاتھوں کی انگلیاں بے قابو ہو کر میز پر بجنے لگیں۔ اس نے سر جھکا کر کچھ مبہم سا کہا، لیکن جھوٹ کا بوجھ اتنا بھاری تھا کہ اس کے چہرے پر عیاں ہو گیا۔
اس کے بعد مہدی حسن نے انسانی حقوق کے حوالے سے سوال اٹھایا۔ "پاکستان کی جیلوں میں خواتین قید ہیں، ہزاروں کارکنان بغیر مقدمے کے گرفتار ہیں، صحافیوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ کیا یہ سب آپ کی حکومت نہیں کر رہی؟" خواجہ آصف نے کہا کہ یہ سب نو مئی کے ملزمان ہیں۔ مہدی حسن نے فوراً وار کیا: "نو مئی کی تحقیقات کہاں ہیں؟ اگر تحقیقات ہی نہیں ہوئیں تو پھر کس بنیاد پر ہزاروں کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا؟"
یہاں تو خواجہ آصف کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ اس نے کہا کہ شواہد کی بنیاد پر گرفتاریاں ہوئیں۔ مگر مہدی حسن نے سوال کیا: "کیا واقعی پاکستان کی پولیس اتنی تیز ہے کہ دو دن کے اندر ہزاروں لوگوں کے شواہد حاصل کر لیے گئے اور پھر ان کی بنیاد پہ پندرہ ہزار لوگوں کے گھروں پر چھاپے مار کر انہیں گرفتار کر لیا گیا؟ یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔"
یہ سن کر خواجہ آصف کی آنکھوں میں گھبراہٹ صاف جھلکنے لگی۔
پھر آئینی ترامیم کی بات آئی۔ مہدی حسن نے کہا: "26ویں آئینی ترمیم کو پاکستان کی تاریخ کی سیاہ ترین ترمیم کہا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے عدالتوں کو کنٹرول کیا گیا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے؟"
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ترامیم پارلیمنٹ کے ذریعے آئیں۔ مگر مہدی حسن نے فوراً جواب دیا: "کیا یہ سچ نہیں کہ سینیٹرز کو اغوا کیا گیا، دباؤ ڈالا گیا اور زبردستی ووٹ لیے گئے؟ اختر مینگل کے اپنے سینیٹرز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں دھمکایا گیا۔ تو پھر یہ ترامیم کیسے آزادانہ طور پر منظور ہوئیں؟"
یہاں خواجہ آصف کی حالت اس قیدی جیسی تھی جو قاضی کے سامنے جھوٹ بولنے کی کوشش کرے اور قاضی اس کے سامنے ہر ثبوت رکھ دے۔ وہ بار بار موضوع بدلنے کی کوشش کرتا رہا مگر مہدی حسن بار بار اصل سوال کی طرف لے آتا۔
انٹرویو کے آخری لمحات میں خواجہ آصف مکمل طور پر ہار چکا تھا۔ اس کی آواز بیٹھ گئی تھی، الفاظ ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ وہ بار بار "یہ عدالتوں کا کام ہے" دہراتا رہا یہ جملہ اب ایک بے بسی کی چیخ بن چکا تھا۔ دوسری طرف مہدی حسن فاتحانہ انداز میں بیٹھا تھا، جیسے شکاری اپنے شکار کو بے بس دیکھ کر مسکرا رہا ہو۔
Be the first to know and let us send you an email when Civil Society Shorkot posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.