Jamia Masjid Daruloom Dandipora

Jamia Masjid Daruloom Dandipora ❤𝙅𝘼𝙈𝙄𝘼 𝙈𝘼𝙎𝙅𝙄𝘿 𝘿𝘼𝙍𝙐𝙇𝙊𝙊𝙈 𝘿𝘼𝙉𝘿𝙄𝙋𝙊𝙍𝘼❤

بارانِ رحمت سے شرابور مادرِ علمی کا انتہائی خوشنما و خوشگوار اور دیدہ زیب منظر!اورپھر، برستی ہوئی بارش کی بوندوں نےاسکی ...
31/08/2025

بارانِ رحمت سے شرابور مادرِ علمی کا انتہائی خوشنما و خوشگوار اور دیدہ زیب منظر!
اورپھر
، برستی ہوئی بارش کی بوندوں نے
اسکی خوبصورتی اسکے حسن کو دوبالاکردیا
خدا تجھ کو سدا آباد رکھے
تیرے غنچوں کی رعنائی کو دوام عطاء ہو
، حسن و شباب سے لبریز تیری یہ عمارتیں، علم و ہنر اور فکر و فن کا یہ روشن چراغ اور حسین سنگم، تا قیامت چمکتا دمکتا، کِھلتا، مہکتااور مُسکراتا رہے۔

ہم تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں مے نوشی کے آداب یہاں!

30/08/2025

❤ ولی کامل فخر دیوبند حضرت مولانا حافظ محمد چراغ نصیر القاسمی رحمہ اللہ ❤

حضرت علامہ حافظ محمد چراغ نصیرالقاسمی ایک متبحر و معتبر علمی وعرفانی شخصیت کی حیثیت سے متعارف ہیں ۔

آپ کا اسم گرامی "محمد چراغ "تخلص "نصیر اور نسبت " قاسمی " ہے۔ آپ کی ولادت 1920ء کے وسط میں پنجاب ( پاکستان ) کے ضلع گجرات تحصیل لالہ موسی کی ایک مضافاتی بستی " کوٹلی شاہ جہانیاں " میں ہوئی ۔ حافظ صاحب ایک دینی وعلمی گھرانہ کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کا خاندان کئی پشتوں سے علمی نسبت وخدمات کی وجہ سے اپنے علاقہ میں "میانے " کہلاتا ہے جو پنجابی زبان میں "ملا کے بمعنی مولوی " استعمال ہوتا ہے ۔ اس گھرانے میں صباحی و مسائی قرآنی درسگاہوں اور کہیں پورے پورے دن کے مکاتب و مدارس کا سلسلہ ابھی تک قائم و دائم ہے جہاں بستی ومحلہ کے بچے و بچیوں کی مبادیات دین اور قرآن پاک کی تعلیم وتعلم کا اہتمام و انتظام رہتا ہے اور اس خاندان کے مرد و عورتیں ان مکاتب و مدارس میں قرآنی خدمات کی انجام دہی کا فریضہ ادا کر رہی ہیں ۔ حافظ صاحب نے اپنا نسب نامہ اپنے والد و دادا مرحوم کی مشارکت سے لکھے ہوئے قلمی نسخہ قرآن کریم پر خود یوں رقم کیا ہے ۔ حافظ محمد چراغ ولد میاں ( مولوی عبدامنی مرحوم کے والد حافظ احمد مرحوم کے ولد حافظ نور محمد مرحوم کے والد میاں (مولوی) محمد جمال مرحوم ۵ قرآن کریم کا قلمی نسخہ ( جو اس خاندان کا عشق قرانی کا مظہر ہے ) حافظ صاحب کے قائم فرمودہ ادارہ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔

حافظ صاحب اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے ۔ آپ کا کوئی بھائی یا بہن نہیں ہے ، اس اعتبار سے پورے گھرانے کی تمام تر توجہات اور تعلیم وتربیت کے حوالہ سے انتہائی اہتمام وانتظام آپ کی طرف مبذول رہی ۔ خاندانی روایت کے مطابق چار سال کی عمرمکمل ہوئی اور اسلامی تقویم کے لحاظ سے پانچویں سال کے پہلے روز "بسمہ اللہ " کرائی گئی ۔ بنیادی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہوا اور پہلے استاد اپنے والد ملا عبدالغنی مرحوم ہوئے ۔ کم سنی میں ہی حفظ قرآن مجید کی سعادت سے سرفراز ہوۓ۔ حفظ قرآن کی ایام طالب علمی میں وہاں کی دینی درسگا ہوں میں طلبہ سحر سے چار بجے تک قرآن یاد کرتے ، پھر دوسرے دیہاتوں اور گلی کوچوں میں جا کر اشیائے خوردونوش جمع کر کے لاتے تھے۔ آج کی موجودہ درسگاہوں کی طرح مدرسہ میں کھانے پینے اور رہائش کی سہولتیں دستیاب نہیں تھیں ۔ حافظ صاحب بچپن کی ان یادوں کا احاطہ کر تے ہوۓ اپنی خودنوشت سوانح حیات چراغ سحر میں لکھتے ہیں ۔

”مجھے اپنے بارے میں یاد ہے کہ باسی روٹی کے جلے بھنے ٹکڑے روکھے ہی چہا جاتا تھا۔ روکھے سوکھے روٹی کے ان ٹکڑوں کی درویز وگری کے دوران ایک مرتبہ مجھے کتوں نے کاٹ کھایا تھا۔ زخموں سے کئی ماہ تک متواتر خون رستار با درد کی شدت سے کئی راتیں آنکھوں میں کائیں۔ خالی چٹائیوں پر سونے کی عادت تھی ۔ میری طبیعت میں از حد حجاب تھا۔ کسی سے سوال کرنا تو در کنار کسی کے سامنے سوال کے ارادے سے موت کے پسینے چھوٹ جاتے تھے ۔ جب گلستاں بوستاں‘ پڑھتا تھا، میرا کھانا ایک گھر میں مقرر تھا۔ شرمیلی طبیعت کا انسان فاقوں سے مرتا نہ تو کیا کرتا ؟ ایک دن استاد پر بھی حالت منکشف ہوگئی ۔ انہوں نے فرمایا کی تمہارا ایک ساتھی کوڑھی ہے، تم چاہو تو وہ تمہیں کھانا لا کر دے دیا کرے ۔ مرتا کیا نہ کرتا میں نے حامی بھر لی ۔اس کے کوڑھ کی زخموں سے خون رستا اور ٹپکتا تھا۔ میں نے جذامی ہاتھوں سے لائے ہوئے کھانے کو سوال پر ترجیح دی ۔ ہم دونوں مل بیٹھ کر پیٹ کی آگ بجھاتے تھے ۔“

حافظ صاحب کی تعلیم و تربیت جن اساتذہ کے زیر سر پرستی ہوئی تھی ، وہ بھی علم و عمل ، زہد وتقوی اور شرم وحیا کے پیکر تھے ۔ آپکے ایک استاد مولانا عبدالرحمن ساکن منگھٹری کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ۔ اکثر و بیشتر نقاب پوش رہتے تھے۔ مستورات تو مستورات کبھی مردوں سے بھی نظر میں ملا کر بات نہیں کرتے تھے ۔ ( حافظ صاحب کے دیگر اساتذہ میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ،حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا عبدالرحمان کامل پوری اور سید انور شاہ کشمیری قابل ذکر ہیں )۔ تعلیم سے فراغت کے بعد حافظ صاحب نے پہلا دورہ پونچھ وراجوری حضرت سید عنایت اللہ شاہ بخاری کی معیت ورفاقت میں کیا۔ راجوری شہر میں سید عنایت اللہ شاہ بخاری نے سیرت طیبہ پر خطاب کیا۔ یہ دور ڈوگرہ شاہی کا تھا۔ انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کی مسلمانوں کی تئیں نا انصافیوں اور ظلم وستم پر ڈوگرہ شاہی کی کھل کر تنقید کی ۔ مہاراجہ انتظامیہ نے سید عنایت اللہ شاہ بخاری کو حدود ریاست جموں وکشمیر سے نکل جانے کا حکم دیا اور داخلہ پر چھ ماہ تک پابندی عائد کر دی ۔اس وقت قادیانی فتنہ بھی زوروں پر تھا۔ سید صاحب نے حافظ صاحب کو حکم دیا کہ مرزائیوں کا تعاقب کریں ۔ حافظ صاحب نے پونچھ اور راجوری میں کئی جلسے منعقد کراۓ ۔ حافظ صاحب جید عالم تھے۔ ان کی آواز بلند اور سریلی ہونے کے ساتھ ساتھ سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ بلند خوانی اور سوز سے پڑھے ہوۓ اشعار سن کر مجمع پر رقت طاری ہو جاتی تھی ،اس لئے مجلس لوٹنے میں خوب کامیاب ہو جاتے تھے۔ پھر وطن واپس لوٹ گئے ۔

1944ء میں حافظ صاحب وادی کشمیر تشریف لاۓ ۔ دوران سفر میاں نظام الدین لاروی سے ملاقات ہوئی اور حافظ صاحب ان کے گھر چلے گئے ۔ میاں صاحب کے گھر پر حافظ صاحب نے اسی یوم تک قیام کیا۔ اسی دوران دندی پورہ اسلام آباد کے مولانا محمد ایوب نگن آئے ۔ انہوں نے حافظ صاحب سے دندی پورہ چلنے پر اصرار کیا۔ حافظ صاحب نے رمضان المبارک کا مہینہ دندی پورہ میں گزارا اور امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ دندی پورہ کی اکثریتی آبادی گجر اور بکروال تھی جب کہ چند کشمیری گھرانے بھی آباد تھے ۔ ان لوگوں کی حالت قابل دید رہی تھی ۔ یہ خدائی مخلوق مدرسہ مکتب با درسگاہ کے نام سے قطعی آشنا تھی ۔ان میں سے بعض محبان قرآن بھی تھے جو غلط سلط قرآن سیکھ کر اس کے معاوضے میں گائے بھینس یا بھیڑ بکری ان ملاؤں کی شکم پرستی کی بھینٹ چڑھاتے تھے جو خود قران خوانی کے اصول وقواعد سے نا خواندہ تھے ۔ حافظ صاحب سے ان لوگوں کی زبوں حالی دیکھی نہ گئی ۔ حافظ صاحب کے نزدیک ان ناخواندہ ، سادہ لوح انسانوں کو انسانی حدود و قیود سے آ گا کرنا اونچے درجے کی قربانی تھی ۔ دینی امور میں ان کی حالت زار دیکھ کر حافظ صاحب کا دل مجروح ہو گیا۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں سے جذبہ ہمدردی نے کروٹ لی اور وہ والدین سے اجازت لے کر اپنے وطن گجرات سے کشمیر تشریف لے آۓ ۔ دسمبر 1944ء میں دندی پورہ کی مسجد میں قرآن وحدیث کی ترویج واشاعت کے لئے تقوی الاسلام مکتب قائم کیا گیا۔ یہ مکتب دندی پورہ کی خوبصورت بستی میں قائم کیا گیا۔ کھیت کھلیان ، مال مویشی اور باغات سے ریاستی اور ملحقہ بستیاں مالا مال تھیں ۔ ان کے گھروں میں دودھ کی نہر میں جاری تھیں ۔ حافظ صاحب کہتے ہیں۔ وہاں بعض گھروں میں گھی کے چراغ جلتے میں نے خود دیکھے ہیں جن کی روشنی میں قرآن کی تلاوت کی ہے ۔“ یہ لوگ مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔اس قوم میں کئی خوبیاں تھیں لیکن نا خو بیوں کی بھی انتہا نہیں تھی ۔ جہالت عام تھی ،انوار کاری اور شیخ نکاح کا رواج عام تھا ، دفتر فروشی اور پسر فروشی عام تھی ، ادلے بدلے کی شادی کا رواج تھا کسی کی لڑکی لائی تو اس کے نکاح میں بہن دے دی ،لڑکی کے ولی نسبت طے کرتے وقت لڑکی کے مزاج ، چاہت اور عمر کا کوئی لحاظ قطعاً نہیں کرتے تھے۔ کہیں سے چار دمڑیاں زیادہ مل گئیں، وہیں اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ یہ سادہ لوح لوگ چودھر یوں ، خواجوں ، پیروں اور ملاوں کی جو اپنی گردنیں اٹھائے پھرتے تھے۔ اس جوا کو اتارنے کا خیال کبھی بھی ان کے دماغ میں نہیں آیا تھا۔ میا اپنے خیر خواہ کو بدخواہ اور بدخواہ کوخیرخواہ سمجھتے تھے۔ جو خوش آیا اپنا عقیدہ بنالیا اور اسی کا نام خوش اعتقادی اختیار کر لیا تھا۔ حافظ صاحب جب وارد کشمیر ہوئے اس وقت کشمیر کا ماحول فرقہ بندی سے پاک وصاف تھا، لوگ ناخواند و لیکن سیدھے سادھے تھے ۔ حافظ صاحب سے جب کوئی یہ پوچھتا کہ کیا پڑھا ہے اور کہاں پڑھا ہے تو ان کا مختصر سا جواب ہوتا کہ جگہ جگہ سے اپنی نماز روزہ سیکھ لی ہے ۔ اختلافی مسائل کی بھول بھلیاں کم فہم اور ناخواندہ لوگوں کے لیئے کی تام کی ہوتی ہیں۔ حافظ صاحب غیر جانبدارانہ حیثیت سے لوگوں کو خالص دین کی طرف بلاتے رہے اور دعوت دین دیتے رہے لیکن ان کی یہ خالص دعوت دین علم کے ابجد سے بھی نا بلد فتوی فروش و تعویذ نولیس پیروں ملاؤں کی جوا اپنی گردن پر لا دے ہوۓ علم سے نا آشنا لوگوں کو راس نہ آئی۔ انہیں مکتب ” تقوی الاسلام کے قیام سے اپنی خودساختہ چودھراہٹ کے زوال کی بو آنے لگی ۔اول تو لالچ دے کر دعوت دین سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن جب حافظ صاحب ان کے جال میں نہ پھنسے تو دھمکیوں اور مقدمات کا سہارا لیا گیا۔ بھدرواہ، کٹھوعہ، پلوامہ، اسلام آباد اور گاندربل میں مختلف فرضی مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ ہر ہفتے ، مہینے پولیس کے اہلکار آتے اور حافظ صاحب کو درسگاہ سے بلا کر بوریا بستر باندھ کر بھاگ جانے کا مشورہ دیتے رہتے ۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں : ڈوگرہ شاہی میں مجھے روس کا جلا وطن اور وہاں کے فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، کوئٹ کشمیر کا حامی قرار دیا گیا ، شیخ وزارت میں پاکستانی کہا گیا کبھی ڈی۔این سی کا رکن قرار دیا گیا۔ غرض ہرنئی حکومت میں نئے الزامات عائد کر کے ہر حکومت کا باغی قرار دیا گیا ۔‘ حافظ صاحب کو کئی بار ملک بدر کئے جانے کے متعلق احکامات بھی جاری کئے گئے ۔ پولیس والے آۓ روز کوئی نہ کوئی نیا قضیہ لے کر آ جاتے تھے ۔ وہ بھی روز روز کے وارنٹوں سے تنگ آچکے تھے ۔ایک روز ایک پولیس والے نے گھر پر دستک دی ۔ حافظ صاحب نے اسے کھانے کی دعوت دی ۔ پولیس والے نے گرفتاری کا مژدہ سنایا۔ حافظ صاحب اس دن کچھ زیادہ ہی تھکے ہوئے تھے اور مزاج میں بھی پچھتی تھی ۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اسے وہیں دبوچ لیا اور اس کی خوب مرمت کی ۔ پولیس والے کے بازو اور ٹانگ میں چوٹیں آئی تھیں ۔ حافظ صاحب اسے وہیں چھوڑ کر گھوڑے پر سوار ہوۓ اور پولیس تھانے جا پہنچے ۔ ان کے خلاف پہلے سے ہی کئی معاملات درج تھے ۔ انہوں نے پولیس والوں سے کہا کہ پہلے یہ معاملہ درج کر لو۔ حافظ صاحب تین روز تک تھانے میں بند رہے اور چوتھے روز بلا کسی شرط کے رہا کر دے گئے اور وہ مدرسہ چلے گئے ۔

ایک مرتبہ ایک بدنام زماں پولیس افسر جو ستم پیشگی میں وادی کے طول وعرض میں اب بھی بدنام ہے، کسی اہم معاملے میں حافظ صاحب کی گرفتاری کے لئے آدھمکا۔ اس معاملے میں انہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے کی بھنک بھی ان کے کانوں میں نہ پڑی تھی ۔اس کے ساتھ بندوق بردار بھی تھے ۔ حافظ صاحب کوگرفتار کر کے ڈھول تماشوں کے ساتھ جوانی کو پار پہنا کر اس کے پاس لے جایا گیا۔ وہ دندی پورہ سے باہر ہی کا ہوا تھا۔ لوگ خوش تھے کہ آج اس بلا سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اس لئے خوب بھانگڑے ڈال رہے تھے اور ان کی بے بسی کا خوب تماشا دیکھ رہے تھے ۔ حافظ صاحب اس واقعہ کے پاتے ہیں ۔ میں نے سوچا لو ہے کو لوہا کا تا ہے، اس لئے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ترکی ہے کے سوالوں کا جواب دیا۔ وہ غصے میں پچ پچ پاگل ہو جا تا تھا۔ وہ کچھ مرغوب ہوا تو دلائل سے سمجھا یا ، وہ سمجھ گیا۔ جن نے اسے میرے خلاف بھڑ کا یا تھا ، اس کے غصہ کے خود ہی شکار ہو گئے ۔“

حافظ صاحب نے کشمیری عوام اور آئندہ نسلوں کی خاطر ایک سدا بہار باغ لگانے کے لئے ایک نا ہموار قطعہ اراضی کا انتخاب کیا اور اس کو ہموار بنا کر اس باغ میں سنبل وریحان ، سرومن اور طرح طرح کے خوش ذائقہ اشجار وانمار پر بہار لگانے کی سعی کی ۔ باغ پھلنے پھولنے لگا۔ پروانے جمع ہو گئے ۔ تیشہ وتبر، کدال اور پچھاوڑے لے لے کر اس کو کاٹنے اور جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے چڑھ دوڑے۔ مکتب تقوی الاسلام میں قرآن پڑھنے والے بچوں کو راستوں میں پکڑ پکڑ کر مارا اور کھیلا گیا۔ یہ مکتب ایک بھر پور مدرسہ کی شکل اختیار کر چکا تھا لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ دور دراز کے غریب طلباء کے لئے رہائش اور کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ حافظ صاحب بھی کوئی تنخوا نہیں لیتے تھے بلکہ اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمات با کسی اجرت کے انجام دیتے تھے۔ حافظ صاحب نے تعلیمی سلسلے کے ساتھ ساتھ پہلے دلی زبان میں اور پھر اپنے پھیپھڑوں کی پوری قوت سے بیچ بیچ کران کے ظلم و جور کے خلاف احتجاج بلند کیا۔ حافظ صاحب نے قرآن وسنت کی دعوت وتبلیغ کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ مخالفت کا طوفان بپا ہوا اور ان گنت حادثات پیش آئے لیکن بفضل خدا انہیں کوئی حادثہ دعوتی میدان میں آگے بڑھنے سے نہ روک سکا۔ ان کے تئیں حاکم و محکوم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے ۔ حافظ صاحب کی ہمدردیاں عوام کے لئے وقف تھیں لیکن انہیں غیر کھا گیا اور ان کی بات سننا بھی گوارا نہ کی گئی ۔ انہوں نے کسی ماسوا سے شکایت نہیں کی ۔ انہوں نے کانٹوں کی راہ خود اختیارکی تھی ، اس لئے شکایت کیسی ؟ لیکن جس امر کا انہیں شدید قلق تھا اس کے متعلق فرماتے ہیں:

” میری غریب الوطنی اور غیر کشمیریت ہر ساعت آڑے آئی ۔ حافظ صاحب کئی عشروں تک تن تنہا دینی تعلیمی اور سماجی اصلاح میں لگے رہے لیکن ان کی کوششوں کو بے اثر کر نے کے لئے ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ بدعقیدہ، درود کے منکر اور اولیاء کے دشمن ہیں ۔ حافظ صاحب کی قربانیوں کی ایک طویل روداد ہے ۔ خود فرماتے ہیں :’ آج کہیں اہلحدیثوں کے نام، کہیں جماعت اسلامی اور کہیں تبلیغی جماعت میں میرے حصے کی مار بٹ تقوی الاسلام میں تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ عوام میں پھیلی ہوئی بدعات وخرافات کو مٹانے کے لئے حافظ صاحب نے انجمن اصلاح المسلمین قائم کی ۔شادی بیاہ کی رسومات بد، اغواء، چوری ، باہمی تنازعات، دختر کشی دختر فروشی ، نکاح پر نکاح اور دیگر دینی سماجی برائیوں کا قلع قمع کرنے میں انجمن اصلاح المسلمین نے خیر وخوبی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ اب وقت آ چکا تھا کہ وادی کشمیر میں صدیوں کے سکوت کے بعد ایک ایسے مدرسے کی بنیاد ڈالی جائے جس میں مقامی سے اور طلباء کے ساتھ ساتھ یتیم ونادار، بے سایہ وفریب انڈ بار بچے مفت دینی تعلیم حاصل کرسکیں ۔ حافظ صاحب نے اپنے جملہ متعلقین میں اس اقامتی مدرسہ کا تعارف کرایا۔ اب اس کشمکش میں تھے کہ مدرسہ کب اور کہاں قائم کیا جائے ۔ خود ان ہی کی زبانی آگے کا احوال پڑھ لیجئے :
ایک روز حضور پاک ﷺ کے چہرہ اقدس کا ( عالم خواب میں ) دیدار ہوا ۔ سیاہ کار راقم نے بڑھ کر سلام کیا۔ خواب دیکھنے والے نے تشریف آوری اور قدم رنج فرمائی کا سبب پوچھا۔ جواب ملا ، ہم نے اس مدرسہ کے لئے جگہ پسند فرمائی ہے ۔‘ یہ جگہ مدرسہ کے لئے خرید لی گئی ، ایک تاریخی جلسہ ہوا ۔ آخر شب معراج کی رات 27 رجب المرجب 1393ھ بمطابق 27 اگست 1973 ءکو تقوی الاسلام‘ کا نام بدل کر’ جامع انوار العلوم‘ دندی پورہ رکھا گیا۔ ایک نئے اقامتی اور دینی ادارے کی مشکلات اور مسائل کیا ہو سکتے ہیں ،ان کا احساس ہر شخص خود لگا سکتا ہے ۔ان ایام کی یاد میں تازہ کرتے ہوۓ حافظ صاحب لکھتے ہیں مدرسہ کانٹی اور مدرس میں تھا، جھاڑ کش اور سٹور کیپر بھی میں تھا۔ سودا سلف خرید نے والا خادم میں ہی تھا اور باور چی میرے گھر والے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر گدا گری ( مراد سفارت ) کے منصب پر بھی میں ہی فائز تھا۔ حافظ صاحب جید عالم اور ہرفن مولا شخصیت کے حامل تھے۔ تجوید وقرأت تفسیر و حدیث ، اصول و فقه، تاریخ و سیرت، ادب فن اور جدید سائنس سے خوب واقف تھے ۔ علوم سائنس پر ان کی لکھی ہوئی کتاب " خالق کائنات کون ؟" سائنس و
دینیات پر اہم اضافہ ہے جس میں اس دنیاۓ سہت و بود کی ہر کاری گری کو جہاں سائنس کی عینک سے دیکھا گیا ہے وہیں اس کے خالق حقیقی کی صفت کن فیکون کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں : " خالق کائنات کون ، قصہ یوسف جمیل ایک کیف آور کہانی تلخ حقیقت ہمعصوم مظلوم بچیاں ، پر دیسی طلباء سے خطاب ، مدنی سرکار کے معمولات اور چراغ سحر غیر مطبوعہ ہیں ۔’ چراغ سحر‘ جو ان کی خودنوشت سوانح ہے کے کئی اوراق کشمیر میں موجودہ حالات کی نذر ہو کر تلف ہوگئے ہیں ۔ ہوا یہ کہ حمد صدیق کاتب دندی پورہ سے سوپور آتے ہوئے سیکورٹی افواج کے ہاتھوں شہید کئے گئے اور ان کے پاس جو بھی مواد موجود تھا ضائع ہو گیا ۔ حافظ صاحب با رعب اور پر جلال شخصیت کے بھی مالک تھے ۔ان کی تحریر و تقریر دونوں میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی بات کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ جاتے ۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے رول میں کشمیر میں سخت مظاہرے اور احتجاج ہوئے ۔ ان احتجاج اور مظاہروں کے دوران 4 اپریل 1979 ء کو چند شر انگیز اور دین بیزار افراد کے ہاتھوں قرآن مقدس کی جو توہین ہوئی اس پر آپ جھلا اٹھے ، وہ لکھتے ہیں ” سر زمین کشمیر پر اپریل 1979ء میں جو اندھا اور پاگل طوفان اٹھا، آج تک کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کے ساتھ ایسا برا سلوک نہیں کیا جو اہل کشمیر نے کیا۔ یہ خونخوار جذبات اور خیالات کا محاسبہ کرکے جواب دیں کہ قرآن مسلمانوں کے کسی خاص فرقہ کا تراشیدہ کلام ہے جس جرم کی پاداش میں بر بناۓ عداوت و خصومت اس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ۔ حافظ صاحب پون صدی کے لگ بھگ اپنی حیات مستعار گزار کر 8 جنوری 1994 ء بروز شنبہ وفات پا کر اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہوۓ۔

#مأخذ: آٸینہ مدارس جموں و کشمیر

28/08/2025

M***i nazir sahab Bayan on school Girls

Alhamdulillah Jamia Masjid Daruloom Dandipora
28/08/2025

Alhamdulillah Jamia Masjid Daruloom Dandipora

27/08/2025

25/08/2025

Hazrat M***i Faizul Waheed sahab RH ❤😘

18/08/2025

15/08/2025

Jamia Masjid Daruloom Dandipora

*بہت ہی المناک اور افسوسناک اطلاع موصول ہوئی ۔کہ مفتی ریاض احمد میر رحیمی صاحب ساکن واگورہ بارہمولہ کا اچانک ہارٹ اٹیک آ...
12/08/2025

*بہت ہی المناک اور افسوسناک اطلاع موصول ہوئی ۔کہ مفتی ریاض احمد میر رحیمی صاحب ساکن واگورہ بارہمولہ کا اچانک ہارٹ اٹیک آیا ۔اور انتقال کرگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت اورپسماندگان کوصبرجمیل عطا کرے. آمین یارب العالمین
عبدالرحمن کالس الرحیمی.

Allah Hu Akbar Name Of Prophet️ Hazrat MUHAMMAD (S.A.W) seen in south Kashmir's Tral..Photo By : Junaid Kashmiri
05/08/2025

Allah Hu Akbar Name Of Prophet️ Hazrat MUHAMMAD (S.A.W) seen in south Kashmir's Tral..

Photo By : Junaid Kashmiri

Address

Anantnag

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Jamia Masjid Daruloom Dandipora posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share