Lashker E Mehdi

  • Home
  • Lashker E Mehdi

Lashker E Mehdi 🇮🇷اَلسَلامُ عَلَيْك يَـاٍٍّّ آبّْآلَّفّْضَّــــــــلََِّّ ألَّعَّبّْآسًّ۴ 313🇮🇷

10/07/2025
08/07/2025

07/07/2025

10 Muharram Gund ibrahim Pattan

📌یومِ عاشورہ: کربلا میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اسلام کی بقا کے لیے لازوال قربانی

یومِ عاشورہ، 10 محرم الحرام 61 ہجری (بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی) کو کربلا کے تپتے صحرا میں پیش آنے والا وہ عظیم اور دلخراش واقعہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ یہ دن محض ایک جنگ کا نہیں بلکہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اسلام کو بچانے، اس کی اصل روح کو زندہ رکھنے اور ظلم و ملوکیت کے خلاف ابدی پیغام دینے کی خاطر اپنی جانوں کی بے مثال قربانی کا دن ہے۔ نواسۂ رسول ﷺ، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے پاکیزہ خاندان اور باوفا ساتھیوں سمیت اس میدان میں ایسی لازوال قربانی پیش کی جو قیامت تک کے لیے ہر حق پرست کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

۱۔ خلافت سے ملوکیت کا خطرہ اور دین کی بیخ کنی کا اندیشہ
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کا دور اسلامی ریاست میں عدل، شورائیت اور سادگی کا بہترین نمونہ تھا۔ لیکن حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد، اور پھر معاویہ کے دور میں، اسلامی طرزِ حکمرانی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت (بادشاہت) میں بدلنے کی بنیاد رکھی، جو اسلامی اصولوں کے خلاف تھا۔

• یزید کا فاسقانہ کردار:
یزید کا ذاتی کردار اسلامی اقدار سے بہت دور تھا۔ وہ کھلے عام گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا، شراب نوشی، لہو و لعب اور حیوانیت اس کے معمولات میں شامل تھی۔ ایک ایسے شخص کا مسلمانوں کا خلیفہ بننا دینِ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھا۔

• امام حسین کا موقف:
امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے امت کو یہ درس دیا کہ ایک فاسق و فاجر کی حکمرانی قبول کرنا دین کو تباہ کر سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: "اگر یزید جیسا شخص امت کا حاکم ہو جائے تو اسلام پر سلامتی ہو۔" (بحار الانوار، جلد 44، صفحہ 326)

یہ آپ کا مقصد تھا کہ یزیدی نظام دراصل اسلام کو مسخ کر رہا تھا، اور اگر اس وقت آواز نہ اٹھائی جاتی تو اسلام کی حقیقی شکل ختم ہو جاتی۔

۲۔ یومِ عاشورہ کا میدان: نصرتِ دین اور ایثار کا عروج
یومِ عاشورہ کا سورج طلوع ہوا تو امام حسین علیہ السلام اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کا سامنا یزید کے ہزاروں سپاہیوں سے تھا، جنہوں نے 7 محرم سے ہی پانی بند کر رکھا تھا اور اہل بیت کے خیمے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ اس دن امام حسین اور ان کے رفقاء نے دین کو بچانے کی خاطر وہ بے مثال قربانیاں پیش کیں جو ہر دور کے لیے درسِ عمل ہیں۔

• اصحاب کی لازوال وفاداری:
امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں نے، جن میں جوان، بوڑھے اور بچے شامل تھے، ایک ایک کر کے میدان میں جامِ شہادت نوش کیا۔ ہر ایک نے اپنی جان نچھاور کرنے سے پہلے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہیں پانی بھی میسر نہیں آئے گا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ حق کی خاطر جان قربان کرنا ہی حقیقی سعادت ہے۔

• اہل بیت کی قربانیاں:
اہل بیت اطہار علیہم السلام نے اس دن دین کی بقا کے لیے ہر عزیز ترین ہستی کو قربان کر دیا۔

• شہزادہ علی اکبر علیہ السلام: رسول اللہ ﷺ سے شکل و صورت اور سیرت میں سب سے زیادہ مشابہ، امام حسین کے بڑے فرزند۔ آپ نے پیاس کی شدت میں بھی شجاعت دکھائی اور شہید ہوئے۔ امام حسین نے آپ کی شہادت پر کہا: "تیری جدائی کے بعد دنیا کی کوئی خیر باقی نہیں۔" (تاریخ طبری، جلد 5، صفحہ 446)

• شہزادہ قاسم ابن حسن علیہ السلام: امام حسن کے کم سن فرزند (تقریباً 13 سال)۔ آپ نے اپنی کم عمری کے باوجود بے مثال شجاعت دکھائی اور آپ کا جسم گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا گیا۔ (اللہوف، صفحہ 132-133)

• غازی عباس علمدار علیہ السلام: امام حسین کے باوفا بھائی اور علمدار۔ آپ نے بچوں کے لیے پانی لانے کی کوشش میں اپنے دونوں بازو کٹوائے، پیاس کے باوجود خود ایک قطرہ پانی بھی نہ پیا، اور بالآخر جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی وفاداری بے مثال ہے۔ (اللہوف، صفحہ 140-142)

• شہزادہ علی اصغر علیہ السلام: امام حسین کے چھ ماہ کے شیرخوار فرزند۔ آپ کو شدتِ پیاس سے تڑپتے ہوئے دیکھ کر امام حسین نے یزیدی لشکر سے پانی طلب کیا، مگر ظالم حرملہ نے آپ کے حلق پر تیر مار کر شہید کر دیا۔ یہ انسانیت سوز مظالم کی انتہا تھی۔ (اللہوف، صفحہ 143-144)

۳۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت: دین کی بقا کا حتمی لمحہ
جب امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب اور اہل بیت کے جوان شہید ہو گئے تو آپ خود تنہا میدان میں اترے۔ آپ نے فرمایا: "میں فساد پھیلانے یا ظلم کرنے کے لیے نہیں نکلا، بلکہ میرے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکوں۔" (مقتل خوارزمی، جلد 1، صفحہ 188)

آپ نے بے مثال شجاعت سے جنگ کی اور رجز پڑھتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ یہ جنگ ذاتی اقتدار کے لیے نہیں بلکہ دین کی حفاظت کے لیے ہے۔ بالآخر، آپ کو شدید زخمی حالت میں شہید کر دیا گیا اور آپ کا سر مبارک نیزے پر بلند کیا گیا۔

• یزید کا اعترافِ بغض:
دمشق کے دربار میں یزید نے امام حسین کے سر مبارک کی بے حرمتی کرتے ہوئے اشعار پڑھے: "لَعِبَتْ هَاشِمُ بِالْمُلْكِ فَلَا خَبَرٌ جَاءَ وَلَا وَحْيٌ نَزَلْ" (بنو ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیلا تھا، ورنہ نہ کوئی خبر (وحی) آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی۔) (تاریخ طبری، جلد 5، صفحہ 247)

یہ یزید کا واضح اعتراف تھا کہ اس نے یہ سب دین کی خاطر نہیں بلکہ قبائلی عداوت اور پرانے بدلے کے طور پر کیا تھا۔ اس نے نبوت کا انکار کر کے اپنے کفر کو بھی ظاہر کیا۔ امام حسین کی قربانی نے اس یزیدی سوچ کو بے نقاب کیا اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں بچایا۔

۴۔ کربلا کے بعد: قیدِ اہل بیت اور پیغام کی اشاعت
امام حسین کی شہادت کے بعد، اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو قید کیا گیا، خیمے لوٹے گئے اور آگ لگا دی گئی۔ سیدہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا اور امام زین العابدین علیہ السلام نے صبر و استقامت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوفہ و دمشق کے درباروں میں خطبے دے کر یزیدی ظلم کو بے نقاب کیا اور امام حسین کے مقصد کو دنیا پر واضح کیا۔ ان کے خطبات نے کربلا کے پیغام کو زندہ رکھا اور ہر دور کے حریت پسندوں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔

۵۔ کربلا: حق و باطل کے درمیان ابدی لکیر
یومِ عاشورہ کی قربانی نے حق اور باطل کے درمیان ایک ایسی واضح اور ابدی لکیر کھینچ دی جو قیامت تک کے لیے رہنمائی کرتی رہے گی۔

• ظلم کے خلاف مزاحمت:
کربلا نے یہ اصول قائم کیا کہ ظالم حکمران کے سامنے خاموش رہنا گناہ ہے اور حق کی خاطر آواز اٹھانا فرض ہے۔

• دین کی حفاظت:
یہ قربانی محض ایک سیاسی جنگ نہیں تھی بلکہ دینِ اسلام کی اصل روح اور اقدار کو بچانے کی جنگ تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی اور اسے یزید کے ناپاک عزائم سے محفوظ کیا۔

• عزتِ نفس اور استقامت:
امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دی۔ ان کی استقامت نے انسانیت کو باوقار زندگی جینے کا درس دیا۔

یومِ عاشورہ اور کربلا کا واقعہ آج بھی ہر مسلمان اور ہر باشعور انسان کے لیے ایک لازمی سبق ہے کہ دین کی حفاظت اور ظلم کے خلاف جدوجہد ہی ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں گئیں بلکہ انہوں نے اسلام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔

06/07/2025

یہ شام غریباں نہیں ، شام زینب ہے!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

————

شام آئی، ڈھلی اور تاریک ہو گئی!
سورج اپنی روشنی پہ شرمندہ ہوتے ہوئے ڈوب گیا!
چاند نہیں نکلا!
رات کی سیاہ تاریکی ہر طرف نگاہیں چراتے پھیلتی رہی! جانتی تھی کہ وحشت و بربریت کا بازار گرم ہونے کو ہے!

بزدل مردوں کا ٹولہ اور نہتی عورتیں!

صحرا میں گڑے خیموں کو آگ لگا کے تماشا دیکھتے سرکش مرد اور جان بچاتی عورتیں اور بچے!

بچیوں کے منہ پہ طمانچے مارنے والے کم ظرف مرد اور کانوں سے کھینچی جانے والی بالیوں کے بعد بہتا خون!

چاروں طرف بکھرے لاشے اور چند تنہا عورتیں!

گھوڑے دوڑاتے، مسرت کے قہقہے لگاتے وحشی مرد!

یہ وہ منظر ہے جس پہ آج تک عرب کی سرزمين شرمندہ ہے!

کون تھیں یہ بہادر تن کے کھڑی ہونے والی عورتیں اور کون تھے یہ بدمست بزدل مرد!

یہ رسول کے گھر کی عورتیں ہیں، وہی رسول جنہوں نے اسلام کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے کو دور کیا مگر کیا واقعی جہالت کا اندھیرا چھٹا ؟

اور یہ مرد کلمہ گو مرد ہیں، اسلام کی وحدانیت پہ ایمان لا چکے ہیں۔ کلمے میں رسول کی نبوت کی گواہی دینے والے مرد اور اسی رسول کی اولاد کا تماشا بنانے والے مرد!

اس شام کو شام غریباں پکارنے والے اس شام کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔یہ شام، شام زینب کہلائے جانے کی حقدار ہے، شام غریباں نہیں!

یہ شام اسلام بلکہ دنیا کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کی مثال ہے۔ جہاں جیت کے نشے میں چور، لشکر عمر سعد نے نہتی عورتوں اور بچوں کی خیمہ گاہوں کو جلا کے صحرا میں چراغاں کیا۔

تاریخ کہتی ہے کہ جب بہتر افراد قتل کیے جا چکے، تب فیصلہ ہوا کہ یزید کے دربار میں پیش کرنے کے لئے بہتر لاشوں کے سر کاٹے جائیں اور باقی ماندہ لاشوں پہ گھوڑے دوڑا کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ نواسہ رسول اور جنت کا سردار زمین پہ کفن دفن کا حقدار بھی نہ ٹھہرا۔

نہیں معلوم ہم داعش اور طالبان کے سر کاٹنے کی بے حرمتی پہ اتنے حیران و پریشان کیوں تھے ؟ اس کے بانی تو صدیوں پہلے یزید اور عمر سعد نکلے۔

سر کاٹ کے گنے گئے تو اکہتر نکلے۔ بہترواں سر کہاں تھا آخر ؟

مشعلوں کی روشنی میں، زمین میں نیزے کی انیاں گاڑ کے آخر چھ ماہ کے علی اصغر کی لاش برآمد کر لی گئی اور بہترواں سر بھی گنتی میں شامل ہوا۔

اب گھوڑے دوڑے۔ ہزاروں سوار خوشی کے بدمست نعرے لگاتے اور لاشوں کو روندتے، ان کا قیمہ بناتے گئے۔
کیا چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کسی بھی درجے میں کم تھے ہمارے کلمہ گو مسلمان؟

میدان کارزار سے فراغت ہوگئ مگر دل میں بھڑکتی نفرت کی آگ ابھی کچھ اور مانگتی ہے۔ ابھی اس آگ کے شعلوں نے خیمے جلا کر اور خیموں سے باہر نکلتی رسالت کے گھر کی بیبیوں کا تماشا دیکھنا ہے۔

آگ لگی، ایک خیمے سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اور پھر اور آگے…….بیبیاں ایک خیمے سے دوسرے میں بھاگیں، دوسرے کو آگ لگی تو بچے سنبھالتی تیسرے میں منتقل ہوئیں اور پھر اور آگے اور آگے….

سوچیے اس عمر رسیدہ عورت کے بارے میں ، جسے اپنے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں اور صحابہ کا غم منانے کی فرصت نہیں ملی….جس نے زمین و آسمان کے درمیان خون کی چادر تنی دیکھی ، پیاروں کے لاشے دیکھے ، تین دن کی بھوک اور پیاس ، عرب کے صحرا کی پیاس۔

زینب علی اور فاطمہ کی بیٹی، عرب کے بہادر ترین شخص کی بہادر بیٹی، اب باقی بچے ہوئے لوگوں کی محافظ ___سو فیصلہ کیا کہ خیموں سے باہر نکل کر جان بچانی ہے۔

آپ اور کچھ بھی نہیں سوچیے۔ صرف ایک عورت کے اعصاب کے امتحان کا اندازہ لگائیے کہ اس سخت گھڑی میں اپنے پاؤں پہ نہ صرف تن کے کھڑی ہے بلکہ سوچ سمجھ کر ہمت اور عزم سے مقابلہ کر رہی ہے کسی بھی طرح کی بے بسی اور بے کسی کے بغیر۔

بیبیوں نے خیمے چھوڑ دیئے، باہر خون میں بھیگی ریت پہ آ کر بیٹھ گئیں۔ رات …تاریکی … جلتے خیمے …بچھڑنے والوں کا غم ، خشک لب ، آنکھ میں آنسو اور گود میں بچے!

جیتنے والے ابھی بھی مطمئن نہیں، انہیں مزید تماشا چاہیے۔ انہیں بیبیوں کی چادروں کی چاہ ہے…بچوں کے منہ طمانچوں سے لال کر نے ہیں اور ان بہادر عورتوں نے اسے برداشت کرنا ہے۔ اپنی وقتی کمزوری کو عظمت میں بدلنا ہے اور ان تماشا کرنے والوں کو رہتی دنیا تک قابل مذمت بنانا ہے۔

بچپن سے شام غریباں سن رہے ہیں اور جب ناصر جہاں پڑھتے تھے،
" گھبرائے گی زینب "

ہم ہمیشہ سوچتے تھے ، کیسے گھبرا سکتی ہے وہ عورت جو اس رات بقائم ہوش وحواس بہادری سے نہ صرف حفاظت کر رہی ہے بلکہ فیصلے بھی کر رہی ہے۔

کیسے گھبرا سکتی ہے زینب، جو یزید کے دربار میں پہروں اپنے پاؤں پہ تن کے کھڑی رہ سکتی ہے اور یزید پوچھنے پہ مجبور ہو جاتا ہے،
" کون ہے یہ مغرور عورت"
کیسے گھبرا سکتی ہے دربار شام میں اپنے خطبے سے لرزہ پیدا کر دینے والی زینب؟

یہ شام زینب ہے!
یہ شام عورت ہے!
یہ زینب کی بہادری اور جیت کی شام ہے!
اسلام کی تاریخ کی بدنما شام لیکن ایک عورت کے اعلیٰ جرات و کردار کی شام!

یہ شام رہتی دنیا تک ہر رنگ ونسل کی سب عورتوں کا سرمایہ اور فخر ہے۔

اے شام زینب ، تیری عظمت کو سلام!

06/07/2025

📌یومِ عاشورہ: کربلا میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اسلام کی بقا کے لیے لازوال قربانی

یومِ عاشورہ، 10 محرم الحرام 61 ہجری (بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی) کو کربلا کے تپتے صحرا میں پیش آنے والا وہ عظیم اور دلخراش واقعہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ یہ دن محض ایک جنگ کا نہیں بلکہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اسلام کو بچانے، اس کی اصل روح کو زندہ رکھنے اور ظلم و ملوکیت کے خلاف ابدی پیغام دینے کی خاطر اپنی جانوں کی بے مثال قربانی کا دن ہے۔ نواسۂ رسول ﷺ، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے پاکیزہ خاندان اور باوفا ساتھیوں سمیت اس میدان میں ایسی لازوال قربانی پیش کی جو قیامت تک کے لیے ہر حق پرست کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

۱۔ خلافت سے ملوکیت کا خطرہ اور دین کی بیخ کنی کا اندیشہ
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کا دور اسلامی ریاست میں عدل، شورائیت اور سادگی کا بہترین نمونہ تھا۔ لیکن حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد، اور پھر معاویہ کے دور میں، اسلامی طرزِ حکمرانی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت (بادشاہت) میں بدلنے کی بنیاد رکھی، جو اسلامی اصولوں کے خلاف تھا۔

• یزید کا فاسقانہ کردار:
یزید کا ذاتی کردار اسلامی اقدار سے بہت دور تھا۔ وہ کھلے عام گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا، شراب نوشی، لہو و لعب اور حیوانیت اس کے معمولات میں شامل تھی۔ ایک ایسے شخص کا مسلمانوں کا خلیفہ بننا دینِ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھا۔

• امام حسین کا موقف:
امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے امت کو یہ درس دیا کہ ایک فاسق و فاجر کی حکمرانی قبول کرنا دین کو تباہ کر سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: "اگر یزید جیسا شخص امت کا حاکم ہو جائے تو اسلام پر سلامتی ہو۔" (بحار الانوار، جلد 44، صفحہ 326)

یہ آپ کا مقصد تھا کہ یزیدی نظام دراصل اسلام کو مسخ کر رہا تھا، اور اگر اس وقت آواز نہ اٹھائی جاتی تو اسلام کی حقیقی شکل ختم ہو جاتی۔

۲۔ یومِ عاشورہ کا میدان: نصرتِ دین اور ایثار کا عروج
یومِ عاشورہ کا سورج طلوع ہوا تو امام حسین علیہ السلام اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کا سامنا یزید کے ہزاروں سپاہیوں سے تھا، جنہوں نے 7 محرم سے ہی پانی بند کر رکھا تھا اور اہل بیت کے خیمے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ اس دن امام حسین اور ان کے رفقاء نے دین کو بچانے کی خاطر وہ بے مثال قربانیاں پیش کیں جو ہر دور کے لیے درسِ عمل ہیں۔

• اصحاب کی لازوال وفاداری:
امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں نے، جن میں جوان، بوڑھے اور بچے شامل تھے، ایک ایک کر کے میدان میں جامِ شہادت نوش کیا۔ ہر ایک نے اپنی جان نچھاور کرنے سے پہلے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہیں پانی بھی میسر نہیں آئے گا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ حق کی خاطر جان قربان کرنا ہی حقیقی سعادت ہے۔

• اہل بیت کی قربانیاں:
اہل بیت اطہار علیہم السلام نے اس دن دین کی بقا کے لیے ہر عزیز ترین ہستی کو قربان کر دیا۔

• شہزادہ علی اکبر علیہ السلام: رسول اللہ ﷺ سے شکل و صورت اور سیرت میں سب سے زیادہ مشابہ، امام حسین کے بڑے فرزند۔ آپ نے پیاس کی شدت میں بھی شجاعت دکھائی اور شہید ہوئے۔ امام حسین نے آپ کی شہادت پر کہا: "تیری جدائی کے بعد دنیا کی کوئی خیر باقی نہیں۔" (تاریخ طبری، جلد 5، صفحہ 446)

• شہزادہ قاسم ابن حسن علیہ السلام: امام حسن کے کم سن فرزند (تقریباً 13 سال)۔ آپ نے اپنی کم عمری کے باوجود بے مثال شجاعت دکھائی اور آپ کا جسم گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا گیا۔ (اللہوف، صفحہ 132-133)

• غازی عباس علمدار علیہ السلام: امام حسین کے باوفا بھائی اور علمدار۔ آپ نے بچوں کے لیے پانی لانے کی کوشش میں اپنے دونوں بازو کٹوائے، پیاس کے باوجود خود ایک قطرہ پانی بھی نہ پیا، اور بالآخر جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی وفاداری بے مثال ہے۔ (اللہوف، صفحہ 140-142)

• شہزادہ علی اصغر علیہ السلام: امام حسین کے چھ ماہ کے شیرخوار فرزند۔ آپ کو شدتِ پیاس سے تڑپتے ہوئے دیکھ کر امام حسین نے یزیدی لشکر سے پانی طلب کیا، مگر ظالم حرملہ نے آپ کے حلق پر تیر مار کر شہید کر دیا۔ یہ انسانیت سوز مظالم کی انتہا تھی۔ (اللہوف، صفحہ 143-144)

۳۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت: دین کی بقا کا حتمی لمحہ
جب امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب اور اہل بیت کے جوان شہید ہو گئے تو آپ خود تنہا میدان میں اترے۔ آپ نے فرمایا: "میں فساد پھیلانے یا ظلم کرنے کے لیے نہیں نکلا، بلکہ میرے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکوں۔" (مقتل خوارزمی، جلد 1، صفحہ 188)

آپ نے بے مثال شجاعت سے جنگ کی اور رجز پڑھتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ یہ جنگ ذاتی اقتدار کے لیے نہیں بلکہ دین کی حفاظت کے لیے ہے۔ بالآخر، آپ کو شدید زخمی حالت میں شہید کر دیا گیا اور آپ کا سر مبارک نیزے پر بلند کیا گیا۔

• یزید کا اعترافِ بغض:
دمشق کے دربار میں یزید نے امام حسین کے سر مبارک کی بے حرمتی کرتے ہوئے اشعار پڑھے: "لَعِبَتْ هَاشِمُ بِالْمُلْكِ فَلَا خَبَرٌ جَاءَ وَلَا وَحْيٌ نَزَلْ" (بنو ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیلا تھا، ورنہ نہ کوئی خبر (وحی) آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی۔) (تاریخ طبری، جلد 5، صفحہ 247)

یہ یزید کا واضح اعتراف تھا کہ اس نے یہ سب دین کی خاطر نہیں بلکہ قبائلی عداوت اور پرانے بدلے کے طور پر کیا تھا۔ اس نے نبوت کا انکار کر کے اپنے کفر کو بھی ظاہر کیا۔ امام حسین کی قربانی نے اس یزیدی سوچ کو بے نقاب کیا اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں بچایا۔

۴۔ کربلا کے بعد: قیدِ اہل بیت اور پیغام کی اشاعت
امام حسین کی شہادت کے بعد، اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو قید کیا گیا، خیمے لوٹے گئے اور آگ لگا دی گئی۔ سیدہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا اور امام زین العابدین علیہ السلام نے صبر و استقامت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوفہ و دمشق کے درباروں میں خطبے دے کر یزیدی ظلم کو بے نقاب کیا اور امام حسین کے مقصد کو دنیا پر واضح کیا۔ ان کے خطبات نے کربلا کے پیغام کو زندہ رکھا اور ہر دور کے حریت پسندوں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔

۵۔ کربلا: حق و باطل کے درمیان ابدی لکیر
یومِ عاشورہ کی قربانی نے حق اور باطل کے درمیان ایک ایسی واضح اور ابدی لکیر کھینچ دی جو قیامت تک کے لیے رہنمائی کرتی رہے گی۔

• ظلم کے خلاف مزاحمت:
کربلا نے یہ اصول قائم کیا کہ ظالم حکمران کے سامنے خاموش رہنا گناہ ہے اور حق کی خاطر آواز اٹھانا فرض ہے۔

• دین کی حفاظت:
یہ قربانی محض ایک سیاسی جنگ نہیں تھی بلکہ دینِ اسلام کی اصل روح اور اقدار کو بچانے کی جنگ تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے شجرِ اسلام کی آبیاری کی اور اسے یزید کے ناپاک عزائم سے محفوظ کیا۔

• عزتِ نفس اور استقامت:
امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دی۔ ان کی استقامت نے انسانیت کو باوقار زندگی جینے کا درس دیا۔

یومِ عاشورہ اور کربلا کا واقعہ آج بھی ہر مسلمان اور ہر باشعور انسان کے لیے ایک لازمی سبق ہے کہ دین کی حفاظت اور ظلم کے خلاف جدوجہد ہی ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں گئیں بلکہ انہوں نے اسلام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔

05/07/2025

شب عاشورہ
زیاب حضرت عباس علیہ السلام کی علم شریف
مقام۔ گنڈ ابراھیم پٹن
تاریخ 5 جولائی 2025

Address


Telephone

+917889982972

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Lashker E Mehdi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Lashker E Mehdi:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share