Akmal Husain Gujjar

Akmal Husain Gujjar Islamic knowledgeable video

   I love Mohammed ﷺ
28/09/2025

I love Mohammed ﷺ

कहते हैं इश्क नाम के गुज़रे हैं एक बुजुर्ग हम लोग भी मुरीद उसी सिलसिले से हैं
27/09/2025

कहते हैं इश्क नाम के गुज़रे हैं एक बुजुर्ग

हम लोग भी मुरीद उसी सिलसिले से हैं

27/09/2025

रोल माडल किसे बानाएं?

24/09/2025

एक नबी का जहन्नमी बेटा

सब्र का ताल्लुक़ खामोशी से होता है जिस का शोर सिर अल्लाह सनता है
22/09/2025

सब्र का ताल्लुक़ खामोशी से होता है

जिस का शोर सिर अल्लाह सनता है

क़तरा अब एहतिजाज करे भी तो क्या मिलेदरिया जो लग रहे थे समंदर से जा मिलेहर शख़्स दौड़ता है यहां भीड़ की तरफफिर यह भी चाहत...
21/09/2025

क़तरा अब एहतिजाज करे भी तो क्या मिले
दरिया जो लग रहे थे समंदर से जा मिले

हर शख़्स दौड़ता है यहां भीड़ की तरफ
फिर यह भी चाहता है उसे रास्ता मिले

इस आरज़ू ने और तमाशा बना दिया
जो भी मिले है हमारी तरफ़ देखता मिले

दुनिया को दूसरों की नज़र से न देखिये
चेहरे न पढ़ सके तो किताबों में क्या मिले

रिश्तों को बार बार समझने की आरज़ू
कहती है फिर मिले तो कोई बेवफ़ा मिले।

इस दौर-ए-मुंसिफ़ी में ज़रूरी नहीं 'वसीम'
जिस शख़्स की ख़ता हो उसी को सज़ा मिले

वसीम बरेलवी

#शेर #शायरी #गजल #दिल #मोहब्बत

21/09/2025

عرب لیگ: امتحان میں ناکام
ودود ساجد

(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

اسرائیل نے عربوں کو جس امتحان میں مبتلا کیا تھا اس امتحان میں وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ مسلم ممالک نے اور خاص طور پر عرب لیگ نے وہ موقع گنوا دیا ہے جس کے تحت وہ کوئی موثر‘ مضبوط اور جامع جوابی لائحہ عمل ترتیب دے کر اسرائیل اور اس کے آقا امریکہ کو جتا سکتے تھے کہ وہ کمزور نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے ردعمل سے ظاہر کردیا کہ وہ بزدل بھی ہیں۔

15 ستمبر کو قطر کی راجدھانی دوحہ میں منعقد مسلم ممالک کی ہنگامی سربراہ کانفرنس میں دوحہ میں اسرائیل کے جارحانہ حملہ کے خلاف جو حتمی بیان جاری کیا گیا اس نے عالم اسلام سے وابستہ ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 9 ستمبر کو حماس کے سیاسی قائدین کو قتل کرنے کیلئے اسرائیل کے 15 جہازوں نے دوحہ کی ایک عمارت پر جو حملہ کیا تھا قطر نے اسے مجرمانہ اور بزدلانہ حملہ قرار دیا تھا۔ سارے عرب اور مسلم ممالک نے بیک آواز اس کے خلاف بیان جاری کرکے قطر کے ساتھ نہ صرف اظہار یکجہتی کیا تھا بلکہ اسرائیل کو موثر جواب دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔

مذکورہ کانفرنس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دوحہ میں اسرائیل کے حملوں کی سخت مذمت کی گئی لیکن کانفرنس نے اسرائیل پر سخت قسم کی اجتماعی پابندیاں عاید کرنے کا کوئی فیصلہ یا اعلان نہیں کیا۔ جبکہ کانفرنس سے پہلے قطر اور دوسرے عرب ممالک کے جس طرح کے بیانات آرہے تھے ان سے لگ رہا تھا کہ اسرائیل کے خلاف کسی سخت ایکشن کا فیصلہ لیا جائے گا یا کم سے کم اس پر کچھ پابندیاں عاید کی جائیں گی۔

ہمیں بہر حال اس کی امید نہیں تھی کہ جس طرح اسرائیل کے 15 جنگی جہازوں نے دوحہ کی فضائوں میں داخل ہوکر حملہ کیا ہے اسی طرح قطر بھی کوئی جوابی حملہ تل ابیب پر کرے گا۔ لیکن جب تمام عرب ممالک جمع ہوگئے تھے اور سب قطر سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے تو اتنا تو ہونا ہی چاہئے تھا کہ اسرائیل پر کچھ تجارتی قسم کی پابندیاں فوری طور پر عاید کردی جاتیں۔ اسرائیل کو براہ راست اور باالواسطہ جانے والا تیل ہی روک دیا جاتا۔ یہ بھی نہیں کرسکتے تھے تو جن عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے قائم ہیں وہ اس سے اپنے سفارتی رشتے توڑ لیتے۔

متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور مراکش نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اس کے برخلاف شام کے صدر احمد الشرع کی منافقت دیکھئے: عرب کانفرنس میں تو عربوں کی غیرت کو جگانے والا بڑا بلیغ خطاب فرمایا لیکن شام پہنچتے ہی اعلان کردیا کہ جلد ہی اسرائیل اور شام کے درمیان ہونے والے سیکیورٹی مذاکرات کے اچھے بتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اس سے بھی دس قدم آگے بڑھ کر کہا کہ اگر اسرائیل مغربی کنارہ پر قبضہ بھی کرلے تب بھی وہ اس سے تعلقات ختم نہیں کرے گا۔

موٹے طور پر اس تاریخی ہنگامی کانفرنس میں قطر پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی گئی‘ ان حملوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا‘ قطر سے اظہار یکجہتی کیا گیا‘ قطر پر حملے کو تمام (عرب اور مسلم) ممالک پر حملہ قرار دیا گیا اور قطر کے ہر اس ممکنہ اقدام کی حمایت کی گئی جو وہ اپنی سلامتی اور تحفظ کے لئے کرنا چاہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس نے غزہ میں جاری اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی بھی سخت مذمت کی اور اسے اہل غزہ کی نسل کشی‘ نسلی تطہیر ‘بھوک سے مارنے اور محاصرہ کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا۔ عرب لیڈروں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کے خاتمہ ‘ غزہ میں امداد کا راستہ کھولنے اور فوری طور پر جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا۔ کانفرنس نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی جابرانہ کارروائیوں کے خلاف کارروائی کرے۔ عالمی برادری سے بھاری بھرکم پابندیوں‘ہتھیاروں کی فراہمی پر روک اور اس کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی مراسم کا از سرنو جائزہ لینے کی بھی اپیل کی گئی۔

او آئی سی (اسلامی ملکوں کی تنظیم) سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ اس کا جائزہ لے کہ کیا اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت یو این او کے چارٹر کے مطابق ہے۔ کانفرنس نے 1967 میں قائم سرحدوں کے مطابق ریاست فلسطین کے قیام کی حمایت کا اعادہ کیا جس کے مطابق مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالسلطنت تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دو ریاستی حل کیلئے ’نیویارک ڈکلیریشن ‘ کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کانفرنس کے مذکورہ اعلانات‘ اپیلوں اور مطالبوں میں نیا کیا ہے؟ پچھلے دو سال سے عرب ممالک ہی نہیں پوری دنیا یہی اپیلیں اور یہی مطالبات کر رہی ہے۔ کیا ان اپیلوں اور مطالبات کا کوئی اثر ہوا؟ پھر اس کانفرنس کی طرف دنیا کی نگاہیں اس لئے نہیں لگی ہوئی تھیں کہ غزہ میں جاری صورتحال کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحہ میں حملہ کرکے قطر کی سلامتی‘ اقتدار اعلی اور اس کی خود مختاری کو جو چیلنج دیا تھا اس کا جواب عرب دنیا کس طرح دیتی ہے۔ ان دو برسوں میں پوری دنیا نے یہ باور کرلیا ہے کہ اہل غزہ کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہے اور عرب دنیا کو اہل غزہ کی کوئی خاص فکر نہیں ہے۔ لیکن دوحہ میں ہونے والے حملہ پر تو دنیا کو توقع تھی کہ تمام عرب ممالک اس حملہ کو خود پر حملہ تصور کرتے ہوئے اسرائیل کو سبق سکھانے کیلئے کوئی معقول اور موثر کارروائی کریں گے۔

ہرچند کہ اس کانفرنس نے اپنی قرارداد میں یہ تسلیم کیا ہے کہ قطر پر حملہ تمام عرب اور مسلم ملکوں پر حملہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اس حملہ کی جوابی کارروائی کیا ہوئی؟ نتن یاہو نے کہا تھا کہ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ عرب ممالک بیان کیا دے رہے ہیں‘ میں تو ان کے عملی جواب پر اپنا ردعمل ظاہر کروں گا۔ نتن یاہو کو معلوم تھا کہ عرب کوئی جوابی کارروائی نہیں کرسکتے۔

کانفرنس کی قرار داد میں جس ’نیویارک ڈکلیریشن‘ کا خیر مقدم کیا گیا وہ فرانس کی تحریک سے ستمبر2025 میں ہی اقوام متحدہ میں پاس کیا گیا تھا اوراس کے مطابق جہاں ریاست فلسطین کے قیام کے ساتھ دو ریاستی حل کی بات کی گئی تھی وہیں فوری جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس میں نیا کیا ہے؟ کیا اسرائیل اور امریکہ نے اسے تسلیم کرلیا؟ امریکہ نے تو ان دو برسوں میں جنگ بندی کی چھ قراردادوں کو مسترد کردیا۔ ٹرمپ بھی اب کھل کر بعض ملکوں کے ذریعہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کئے جانے کے اعلان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ہی اپنی پہلی مدت کار میں اسرائیل میں امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے ہٹاکر یروشلم منتقل کردیا تھا۔ یہ اس امر کا اعلان تھا کہ وہ اس الگ ریاست فلسطین کے حامی نہیں ہیں جس کا دارالسلطنت یروشلم ہو۔ اس کانفرنس میں امریکہ یا ٹرمپ کے تعلق سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا گیا۔

دوحہ میں اسرائیل کے حملہ پر امریکہ سے اس لئے سوال کیا جانا چاہئے تھا کہ اس وقت 8 عرب ملکوں بحرین‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ اومان‘ اردن اور عراق میں اس کے فوجی اڈے قائم ہیں جہاں مجموعی طور پر امریکہ کے 50 ہزار فوجی مقیم ہیں۔ ان اڈوں کے قیام کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان عرب ملکوں کو ہر قسم کے حملہ سے بھی بچایا جائے گا۔ سب سے بڑا سینٹرل کمانڈ کا اڈہ قطر میں ہی ہے۔ پھر امریکی فوج کے ان اڈوں نے قطر پر اسرائیل کا حملہ کیوں ہونے دیا؟ اب تو یہ رپورٹس آگئی ہیں کہ ٹرمپ کو حملہ کا بہت پہلے علم ہوگیا تھا لیکن اس نے قطر کو اندھیرے میں رکھا۔ جس وقت قطر میں یہ کانفرنس ہورہی تھی اسی وقت امریکہ کا وزیر خارجہ تل ابیب میں نتن یاہو کے ساتھ ’دیوارگریہ‘ کا دورہ کر رہا تھا‘ یہاں اس نے بیت المقدس کو جانے والی ایک سرنگ کا بھی افتتاح کیا اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ اس نے دوحہ میں اسرائیل کے حملہ پر بھی کچھ نہیں کہا۔ اس کے برعکس نتن یاہو نے کہا کہ ضرورت پڑی تو وہ قطر پر پھر حملہ کرے گا۔

تو کیا اس کانفرنس میں ان عرب لیڈروں کو ٹرمپ سے یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ جب تم ہماری حفاظت نہیں کرسکتے تو پھر ہمارے ملکوں میں امریکی فوجی اڈوں کا کیا کام ہے؟ قطر اور سعودی عرب میں قائم امریکی فوجی اڈوں کا کام ایرآپریشن‘ ‘ایرڈیفنس سسٹم ‘ میزائل ڈیفنس سسٹم اور پیٹریاٹ میزائل کا نظم کرنا ہے۔ تو جب اسرائیل کے 15 جنگی جہاز قطر کی طرف بڑھ رہے تھے تو قطر ‘ اردن اور عراق میں قائم امریکہ کے ان فوجی اڈوں کے ایر ڈیفنس سسٹم نے انہیں کیوں نہیں روکا؟ انہی ملکوں کی فضا سے ہوکر تو جنگی جہاز دوحہ تک پہنچے تھے۔ اس کانفرنس نے اس پر کیوں سوال نہیں اٹھایا؟۔ سنا ہے کہ مذکورہ کانفرنس میں ’ناٹو‘ کی طرز پر ’اسلامی فورس‘ قائم کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ناٹو یوروپ اور شمالی امریکہ کے 32 ملکوں کی ایک مشترکہ سیاسی اور فوجی تنظیم ہے جو 1949 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ ایک طاقتور تنظیم ہے جو کسی بھی رکن ملک کے سیاسی یا فوجی بحران میں اس کا ساتھ دیتی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کا بڑا سبب ’ناٹو‘ میں یوکرین کی شمولیت کی خواہش اور کوشش ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل اب قطر پر دوبارہ حملہ نہیں کرےگا۔ سوال یہ ہے کہ ضمانت کیا ہے؟ رپورٹس تو بتاتی ہیں کہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ نتن یاہو سے عاجز آگئے ہیں لیکن وہ عوامی طور پر اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔’

وال اسٹریٹ جنرل‘ نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کو 6 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کیلئے کانگریس سے منظوری چاہتی ہے۔ امریکہ اسے 30 اے ایچ 64 اپاچے ہیلی کاپٹر اور ملٹری کیلئے 3250 انفنٹری اسالٹ گاڑیاں دے گا۔ 22 ستمبر کو نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کے اشتراک سے ایک کانفرنس ہو رہی ہے جس میں برطانیہ ‘کناڈا‘فرانس‘ بلجیم اور آسٹریلیا فلسطین کو تسلیم کرنے کیلئے اعلان کریں گے۔ امریکہ پہلے ہی اس کی مخالفت کا اعلان کرچکا ہے۔ ٹرمپ نے تو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے فلسطین کے صدر محمود عباس کو ویزا دینے سے ہی انکار کردیا ہے۔

اس دنیا کا ایک اور رخ بھی ملاحظہ فرمائیے: 19 ستمبر کو ٹائمز آف اسرائیل میں’ ایریل کارمل‘ نے رپورٹ دی کہ 9 ہزار اسرائیلیوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کرکے اقوام عالم سے الگ ریاست فلسطین کے حق میں کام کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس کی حمایت ان خاندانوں نے بھی کی ہے جن کے پیارے سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے میں مارے گئے تھے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ مستقل امن کے قیام کیلئے مکمل ریاست فلسطین کا قیام ہی واحد راستہ ہے۔ امریکہ کے رکن کانگریس ’برنی سینڈر‘ نے پہلی بار اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار دیا ہے۔

بہرحال مجموعی طور پر عربوں کی اس کانفرنس نے نتن یاہو کو انصاف کے آستانے پر گھسیٹ کر لانے کی خواہش مند دنیا کو مایوس کیا ہے۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ عرب ممالک یہ کانفرنس ہی نہ کرتے‘ بس فرداً فرداً بیانات جاری کرتے رہتے‘ یا کچھ نہ کہتے' چپ ہی رہتے۔۔ اس سے ان کا کچھ تو بھرم بچا رہتا۔

काश सरकार एक बार मुझे से कहें आ तेरा जीना मरना मदीने में है
21/09/2025

काश सरकार एक बार मुझे से कहें

आ तेरा जीना मरना मदीने में है

Address

Bhinga
271831

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Akmal Husain Gujjar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Akmal Husain Gujjar:

Share