Shah Media

Shah Media A source of moral based video and creative productions, Islamic knowledgeable lectures, Dars e quran,

25/09/2025

یہ ایک نہایت عجیب داستان ہے، دل کو چھونے والی!!
ڈاکٹر محمد خانی رقم طراز ہیں:
ایک مرتبہ میں اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک ایک دبلا پتلا سا لڑکا قریب آیا۔ عمر بمشکل سولہ برس ہوگی۔ نہ جانے کیسی معصومیت چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا:
"کیا میں آپ کے گاڑی کا شیشہ صاف کر دوں؟"
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے ایسا دل لگا کر شیشہ صاف کیا کہ گاڑی کی آب و تاب نکھر آئی۔ میں نے بیس ڈالر اس کے ہاتھ پر رکھے تو وہ چونک کر بولا:
"کیا آپ امریکہ سے آئے ہیں؟"
میں نے کہا: "ہاں۔"
اس نے تپاک سے کہا: "کیا میں صفائی کی اجرت کے بجائے آپ سے امریکی جامعات کے بارے میں کچھ سوال کر سکتا ہوں؟"
اس کی گفتگو میں ایسی شائستگی اور وقار تھا کہ میرا دل مچل اٹھا۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور بات چیت شروع کی۔
"تمہاری عمر کتنی ہے؟"
"سولہ برس۔"
"یعنی سیکنڈ ایئر میں ہو؟"
"جی نہیں، میں نے گریجویشن مکمل کر لی ہے۔"
"یہ کیسے ممکن ہوا؟"
"امتحانات میں غیر معمولی کارکردگی کے باعث مجھے کئی جماعتیں آگے بڑھا دیا گیا۔"
میں دم بخود رہ گیا۔ پوچھا:
"پھر تم یہاں مزدوری کیوں کرتے ہو؟"
وہ کچھ دیر خاموشی کے بعد گویا ہوا:
"میرے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب میں دو برس کا تھا۔ میری ماں ایک گھر میں کھانا پکاتی ہیں اور میں اور میری بہن بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ امریکی جامعات میں ذہین طلبہ کو وظائف ملتے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ میں بھی ان میں جگہ پاؤں۔"
میں نے پوچھا: "کیا کوئی تمہارا ہاتھ بٹانے والا ہے؟"
وہ آہستگی سے مسکرایا: "میرے پاس میرے سوا کوئی نہیں۔"
میرا دل بھر آیا۔ کہا: "چلو کھانا کھاتے ہیں۔"
اس نے شرط رکھی: "لیکن اس سے پہلے مجھے آپ کے گاڑی کا پچھلا شیشہ صاف کرنے دیجیے۔"
میں نے ہنستے ہوئے اجازت دی۔
ریستوران پہنچ کر بھی اس کی عظمتِ نفس دیکھنے کے لائق تھی۔ اپنے لیے کچھ نہ مانگا بلکہ کہا کہ کھانا پیک کر دیا جائے تاکہ وہ ماں اور بہن کو دے سکے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی انگریزی بے حد شاندار ہے اور اس میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔
ہم نے طے کیا کہ وہ اپنے کاغذات لائے گا اور میں اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مدد کروں گا۔ چند ماہ کی کوششوں کے بعد اسے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا۔ دو دن بعد اس کی آواز فون پر گونجی:
"واللہ! ہم سب گھر میں خوشی کے آنسو رو رہے ہیں۔"
محض دو برس گزرے تھے کہ نیویارک ٹائمز نے اسے دنیا کے کم عمر ترین ماہرِ ٹیکنالوجی قرار دے کر اس پر رپورٹ شائع کی۔ یہ خبر پڑھ کر میں اور میرے اہلِ خانہ اشکبار خوشی میں ڈوب گئے۔ میری اہلیہ نے اس کی ماں اور بہن کے ویزے بھی دلوائے۔ جب یہ نوجوان اپنی ماں اور بہن کو اچانک امریکہ میں اپنے سامنے دیکھتا ہے تو خوشی کے بوجھ تلے نہ بول سکا نہ رو سکا۔
کچھ عرصے بعد ایک دن میں اور میرا خاندان گھر کے اندر تھے کہ اچانک باہر نگاہ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہی نوجوان میری گاڑی دھو رہا ہے! میں تیزی سے باہر نکلا اور حیرت سے پوچھا:
"یہ کیا کر رہے ہو؟"
وہ سر جھکا کر مسکرایا اور بولا:
"مجھے کرنے دیجیے تاکہ میں یہ نہ بھولوں کہ میں کیا تھا اور آپ نے مجھے کیا بنایا۔"
یہ فلسطین کا باہمت فرزند فرید عبدالعالی ہے، جو آج ہارورڈ یونیورسٹی جیسے عظیم ادارے کا نامور استاد اور مایہ ناز سائنس دان ہے۔
یہ سچی داستان عرب سوشل پر وائرل ہے۔ اس کہانی میں سبق یہ پنہان ہے کہ غربت اور محرومی اگرچہ انسان کے قدم روک سکتی ہے، مگر ارادے، حوصلے اور شرافت کے سامنے دنیا کی کوئی دیوار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔
(ضیاء چترالی)

23/09/2025

23 ستمبر کو سعودی عرب میں ہر سال نیشنل ڈ ے(یوم الوطنی) کیوں منایا جاتا ہے ؟

23 September 2025
Saudi National Day

ہوٹل کے کمرے میں محبت کا حق ادا کرنے کے بعد لڑکا اور لڑکی برہنہ حالت میں لیٹے محبت کی باتیں کررہے تھے.... لڑکا جانوں یہ ...
22/09/2025

ہوٹل کے کمرے میں محبت کا حق ادا کرنے کے بعد لڑکا اور لڑکی برہنہ حالت میں لیٹے محبت کی باتیں کررہے تھے.... لڑکا جانوں یہ لمحے بہت قیمتی ہیں چلو ایک وڈیو بناکر ان کو یادگار کے لئے قید کرلیتے ہیں.... لڑکی نہیں جان ایسے مت کرو تم وڈیو لیک کردو گے لڑکا تمہیں مجھ پر شک ہے؟ جان تمہیں میری قسم ایک وڈیو بنانے دو تمہارے سر کی قسم ڈلیٹ کردوں گا...لڑکی جان تم سر کی قسم مت دیا کرو, چلو بنالو.

‏عزت ہوٹل کے کمرے میں نیلام کرکے وہ محبوب کی یادوں میں اُڑتی گھر آکر سوگئی... یادرہے وہ گھر سے سہیلی سے ملنے کا بہانہ لگاکر گئی تھی... صبح جب وہ اُٹھی تو اُسکی وہ برہنہ وڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکی تھی...بھائیوں نے اُسی وقت مارکر دفن کردیا....لوگوں کو بتایا اُسے سر درد ہوا اور وہ مرگئی...ایسی لڑکیوں کو بغیر جنازے کے راتوں رات لاوارثوں کی طرح دفنا دیا جاتا ہے....یہ کوئی کہانی نہیں ہے ایک سچ ہے جو ناجانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ ہوچکا ہے.....!!!اے بنتِ حوا گاڑیوں میں گھومنا مہنگے تحفے لینا آئی فون لینا...ہوٹلوں میں محبوب کے ساتھ کھانے کھانا تمہیں یہ دنیا بہت اچھی لگتی ہوگی....پر یاد رہے یہ ایک بھیانک دنیا ہے. اس کا انجام ذلت اس کے بعد قتل اور بغیر جنازے کے تدفین ہے...!!!!

‏بنتِ حوا آپ کے بابا نے زمانے کی خاک چھان کر آپ کو جوان کیا ہے... آپ کو تعلیم دلوائی کسی قابل بنایا اُس باپ کی عزت کا کچرہ محبت کی آڑ میں مت کرو...اس دنیا میں سب مل جاتا ہے پر گئی عزت دوبارہ نہیں ملتی.....سنبھل جاؤ اس سے پہلے کہ لاوارث موت تمہارا مقدر بنے.
منقول

طلبہ کی سہولت اور حفظانِ صحت کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند وقف کا یہ قدم خوش آئند اور قابلِ تقلید ہے۔
13/08/2025

طلبہ کی سہولت اور حفظانِ صحت کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند وقف کا یہ قدم خوش آئند اور قابلِ تقلید ہے۔

13/08/2025

ترنگا ریلی دار العلوم دیوبند
Tiranga Rally Darul uloom Deoband 2024

نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارنپور کے ناظم اعلی حضرت مولانا محمد سعیدی جانشین...
04/06/2025

نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارنپور کے ناظم اعلی
حضرت مولانا محمد سعیدی جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر الحسین صاحب رحمت اللہ علیہ کا انتقال ہو چکا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت والا علاج کے سلسلے میں دہلی کے پنت اسپتال میں زیرعلاج تھے
دوران آپریشن روح پرواز کرگئی
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے آمین اللھم آمین یارب العالمین ۔
07/ذو الحجہ 1446 ھ مطابق 04 جون 2025ء بہ روز بدھ
مسعود احمد مظاہری فلاحی سہارن پوری ۔

04/05/2025

دنیا کی زندگی چند روزہ ہے
کچھ مدت کے بعد اپ سنیں گے کہ مولانا وستانوی بھی چلے گئے

04/05/2025

خادم القران مولانا غلام محمد استانہ رحمہ اللہ
بانی و مہتمم جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں
کی وفات کے بعد انگلینڈ سے ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی کا پیغام

04/05/2025

*حضرت مولانا غلام محمد وستانوی علیہ الرحمہ*
*کے انتقال کا اعلان دارالعلوم دیوبند میں ہورہاہے*

ابھی ابھی حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا انتقال ہو گیا انا للہ وانا الیہ راجعون
04/05/2025

ابھی ابھی حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا انتقال ہو گیا انا للہ وانا الیہ راجعون

28/04/2025

بڑی غمناک خبر

مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث و ناظم حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کا ابھی ابھی انتقال ہوگیا ہے انا للہ وانا الیہ را جعون
نماز جنازہ و تدفین کا اعلان بعد میں کیا جائے گا

04/04/2025

حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی:
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو


✒️:عین الحق امینی قاسمی

مرحوم قاضی صاحب کو گذرے ہوئے کم و بیش سولہ برس ہوگئے ،گویاوہ بہت پہلے سے ہمارے بیچ نہیں ہیں ،مگر نہ ہونے کے باوجودآج بھی ان کی خوبیاں زندہ ہیں ان کی نیکیاں باقی ہیں ۔

وہ آئے کب کے گئے بھی کب کے
نظروں میں اب تک سماں رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر ر ہے ہیں
یہ آر ہے ہیں وہ جار ہے ہیں

قاضی القضاۃ نائب امیر شریعت صاحب کا نام آتے ہی زباں پہ بارخدایا یہ کس کا نام آیا ۔۔۔کہ

میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے

وہ بہت اونچی شخصیت کے مالک تھے :

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا

ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

قاضی صاحب اصلا ایک عالم دین تھے ،سن 1954 ء کے فضلاء دارالعلوم میں سے تھے، اچھے اساتذہ کی صحبت میں اچھی محنت کی تھی ،فراغت کے بعد تدریس کے لئےجامعہ رحمانی جیسی ممتاز درسگاہ اور امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی جیسے مربی ملے ،بڑوں کی ماننے اور مان کر زندگی جینے کی چاہت تھی ،سنور گئے ، بعد کے دنوں میں امارت شرعیہ جیسا پلیٹ فارم ملا ،منجھ گئے،کام کرتے گئے نکھر تےگئے ،کامیابی کی راہ میں روڑے آئے ،سلیقے سے ہٹاتے گئے ،حکمت ودانائی کو ساتھ رکھ کر آگے بڑھتے رہے چمکتے گئے:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
صحیح ہے کہ پیڑ اپنے پھل سے پہچانا جاتاہے،دوست ،دوست سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے ۔وہ شگفتہ مزاج تھے،جمالیات کا عنصر غالب تھا،مگر کبھی جلال بھی ایسا کہ جمال تھر تھر کانپے۔ قاضی صاحب کردار کی جن بلندیوں پر تھے ،آج ہمہ شما کے لئے اس کا تصور محال ہے ،وہ فقیہ تھے ،مجتہدتھے،شریعت اسلامیہ کے نباض تھے،فقہی کنہیات وجزئیات پر گہری نگاہ تھی، ان کی فقہی بصیرت کا دنیا ءعرب بھی قائل تھی ۔وہ فقہ حنفی کے امام تھے ، نت نئے مسائل کے حل میں وہ برصغیر کےدارالا فتاؤں کی رہنمائی کے قطعاً محتاج نہیں تھے ، وہ عموم بلویٰ کے ہونے سے بہت پہلے ہی مسائل کا حل پیش کردیا کرتے تھے ،وہ تاک جھانک کے بغیر مضبوط دلائل سے کر مسئلے کی نوعیت واضح فرمادیا کرتے تھے ،بعض لوگوں کو برا بھی لگ جاتا ،کوئی زود باز کہتا تو کوئی انفرادیت کی بات کہہ کر عموم بلوی کا شدت سے انتظار کرتا ،مگر قاضی صاحب پر کیا فرق پڑتا ہے :
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

قاضی صاحب ایسے باکمال خطیب تھے کہ جن کے لب و لہجے میں گھن گرج تو کیا ،معمولی کودا پھاند ی بھی نہیں تھی، وہ بولتے تو مانو دریا کی روانی اور خاموش ہوتے تو ساحل کے تماشائی۔میرٹھ کی انقلابی سرزمین تھی لاکھوں کا مجمع فیض عام کالج گراؤنڈ میں موجود تھا ،قاضی صاحب کی گفتگو کیاشروع ہوئی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ،گھنٹہ بھر کی گفتگو کے بعد لوگوں نے سانس لی یعنی بات جب ختم ہوئی تو لوگ آپس میں کھسر پھسر کررہے ہیں ،مطلب یہ کون تھا کس نے بکھیری تھیں مستیاں ۔
اچھے انشاء پرداز ،ادیب ،قلم کار جن کی تحریر یں سب سمجھے ،اٹھا کر کوئی پڑھ دے تو کم فہم بھی سمجھ لے ،لکھے تو لکھتا چلاجائے ،ایساقلم ،جس کا وزن سب سے اٹھ پانا مشکل ہو ،اس کے ایک ایک جملے میں معنی کی دنیا پنہاں ہو۔
اپنے وقت کا منتظم ایسا کہ امارت شرعیہ ،فقہ اکیڈمی،ملی کونسل اور دارالعلوم الاسلامیہ جیسے ادارے ساتھ رہتے ،ہر جگہ سے ہر امر پر بہت باریک نگاہ،کیا مجال کے ان کو کوئی ٹہلادے یا ان کو کوئی پٹی پڑھادے ،وہ ظاہربیں میں جتنے سادے تھے ، باطنی قوت،ان کی اسی درجہ مستحکم ،متحرک اور معاملہ فہم تھی،ان کی صرف نسبت بڑی نہیں تھی وہ خود بھی بڑے تھے۔وہ جدید قدیم کے مابین روابط کا گرجانتے تھے،انہیں قدیم سے قدیم فاصلوں کو تکلف بر طرف کرنابھی خوب آتا تھا ،اسی لیے طبقہ علماء کے لئےجتنا وہ محبوب تھے ،اس سے کہیں زیادہ اہل دانش،ان کے قدرداں ،جاں نثار اورگرویدہ تھے۔سیاسی شعور اتنا پختہ کے سیاسی ناخدا ؤں کا قافلہ ان کے درپہ سجدہ ریز ،میڈیا والے ہزار چاہیں کہ ان کے منھ سے اپنےمن کی بات اگلوا لیں ،کیا مجال کہ ان کو پھانساجائے ،ان کے رسیلے جواب نے تو کئی بار میڈیا گھرانے کو لاجواب بھی کیا ہے ،ان چینلوں کو اپنی عزت بچانی بھاری پڑرہی تھی ،مولوی نما ،ڈھیلے ڈھالے کرتے پائجامے میں سیدھا سیمپل آدمی کے انٹر ویو ز پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جسے سنجیدہ ،باذوق صاحب علم وفہم صحافی جناب ایم ودود ساجد صاحب نے مرتب کرنا شروع کیا ہے ، جس میں وقت کا درد بھی ہے اور مستقبل کا مداوا بھی ،مگر یہ چیزسب کے سمجھنے کی نہیں ،ہاں وہ خوب سمجھ پائیں گے جو تھوڑا بہت بھی سیاسی شعور اور اس سے دلچسپی رکھتے ہیں ،آزادی کے بعد سےہی ہندی مسلمانوں کے لئے سیاست ،نہ جائے رفتن نہ پائے مانند ن جیسا مسئلہ بنی رہی ہے ،اس لیے ہمیشہ اکابرین علماء نے اس چبھن کو محسوس کیا ،ہمارے قاضی صاحب نے بھی اس چبھن کو محسوس کیا ،بلکہ اس دشوار ودشنام کھائی سے نکلنے کا فارمولہ بھی دیا ،مگر کون سنتا ہے فغان درویش ، ایک طبقہ ہے جو ہمیشہ ان مولویوں کی پگڑی اچھالنے میں ہی قوم وملت کا بھلا سمجھتاہے ،اس کے مزاج میں کردار نہیں ،صرف گفتار ہی گفتار ہے ،انہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ جو بولے وہی کنڈی کھولے ،قاضی صاحب نے دلدل سے نکلنے کا کوئی خاکہ اگرپیش کیا ہے تو وہی اس میں رنگ بھی بھر کر دیکھا ئیں ! قاضی صاحب کو اتنی فرصت کہاں تھی ،وہ تو بہت تھوڑی مدت کے لئے تشریف لائے تھے ۔ضرورت ہے کہ ہندی مسلمان اگراپنے معیار وقار کو بلند اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں فارمولہ پر آنا ہوگا کہ دلت مسلم ،برہمن واد کے خلاف متحد ہوکر سیاسی جنگ لڑیں ۔
بہر حال موجودہ وقت میں قاضی صاحب کی بڑی یاد آرہی ہے ،وہ ہوتے تو ہم اتنے منتشر بھی نہ ہوتے ،انہیں متحد کرنا خوب آتا تھا ،ہمارے انتشار واختلاف سے ایک ماں کی طرح وہ صدمے میں رہا کرتے تھے،وہ کبھی کلمہ کا واسطہ دے کر ہمیں ایک دھاگے میں پروتے تو کبھی اخلاقی پستی کے نقصان کا آئنہ دیکھا کر ہمیں سمجھا تے تھے ، ان کی رعب دار شخصیت سے ہم مان بھی جاتے تھے ، وہ یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کی بحالی کے لئے کئی طرح سے جتن کرتے تھے۔
ملک ووطن سے محبت ان کے انگ انگ میں رچی بسی تھی ،وہ اپنے مفاد سے زیادہ ملک کی سالمیت کے لئے بے چین رہتے تھے ،وہ کہتے تھے کہ ہمارے خانگی امن سے زیادہ ملکی امن ضروری ہے ،ملک مقدم ہے اور اسی جذبے سے وہ دیگر ممالک میں وطن عزیز کی نمائندگی فرماتے تھے،انہیں علم معاشیات کا بھی گہرا علم وتجربہ تھا اس لئے بھی وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ شکل میں دیکھنا چاہتے تھے ۔
مقام خوشی ہے کہ پیام انسانیت ٹرسٹ بہار اور بصیرت آن لائن کے اشتراک سے آئندہ فروری کی کسی تاریخ میں حضرت قاضی صاحب کی شایان شان سیمینار کا اعلان پیام انسانیت ٹرسٹ بہار کے صدر مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی صاحب کی طرف سے کیا گیا ،خدا مشکلات کو دور کرے ،غیب سے اسباب فراہم کرے، تاکہ ان کے نفوس ونقوش کو ہم زندہ رکھیں ،ان کی یادوں سے ہم منزل کا راستہ پاتے رہیں ۔
آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
مہکتا ہی رہے گا تیری یادوں کا گلشن
(جاری)

Address

Chatra
825401

Telephone

+966578159293

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shah Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Shah Media:

Share

Category