TARIQ URDU PRESS

TARIQ URDU PRESS TariQ Urdu Press is a Advertising service agency that sells Printing and Related Services. Products

13/09/2025

مَدور کا سانحہ: سیاست، انتظامیہ اور سماجی ہم آہنگی کے لیے لمحۂ فکریہ

از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کے ضلع منڈیا کے مَدور میں سات ستمبر کو گنیش وسرجن کے جلوس کے دوران پیش آنے والے پتھراؤ نے ایک بار پھر ریاستی سیاست، انتظامیہ اور سماجی ہم آہنگی کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ یہ واقعہ محض ایک جھڑپ نہیں بلکہ برسوں کی سیاسی غفلت، انتظامی ناکامی اور سماجی تقسیم کا شاخسانہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس تصادم میں آٹھ افراد زخمی ہوئے، پولیس نے اکیس سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور حالات قابو سے باہر ہونے پر دفعہ 144 نافذ کرنی پڑی۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب نقصان ہو چکا تھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کو پہلے سے روکا کیوں نہیں جا سکا؟

سیاسی منظرنامے میں اس واقعے کے بعد مزید پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ ضلع انچارج اور وزیر زراعت این۔ چلوارایاسوامی نے کہا کہ گرفتار شدگان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور ہندو فریق کے خلاف کوئی بڑی کارروائی سامنے نہیں آئی، جو انصاف کے توازن پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی اس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور جان بوجھ کر فضا کو کشیدہ بنا رہی ہے۔ وزیر داخلہ جی۔ پرمیشور نے ایک قدرے متوازن مؤقف اپنایا اور کہا کہ پتھر پھینکنے والا چاہے ہندو ہو یا مسلمان، کسی کو رعایت نہیں دی جائے گی، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اشتعال انگیز بیانات فضا کو زہر آلود کر رہے ہیں۔

سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو بعض سیاسی رہنماؤں کی غیر ذمہ دارانہ زبان ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما سی۔ ٹی۔ روی نے واقعے کی مذمّت میں منعقدہ جلوس کے دوران مسلمانوں کو “آؤٹ سائیڈرز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “جو سر اٹھائے گا، وہ سر کاٹ دیا جائے گا۔” یہ بیان براہِ راست سماجی ہم آہنگی کے لیے چیلنج ہے۔ اسی طرح پارٹی سے معطل رکن اسمبلی بسون گوڈا پاٹل یتنال نے اور دیگر نے بھی موقع پر پہنچ کر نفرت انگیزی کا سہارا لیا۔جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے ، تاہم ایسے بیانات عوامی قیادت کے شایانِ شان نہیں بلکہ معاشرے میں مزید تقسیم اور دشمنی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی زبان استعمال کرنے والوں پر کوئی مؤثر کارروائی سامنے نہیں آتی، جس سے یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ اشتعال انگیزی محض ووٹ بینک کے حصول کے لیے جان بوجھ کر کی جا رہی ہے۔

اس سانحے نے مَدور کی اقلیتی برادری میں غیر محفوظ ہونے کے احساس کو گہرا کر دیا ہے۔ مقامی مسلمانوں کی شکایت ہے کہ گرفتاریوں کا نشانہ زیادہ تر ان کے نوجوان بنے ہیں، حالانکہ تصادم میں دونوں طرف کے افراد شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس کو مسجد کے قریب سے گزارنے کا فیصلہ سب سے بڑی انتظامی کوتاہی تھی، جس نے ٹکراؤ کے امکانات بڑھا دیے۔ مزید یہ کہ وہ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے محفوظ رہتے ہیں جبکہ الزام زیادہ تر انہی پر ڈالا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل آئینی مساوات اور انصاف دونوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔

انتظامی سطح پر یہ سوال اہم ہے کہ پولیس اور مقامی حکام نے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ ایسے جلوسوں کے دوران حساس مقامات کی نشاندہی اور متبادل راستوں کا تعین معمول کا عمل ہونا چاہیے تھا، لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں اور غیر مصدقہ ویڈیوز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ سب انتظامیہ کی تیاری کے فقدان کو عیاں کرتا ہے۔

اس پورے منظرنامے میں سیاست کا کردار سب سے زیادہ افسوسناک ہے۔ حکمراں کانگریس اور اپوزیشن بی جے پی دونوں نے اس واقعے کو اپنے اپنے بیانیے کے مطابق استعمال کیا۔ کانگریس وزراء بی جے پی کو ماحول خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جبکہ بی جے پی حکومت پر اقلیت نوازی کا الزام لگا کر اکثریتی ووٹ بینک کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس الزام تراشی کے کھیل میں اصل متاثرین یعنی زخمی شہری، خوف زدہ خاندان اور اقلیتی برادری کے خدشات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے یہ غیر ذمہ دارانہ رویے اور عوامی اجتماعات میں نفرت انگیز زبان کا استعمال اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اقتدار کی ہوس کے آگے انسانی جان اور سماجی ہم آہنگی کی کوئی وقعت نہیں رکھی جاتی۔

آئینی اور سماجی پہلو سے یہ صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔ ہندوستانی آئین ہر شہری کو مساوات، مذہبی آزادی اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاطی خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، اس کے خلاف بلا امتیاز سخت کارروائی کی جائے اور بے قصوروں کو نشانہ بنانے یا یکطرفہ گرفتاریوں سے گریز کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ نفرت انگیزی اور اشتعال انگیز بیانات پر فوری اور مؤثر روک لگانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جب تک سیاسی رہنماؤں کی زبان کو ذمہ داری کا پابند نہ بنایا جائے اور نفرت پھیلانے والوں کو کڑی سزا نہ دی جائے، اس قسم کے سانحات بار بار جنم لیتے رہیں گے۔

مَدور کا سانحہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ امن و ہم آہنگی صرف اسی وقت قائم رہ سکتے ہیں جب انصاف بلا امتیاز فراہم کیا جائے۔ مذہبی جلوسوں کے راستوں کا تعین حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے، اشتعال انگیز بیانات دینے والوں پر فوری کارروائی کی جائے، گرفتاریاں ثبوت کی بنیاد پر ہوں نہ کہ شناخت کی بنیاد پر، اور متاثرہ خاندانوں کو ریاستی سطح پر معاوضہ و تعاون فراہم کیا جائے۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعی جمہوری اقدار اور عوامی نمائندگی کی دعوے دار ہیں تو انہیں ووٹ بینک کے بجائے عوامی امن اور اقلیتوں کے اعتماد کو ترجیح دینا ہوگا۔ بصورت دیگر، مَدور جیسے سانحات بار بار سماجی ڈھانچے کو جھنجھوڑتے رہیں گے اور شہریوں کے دلوں میں خوف اور بے یقینی کو گہرا کرتے رہیں گے۔

11/09/2025

شمالی کرناٹک کے ایک پسماندہ دیہات سے ایک غریب کسان اپنے دس ماہ کے معصوم بچے جس کے دِل کے عارضہ کے علاج کے لیے دارالحکومت بنگلور کے ایک بڑے کارپویٹ اسپتال میں آتا ہے۔ پہلے بتایا جاتا ہے کہ ایک آپریشن ہوگا پھر بچے کی نازک حالت کے پیش نظر ایک اور آپریشن ہوتا ہے۔ اپنی جمع پونجی کے ساتھ اپنے بیل بیچ کر وہ مفلوک الحال کسان اسپتال کی موٹی بل ادا کرتا ہے۔رقم ناکافی رہ جاتی ہے۔مخیر کسی شنا ساسے مالی امداد ملتی ہے۔پھر بھی اسپتال سے رُخصتی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔شہر میں ایک اور شناسا ہمدردکی مالی امدادسے واجب الادا بقیہ رقم کی ادائیگی کے بعد چار اور دن کے اضطراب کے بعد اسپتال سے رُخصتی ممکن ہوپاتی ہے۔بات یہ ہے کہ شہر کے مضافات میں اتنا بڑا کارپوریٹ اسپتال لاکھوں روپیوںکے بل کی ادائیگی کے بعد بھی چند ہزار روپیوں کی ادائیگی کے لیے اس معصوم بچے کی اسپتال سے رُخصتی میں رکاوٹ پیدا کردیتی ہے۔ ہر کارپوریٹ اسپتال میں ایک کارپوریٹ فلاحی فنڈ بھی ہوتا ہے، جو مخیر حضرات اور خود اس اسپتال کے تحت منافع کے ایک حصہ کے طورپر جمع رہتا ہے۔مگر از راہِ انسانیت نوازی لاچار ومصیبت زدہ احباب سے ہمدردی جتانہ سکے تو ایسی کارپوریٹ دُنیا کس کام کی۔اسپتال میں مارے مارے منتیں اور سماجتیں کرتے اس بے بس کسان کے گاؤں میں موسلادھار برساتوں میں ایک طرف اس کے کھیتوں کی فصل برباد ہوجاتی ہے اور اس کا بوسیدہ گھربھی ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔ اپنے اور اپنی بیوی کے کھانے پینے کے لیے بھی اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ آس پاس کے مریضوں کے رشتہ داروں نے کچھ دے دیا تو کھالیا ورنہ فاقہ ہی فاقہ۔ ایسے حالات میں وہ کیسے اپنے دس ماہ کے نونہال کے ساتھ بے یارومددگار اپنے گاؤں جاپاتا ہے۔اسپتال میں چند ایک انسانیت نواز ہمدرد ڈاکٹروں اور انتظامیہ کے افسران کی تائید سے وہ اسپتال سے نکل پاتا ہے۔ ایسے دلسوز واقعات ملک کے کونے کونے میں عام ہیں۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں نہ کہ بیماریاں حیثیت دیکھ کر نہیں آتیں۔ جب آتی ہیں تو آہی جاتی ہیں۔ صاحب حیثیت علاج کے اخراجات جھیل لیتے ہیں۔مگر غریب اور مزدور پیشہ لوگ سرکاری اسپتالوں کارُخ کرتے ہیں، جہاں عدم سہولیات کا ماحول کئی آزمائشوں سے انہیں دوچار کرتا ہے۔ اپنے عزیزوں کی زندگی ہر کسی کو اپنی جان سے عزیز ہوتی ہے۔وہ سب کچھ جٹاکر کارپوریٹ اسپتالوں میں معقول علاج کے لیے نکل پڑتے ہیں۔علاج کی تجارت کے لیے قائم کردہ کارپوریٹ اسپتال منافع خوری کے اِرد گرد ہی کام کرتے ہیں۔خیراتی اسپتال بھی ہوتے ہیں، جہاں عام بنیادی علاج کی سہولیات ہوتی ہیں۔اوراعلیٰ پیمانے کے خیراتی اسپتالوں تک رسائی بھی بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔اس لیے کہ وہاں ضرورتمند مریض قطاروں میں لگے رہتے ہیں۔مرض کی سنگینی اور شدت کو دیکھتے ہوئے کارپوریٹ اسپتال ہی متبادل نظر آتے ہیں اور یہاں بغیر پونجی کے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔

کارپوریٹ اسپتالوں سے شکوہ بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان اسپتالوں کا قیام ہی علاج کی تجارت ہے۔ دھندہ ہے، جہاں ہر مرحلے نفع نقصان کی کسوٹی سے گذرتا ہے۔ مفلسی کے مارے خاندان کے لوگ اپنے عزیز کے علاج کے دوران اگر مریض کی بدقسمتی سے موت واقع ہوجاتی ہے تو کارپوریٹ اسپتالوں میں لاش بقیہ بل کی ادائیگی کے بعد ہی لواحقین کو دی جاتی ہے۔لگتا تو یہ ہے کہ ایک طرح کی سنگدلی ہے۔مگر انہی اصولوں پر اس طرح کے اسپتال کام کرتے ہیں۔شاید ہی بہت کم ایسے سرکاری اسپتال ہوں گے،جو ملک کے کئی شہروں میں قائم ہیں۔اوران کی شناخت قومی سطح پر تسلیم شدہ ہے،جہاں ہر ضلع اور بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال قائم ہیں وہاں علاج کے جدید آلات کی کہیں کمی یا قلت ہے یا تو پھر آلات حرکت میں نہیں ہیں۔مرمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔آپ کے پاس سیاسی یا افسر شاہی کا رسوخ ہے تو آپ کا علاج ان اسپتالوں میں آسان ہے۔اگر نہیں تو علاج کے ہر مرحلے میں سرکاری اسپتالوں میں بہتراور بروقت علاج کے لیے رشوت ستانی کا لامحالہ سامنا کرنا پڑتا ہے – چھوٹے سے چھوٹے ٹیسٹ اور بڑے آپریشن پر پیسوں سے ہاتھ گرم کرو اور اپنا علاج کرواؤ والا معاملہ ان دنوں عام سی بات ہے۔ اربوں روپئے سالانہ بجٹ میں مرکزی اورریاستی حکومتیں سرکاری اسپتالوں کی دیکھ ریکھ اور علاج کے لیے جدید آلات کی تنصیب کاری کے لیے جو رقومات مختص کرتی ہیں وہ ناکافی ہیں۔سرکاری طبی ادارے یعنی اسپتالوں کا نیٹ ورک کارکردگی کے اعتبار سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں آج بھی سرکاری اسپتالوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔مریضوں کو علاج کے لیے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ دیہاتوں میں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی قلت، علاج کے لیے سہولیات کی کمی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرکے عارضی آسامیوں پر کام کرنے والے جونیئر ڈاکٹروں کی تنخواہیں،جہاں بہت ہی کم ہوا کرتی ہیں وہیں ان کے سینئرس کا استحصال اور باس ازم بھی ایک ناقابل برداشت معاملہ ہے۔ حکومت کی اس جانب توجہ اور اقدامات نہیں کے برابر ہیں۔ویسے سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تنخواہیںبھی خاطر خواہ نہیں ہوتیں۔ اسی لیے وہ اپنی سرکاری ملازمت کے ساتھ نجی اسپتالوں میں بھی کام کرتے ہیں اوراپنے ذاتی کلینک بھی چلاتے ہیں۔

ایسا بھی نظر آتا ہے کہ ملک میں سرکاری اسپتالوں کی زبوں حالی کے پیش نظر کارپوریٹ اسپتالوں کا جال پھیلتا ہی جارہا ہے۔ ظاہر ہے ان اسپتالوں میں امراض کے علاج کے لیے جدید طبی آلات کی تنصیب کاری اورماہر تجربہ کار ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ جہاں سرمایہ کاری کی جاتی ہے وہاں منافع حاصل کرنا بھی ان کا اہم مقصد ہوا کرتا ہے۔ اسی لییمریض جن کے پاس ان بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹلوں کی طرح چلنے والے کارپوریٹ اسپتالوں میں علاج کروانے کی سکت ہو یا نہ ہو ان کے پاس دوسرا اورکوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال کا کارپوریٹ اسپتال بھرپور فائدہ اُٹھاتے آرہے ہیں۔ اورحکومت جس کے بنیادی فرائض میں صحت عامہ کی نگرانی اور عوام کی فلاح بھی شامل ہے۔اس بنیادی منصبی فرض کی ادائیگی میں کس حد تک حکومتیں عمل پیرا ہیں یہ سب جانتے ہی ہیں۔ دیوقامت مجسمے تنصیب کرنے کی ہوڑ میں لگی ہوئی حکومتوں کو اپنے زندہ اور رنجیدہ عوام،جن کو بھاشنوں میں ’’جنتاجناردھن‘‘ کے نام سے خطاب کیا جاتا ہے۔ ان کے تئیں اپنا فرض نبھانے کی لگن بھی تو ضروری ہے۔مجسموں پر، جو بھاری رقومات عوام کے ادا کردہ ٹیکس سے خرچ ہوا کرتی ہیں،بہترہوگا کہ سرکاری اسپتالوں کی جدید کاری پر یہ رقم خرچ ہوتاکہ بے بس ولاچار مفلوک الحال لوگ اپنے عزیزوں کے علاج کے لیے در در بھٹکنے اورکارپوریٹ اسپتالوں کے رحم وکرم کے جال سے بچ سکیں۔ جیسا ہم سوچ رہے ہیں ویسا ہونا مشکل ہی ہے۔اس لیے بھی کہ سرکاری یعنی حکومتیں سرمایہ کاروں کے ساتھ ساجھے داری رکھتی ہیں۔ اورکئی صنعت کار وسرمایہ کار میدان سیاست میں سرگرم بھی ہیں۔ اور کہیں وہ خود انتخابات کے عمل سے لے کر حکومتوں کے قیام تک اپنے سرمایہ کے بل پر اپنا الو سیدھا کرتے آئے ہیں۔مگر غریب گھرانے کے مریضوں کی حالت دِگرگوں ہی رہ جاتی ہے ،جو فلاح عام کے نام پر قائم جمہوریت اورحکومتوں کیلئے توجہ طلب کڑوی سچائی ہے۔

10/09/2025

ದಾವಣಗೆರೆ ಸೆ.10 : ನಾಯಿಗಳು ಮಹಿಳೆ ಮತ್ತು ಮಕ್ಕಳ ಮೇಲೆ ದಾಳಿ ಮಾಡುವುದನ್ನು ಕಾಣಲಾಗಿದೆ. ಇದರ ನಿಯಂತ್ರಣಕ್ಕಾಗಿ ನಾಯಿಗಳು ಹೆಚ್ಚಾಗದಂತೆ ಸಂತಾನಹರಣ ಚಿಕಿತ್ಸೆ ಮತ್ತು ಸಂತತಿ ಹೆಚ್ಚಳವಾಗಂತೆ ಲಸಿಕೆ ಹಾಕುವಂತೆ ಜಿಲ್ಲಾಧಿಕಾರಿ ಜಿ.ಎಂ.ಗಂಗಾಧರಸ್ವಾಮಿ ಸೂಚಿಸಿದರು.

ಬುಧವಾರ (ಸೆ.10) ರಂದು ಜಿಲ್ಲಾಧಿಕಾರಿ ಕಚೇರಿಯ ಸಭಾಂಗದಲ್ಲಿ ನಡೆದ ಜಿಲ್ಲಾ ಮಟ್ಟದ ಪ್ರಾಣಿ ಜನನ ನಿಯಂತ್ರಣ ಅನುಷ್ಠಾನ ಮತ್ತು ಮೇಲ್ವಿಚಾರಣಾ ಸಮಿತಿ ಸಭೆಯ ಅಧ್ಯಕ್ಷತೆ ವಹಿಸಿ ಮಾತನಾಡಿದರು.

ಜಿಲ್ಲಾ ಆರೋಗ್ಯ ಮತ್ತು ಕುಟುಂಬ ಕಲ್ಯಾಣ ಇಲಾಖೆಯವರು ನಾಯಿ ಕಚ್ಚಿದಾಗ ಲಸಿಕೆ ನೀಡಲು ಸಾರ್ವಜನಿಕರಿಗೆ ಸಹಾಯವಾಗುವಂತೆ 108 ಇಲ್ಲವೇ 1098 ಸಹಾಯವಾಣಿ ರಚನೆ ಮಾಡಿ, ಕರೆ ಬಂದ ಕೂಡಲೇ ಅವರ ಮನೆಗೆ ತೆರಳಿ ಚಿಕಿತ್ಸೆ ನೀಡಬೇಕು. ಜಿಲ್ಲೆಯಲ್ಲಿರುವ ಎಲ್ಲಾ ಬೀದಿನಾಯಿ, ಸಾಕು ನಾಯಿಗಳಿಗೆ ಎಆರ್‍ಯು ಲಸಿಕೆ ನೀಡಲು ಕ್ರಮಕೈಗೊಳ್ಳುವಂತೆ ತಿಳಿಸಿದರು. ಮನೆ ಮನೆಗೆ ತೆರಳಿ ಸಾಕು ಪ್ರಾಣಿಗಳಿಗೆ ವ್ಯಾಕ್ಸಿನ್ ನೀಡಬೇಕು. ಎಬಿಸಿ ಕಾರ್ಯಕ್ರಮ ಮಾಡಲು ನಗರಾಭಿವೃದ್ದಿ ಕೋಶ, ಮಹಾನಗರಪಾಲಿಕೆ ಸಂಬಂಧಿಸಿದ ಟೆಂಡರ್ ಮೂಲಕ ಸಂಸ್ಥೆಗಳನ್ನು ಗುರುತಿಸಿ ಎಲ್ಲಾ ನಾಯಿಗಳಿಗೆ ಪಶುಪಾಲನಾ ಸಹಯೋಗದೊಂದಿಗೆ ಸಂತಾನ ಹರಣ ಚಿಕಿತ್ಸೆ ನೀಡುವಂತೆ ತಿಳಿಸಿದರು.

ಪ್ರಕರಣದ ಆಧಾರದ ಮೇರೆಗೆ ಗಂಭೀರ ಅನಾರೋಗ್ಯ ಅಥವಾ ಮಾರಣಾಂತಿಕವಾಗಿ ಗಾಯಗೊಂಡ ಅಥವಾ ಹುಚ್ಚುರೋಗ ಪೀಡಿತ ನಾಯಿಗಳನ್ನು ಸೋಡಿಯಂ ಪೆಂಟಾಥಾಲ್ ಬಳಸಿ ನೋವುರಹಿತ ವಿಧಾನದಲ್ಲಿ ದಯಾಮರಣ ನೀಡಬೇಕು. ಬೇರೆ ಯಾವುದೇ ವಿಧಾನವನ್ನು ಕಟ್ಟುನಿಟ್ಟಾಗಿ ನಿμÉೀಧಿಸಲಾಗಿದೆ. ಪ್ರತಿ ಪ್ರಾಣಿಯನ್ನು ದಯಾಮರಣಕ್ಕೆ ಒಳಪಡಿಸಲು ಲಿಖಿತವಾಗಿ ಕಾರಣಗಳನ್ನು ದಾಖಲಿಸಬೇಕು. ಪ್ರಾಣಿ ಜನನ ನಿಯಂತ್ರಣ ಕಾರ್ಯಕ್ರಮವನ್ನು ಕಾರ್ಯಗತಗೊಳಿಸಲು ನಾಯಿಗಳ ಸಂಖ್ಯೆಗೆ ಅನುಗುಣವಾಗಿ ಅವಶ್ಯಕ ಮೂಲಸೌಕರ್ಯಗಳು ಇರಬೇಕು. ಹೊಸ ಪ್ರದೇಶದಲ್ಲಿ ಕಾರ್ಯಕ್ರಮವನ್ನು ಕೈಗೆತ್ತಿಕೊಳ್ಳುವ ಮೊದಲು ಉದ್ದೇಶಿತ ಪ್ರದೇಶದಲ್ಲಿ ನಾಯಿಗಳ ಜನನ ನಿಯಂತ್ರಣವನ್ನು ಹಂತ ಹಂತವಾಗಿ ಕೈಗೊಳ್ಳಲು ಮೂಲಸೌಕರ್ಯವನ್ನು ವಿನ್ಯಾಸಗೊಳಿಸಬೇಕು ಎಂದರು.

ಜಿಲ್ಲೆಯಲ್ಲಿರುವ ಎಲ್ಲಾ ನಾಯಿಗಳಿಗೆ ಉಚಿತ ಲಸಿಕೆ ಹಾಕಲು ಲಸಿಕಾ ಅಭಿಯಾನವನ್ನು ಸೆ.28 ರಿಂದ ಅ.27 ರವರೆಗೆ ಹಮ್ಮಿಕೊಳ್ಳಲಾಗಿದೆ. ಹಾಗೂ ಶಾಲೆಗಳಲ್ಲಿ ಪಶುಪಾಲನಾ ಇಲಾಖೆಯಿಂದ ರೇಬಿಸ್ ಅರಿವು ಕಾರ್ಯಕ್ರಮವನ್ನು ಆಯೋಜಿಸಬೇಕು ಎಂದರು.

ಜಿ.ಪಂ ಸಿಇಓ ಗಿತ್ತೆ ಮಾಧವ್ ವಿಠ್ಠಲ್ ರಾವ್, ನಗರಾಭಿವೃದ್ದಿ ಕೋಶದ ಯೋಜನಾ ನಿರ್ದೇಶಕ ಮಹಾಂತೇಶ್, ಪಶುಪಾಲನಾ ಇಲಾಖೆ ಡಿಡಿ. ಡಾ;ಮಹೇಶ್.ಹೆಚ್.ಎಂ, ಡಿಹೆಚ್‍ಓ ಡಾ;ಷಣ್ಮುಖಪ್ಪ ತಾ.ಪಂ ಕಾರ್ಯನಿರ್ವಾಹಕ ಅಧಿಕಾರಿ ರಾಮಭೋವಿ ಉಪಸ್ಥಿತರಿದ್ದರು.

10/09/2025

ಇಂಡೋ ಟೈಮ್ಸ್ ಮೀಡಿಯ
ದಾವಣಗೆರೆ: ನಗರದ ಮೆಹಬೂಬ್ ಎ ಇಲಾಯಿ ಚಾರಿಟೇಬಲ್ ಟ್ರಸ್ಟ್ ಬಾಷಾನಗರ ಇವರ ವತಿಯಿಂದ ಪ್ರವಾದಿ ಮೊಹಮ್ಮದ್ ಪೈಗಂಬರ್ ರವರ 1,500 ನೇ ಹುಟ್ಟುಹಬ್ಬದ ಪ್ರಯುಕ್ತ ಉಚಿತ ಹೆಲ್ತ್ ಕಾರ್ಡ್ ಹಾಗೂ 500 ಸಸಿಗಳ ವಿತರಣಾ ಕಾರ್ಯಕ್ರಮವು ಇದೇ ಭಾನುವಾರ ಸಂಜೆ ಭಾಷಾನಗರ 6ನೇ ಕ್ರಾಸ್ ನಲ್ಲಿರುವ ಮೆಹಬೂಬ್ ಎ ಇಲಾಹಿ ಆಸ್ಪತ್ರೆಯ ಮುಂಭಾಗದಲ್ಲಿ ನಡೆಯಿತು,

ಈ ಉಚಿತ ಕಾರ್ಡಿನಲ್ಲಿ ವೈದ್ಯಕೀಯ ಶುಲ್ಕ ಬಿಪಿ ಮತ್ತು ಶುಗರ್ ತಪಾಸಣೆ ಹಾಗೂ ಇಸಿಜಿ ಇವೆಲ್ಲವೂ ಒಂದು ವರ್ಷ ತನಕ ಉಚಿತವಾಗಿ ನೋಡಲಾಗುವುದು ಎಂದು ಎಂ. ಸಿ. ಟಿ. ಟ್ರಸ್ಟ್ ನ ಪಧಾಧಿಕಾರಿಗಳು ತಿಳಿಸಿದರು.

ಈ ಕಾರ್ಯಕ್ರಮದಲ್ಲಿ ಮುಖ್ಯ ಅತಿಥಿಗಳಾಗಿ ವಿಧಾನ ಪರಿಷತ್ ಸದಸ್ಯರಾದ ಅಬ್ದುಲ್ ಜಬ್ಬಾರ್ ಸಾಬ್, ಜಿಲ್ಲಾ ವಖ್ಫ್ ಬೋರ್ಡ್ನ ಮಾಜಿ ಅಧ್ಯಕ್ಷರಾದ ಮೊಹಮ್ಮದ್ ಸಿರಾಜ್, ಜೆ ಅಮಾನುಲ್ಲಾ ಖಾನ್, ಆಜಾದ್ ನಗರ ಪೊಲೀಸ್ ಠಾಣೆಯ ಇನ್ಸ್ಪೆಕ್ಟರ್ ಅಶ್ವಿನ್ ಕುಮಾರ್, ನಾಸಿರ್ ಖುರೆಷಿ, ಟಿ ಅಜ್ಗರ್, ದಾವಣಗೆರೆ ಮಿಲಾದ್ ಕಮಿಟಿಯ ಎಲ್ಲಾ ಸದಸ್ಯರು ಹಾಗೂ ಈ ಭಾಗದ ಎಲ್ಲಾ ಯುವಕರು ಮುಖಂಡರು ಉಪಸ್ಥಿತರಿದ್ದರು,
ಕಾರ್ಯಕ್ರಮದ ನಂತರ ರಾತ್ರಿ ಉಲಮಾಗಳ ಉಪಸ್ಥಿತಯಲ್ಲಿ ತಕ್ರಿರ್ (ಪ್ರವಚನ) ಕಾರ್ಯಕ್ರಮವು ನಡೆಯಿತು.

ಕಾರ್ಯಕ್ರಮದ ಅಧ್ಯಕ್ಷತೆಯನ್ನು ಟ್ರಸ್ಟಿನ ಅಧ್ಯಕ್ಷರಾದ ಯು ಎಂ ಮನ್ಸೂರ್ ಅಲಿ ವಹಿಸಿದ್ದರು ಟ್ರಸ್ಟಿನ ಕಾರ್ಯದರ್ಶಿಯಾದ ಮೊಹಮ್ಮದ್ ಶರೀಫ್, CA ಅಬ್ದುಲ್ ನಾಸೀರ್ ಯುಹೆಚ್, ಮತ್ತು ಟ್ರಸ್ಟಿನ ಎಲ್ಲಾ ಸದಸ್ಯರು ಉಪಸ್ಥಿತರಿದ್ದುರು.

10/09/2025

ಬೆಂಗಳೂರು : (Shabbir Ahmed | Indo Times Media) ಕರ್ನಾಟಕ ಸರ್ಕಾರವು ಮಂಗಳವಾರ (ಸೆಪ್ಟೆಂಬರ್ 9) ಆಡಳಿತಾತ್ಮಕ ಬದಲಾವಣೆಗಳನ್ನು ಜಾರಿಗೊಳಿಸಿದ್ದು, ಹಿರಿಯ ಐಎಎಸ್ ಅಧಿಕಾರಿ ಶ್ರೀ ಮೊಹಮ್ಮದ್ ಮೊಹ್ಸಿನ್ (ಕೆಎನ್:1996) ಅವರಿಗೆ ಹೊಸ ಹೆಚ್ಚುವರಿ ಜವಾಬ್ದಾರಿ ನೀಡಿದೆ.

ಪ್ರಸ್ತುತ ಅವರು ಆರೋಗ್ಯ ಮತ್ತು ಕುಟುಂಬ ಕಲ್ಯಾಣ ಇಲಾಖೆ (ವೈದ್ಯಕೀಯ ಶಿಕ್ಷಣ) ಪ್ರಧಾನ ಕಾರ್ಯದರ್ಶಿಯಾಗಿ ಸೇವೆ ಸಲ್ಲಿಸುತ್ತಿದ್ದಾರೆ. ಇದೀಗ ಅವರಿಗೆ ಕಾರ್ಮಿಕ ಇಲಾಖೆಯ ಪ್ರಧಾನ ಕಾರ್ಯದರ್ಶಿ ಹುದ್ದೆಯ ಹೆಚ್ಚುವರಿ ಜವಾಬ್ದಾರಿಯನ್ನು ಕೂಡ ಸರ್ಕಾರ ಹಂಚಿಕೆ ಮಾಡಿದೆ.
ಈ ಬದಲಾವಣೆ ತಕ್ಷಣದಿಂದಲೇ ಜಾರಿಗೆ ಬರುವುದಾಗಿ ಮತ್ತು ಮುಂದಿನ ಆದೇಶ ಹೊರಬರುವವರೆಗೆ ಇದು ಮುಂದುವರಿಯುವುದಾಗಿ ಸರ್ಕಾರದ ಪ್ರಕಟಣೆಯಲ್ಲಿ ತಿಳಿಸಲಾಗಿದೆ.

ಇದರಿಂದ ಕಾರ್ಮಿಕ ಇಲಾಖೆಯ ಪ್ರಧಾನ ಕಾರ್ಯದರ್ಶಿಯಾಗಿ ಕಾರ್ಯನಿರ್ವಹಿಸುತ್ತಿದ್ದ ಐಎಎಸ್ ಅಧಿಕಾರಿ ಎಸ್‌.ಎಂ. ರೋಹಿಣಿ ಸಿಂಧೂರಿ ದಾಸರಿ ಅವರನ್ನು ಆ ಹುದ್ದೆಯಿಂದ ವರ್ಗಾಯಿಸಲಾಗಿದೆ.
ಈ ಸಂಬಂಧ ಅಧಿಕೃತ ಅಧಿಸೂಚನೆಯನ್ನು ಕರ್ನಾಟಕ ಸರ್ಕಾರ ಮಂಗಳವಾರ ಹೊರಡಿಸಿದೆ.

08/09/2025

کولار (شبیراحمد) : کرناٹک اقلیتی ترقیاتی کارپوریشن لمیٹڈ کی جانب سے اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود کے مقصد سے، کرناٹک حکومت کے محکمۂ الیکٹرانکس، انفارمیشن ٹکنالوجی اور بایو ٹکنالوجی کے اشتراک سے “ایلیویٹ (میناریٹیز) – 2025” منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت اقلیتی برادری کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اسٹارٹ اپس (Startups) قائم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی فراہم کی جائے گی۔

اس سلسلے میں اہل مستفیدین کو پچاس لاکھ روپے تک کی سبسڈی دی جائے گی۔ درخواستیں صرف آن لائن طریقے سے قبول کی جائیں گی۔ دلچسپی رکھنے والے امیدوار ویب سائٹ eitbt.karnataka.gov.in کے ذریعہ درخواست داخل کرسکتے ہیں۔
درخواست داخل کرنے کی آخری تاریخ 15 ستمبر 2025 مقرر کی گئی ہے۔ مزید معلومات کے لیے فون نمبر 080-22231007 پر یا ویب سائٹ eitbt.karnataka.gov.in پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

08/09/2025

ಕೆ.ಜಿ.ಎಫ್ : (Shabbir Ahmed | Indo Times Media) ಪತ್ರಕರ್ತರು ತಮ್ಮಲ್ಲಿನ ಭಿನ್ನಾಭಿಪ್ರಾಯಗಳನ್ನು ಬದಿಗೊತ್ತಿ ಒಗ್ಗಟ್ಟಿನಿಂದ ಸಂಘಟಿತರಾದಾಗ ಮಾತ್ರ ಸಂಘದ ಅಭಿವೃದ್ಧಿ ಸಾಧ್ಯ ಎಂದು ಕೋಲಾರ ಜಿಲ್ಲಾ ಕಾರ್ಯನಿರತ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಸಂಘದ ಅಧ್ಯಕ್ಷ ಬಿ.ವಿ. ಗೋಪಿನಾಥ್ ಅಭಿಪ್ರಾಯಪಟ್ಟರು.

ಕೆ.ಜಿ.ಎಫ್ ಕಾರ್ಯನಿರತ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಸಂಘದ ಆವರಣದಲ್ಲಿ 25×110 ಅಡಿಗಳ ಸಭಾಭವನ ನಿರ್ಮಾಣ ಗುದ್ದಲಿ ಪೂಜೆ ನೆರವೇರಿಸಿ ಮಾತನಾಡಿದ ಅವರು, ಕೆ.ಜಿ.ಎಫ್ ಕಾರ್ಯನಿರತ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಸಂಘವು ಈಗಾಗಲೇ ಉತ್ತಮ ಕಚೇರಿಯನ್ನು ಕಟ್ಟಿಕೊಂಡಿದೆ. ಅದರ ಮುಂದುವರಿದ ಭಾಗವಾಗಿ ಶಾಸಕಿ ರೂಪಕಲಾ ಶಶಿಧರ್ ಬಿಡುಗಡೆಗೊಳಿಸಿರುವ 15 ಲಕ್ಷ ರೂ. ಅನುದಾನದಲ್ಲಿ ಸಾಧ್ಯವಾದಷ್ಟು ಸಭಾಭವನ ಕಟ್ಟಡವನ್ನು ನಿರ್ಮಿಸಿ, ಬಳಿಕ ಲೋಕಸಭಾ ಹಾಗೂ ವಿಧಾನಪರಿಷತ್ ಸದಸ್ಯರ ಸಹಕಾರದಿಂದ ಉಳಿದ ಕಾಮಗಾರಿ ಪೂರ್ಣಗೊಳಿಸಲಾಗುವುದು ಎಂದರು.

ಸಂಕಷ್ಟಗಳ ನಡುವೆಯೂ ಕೋಲಾರದಲ್ಲಿ ಸುಸಜ್ಜಿತ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಭವನವನ್ನು ಕಟ್ಟಿದ್ದೇವೆ. ಅದೇ ರೀತಿಯಲ್ಲಿ ಎಲ್ಲರೂ ಒಂದಾಗಿ ಸಂಘವನ್ನು ಬಲಿಷ್ಠಗೊಳಿಸುವ ನಿಟ್ಟಿನಲ್ಲಿ ಕಾರ್ಯನಿರ್ವಹಿಸಬೇಕು ಎಂದು ಅವರು ಪತ್ರಕರ್ತರಿಗೆ ಕೋರಿದರು.

ರಾಜ್ಯ ಕಾರ್ಯನಿರತ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಸಂಘದ ಕಾರ್ಯಕಾರಿಣಿ ಸದಸ್ಯ ವಿ. ಮುನಿರಾಜು ಮಾತನಾಡಿ, ಸಂಘದ ಚಟುವಟಿಕೆಗಳು ಉತ್ತಮವಾಗಿ ಸಾಗುತ್ತಿವೆ. ಎಲ್ಲರೂ ಒಗ್ಗಟ್ಟಿನಿಂದ ಕೆಲಸ ಮಾಡಿದರೆ ಆರ್ಥಿಕವಾಗಿ ಸದೃಢತೆ ಸಾಧ್ಯ. ಕಟ್ಟಡ ಕಾಮಗಾರಿ ಪೂರ್ಣಗೊಳಿಸಲು ನಮ್ಮ ಸಂಪೂರ್ಣ ಸಹಕಾರ ದೊರೆಯಲಿದೆ ಎಂದು ಭರವಸೆ ನೀಡಿದರು.

ಜಿಲ್ಲಾ ಸಂಘದ ಪ್ರಧಾನ ಕಾರ್ಯದರ್ಶಿ ಎಸ್.ಕೆ. ಚಂದ್ರಶೇಖರ್ ಮಾತನಾಡಿ, ನಾವು ಅಧಿಕಾರದಲ್ಲಿದ್ದಾಗ ಮಾಡಿದ ಕಾರ್ಯವೇ ಮುಂದಿನ ದಿನಗಳಲ್ಲಿ ನಮ್ಮ ಹೆಸರನ್ನು ಉಳಿಸುತ್ತದೆ. ಆದ್ದರಿಂದ ಒಟ್ಟಾಗಿ ಸಂಘದ ಚಟುವಟಿಕೆಗಳನ್ನು ಬಲಪಡಿಸಬೇಕು ಎಂದರು.

ಕೆ.ಜಿ.ಎಫ್ ಕಾರ್ಯನಿರತ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಸಂಘದ ಅಧ್ಯಕ್ಷ ದೊರೈಅರಸು ಮಾತನಾಡಿ, ಇಂದು ನಮ್ಮ ಕಚೇರಿ ಒಂದು ಸ್ವರೂಪ ಪಡೆದುಕೊಂಡಿರುವುದು ದಿವಂಗತ ಶಾಸಕ ಎಂ. ಭಕ್ತವತ್ಸಲಂ, ಮಾಜಿ ಸಂಸದ ಕೆ.ಹೆಚ್. ಮುನಿಯಪ್ಪ ಹಾಗೂ ಪೌರಾಯುಕ್ತ ಪವನ್ ಕುಮಾರ್ ಅವರ ಸಹಕಾರದಿಂದ ಸಾಧ್ಯವಾಯಿತು. ಇದೀಗ ಶಾಸಕಿ ರೂಪಕಲಾ ಶಶಿಧರ್ ಅವರ ಶಕ್ತಿ ನಮಗೆ ಬೆಂಬಲವಾಗಿದೆ. ಕಟ್ಟಡ ಕಾಮಗಾರಿ ಪೂರ್ಣಗೊಳಿಸಲು ಎಲ್ಲಾ ಪತ್ರಕರ್ತರ ಸಹಕಾರ ಅಗತ್ಯ ಎಂದು ಹೇಳಿದರು.

ಕಾರ್ಯಕ್ರಮದಲ್ಲಿ ಪ್ರಧಾನ ಕಾರ್ಯದರ್ಶಿ ಜೆ.ಜಿ. ಶ್ರೀನಿವಾಸಮೂರ್ತಿ, ಮಾಜಿ ಅಧ್ಯಕ್ಷ ಶ್ರೀಧರ್ ಪಿಳೈ, ಖಜಾಂಚಿ ಮಲ್ಲಾರ್ ಶೇಖರ್, ಜಿಲ್ಲಾ ಕಾರ್ಯಕಾರಿ ಸಮಿತಿ ಸದಸ್ಯರು ವೈ. ಶಿವಶಂಕರ್, ಪುರುಷೋತ್ತಮರೆಡ್ಡಿ, ಹಸ್ಮುಖ್ ಜೈನ್, ಸುದರ್ಶನ್, ಸತೀಶ್, ಭರಣಿಪ್ರಕಾಶ್, ವಿಎಸ್. ಪ್ರಕಾಶ್, ಸಂಪತ್, ಪಿ.ಎಲ್. ರಾಜಾ, ಭಾಸ್ಕರನ್, ಶ್ರೀಕಾಂತ್, ವೇಲಾಯುದಂ ಹಾಗೂ ಅನೇಕರು ಹಾಜರಿದ್ದರು.

08/09/2025

بنگلورو ( شبیراحمد سرینواس پور ) : یومِ اساتذہ کے موقع پر بنگلورو میں شاندار ضلعی سطح کے اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں تدریسی میدان میں قربانی، محنت اور خلوص کے ساتھ خدمت انجام دینے والے اساتذہ کو بہترین اُستاد ایوارڈ سے نوازا گیا۔

کرناٹک اسٹیٹ ٹیچرس ویلفیئر فنڈ کی جانب سے ہر سال ضلعی سطح پر دیے جانے والے اس ایوارڈ کے لیے 2025-26 کے تعلیمی سال میں بنگلورو ساؤتھ ضلع سے پرائمری اُردو شعبہ میں غفور خان لے آؤٹ کے سرکاری کِنڈر گارٹن اُردو پرائمری اسکول کی استانی محترمہ عشرت فاطمہ کا انتخاب کیا گیا۔

عرصۂ دراز سے تدریسی خدمات انجام دینے والی عشرت فاطمہ نے طلبہ کی ہمہ جہتی ترقی کو اپنا مقصد بنایا اور معیاری تعلیم فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ بچوں کو سبق آسان اور پُرکشش انداز میں سمجھانے کے لیے تخلیقی اور جدید طریقوں کا استعمال کرتی ہیں، جس کی بدولت طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ سماجی، ثقافتی اور اخلاقی قدروں کے فروغ میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اسکول میں خوشگوار اور حوصلہ افزا ماحول قائم کرنے میں ان کی تدریسی طرز کامیاب رہی ہے، جس سے نہ صرف طلبہ میں تعلیمی دلچسپی بڑھی بلکہ ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجہ میں اسکول کے نتائج مسلسل بہتر رہے اور والدین کا اعتماد مزید پختہ ہوا۔
ان ہی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلعی سطح کے اجلاس میں تعلیمی محکمے کے اعلیٰ افسران کی موجودگی میں انہیں “بہترین اُستاد ایوارڈ” پیش کیا گیا۔ اس موقع پر شریک رفقائے کار اور مقامی معززین نے عشرت فاطمہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی۔
تقریب میں محکمہ تعلیم کے افسران، ہیڈماسٹر، اساتذہ اور مقامی شخصیتیں شریک رہیں۔

07/09/2025

امید یا ایک اور بیوروکریٹک تجربہ؟

از : عبدالحلیم منصور

بنگلور، جو کبھی باغات اور جھیلوں کا شہر کہلاتا تھا اور آج آئی ٹی انڈسٹری کی بدولت عالمی شہرت رکھتا ہے، ایک ایسے تضاد کا شکار ہے جس نے اسے ترقی اور بدنظمی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے۔ ایک طرف اربوں روپے کی معیشت اور دنیا بھر کی سرمایہ کاری ہے، تو دوسری طرف ٹریفک جام، کچرے کے ڈھیر، پانی کی قلت، جھیلوں کی تباہی اور غیر منصوبہ بند تعمیرات شہریوں کے روزمرہ عذاب کو بڑھا رہی ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں ریاستی حکومت نے ’’گریٹر بنگلور اتھارٹی‘‘ (جی بی اے) کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، جو بظاہر شہری مسائل کے حل کے لیے ایک بڑا قدم کہا جا رہا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ نیا ڈھانچہ واقعی کارگر ہوگا یا پھر ایک اور بیوروکریٹک تجربہ بن کر رہ جائے گا؟

اس قانون کے تحت بروہت بنگلورو مہا نگر پالیکے (بی بی ایم پی) کی جگہ اب گریٹر بنگلورو اتھارٹی (جی بی اے) قائم ہو چکی ہے، اور ستمبر 2025 میں حکومت نے باضابطہ طور پر پانچ نئے کارپوریشنز کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت کی دلیل یہ ہے کہ ایک بڑے ادارے کی جگہ پانچ کارپوریشنز شہری مسائل کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گی، اور جی بی اے ان سب کا ناظم و نگران ہوگا۔

بنگلور میونسپل ایڈمنسٹریشن کا آغاز انگریزی دور سے ہوا، جب 1862 میں پہلی بار شہری بلدیہ وجود میں آئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ وسعت اختیار کرتا گیا اور آزادی کے بعد کئی مرتبہ اس کا ڈھانچہ بدلا گیا۔ 2007 میں جب بڑے پیمانے پر انضمام ہوا تو بی بی ایم پی کے تحت آٹھ میونسپل کونسلیں، ایک سو گیارہ دیہات اور چند ٹاؤن شپ شامل کیے گئے، تاکہ ایک متحدہ شہری ادارہ بنایا جا سکے۔ اس فیصلے کے بعد توقع تھی کہ تیز رفتار ترقی کو منظم طریقے سے آگے بڑھایا جائے گا، مگر عملی صورت اس کے برعکس نکلی۔ شہری آبادی کے پھیلاؤ اور غیر متوازن ترقی نے بی بی ایم پی کو ایک بے ربط اور بوجھل ادارہ بنا دیا جس میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان نمایاں ہے۔

وقت نے یہ بھی ثابت کیا کہ اختیارات اور وسائل کے بغیر کوئی ادارہ محض کاغذی حیثیت رکھتا ہے۔ بی بی ایم پی کو نہ وہ مالی طاقت ملی، نہ منصوبہ بندی کی آزادی، جس کی ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسائل جوں کے توں رہے اور عوامی اعتماد کمزور ہوتا گیا۔ مزید یہ کہ گزشتہ دس برس سے زائد عرصے سے شہر بلدیاتی نمائندوں سے محروم ہے۔ نہ کونسلرز ہیں، نہ میئر، اور نہ ہی کمیٹیاں۔ پورا نظام افسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ ایک جمہوری شہر کے لیے نہ صرف بدقسمتی ہے بلکہ جمہوریت کی روح کے بھی خلاف ہے کہ لاکھوں ٹیکس دہندگان کو نمائندگی ہی نہ ملے۔

اسی خلا میں حکومت نے گریٹر بنگلور اتھارٹی کی تشکیل کا راستہ اختیار کیا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ شہر کی بڑھتی آبادی اور پھیلاؤ نے مسائل کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ایک مربوط اور وسیع اختیارات والی اتھارٹی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ پانی، سڑکیں، ٹرانسپورٹ اور صفائی جیسے شعبے مختلف محکموں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک مرکزی ادارہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کر سکے گا۔ اسی لیے نئے قانون کے تحت بی بی ایم پی کو تحلیل کر کے شہر کو متعدد کارپوریشنز میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ مقامی سطح پر مسائل جلدی حل ہوں اور بڑے انفراسٹرکچر منصوبے جی بی اے کے تحت مربوط انداز میں آگے بڑھ سکیں۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بنگلور اپنی معتدل اور خوشگوار آب و ہوا کی وجہ سے ہمیشہ ملک بھر کے طلبہ، مزدوروں، آئی ٹی ملازمین اور صنعتکاروں کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے۔ شہر کی آبادی میں مسلسل اضافہ روزگار کی تلاش میں آنے والے لاکھوں مہاجرین کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایک طرف یہ لوگ شہر کی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں، تو دوسری طرف انہی کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بنیادی سہولتوں پر بے پناہ دباؤ ڈال دیا ہے۔ کچرے کا ڈھیر، ٹریفک کا بحران، پانی کی کمی اور رہائش کے مسائل اسی بے قابو شہری پھیلاؤ کا نتیجہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا گریٹر بنگلور اتھارٹی ان زمینی حقائق کو دھیان میں رکھ کر کوئی دیرپا حل نکال پائے گی یا نہیں؟

بنگلور صرف آئی ٹی ہب نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ یہاں کے باغات، جھیلیں، تاریخی عمارتیں اور قدیم روایات اس کی شناخت کا حصہ ہیں۔ لیکن آج اندھا دھند ترقی اور لالچ نے شہر کی اصل روح کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جھیلیں سکڑ کر رہ گئی ہیں، درخت کٹ رہے ہیں اور ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے۔ اگر نئی اتھارٹی نے ترقی کے نام پر ماحولیات کو قربان کر دیا تو یہ شہر اپنی پہچان کھو دے گا۔

تاہم اپوزیشن اور ماہرین اس پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پچھلے کئی برسوں سے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے گئے اور عوامی نمائندگی کو مسلسل کمزور کیا گیا تو ایک نئی اتھارٹی محض اختیارات کو مزید بیوروکریسی اور وزیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کرنے کا حربہ ہے۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت عوامی رائے سے بھاگ رہی ہے اور اس نئے ڈھانچے کے پیچھے دراصل سیاسی کنٹرول کو بڑھانے کی نیت چھپی ہے۔ بعض ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر ریونیو شیئرنگ کا شفاف نظام نہ بنایا گیا تو امیر اور غریب علاقوں کے درمیان فرق مزید بڑھے گا اور نئے ادارے بھی پرانی ناکامیوں کو دہرا دیں گے۔

یہ اعتراضات محض خدشات نہیں بلکہ عملی تجربات سے جڑے ہوئے ہیں۔ دہلی اور دیگر شہروں کے تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ محض ادارہ بدلنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اصل مسئلہ سیاسی عزم، شفافیت اور عوامی شمولیت کی کمی ہے۔ بی بی ایم پی کے بجٹ میں ہر سال اربوں روپے مختص ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر ترقیاتی منصوبے زمین پر نہیں اترتے۔ بدعنوانی، بدنظمی اور جوابدہی کی کمی ہر سطح پر دیکھی جاتی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو گریٹر بنگلور اتھارٹی بھی صرف ایک نیا دفتر اور نیا نام ہی ثابت ہوگی۔

یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ شہر کا اصل مسئلہ انفراسٹرکچر سے زیادہ حکمرانی کا ہے۔ جب تک عوامی نمائندے بااختیار نہیں ہوں گے اور بلدیاتی انتخابات شفافیت کے ساتھ نہیں کرائے جائیں گے، تب تک شہر کی تقدیر افسروں کے فیصلوں تک محدود رہے گی۔ اگر واقعی گریٹر بنگلور اتھارٹی کو کامیاب بنانا ہے تو سب سے پہلے انتخابات کی تاریخ واضح کی جائے، ریونیو شیئرنگ کا فارمولہ شفاف بنیادوں پر طے کیا جائے، وارڈ کمیٹیوں کو حقیقی اختیار دیا جائے اور عوامی نگرانی کو لازمی بنایا جائے۔ اس کے بغیر شہریوں کی روزمرہ مشکلات — ٹریفک جام، کچرے کا انتظام، پانی کی قلت، ٹوٹی سڑکیں اور آلودہ جھیلیں — جوں کی توں رہیں گی۔

بنگلور کا مستقبل محض ایک نئے ادارے کے قیام پر نہیں بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ کیا حکومت جمہوریت، شفافیت اور عوامی شمولیت کا احترام کرتی ہے یا نہیں۔ اگر یہ اتھارٹی عوامی کنٹرول اور جوابدہی کے تحت کام کرے گی تو یہ ایک سنگ میل بن سکتی ہے، لیکن اگر یہ محض سیاسی ارادوں کا کھیل ثابت ہوئی تو شہری مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر کے عوام اب یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کب تک ان کی زندگی کاغذی وعدوں اور بیوروکریٹک تجربات کی نذر کی جاتی رہے گی؟

“حقیقی امتحان ناموں یا ڈھانچوں کا نہیں، بلکہ عوام کی زندگی بدلنے کا ہے۔ اگر شہریوں کی مشکلات کم نہیں ہوتیں تو چاہے ادارے کا نام کچھ بھی ہو، تاریخ اسے ناکامی ہی کہے گی۔‘‘

06/09/2025

ملک کے ممتاز صحافی ، مدبر ،جہد کار اور سابق رکن پارلیمان جناب شاہد صدیقی کی یادوں پر مشتمل ان کی memoirابھی چند دن پہلے انگریزی میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔ I, withness India from Nehru to Narendra Modiاس کتاب کے مشمولات پر تبصرے ، بحث و مباحثے ہورہے ہیں۔ مشہور زمانہ اُردو ہفت روزہ’ نئی دُنیا‘کے مدیر،سیاسی مبصراور اپنی سیاسی بصیرت کو عملی سیاست میں بروئے کار لانے والے متحرک صحافی کے طو رپرجناب شاہد صدیقی صحافتی ، سیاسی ، قومی و ملّی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ تقریباً چھ سالوں کی محنت شاقہ کے بعد اُن کی یادوں کا مجموعہ کتابی شکل میں ہمارے روبرو ہے۔ چار سو صفحات پر محیط اس کتاب میں بتدریج اپنے مشاہدات، تجربات اور احساسات کو اپنی یادوں کے آئینہ خانے سے سمیٹ کر قارئین کی نذر کیا ہے ۔گویا اُن کی یادوں کی سوغات اُن کی حیات کا حاصل ہے۔ اپنی ابتدائی زندگی سے تاحال اُن کی جہد مسلسل کے حالات واقعات ،سیاسی و غیر سیاسی احباب سے اُن کی وابستگی ،دیرینہ مراسم ،ملک کا بدلتا سیاسی منظر نامہ ،عملی سیاست میں شمولیت اور اپنے تجربات کو پوری دیانتداری کے ساتھ مذکورہ کتاب میں پانچ حصوں میں پیش کیا ہے۔ صحافت، سیاسی شعور ،فہم و ادراک ،حالات سے آگہی آپ کو وراثت میں اپنے والد محترم مولانا عبدالواحید صدیقی سے ملی جوجید عالم دین ،صحافی اور مجاہد آزادی رہے ہیں۔اپنی 75سال کی عمر میں اپنی یادوں کے جھروکوں سے جناب شاہد صدیقی نے ایک طرح سے اپنی جگ بیتی میں وطن عزیز کی و ہ تاریخ بیان کردی ہے۔جو انھوں نے اپنی آنکھوںسے دیکھا اور محسوس کیا۔ حصول آزادی کے تین سال بعد پیدا ہونے والے اس نونہال نے ملک کی تقسیم کا نوحہ دیکھا اور نئے جمہوری نظام کے ابتدائی نقوش بھی محسوس کیے۔ملک کی تعمیر وتشکیل کا مشاہدہ ان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن گیا۔

اپنی یادوں پر مشتمل کتاب کے آغاز میں جناب شاہد صدیقی لکھتے ہیں یہ اُن کی سوانح عمری نہیں ہے بلکہ اُس وراثت کا آئینہ ہے جو انھیں اپنے وطن عزیز میں عطاہوئی۔وہ کہتے ہیں کہ اپنے صحافتی سفر میں جو ملک کے بدلتے ہوئے حالات دیکھے اور جن سیاسی اُمور پر اُن کی گہری نظر رہی اور جن سیاسی شخصیات سے اُن کے مراسم رہے ان تمام کی روشنی میں انھوں نے جدید ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے نشیب و فراز پُر اثر انداز میں پیش کیے ہیں۔ اس کتاب پر اظہار ِخیال کرتے ہوئے آپ کے دیرینہ رفیق اور سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا ہے کہ مذکورہ کتاب میں جو 50اور60کے دہے کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ ہمارے روبرو سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں اور ایک بار پڑھنا شروع کردیں تو ختم کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ قریشی صاحب کا خیال یہاں اس لیے بھی پیش کرنا پڑا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران میں بھی ایسی ہی کیفیت سے گزرتا رہا۔
ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جناب شاہد صدیقی کی ملاقاتیں اور اُن ملاقاتوں سے جڑی یادوں کی روشنی میں ملک کی سیاسی اُتھل پتھل کا ایک منظر نامہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق اس سیکولر ملک میں کس طرح کا رویہ مختلف سیاسی پارٹیوں نے برتا۔ملک کے دستور کی پاسداری کے کھرے اور سچے پاسبان پنڈت نہرو تھے تو بعد کی حکومتوں میں نظریات کی تبدیلی اور اقتدار کی بازیگری کی کرشمہ سازیاں اور دیگر متعلقہ پہلوؤںاور ملک کن حالات سے دوچار رہا اس کی تفصیلات غیر جانبداری کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ کتاب کا مطالعہ ایک وطن سے محبت کرنے والے مسلمان کی نظروں سے ملک کی سیاسی تاریخ اور متعلقہ عوامل کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

عام طور پر مسلمانوں میں روز مرہ کی کش مکش حیات کے درمیان حالات سے آگہی کے شعور کا فقدان ہے۔ مگر قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ باخبر لوگ ہی زندگی کے ہر شعبہ میں فی زمانہ کامیاب گزرے ہیں۔ اس طرح جناب شاہد صدیقی کی یہ کتاب باشعور احباب کے لیے معلومات کا خزانہ ثابت ہوتی ہے۔
کتاب کا آئی وٹنیس نام نہایت ہی معمول اس لیے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ـ’شاہد‘کے معنی ہی مشاہدہ کرنے والے کے ،گواہ کے ہیں۔ اس لیا سمجھا ان حالات کو اس روانی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ گویا قارئین بھی محسوس کرتے ہیں ۔ان کے ہمراہ ان کے اس سفر میں ساتھ ہیں۔ملک میں پہلے سیاست کا معیارکیا رہاپھر بتدریج ملک کے عوام کی ترقی اور ان کی فکر کے نام پر کیا کچھ ہوتا رہا یہ سب نہ صرف حیرت انگیز انکشافات ہیں۔قاری کے لیے بلکہ عملی سیاست کے ہمہ رُخی اُجلے اور کالے پہلوؤںسے شناسائی کا باعث بھی ہیں۔ کئی سیاسی قائدین بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور سرکردہ صحافی بھی مگر اپنے مشاہدات اور تجربات کو تحریری طور پر شامل کرنا بہت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔اپنے دُھن کے پکے شاہد بھائی (میں انھیں چار دہائیوں سے اسی نام سے مخاطب ہوتا ہوں) نے ملک کی رواداری ،تکثریتی ثقافت ، گنگا جمنی تہذیگ ، وسیع النظری ، تنگ نظری،مذہبی منافرت ،عدم رواداری ،انتخابات کے موسم، اقتدار کی رسہ کشی،بدعنوانی، سیاسی نشیب و فراز،جمہوریت نواز قائدین، روشن ضمیری اور ضمیر فروشی کے جلتے بجھتے مناظر اپنے قلم کے جادو سے آپ نے دوبارہ زندہ کردیے ہیں۔

اس کتاب میں بطور صحافی کن کن دشوار گذار مرحلوں سے آپ کو گزرنا پڑا اس کے قصے بھی شامل ہیں۔ 1985میں لندن میں خود ساختہ خالصتانی سرغنہ چوہان کا ’نئی دُنیا ‘کے لیے انٹرویو کرنے کی پاداش میں ایک سال بعد ٹاڈا قانون کے تحت انھیں گرفتار کیا گیا۔مقدمہ ،تہاڑ جیل میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ سال2012میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے انٹرویو کے نتیجے میں سماج وادی پارٹی سے معطل کیا جانا اس کے علاوہ ایسے بھی حالات سے گزرے ہیں شاہد بھائی کہ انھیں کئی بار الگ الگ سیاسی پارٹیوں سے اعلیٰ پارٹی عہدوں اور راجیہ سبھا کی رکنیت کے لیے نامزدگی کی پیش کش ہوئی۔مگر انھوں نے صحافت میں دیانت داری کے اصولوں کے ساتھ اس وقت کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا۔ عملی سیاست میں آپ کی شمولیت کے بعد ہی آپ نے عہدے قبول کیے۔ مگر کبھی بھی بقول ان کے آپ نے صحافت کو سیاست پر قربان نہیں کیا بلکہ دونوں شعبوں میں اپنے اصولوں کے تحت اپنی شناخت برقرار رکھی۔ کئی ایسے واقعات کتاب میں بیان کیے گئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے سیاسی روابط کو ہمیشہ قومی تناظر میں مسائل کے حل کے لیے اور بالخصوص مسلمانوں سے جڑے مسائل کی یکسوئی کے لیے استعمال کیا ہے۔

تمام وزرائے اعظم کے ساتھ آپ کے مراسم رہے مگر اپنی بات دو ٹوک طور پر کہنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ راجیو گاندھی کے ساتھ آپ کی دوستی کی تفصیلات کتاب میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کانگریس کے منشور میں آپ کے مشوروں کی شمولیت اور کانگریس میں آسانیاں اور رکاوٹوں کا بھی آپ نے برملا اظہار کیا ہے۔ راجیو گاندھی کے قتل کی سازش، واجپائی کا نرم و سادہ ہندوتوا، ارون نہرو کی بازیگری،سونیا گاندھی کی قربانیاں،پرینکا میں قائدانہ صلاحیتیں،راہول گاندھی کی ثابت قدمی،مودی کا جادو،اور ہندو راشٹرا کا تصور،آر ایس ایس کی سوچ، مسلم قیادت کا بحران جیسے موضوعات پر آپ نے ہندوستان کے مستقبل سے متعلق جناب شاہد صدیقی لکھتے ہیں کہ یہ ملامتوں کا موسم گزر جائے گا اور ملک میں وہ روایتی رواداری اور ہم آہنگی کی فضائیں دوبارہ تابندہ ہوجائیں گی۔ میں نے اس کتاب کے مطالعے کے دوران محسوس کیا ہے کہ ملک کی سیاسی اور معاشرتی عصری تاریخ کو جناب شاہد صدیقی کی آنکھوں سے دیکھتے ہمیںکئی ان سنے اور اَن دیکھے پہلوؤں ،مشاہدات اور واقعات سے آگہی ہوجاتی ہے۔ اور یہ آگہی ہمارے آج کی ضرورت ہے۔ مادر ِوطن کے نام اپنی کتاب منسوب کرتے ہوئے جناب شاہد صدیقی لکھتے ہیں انھیں ان کے استحقاق سے زیادہ سب کچھ ملا اس ملک میںمجموعی طور پر یہ کتاب ملک کی عصری تاریخ کا آئینہ ہے ،جس کو ہم’وطن بیتی‘کہہ سکتے ہیں۔
[email protected]

Address

Barline Road
Davangere

Opening Hours

Monday 10am - 8pm
Tuesday 10am - 8pm
Wednesday 10am - 8pm
Thursday 10am - 8pm
Friday 10am - 8pm
Saturday 10am - 8pm
Sunday 11am - 2pm

Telephone

+919886970209

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when TARIQ URDU PRESS posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to TARIQ URDU PRESS:

Share