13/09/2025
مَدور کا سانحہ: سیاست، انتظامیہ اور سماجی ہم آہنگی کے لیے لمحۂ فکریہ
از: عبدالحلیم منصور
کرناٹک کے ضلع منڈیا کے مَدور میں سات ستمبر کو گنیش وسرجن کے جلوس کے دوران پیش آنے والے پتھراؤ نے ایک بار پھر ریاستی سیاست، انتظامیہ اور سماجی ہم آہنگی کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ یہ واقعہ محض ایک جھڑپ نہیں بلکہ برسوں کی سیاسی غفلت، انتظامی ناکامی اور سماجی تقسیم کا شاخسانہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس تصادم میں آٹھ افراد زخمی ہوئے، پولیس نے اکیس سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور حالات قابو سے باہر ہونے پر دفعہ 144 نافذ کرنی پڑی۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب نقصان ہو چکا تھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کو پہلے سے روکا کیوں نہیں جا سکا؟
سیاسی منظرنامے میں اس واقعے کے بعد مزید پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ ضلع انچارج اور وزیر زراعت این۔ چلوارایاسوامی نے کہا کہ گرفتار شدگان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور ہندو فریق کے خلاف کوئی بڑی کارروائی سامنے نہیں آئی، جو انصاف کے توازن پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی اس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور جان بوجھ کر فضا کو کشیدہ بنا رہی ہے۔ وزیر داخلہ جی۔ پرمیشور نے ایک قدرے متوازن مؤقف اپنایا اور کہا کہ پتھر پھینکنے والا چاہے ہندو ہو یا مسلمان، کسی کو رعایت نہیں دی جائے گی، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اشتعال انگیز بیانات فضا کو زہر آلود کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو بعض سیاسی رہنماؤں کی غیر ذمہ دارانہ زبان ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما سی۔ ٹی۔ روی نے واقعے کی مذمّت میں منعقدہ جلوس کے دوران مسلمانوں کو “آؤٹ سائیڈرز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “جو سر اٹھائے گا، وہ سر کاٹ دیا جائے گا۔” یہ بیان براہِ راست سماجی ہم آہنگی کے لیے چیلنج ہے۔ اسی طرح پارٹی سے معطل رکن اسمبلی بسون گوڈا پاٹل یتنال نے اور دیگر نے بھی موقع پر پہنچ کر نفرت انگیزی کا سہارا لیا۔جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے ، تاہم ایسے بیانات عوامی قیادت کے شایانِ شان نہیں بلکہ معاشرے میں مزید تقسیم اور دشمنی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی زبان استعمال کرنے والوں پر کوئی مؤثر کارروائی سامنے نہیں آتی، جس سے یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ اشتعال انگیزی محض ووٹ بینک کے حصول کے لیے جان بوجھ کر کی جا رہی ہے۔
اس سانحے نے مَدور کی اقلیتی برادری میں غیر محفوظ ہونے کے احساس کو گہرا کر دیا ہے۔ مقامی مسلمانوں کی شکایت ہے کہ گرفتاریوں کا نشانہ زیادہ تر ان کے نوجوان بنے ہیں، حالانکہ تصادم میں دونوں طرف کے افراد شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس کو مسجد کے قریب سے گزارنے کا فیصلہ سب سے بڑی انتظامی کوتاہی تھی، جس نے ٹکراؤ کے امکانات بڑھا دیے۔ مزید یہ کہ وہ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے محفوظ رہتے ہیں جبکہ الزام زیادہ تر انہی پر ڈالا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل آئینی مساوات اور انصاف دونوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔
انتظامی سطح پر یہ سوال اہم ہے کہ پولیس اور مقامی حکام نے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ ایسے جلوسوں کے دوران حساس مقامات کی نشاندہی اور متبادل راستوں کا تعین معمول کا عمل ہونا چاہیے تھا، لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں اور غیر مصدقہ ویڈیوز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ سب انتظامیہ کی تیاری کے فقدان کو عیاں کرتا ہے۔
اس پورے منظرنامے میں سیاست کا کردار سب سے زیادہ افسوسناک ہے۔ حکمراں کانگریس اور اپوزیشن بی جے پی دونوں نے اس واقعے کو اپنے اپنے بیانیے کے مطابق استعمال کیا۔ کانگریس وزراء بی جے پی کو ماحول خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جبکہ بی جے پی حکومت پر اقلیت نوازی کا الزام لگا کر اکثریتی ووٹ بینک کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس الزام تراشی کے کھیل میں اصل متاثرین یعنی زخمی شہری، خوف زدہ خاندان اور اقلیتی برادری کے خدشات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے یہ غیر ذمہ دارانہ رویے اور عوامی اجتماعات میں نفرت انگیز زبان کا استعمال اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اقتدار کی ہوس کے آگے انسانی جان اور سماجی ہم آہنگی کی کوئی وقعت نہیں رکھی جاتی۔
آئینی اور سماجی پہلو سے یہ صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔ ہندوستانی آئین ہر شہری کو مساوات، مذہبی آزادی اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاطی خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، اس کے خلاف بلا امتیاز سخت کارروائی کی جائے اور بے قصوروں کو نشانہ بنانے یا یکطرفہ گرفتاریوں سے گریز کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ نفرت انگیزی اور اشتعال انگیز بیانات پر فوری اور مؤثر روک لگانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جب تک سیاسی رہنماؤں کی زبان کو ذمہ داری کا پابند نہ بنایا جائے اور نفرت پھیلانے والوں کو کڑی سزا نہ دی جائے، اس قسم کے سانحات بار بار جنم لیتے رہیں گے۔
مَدور کا سانحہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ امن و ہم آہنگی صرف اسی وقت قائم رہ سکتے ہیں جب انصاف بلا امتیاز فراہم کیا جائے۔ مذہبی جلوسوں کے راستوں کا تعین حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے، اشتعال انگیز بیانات دینے والوں پر فوری کارروائی کی جائے، گرفتاریاں ثبوت کی بنیاد پر ہوں نہ کہ شناخت کی بنیاد پر، اور متاثرہ خاندانوں کو ریاستی سطح پر معاوضہ و تعاون فراہم کیا جائے۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعی جمہوری اقدار اور عوامی نمائندگی کی دعوے دار ہیں تو انہیں ووٹ بینک کے بجائے عوامی امن اور اقلیتوں کے اعتماد کو ترجیح دینا ہوگا۔ بصورت دیگر، مَدور جیسے سانحات بار بار سماجی ڈھانچے کو جھنجھوڑتے رہیں گے اور شہریوں کے دلوں میں خوف اور بے یقینی کو گہرا کرتے رہیں گے۔