جب
قدیم چینیوں نے
محفوظ زندگی گزارنے کی
خواہش کی، تو انہوں نے دیوارِ چین
بنائی اور یہ سوچا کہ اس کی بلندی کی وجہ سے کوئی اس پر چڑھ نہیں سکے گا۔ لیکن دیوار کی تعمیر کے پہلے سو سال کے دوران، چین تین بار حملوں کا شکار ہوا!! ہر بار دشمن کے جتھے نہ تو دیوار کو توڑنے کی کوشش کرتے اور نہ ہی اس پر چڑھنے کی!!
بلکہ ہر بار وہ دربان کو رشوت دیتے اور دروازے سے داخل ہوجاتے۔ چینی دیوار بنانے میں مصروف تھے اور دربان کی تربیت کو بھول گئے تھے..!
انسان کی تعمیر، ہر چیز کی تعمیر سے پہلے آتی ہے اور یہی چیز آج ہمارے طلبا کو درکار ہے۔
ایک مستشرق کہتا ہے.. اگر تم کسی قوم کی تہذیب کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو تین طریقے ہیں:
1/ خاندان کو تباہ کرو۔
2/ تعلیم کو تباہ کرو۔
3/ رہنماؤں اور ماہرین کو گرا دو۔
خاندان کو تباہ کرنے کے لئے:
(ماں) کے کردار کو ختم کرو، اسے یہ محسوس کرواؤ کہ "گھر کی عورت" کہلانے میں شرم ہے۔
تعلیم کو تباہ کرنے کے لئے:
(استاد) کو بے وقعت کرو، اس کی اہمیت کو کم کرو تاکہ اس کے طلبا اس کی بے عزتی کریں۔
رہنماؤں کو گرانے کے لئے:
(علماء، محققین، اور دانشوروں) کو نشانہ بناؤ، ان کی قدر و قیمت کو کم کرو، ان پر شک کرو تاکہ کوئی ان کی بات نہ سنے اور ان کی پیروی نہ کرے۔
اگر (باشعور ماں) غائب ہوجائے
اور اگر (مخلص استاد) غائب ہوجائے
اور اگر (رہنما اور ماہرین) گرجائیں
تو پھر نوجوانوں کو اقدار کی تعلیم کون دے گا!
(کتاب "مستقبل کا مطالعہ" از ڈاکٹر مصطفی محمود رحمہ اللہ سے) ( )
20/07/2025
انتہائی
افسوس کیساتھ
اطلاع دی جارہی ہے کہ
آج 20/07/2025 بروز اتوار
حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب، استاد مدرسہ فرقانیہ گونڈہ۔ وامیر تبلیغی جماعت حلقۂ گورکھپور وضلع گونڈہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے انا للہ و انا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔ (نوٹ۔۔ نمازجنازہ ان شآءاللہ بعد نماز ظہر مدرسہ فرقانیہ میں ادا کی جائے گی) ( )
19/07/2025
آج
صبح مجھے ایک
خوشگوار لمحہ نصیب ہوا،
جب اپنے ہم وطن اور ممتاز عالمِ دین،
مفتی شکیل منصور قاسمی صاحب سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ چونکہ مفتی صاحب میرے ہم وطن ہیں، اس لئے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ جب بھی وہ وطن آئیں، ملاقات کی سعادت حاصل ہو۔ اسی خواہش کے تحت گزشتہ روز میں نے اُن سے فون پر رابطہ کیا، اور اجازت ملنے پر آج صبح اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وقت محدود تھا، مگر ملاقات شاندار اور خوشگوار رہی۔ واپسی کے وقت مفتی صاحب نے اپنی دو تازہ ترین علمی تصانیف — "اجماعِ اُمت" اور "کتابِ جاناں- صلی اللہ علیہ وسلم" — بطور ہدیہ عنایت فرمائیں۔ میں نے نہایت ممنونیت کے ساتھ اُن کی اس عنایت کو قبول کیا اور دعاؤں کی درخواست کیساتھ رخصت ہوا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفتی صاحب کی علمی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کے علم و عمل میں برکت دے اور انہیں صحت و عافیت کیساتھ درازیٔ عمر نصیب فرمائے۔ آمین۔ ( )
19/07/2025
نہایت ہی
افسوس کے ساتھ یہ اطلاع
دی جاتی ہے کہ حضرت اقدس محب الامت
شاہ محمد اھل اللہ صاحب خلیفہ مجاز مسیح الامت حضرتِ اقدس مولانا شاہ مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا آج بروز ہفتہ 19 جولائی 2025 بوقت صبح 7 بجے انتقال ہوگیا ہے۔
اناللہ واناالیہ راجعون۔ تمام احباب سے خصوصی دعاؤں ایصال ثواب کی گذارش ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین ( )
19/07/2025
جب
نام سے پہلے
’ڈاکٹر ‘ یا ’پروفیسر‘
لکھ دیا، تو پھر نام کے بعد
’صاحب‘ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اِسی طرح جب نام سے پہلے ’جناب‘ لکھ دیا، تو پھر نام کے بعد ’صاحب‘ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر نام کے بعد ’صاحب‘ لکھا ہے، تو پھر نام سے پہلے ’جناب‘ لکھنا ضروری نہیں۔ ضروری کیا، مناسب بھی نہیں۔ جناب ایڈیٹر صاحب، جناب ڈاکٹر صاحب، جناب پرنسپل صاحب، جناب رام لال صاحب، جناب محمود الٰہی صاحب؛ اِن سب ٹکڑوں میں ’جناب‘ اور ’صاحب‘ میں سے ایک لفظ زائد ہے۔
کس جگہ نام سے پہلے ’جناب‘ لکھا جائے اور کہاں نام کے بعد ’صاحب‘ لکھا جائے، اِس کا تعلق اِس سے ہے کہ وہاں کون سا لفظ مناسب ہوگا۔ مثلاً ’ جناب پرنسپل ‘ اور ’پرنسپل صاحب‘ میں آخری ٹکڑا بہتر ہے۔ اِسی طرح بھائی صاحب، مولوی صاحب، ایڈیٹر صاحب لکھنا چاہئے۔
خاص ناموں سے پہلے ’جناب‘ لکھنا بہتر ہوسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک نام کے ساتھ ’جناب‘ اور ’صاحب‘ کو جمع نہ کیجئے۔ ’جناب محمد حسین خاں‘ لکھیے یا ’محمد حسین خاں صاحب‘ ـــ جناب محمد حسین خاں صاحب مناسب نہیں۔ اِسی طرح مثلاً پروفیسر آلِ احمد سرور ؔ۔ اگر ’پروفیسر آلِ احمد سرور صاحب‘ لکھا جائے، تو کہا جائے گا کہ یہاں ’پروفیسر‘ اور ’صاحب‘ میں سے ایک لفظ زائد ہے۔ اگر کسی نے ’ جناب پروفیسر آلِ احمد سرور ؔصاحب‘ لکھا ہے، تو کہا جائے گا کہ جناب، پروفیسر اور صاحب، اِن تین لفظوں میں سے دو لفظ زائد ہیں۔ (’انشا اور تلفظ‘ از رشید حسن خاں سے ماخوذ) ( )
19/07/2025
ابھی ابھی
فیس بک آن کیا تو یہ
جگرپاش خبر سامنے ہے کہ جامعہ
ستاریہ فیض الرحیم نانکہ گندیوڑہ کے مؤقر استاذ حدیث مولانا محمد عابد قاسمی ندوی بائک سواروں کی جلدبازی اور شدید ٹکر کی تاب نہ لاکر شہیدوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون، ان للہ مااخذ ولہ مااعطی وکل عندہ بإجل مسمی
حضرت مولانا محمد عابد قاسمی ندوی عجیب ڈھب کے انسان تھے۔ وہ ہمارے دیار کے ان اچھے افاضل میں شمار ہوتے تھے جنھیں کئی نسلوں کو تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کا موقع ملا، دانش وادب کی مطلوبہ صلاحتیں رکھنے والے مولانا محمد عابد فتح پور چھٹمل پور سے وطنی نسبت رکھتے تھے اور فراغت کے بعد سے ہی جامعہ ستاریہ میں علم ودانش کے پھریرے اڑا رہے تھے۔واضح رہے کہ یہ ادارہ حضرت شاہ حافظ عبدالستار نانکوی رحمہ اللہ کی یادگار ہے جو قطب زماں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ کے خلیفۀ راشد تھے۔
مولانامحمدعابد صاحب تعلیم وتدریس کا اچھا تجربہ رکھنے والے صاحب علم ومطالعہ عالم دین تھے۔ اپنی قابلیت پختہ استعداد اور درسی مقبولیت کے ساتھ تواضع اور خوش اخلاقی کا پیکر تھے۔ انھیں دیکھنے سے بظاہر ایک عامی شخص کے ہونے کا گمان ہوتا لیکن جب وہ کسی علمی فکری موضوع پر لب کشا ہوتے تو مخاطب کو ان کی گفتگو میں علمیت ادبیت اور تجزیہ کی چمک محسوس ہوتی، انھیں قلم وکتاب کے راست استعمال سے بھی شدبد تھی۔ حیات عبدالستار نانکوی غالبا ان کی پہلی سوانحی اور قلمی کاوش ہے جس سے ان کے ذوق تالیف کا ادراک ہوتا ہے ، ان کا حادثۀ شھادت جہاں اخلاف کو رنجیدہ کرنے والا ہے بے شبہ علمی دعوتی اور ملی حلقوں کو بھی خسارہ سے بھی دوچار کرنے والا ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو مغفرت اولی نصیب ہو۔ فردوس بریں آپ کا ٹھکانہ ہو اور ردائے رحمت آپ پر سایۀ فگن رہے۔
یقینا ایسے ہونہار عالم وفاضل کی وفات دکھ بھری ہوتی ہے ، مولانا عابد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ایسے نقوش علمی بھی چھوڑگئے ہیں جہاں روشنی ہی روشنی ہے۔ اندھیرا نہیں اجالا ہے۔ فی الحقیقت ایسے روشن اور اجلے کردار کے لوگ ہر روز پیدا نہیں ہوتے:
ہزاروں بار نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شریک غم
محمدساجدکھجناوری
مدرس جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ (19/7/2025) ( )
18/07/2025
ترکی
نے تقریباً دس ہزار
سال پرانے انسانوں کی لکھی
ہوئی تختیاں عراق کو لوٹا دی ہیں،
دوسری زبانوں میں میسوپوٹیمیا کے نام سے
اور عربی اردو میں بین النہرین کے نام سے معروف یہ آبادیاں عراق کی ندیوں دجلہ اور فرات کے درمیان آباد تھیں۔ یہ قدیم ترین تہذیبیں عیسی علیہ السلام کی ولادت سے چھ ہزار سال سے دس ہزار سال پرانی رہی ہوں گی، ان کی رائٹنگ کو ڈی - کوڈ کرکے اس زمانے کے بارے میں سمجھنے کی کوشش جاری ہے۔ (مأخوذ نیوز پلانیٹ) ( )
17/07/2025
"کبھی
آپ نے سیاروں میں
حیرت انگیز توازن پر غور کیا ہے؟"
ہمارا یہ نظام شمسی ”کہکشاں“ میں جس
جگہ واقع ہے، وہ محل وقوع بھی بہت جانچ تول کر رکھا گیا ہے، یہ کہکشاں کے ایک بازو کے کنارے پر واقع ہے، جس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ: ”ہم کائنات میں پھیلی ہوئی دوسری کہکشاؤں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، اس کی وجہ سے بگ بینگ کی تفصیلات ہمیں معلوم ہوسکی ہیں،“ اس کے دوسرے بے شمار فوائد کو فی الحال چھوڑ کر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ سیارے سورج کے گرد کروڑوں، بلکہ اربوں کلومیٹر کا سفر جس تیز رفتاری سے بغیر کسی ٹکراؤ اور رکاوٹ کے کر رہے ہیں، اس کی توانائی ( پیٹرول یا اور کوئی ایندھن) ان کو کہاں سے مل رہا ہے اور کون فراہم کر رہا ہے؟ سائنسدان جب اس سوال پر غور کرتے ہیں تو ان کے پاس حیرت اور تعجب کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوتا؛ یہ اللہ رب العالمین کے پیدا کردہ توازن کا وہ عملی نمونہ ہے جس کو دیکھ کر اگر کوئی اس کا ئنات کے خالق کا انکار کرتا ہے تو اس کی کوئی عقلی یا سائنسی توجیہہ کرنا ممکن نہیں ہے؛ صرف تعجب ہی کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو آج کل کے بچے بھی جانتے ہیں کہ: ہر مادّہ اپنے اندر ایک مقناطیسی قوت رکھتا ہے، جس میں دوسرے مادے کو کھینچنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مادے کی جسامت جتنی زیادہ ہوگی یہ قوت بھی اسی تناسب سے اس میں زیادہ ہوگی،اس کو ”قوتِ ثقل“ (Gravitational Force) کہتے ہیں۔ اس قوت کے دائرے میں آنے والی ہر شے کو وہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے؛ اس لئے زمین کی فضا میں داخل ہونے والی ہر چیز زمین پر گرتی ہے، زمین گویا ایک ”عظیم مقناطیس کا گولہ“ ہے، جس کی کشش کا دائرہ فضا میں چالیس ہزار کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسری طرف سورج زمین سے کئی سو گنا بڑا ہے، اس کے دائرہ کشش میں یہ تمام سیارے داخل ہیں جس میں ہماری زمین بھی ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ سورج اپنی زبردست کشش کے ذریعے ان سیاروں کو اپنی طرف کھینچ کر نگل جاتا۔ لیکن قادر مطلق کی صناعی دیکھئے کہ ہر سیارہ اپنی قوت کشش کی مدد سے اور ٹھیک ٹھیک ایسی رفتار کے ساتھ گردش کرتا ہے کہ سورج کی کشش اس پر غالب نہ آئے، اور نہ زمین کی قوت کشش اس کو اپنی گرفت میں لے سکے، وہ ایک دائرے کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، جس کو ”مدار“ یعنی (Orbit) کہتے ہیں۔ یعنی زمین کی قوت کشش اور سورج کی قوت کشش اپنا اپنا کام کر رہی ہوتی ہیں؛ لیکن زمین ایسی نپی تلی رفتار سے محو سفر ہے کہ ان دونوں قوتوں میں توازن قائم ہو جاتا ہے اور زمین ایک دائرے میں سفر کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار ذرا بھی سست ہو تو زمین اپنے مدار سے آزاد ہوکر سورج میں ضم ہو جائے گی اور ذراسی تیز ہو تو سورج اس کو کھینچ کر ہڑپ کر جائے گا۔
ذرا سوچئے تو سہی کہ سیاروں کی اس رفتار میں اگر ذرا سی کمی زیادتی ہوجائے تو تمام سیارے، نظام شمسی،بلکہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے میں مدغم ہو کر غائب ہو جائیں!! بعض سائنسدانوں نے طویل حسابات کے ذریعے اندازہ کیا ہے کہ اگر آپ ایک کے ”ہندسے“ کے دائیں جانب «اٹھارہ صفر» لگائیں تو اس سے جو عدد حاصل ہوگا، سیکنڈ کے اتنے کھربوں حصوں میں سے ایک حصے کے برابر اگر رفتار میں فرق آجائے،تو نظام شمشی قائم نہیں رہے گا،یہ وقفہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس کا تصور بھی انسان کی طاقت سے باہر ہے،اس حقیقت کو قرآن کریم کی زبان ہی سنئے۔
{إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّنْ بَعْدِهِ.}
یقینی بات ہے کہ اللہ تھامے ہوئے ہے آسمانوں کو اور زمین کو کہ ٹل نہ جائیں (اپنے موجودہ مقام اور اپنی موجودہ حالت سے) اور اگر (بالفرض ) ٹل بھی جائیں،تو پھر اللہ کے سوا ان کو کوئی تھام بھی نہیں سکتا۔
(سوره فاطر (41)
سیاروں کی گردش کے حیرت انگیز توازن کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد بھی ملاحظہ ہو!
{لا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ}
سورج کی مجال نہیں کہ چاند کو جا پکڑے، اور نہ رات ( کی مجال ) کہ آگے بڑھ جائے دن سے،دونوں ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ (سورہ یسین 40)
سبحان اللہ! کیا یہ قرآن کریم کا اعجاز نہیں ہے کہ وہ سیاروں کے اپنے اپنے مدار میں تیرنے کی خبر چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے اس وقت دے رہا ہے جب عام نظریہ یہ تھا کہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور جس حقیقت کو پانے میں انسان کو صدیاں لگی ہیں اس کو بیسویں صدی میں دریافت کر کے انسان حیرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ (تحریر: ولی رازی) (قرآن اور سائنسی انکشافات، صفحہ: 96، طبع:اریب پبلیکیشنز، دریا گنج، نئی دہلی) (✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی) ( )
16/07/2025
تبصرہ
بر کتاب جاناں
صلی اللہ علیہ وسلم
مؤلف: مفتی شکیل منصور القاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ___ کتاب جاناں ﷺ
واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبریًا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء
نام کتاب کتاب جاناں ﷺ
مصنف مولانا مفتی شکیل منصور قاسمی
کل صفحات ۳۸۴
ورق کی کوالٹی عمدہ دیدہ زیب جلد کے ساتھ
ناشر مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی
انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ سینٹر نیو کالونی پوکھریا بیگوسرائے بہار
ای میل [email protected]
ملنے کا پتہ مکتبہ النور دیوبند یوپی یا ای میل پر مصنف سے رابطہ کریں
اسلام کی اِمتیازی شان یہ ہے کہ یہ محض تعلیمات پر مشتمل نہیں بلکہ اپنی تعلیمات کے عملی نمونہ اور عملی مظاہر کا حامل بھی ہے۔ سیرتِ نبوی کو امت مسلمہ کے لیے نمونہ کامل قرار دے کر اسلام کی تعلیمات کے عملی نمونہ ہونے کی ضرورت کو پورا کر دیا گیا ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ امتیاز صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادی، معاشرتی اور قومی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ اور اہل ایمان کے لئے مینارہ نور کی صورت میں موجود ہے۔ آپ کی سیرت طیبہ پر تاریخ میں سب سے زیادہ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت نگاروں کی فہرست میں مسلم اور غیر مسلم تمام مصنفین شامل ہیں۔ ہر دور اور ہر خطہ کے اہل علم نے اپنی بساط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ پر لکھنے کی سعادت حاصل کی،، اس سعادت میں جس کا بھی حصہ پڑا وہ اپنے نصیب پر بجا طور پر ناز کرسکتا ہے کیوں کہ حب نبوی ﷺ ایک ایسی شاہراہ ہے جس کا مسافر کبھی دل آزردہ یا زمانے سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ وہ اس شاہراہ فلاح پر یوں چلتا رہتا ہے کہ اس کی نگاہ و دل محبت و عقیدت کے عطر سے خوشبوؤں کا مرکز بنے رہتے ہیں ،،اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ پاکیزہ طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے
۔حضور پاک ﷺ کی پاکیزہ اور مقدس سیرت اس وقت بھی ان انسانوں کے لیے ہدایت کاباعث بنی جو انسانیت سے دور زندگی اور حیوانیت کے دلدادہ ہو چکے تھے۔ آج بھی اس پڑھے لکھے،علم وآگہی اور سائنس کے زمانے میں رشد وہدایت کے متلاشیوں کے لیے تسکین وطمانیت ِ قلب کا سامان مہیا کرتی اور ان کی علمی تشنگیوں کو بھجاتی ہے ۔حضور اکرمﷺ کی سیرت ِ پاک کی جامعیت کایہ پہلو کس قدر تابناک ہے،،،
سیرت نگاری کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو پر اصحاب علم نے رشحات قلمی سے مختلف گوشوں پر اوراق کو سیاہی سے رونق بخشی ہے جس میں ہر پہلو پر لکھا گیا ہے اور لکھا جارہا ہے یہ سعادت ہے ،،، میرے ہاتھوں میں ایک کتاب ائی ہے جو بہار کے ایک معزز فاضل مکرم جو کئی کتابوں کے مصنف اور داعی ہیں مفتی شکیل منصور جو اپنے علمی تحقیقی فقہی ادبی کمالات کے باعث اہل علم کی صف میں ممتاز و منفرد مقام کے حامل ہیں کی یہ کتاب بنام کتاب جاناں ہے موصوف کا علمی و ادبی تحقیقی ذوق بے حد سلجھا ہوا جس میں اسلوب کی تازگی بیان کی شگفتگی اور بصیرت کا اعلی معیار قارئین کو محو حیرت کر دیتا ہے موصوف کی یہ کتاب جو سیرت نبوی ﷺ کے موضوع پر ان کی اعلی تصنیف ہے یہ محض کتاب ہی نہیں ہے بلکہ سیرت نبوی¡ کی اعلی قدروں کی امیں ہے اور مصنف کی والہانہ محبت و عقیدتوں کی پاکیزہ تعبیر ہے جس صفحہ قرطاس پر مصنف نے بکھیر رکھا ہے
معتبر سیرت نگار حب نبوی اور عشق رسول کو ایمان کی بنیاد واساس تصور کرتا ہے ۔ آپ ﷺ کا نام زبان مبارک پر آتے ہی یا آپﷺ کانام کانوں میں پڑتے ہی احساس وشعور میں سوز وگداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اورتفکرات کی لا محدود دنیا میں کھو جاتے ہیں اور پر نم آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ ذکر نبوی کیا چھیڑتے ہیں کہ ان کے جذبات پر رقت کی کیفیت طاری ہوتی ہے،، سیرت نگاری میں کئی مصنفین ایسے گزرے ہیں جو قارئین کو مکہ مدینہ کی سیر ایسے کرادیتے ہیں کہ قاری دوران مطالعہ ان راہوں ، جگہوں ، شخصیات ، میں خود کو محسوس کرتا ہے قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے دوران مطالعہ کہ وہ ان لمحات میں جیسے موجود ہو اور وہ عاشقانہ ان لمحوں کو اپنے لئے باعث سعادت تصور کرتا کے جب وہ سیرت طیبہ کے کسی موڈ پر اداس ہوکر محسوس کرتا ہے کہ اس کی نگاہیں نم ہوگئی ہیں وہ قلب و جگر میں اک ہلچل محسوس کرتا کے کہ در محبت میں جب بھی اسے کسی اذیت و المیہ کا سبق سامنے آتا ہے سیرت نگاروں مین یہ کمال ہے کہ وہ قاری کو کسی بھی صورت کتاب سے جدا ہونے نہیں دیتا بلکہ قاری اسی فکر مین رہتا ہے پھر کیا ہوا کیوں کہ قاری تو اس تصنیف کے اصلی کردار سے والہانہ محبت کے اظہار میں سب کچھ بھول کر بیٹھ جاتا ہے ،،،اللہ تعالی کرت کہ ہم بھی ان میں شامل ہوں جن کے قلوب حب نبوی سے آباد ہوں
کتاب مذکور میں ۱۴ ابواب ہیں ہر باب میں سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے اور ان گوشوں کو قرآن و سنت ، کتب سیرت و تاریخ کی معتبر کتب سے عطر کشید کی گئی ہے تاکہ قارئین کو لطف اندوز ہونے اور شاد کیا جاسکے قارئین کی لطف اندوزی کا سامان بہم رکھا گیا ہے جو قارئین باذوق ہوں اور شوق مطالعہ کے ساتھ ساتھ وہ پاکیزہ جزبوں اور احساسات کے ساتھ امام کائنات تسکیں جاں ﷺ کی پاکیزہ مزاجی اوصاف حمیدہ کے رنگ میں رنگ جانے کے جزبوں سے خود کو آباد رکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں،، ان کے لئے مصنف نے محققانہ ذوق وسعت مطالعہ کے ساتھ دل آویز اور خوش کن انداز میں صفحہ قرطاس پر سیرت طیبہ کے گوشوں کو سمیٹا ہے جس کا لفظ لفظ ورق ورق علم و اخلاص اور عشق و محبت رسول ﷺ سے معطر و منفرد ہے ،، اسباق سیرت کو جس ترتیب اسناد و سلاست سے بیان کیا گیا ہے وہ لائق آفرین ہے اور اہل علم کے لئے سرمایہ افتخار اخلاق و شمائل سیر و مغازی سے متعلق مباحث کا تحریری انداز اس قدر نایاب ہے کہ ایسا لگتا ہے کتاب میں شمائل ترمذی ، کتاب المغاذی روح جلوہ گر ہوئی ہے طلبہ و علماء کے ساتھ عوام بھی اس کتاب سے مستفید ہوسکتی ہے کیوں کہ جہان علم و ادب اور استعارات و اسناد کا خیال رکھا گیا ہے وہیں زبان سادہ اور سلیس بھی ہے کہ قاری کو کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ،،،
کتاب کے ابواب ایک نظر میں، باب اول میں شخصی خاکہ ، حیات مبارکہ کے مختلف پہلو و واقعات کو نمایاں کیا گیا ہے ،، باب دوم خاندانی تفصیلات ازدواج مطہرات کے تذکرے اولاد وغیرہ کا تذکرہ بالخیر،، باب سوم رفقاء اصحاب کا تذکرہ و احوال مختصر ، باب چہارم خطوط و سفارتی کاوشیں، اور مختلف قوانین و عملے کا تذکرہ، ، باب پنجم ساز و سامان تلواروں کے نام اوصاف پرچم نبوی وغیرہ ،، چھٹا باب سواریوں کی تفصیل، ساتواں باب لباس وغیرہ سامان خانہ وغیرہ آٹھواں باب شمائل مصطفی حسن و کمال کا بیان ،، نواں باب مظہر اخلاق و عادات نبویہ ،، دسواں باب خرد و نوش آداب لباس و پوشاک مبارکہ کا تذکرہ گیارہواں باب وداع جان کائنات اور سفر آخرت کا جاں گداز منظر ،،بارہواں باب وصایا و نصائح ،، تیرواں باب معجزات وغیرہ ،، چودھواں باب غیر مسلم دانشوروں مفکروں اور سیاسی قدآور شخصیات کے ان خیالات و اعترافات پر ہے جو انہوں نے رسول کائنات ﷺ کی ذات گرامی والا کے لئے لکھے یا بیان کئے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیرت طیبہ پر قلم اٹھا کر شان رسالت مآب ﷺ میں محبت و عقیدت کے جذبے پیش کرنا زبان و قلم کا سیرت طیبہ کے لمس سے آشنا ہونا اہل ایمان کے لئے افتخار کا باعث ہے یہ ایسے پاکیزہ جذبے ہیں جن پر اہل قلم و زبان نازاں ہوسکتے ہیں ،، امت مسلمہ کے کاندھوں پر سیرت کی جو ذمہ داری بیان کی گئی ہے یہ امت کو بطور امانت سپرد ہوئی ہے یہ سراپا سعادت ہے کہ رحمت عالم فخر عالم ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوے یاد رکھے جائیں اور ان کو زندگی میں زیور حیات بنا کر رکھا جائے یہی چشمہ حیات پاکیزہ ہے ،عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پُرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہی تفسیر ہے ”ورفعنالک ذکرک“ کی۔
اسی سے آج بھی مختلف انسانی حقوق و عادات سیراب ہوسکتے ہیں امن عالم کا ضامن یہی اصول ہے یہی فلاح انسانیت کا ضامن ہے کہ حقائق کو جانا جائے اور انہیں زندگی کی کل متاع جان کر اپنایا جائے یہ جو امت مسلمہ مختلف آفات المیوں کی شکار ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ نبوی اخلاق و کردار کا فقدان ہے اور ناکامی و نامرادی ان کے حصے میں آئی ہے ،، مصنف جناب مفتی شکیل منصور قاسمی کی خدمت میں علامہ اقبال کے یہ محبانہ اشعار ہدیہ کرتا ہوں اس امید و یقین کے ساتھ کہ ان کا یہ سفر جاری رہے گا
خوف کہتا ہے کہ ” یثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ ” تو مسلم ہے بیباکانہ چل“
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے
کتاب جاناں مجھ جیسے طالب علم کو دینے کا شکریہ کہ آپ نے اپنے علمی و ادبی تحقیقی ذوق سے آراستہ کتاب جاناں دی جو میرے لئے سرمایہ افتخار ہے دعا گو ہوں بارگاہ صمدیت میں کہ آپ کو علوم و معارف کا وہ ذائقہ نصیب ہو جس سے آپ کا
وجود اور آپ کے متعلقین خوشبوؤں کی طرح مہکتے رہیں
🖊 الطاف جمیل شاہ سوپور کشمیر
Shakeel Ahmad
تبصرہ___ کتاب جاناں ﷺ
( )
16/07/2025
کیا
آپ کو معلوم
ہے کہ تدفین کے ایک
دن بعد یعنی ٹھیک 24 گھنٹے
بعد انسان کی آنتوں میں ایسے کیڑوں کا
گروہ سرگرم عمل ہوجاتا ہے جو مردے کے پاخانہ کے راستے سے نکلنا شروع ہوجاتا ہے، ساتھ ناقابل برداشت بدبو پھیلنا شروع کرتا ہے، جوکہ در اصل اپنے ہم پیشہ کیڑوں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ اعلان ہوتے ہی بچھو اور تمام کیڑے مکوڑے انسان کے جسم کی طرف حرکت کرنا شروع کردیتے ہیں اور انسان کا گوشت کھانا شرو ع کردیتے ہیں۔
تدفین کے 3 دن بعد سب سے پہلے ناک کی حالت تبدیل ہونا شرو ع ہوجاتی ہے۔
6 دن بعد ناخن گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
9 دن کے بعد بال گرنا شرو ع ہوجاتے ہیں۔
انسان کے جسم پر کوئی بال نہیں بچتا اور پیٹ پھولنا شروع ہوجاتا ہے۔
17 دن بعد پیٹ پھٹ جاتا ہے اور دیگر اجزاء باہر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
60 دن بعد مردے کے جسم سے سارا گوشت ختم ہوجاتا ہے۔ انسان کے جسم پر بوٹی کا ایک ٹکڑا باقی نہیں رہتا۔
90 دن بعد تمام ہڈیاں ایک دوسرے سے جدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
ایک سال بعد ہڈیاں بوسیدہ ہو جاتی ہیں،
اور بالآخر جس انسان کو دفنایا گیا تھا اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ (منقول) ( )
۔
15/07/2025
"ادارہ جاتی
عصبیت ختم کریں اور
حسد سے محفوظ رہیں اور متحد ہوکر کام کریں۔
وحیین فاؤنڈیشن کو دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں:
مفتی شکیل منصور القاسمی
14/07/2025
سورہ
البقرۃ کی
آیت نمبر 159 میں
اللہ سبحانہ کا ارشاد وارد ہے:
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾ۙ
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں (١٠٤) تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں،
تفسیر: 104: اشارہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف ہے جو پچھلی آسمانی کتابوں میں مذکور ان بشارتوں کو چھپاتے تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی) ( )
Be the first to know and let us send you an email when SaGar Times posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.