07/01/2024
امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ جھارکھنڈ ایک اجمالی تعارف
حرف آغاز
’’یٰاَیُّہاَ الَّذِیْنَ آمَنُوْااَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔‘
وقال عمر بن الخطاب رض: لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ الا بامارۃ ولا امارۃ الا بطاعۃ (جامع بن عبد البر 61)
اسلام کا مل دین اورمکمل نظام حیات ہے، اس نظام حیات میں اجتماعیت کی بڑی اہمیت ہے، اسلام مسلمانوں کو نظم واتحاد کے ساتھ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے وہ انتشار ،من مانی اور خود رائی کی راہ سے روکتا ہے ، اسلام کا یہ خاص وصف ہے جواسے سارے ادیان ومذاہب سے ممتاز کرتاہے کہ اس کے جملہ احکام ونظام میں اجتماعیت کی روح کارفرماہے اور جس کو قرآن پاک کے بلیغ الفاظ میں بنیان مرصوص(سیسہ پلائی ہوئی دیوار ) سے تعبیر کیاگیا ہے۔ لہٰذا اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ تنظیم واتحاد اورطاقت وقوت کا اصل سرچشمہ اسلام کی بتائی ہوئی جماعتی زندگی ہی میں پوشیدہ ہے۔
اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعتی زندگی کا کوئی تصور مرکزیت کے بغیرنہیں کیاجاسکتا۔ اسلامی حکومتوں میں یہ مرکزیت خلیفہ یاحکمرانوں کو حاصل ہوتی ہے، جس کے ذریعہ اسلام کے تمام اجتماعی احکام وقوانین جاری ونافذ ہوتے ہیں۔
اور جہاں قوت واقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہوتو وہاں مسلمانوں پر ضروری ہوتاہے کہ وہ اپنے میں سے کسی صالح اور دین دار شخص کو اپنا امیرشریعت (شرعی سردار) منتخب کرلیں اوراس کے ذریعہ ممکن حد تک تمام شرعی امور کا اجراء ونفاذعمل میں لائیں۔
تعارف
خدا کا شکر ہے کہ علماء کرام اور دردمندانِ ملت اس فریضہ سے غافل نہ رہے اور مایہ ناز تنظیم قائم کی جو اپنی ابتدا کی چند عرصہ میں ہی چاروں سمت چھاگئی اور مسلمانان ہند کے لئے مثل غذا ثابت ہوئی تو اپنے خوش آئند اور دور رس نتائج کے سبب لوگوں کی توجہ کا مرکزبنا۔
ہم بات کر رہے ہیں اس تنظیم کی جسكى آغوش میں ہم اور آپ آج تشریف فرما ہیں
ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ،بہار ،اڈیشہ جھارکھنڈ کے مسلمانوں کی نمائندہ متحرک وفعال تنظیم:امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کی جسکے مقاصد حسنہ کے آج ہم دلدادہ ہیں
تاریخ و پس منظر
۱۸۵۷ء کے بعد مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تو علمائے کرام اور دردمندان ملت اس نازک وقت میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی طرف متوجہ ہوئے اور بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی تحریک خلافت اور تحریک آزادی نے پورے ملک میں ایک عام بیداری کی لہر پیدا کر دی۔
امارت شرعیہ کا قیام
چنانچہ
۱۳۳۹ ھ میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادرحمۃ اللہ علیہ نے اس فریضۂ دینی کی طرف علماء کو متوجہ کیا، اجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دی اور حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ ، حضرت مولانا شاہ بدرالدین صاحبؒ سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ، قطب دوراں حضرت مولانا محمدعلی مونگیررحمۃ اللہ علیہ خانقاہ رحمانی مونگیر کی تائید وحمایت سے "محلہ پتھر کی مسجد بانکی پور پٹنہ"میں ایک میٹنگ کے دوران 26 جون 1921ء اور 19 شوال 1339ھ کو امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا جہاں کم و بیش پانچ سو علماء ودانشوران اکٹھا تھے۔
ملک کے مشاہیرعلماء اورمشائخ نے روزاول ہی سے امارت شرعیہ کے قیام، اس کے نصب العین اور طریقۂ کار کی پرزور تائید کی اور یوم تاسیس سے اب تک تقریبا ایک سو دو سال کی مدت میں امارت شرعیہ ملت کی عظیم خدمات انجام دے رہی ہے اوراس کا اثربہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ اور بنگال سے باہر پورے ملک میں محسوس کیاجاتاہے۔ اہم ملی مسائل میں اس کے جرأت مندانہ فیصلوں پراعتبار کیاجاتاہے۔اس وقت امارت شرعیہ امیر شریعت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی قیادت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے
مقاصد واہداف
ا ۔ منہاج نبوت پر نظام شرعی کا قیام ، تا کہ مسلمانوں کے لیے صحیح شرعی زندگی حاصل ہو سکے۔
2۔ اس نظام شرعی کے ذریعہ جس حد تک ممکن ہو اسلامی احکام کو بروئے کار لانا اور اس کے اجراء و تنفیذ کے مواقع پیدا کرنا۔ مثلا عبادات کے ساتھ مسلمانوں کے عائلی قوانین ، نکاح ، طلاق ، میراث ،خلع ، اوقاف و غیره احکام کو ان کی اصلی شرعی صورت میں قائم کرنا۔
3۔ ایسی استطاعت پیدا کرنے کی مستقل تگ ودو جس کے ذریعہ قوانین خداوندی کو نافذ اور اسلام کے نظام عدل کو قائم و جاری کیا جا سکے۔
4۔ امت مسلمہ کے جملہ اسلامی حقوق و مفادات کا تحفظ اور ان کی نگہداشت۔
۵- مسلمانوں کو بلا اختلاف مسلک محض کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی بنیاد پر مجتمع کرنا تا کہ وہ خدائے تعالی کے احکام اور حضرت محمد ﷺ کی سنت پر عمل کریں، اور اپنی اجتماعی قوت " کلمۃ اللہ کو بلند کرنے پر خرچ کریں۔
6۔ مسلمانوں کو تعلیم ، معاش اور ترقی کے میدان میں اسلامی نظام تعلیم اوراسلامی نظام تجارت کی روشنی میں رہنمائی دینا۔
7۔ عام انسانی خدمت کے لیے رفاہی اور فلاحی ادارے قائم کرنا۔
8۔ مسلمانوں کے حقوق، شریعت کے احکام اور اسلام کے وقار کو پوری طرح قائم اور محفوظ رکھتے ہوئے مقاصد شرع اسلام کی تکمیل کی خاطر اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہندستان میں بسنے والے تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح و آشتی کا برتاؤ کرنا، ملک میں امن پسند قوتوں کو فروغ دینا اور تعلیم اسلامی" لا ضرر و لاضرار فی الاسلام" کی روشنی میں ملک کے مختلف مذہبی فرقوں میں ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا اور ہر ایسے طریق کار و تحریک کی ہمت شکنی کرنا جس کا مقصد ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقات میں سے کسی ایک کی جان ومال ، عزت و آبر ، تصورات و معتقدات پر کسی دوسرے کی طرف سے حملہ ہو اور ایسی تمام تحریکات کو قوت پہونچانا جن کا مقصد ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی جان و مال، عزت و آبرو کا احترام پیدا کرنا ہو اور فرقہ وارانہ تعصب و منافرت کو دور کرنا ہو
امارتِ شرعیہ کے امراء کرام
حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ (عہد امارت کی 1339 تا 1343ھ بمطابق1921۔1924)، حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادریؒ( 1343تا 1366ھ بمطابق1924۔1947)، حضرت مولانا سید شاہ قمرالدینؒ(1366تا 1376ھ بمطابق1947۔1957) حضر ت مولانا سیدشاہ منت اللہ رحمانیؒ(1376 تا 1411ھ بمطابق1957۔1991)،حضرت مولاناعبدالرحمنؒ دربھگنوی(1419.1411ھ 1991ء تا1998ء)، حضرت مولانا سید نظام الدین قاسمی گیاوی،(1419۔1437 بمطابق1998۔2015) ،اور مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہم اللہ (1437۔1442 بمطابق2015۔2021) میں امارت شرعیہ کے امیر شریعت رہے، ہر امیر شریعت کی ہدایات کوعلماء، اہل علم اور عوام نے مانا اور اس پر عمل کیا،امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کی امارت، مولانا سید نظام الدین ؒ کی نظامت اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی قضا کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے امارت شرعیہ کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی، ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کی قیادت وامارت میں یہ کارواں تیزی سے رواں دواں تھا، کام کا دائرہ وسیع ہورہا تھا اور انتہائی مضبوط بنیادوں پر کام جاری تھا کہ3اپریل 2021 ء کو حضرت کا وصال ہو گیا اور اب یہ کارواں انکے لخت جگر حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت کی قیادت میں حسب سابق حضرت صاحب کے بنائے خطوط اور بتائے راستوں پر گامزن ہیں ۔
امارت شرعیہ کا نظامِ کار
امارت شرعیہ کانظام کار چند شعبہ جات پر مشتمل ہیں جن میں کچھ بنیادی اور اہم شعبے ہیں تو وہیں اسکے کچھ ذیلی اور ضمنی شعبجات بھی ہے جو اپنے دائرے میں کام انجام دے رہے ہیں۔
جن میں شعبۂ تبلیغ،شعبۂ تنظیم،شعبۂ تعلیم، دارالقضاء، دارالافتاء، دارالاشاعت،تحفظ مسلمین ،کتب خانہ،شعبہ امور مساجد،شعبہ خدمت،وفاق المدارس الاسلامیہ اوربیت المال وغیرہ سرِ فہرست ہے جو امارت شرعیہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں، امارت شرعیہ کے مکاتیب، دارالعلوم الاسلامیہ،المعہدالعالی،قاضی نورالحسن میموریل اسکول پھلواری شریف، مولانامنت اللہ رحمانی اردوہائی اسکول آسنسول، امارت پبلک اسکول گریڈیہہ ورانچی، اورسات ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ دینی وعصری تعلیم کے فروغ میں مشغول ہیں، خدمت خلق کے میدان میں تین ہاسپٹل بھی مریضوں کی ضرورت کو پوری کررہے ہیں،بیوہ کے وظائف ،مصیبت کے وقت ریلیف کا کام،غریب بچیوں کی شادی، مریضوں کے علاج وغیرہ میں تعاون وامداد اس کے علاوہ ہے ، امارت شرعیہ کا ہفت روزہ ترجمان نقیب بھی اہتمام کے ساتھ نکلتاہے،
امارت شرعیہ کے دارالقضاء سے اسلامی قوانین کے مطابق معاملات حل کئے جاتے ہیں ،اس وقت بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ اورمغربی بنگال میں67 دارالقضاء کام کررہے ہیں، دودارالافتاء بھی مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لئے موجودہے،جن میں سے ایک مرکزی دفتر امارت شرعیہ پھلواری شریف اوردوسرا جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں ہے، امارت شرعیہ کے دارالقضاء ودارالافتاء کی ملک اوربیرون ملک میں اپنی بڑی پہچان ہے۔
خصوصیات و امتیازات
تنظیمیں اس کے قبل بھی تھیں اور بعد میں بھی بہت بنیں، لیکن امارت شرعیہ کی فکری انفرادیت یہ ہے کہ اس نے منہاج نبوت پر نظام شرعی کے قیام کو اپنا مقصد اولیں قرار دیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت دین کا جو طریقہ اپنایا اس میں فرد کی اصلاح کو اولیت حاصل ہے، افراد کی زندگی جب صالح قدروں اور ایمانی تقاضوں کے ساتھ پروان چڑھے گی تو اس سے صالح معاشرہ وجود میں آئے گا، اور صالح معاشرہ کے ذریعہ حکومت الٰہیہ کے قیام کی راہ ہموار ہوگی،
اس نے امت مسلمہ کو کلمہ کی بنیاد پر جوڑنے کا کام کیا۔وہ ذات برادری، مسلک ومشرب اور لسانی عصبیت اور علاقائیت سے اوپر اٹھ کر کام کرتی ہے، اس کی سوچ اس معاملہ میں بہت واضح ہے۔ اس کے نزدیک اتحاد کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے اور یہ وہ بنیاد ہے جس کی کوئی علاقائی سرحد نہیں ہے۔ امارت شرعیہ نے اسے عملی طور پر برتا اور ہر موقع سے خواہ وہ ریلیف کا کام ہو یا باز آباد کاری کا کوئی تفریق نہیں کی، بلکہ ریلیف اور خدمت خلق کے کاموں میں ایمانی بنیادوں سے اوپر اٹھ کر اس نے انسانی بنیادوں پر کام کیا، امارت شرعیہ کے سارے اسپتال بھی اسی اصول پر کام کر رہے ہیں۔بعد کے دنوں میں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد ملت کی دعوت لے کر بہت سی تنظیمیں اٹھیں اور امارت شرعیہ کے اس کام کو پورے ہندوستان میں آگے بڑھانے کا کام کیا۔
امارت شرعیہ کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے تمام شعبہ جات ملکی قوانین کی رعایت کے ساتھ ایک رفاہی ادارہ کا تصور پیش کرتے ہیں اور مختلف شعبوں کے ذریعہ امارت شرعیہ حکومت کے کاموں میں تعاون کرتی ہے، مسلم معاشرہ کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کرنے، تعلیم کو رواج دینے اور اس کے لیے مکتب اسکول وغیرہ کا قیام، مصیبت کے وقت ضرورت مندوں کی مدد، علاج ومعالجہ اور غریب بچیوں کی شادی میں تعاون یہ ایسے کام ہیں جو سیدھے سیدھے حکومتوں کے کرنے کی ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ ان کاموں میں تعاون کی وجہ سے حکومت کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، اور لوگوں کی پریشانیاں دورہوتی ہیں۔
امارت شرعیہ کی سب سے بڑی انفرادیت دار القضاء کا قیام ہے، آج اس کی 67۔ شاخیں عائلی اور خاندانی، جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے کام کر رہی ہیں اور ایک بڑی تعداد معاملات کی یہاں سے حل ہوا کرتی ہے،
حتی کہ اس کا انتظامی ڈھانچہ بھی دوسری تنظیموں سے الگ اور منفرد ہے، یہاں انتظام وانصرام پر مشورے دینے اور کام پر نگاہ رکھنے کے لیے چار کمیٹیاں ہیں، ٹرسٹ، مجلس عاملہ، مجلس شوری اور ارباب حل وعقد، یہاں کسی بھی کمیٹی کے مشورے اور فیصلے کے نفاذ کے لئے امیر شریعت کی رضا مندی اور منظوری ضروری ہے، یہ کمیٹیاں ہیئت حاکمہ نہیں ہیں، یہ مقام صرف یہاں کے امیر شریعت کو دستوری طور پر حاصل ہے۔ البتہ مجلس شوریٰ کو موجودہ دستور میں ترمیم واضافہ کا حق ہے، بشرطیکہ کہ تمام ارکان شوری یا دو تہائی اکثریت کسی اضافے یا ترمیم پر متفق ہوں۔ یہاں مجلس شوریٰ کل مختار نہیں ہے، وہ صرف مشورے دے سکتی ہے، کرنا کیا ہے؟ اس کا فیصلہ امیر شریعت کو لینا ہے، اور جب کوئی فیصلہ امیر شریعت کر دیں تو اس کا ماننا ہر ایک کے لیے ضروری ہے، دوسری تنظیموں میں چار چارکمیٹیاں نہیں ہیں، اور فیصلے شوریٰ کی مرضی سے ہوتے ہیں اور ان کا دخل اس حد تک ہوتا ہے کہ مجلس شوریٰ ہی کل مختار ہو جاتی ہے،ا سکی وجہ سے جو فساد وبگاڑ مختلف اداروں میں پیدا ہوا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے
انہیں خصوصیات کی وجہ سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے مختلف موقعوں سے اپنے بیانات میں بار بار اس بات کو دہرایا۔ اور ”امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب“ کے مقدمہ میں لکھا کہ
”مجھے ہندوستان کے کسی صوبے پر رشک آتا ہے تو بہار پر اور اگر بہار پر رشک آتا ہے تو امارت شرعیہ کی وجہ سے کہ وہاں کے مسلمان اس کی بدولت ایک ایسی زندگی گذار رہے ہیں جو معتبر اسلامی زندگی سے قریب تر اور جاہلی وغیر اسلامی زندگی سے بعید تر ہے۔
خاتمہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ امارت شرعیہ اپنی صدسالہ تاریخ میں مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے میں بڑی حدتک کامیاب رہی ہے،دارالقضاء کا نظام پورے ہندوستان میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر امارت کی ہی دین ہے،لوگوں کو حکم الہی کے مطابق اپنے عائلی مسائل کو حل کرانے کی جو قابل قدر کوشش امارت کے تحت شروع کی گئی تھی آج بحمد اللہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ میں خاص طور پر اس کے ثمرات ظاہر ہیں
اہل علم جانتے ہیں کہ امارت کی یہ صد سالہ تاریخ مسلسل جہد اور پیہم جاں فشانی سے عبارت ہے،آج جو امارت کی دیدہ زیب عمارت اور چہل پہل ہمیں نظر آتی ہے صحیح معنوں میں ان کی جڑوں میں امارت کے بانیان کا خلوص ،شب وروز کی تھکا دینے والی محنت اور دعاء نیم شبی کی قوت کار فرما ہے ۔
حوالہ:
1۔ تلخیص مع تصرف : امارت شرعیہ بہار واڑیسہ اپنی خدمات کی روشنی میں (دار الاشاعت : امارت شرعیہ بہار واڑیسہ پھلوار شریف پٹنہ)
2- تلخیص :امارت شرعیہ تعارف و خدمات (شعبئہ نشر واشاعت : امارتِ شرعیہ بہار ،اڑیسہ و جھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ)
عبد الرازق بن ایاس الدین
اختصاص فی علوم الفقہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ