Ibnulhussainqasmi

Ibnulhussainqasmi رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم سب میں بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھےاور پڑھائے
( صحیح البخاری )

05/11/2024

تعددِ زوجات مردوں کا حق ہی نہیں
بلکہ کبھی ضروری بھی ہوتا ہے جیسے فی زماننا

اس کو اگر ہمارے مسلم معاشرے میں رواج نہیں دیا گیا تو بہت جلد ایسا ماحول ہم دیکھیں گے
جہاں زنا آسان اور نکاح انتہائی مشکل عمل ہوگا

لوگ ایک بیوی کی آڑ میں متعدد عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھیں گے

دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہیں اس لیے نہیں کہ مجاہدین شہید ہو رہے ہیں فقط اس لیے کی ان جانبازوں کی خلا کون پر کرے گا ؟ج...
18/10/2024

دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہیں
اس لیے نہیں کہ مجاہدین شہید ہو رہے ہیں
فقط اس لیے کی ان جانبازوں کی خلا کون پر کرے گا ؟
جبکہ ہم میں سے اکثر مصلحت پسندی کی آڑ میں بزدل بنے بیٹھے ہیں

18/10/2024

دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہیں
اس لیے نہیں کہ مجاہدین شہید ہو رہے ہیں
فقط اس لیے کہ ایسے جانبازوں کی خلا کون پر کرے گا
دراں حالیکہ کہ ہم میں سے اکثر حبِ دنیا اور کراہیت الموت کے سبب مصلحت پسندی کی آڑ میں بزدل بنے بیٹھے ہیں

12/10/2024

🖋️ إبن الحسین قاسمی

بھائی چارہ اگر حدودِ شرعیہ سے متجاوز یا اسلامی تشخصات کو مجروح کرنے جیسا ہو تو پھر ہمیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے

در اصل ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اکثریت کفار و مشرکین کی بستی ہے
ایسے میں ان کے ساتھ الفت و محبت کو باقی رکھنا ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے

لیکن اگر ہم باہمی رواداری کو برقرار رکھنے کی خاطر ان کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں یا ان کو اس موقع سے مبارکباد پیش کرتے ہیں تو یقیناً یہ غلو والا راستہ ہوگا جو مستقبل میں آپ کو اپنے مذہبی تشخصات اور اسلامی شعائر کے ساتھ زندگی گزارنے پر عار دلا سکتا ہے

تاہم اگر ملکِ ہندوستان کی موجود صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس خطرے سے دوچار ہے جس کی ایک بڑی وجہ بھائی چارگی میں راہِ غلو کا اختیار کرنا ہے

حالاں کہ کفار و مشرکین سے باہمی تعلقات کے باب میں شریعت کی مکمل اور واضح ہدایات موجود ہیں
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ}
[آل عمران:28]

ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے،،

اس کی توضیح میں حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کہ کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:
موالات: یعنی دوستی
مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی
مواساۃ: یعنی احسان و نفع رسانی
پھر فرماتے ہیں کہ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے ایک دفعِ ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز (بیان القرآن)

اسی کی بابت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللّٰہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ رواداری،ہمدردی، خیرخواہی، عدل و انصاف اور احسان و سلوک سب کچھ کرنا جائز ہے، بلکہ اس چیز کی تعلیم بھی دی گئی ہے البتہ ان کے ساتھ ایسی گہری دوستی اورخلط ملط جس سے اسلامی احکامات پر عمل میں رکاوٹ اور شرمندگی کا احساس ہو تو جائز نہیں، ایسا قلبی تعلق اورخلط ملط صرف مومنین کے ساتھ ہونا چاہیے (معارف القرآن مخلصاً:۳/۱۶۷)

اب ہندوستان کے بدلتے حالات اور دل خراش واقعات کے پیشِ نظر ہمیں اپنے اور اپنی نسلِ نو کی ایمانی بقاء کی خاطر بھائی چارہ کے سلسلے میں اپنے افکار و نظریات کو عین شریعت کے مطابق کرنا ہوگا، بصورتِ دیگر ہماری موجودہ روش قومِ مسلم کے لیے مزید مہلک ثابت ہوسکتی ہے

لہٰذا ان خطرات کو خود بھی محسوس کیجیے اور اپنے متعلقین کو بھی احساس دلاتے رہیے
تاکہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا ایمان محفوظ رہ سکے

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

ثواب اور ضرورت سمجھ کر آگے ضرور شئیر کریں 👈🏻

جوائن گروپ سلسلہ دینی اقوال و مضامین👇🏻 👇🏻 👇🏻 https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR🖋️ ابن الحسین قاسمیاس بات م...
05/10/2024

جوائن گروپ سلسلہ دینی اقوال و مضامین👇🏻 👇🏻 👇🏻

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

🖋️ ابن الحسین قاسمی

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک پاپردہ عورت کے پیچھے ایک غیرت مند، جرت مند اور باحمیت مرد کی اعلی تربیت اور خاندانی افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ اس کی استقامت قدمی کا بڑا دخل ہوتا ہے

اور جبکہ ایسا حکمِ شرعی جو معاشرے میں عدیم المثال اور غیر نافذ العمل ہو
اس کو عملی جامہ پہنانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے

اس لیے اولاً تو ناقابلِ فراموش اور لائق داد و تحسین ہیں وہ مرد حضرات جنہوں نے اس مشکل ترین امرِ شرعی پر عمل کرتے ہوئے اپنے ماتحت عورتوں پر اس کو نافذ کرکے ان کو عزت و آبرو والا لباس اور وہ تحفظ دیا جو شریعت نے اُنہیں عطاء کی ہے

ثانیاً
وہ بیٹی..................بھی قابلِ تعریف ہے جس نے اپنے والدِ محترم کے سر کو فخر سے بلند اور غیرت کو باقی رکھا

اور وہ بہن................... جس نے اپنے بھائی کو قابلِ فخر زندگی جینے کا حق دیا

وہ ماں................... جس نے اپنے بیٹے کی تربیت کو برقرار رکھنے اور اس کی خوش نصیبی میں اس کا ساتھ دیا

پھر وہ حوصلہ مند بیوی................. جس نے اس حکم کو حکمِ الٰہی سمجھ کر بصدقِ قلب و باطن قبول کرکے اپنے لیے بہترین سامانِ آخرت تیار کیا

گویا ایک باپردہ گھرانہ تشکیل دینے میں جہاں غیرتِ مرداں ناگزیر ہوتی ہیں وہیں بات ماننے والی سنجیدہ مزاج عورتوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے

اور اس طرح سے دونوں اس حکمِ شرعی پر عمل کرکے اپنے لیے ذخیرہ آخرت جمع کر لیتے ہیں مزید یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کو دنیوی عزتیں بھی عطاء کردہتا ہے
نتیجتاً اس طرح کے مرد معاشرے میں سر فخر سے بلند کرکے جینے کا حق رکھتے ہیں

اب چوں کہ اس حکم کے نفاذ میں سب سے بڑا دخل مرد کی مردانگی اور ان کی غیرت و حمیت کا ہوتا ہے
اسی لیے میں نے کہا کہ پاپردہ گھرانہ گھر میں موجود غیرت مند مردوں کی موجودگی کو بتلاتا ہے
جبکہ بے پردگی زمین پر بوجھ بے غیرت مردوں کی طرف اشارہ کرتی ہے

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

نشر کرنا نہ بھولیں 👈🏻👈🏻👈🏻

🖋️ ابن الحسین قاسمیمولانا محمود مدنی صاحب کا حالیہ بیان بھی قومِ مسلم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھئی آج کی جمعی...
27/09/2024

🖋️ ابن الحسین قاسمی

مولانا محمود مدنی صاحب کا حالیہ بیان بھی قومِ مسلم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھئی آج کی جمعیت بد قسمتی سے ماضی کی جاں باز مجاہدین کی جمعیت نہیں ہے

اور اگر یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ جمعیت کی باگ ڈور اب محض ایک خاندان کے ہاتھوں سمٹ کر رہ گئی ہے

جس کی کئی مثالیں گزشتہ کئی عرصوں سے ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں
اس خاندان کے ایک بزرگ اور صدر اعلی مرض الموت میں مبتلاء ہوتے نہیں کہ اسی خاندان کے کسی دوسرے صاحب کو نائب صدر منتخب کردیا جاتا ہے چاہے ان میں اہلیت ہو یا نہ ہو

بہر حال مجھے جو بات اختلاف پر بضد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جمعیت کے وہ عناصر جن پر اس کی عمارت کا وجود ہے وہ
مبہم اور تردد میں ڈالنے والے ہیں

لیکن افسوس کہ اس کے عناصر اور بنیادی مقاصد کو سوچے سمجھے اور جانے بغیر ہم ان بھگتوں کی طرح اس قافلے میں شریک ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں

جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہمیں حکومتی پیمانے پر ہورہے ظلم و جبر کے خلاف خاموش مزاجی سے کام لینا پڑتا ہے
اور دلِ نا خواستہ عدمِ تشدد کا درس دے کر مصلحت مصلحت کی ضربیں لگانی اور لگوانی پڑتی ہے

مجھے افسوس ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ ماضی کے اکابر علماء اور جانبازوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی تاکہ اس سے عموماً سبھوں کو اور خصوصاً ہندی مسلمانوں کو ہر طرح کی آزادی فراہم کرانے اور دلوانے کے میں اس کا قائدانہ کردار کار فرما ہو

لیکن کیا ہی کہنا انہوں نے اپنا خاصہ سرمایہ تو حکمائے وقت کو خوش کرنے اور قومِ مسلم کو وقتی تعاون کے ذریعے تسلی دینے میں صرف کیا ہے
اور کر رہے ہیں
جو ان کا اپنا سرمایہ نہیں بلکہ قوم ہی کا ہوتا ہے

انہوں نے اسلامی سیاسیات کو چھوڑ کر اپنی من پسند اور مفاد پر مبنی سیاست کو اپنا کر مسلمانوں کو کمزور اور مد مقابل ظالم و جابر پارٹیوں کو مضبوط بناکر مسلمانوں پر مسلط کردیا ہے

جمعیت کا یہ خیال کہ صرف *بی جے پی* ہی ظالم ہے اور کانگریس مسلمانوں کا خیر خواہ بالکل غلط اور سو فیصد بے بنیاد ہے
کیوں کہ آزادی کے بعد سے 2014 سے پہلے تک جتنے بھی مظالم ہوئے سب اسی کانگریس کی سرپرستی اور نگہبانی میں ہوئے ہیں

مختصراً اس موقع پر میں یہی کہوں گا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم سیاسی اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہوتے کہ پارلیمنٹ میں ایک کے بجائے کئی لوگ ظلم کے خلاف لڑ سکتے تھے

لیکن جمعیت کی حالیہ دوہرے نظریے نے اکثر اس بات سے لوگوں کی نظریں ہٹانے کی کوشش کی ہے اور
اس بات پر توجہ دی کہ ظالم و جابر حکومت نے کہاں کس وقت مسلمانوں پر ظلم ڈھایا کہ وہاں فوراً کارکنانِ جمعیت مدد کے لیے پہونچے
تاکہ مظلوم مسلمان تا حیات ان کے اس احسان کو فراموش نہ کرنے پائے

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ سیاست سے دوری جمعیت کو مضبوط کرتی ہے
مسلمانوں پر ظلم و تشدد جمعیت کو تقویت پہونچاتا ہے

کیوں کہ اگر مسلمانوں پر ظلم کم ہوگا تو لوگوں میں جمعیت کی شناسائی اور مقبولیت کم ہو جائے گی

(ضمناً ایک بات عرض کردوں کہ جمعیت کے باگ ڈور سنبھالنے والے چاپلوس خاندان سے ہمیں کوئی ذاتی عناد یا بغض نہیں ہے، -بس یہ دین و شریعت کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانا چھوڑ دیں)

بصورتِ دیگر یہ اپنے عناصر کو صحیح طور پر واضح کرکے سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو مضبوط بنانے کے لیے اویسی کو نہ سہی جمعیت سے منسلک حضرات کو ہی اس بات کے لیے تیار کریں کہ وہ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ظلم کے خلاف واضح اسلامی اصولوں کے ساتھ لڑ سکیں اور ظلم کے خاتمے میں مجاہدانہ کردار ادا کرسکیں
پھر انشاء اللہ شانہ بشانہ ہم جمعیت کے ساتھ ہوں گے

سلسلہ دینی اقوال و مضامین کے گروپ کو جوائن کریں 👇🏻👇🏻👇🏻

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

جوائن گروپ سلسلہ دینی اقوال و مضامین👇🏻 👇🏻 👇🏻 https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR🖋️ ابن الحسین قاسمیدنیا کے ...
15/09/2024

جوائن گروپ سلسلہ دینی اقوال و مضامین👇🏻 👇🏻 👇🏻

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

🖋️ ابن الحسین قاسمی

دنیا کے تمام مذاھب میں دینِ اسلام ہی مقبول اور رب تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ مذہب ہے
(آل عمران آیت 19)
علاوہ ازیں ادیان ناقابلِ قبول اور مردود و بے کار ہے
پس معلوم ہوا کہ کائناتِ انسانی میں موجود بے شُمار مخلوقات میں صرف وہی مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک کامیاب و کامران اور راہِ راست پر سمجھی جائے گی جو مذہب اسلام کا پیروکار اور متبع ہوگی
اس کے علاوہ دیگر تمام اقوام راہِ حق سے بھٹکے ہوئے اور گمراہ تسلیم کیے جائیں گے جن کا انجام برا اور ٹھکانہ جہنم ہوگا

اس موقع پر بھی اگر ہم اپنے اللّٰہ کا شکر بجا نہیں لاتے ہیں تو پھر ہم سے بڑا احسان فراموش کوئی نہ ہوگا
جس کے بارے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو “
یہی مضمون قرآن کریم کی آیت «وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ» [17-الاسراء:67] ‏‏‏‏ میں اور آیت «ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ» [10-یونس:22] ‏‏‏‏ میں اور آیت «اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ» [27-النمل:63] ‏‏‏‏

مذکورہ بالا قرآنی آیات کے علاوہ اور بھی متعدد آیات و روایات ہیں جو ہمیں رب تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں پر اظہارِ تشکر سکھلاتا ہے پھر کیوں نہ ہم اس کی طرف سے عطاء کردہ سب سے عظیم دولت و نعمت، دولتِ ایمان کے ملنے پر اس کے حضور شب و روز شکر بجا لائیں
جس کی توفیق کے بعد ہی ہمیں مذہب اسلام جیسا مقدس اور پاکیزہ مذہب ملا جس نے اپنے متبعین کے لیے بنامِ شریعت ایک ایسا منظم اصول و ضوابط فراہم کیا ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلؤوں سے مکمل اور مدلل بحث کرتے ہیں، اس کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ فطرتِ انسانی سے خاصہ مناسبت بھی رکھتے ہیں
جیسا کہ قرآن کریم میں رب تعالیٰ فرماتا ہے
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُون۔ (سورۃ الروم:۳۰)

ترجمہ: تم یکسو ہوکر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو ۔ قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی
یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔)
اس آیت میں فطرت سے متعلق 4 بنیادی حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے
1۔حنیف
2۔فطرت
3۔تبدیلی خلق
4۔ دینِ قیم

لیکن یہاں عنوان کے تحت میں صرف فطرت پر بات کروں گا
تاکہ اس فطرت کی اعلیٰ ترین اور بلند و بالا صفت ٫٫صفتِ غیرت،، کی جانب ہی قلم کا رخ ہو
غیرت چوں کہ ایسی فطرت انسانی ہے جو ہمیں راہِ حق پر مستقیم اور ہر مراحل میں عزت فراہم کرتی ہے
لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص اس فطرت عظمیٰ پر قائم و دائم ہو کر فلاح پالے
بالکل اسی طرح جیسا کہ ہر انسان فطرتاً دین اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں ماحولیاتی اثرات سے متاثر ہو کر فطرت سے کنارہ کش ہوجاتا ہے
جبکہ کامیابی تو یقیناً فطرت پر جمے رہنا ہی ہے

وہ اس طرح کہ اولاً انسان اگر فطرت پر قائم ہوگا تو وہ دین اسلام کی طرف کھینچا چلا آئے گا
اس کے بعد اس کے احکام جو فطرتِ بشریہ کے مطابق انسانوں کی مکمل رہنمائی کرتے ہیں کی طرف دل خود بخود مائل ہوگا اور پھر ان پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا

اب جہاں دین اسلام نے انسانوں کو صحیح راہ دکھلانے کے لیے متعدد احکامات جاری کیا ہے ، وہیں انسانی اور اسلامی شہزادی یعنی عورتوں کی عزت و آبرو کے تحفظ و بقاء کی ضمانت کے طور پر ان کے لیے پردہ کا حکم سنایا ہے

اولاً تو یہ یعنی حکمِ پردہ امر تعبدی ہے جس پر بغیر کسی چوں چراں کے عمل کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے
اور ثانیاً یہ اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے

یہی وجہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی معاشرے کے حساس اور باحمیت لوگ اپنی ماں بہن بیٹیوں اور بیویوں کو گھروں سے نکلنے کو پسند نہیں کرتے تھے، اور اب بھی بے شمار غیر قوموں اور خود ہندوؤں کے یہاں یہ حیاء والا ماحول باقی ہے

اسی لیے میں کہتا ہوں کہ پردہ کا دوسرا نام غیرت مندی ہے
اور غیرتِ انسانی فطرت کا ایک عظیم حصہ اور جزء ہے
اگر انسانوں میں غیرت زندہ ہوجائے تو بے پردگی کی وجہ سے دنیا میں بڑھتی برائیوں پر قابو پانا انتہائی آسان ہوگا

اگر ہم میں کا ہر فرد اس کے نفاذ کی شروعات اپنے گھر سے ہی کردے تو انشاء اللہ چند ہی عرصے بعد اس کا مثبت نتیجہ ہمارے سامنے آنا شروع ہو جائے گا اور ہم خود اس کا مشاہدہ کر سکیں گے

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

نشر کرنا نہ بھولیں 👈🏻👈🏻👈🏻

10/09/2024

فی زماننا اگر معاشرے میں دینی ماحول پیدا کرنا ہو تو تین امور پر کار بند رہنا ضروری ہوگا

1- گھر میں شرعی پردہ کے نفاذ کو یقینی بنانا
2- گھر کے ماتحتوں کو ڈیجیٹل موبائل سے دور رکھنا
3- ایک سے زائد نکاح کو ترجیحاً فروغ دینا (بشرطیکہ ناکِح اہل علم اور صاحب ثروت ہو اور ساتھ منصف مزاج بھی ہو)

🖋️ابن الحسین قاسمی عورت تخلیقی اعتبار سے مردوں کے مقابلے میں نرم و نازک ہوتی ہیں یہی وجہ ہے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایک ع...
31/08/2024

🖋️ابن الحسین قاسمی

عورت تخلیقی اعتبار سے مردوں کے مقابلے میں نرم و نازک ہوتی ہیں
یہی وجہ ہے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایک عورت کو مرد کی شکل میں ایک سرپست و سربراہ عطاء کیا ہے جو اس کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا بہتر انتظام کے ساتھ ساتھ اس کی عزت و آبرو کا محافظ بن سکے

در اصل عورت جہاں جسمانی اعضاء کے اعتبار سے کمزور ہیں وہیں مردوں کے مقابلے عقل و شعور میں بھی کمزور ہوتی ہیں
یہی وجہ ہے کہ عورتیں عموماً بہت جلد کسی فتنے کا شکار ہو جاتی ہیں

فی زماننا مسلم خواتین کا نا سمجھی اور غیر شعوری طور پر وقتی اور جذباتی ناجائز محبتوں میں ملوث ہونا عام چکا ہے
جس کی ایک بڑی وجہ بے پردگی اور مخلوط تعلیم سے آراستگی ہے

ہم نے بحیثیت مرد اپنی عورتوں کی ویسی حفاظت نہیں کی جو شریعت نے ہمیں ذمے داری دی ہے
شریعت نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا تاکہ وہ نامحرموں کی بدنگاہی اور غلط خیالی سے محفوظ رہیں
اور ہم نے انہیں بے پردہ یوں ہی آزاد چھوڑ دیا

یاد رہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ وہ ان کو وہ تحفظ دے سکے جو شریعت نے دی ہے، لاپرواہی کی صورت میں ہم خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے

لہذا ہوش کے ناخن لیں اور اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دیں انہیں بار بار سمجھائیں کہ پردہ قید نہیں بلکہ تُمھارا محافظ ہے
اس کے بغیر عموماً ہر زمانے میں اور بالخصوص اس پر فتن دور میں عزت کا بچالینا بے حد مشکل کیا نا ممکن ہے
اس لیے تم پردہ کرو پردہ تُمھاری ہر موڑ میں حفاظت کرے گا
گویا پردہ عورت کی عزت و آبرو کی بقاء کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی ضرورت ایک جاندار کو کھانے پینے کی ہے

دوبارہ عرض کروں گا کہ اس کی ضرورت کو محسوس کیجیے اور اپنے گھر میں پردے کا نفاذ کیجیے تاکہ ہماری عورتوں کو باعزت اور باوقار زندگی جینے کا حق حاصل ہو

Join group 👇🏻 👇🏻 👇🏻

https://chat.whatsapp.com/HBmOUezB3bvFe7PzGWdhkR

نشر کرنا نہ بھولیں 👈🏻👈🏻👈🏻

Address

Hazaribagh

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ibnulhussainqasmi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ibnulhussainqasmi:

Share