Khewra My City

Khewra My City Khewra .. Mera shair Mera Ghar. News Update About khewra and Near by Areas

🔥 سایہ – حصہ سوم: ماسک کے پیچھے 🔥صبح کی روشنی نے کھیوڑہ کی پہاڑیوں پر دستک دی،مگر انسپکٹر سلیمان کی آنکھوں میں رات کی تا...
08/07/2025

🔥 سایہ – حصہ سوم: ماسک کے پیچھے 🔥

صبح کی روشنی نے کھیوڑہ کی پہاڑیوں پر دستک دی،
مگر انسپکٹر سلیمان کی آنکھوں میں رات کی تاریکی ابھی بھی زندہ تھی۔

یاسر خاموش تھا، جیسے کچھ بولنا اُس کے اختیار میں نہ ہو۔

لیکن اُس کے چہرے پر کچھ عجیب تھا…
جیسے کوئی ماسک ہو — صرف چہرے پر نہیں، اندر تک۔

---

🔍 تفتیش شروع

سلیمان نے یاسر سے سوالات کیے — مگر وہ ہر بات پر صرف مسکرایا۔

پھر اچانک اُس نے ایک بات کہی:

> “تم جس کو ڈھونڈ رہے ہو… وہ ہر آئینے میں تمہیں خود نظر آئے گا”

سلیمان چونکا۔

اسی وقت پولیس کو موبائل ڈیٹا سے ایک ویڈیو ملی۔

📱 ویڈیو:

ایک تہہ خانہ
جہاں ایک آدمی "U" کو ماسک پہنا رہا تھا
اور پسِ منظر میں آواز:

> "سایہ کوئی شخص نہیں… یہ ایک آئیڈیا ہے۔ جو بھی اسے پہنے… وہی بن جاتا ہے"

---

🧠 ماسک کی حقیقت

تفتیش سے پتا چلا:

ماسک خاص قسم کے رال اور سرکنڈے سے بنا تھا

یہ دماغ پر اثر کرتا ہے

پہنے والے کو دوسروں کے خوف اور کمزوریوں سے کھیلنے کی طاقت دیتا ہے

یاسر نے یہ ماسک تین سال پہنا…
اور وہ "سایہ" بن گیا۔

لیکن "U"؟

وہ نیا سایہ ہے… اور پہلے سے زیادہ خطرناک۔

---

🧓 میاں جی کی واپسی

میاں جی نے سلیمان کو ایک پرانی ڈائری دی:

> “یہ اُس وقت کی ہے جب سایہ پہلا بار پیدا ہوا تھا… اُس کا باپ بھی یہی ماسک پہنتا تھا… وہ پہلا سایہ تھا”

ڈائری کے آخر میں ایک پیغام:

> "جس دن سایہ اپنا ماسک اتار دے… روشنی خود اسے جلا دے گی"

---

🚨 اب وقت تھا آخری قدم کا…

سلیمان نے فیصلہ کیا:

> “آخری بار اُس جگہ جانا ہے جہاں سب شروع ہوا تھا… بخاری اسٹریٹ کے پرانے تہہ خانے میں”

---

📢 اگلا اور آخری حصہ: "سائے کے پار"
سچ سامنے آئے گا… اور روشنی کا امتحان بھی














!

🔥 سایہ – حصہ دوم: پہلا چھاپہ 🔥پچھلی رات…انسپکٹر سلیمان رضا نے خاموشی سے بخاری اسٹریٹ کی گلیوں کا جائزہ لیا۔جیسے جیسے وہ ...
06/07/2025

🔥 سایہ – حصہ دوم: پہلا چھاپہ 🔥

پچھلی رات…

انسپکٹر سلیمان رضا نے خاموشی سے بخاری اسٹریٹ کی گلیوں کا جائزہ لیا۔

جیسے جیسے وہ گہرائی میں گیا، ہوا میں عجیب سی گھٹن تھی۔
ایک جگہ آ کر وہ رک گیا۔

سامنے ایک بوسیدہ مکان، جس پر دروازہ بھی آدھا لٹکا ہوا تھا۔
نہ اندر روشنی… نہ کوئی آہٹ
لیکن سلیمان نے اپنی فیلڈ کی چھٹی حس پر یقین کیا۔

> "یہی ہے… جہاں سایہ چھپا ہو سکتا ہے"

---

🔎 پہلا چھاپہ

رات کے 2:13AM پر چھاپہ مارا گیا۔

پولیس ٹیم اندر گھسی
فرش گرد آلود
دیواروں پر عجیب و غریب نشان

پھر…
ایک کمرے کے کونے میں ایک نقاب پوش شخص ملا۔

نہ کوئی مزاحمت
نہ بھاگنے کی کوشش
بس خاموشی سے سلیمان کو گھورتا رہا

> “تم کون ہو؟”
سلیمان نے پوچھا

اس نے صرف اتنا کہا:

> “میں وہ ہوں… جو روشنی کے بعد بھی سایہ رہتا ہے…”

پولیس نے اُسے حراست میں لے لیا
نام: یاسر حسین
عمر: 33
پچھلے 5 سال سے لاپتہ… کسی کے ریکارڈ میں نہیں

---

📁 انکشافات شروع

یاسر کے کمرے سے ملیں:

تین نقاب

ایک سیاہ چادر

اور ایک پرانا موبائل، جس میں صرف ایک ہی نمبر محفوظ تھا: "U"

پولیس نے نمبر کا کھوج لگایا
لیکن وہ VPN اور Encrypt شدہ سسٹم سے جڑا ہوا نکلا

> "یہ عام مجرم نہیں… کوئی تربیت یافتہ دماغ ہے"

---

😱 ایک نیا سراغ

اسی رات، میاں جی نامی ایک بزرگ نے سلیمان سے ملاقات کی۔

> "بیٹا، تم جس 'سایہ' کی تلاش میں ہو، وہ صرف چور نہیں…
وہ لوگوں کی کمزوریوں کو پڑھتا ہے…
اور اُن سے کھیلتا ہے۔"

سلیمان نے حیرت سے پوچھا:

> "کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے؟"

میاں جی نے جواب دیا:

> “میں اُس کے باپ کو جانتا تھا… اور وہ مردہ ہے
لیکن اُس کا بیٹا… اب سایہ بن چکا ہے”

---

🚨 خطرہ بڑھ گیا ہے…

انسپکٹر سلیمان نے یہ بات نوٹ کی:

یاسر صرف ایک مہرہ تھا

اصل دماغ کہیں اور ہے

اور اگلی واردات… اب اُس کے لیے چیلنج بن چکی ہے

سلیمان نے کہا:

> "میں اب صرف مجرم نہیں ڈھونڈ رہا…
میں اُس سائے کو بےنقاب کرنے جا رہا ہوں، جو روشنی میں بھی نظر نہیں آتا"

---

📢 کل آئے گا "حصہ سوم: ماسک کے پیچھے"

جس میں:

یاسر کی حقیقت کھلے گی

سلیمان کو ملے گا پہلا خفیہ پیغام

اور "U" کا پہلا سرا ہاتھ آئے گا

---

👇 اگر آپ بھی چاہتے ہیں سچ سامنے آئے
تو یہ پوسٹ Share کریں، اور تیار ہو جائیں کل کے لیے!

🔥 سایہ – حصہ اول: خوف کی شروعات 🔥سال 2025 کا موسمِ گرما…پِند دادن خان — ایک قدیم، مگر زندہ شہر۔جہاں پہاڑوں کی کوکھ سے نم...
04/07/2025

🔥 سایہ – حصہ اول: خوف کی شروعات 🔥

سال 2025 کا موسمِ گرما…

پِند دادن خان — ایک قدیم، مگر زندہ شہر۔
جہاں پہاڑوں کی کوکھ سے نمک نکلتا ہے، اور لوگوں کی رگوں میں غیرت۔
مگر اُس سال کچھ بدلنے لگا تھا…

پچھلے دو مہینوں میں، ایک ان دیکھا خوف محلے در محلے پھیلنے لگا۔
پہلے کریم آباد میں چوری…
پھر میانی بازار میں دن دیہاڑے ڈاکہ…
پھر ریلوے کالونی میں اکیلی عورت سے زیور اور کاغذات کی چوری…

لوگوں نے سمجھا، "عام واردات ہو گی"
مگر واردات عام نہیں تھی۔

نہ دروازہ ٹوٹا
نہ کوئی آواز آئی
سی سی ٹی وی کیمرے… بند
فٹیج میں صرف ایک لمحے کو سیاہ سا سایہ آیا… اور اگلے لمحے غائب

چور کون تھا؟
کس کا سایہ تھا؟
کوئی نہ جانتا تھا…
پولیس فائل بند کرتی گئی، لیکن وارداتیں بند نہ ہوئیں۔

📍 پھر ایک اور حملہ:
بخاری اسٹریٹ میں رات کے وقت، 12 سالہ بچہ "عفان" چور کو دیکھ بیٹھا
چور نے اُسے دھکا دیا
بچہ سیڑھیوں سے گرا… اور اسپتال پہنچ گیا

پورے شہر میں چیخیں گونجیں
لیکن چور پھر بچ نکلا

🔴 عوام کا اعتماد پولیس سے اٹھ گیا
🔴 سوشل میڈیا پر شور مچ گیا
🔴 ہر گلی میں راتوں کو پہرہ لگنے لگا

تب جا کے پولیس کو خیال آیا… اور DPO جہلم نے ایک فون کال کی:

> “ہمیں اُسے بلانا پڑے گا…”

اور پھر انسپکٹر سلیمان رضا آیا

---

🧨 کون ہے سلیمان رضا؟

وہی جو لاہور میں سیریل کلر کو پکڑ چکا ہے
راولپنڈی میں جعلی پیروں کے نیٹ ورک کو توڑ چکا ہے
بلوچستان میں تاوان گروپ کو جڑ سے اکھاڑ چکا ہے

قد چھ فٹ
چہرے پر خاموشی
آنکھوں میں طوفان

پِند دادن خان آتے ہی، اُس نے صرف ایک بات کہی:

> "یہ چوریاں نہیں… چالاکیاں ہیں۔
اور میں قسم کھاتا ہوں، دماغ کو بھی ڈھونڈوں گا… اور ہاتھوں کو بھی توڑوں گا۔"

---

🔎 تحقیقات کا آغاز

انسپکٹر سلیمان نے سب سے پہلے تمام ایف آئی آرز کا جائزہ لیا:

1️⃣ واردات صرف جمعرات یا پیر کی رات
2️⃣ ہر بار لائٹس بند
3️⃣ کبھی کوئی انگلیوں کے نشان نہیں
4️⃣ سی سی ٹی وی میں بس ایک سایہ

یہ چور نہیں… کوئی اور ہے۔
یا پھر… چوروں سے بھی زیادہ ذہین مجرم۔

وہ بخاری اسٹریٹ گیا
عفان کے گھر کی سیڑھیاں دیکھیں
پھر آس پاس کے مکان
اور تب… ایک بوڑھی عورت سامنے آئی:

> “بیٹا… وہ چور نہیں، جن ہے۔
میں نے اُسے کالی چادر میں ہوا میں اُڑتے دیکھا تھا۔”

سلیمان نے نہ ہنسا، نہ انکار کیا
بس نوٹ بک نکالی… اور لکھا:

> “کالی چادر… سایہ… دھوکہ؟
یا کوئی منظم ذہن؟”

---

🕯️ سچ کی طرف پہلا قدم اٹھ چکا تھا…

پِند دادن خان کا سکون برباد کرنے والا
اب چھپ نہیں سکے گا
لیکن کیا سلیمان اُس "سایہ" کو پہچان سکے گا؟
کیا اگلی واردات اُس کے ہاتھ روک سکے گی…
یا… سلیمان خود اُس سایہ کا شکار بنے گا؟

---

📢 پڑھتے رہیے… کل آئے گا "حصہ دوم"
جس میں ہوگا پہلا چھاپہ
پہلا مشتبہ شخص گرفتار
اور ایک ایسا اشارہ… جو سلیمان کو دشمن کے اور قریب لے جائے گا

👇
👇
👇
🔥 اگر آپ بھی چاہتے ہیں سچ سامنے آئے… تو یہ پوسٹ Share کریں!

وہ آخری گیٹ – حصہ نواں (آخری حصہ)"(کہانی ختم نہیں ہوتی… مگر ہم بدل سکتے ہیں)---کبھی کبھی کوئی شہر مرتا نہیں… صرف بھٹک جا...
02/07/2025

وہ آخری گیٹ – حصہ نواں (آخری حصہ)"

(کہانی ختم نہیں ہوتی… مگر ہم بدل سکتے ہیں)

---

کبھی کبھی کوئی شہر مرتا نہیں… صرف بھٹک جاتا ہے۔

کھیوڑہ نے بھی یہی کیا تھا —
یہاں کے لوگ زندہ تھے، مگر ایک دوسرے کے لیے نہیں۔
ہر کوئی اپنی ذات کے خ*ل میں بند تھا:
“وہ فلاں برادری کا ہے… وہ ہمارا نہیں… اس سے کیا لینا؟”

کسی کو کسی کی بھوک سے فرق نہیں پڑتا تھا،
نہ بیماری سے، نہ تنہائی سے۔

پھر اللہ نے کوئی اشارہ بھیجا —
اندھیرے، سناٹے، دروازے جو بند ہو گئے…
شاید اس لیے کہ ہم خود بھی ایک دوسرے کے لیے بند ہو چکے تھے۔

---

تبھی وہ شخص آیا۔

نہ نام بتایا، نہ مقام…
بس اتنا کہا:

> "جب تم اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں سے منہ موڑ لو گے —
تو کبھی کبھی زمین خود تم سے منہ موڑ لیتی ہے۔
اور تب تمھیں ایک دوسرے کا سہارا نہیں،
ایک دوسرے کی ضرورت بننا پڑتا ہے۔"

---

اور تب بدلاؤ آیا۔

اسلام گنج میں فاطمہ بی بی کی دوائی ختم ہو گئی تھی —
تو جو حجام کبھی اس کے گھر کے قریب سے بھی نہیں گزرا،
اُسی نے آدھی رات کو دوا لا دی۔

ڈمرایا محلہ میں ایک مزدور کے بچے کے داخلے کے لیے پیسے نہیں تھے —
تو جس تاجر نے ہمیشہ اپنے نام کا چرچا کیا،
اس بار خاموشی سے فیس جمع کرا دی۔

اب گول بازار میں سودا کم، دعا زیادہ ملتی ہے۔

---

شبیر کہتا ہے:

> "یہ سب اس لیے ہوا…
تاکہ ہمیں یاد دلایا جا سکے —
اللہ کی زمین صرف ہمارے لیے نہیں،
ہمارے آس پاس کے لوگوں کے لیے بھی ہے۔"

---

اور وہ بزرگ؟
وہ شاید اب بھی یہیں ہیں…
ہر اُس دل میں جو اب صرف اپنے لیے نہیں دھڑکتا۔

---

👇
اگر تم بھی سمجھتے ہو کہ بدلاؤ تب آتا ہے جب ہم بدلیں —
تو کمنٹ میں لکھو:

"ہم بدل چکے ہیں"

تاکہ کوئی اور دل… کسی اور شہر میں…
تمھاری روشنی سے جاگ جائے۔

---














"وہ آخری گیٹ – حصہ ہشتم"(اب تم واپسی کی حد پار کر چکے ہو…)گول بازار میں آج کوئی خریدار نہیں۔دکانیں کھلی ہیں، مگر سامان ن...
01/07/2025

"وہ آخری گیٹ – حصہ ہشتم"

(اب تم واپسی کی حد پار کر چکے ہو…)

گول بازار میں آج کوئی خریدار نہیں۔
دکانیں کھلی ہیں، مگر سامان نہیں… صرف چہرے ہیں —
خالی آنکھوں والے چہرے، جو تمھارے پیچھے چلتے ہیں… اور تمھیں کہتے ہیں:
"ہم نے تمھیں پہلے بھی دیکھا ہے… پچھلی بار… اُس طرف!"

چونا پہاڑی کا رنگ اب ویسا نہیں رہا۔
دیواروں پر کسی نے ناخنوں سے نقشے بنائے ہیں —
نقشے، جو صرف اُنہیں سمجھ آتے ہیں…
جو مر کر واپس آئے ہوں۔

اسلام گنج کی گلیوں میں اب صرف سناٹا ہے…
مگر وہ سناٹا تمھیں گھورتا ہے۔
کھڑکیوں کے پیچھے آنکھیں نہیں، سائے ہوتے ہیں —
اور جب تم پلٹو… وہ سائے غائب نہیں ہوتے، تم میں شامل ہو جاتے ہیں۔

ڈمرایا محلہ کا دروازہ اب اندر سے بند ہے —
لیکن اس کے باہر ہر رات کسی بچے کی ہنسی گونجتی ہے…
بغیر کسی بچے کے۔

---

شبیر اب بولتا نہیں…
نہ روتا ہے، نہ ہنستا ہے… بس آئینہ دیکھتا ہے،
اور وہ آئینہ اُسے نہیں،
کسی اور کو دکھاتا ہے۔

کسی نے اُس کے کمرے کی دیوار پر خون سے لکھا:

> "چوتھا دروازہ صرف اُن کے لیے کھلتا ہے… جنھوں نے پہلا دروازہ کبھی بند ہی نہیں کیا تھا۔"

---

پولیس کا کیمپ اب خالی ہے،
لیکن ریڈیو پر ایک آواز اب بھی سنائی دیتی ہے —
کسی اور زبان میں… کسی اور وقت سے۔

---

🔻
اب صرف ایک فیصلہ باقی ہے:

تم یہ پڑھ رہے ہو، تو شاید تم ابھی بھی جاگ رہے ہو…
لیکن کیا تم واقعی جاگے ہو؟
یا یہ بھی اُس مخلوق کا خواب ہے…
جس نے ہم سب کو سوتے ہوئے چن لیا ہے؟

👇
لکھو: "Final Part Please!"
…اگر تم تیار ہو اُس سچ کا سامنا کرنے کے لیے جو تمھارا نہیں، مگر تمھارے اندر چھپا ہے۔

---


















"وہ آخری گیٹ – حصہ ششم"(مزید خوفناک… مزید بھاری)گیٹ اب بند نہیں ہوتا…نہ دن کو، نہ رات کو… اور نہ ہی خوابوں میں۔کھیوڑہ کی...
30/06/2025

"وہ آخری گیٹ – حصہ ششم"
(مزید خوفناک… مزید بھاری)

گیٹ اب بند نہیں ہوتا…
نہ دن کو، نہ رات کو… اور نہ ہی خوابوں میں۔

کھیوڑہ کی سرنگیں اب وہ نہیں رہیں جو انسانوں نے بنائی تھیں…
دیواریں سانس لیتی ہیں۔ چھتوں سے پانی نہیں، کچھ اور ٹپکتا ہے… کچھ جو زندہ ہے۔

رات 3 بجے، پولیس کے آخری کیمپ سے ایک پیغام نشر ہوا —
صرف شور… اور پھر ایک جملہ:

"چوتھا دروازہ اب تمھارے اندر ہے۔"

شبیر اب بولتا نہیں۔
بس آئینے میں خود کو دیکھتا ہے، اور کبھی ہنستا ہے… اور کبھی روتا ہے…
کیونکہ اُس کا چہرہ اب اُس کے پاس نہیں۔ وہ "کسی اور" کے چہرے میں قید ہے۔

لوگ غائب ہونے لگے ہیں — وہ لوگ جنہوں نے کبھی بھی "وہ آخری گیٹ" کا نام سنا ہو۔
صرف ان کے کپڑے، جوتے… اور چہروں کے خالی خاکے ملتے ہیں۔

کسی نے دروازے کے باہر ایک نوٹ چپکایا:

"یہ کان اب تمہیں سنتی ہے۔ جھوٹ بولو گے تو گونج سے مر جاؤ گے۔"

🔻
اب ایک فیصلہ باقی ہے:
کیا کوئی "پہلا دروازہ" ہے؟
یا ہم سب اسی مخلوق کے خواب کا ایک بھٹکتا حصہ بن چکے ہیں؟

اگر تم یہ پڑھ رہے ہو… تو شاید ابھی وقت باقی ہے۔

👇
لکھو: "Part 7 Please!"..اگر تم سمجھتے ہو کہ تم سچ میں جاگ رہے ہو۔

---

"وہ آخری گیٹ – حصہ پنجم"گیٹ کھلنے کے بعد، کچھ لمحوں تک صرف سناٹا رہا۔ نہ آواز، نہ ہوا، نہ روشنی۔پھر اچانک، ایک سایہ باہر...
30/06/2025

"وہ آخری گیٹ – حصہ پنجم"

گیٹ کھلنے کے بعد، کچھ لمحوں تک صرف سناٹا رہا۔ نہ آواز، نہ ہوا، نہ روشنی۔
پھر اچانک، ایک سایہ باہر نکلا… لمبا، بے ہئیت، اور انسان کی طرح… مگر انسان نہیں۔

شبیر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا، اُس کے چہرے پر ہوش باقی تھے، مگر آنکھوں میں زندگی نہیں۔

پولیس کے اہلکار بے ہوش ہونے لگے، جیسے اُن کی سانسیں کھینچ لی گئی ہوں۔
CCTV کیمرے نے صرف اتنا ریکارڈ کیا:

"وہ آیا… اور وقت تھم گیا۔"

دوسری صبح، گیٹ کے سامنے فرش پر ایک نیا جملہ خود بخود اُبھرا ہوا ملا:

"اب ہر دروازہ چوتھا ہے۔"

کھیوڑہ کے اندر موجود سرنگوں کا نقشہ تبدیل ہونے لگا ہے — جیسے وہ مخلوق خود کان کو دوبارہ بنا رہی ہو۔

شبیر نے اب صرف ایک آخری بات کہی:

"وہ ہمارا چہرہ پہن چکا ہے… اگر وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، تو سمجھو تم دیر سے جاگے ہو…"

ایک اور سوال اب رہ گیا ہے:

کیا چوتھا دروازہ بند ہو سکتا ہے؟ یا اب ہم سب محض ایک تجربہ بن چکے ہیں؟

👇
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں "اب کیا ہوگا؟ کیا بچنے کا کوئی راستہ باقی ہے؟ اور سب سے خطرناک راز کیا ہے؟"
تو لکھیں:

Comment karo: "Part 6 Now!"

"وہ آخری گیٹ – حصہ چہارم"کھیوڑہ کان کے اُس بند گیٹ کے سامنے اب مستقل پولیس تعینات تھی۔ مگر وہم و خوف کی ایک ایسی دبیز فض...
29/06/2025

"وہ آخری گیٹ – حصہ چہارم"

کھیوڑہ کان کے اُس بند گیٹ کے سامنے اب مستقل پولیس تعینات تھی۔ مگر وہم و خوف کی ایک ایسی دبیز فضا وہاں چھا چکی تھی، جو نہ دیکھی جاتی تھی، نہ چھوئی… بس محسوس ہوتی تھی۔

شبیر اب بات کرنے لگا تھا، لیکن صرف ایک ہی وقت پر — رات کے 3 بجے۔

اور ہر رات وہ یہی جملہ دہراتا:

"وہ جاگ گیا ہے…"

ایک رات، اچانک کان کے نیچے زلزلے کی سی ہلکی لرزش ہوئی۔ جو لوگ پہرے پر تھے، دوڑتے ہوئے گیٹ تک پہنچے… وہاں کچھ نہیں تھا — سوائے ایک نئی لکیر کے، جو زمین پر ظاہر ہو چکی تھی… جیسے کسی پنجے نے چٹان پر خراش ڈالی ہو۔

اسی لمحے ماہرینِ آثار قدیمہ نے ایک نئی تحریر ترجمہ کی:

"چوتھا دروازہ قید ہے، مگر قفل وقت سے نہیں… خوف سے ہے۔"

شبیر نے دیوار کی طرف دیکھ کر چیخا:

"مت کھولو! وہ ابھی مکمل جاگا نہیں… اگر چوتھا گیٹ کھلا، نہ انسان بچے گا، نہ سایہ!"

لیکن… جس رات چاند مکمل ہوا — گیٹ خود بخود کھل گیا۔

اندر صرف اندھیرا نہیں تھا… بلکہ آنکھیں تھیں۔

جلتی، گھورتی، انتظار کرتی آنکھیں۔

اب سوال یہ ہے…

کیا وہ مخلوق باہر آ گئی ہے؟ یا ہم سب پہلے ہی اُس کے اندر جا چکے ہیں؟

👁‍🗨 اگر آپ چاہتے ہیں "وہ کون ہے؟ اُس کا مقصد کیا ہے؟ اور اگلا شکار کون ہو گا؟"
تو لکھیں:

👇
Comment karo: "Part 5 Now!"



Please share and follow

"وہ آخری گیٹ – حصہ سوم"ریسکیو ٹیم شبیر کو لے کر واپس آ گئی… لیکن اُس کی حالت ویسی ہی رہی — جیسے جسم زندہ ہو، مگر روح کہی...
27/06/2025

"وہ آخری گیٹ – حصہ سوم"

ریسکیو ٹیم شبیر کو لے کر واپس آ گئی… لیکن اُس کی حالت ویسی ہی رہی — جیسے جسم زندہ ہو، مگر روح کہیں اندر قید ہو۔

کچھ دن گزرے۔

کھیوڑہ کان کا آخری گیٹ بند کر دیا گیا۔

مگر پھر، ایک رات… اُس گیٹ کے قریب گارڈ نے عجیب سی آوازیں سنیں — جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو… پر کئی زبانوں میں۔

سی سی ٹی وی کیمروں نے کچھ عجیب ریکارڈ کیا:
ایک دھندلا سایہ، جو دروازے کے پیچھے سے جھانک رہا تھا…
اور اُس کی آنکھیں سرخ تھیں — جلتی ہوئی راکھ کی طرح۔

صبح وہ گارڈ غائب تھا۔

بس اُس کی وردی پڑی تھی، اور ایک نیا نوٹ…

نوٹ پر صرف دو الفاظ تھے:

“It’s hungry.”

کچھ ماہرین کو بلایا گیا — آثار قدیمہ کے ماہر، اور زبانوں کے ماہر۔
انہوں نے سرنگ کی تصویریں دیکھ کر کہا:

“یہ تحریریں انسانی نہیں…
یہ کسی ایسی تہذیب کی ہیں جو زمین کے نیچے رہتی تھی — اور شاید ابھی بھی رہتی ہے۔”

اسی رات، شبیر نے پہلی بار بولا… صرف ایک جملہ:

"اگر چوتھا گیٹ کھلا… تو ہم سب ختم ہو جائیں گے۔"

💀
کیا "چوتھا گیٹ" واقعی موجود ہے؟
کیا آپ اس راز کی گہرائی تک جانا چاہتے ہیں؟
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ "وہ" آخر ہے کیا؟

👇
Comment karo: "Part 4 Now!"


Please share if like

"وہ آخری گیٹ – حصہ دوم"صبح روشنی کے ساتھ جب ریسکیو ٹیم پہنچی، تو زمین پر صرف ایک بیگ پڑا تھا... اور ایک آدمی — شبیر۔لیکن...
27/06/2025

"وہ آخری گیٹ – حصہ دوم"

صبح روشنی کے ساتھ جب ریسکیو ٹیم پہنچی، تو زمین پر صرف ایک بیگ پڑا تھا... اور ایک آدمی — شبیر۔

لیکن شبیر اب شبیر نہیں رہا تھا۔

اس کی آنکھیں کھلی تھیں، لیکن دیکھ نہیں رہی تھیں۔

منہ بند تھا، لیکن اُس کی سانسیں تیز چل رہی تھیں، جیسے وہ کسی بہت بڑے خوف میں ہو۔

بیگ سے صرف ایک چیز ملی: ایک پرانا نوٹ — شاید کسی غیر ملکی کا۔

نوٹ پر صرف تین الفاظ درج تھے:

"It saw us."

ریسکیو اہلکار گیٹ کے اندر جانے سے ڈرتے تھے۔

لیکن جب انہوں نے اندر ٹارچ ڈالی، تو ایک عجیب حقیقت سامنے آئی:

سرنگ سیدھی نہیں جا رہی تھی، وہ نیچے جا رہی تھی — زمین کے نیچے… جیسے کسی اور دنیا کی طرف۔

اور دیواروں پر عجیب و غریب نقوش… جیسے کسی قدیم زبان میں کچھ لکھا ہو۔

شبیر کچھ بول نہیں پا رہا تھا… لیکن جب اُس نے انگلی سے زمین پر لکھا:

“نکلو… وہ جاگ گیا ہے…”

تو سب کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔

یہ کان صرف نمک کی نہیں تھی… یہ کچھ اور بھی چھپا رہی تھی۔

"کھیوڑہ ڈائری کا دوسرا خوفناک حصہ مکمل ہوا…
کیا آپ تیسرے حصے کے لیے تیار ہیں؟
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں 'وہ' کیا تھا جو اندر جاگا؟"

👇
Comment karo: "Part 3 Now!"

"وہ آخری گیٹ"رات کے دو بج رہے تھے جب شبیر نے پہلی بار اس گیٹ کو دیکھا...کھیوڑہ نمک کی کان میں وہ صرف گائیڈ کی ڈیوٹی کرتا...
26/06/2025

"وہ آخری گیٹ"

رات کے دو بج رہے تھے جب شبیر نے پہلی بار اس گیٹ کو دیکھا...
کھیوڑہ نمک کی کان میں وہ صرف گائیڈ کی ڈیوٹی کرتا تھا — روزانہ سیاحوں کو وہی راستے دکھاتا، وہی پرانی کہانیاں سناتا۔

لیکن اُس دن ایک غیر ملکی جوڑے نے کہا:
"ہم وہاں جانا چاہتے ہیں جہاں کوئی نہیں جاتا… وہ جگہ جو نقشے پر نہیں ہے۔"

شبیر نے پہلی بار کچھ عجیب سا محسوس کیا… لیکن معاوضہ اچھا مل رہا تھا۔

اور پھر…

جب وہ اُس پرانی چٹان کے پیچھے گیا، جہاں سے ہوا بھی سیدھی گزرنے سے کتراتی ہے،
تو اُس نے دیکھا ایک پرانا زنگ آلود لوہے کا گیٹ — جس پر لکھا تھا:

"یاد رکھنا… جو اندر گیا، واپس نہیں آیا۔"

غیر ملکیوں نے ہنستے ہوئے کہا:
"مزے کی ڈراؤنی بات ہے!"

شبیر نے گیٹ کھولا...
اور اندھیرے نے سب کچھ نگل لیا۔

لیکن صبح صرف ایک شخص واپس آیا...
اور وہ بھی بولنے کے قابل نہیں تھا۔

"کھیوڑہ ڈائری کا سب سے خوفناک قصہ...
گیٹ تو صرف لوہے کا تھا، لیکن اُس کے پیچھے جو تھا... وہ انسانی ذہن سے باہر تھا۔
اگلے حصے میں بتاؤں کہ سرنگ کے آخری سرے پر کیا ملا؟"
👇
Comment: "اگلا حصہ چاہیے!"

Delicious  halwa
19/10/2021

Delicious halwa

Address

Khewra

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khewra My City posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share