Irfan E Anwaar Monthly

  • Home
  • Irfan E Anwaar Monthly

Irfan E Anwaar Monthly Welcome To The Official page Of Irfan E Anwaar Monthly

11/07/2025
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میںنظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں!مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری(ایڈیٹر ماہن...
11/07/2025

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں!

مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)

یہ بات مسلمہ ہے کہ ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِ عمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن، انسانی ہمدردی، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی اور عملی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت، معاشرت اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا، جھوٹ، فریب، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہوسکتا۔ اس میں معروف، بر، خیر، فلاح، حیا، نیکی، ایفائے عہد، معاشی، اخلاقی اور قانونی پیمانوں کا احترام لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری، ذمہ دارانہ طرزِ عمل، حیا اور ایمان داری کے لئے مثال بنا رہا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گاہک نے ایک ہندو ساہوکار (دکاندار) سے کہتا کہ ’’فلاں دوکان پر اس شے کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہتے میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہوگا، آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔ گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ سے واضح ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں، اس میں ایمان نہیں"۔ لیکن یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے، آزادی حاصل کرلی اور گذشتہ دو عشروں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے۔ ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی، خواتین کی بے حُرمتی، خود کشی اور نشہ آور اشیاء کے کاروبار اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیائوں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمہ دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں۔
نسل نو کی دین سے بے رغبتی کا سبب: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محبوب حقیقی سے لو لگانے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔ اللہ والے چہرے کم دیکھنے کو مِل رہے ہیں، خوفِ خدا دل میں پیدا کرنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اصلاح کرنے (ٹوکنے والے) "ہوشمندوں کی زبان تو کیا آنکھیں چُپ ہیں" کے مصداق خاموش ہیں کیونکہ شائد ان کی سوچ میں تبدیلی نے انہیں یہ کہنے پر آمادہ کیا کہ "یہ زمانہ کسی کو ٹوکنے کا ہے ہی نہیں" کیونکہ ہم ایسے المیہ دور سے گذر رہے ہیں کہ کہ اصلاح (ٹوکنے) کرنے والوں کو ہی لوگ غلط ہے کہنے میں عار تک محسوس نہیں کرتے۔ یہ بڑا لمحہ فکریہ ہے اور نئی نسل کے دین سے تنافر اور بے رغبتی کے کیا اسباب ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری دکان میں وہ مال ہی نہیں جس کی طلب کے لئے خریدار دور دور سے کشاں کشاں آیا کرتے تھے۔ گو کہ نماز پنجگانہ بھی ادا کی جاتی ہے، تلاوت بھی ہوتی ہے محفل ذکر میں یادِ الہٰی کی گونج بھی سنائی دیتی ہے مگر وہ ذوق و شوق اور لذت نصیب نہیں۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: اَلَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ0 ’’سن لو اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (سورۃ الرعد: ۲۸) یہ فرمان الہی خبردار کرکے آگاہ کررہا ہے کہ ذکر الہٰی سے ہی دلوں کو سکون کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ قرآن کا وعدہ سچا ہے مگر سکونِ دل کہاں ملتا ہے؟ یہاں یہ سوال مسلسل قلب و ذہن کو پریشان کرتا ہے نئی نسل کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطراب کا کیا علاج کیا جائے۔ اگر سکون اور اطمینان مفقود ہوں اور روح میں اضطراب اور بے چینی ہو تو نماز، روزہ اور اللہ کی یاد میں دل نہیں لگتا اور بہت سے لوگ اذانیں سننے کے بعد بھی مسجد کے اندر قدم رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عصر حاضر کے مسلمان کے ایمان و اسلام کو جذباتی سطح کے حملے سے بچانے کے لئے ہٹ دھرمی اور انانیت کو چھوڑ کر تمام توانائیاں یکجا کی جائیں تاکہ اس طوفان کے آگے بند باندھا جاسکے جو ہماری پوری نسل کو لپیٹ میں لینے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے۔
اصلاحِ احوال کیسے ہو؟: اسلام ایک جامع، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں اطاعت و فرمانبرداری، حیا، عدل، احترام، ادائیگی حقوق، تحفظ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہ اس سلسلے میں ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن جتنی ذمہ داری مدارس و علماء پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی یہ معاشرے کے تمام کار فرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے اور سب کا فرض ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ گھر اور خاندان: ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فراری ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا، تایا، نانا، ماموں، خالہ و دیگر رشتوں) سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر تنخواہ کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انہیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انہوں نے اپنے اسکول یا کالج میں دن کیسے گزارا، دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ اساتذہ سے کیا بات ہوئی، پڑھائی کے علاوہ انہوں نے ان کے ساتھ تربیتی و اصلاحی گفتگو کی بھی ہے یا نہیں، ان کے روشن مستقبل کے لئے کچھ ذہن سازی کی بھی ہے یا نہیں، یا صرف استاذ پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے صرف سبق پڑھایا اور چھوڑ دیا۔ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کرنے کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں۔ خاندان کا نظام سُکڑ کر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی، نانا، نانی، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور کچھ سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا۔
تعلیم گاہ: جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لئے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی، تربیتی، قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔ چنانچہ یہ تعلیمی ادارے جن کے بارے میں اپنی ایک تقریر میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے کہا تھا کہ آج یہ تعلیمی ادارے تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہورہے ہیں۔ ہماری قوم کے نسلوں کو دین سے دور کرنے کا منصوبہ بند طریقے سے نظام چل رہا ہے۔ اس نظامِ تعلیم میں محض "دینیات" کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ سمجھنا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ اگر اسکول کی بارہ سالہ تعلیم اور کالج کی چار، پانچ سالہ تعلیم میں روزآنہ آدھا گھنٹہ یا ہفتہ میں بہ مشکل چُھٹی کے دن پچاس منٹ، ایک گھنٹہ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں، دعائیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو اس طرح طالب علم اسلام کے منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا؟ کیا بہ حیثیت مسلمان دینی احکام سیکھنے، سمھجنے کے لئے اور اسے اسلامی زندگی گذارنے کے لئے یہ عمل اور وقت کافی ہوگا؟ کیا ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موجزن ہوجائے گا؟ نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لا دینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہر پیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن، دھوکا دہی، جھوٹ، غیبت اور بہت سے برائیوں بدعنوانی کی طرف آسانی سے چلے جانے کا راستہ فراہم ہوسکتا ہے۔ والدین کا کردار: والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لئے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انہیں اپنے ساتھ بٹھاکر قرآن و سنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہوگا۔ یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا، بلکہ عملی طور پر خود اولاد سے قرآن و سنت کے کسی حصے کا مطالعہ کروا کر ایک غیر رسمی مکالمہ کی شکل میں کرنا ہوگا۔ کوشش کیجئے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غور و فکر کی عادت کو اپنائیں اور اس طرح اپنے دماغوں کو دینی، اسلامی اخلاقیات اور پیغام سے منور کریں۔ یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ بلاشبہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کیا ہوا ہے۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر اور اپنے بہتر روشن مستقبل بنانے بطور ہدف اور ترجیح موجود ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے والدین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ابلاغ عامہ: یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ پندرہ، بیس برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انہوں نے ہر جانب سے مغربی اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریحی پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد، اسلامی موضوعات پر رمضان کے دوران لڑکوں، لڑکیوں کو زرق برق لباسوں کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کُھلتی۔ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا، جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبائش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا ذمہ دار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتے ہیں، یعنی تعلیم، والدین کی عدم توجہی، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علماء اور راہبوں کو قرار دیا، جنہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں، حرام کا ارتکاب کر رہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً بُرے اعمال میں ان کی مدد کی۔ آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کرلیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کو تعمیری کام کے لئے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات، ایک دوسرے پر لعن طعن، یا لطیفے اور افراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن، حیا، پاکیزگی، رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لئے تدابیر کی جائیں اور اس سلسلے میں حکمت کے ساتھ سخت اصول و آداب سے کام لیا جائے اور عوام و خواص کو آج اخلاقی مسائل کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اصلاحِ احوال کے لئے علماء و مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف جد و جہد میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا۔ معاشرے میں انقلاب کیونکر ممکن ہے؟: آج اگر ہم اپنے بگڑے ہوئے معاشرے میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ایسا صرف مصطفوی طریقِ تربیت کو اپنا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو رشد و ہدایت کے مراکز کی طرف لانے کے لئے لازمی ہے کہ وہ دنیا و ماسوا کو بھول کر یادِ محبوب میں محو ہوجائیں اور ہر چیز سے بیگانہ ہوکر اسی کی لذت و حلاوت میں ڈوب جائیں۔ آج ملت کے دینی روح کے مضطرب تاروں کو ہلانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان تاروں کو چھیڑ کر اُلوہی ذکر کے نغمے نہیں الاپے جائیں گے اور اللہ کی ضربیں دل پر پیہم نہ لگائی جائیں گی، اس زنگ کا دور ہونا ممکن نہیں۔ رسول کریم ﷺ کی نعتوں کے سُر سے سُر ملائے جائیں، شب بیداریوں کا اہتمام کیا جائے، رسول کریم ﷺ کی مدحت سرائی کی محفلیں منعقد کی جائیں اور لحن داؤدی کی سرمدی میں ذکرِ محبوب ﷺ کو بلند سے بلند تر کیا جائے۔ سینوں میں عشق حبیب کبریا ﷺ کے ایسے چراغ روشن کئے جائیں جو اس حد تک سوز پیدا کردے کہ اس کے بغیر یوں کیفیت ہوجائے جس طرح پانی کے بغیر مچھلی کی ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی ہر مریض کا علاج مرض کی نوعیت سے قطع نظر ایک ہی دوائی سے کرنا شروع کردے تو اس سے مریض کو بجائے فائدے کے نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات غلط دوائی کے استعمال سے جان بھی جاسکتی ہے۔ اگر کسی مریض کو عمل کا عارضہ لاحق ہو تو اس کے لئے نسخۂ عمل تجویز کیا جائے گا تاکہ ان کوتاہیوں اور کمزوریوں پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن اگر کوئی مریضِ عشق ہے تو اس کا علاج عارض و گیسو اور حسن و سراپائے مصطفی ﷺ کا ذکر جمیل چھیڑ کر کیا جائے گا اور اس کے جذبہ عشق کی تسکین کے لئے رسول کریم ﷺ کے دیدار فرحت آثار کی باتیں کی جائیں گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ باطل کے حملوں سے دفاع کے لئے عشقِ الہٰی اور عشقِ مصطفی ﷺ کے سوز و ساز سے ایمانی جذبے کو استحکام و دوام عطا کیا جائے۔
طریقِ تربیت نبوی ﷺ کی ضرورت: یہ بات مسلمہ اور طے شدہ ہے کہ ہماری نئی نسل نے دین کو نہیں بلکہ دین کے ان نام نہاد علم برداروں کو مسترد کیا۔ جو دین کے نام پر دین سے دور کرنے سبب بنتے ہیں۔ لیکن جو خالص دین سے بہرور کرکے اللہ سے تعلق جوڑتے ہیں انہیں کبھی فراموش بھی نہیں کیا۔ لیکن دوسری طرف نوجوانوں کے سیرت و کردار سے پاکیزگی اور عفت و طہارت چِھن گئی ہے اور اس کی جگہ عیش کوشی نے لے لی ہے۔ اس میں قصور ان نوجوانوں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے جو ان کے مرض کا صحیح طریقے سے علاج نہیں کرتے۔ رسول کریم ﷺ نے مثالی تربیت اور حکمت و تدبر سے سر سے پاؤں تک گمراہ اور بھٹکے ہوئے انسان کی رغبت، چاہت اور دِگر گوں احوال کی سمت کو اس طرح بدل دیا کہ اس کے قلب و ذہن اور وزاویہ نگاہ میں ہمہ جہت انقلاب برپا ہوگیا۔ اس نبوی طریق کار کی پیروی ہر دور میں اولیائے کرام، صوفیائے عظام اور اہل اللہ نے کی اور سینکڑوں انسانوں کی زندگیوں کو انقلاب آشنا کردیا۔ آج بھی اسی طریق تربیت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا0 ’’اے نبِیّ مکرّم ﷺ! بے شک ہم نے آپ ﷺ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور حُسنِ آخرت کی خوشخبری دینے والا اور عذابِ آخرت کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔" (سورۃ الاحزاب: ۴۶) قارئین کرام! رسول کریم ﷺ سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ رسول کریم ﷺ کی ذات اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کی مظہر ہے۔ رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی عبدیت میں تمام مخلوق سے بلند و بالا ہیں اور جِنّ و انس اور کائنات پر آپ ﷺ کی نوازشیں بھی سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپ ﷺ کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دین ملا جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ آپ ﷺ سے توحید و سنت کا درس ملا۔ آپ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ملا۔ آپ ﷺ نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا راستہ بتلایا۔ آپ ﷺ نے انسانوں کو کُفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کے روشن راستے پر ڈالا۔ دنیا لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا شکار تھی، لوگوں کے لئے دنیا جہنم بن چکی تھی، لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ بھوک، ننگ اور ذہنی پستی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ0 ’’اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو‘‘۔ قولوا۔ لا الٰه الا اللّٰہ تفلحوا. ’’لا الٰه الا اللہ کہو، کامیاب ہوجاؤ گے‘‘۔ آپ ﷺ نے یہ نسخۂ کیمیا انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ لوگوں نے اس پر آمنّا وصدقّنا کہا تو ان کو زندگی مل گئی۔ اور ایسی زندگی ملی کہ وہ امن و سکون اور راحت سے سرفراز ہوئے۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے، ایک دوسرے کے غم گُسار اور مدد گار ہوگئے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ ایک دوسرے کے لئے ایثار کرنے والے بن گئے۔ رسول کریم ﷺ کی ذاتِ با برکت ہر لحاظ سے محبت کی مستحق ہے اور مُحب اپنے محبوب کی مرضی پورا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ رسول کریم ﷺ سے شعوری محبت ہو تو مومن آپ ﷺ سے محبت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی اطاعت بھی کرے گا۔ آپ ﷺ کے دین سے بھی محبت کرے گا، آپ ﷺ کے مقصدِ بعثت سے بھی محبت کرے گا۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا کہ آپ ﷺ کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهِ0 (سورۃ التوبه: ۳۳) ’’اللہ کی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کریم ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اس لئے بھیجا ہے کہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے‘‘۔ رسول کریم ﷺ سے شعوری محبت رکھنے والا اسلامی احکام کا پابند ہوگا، فرائض و واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا اور منکرات اور مکروہات سے بچنے والا ہوگا۔ اس کی زندگی ایک پاک باز انسان کی زندگی ہوگی۔ رسول کریم ﷺ کی محبت کے دعوے داروں کو سوچنا چاہئے کہ آیا وہ آپ ﷺ کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہے ہیں؟ کیا اس مشن کے لئے جس کے لئے رسول کریم ﷺ نے مکی زندگی میں تکلیفیں اُٹھائیں، مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، بدر و اُحد، اَحزاب و حُنین اور تبوک کے معرکوں میں جان کی بازی لگائی، اس کے لئے وہ پُرجوش اور پُر عزم ہیں اور اس کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنے آپ کو مکہ کی گلیوں، طائف کی وادیوں اور بدر و اُحد اور تبوک کے پُر مشقت راستوں میں پاتے ہیں؟ کیا اپنے معاشرے میں اسلامی طرزِ زندگی قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں؟ سود، جُوے، جھوٹ و چغلی، رشوت، شراب، فحاشی و عریانی اور دین کی تذلیل کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی باتیں ہیں۔ اگر ہم رسول کریم ﷺ کی اتباع کر رہے ہیں تو اس پر شکر بجا لانا چاہئے اور اتباع میں آگے بڑھنا چاہئے اور اگر کچھ کمی ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہئے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرنا چاہئے اور ملت اسلامیہ کو اسلامی بنانے کے لئے بھر پور جد و جہد کرنا چاہئے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم رسول کریم ﷺ سے محبت کا حق ادا کرسکتے ہیں اور آپ ﷺ کے احسانات کی قدر اور شکرانہ ادا کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکت سے ہماری نسبت و تعلق کو مستحکم فرمائے۔ (آمین)

10/07/2025

Address


Telephone

+919949071786

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Irfan E Anwaar Monthly posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Irfan E Anwaar Monthly:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share