Welcome To The Official page Of Irfan E Anwaar Monthly
20/09/2025
19/09/2025
شمائل نبویؐ: حُسنِ سراپائے رسول ﷺ
قرآن کریم کے حسین پیرائے میں
مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار) (۲)
ﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو جو فضائل و محاسن عطا فرمائے ہیں کتاب وسنت نے انہیں بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک تمام علمائے اُمت نے ان کو حرزِ جاں بنایا ہے اور حق تو یہ ہے کہ ان سے غفلت برتنا یا ان کو اہم تصور نہ کرنا شرعآ بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن کریم نے یہود کی برائیوں میں سے اہم برائی یہ بیان کی ہے کہ وہ آپ ﷺ کے فضائل کے بیان کو پسند نہیں کرتے تھے۔ امام ابوبکر الاجری فضائلِ نبی ﷺ سے غفلت برتنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دنیا و آخرت میں جو فضائل و محاسن، خصائص اور کمالات عنایت فرمائے ہیں ان سے جہالت (بے خبری) مسلمانوں کے لئے انتہائی مکروہ اور قبیح ہے۔ (الشریعة، ج۔ ۳، ابوبکر محمد بن الحسین الاجریؒ۔ مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیة، ص: ۱۳۸۵) آئمہ کرامؒ کا اجماع ہے کہ شمائل و خصائل نبی ﷺ مظہرِ ایمان ہے۔ اس ضمن میں ایک اصول اور نسخہ کیمیا ہے جسے ہر شخص اپنے ایمان کی پہنچان کے لئے بروئے کار لاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ فخرِ موجودات، سرور کونین ﷺ کے ذکر جمیل سے اس کا ظاہر و باطن کیا اثر قبول کرتا ہے؟ اگر آپ ﷺ کے سراپا مبارک، حسن و جمال اور شمائل و فضائل کے ذکر سے کوئی انسان اپنے دل کے اندر راحت و فرحت محسوس کرے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے دل کی زمین بحمدہ تعالٰی ایمان سے شاداب و آباد ہے کیونکہ دل کی زمین کی صفائی اور نظافت و پاکیزگی آپ ﷺ کی ذات و صفات سے محبت ہی سے ممکن ہے اور اسی سے ایمان کا پودا نمو پاکر سایہ دار شجر کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر ذکرِ مصطفوی ﷺ سے دل لذت و حلاوت کی بجائے معاذ اللہ اُکتاہٹ، بے رغبتی اور بیزاری محسوس کرے، حُلیہ مبارک اور شمائل نبوی ﷺ کے بیان سے طبیعت کو فرحت و قرار، سرور و انبساط کے بجائے وحشت و تکدر ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا خانۂ دل آقائے دوجہاں، حبیب کبریا ﷺ کی محبت و الفت سے خالی ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ حضرت سیدنا انسؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: حضرت سیدنا انسؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تر ہوجاؤں۔ (صحیح البخاری، ۱۵/۲۶۔ الرقم: ۲۰۰۳) قرآنی آیات کی روشنی میں شمائل نبوی ﷺ کا مختصر جائزہ و تذکرہ کریں لکھنے، پڑھنے، سننے، سنانے کا شرف حاصل کریں تاکہ ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی میسر ہوجائے۔ رسول کریم ﷺ صاحب کوثر: اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی کو پوری دنیا کی راہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کے اس منصب جلیلہ کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ ﷺ کی زندگی ہر لحاظ سے ایک کامل نمونہ ہوتی۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحتِ فکر سے لے کر صحتِ ذہن و بدن تک رسول کریم ﷺ کی تمام زندگی ایک ایسا خوبصورت مرقع ہے جس کی مثال نہ تو آج تک کسی آنکھ نے دیکھی اور نہ ہی دیکھ سکے گی۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّآ اَعْطَيْنٰك الْكوْثَرَ0 بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیرِ کثیر فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ (سورۃ الکوثر: ۱) کوثر سے مراد حوضِ کوثر یا نہرِ جنت بھی ہے۔ قرآن اور نبوت و حکمت بھی، فضائل و معجزات کی کثرت یا اصحاب و اتباع اور امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے۔ رفعتِ ذکر اور خلقِ عظیم بھی مراد ہے اور دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی، نصرتِ الہٰیہ اور کثرتِ فتوحات بھی مراد ہیں اور روزِ قیامت مقامِ محمود اور شفاعتِ عظمیٰ بھی مراد لی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فضائلِ کثیرہ عنایت کر کے تمام خلق پر افضل کیا۔ حُسنِ ظاہر بھی دیا۔ حُسنِ باطن بھی، نسبِ عالی بھی تاجِ ختم نبوت بھی، کتاب بھی، سرور انبیاء بھی، سرور کائنات بھی، حکمت بھی، علم بھی، شفاعت بھی، دیدار حق تعالٰی بھی، حوضِ کوثر بھی، مقامِ محمود بھی، کثرتِ امت بھی، اعداء دین پر غلبہ بھی، کثرتِ فتوحات بھی اور بے شمار، نعمتیں اور فضیلتیں جن کا شمار ممکن ہی نہیں
بعد از خدا بُزرگ توئی قصہ مختصر
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ہم میں تشریف فرما تھے، اچانک آپ ﷺ کو اُونگھ آ گئی (جو کہ نزولِ وحی کی کیفیات میں سے ایک کیفیت تھی)، پھر آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے سر اُٹھایا تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کس چیز نے آپ ﷺ کو ہنسایا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی مجھ پر یہ سورۃ مبارکہ نازل ہوئی: "بے شک ہم نے آپ ﷺ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے) بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔" (سورۃ الکوثر: ۱،۲،۳) پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوثر وہ نہر ہے جس کا میرے ربّ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اِس میں خیر کثیر ہے، وہ ایک حوض ہے جس پر میری اُمت کے لوگ قیامت کے دن پانی پینے کے لئے آئیں گے، اِس کے برتن ستاروں (کی تعداد) کے برابر ہیں۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب حجة من قال البسملة آية من أول کل سورة، ۱/۳۰۰، الرقم: ۴۰۰، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الحوض، ۴/۲۳۷، الرقم: ۴۷۴۷، والنسائي في السنن، کتاب الافتتاح، باب قراء ة، ۲/۱۳۳، الرقم: ۹۰۴، وأحمد بن حنبل في المسند، ۳/۱۰۲، الرقم: ۱۲۰۱۵، وأبو يعلی في المسند، ۷/۴۰، الرقم: ۳۹۵۱، والبيهقي في شعب الإيمان، ۲/۴۳۴، الرقم: ۲۳۱۷، والقرطبي في الحوض والکوثر، ۱/۹۸، الرقم: ۳۵) حضرت عبداللہ بن عباسؓ ’’سورہ کوثر‘‘ کی تفسیر بیان فرماتے ہیں کہ اِس سے مراد ’’خیر کثیر‘‘ ہے (جو صرف آپ ﷺ کو ہی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے)، امام محاربؒ نے فرمایا: سبحان ﷲ، حضرت عبد ﷲ بن عباسؓ سے بہت کم ہی کوئی بات چھوٹتی ہے۔ میں نے حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جب سورہ مبارکہ ’’اِنَّا اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَ‘‘ نازل ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کوثر سے مراد جنت کی ایک نہر ہے، جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں اور وہ اعلیٰ قسم کے موتیوں اور یاقوت کے بہاؤ پر چلتی ہے، اِس کے پانی کا ذائقہ شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ امام محاربؒ نے فرمایا: حضرت عبد ﷲ بن عباسؓ نے صحیح فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! واقعی یہ خیر کثیر ہے"۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۲/۱۱۲،الرقم: ۵۹۱۳، والحاکم في المستدرک، ۳/۶۲۵، الرقم: ۶۳۰۸)
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے حوض کوثر کی لمبائی ایک مہینے کی مسافت کے بربر ہوگی، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہوگا، اس کی خوشبو مُشک سے زیادہ عمدہ ہوگی، اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے اور جو شخص ایک مرتبہ پی لے گا، وہ میدان محشر میں پھر کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا۔ ( صحیح البخاری، باب فی الحوض۔ الرقم: ۶۵۷۹) رسول کریم ﷺ نورٗ علی نور: قرآن کریم نے آیت نور میں اس بات کو بڑے ہی حسین پیرائے میں بیان کیا ہے کہ اگر آپ ﷺ اعلان نبوت نہ بھی کرتے تو آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہونے والے لوگ آپ ﷺ کے حسن و جمال اور محاسن و کمالات کو دیکھ کر از خود محسوس کرلیتے کہ آپ ﷺ ﷲ کے نبی ہیں۔ چنانچہ اس رمزِ خلقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یكادُ زَیتُھا یُضِىءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ۔ نُّورٌ عَلَى نُورٍ یھدِى اللّٰه لِنُورِه مَن یشَاءُ0 "قریب ہے اس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نورٗ علی نُور ہے ﷲ تعالیٰ اپنے نور کے لئے جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔ (سورۃ النور: ۲۴) اس آیت کریمہ کے تحت امام شامیؒ صالحی نفطویہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: نفطویہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان "قریب ہے اس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے" کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ضرب المثل رب تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کے لئے بیان کی ہے یعنی آپ ﷺ کی نگاہ ناز ہی آپ ﷺ کی نبوت پر دلالت کرتی تھی۔ (شامی۔ محمد بن یوسف صالحیؒ، سبل الہدی والرشاد، ج۔ ۲، ص: ۱۳، مطبوعۃ: لجنة احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر) اسی طرح علامہ آلوسیؒ اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ نورِ قرآن آپ ﷺ کو مس نہ بھی کرتا تب بھی آپ ﷺ اپنی پاکیزگی اور کمالِ حسن کی وجہ سے جگمگا اٹھتے۔ امام بغویؒ نے امام محمد بن کعب قرظیؒ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ کے محاسن و کمالات نزول وحی سے قبل بھی لوگوں پر واضح اور ظاہر تھے۔ (آلوسی۔ شہاب الدین محمود بن عبد اللہ آلوسیؒ، تفسیر روح المعانی، ج۔ ۹، ص: ۳۶۳، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیة، بیروت، لبنان) اس بارے حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ لکھتے ہیں: سیدنا ابن عباسؓ نے حضرت کعب الاحبارؒ سے کہا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے فرمایا: ﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی مثال بیان کی ہے "مشکوٰۃ" سے آپ ﷺ کا سینہ اقدس، "زجاجہ" سے قلب انور اور اس میں "مصباح" سے مراد نور نبوت ہے۔ یعنی اگر آپ ﷺ اپنے منہ سے اعلان نبوت نہ بھی کرتے تب بھی آپ ﷺ کے انوار و کمالات سے آپ ﷺ کی نبوت واضح ہوجاتی۔ اعلان نبوت سے پہلے رسول کریم ﷺ زندگی قرآن کریم کی عملی تفسیر تھی۔ پہلے نبی ﷺ اپنی ذات پیش کی بعد میں اپنی بات پیش کی۔ کوہِ صفاء پر آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے گوشے پیش کیا بعد میں اپنی بات پیش کی۔ (التفسیر المظہری، ج۔ ۶، ص: ۵۲۶۱، ۵۲۶۲، قاضی ثناء ثناء اللہ المظہریؒ) رسول کریم ﷺ کا رُعب و دبدبہ: تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ بڑے بڑے سردارانِ قریش اور رئیسانِ مکہ آپ ﷺ کی شخصی وجاہت اور وقار و تمکنت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاریخ کے دامن میں ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ ابو جہل، ابو لہب، مغیرہ، عُتبہ، شیبہ اور اُمیہ جیسے صاحبانِ رعونت ہیبت و جلال کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ آپ ﷺ کا اتنا رُعب و دبدبہ تھا کہ حوالی مدینہ میں آباد قبائل اپنے جمِ غفیر اور کثیر جنگی ساز و سامان کے باوجود اپنے مضبوط قلعوں میں رسول کریم ﷺ کی پیغمبرانہ جلالت سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔ کئی قبائل کے سرکردہ افراد تو آپ ﷺ کے مطیع ہوگئے۔ رسول کریم ﷺ کا رُعب و دبدبہ کا ذکر قرآن کریم میں کئی مقامات پر ہوا ہے۔ چنانچہ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: سَاُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ0 "میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکرِ محمدی ﷺ کا) رُعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں۔ (سورۃ الانفال: ۱۲) قرآن کریم میں ایک اور مقام پر اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے: وَقَذَفَ فِى قُلُوْبِھمُ الرُّعْبَ0 "اور ان کے دلوں میں (اسلام کا) رُعب ڈال دیا۔ (سورۃ الأحزاب: ۲۶) یعنی یہ رُعب و دبدبہ اور جاہ و جلال منجانب اللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ سے ہر لمحہ ڈرتے رہیں۔ اسی رُعبِ نبوی ﷺ کا ذکر احادیث میں بھی خود صاحبِ قرآن ﷺ نے کیا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبد ﷲؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: نصرت بِالرُعب مسیرة شھر0 "ایک ماہ کے فاصلہ سے ہی طاری ہونے والے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔" (صحیح البخاری، ج۔ ۱، ص، ۷۴، الرقم: ۳۳۵) رسول کریم ﷺ بے مثل و بے مثال: رسول کریم ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے عشق میں وارفتگی یہ تب پیدا ہوگی جب نبی کریم ﷺ کے خداداد کمالات، معجزات، محامد و محاسن اور عظمتوں پر محکم اور غیر متزلزل ایمان ہو۔ آپ ﷺ کو آپ کی ذات و صفات میں بے مثل، بے مثال، یکتا، منفرد اور شان اعجازی و انفرادی سے متصف سمجھا جائے اور اگر العیاذ باﷲ آپ ﷺ کی مثلیت اور برابری کا تصور ذہن میں آگیا تو نہ ہی عظمت مصطفےٰ کا عقیدہ دلوں میں محکم ہوگا اور نہ ہی آپ ﷺ کی محبت اور اس کی نتیجہ میں ایمان دلوں میں برقرار رہے گا اس لئے رسول کریم ﷺ نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اپنی شان یکتائی، انفرادیت اور بے مثلیت کو بیان فرمایا۔ بے مثلیت کا یہ تصور خود قرآن کریم نے دیا ہے چنانچہ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَینَكمْ كدُعَاۗءِ بَعْضِكمْ بَعْضًا0 "اے مسلمانو! تم رسول کریم ﷺ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو"۔ (سورۃ النور: ۶۳) جب ہماری دعائیں بھی رسول کریم ﷺ کی دعا کے ساتھ برابری اور مثلیت نہیں رکھتیں تو ہماری ذات العیاذ باﷲ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مثل کس طرح ہوسکتی ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: يٰنِسَاۗءَ النَّبِى لَسْتُنَّ كاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ0 "اے میرے نبی کی بیویوں! تم عام عورتوں کی مثل نہیں ہو۔" (سورۃ الاحزاب: ۳۲) معلوم ہوا کہ جب حضور علیہ السلام کے ساتھ نسبت و تعلق اور شرف زوجیت کی وجہ سے ازواجِ مطہرات بے مثل و بے مثال ہوگئیں تو محبوب کریم ﷺ کی اپنی ذات بے مثل و بے مثال کیونکر نہ ہوگی۔ چنانچہ قرآنی آیات سے ثابت ہوا کہ رسول کریم ﷺ کے ازواج مطہرات بھی بے مثل ہیں۔ یہ نفوسِ قدسیہ عام بیویوں کی طرح نہیں ہیں کیونکہ عام بیویوں (عورتوں) کے شوہر کے انتقال کے بعد وہ کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہیں۔ مگر رسول کریم علیہ السلام کی ازواج کو شرف زوجیتِ نبی ﷺ حاصل ہے وہ ایسا بڑا شرف ہے کہ وہ نبی ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کسی اور مرد سے نکاح نہیں کرسکتیں، ان کے لئے جائز ہی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ساری امت کی مائیں ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے رسول کریم ﷺ کی بیویوں سے اُمتی کا نکاح حرام قرار دیا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں منع کردیا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَلَآ أَنْ تَنْكِحُوْآ أَزْوٰجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ أَبَدًاۚ0 "اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کلفت پہنچاؤ اور یہ جائز نہیں ہے کہ تم آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی بیبیوں سے کبھی بھی نکاح کرو۔ (سورۃ الاحزاب: ۵۳) ازواج مطہراتؓ کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ: رسول کریم ﷺ کی تمام ازواج رضی اللہ عنہن کو ازواجِ مطہرات کہا جاتا ہے اور قرآنِ کریم نے انہیں اُمہات المؤمنین یعنی اہلِ ایمان کی مائیں کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ (سورۃ الاحزاب: ۶) مسلک اہلِ سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق ازواجِ مطہرات، تمام مؤمنین کی مائیں ہیں، کیونکہ جن عورتوں سے آپ ﷺ نے عقدِ نکاح فرمایا ہے، وہ اپنی چاہت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا، آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد کسی کے لئے بھی ان میں سے کسی سے نکاح جائز نہ تھا، لہذا ان امہات المؤمنینؓ کو قرآن کریم نے مسلمانوں کی مائیں قرار دیا ہے، اس لئے ان کے ساتھ عقیدت و محبت کا رشتہ رکھنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ سے تعلق اور نسبت رکھنے والے کی بھی کوئی مثل نہیں ہے۔ (التفسير المظهري: ۷/۲۸۶) سراپائے رسول ﷺ سراجا منیرا: قرآن کریم نے سراپائے مصطفی ﷺ کو سراج منیر قرار دیا۔ یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا0 وَّ دَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا0 ’’اے نبی مکرّم ﷺ! بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوش خبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)‘‘۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۵، ۴۶) رسول کریم ﷺ کے حُسن سراپا کو سراج منیر قرار دیا جانا ایک قرآنی استعارہ ہے۔ سراج لغت میں آفتاب یا چراغ کو کہتے ہیں اور منیر اسے کہتے ہیں جو دوسروں کو روشن کردے۔ یعنی حضور علیہ السلام کا وجود نہ صرف خود روشن و منور ہے بلکہ چاروں طرف روشنی بھی بانٹ رہا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی عمر مبارک: اللہ تعالٰی نے رسول کریم ﷺ کی عمر مبارک کی قسم کھائی: لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ0 ’’اے حبیبِ مکرّم ﷺ! آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بد مستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔" (سورۃ الحجر: ۷۲) اللہ تعالٰی نے کسی نبی و رسول کی پوری زندگی کی قسم یوں نہیں کھائی یہ منفرد مقام و مرتبہ صرف رسول کریم ﷺ کی ذات ستودہ صفات کو حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی پوری زندگی کی قسم کھائی جارہی ہے۔ چہرہ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسم: قرآن مجید کے صفحات حضور علیہ السلام کے جسد اطہر کے اعضاء مبارک یعنی چہرہ انور گیسوئے مبارک اور چشمانِ مقدس کے ذکر تک سے معمور ہیں۔ وَالضُّحٰی0 وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی0 مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی0 ’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے) اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ آپ ﷺ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ ﷺ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی آپ سے (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔" (سورۃ الضحٰی: ۱،۲،۳) یہاں تشبیہ کے پیرائے میں چاشت کی طرح چمکتے ہوئے چہرہ زیبا کا ذکر والضحیٰ کہہ کر اور آپ ﷺ کے شانوں کو سیاہ رات کی طرح چھائی ہوئی زلفوں کا ذکر واللیل کہہ کر کہا گیا ہے۔ وَالضُّحٰی اور وَالَّیْل کا اور معنیٰ بہت ہی خوبصورت اور ایمان افروز ہے، مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں: اس مقام پر ضُحیٰ (یعنی چاشت کے وقت) سے رسول کریم ﷺ کا پیارا، روشن، چمکدار چہرہ مبارک مراد ہے اور لَیْل سے آپ ﷺ کی پیاری پیاری کالی کالی زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔ (التفسیر الکبیر، سورۃ الضحیٰ۔ آیت: ۱، ۲، ج۔ ۱۱، ص: ۱۹۱)
ہے کلامِ اِلٰہی میں شمس و ضحیٰ تیرے چہرۂ نُور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب ﷺ کی زلفِ دوتا کی قسم
قرآن کریم میں وَالشَّمْس اور وَالضُّحٰی فرما کر اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کی قسم یاد فرمائی ہے اور وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی فرما کر آپ ﷺ کی خم دار پیاری پیاری زلفوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ اللہ! اللہ! رسول کریم ﷺ قرآن کی تِلاوت فرما رہے ہیں اور قرآن کیا کہہ رہا ہے: اے محبوب ﷺ! آپ کے رُخِ روشن کی قسم! آپ ﷺ کی مبارک زُلفوں کی قسم! یہ صرف ایک تصور کی بات ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جس طرح رسول کریم ﷺ صبح و شام، دِن رات قرآن کی تِلاوت فرمایا کرتے ہیں، ایسے ہی آپ ﷺ کے مبارک رخسار کا ذِکْر کرنا قرآن کا وظیفہ ہے۔ رسول کریم ﷺ کی گیسو مبارک کا تذکرہ، چہرۂ روشن کا تذکرہ کرنا یقینآ عبادت ہے کیونکہ یہ قرآنی آیات ہیں اور قرآن کی تلاوت بہترین عبادت ہے۔ رسول کریم ﷺ سراپا معجزہ ہیں، البتہ یہاں چونکہ رُخِ اَنْور اور مبارک زلفوں کا ذِکْر ہوا ہے تو آئیے! چہرۂ مصطفےٰ ﷺ کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کا چہرۂ انور: آپ ﷺ کا چہرہ مبارک بہت ہی پیارا اور خوبصُورت تھا۔ آپ ﷺ کی پیشانی مبارک کُشادہ چمکدار اور روشن تھی۔ 0 آپ ﷺ کے اَبْرُو مبارک کمان کی طرح خم دار، لمبے اور باریک تھے۔ 0 دونوں اَبْرُو مبارک کے درمیان ایک رَگ تھی، جو جلال کے وقت اُبھر آتی تھی۔ (شمائل ترمذی، باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ﷺ، ص: ۱۳، الرقم: ۸) مبارک آنکھیں: آپ ﷺ آنکھیں نہایت کالی تھیں، سفیدی والا حِصّہ بہت سفید تھا، جہاں پلکیں آپس میں ملتی ہیں وہاں سرخ رنگ کے ڈورے تھے، مبارک آنکھیں قدرتی طَور پر سُرمگی تھیں، جو دیکھتا اسے لگتا کہ جیسے ابھی ابھی سُرمہ لگائے ہیں۔ (سنن الترمذی، ابواب المناقب۔ باب فی صفة النبی ﷺ، ص: ۸۳۳، الرقم: ۳۶۴۴، ۳۶۵۵) مبارک پلکیں: آپ ﷺ کی مبارک پلکیں خوبصورت اور لمبی تھیں۔ 0 ناک مبارک اُونچائی کی طرف مائِل اور باریک تھی، درمیان کا حِصَّہ قدرے بلند تھا، اس پر ہر وقت نُور چمکتا رہتا تھا۔ 0 رُخسار مبارک سفید اور چمکدار تھے۔ 0 ہونٹ مبارک باریک، نرم و نازُک اور سرخی مائِل تھے۔ 0 دانت مبارک نہایت سفید اور چمکدار تھے، ان میں مُناسب حد تک فاصلہ تھا، جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو دانتوں سے نُور جھڑتا دکھائی دیتا تھا۔ 0 داڑھی مبارک گھنی تھی، لمبائی میں ہمیشہ ایک مُٹھی کے برابر رہتی اور چوڑائی میں سینہ پاک کو بھرے رکھتی تھی۔ 0 غرض کہ چہرہ مبارک، اس کا ہر ہر عضو، ہر ہر حِصّہ نہایت خوبصُورت تھا، صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان بعض اوقات چہرہ مبارک کا حُسن بیان کرنے کے لئے اسے وَرَقَةُ مُصْحَف (قرآنِ کریم کا ورق) کہا کرتے تھے۔ یعنی آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اپنی صفائی، حُسن و خوبصُورتی اور چمک دمک میں قرآنِ کریم کے اَوْراق کی طرح تھا۔ (صحیح البخاری، کتاب الاذان۔ باب اھل العلم والفضل، احق باالمامه۔ ص: ۲۲۹، الرقم: ۶۸۰، سنن الترمذی، ابواب المناقب، باب فی صفة النبی ﷺ۔ ص: ۸۳۳، الرقم ۳۶۵۴،۵۶۵۵، شمائل ترمذی، باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ﷺ۔ ص: ۱۱، الرقم: ۷،۸، سبل الہدیٰ والرشاد، الباب السابع فی صفة انفه الشریف و خدیه ﷺ۔ ج۔ ۲، ص: ۲۹، ۳۲، العِقد الفرید، اخبار المغنین، المسدود وزنین ودیس۔ ج۔ ۷، ص: ۴۵) حضرت کعب بن مالکؓ نے فرمایا کہ جب رسول کریم ﷺ خوش ہوتے تھے تو آپ ﷺ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اسی کیفیت سے رسول کریم ﷺ کی شادمانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔ (صحيح البخاری، ج۔ ۱، ص: ۵۰۲۔ باب صفة النبی ﷺ، ۲/۲۸۸۔ الرقم: ۳۵۵۴)
12/09/2025
شمائل نبوی ﷺ: حُسن سراپائے رسول ﷺ
قرآن کریم کی حسین پیرائے میں
مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ0 لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ0 ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (بہترین سانچہ میں ڈھال کر، اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔" (سورۃالتین: ۴) اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: بے شک ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا فرمایا ہے یہ آیت کریمہ یہ شہادت دے رہی ہے کہ ساری کائنات میں اللہ تعالٰی نے جس قدر مخلوقات پیدا کی ہے ان میں شکل و صورت کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل مخلوق انسان کو بنایا ہے۔ انسانی اعضاء ہاتھ، آنکھ، کان کے باقی اعضا کے باہمی تناسب سے جو شکل سامنے آتی ہے اس کو انسانی صورت کہا جاتا ہے اور اگر کسی اعضاء کے تناسب میں بے اعتدالی نہ ہو تو اسے حسن صورت کہا جاتا ہے اسی طرح انسانی شخصیت کے اوصاف سے اس کی عادات تشکیل پاتی ہے اگر وہ اوصاف اچھے ہوں تو انہیں حُسن سیرت کہا جاتا ہے تو گویا انسانی شخصیت کی ایک ظاہر ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔ سیرت مصطفی ﷺ کا کمال: تاریخ انسانی میں وہ ہستیاں جن کو اللہ نے ظاہری اور باطنی صورت و سیرت ہر اعتبار سے منتہائے کمال تک فائز کیا ہے۔ وہ انبیاء علیہم السلام کی ہستیاں ہیں لیکن وہ ہستی جس کی ظاہر اور باطن میں کوئی مثل نہیں وہ تاجدار انبیاء فخر موجودات محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اللہ تعالٰی نے رسول کریم ﷺ کو حسنِ صورت اور سیرت میں یکتائے کائنات بنایا، سارے ظاہری حسن جو ہر سمت بکھرے پڑے ہیں سارے کے سارے حسن اللہ نے اپنے دست قدرت سے سمیٹے تو صورت مصطفی ﷺ بن گئی۔ اس کائنات میں سیرت و صورت کے حسن ہر جگہ بکھرے ہیں لیکن رسول کریم ﷺ کی سیرت و صورت میں آکر سارے مجتمع ہوجاتے ہیں چنانچہ رسول کریم ﷺ کا کمال صرف حضور کی سیرت کے کمال کے باعث نہیں ہے بلکہ رسول کریم ﷺ کی صورت طیبہ کے باعث بھی ہے۔ چہرہ انسان کی سیرت کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے۔ صورت چونکہ ظاہر ہے اور سیرت باطن ہے۔ صورت پر تو ہر ایک کی نظر پڑتی ہے کوئی قریب آئے یا نہ آئے اس لئے اللہ تعالٰی نے سیرت کے حسن سے بھی پہلے حضور علیہ السلام کے صورت کے حسن و جمال کو مقدم کیا۔ آئمہ کرام محدثین عظام اور فقہاء کرام اور بیشتر بزرگوں نے صراحت کے ساتھ یہ بات لکھ دی ہے کہ اہل ایمان کا اعتماد اور ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک رسول کریم ﷺ کی سیرت کے باطنی حسن کو تمام دنیا کے انسانوں کی سیرتوں سے بلند و بالا نہ سمجھے۔ کیونکہ رسول کریم کی ظاہری و باطنی سیرت و خوبیاں و کمالات کو خود خالق کبریا نے بیان فرمایا اس لئے نبی ﷺ کی سیرت کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے۔ اسی طرح یہ باور کرلیا جائے کہ روئے زمین پر بلکہ تمام کائنات میں دنیا کا کوئی حسن حضور علیہ السلام کے حسن و جمال کے برابر پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل دل کہتے ہیں
حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خُوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو حسن عطا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھونک عطا کی کہ مُردوں کو زندگی اور تازگی نصیب ہوجائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے ہاتھ کا معجزہ عطا کیا۔ یہ سارے حسن ہر جگہ پھیلے ہیں، لیکن اے نبیﷺ! آپ تو ظاہری حسن پر بھی نکتہ کمال پر نظر آتے ہیں اور باطنی کمالات بھی۔ کمالِ حُسنِ مصطفی ﷺ: رسول کریم ﷺ کا وہ حسن جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ حسن حضور علیہ السلام کا حُسن کُلی نہ تھا بلکہ حسنِ مصطفوی ﷺ کے جلوؤں میں سے ایک ادنیٰ سا جلوہ تھا اگر خدا کی ذات حسنِ مصطفوی ﷺ سے حسن کے سارے پردے ہٹادیتی تو کسی صحابی کی آنکھ میں یہ تاب نہ تھی کہ چہرہ مصطفی ﷺ کا نظارہ کرسکتا۔ رسول کریم ﷺ کی مقدس شخصیت نہ صرف اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے اور بزم جہاں میں شمع ہدایت بن کر آئی بلکہ آپ ﷺ تمام بشری کمالات و محاسن کا مجموعہ اور سراپا حسن و جمال بن کر تشریف لائے۔ پیکر دلربا بن کے آئے، روحِ ارض و سما بن کے آئے، سب رسول خدا بن کے آئے، وہ حبیب خدا بن کے آئے۔ آپ ﷺ کو خالق کبریا نے چونکہ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نہایت احسن تقویم کا شاہکار بناکر بھیجا۔ یہ فطرت انسانی ہے کہ وہ جب بھی کسی ہستی یا شخصیت سے متاثر ہوکر اس کا گرویدہ، مطیع یا شیدا ہوتا ہے۔ تو اس کی بنیادی طور پر یہ صورتیں یا جہتیں ہوسکتی ہیں۔ اول: یا تو وہ کسی کی عظمت و رفعت اور فضیلت و کمالات کی وجہ سے اس سے متاثر ہوکر اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا تابع و مطیع ہوجاتا ہے۔ اس جہت سے اگر رسول کریم ﷺ کی ذات بابرکات کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ ﷺ نبوت و رسالت کے سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ نبوت و رسالت کے تمام تر درجات، کمالات، معجزات اور فضائل جو مختلف انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا کئے وہ سب آپ ﷺ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں بلکہ جو سب پیغمبروں اور رسولوں کو جدا جدا ملا وہ میرے آقا کریم ﷺ کو یکجا ملا۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ کیا خوب فرمایا
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
سب سے بالا و والا ہمارا نبی ﷺ
اور دوسری خوبی جس کی وجہ سے انسان کسی سے متاثر ہوتا ہے وہ اس کے اخلاق و کردار اور خصائص کی اعلیٰ خوبیاں ہیں اگر
کسی کے ہم پر بہت زیادہ احسانات ہوں یا کوئی بے حد مہربان و غمگسار اور شفیق ہو تو بھی آپ اس کے احسانات کی وجہ سے دل سے اس کی عزت و قدر کرتے ہیں اور نتیجتاً اس سے عقیدت و محبت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر رسول کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ذات بھی محمد مصطفی ﷺ کی ہے جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دے دی۔ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ0 ’’اور بے شک آپ ﷺ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔" (سورۃ القلم: ۴) ﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ ﷺ کو ان عظمت و رفعت اور فضائل وکمالات سے نوازا جو کسی کو عطا نہیں کئے گئے۔ آپ ﷺ کو حُسنِ کل بنایا اور آپ کے جسمِ اطہر کو بے مثال پیدا فرمایا۔ رسول کریم ﷺ دیگر انبیاء و رسولوں کی طرح کسی ایک قبیلہ کی طرف اور وہ بھی محدود وقت کے لئے نبی بناکر نہیں بھیجے گئے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے تا قیام قیامت کے لئے بھیجے گئے۔ حضور علیہ السلام کی ذات اقدس وہ آفتاب تھی جس کی روشنی ظاہر و باطن کو اپنے انوار سے منوّر کرنے والی تھی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے باطنی محاسن کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے ظاہری و جسمانی محاسن بھی تمام انبیاء سابقین سے اعلیٰ و برتر ہوں کیونکہ یہ مظاہرِ جسم باطن کی عظمت کے گواہ ہیں۔ اس لئے ﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کے ظاہر و باطن کو اتنی عظمتیں اور وسعتیں دیں کہ کوئی اس کی ہمسری کا گمان بھی نہ کرسکے۔ ﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو وہ حسن و جمال عطا فرمایا جس کی تعریف و توصیف سے زبان عاجز ہے۔ مکمل وجودِ مصطفےٰ حسن و جمال کا ایسا مظہر ہے کہ اس حسنِ کُل کے سامنے حسنِ یوسف ایک تابش کی مانند ہے اور حضرت یوسف کا حسن آپ ﷺ کے حسنِ باکمال کا ایک حصہ ہے۔ آفتاب و ماہتاب آپ ﷺ سے روشنی حاصل کرتے ہیں، کائنات کی چمک دمک اور ضیا پاشیاں آپ ﷺ کی نورانیت کا صدقہ ہیں اور دنیا بھر کے حسین و جمیل حسن محمد ﷺ کی ایک جھلک ہیں۔ قارئین کرام! ادیب، خطیب، مؤرخ، محقق، شاعر، فلسفی، سیرت نگار کوئی بھی جتنا بھی اپنی صلاحیت و قابلیت عشق و محبت کے ساتھ رسول کریم ﷺ کی سیرت لکھنے، پڑھنے سننے سنانے کی سعادت حاصل کرلے، مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ مصطفی کریم ﷺ کے جمالِ بے مثال اور آپ ﷺ کی سیرت و صورت کے کمالِ حُسن کا حق ادا ہوسکے۔ نہ کسی قلم میں اتنی سکت ہے کہ آپ ﷺ کے حسن و جمال کا احاطہ کرسکے اور نہ کسی زبان میں یہ فصاحت و بلاغت کہ آپ ﷺ کے جمال کو بیان کرنے کا حق ادا کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے ظاہر و باطن کو وہ عظمتیں اور وسعتیں عطا کیں ہیں کہ کسی بشر کے لئے ان کی حقیقت تک رسائی ممکن ہی نہیں، جس طرح آپ ﷺ کا حسنِ سیرت سراپا معجزہ ہے، اسی طرح آپ ﷺ کا پیکرِ ذات اورحسن و جمال بھی ایک معجزہ ہے۔ حسن کی تمام ادائیں آپ ﷺ کی ذات میں جمع ہیں اور جہاں کہیں بھی حسن و کمال پایاجاتا ہے، وہ ذاتِ پاک مصطفوی کا فیضان ہے۔ قدسی نے کہاہے
گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
بلبل زتو آموختہ شیریں سُخنی را
ہر کس کہ لبِ لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را
ترجمہ:’’غالب خود سے مخاطِب ہو کر کہتا ہے: رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف میں نے اللہ تعالٰی پر چھوڑ دی، کیونکہ وہی ایک ذاتِ پاک ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے مرتبے کو سب سے بہتر جانتی ہے۔" یعنی کسی کی شان کو بکمال و تمام وہی بیان کرسکتا ہے، جو اُس سے پوری طرح آگاہ ہو۔ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب فرمایا کرتے ہیں: جب یہ بات مسلّم ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں تو آپ ﷺ کے حسنِ صورت، حسنِ سیرت، علمی و عملی اور ہمہ جہتی کمالات میں کسی بھی قسم کے نقص کا تصور وہ کرسکتا ہے، جس کا گمان ہو کہ معاذ اللہ! یا تو عطا کرنے والے میں کوئی کمی ہے یا لینے والے میں قبولیت کی استعداد میں کوئی کمی رہ گئی ہو، لیکن جب عطا کرنے والی ذات یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نعمتوں کی کوئی انتہا نہ ہو اور لینے والے یعنی رسول اللہ ﷺ کی استعداد بھی درجۂ کمال کی ہو تو نَقص کا شائبہ کیسے ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادریؒ نے فرمایا
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نَقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
آئمہ کرام فرماتے ہیں: رسول کریم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ محدثین اور سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں آپ ﷺ کے باطنی خصائل و خصائص کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے ظاہری حسن و جمال کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے۔ آئمہ کرام و اسلاف کے طریق پر حصول برکت و سعادت کے لئے احقر بھی اس موضوع پر لکھنے اپنی خوش نصیبی و نجات دارین سمجھتا ہے۔ اور قارئین کے لئے بھی سعادت و برکت و ایمانی حلاوت کے حصول کا سبب ہے۔ جو قرآن کریم کی آیات کے حسین پیرائے میں ہیں: رسول کریم ﷺ کی نورانی آنکھ: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی0 ’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔ (سورۃ النجم: ۱۷) رسول کریم ﷺ کی بصارت: اللہ تعالٰی رسول کریم ﷺ کے کمال بصارت کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے: لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی0 ’’بےشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔" (سورۃ النجم: ۱۸) رسول کریم ﷺ کے سینہ مبارک: قرآن کریم نے رسول کریم ﷺ کے سینہ مبارک کا بھی ذکر کیا ہے: اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ0 ’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ ﷺ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا۔" (سورۃ الانشراح: ۱) منصب نبوت اور عظیم پیغمبرانہ مشن کی ذمہ داریوں کا بوجھ جو آپ ﷺ کی پشت مبارک پر تھا جسے حق تعالٰی نے کمال لطف و شفقت سے ہلکا کردیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے شرح صدر کی دعا کی جسے قرآن نے بیان کیا: رب شرح لی صدری0 اور مقام مصطفی ﷺ یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے شرح صدری کا اعلان فرمادیتے ہیں اور فرمایا "لک" تمہارے لئے کھولا تاکہ تو راضی ہوجائے اور کتنا کشادہ کیا انشرح صدر مقصد اور وسعت کا تعین نہیں فرمایا پس مفہوم کچھ یوں ہوگیا اے محبوب ہم نے آپ ﷺ کا سینہ اس قدر کھول دیا کہ ارض و سماء کی ساری وسعتیں اس میں سماگئی ہیں۔ میں نے تمام اسرار و رموزکے خزانے آپ ﷺ کے سینے میں سمودیئے ہیں۔ ذکر مصطفی: ورفعنا لک ذکرک0 "اور ہم نے تیرے لئے تیرا ذکر بلند کردیا"۔ یہ آیت رسول ﷺ کی عظمت اور رفعتِ ذکر کو بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ثنائے حسن اور بلند ذکر سے سرفراز کیا، جس کی مثال کسی دوسری مخلوق میں نہیں ملتی اور بہ یہ شرف کسی دوسرے نبی و رسول کو عطا ہوا۔ ذکر بلند ہونا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذکر کو دنیا میں بہت بلند کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ روزانہ پانچ اذانوں میں اللہ تعالٰی کی گواہی اشھد ان لا الہ إلا اللہ کے بعد اشھد ان محمد الرسول اللہ شامل ہے۔ مستقل ذکر:
جب بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے، تو اس کے ساتھ رسول اللہؐ کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، جیسے اذان اور اقامت کے اندر، خطبوں میں، اور اسلام کی بنیادی عبادات میں بلکہ اللہ کی تعالٰی اطاعت نبی اتباع خدا کے نزدیک ایک ہوگئی۔ یعنی ذکر مصطفی، ذکر خدا ہے، اطاعت مصطفی ﷺ اطاعت خدا ہے۔
وَ اَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo ’’اور اللہ کی اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘ (سورۃ آل عمران: ۲۲) دوسری جگہ فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا0 "جس نے رسول ﷺ کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ ہی کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo‘‘(سورۃ النساء: ۸۰) گُفتار مصطفی ﷺ: قرآن کریم نے رسول کریم ﷺ کی بول چال، گفتگو اور ذہن مبارک کا ذکر اس طرح کرتا ہے: اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ0 ’’بے شک یہ قرآن بزرگی و عظمت والے رسول ﷺ کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالتاً اور نیابتاً بیان فرماتے ہیں)۔" (سورۃ الحاقة: ۴۰) یہ کتنی عظیم بات ہے کہ خدا نے اپنے کلام کو رسول کریم ﷺ کے کلام سے تعبیر فرمایا پھر قرآن نے ذہن انسانی سے اس خلیجان کو رفع کرنے کے لئے انسان ہونے کے ناطے اس رسول ﷺ کے کلام کو انسانی کلام پر محمول نہ کرلیا جائے۔ اس انداز میں اعلان کردیا کہ میرا رسول خواہش نفس سے ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاتا بلکہ جو کہتا ہے اللہ کی طرف سے وحی ہوتا ہے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی0 اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی0 ’’اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔" اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔ (سورۃ النجم: ۳،۴) بس رسول کریم ﷺ کے لب سے جو کلام ہوتا ہے وہ وحی الہٰی ہے، بس اتنا فرق ضرور ہے کہ اگر وہ وحی جبرائیل امین علیہ السلام کے توسط سے قلب مصطفی ﷺ پر اترے تو اسے قرآن کہا جاتا ہے اور وہ وحی جلی اور وحی متلو کہلاتی ہے جبکہ دوسری وحی خفی اور غیر متلو کہلاتی ہے اور اسے حدیث کا درجہ حاصل ہے۔ فعلِ مصطفی ﷺ فعلِ خدا ہے: جس طرح رسول کریم ﷺ کی ہر بات از روئے قرآن اور وحی الہٰی ہوتی ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ کے فعل کو بھی فعل خداوندی قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالٰی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ0 ’’اے حبیب ﷺ بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔" (سورۃ الفتح: ۱۰) اس آیت میں بیعت رضوان کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے حالانکہ صحابہؓ نے رسول کریم ﷺ کے دست اقدس پر بیعت کی تھی۔ قلبِ مصطفی ﷺ اور قرآن: رسول کریم ﷺ نے کمال بصارت کے ذکر کے بعد قرآن آپ کے قلب انور کا ذکر بھی کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی0 ’’اُن کے دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔" (سورۃ النجم: ۱۱) رسول کریم ﷺ کے دست اقدس: قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب ﷺ کے ہاتھوں کا ذکر اس شان سے کیا ہے کہ دستِ مصطفی ﷺ کو اپنا دست اقدس قرار دے دیا۔ یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ0 ’’ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔ (سورۃ الفتح: ۱۰) رسول کریم ﷺ کی ہر ادا باری تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ نگاہِ مصطفی ﷺ: اللہ تعالیٰ نے چہرہ مصطفی ﷺ کا ذکر اتنی شان کے ساتھ کیا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کو تکتے رہنا اور اپنی نگاہوں میں رکھنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ جیسا کہ قبلہ کی تبدیلی کے واقع سے معلوم ہوتا ہے۔ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِج فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَة تَرْضٰهَا0 ’’اے حبیب ﷺ! بے شک ہم نے آپ کے چہرہ کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھ لیا۔ پس بے شک ہم آپ ﷺ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس کو آپ ﷺ پسند کرتے ہیں۔" (سورۃ البقرہ: ۱۴۴) دوسرے مقام پر قرآن نے واضح کردیا ہے کہ آپ ﷺ کا ہر عمل اور ہر ادا اللہ تعالٰی کی توجہ کا مرکز ہے۔ رسول کریم ﷺ کے قیام و رکوع: الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ0 وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ0 ’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لئے) قیام کرتے ہیں اور سجدہ گزاروں میں بھی آپ کا پلٹنا دیکھتا رہتا ہے۔" (سورۃ الشعراء: ۲۱۸) یعنی اے محبوب ﷺ ہم لمحہ لمحہ آپ کو تکتے (دیکھتے) رہتے ہیں آپ کو اپنی نگاہوں میں رکھتے ہیں آپ ﷺ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو ہماری خصوصی نوازشات سے سرفراز نہ ہو یہاں تک کہ جب تو اٹھتا بیٹھتا ہے تو ہم تیری نشست و برخاست کو بھی دیکھتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی آواز: اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی بارگاہ کے آداب بجا لانے کی تعلیم فرمائی تو حکم دیا خبردار تمہاری آوازیں میرے نبی ﷺ کی آواز سے اونچی نہ ہونے پائیں۔ یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ0 ’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو رسول کریم ﷺ کی آواز سے بلند مت کیا کرو۔" (سورۃ الحجرات: ۲) رسول کریم ﷺ سے گفتگو: اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو مخاطب کرنے کا ادب بھی سکھایا کہ وہ رسول کریم ﷺ کو عام انسان سمجھ کر انہیں بلند آواز سے نہ پکاریں۔ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ0 ’’اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات بھی نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو‘‘۔ (سورۃ الحجرات: ۲)
جاری۔۔
Be the first to know and let us send you an email when Irfan E Anwaar Monthly posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.