Gawah Urdu Weekly

Gawah Urdu Weekly GAWAH (The Witness) is the first National and the oldest Urdu Weekly from South India Only Urdu Weekly newspaper with 15 years of continuous publishing
2.

GAWAH, the first National Urdu Weekly from Hyderabad was founded in Hyderabad in 1999. Over the years, by virtue of social media and digital identity, Gawah now boasts readership in nearly 50 countries worldwide. Founded by noted Senior Journalist Syed Fazil Hussain Parvez, Gawah reserves numerous distinctions, most notably as:
1. First National Urdu Weekly in multicolor (from South India)
3. Has

two doctorates in Journalism among other skilled minds on the editorial staff.
4. Has Correspondents in all major cities of India and almost all districts in South India.
5. Has a full-fledged nation-wide communication network run under the auspices of Media Plus, a multi-lingual advertising and PR agency. E-Paper:
The e-Paper is freely accessible to all at ww.gawahweekly.com

Podcasts:
Listen to the articles via Podcasts available at:
http://gawahnews.wordpress.com/gawah-audio/

Last week, our host .khaled.shahbaaz sat down with Chicago's eminent   Dr Tajammul Hussain at Gawah's News Studio. The d...
28/02/2025

Last week, our host .khaled.shahbaaz sat down with Chicago's eminent Dr Tajammul Hussain at Gawah's News Studio. The doctor who was in Hyderabad briefly for the launch of his maiden book "Much is Misery" shared some deep thoughts on wealth, misery and the essence of happiness in the fast changing world we live in.
Here's the full interview for Gawah TV.

P.S. Check out the print interview in Gawah Urdu Weekly

Click this link to to our Channel for latest and more updates:https://www.youtube.com/c/GawahUrduWeeklyHyd?sub_confirmation=1.**Oth...

ہریانہ۔کشمیر: الیکشن2024کے بعدڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد۔ فون :9395381226  جموں و کشمیر اور ہریانہ کے اسمبلی ان...
09/10/2024

ہریانہ۔کشمیر: الیکشن2024کے بعد
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد۔ فون :9395381226
جموں و کشمیر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ ہریانہ میں اس نے کانگریس کے حلق سے کامیابی چھین لی ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر میں اگرچہ کہ اپنی پہلی حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہی مگر جموں علاقہ میں اس نے 29نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو اس کی بہت بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 26فیصد ووٹ حاصل کئے۔ حالانکہ کشمیر سے اسے صرف 2.2فیصد ووٹ ملے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کشمیر میں ابھی بی جے پی کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے دو الیکشن اور انتظار کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف حکومت تشکیل دینے والی نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے 23فیصد ووٹ حاصل کئے۔ جموں میں پہلے ہی سے ہندوتوا لہر رہی اور اس مرتبہ الیکشن میں اسے کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوتوا تحریک کو تقویت ملتی جارہی ہے۔ ہریانہ میں کانگریس کی کامیابی کے امکانات اس قدر روشن تھے یا ظاہر کئے گئے تمام ایجنسیوں نے اپنے ایگزٹ پول میں ہریانہ میں کانگریس کے حکومت کی پیشن گوئی کی تھی۔ مگر آخر وقت تک تختہ پلٹ گیا۔ کانگریس نے اپنی شکست کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈالی ہے۔ اگر ہریانہ کی کانگریس کی امکانی چیف منسٹر کے عہدہ کے دعویدار شلیجا نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ پارٹی کو نئے سرے سے اپنی شکست کا جائزہ لینا ہوگا اور پوری دیانت داری کے ساتھ محاسبہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ کہ کانگریس ورکرس نے گاؤں گاؤں پھرکر انتخابی مہم چلائی مگر تمام محنتیں ضائع ہوگئیں۔ ہریانہ میں کانگریس کی کامیابی اس لئے یقینی سمجھی جارہی تھی کہ کسان اور جاٹ برادری کا بظاہر اسے ساتھ نظر آرہا تھا۔ مگر انتخابی نتائج سے اندازہ ہوگیا کہ کسانوں کا غصہ پولنگ کے دن شاید ختم ہوگیا تھا۔ ہریانہ میں تیسری بار اقتدار اور جموں و کشمیر میں بہتر مظاہرے نے نریندر مودی کی امیج کو بڑی حد تک بحال کیا جو حالیہ لوک سبھا انتخابات میں متاثر ہوا تھا۔ راہول گاندھی کا جو امیج بنا تھا وہ اسمبلی انتخابات میں متاثر ہوگیا۔ ان دو ریاستوں میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی کامیابی کے بعد مہاراشٹرا کے عنقریب ہونے والے انتخابات میں پارٹی کو یقینی طور پر فائدہ ہوسکتا ہے۔ دیویندر فڈنویس نے انتخابی نتائج کے بعد طنزیہ ریمارک کیا ہے کہ راہول گاندھی کے اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد عوام نے انہیں سبق سکھایا ہے۔
ہریانہ میں ونیش پھوگاٹ کی کامیابی کو اہمیت دی جارہی ہے کہ کیوں کہ بی جے پی کی تمام طاقتیں ونیش پھوگاٹ کو شکست دینے کیلئے ایک ہوگئی تھیں۔ ونیش پھوگاٹ نے ریسلنگ فاؤنڈیشن کے صدر کے خلاف عوامی احتجاج کیا تھا۔ اولمپکس مقابلوں میں شاندار مظاہرہ کے باوجود وہ 100 گرام وزن کے اضافہ کی وجہ سے سیمی فائنل مقابلہ میں شرکت کے لئے نااہل قرار دی گئی تھی۔ عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ ونیش پھوگاٹ کو میڈلس سے محروم کرنے کے بی جے پی کا کوئی نہ کوئی رول ضرور ہے۔ ونیش پھوگاٹ میڈل سے محروم ضرور ہوئیں مگر انہیں ہندوستانی عوام کے علاوہ دنیا بھر کے اسپورٹس مین کی ہمدردی حاصل ہوئی۔ ہریانہ میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور جولانا اسمبلی حلقہ سے کانگریس کی ٹکٹ پر وہ 6000 ووٹوں سے کامیاب ہوئیں۔ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں پانچ مسلم امیدواروں کی کامیابی بھی اہم ہے۔ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے دس سال میں پہلی بار اسمبلی الیکشن ہوئے جبکہ جموں و کشمیر مرکز کے زیر انتظام علاقے بن گئے ہیں۔
پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی مگر اسمبلی انتخابات میں اس نے تمام حساب چکتا کردیا۔ جموں و کشمیر کے عوام ابتداء ہی سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ مسلم اکثریتی آبادی والی یہ ریاست پہلے راجہ ہری سنگھ کے مظالم کا شکار بنے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہند پاک کے درمیان پہلی جنگ اور کشمیر کی تقسیم نے حالات کو اور بھی بگاڑ دیا۔ پاکستان نے مسلم آبادی کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا اور اس کا خمیازہ کشمیری مسلمانوں کو نسل درنسل بھگتنا پڑا۔ ہر سیاسی جماعت نے یہاں کے عوام کا استحصال کیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے ایک تحقیقاتی مضمون کی مطابق جموش و کشمیر کی تاریخ میں پانچ وزرائے اعظم، 13چیف منسٹرس اور 11گورنرس رہے۔ مہر چندر مہاجن اکتوبر 1947ء مارچ 1948ء تک پہلے وزیر اعظم رہے۔ شیخ محمد عبداللہ جو شیر کشمیر کے نام سے مشہور ہوئے 48سے 53 تک وہ وزیر اعظم رہے۔ ہندوستان جب جمہوریہ بن گیا تب دفعہ 370کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کیا گیا۔ 1953ء سے 1963ء تک بخشی غلام محمد،خواجہ شمس الدین، غلام محمد صادق وزیر اعظم کے عہدہ پر قائم رہے۔ سید میر قاسم 1971ء میں پہلے چیف منسٹر بنے۔ اور شیخ محمد عبداللہ نے مسز اندرا گاندھی سے معاملت کے بعد 1975ء میں چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالا۔ جموں و کشمیر کی تباہی و بربادی میں گورنرس نے انتہائی منفی رول ادا کیا۔ یہ ہمیشہ سے مرکز کے ایجنٹ رہے ہیں جن کا کام ریاستی معاملات میں دخل اندازی اور مرکز کی ایماء پر حکومتوں کا تختہ الٹنا اور گورنر راج کی سفارش کرنا رہا ہے۔ جموں و کشمیر کو دہشت گردوں کے مرکز کے طور پر گورنر جگموہن نے تبدیل کیا۔ 198ء میں پہلی بار وہ گورنر بنے تو ریاست کی تاریخ میں پہلی بار ہندوؤں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے ریاست میں صدر راج نافذ ہوا۔ 1989ء میں وہ دوسری بار کشمیری عوام پر مسلط کئے گئے تو پاکستانی تربیت یافتہ انتہا پسند کشمیر میں داخل ہوئے اور تبھی سے کشمیری پنڈتوں نے ریاست سے نقل مکانی شروع کی۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے فاروق عبداللہ ہو ا مفتی سعید محبوبہ مفتی، غلام نبی آزاد یا عمر عبداللہ کسی نے کشمیر کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کے تربیت یافتہ عسکریت پسند ہنگامہ آرائی کرتے رہے۔ میڈیا پروپگنڈہ کرتا رہا۔ فوج اور سیکوریٹی فورسس کے جوان نوجوانوں اور کشمیری خواتین پر مظالم ڈھاتے رہے۔ جانے کتنے بار کرفیو نافذ رہا۔کشمیری عوام بالخصوص مسلمان مظالم سہتے رہے۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے دفعہ 370 برخواست کیا۔ کشمیریوں سے ان کا خصوصی موقف چھین لیا گیا۔ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کیا گیا۔ اور اب مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں انتخابات ہوئے تو عمر عبداللہ جو کہ چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے ریاستی موقف کو بحال کرے گی۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد سے تشکیل دی جانے والی حکومت مرکز سے کسی قسم کے ٹکراؤ کے حق میں نہیں ہے‘ اور انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ مرکز سے ٹکراکر کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ خوشگوار تعلقات کے ذریعہ ریاست کی ترقی کے لئے کام کئے جاسکتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے نتائج میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی گئی۔جیل سے بارہمولہ پارلیمانی علاقہ کا الیکشن جیتنے والے انجینئر رشیدجنہیں کچھ دن کے لئے ضمانت پر رہا کیا گیا تھا‘جنہیں اسمبلی الیکشن میں بھی نیشنل کانفرنس کی شکست کا یقین تھا‘ انہیں اس وقت دھکا لگا جب ان کے اپنے بھائی خورشید احمد شیخ عوامی اتحاد پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے ہار گئے۔رشید انجینئر جنہوں نے پارلیمانی الیکشن میں جنہیں ہرایا تھا وہ اسمبلی الیکشن میں آسانی جیت گئے
الیکشن 2024ء میں شکست علیحدگی پسند عناصر کو ہوئی۔جماعت اسلامی کے سابق 10 ارکان کو شکست فاش ہوئی۔ ان میں جماعت کے سابق سکریٹری جنرل سیارریشی شامل ہیں‘ جنہیں سی پی ایم کے محمد یوسف تریگامی نے کولگام حلقہ سے ہرایا۔ یوسف تریگامی مسلسل پانچویں مرتبہ کولگام حلقہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔جماعت اسلامی کے تائیدی امیدوار ماجد علی کو پی ڈی پی کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ افضل گرو جنہیں 2013ء میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی‘ ان کے بھائی اعجاز احمد گروسوپور سے ہارگئے۔ علیحدگی پسند مولوی سرجان احمدواگے کو عمرعبداللہ نے گندربل سے شکست دی۔تحریک حریت سے کبھی وابستہ رہے ظفر حبیب ڈار جنہوں نے جموں اینڈ کشمیر اپنی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کیا۔ وہ بھی ہار گئے۔ جے کے ایل ایف کے سابق کمانڈر محمد فاروق خان عرف سیف اللہ جنہوں نے سماج وادی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کیا‘ نیشنل کانفرنس کی شمیم فردوس سے ہار گئے۔ وہ 1989 کے اُن اولین عسکریت پسندوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں عسکری تربیت حاصل کی آج انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ وہ پڑوسی ملک کے آلہ کار بنے۔
جموں و کشمیر میں جس طرح عبداللہ خاندان تین نسلوں سے سیاست میں ہے‘ اسی طرح مفتی خاندان بھی اتنی ہی عرصہ سے میدان سیاست میں ہے۔مفتی سعید کشمیر کے چیف منسٹر بھی رہے اور مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ بھی رہے۔ اور دلچسپ ہی نہیں‘ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی اپنی بیٹی روبیاسعید کا عسکریت پسندوں نے اغوا کرلیا تھا۔ مفتی سعید کے بعد محبوبہ مفتی کو بھی ریاست کے چیف منسٹر کے طور پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ مفتی خاندان کی تیسری نسل التجا مفتی میدان میں اُتاری گئیں‘ جنہیں شکست کی تلخی ملی۔ پی ڈی پی کو صرف 3نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔جموں و کشمیر نے اروندکجریوال کے آنسو پوچھے۔ انہیں کم از کم ایک نشست پر کامیابی ضرور ملی ورنہ ہریانہ میں ان کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکاتھا۔جموں و کشمیر کے انتخابی نتائج جو بھی ہیں‘ یہاں کے عوام نے نئی امیدوں کے ساتھ اپنے دستوری حق کا استعمال کیا ہے۔ ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے۔ ریاستی حکومت‘ مرکزی حکومت کے باہمی اشتراک سے کشمیر کو دوبارہ جنت ارضی بنانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں

09/10/2024
The Government’s initiative to issue Family Digital Cards is a significant step toward enhancing the delivery of welfare...
04/10/2024

The Government’s initiative to issue Family Digital Cards is a significant step toward enhancing the delivery of welfare schemes and ensuring accurate family data. Here’s a breakdown of the key points.

https://gawahweekly.com/telangana-family-digital-cards-pilot-project-begins-today-all-you-need-to-know/

Information & Public Relations Dept, Telangana Anumula Revanth Reddy

The Telangana Government has launched a pilot project for issuing Family Digital Cards (FDC) to streamline family data and improve access to government schemes. The Government’s initiative to issue Family Digital Cards is a significant step toward enhancing the delivery of welfare schemes and ensu...

اویسی۔مدنی‘اپنے اپنے ظرفِ محبت کی بات ہےڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآًاد۔ فون:9395381226 مولانا محمود مدنی کے ایک چیا...
02/10/2024

اویسی۔مدنی‘اپنے اپنے ظرفِ محبت کی بات ہے
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآًاد۔ فون:9395381226
مولانا محمود مدنی کے ایک چیانل کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران بیرسٹر اسدالدین اویسی سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان پر کافی تنقید ہورہی ہے۔ بلکہ جمعےۃ العلمائے ہند سے وابستہ بعض اہم شخصیات نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جمعےۃ سے استعفیٰ بھی دیا ہے۔ محمود مدنی نے جن خیالات کا اظہار کیا کہ ان کے اپنے ہیں اور تعریف اس بات کی کی جانی چاہئے کہ انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔ حالانکہ وہ انٹرویو لینے والے کے جال میں پھانس لئے گئے تھے۔ عام طور پر شاطر اور شرپسند قسم کے صحافی ایسا ہی کام کرتے ہیں۔ وہ لقمہ دے کر الفاظ اُگلواتے ہیں۔ اور پھر ان کی ٹی آر پی اور انٹرویو دینے والے کی مخالفت بڑھتی جاتی ہے۔ محمود مدنی سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر انہوں نے منافقت نہیں کی۔ اگرچہ کہ وہ اسد صاحب کی سیاست سے متعلق کئے گئے سوال ٹال سکتے تھے یا مبہم جواب دے سکتے تھے۔ جوبھی ہوا وہ موجودہ حالات میں ملی اتحاد کے لئے کچھ بہتر نہیں ہوا۔محمود مدنی نے اس سے پہلے بھی کئی بار اسد اویسی کے علاوہ اعظم خان کے خلاف کھل کر نہ صرف بیانات دیئے بلکہ انہیں مسلمانوں کا دشمن بھی قرار دیا تھا۔ 2017ء میں جب کسی صحافی نے اسد اویسی سے کہا کہ محمود مدنی نے ان کے خلاف بیان دیا ہے تو اسد اویسی کی اعلیٰ ظرفی اور حکمت اور بصیرت کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اس صحافی سے کہا کہ وہ انہیں (اویسی) اور محمود مدنی کو آپس میں کیوں لڑانا چاہتے ہیں؟ پھر ا نہوں نے محمود مدنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمعےۃ العلماء کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہونے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اسدالدین اویسی کا یہ بیان ان کے مضبوط ہونے ثبوت تھا۔ محمود مدنی کا مخالف اویسی بیان شاید ان کی کمزوری یا مجبوری تھی۔ سات برس بعد محمود مدنی ایک بار پھر اپنی زبان اور اپنے جذبات پر کنٹرول نہ کرسکے۔ ان کے بیان پر لوگوں کی ناراضگی فطری ہے‘ مگر اس پر تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے‘ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسد صاحب پر کسی نے کھل کر تنقید کی تو کسی نے دبے لفظوں میں‘ کسی نے ڈرائننگ روم کی محفلوں میں ان کی پالیسی پر تنقید کی‘ کسی نے انتخابی مہمات کے دوران تقاریر میں بھی اور اخباری بیانات کے ذریعہ بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے۔ جب کبھی الیکشن کا موسم آیا‘ مجلس اتحادالمسلمین نے حیدرآباد کے علاوہ کسی اور حلقہ سے اپنے امیدوار اُتارے تب ان حلقوں سے الزامات کی بازگشت سنائی دیتی کہ آواز اٹھتی رہی کہ مسلم اور سیکولر ووٹس کی تقسیم کے لئے مجلس نے اپنے امیدوار کھڑا کئے۔ مہاراشٹرا، اترپردیش، راجھستان ہو یا کوئی اور ریاست مجلس نے اپنے امیدوار میدان میں اُتارے تو ملک بھر سے نام نہاد مسلم قائدین، اکابرین، مسلم ووٹس کو منتشر نہ کرنے کی غرض سے مجلس کو مقابلہ سے دستبرداری کا مشورہ دیتے رہے۔ حتٰی کہ مولانا سجاد نعمانی نے بھی اسد صاحب کے نام ایک کھلا خط میڈیا کے نام جاری کیا تھا۔ مجلسی قائدین کو بی جے پی کی بی ٹیم بھی کہا گیا۔ اسد صاحب کو کئی بار مختلف ریاستوں میں عوامی جلسوں میں وضاحت کرنی پڑی اور انہوں نے الزام عائد کرنے والوں کو اپنا الزام ثابت کرنے کیلئے چیالنج کیا تھا کہ وہ مدینہ طیبہ میں روضہ اقدس کے پاس قسم کھائیں۔ وہ (اویسی) الزام کو غلط ثابت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسد صاحب سے متعلق اس قسم کے خیالات کا اظہار ہر دور میں ہوتا رہا۔ حالیہ الیکشن کے دوران کس کس نے کیا کیا نہ کہا۔ یہ اور بات ہے کہ الیکشن کے بعد جب ساری طاقتیں مل کر مجلس کو نقصان نہ پہنچاسکیں تو انہوں نے دوستی کرلی۔
محمود مدنی کے انٹرویو کے بعد اس بات کی مزید تصدیق ہوچکی ہے کہ اسدالدین اویسی ہندوستانی مسلمانوں کے واحد مسلم لیڈر ہیں جن سے نظریاتی اختلافات کے باوجود حیدرآباد سے کشمیر تک یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ جن کی بعض پالیسیوں سے اختلافات ہوسکتا ہے مگر ان کی قائدانہ صلاحیت پر کوئی ا نگلی نہیں اٹھاسکتا۔ عوامی جلسہ ہو یا ایوان پارلیمان اسد الدین اویسی کی تقریر سن کر لوگ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں ”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے“۔
ایوان پارلیمنٹ میں اس وقت جتنے بھی مسلم قائدین ہیں‘ ان میں یقینا اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اپنے اپنے علاقہ کے مقبول ترین قائد بھی‘ مگر جوبات اویسی میں ہے‘ وہ اوروں میں کہاں۔ جو دوسری جماعتوں سے وابستہ ہیں‘ انہیں اپنی قوم کے حقوق کے لئے زبان کھولنے کے لئے بھی ہائی کمان سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ کبھی غلطی سے انہوں نے زبان کھولی تو انہیں اندرونی طور پر پارٹی ہائی کمان سے وارننگ مل جاتی ہے۔ اسد اویسی خود ہائی کمان ہیں‘ جو ہر پارٹی کے ہائی کمان سے راست ٹکرانے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر ایک فورم پر نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ دلتوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے لئے بھی آواز اٹھانے والی شخصیت ہیں جس کا اعتراف تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے مسلمانوں کے ایک زبردست اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ ایوان پارلیمان میں سیاسی نظریاتی اختلافات کی بدولت انہیں اس بات کا فخر ہوتا رہا کہ ان کے شہر سے تعلق رکھنے والے اسد اویسی مظلوموں کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ ایوان پارلیمنٹ میں بعض مسلم قائدین منتخب ہوبھی گئے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسا قائد اپنی جگہ مکمل نظر نہیں آتا۔ اپنے خلاف الزامات اور بہتان طرازیوں سے بے نیاز اسد اویسی نے ملک گیر سطح پر اپنی خدمات جاری رکھی ہیں۔ جہاں تک مولانا محمود مدنی کا تعلق ہے وہ ہندوستان کی قدیم ترین باوقار تنظیم جمعےۃ العلمائے ہند کے ایک دھڑے کے قائد ہیں‘ دوسرے دھڑے کے قائد ان کے سگے چچا مولانا ارشد مدنی ہیں۔ اِن چچا بھتیجے میں واقعی اختلاف ہے یا پھر ایک حکمت عملی کے طور پر انہوں نے جمعیت کو تقسیم کررکھا ہے تاکہ مختلف موقعوں پر جمعیت کے یہ دونوں دھڑے اپنی اپنی اہمیت ثابت کرتے ہوئے ارباب اقتدار و اپوزیشن سے اپنے مطالبات منواتے رہیں۔ جمعےۃ العلمائے ہند ہمیشہ سے کانگریس کی وفادار رہی۔ مولانا محمود مدنی کے والد اور دادا نہ صرف اکابرین میں شمار کئے جاتے ہیں بلکہ وہ مجاہدین آزادی بھی رہے اور ان کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں۔ جمعےۃ کے ان دونوں گروپس کی سب سے بڑی طاقت مساجد ہیں۔ بیشتر مساجد کے ائمہ اور انتظامیہ کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے جمعیت سے رہتا ہے۔ بغیر کسی وسائل کے یہ سینہ بہ سینہ اپنی بات پورے ہندوستان میں عام کرسکتے ہیں۔ مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی دونوں ہی کا اپنا مقام ہے۔ مذہبی گھرانوں سے تعلق ہونے کی وجہ سے یہ قابل احترام ہیں۔ اگرچہ کہ انہوں نے غیر ضروری طور پر عملی سیاست میں خود کو مشغول رکھا۔ ویسے یہ ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ البتہ ملت کے دانشور حضرات کو چاہئے تھا کہ مدنی چچا بھتیجہ کو اس بات کا مشورہ دیتے کہ مدنی خاندان مذہبی قیادت سنبھالیں اور عملی سیاست‘ پیشہ ور سیاست دانوں کے حوالے کردیں۔ جمعےۃ اور دیگر مسلم تنظیموں کے باہمی اشتراک سے مسلمانوں کی ذہنی فکری، جسمانی تربیت کی ذمہ داری قبول کرے۔ عقائد کی اصلاح کرے مسلکی اختلافات سے قوم کو پاک و صاف کرنے کی کوشش کرے۔ اور مستند سیاسی جماعتیں جیسے مجلس اتحادالمسلمین، اے آئی یو ڈی ایف، مسلم لیگ مسلمانوں کی سیاسی طور پر بااختیار بنانے کا فریضہ انجام دے۔ جس طرح آر ایس ایس نے ہندوؤں کی ذہنی و فکری تربیت کرتے ہوئے ہندوستان کو کہاں سے کہاں پہنچادیا اور مسلم تنظیم اور جماعتیں آپس میں لڑجھگڑ کر آزادی کے وقت جہاں تھی اس سے بھی پستی میں گرادیا۔
ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے لئے سبھی کے دل میں ارمان تڑپ رہے ہیں ان میں مذہبی شخصیات بھی ہیں‘ جو اپنے یوٹیوب چیانلس کے ذریعہ قوم کو نصیحت میں مصروف ہیں۔ مگر نہ تو ان کی عمر نہ ہی ان کی صلاحیت انہیں ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی اجازت دیتی ہے۔ اس وقت اسد اویسی جو 55برس کے ہیں‘ ماشاء اللہ اپنی صحت، صلاحیت اور غیر معمولی مقبولیت کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے اہل ہیں۔ کل ہند سطح پر ایک مجلس شوریٰ کا انتخاب کیا جائے جن کی رہنمائی اسد اویسی ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کرے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کے مذہبی معاملات تک محدود ہے۔ اور اس میں شامل تمام اکابرین اپنے اپنے طور پر ملت کے انتشار کو ختم کرتے ہوئے انہیں متحد کرنے میں اہم رول دا کرسکتے ہیں۔
اس وقت ہی نہیں بلکہ ہر دور میں ہر مسئلک کا رہنما سب کے لئے قابل قدر قابل احترام ہونا چاہئے۔ بعض باتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ اللہ کی وحدانیت، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے۔یہی اٹل حقیقت ہمیں تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دوسرے سے جوڑے رکھ سکتی ہے۔ بہرحال! محمود مدنی نے جو کہا ان کے خیالات ہیں‘ جو دل میں اسے زبان پر لایا اگرچہ کہ ایک اچھے انسان کی یہ نادانی ہے۔ حق گوئی کی تعریف کی جانی چاہئے۔ مگر شاطر عناصر کو اس کے استحصال کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔

What happens to the bond between parents and children when miles and time zones separate them?"Sunset Sunrise", presente...
30/09/2024

What happens to the bond between parents and children when miles and time zones separate them?

"Sunset Sunrise", presented by the Qadir Ali Baig Theatre Foundation, is a poignant exploration of the evolving dynamics between a mother and her NRI son. This moving play sheds light on the subtle yet powerful changes in family ties when children leave their homeland to search for education and careers abroad. Don’t miss this heartfelt story of love, distance, and the sacrifices made along the way. Read more at: https://gawahweekly.com/the-sunset-sunrise-a-stirring-tale-of-family-distance-and-the-price-of-ambition/

"The Sunset Sunrise explores the emotional cost of success, unraveling the delicate ties between family, ambition, and sacrifice across continents.

ایسی ریالیوں کی ملک بھر میں ضرورت!ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز،حیدرآباد۔ فون:9395381226 امتیاز جلیل سابق رکن پارلیمنٹ اورنگ...
25/09/2024

ایسی ریالیوں کی ملک بھر میں ضرورت!
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز،حیدرآباد۔ فون:9395381226
امتیاز جلیل سابق رکن پارلیمنٹ اورنگ آباد کی قیادت میں اورنگ آباد سے ممبئی تک ایک تاریخ ساز احتجاجی ریالی نکالی گئی۔ رام گیری نامی ایک ہندو مذہبی پیشوا کی جانب سے شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی‘ اس کی تائید میں بی جے پی ایم ایل اے مکیش نارائن رانے کے بیان اور پھر چیف منسٹر مہاراشٹرا ایکناتھ شنڈے کی جانب سے رام گیری کی پشت پناہی کے خلاف یہ ریالی منظم کی گئی۔ لگ بھگ 325کلو میٹر طویل فاصلہ سینکڑوں کاروں، ٹووہیلرس کے ذریعہ طئے کیا گیا۔ ممبئی کے قریب ٹریفک جام ہونے کی شکایت کی گئی۔ اگرچہ کہ ممبئی سٹی میں ریالی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی‘ اس کے باوجود یہ ایک کامیاب ریالی تھی کیوں کہ کمشنر پولیس اور کلکٹر نے امتیاز جلیل کی عرض داشت کو قبول کرتے ہوئے خاطیوں کے خلاف کاروائی کا تیقن دیا۔ یہ ریالی اس لحاظ
سے کامیابی کہی جاسکتی ہے کہ کسی قسم کے شور شرابے اور ناخوشگوار واقعہ کے بغیر منظم کی گئی۔ اور ایک طویل عرصہ بعد لگا کہ مہاراشٹرا کا مسلمان خواب غفلت سے انگڑائی لے کر بیدار ہوا ہے۔
22ستمبر کو مجلس اتحادالمسلمین مہاراشٹرا یونٹ کے نائب صدر کی زیر قیادت اور 23ستمبر کو امتیاز جلیل کی قیادت میں نکالی گئیں ریالیاں جیسے جیسے ممبئی کی طرف رواں دواں تھیں‘ اور اس کا سوشیل میڈیا پر لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں میں بھی جوش و ولولہ پیدا ہورہا ہے۔
رام گیری کے فالوورس لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور انہوں نے بھی مہاراشٹرا کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا کہ رام گیری کے خلاف جسے وہ مہاراج بھی کہتے ہیں‘ جو 51 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں۔ نتیش رانے نے جوش میں بیان دیا کہ اگر رام گیری کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو مساجد میں گھس کر مسلمانوں کو مارا جائے گا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ چیف منسٹر شنڈے نے بھی رام گیری کی پشت پناہی کرتے ہوئے بیان دیا کہ جب تک ان کی حکومت ہے‘ کوئی بھی رام گیری کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ ان تینوں کے گستاخانہ بیانات اور ہٹ دھڑمی کے خلاف مجلس اتحادالمسلمین مہاراشٹرا یونٹ نے بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کیا اور ایک طرح سے مہاراشٹرا اڈمنسٹریشن کو سنجیدگی سے سوچنے کے لئے مجبور کردیا۔ ویسے نتیش رانے کے خلاف بھی دو ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں۔ کاروائی کا آغاز نہیں ہوا اس لئے کہ ایک دو مہینے میں مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ شنڈے حکومت ہندو اکثریتی طبقے کو ناراض نہیں کرسکتی۔ اس وقت عام سروے کے مطابق الیکشن میں مہاوکاس اگھاڑی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں جس میں این سی پی، کانگریس اور اودھو ٹھاکرے کی شیوسینا شامل ہے۔ 288 رکنی مہاراشٹرا اسمبلی کے الیکشن میں اجیت پوار چیف منسٹر کے دعویداری کے ساتھ میدان میں اُتررہے ہیں اور راج ٹھاکرے بھی لگ بھگ 15برس تک گمنامی کے غار میں رہنے کے بعد باہر نکل رہے ہیں۔ ممبئی کے بعض اخبارات نے امتیاز جلیل کی قیادت میں مجلس کی ریالی کو الیکشن سے جوڑا ہے۔ اور لکھا ہے کہ اس ریالی سے مجلس الیکشن میں فائدہ اٹھاسکتی ہے جبکہ بعض مخالف مجلس ارکان اور تنظیموں کا الزام ہے کہ اس ریالی سے مجلس کی مہاراشٹرا میں مقبولیت میں اضافہ اور گرفت مضبوط ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ این سی پی اور کانگریس پر اس کا منفی اثر ہوگا۔ جو بھی ہو‘ گستاخ عناصر کے خلاف آواز اٹھانی ضروری ہے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ اس وقت وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں بھی ہندوستان بھر میں مسلمان متحد ہورہے ہیں۔ اور باہمی اختلافات کو فراموش کرکے جلسوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں بیداری کی اس لہر سے یقینا مسلم دشمن طاقتیں حیران اور پریشان ہوں گی۔ کیوں کہ ایک عرصہ سے دیکھا جارہا تھا کہ ہر ظلم کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جارہا تھا۔ چاہے وہ مدھیہ پردیش ہو یا اُترپردیش یا کوئی اور ریاست‘ جہاں مسلمانوں کی جان و مال کا تحفظ غیر یقینی ہے۔ جو جوش‘ ولولہ اورنگ آباد تا ممبئی ریالی میں دیکھا گیا وہ ہر مقام پر ضروری ہے۔ ظالم اس وقت تک ظلم کرتا ہے جب تک سامنے والا سہتا ہے۔ جب مظلوم اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو ظالم گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ اُترپردیش اور دوسری ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے اسی طرح کے اجتماعی مظاہروں کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم سوشیل میڈیا پر جبر و ستم کی کاروائیوں کو ایک ڈاکومنٹری کے طرح دیکھتے ہیں‘ کچھ دیر کے لئے افسوس کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت پہلے کے مقابلے میں کمزور ہے۔ ہر فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں کرسکتی۔ کل تک جو شیر کی طرح گرجتے تھے اب ان کی دہاڑ بلی کی میاؤں میں بدل چکی ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ کوئی بھی ہمیشہ ایک جیسا طاقتور نہیں رہتا۔ اور ظالم کی عمر تو بہت کم ہوتی ہے۔ چوں کہ ہم نے برداشت کرنا سیکھ لیا اس لئے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔
حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں کے جلوسوں پر کافی باتیں کی گئیں‘ خاص طور پر میلاد جلوس پر تنقید بھی ہوئی۔ جبکہ مجلس کی ریالی بھی ناموس رسالت کے لئے نکالی گئی اور ساری دنیا سے اس کی تعریف کی جارہی ہے۔ فرق یہی ہے کہ اگر منظم طریقے سے جلوس اور ریالیاں منظم کی جائیں تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو اپنے ملک میں عزت، وقار کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کے لئے ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ مسلم سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود اپنی مذہبی تشخص کے لئے ایک ہوسکتی ہیں۔ جس طرح رام گیری اور نتیش رانے کے خلاف ریالی نکالی گئی‘ ایسی ہی ریالی آسام کے چیف منسٹر شرما کے خلاف بھی منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس نے مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کو پروان چڑھایا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آسام میں مسلمانوں کی 40فیصد آبادی کے باوجود وہاں کوئی بیداری کی لہر نظر نہیں آتی۔ حالانکہ آسام کے مسلمان بہادر بھی ہیں‘ اور حالات سے مقابلہ کرنے کے اہل بھی مگر لگتا ہے کہ جن لوگوں نے مسلمانوں کی قیادت کا بیڑہ اٹھایا انہوں نے مسلمانوں کے وقار کو اپنے مفادات کی خاطر گروی رکھ دیا ہے۔ ابھی تک بدرالدین اجمل کی جماعت کا رعب و دبدبہ تھا مگر حالیہ پارلیمانی الیکشن میں خود بدرالدین اجمل کو کانگریس کے نقیب الحسن نے دس لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دے کر ایک نئی تاریخ لکھی ہے۔ آسام میں جس طرح مسلم خاندانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ڈیٹنشن سنٹر میں بھیجا جارہا ہے‘ اس کے خلاف ہر قسم کی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ آسام کے مظلوم مسلمانوں کو ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کی تائید کی ضروری ہے۔ اُترپردیش کی نفرت انگیز حکومت کے اقدامات کے خلاف بھی ایسے ہی احتجاج اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ چوں کہ ہم منتشر ہیں‘ اور ہماری صفوں میں منافقین بھی ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ملت کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں کسی ایک مسلم قائد کو اپنا امیر ماننے کی ضرورت ہے۔اور ملت کے مستقبل سے متعلق اہم امور کے فیصلے اجتماعی رائے مشورے سے کئے جانے چاہئیں۔ ایسا ناممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ وقف ترمیمی بل کے خلاف جس طرح سے ملک گیر سطح پر احتجاج کیا جارہا ہے جس طرح سے نہ صرف مسلم بلکہ دیگر سیکولر جماعتیں بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہورہی ہیں‘ وہ ایک خوش آئند بات ہے۔ وقف ترمیمی بل کے خلاف جو لہر پیدا ہوئی ہے اس نے شاہ بانو مقدمے کے فیصلے کے خلاف اٹھنے والی لہر کی یاد تازہ کردی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بات کی کوشش کی جائے کہ اب جو اتحاد کی راہیں ہموار ہوئی ہیں‘ ان میں کسی قسم کی رکاوٹیں پیدا نہ ہوں۔ اس کے لئے ہر قائد کو اپنی اَنا کچلنی ہوگی۔ دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرناہوگا۔ اجتماعی فیصلوں اور اتحاد سے فائدہ سبھی کا ہوگا اور ارباب اقتدار آپ کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔ اوقاف کے معاملے میں بعض ٹکنی کلر بہروپیوں جنہوں نے بڑے بڑے بزرگانِ دین کے آستانوں کو شرک کے اڈے بنادیئے ہیں‘ اپنے مفادات کے لئے ارباب اقتدار کی چوکھٹ پر حاضری دینے لگے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہوئی کہ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اِن بہروپیوں کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کیا۔ ان بہروپیوں کے مسلم سماج کی جانب سے بائیکاٹ کی ضرورت ہے۔
امتیاز جلیل اس وقت اورنگ آباد اسمبلی حلقہ سے مجلس کے ا میدوار ہیں۔ اگرچہ کہ مسلم آبادی کم ہے‘ پھر بھی اگر تمام مسلمان متحد ہوکر انہیں کامیاب بناتی ہے تو یہ صرف مجلس کی نہیں‘ بلکہ ناموس رسالت کے لئے آواز اٹھانے والے ہر ایک مسلمان کی کامیابی ہوگی۔ ہماری نیک تمنائیں امتیاز جلیل کے ساتھ بھی ہیں اور مجلس اتحادالمسلمین کے ساتھ بھی ہیں۔

Address

Media Plus 5-9-322, Gun Foundry, Basheer Bagh, Telangana
Hyderabad
500001

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gawah Urdu Weekly posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Gawah Urdu Weekly:

Share