Tameere Ummat

Tameere Ummat Tameere Ummat is a mission to unite huminity and and spreed peace and love.

30/10/2024

جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک اسلامی معاشرے میں اتحاد و بھائی چارہ، امن و سکون کا ماحول، عدل و انصاف کا نظام، اخلاقی بلندی اور احترام، عبادات اور روحانی تعلق، خاندانی نظام کی مضبوطی، تعلیم اور علم کی جستجو، معاشی فلاح و بہبود،فلاحی کام اور دوسروں کی خدمت، ماحولیاتی تحفظ وغیرہ ایک اسلامی معاشرے کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔

لیکن اگر موجودہ معاشرے پر نظر ڈالیں تو بطور امت ہمارے دامن میں اجتماعیت کا فقدان، فرقہ واریت اور تعصبات، ریاکاری اور مذہبی نمود و نمائش، بدعت کو ہلکا جاننا اور اس کا فروغ، اخلاقی زوال اور مادیت پسندی، دینی تعلیمات کی کمی اور اس کی غلط تشریح، جاہ و حشمت اور دنیا کی محبت، تعلیمی پسماندگی اور جدید علوم سے دوری، غربت و مفلسی اور معاشی پسماندگی، معاشرتی عدم مساوات اور طبقاتی تقسیم، گھریلو اور خاندانی نظام میں بگاڑ، سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کے علاوہ سیکڑوں برائیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ ہے آج کے مسلم معاشرے کی تصویر؟ کیا یہ اسلام؟ یہ ہے نظام الٰہی کی حقیقی تصویر؟ یہ ہے اللہ کا پسندیدہ دین؟ یہ ہے وہ مثالی قانون الہٰی جو پوری دنیا کے لیے آیا ہے؟نہیں اور ہرگز نہیں۔

25/10/2024

قرآن میں دینِ اسلام کا مفہوم: ’’زهرة التفاسير‘‘ کی روشنی میں

اللہ کا قول (إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسْلامُ) گویا (أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ) کا بدل یا عطف بیان ہے، جس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ "لا إله إلا الله" کا مفہوم اسلام ہے، اور اللہ اسلام کی حقانیت کی گواہی دے رہا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر دلائل قائم فرمادیا۔ یہ اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور مقدس فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں جیسا کہ اللہ نے ان کو خبر دی ہے۔ علم والے بھی اپنی عقل و اجتہاد سے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ پس یہ دین عقل و اخلاص اور اللہ کا دین ہے۔ یہ فتح کے ساتھ قراءت کے مطابق ہے۔

جبکہ کسرہ کی قراءت کے مطابق تو اس کلام سے ایک نیا معنی پیدا ہورہا ہے جو پچھلی آیت کے مفہوم کو مزید واضح کرتا ہے، جس میں الوہیت، عبودیت، ربوبیت، اللہ کی عظمت اور حکمت کے معانی بیان کیے گئے ہیں، کیونکہ دینِ اسلام کا تقاضا ہے کہ ان سب پر ایمان لایا جائے۔ گویا کسی نے سوال کیا کہ وہ کون سا دین ہے جو ان حقائق کو بیان کرتا ہے؟ تو اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔ دین کا لفظ جزا، اطاعت و عبادت، اور مجموعی فرائض کے معانی میں آتا ہے، اور میں اس بات کی طرف مائل ہوں کہ یہاں دین سے مراد اطاعت و عبادت ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے نزدیک قبول کی جانے والی عبادت اور اطاعت صرف اسلام ہے۔ اسلام کا مطلب اللہ کے آگے مکمل سر تسلیم خم کرنا، خالصتاً اللہ کا ہوجانا اور کسی بھی معاملے میں حق سے سرکشی نہ کرنا ہے۔ اس طرح اسلام یہاں دو عناصر پر مشتمل ہوگا: اللہ کے لیے اخلاص اور صرف اسی کے سامنے جھکنا، کسی اور کے لیے نہیں۔
اس مفہوم کی تائید اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے (فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ- ترجمہ: پھر اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں تو کہہ دیجئے کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دیا ہے اور جس نے میری پیروی کی (انہوں نے بھی ایسا کیا) اور دوسرے مقام پر اس ارشاد خداواندی سے ہوتی ہے: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ... ترجمہ: ہاں، جس نے اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دیا اور وہ نیکوکار ہے۔

پس یہاں اسلام سے مراد اللہ پر مکمل ایمان اور اس کی توحید ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "ایمان دل سے معرفت، زبان سے قول اور اعضا سے عمل کا نام ہے۔"
اللہ کے فرمان (عِندَ اللَّهِ) میں دین کا اللہ کی طرف نسبت کرنا اور صرف اسلام کو اللہ کا دین قرار دینا، جس میں دونوں طرفین کی تخصیص موجود ہے، اسلام کی فضیلت کو واضح کرتا ہے۔«زهرة التفاسير» (3/ 1148)

اسلامی قوانین میں مزاج و معاشرتی پس منظر کے حامل افراد کے لیے گنجائش اور لچکچیٹ جی پی ٹی سے تیار کردہنوٹ: ایک ریسرچ کے د...
29/08/2024

اسلامی قوانین میں مزاج و معاشرتی پس منظر کے حامل افراد کے لیے گنجائش اور لچک
چیٹ جی پی ٹی سے تیار کردہ

نوٹ: ایک ریسرچ کے دوران ہمارے ایک ناقص پرومپٹ کی وجہ سے چیٹ جی پی ٹی نے یہ مضمون تیار کردیا۔ اگرچہ یہ اتفاقی مضمون ہے، لیکن باتیں عمدہ ہیں، اس لیے احباب سے شراکت کر رہا ہوں۔ تصویر بھی اسی کا تیار کردہ ہے۔
#ناظم اشرف مصباحی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر قوم کی تہذیب و ثقافت اسے مخصوص انداز میں ڈھالتی ہے۔ جس طرح افراد کا مزاج ان کی پرورش، ماحول، اور تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اسی طرح قوموں کا مزاج بھی ان کی مجموعی روایات، رسومات، اور ثقافتی اقدار سے بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، جاپانی قوم عموماً نظم و ضبط اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے مشہور ہے، جب کہ بعض دیگر اقوام کا مزاج زیادہ آزاد خیالی اور تخلیقی صلاحیتوں پر مبنی ہوتا ہے۔
جغرافیہ بھی قوموں کے مزاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جن علاقوں میں قدرتی وسائل زیادہ ہوں، ان کی معیشت اور طرزِ زندگی مستحکم ہوتی ہے اور عموماً لوگ پُرسکون اور معتدل مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، جو قومیں سخت جغرافیائی حالات میں رہتی ہیں، مثلاً صحرا یا پہاڑوں میں، وہاں کے لوگ عموماً زیادہ محنتی، سخت جان، اور سخت مزاج ہوتے ہیں۔
وہ قومیں جنہوں نے جنگیں، غلامی، یا نوآبادیاتی نظام جھیلا ہو، ان میں عدم تحفظ، تحفظ کی خواہش، اور جدوجہد کی خصوصیات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ جبکہ وہ قومیں جو طویل مدت تک امن و استحکام میں رہی ہوں، عموماً زیادہ پرامن اور مستحکم رویوں کی حامل ہوتی ہیں۔
جن معاشروں میں طبقاتی فرق زیادہ ہو، وہاں کے لوگ عموماً زیادہ جدوجہد کرنے والے اور بسا اوقات نفرتی مزاج ہو تے ہیں۔ جبکہ مساوات پر مبنی معاشرے میں لوگ زیادہ دوستانہ اور تعاون پسند ہوتے ہیں۔
تعلیم اور شعور کی سطح بھی قومی مزاج میں فرق پیدا کرتی ہے۔ تعلیم یافتہ قومیں عموماً ترقی پسند، تنقیدی سوچ رکھنے والی، اور جدت پسند ہوتی ہیں، جبکہ کم تعلیم یافتہ قوموں میں روایت پسندی اور قدامت پرستی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔سیاسی نظام بھی قوموں کے مزاج پر اثر ڈالتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں افراد کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع زیادہ ملتا ہے، اس لیے وہاں کے لوگ زیادہ خود اعتماد اور آزاد خیال ہو سکتے ہیں۔ جبکہ آمرانہ یا جابرانہ نظاموں میں لوگوں کا مزاج عموماً خوفزدہ، محتاط، اور عدم اعتماد کی حالت میں رہتا ہے۔

اسلامی قوانین میں معاشرتی انصاف، حقوق اور مساوات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے، اور مختلف مزاج، معاشرتی پس منظر اور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی ان میں گنجائش پائی جاتی ہے۔ شریعت نے ہر فرد کی ضروریات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون میں نرمی اور لچک رکھی ہے تاکہ انصاف اور عدل پر مبنی معاشرہ قائم ہو سکے۔

# # 1. **مزاج اور حالات کے مطابق قانون میں نرمی**
اسلامی قانون میں افراد کے حالات اور مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے نرمی برتی جاتی ہے۔ مثلاً بیمار، مسافر یا کسی معذور شخص کے لیے نماز کے طریقے میں نرمی ہے۔ روزے کے احکام میں بھی نرمی کی گئی ہے، جہاں بیماری یا سفر کی حالت میں روزہ بعد میں رکھنا جائز ہے۔

# # # 2. **مساوات اور طبقاتی فرق**
اسلام میں تمام انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے اور طبقاتی تفریق کو ختم کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

> **"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔"**
> (سورۃ الحجرات: 13)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسلام میں ذات پات یا طبقاتی فرق کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور سب لوگ برابر ہیں۔

# # # 3. **معاشرتی انصاف**
اسلامی قوانین میں انصاف اور حقوق کی فراہمی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ غریب، یتیم، مسکین، اور کمزور طبقات کے لیے خصوصی احکام دیے گئے ہیں تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو۔ زکوٰة، صدقہ، اور دیگر مالیاتی نظام اسی مقصد کے تحت بنائے گئے ہیں تاکہ معاشرتی ناہمواری کو دور کیا جا سکے۔

# # # 4. **تعلیم اور شعور کی کمی**
تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے اسلام نے علم کو فرض قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

> **"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔"**

اسلام میں تعلیم کے ذریعے لوگوں کو شعور اور آگاہی فراہم کرنے کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے تاکہ وہ ترقی پسند، تنقیدی سوچ رکھنے والے اور خود اعتماد افراد بن سکیں۔

# # # 5. **سیاسی نظام میں عوام کی رائے**
اسلامی شریعت میں مشاورت کا اصول قائم کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

> **"اور ان کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔"**
> (سورۃ الشوریٰ: 38)

یہ اصول جمہوری سوچ کی عکاسی کرتا ہے جہاں عوام کی رائے اور مشورہ کو اہمیت دی جاتی ہے، اور لوگوں کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

# # # 6. **قانونی تحفظات اور انسانی وقار**
اسلام نے ہر شخص کے انسانی وقار کو برقرار رکھنے کے لیے قوانین بنائے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مزاج یا طبقے سے ہو۔ غلامی کے خاتمے، خواتین کے حقوق، اور کمزور طبقات کے تحفظ کے احکام اسی حکمت کے تحت دیے گئے ہیں تاکہ کسی پر ظلم یا زیادتی نہ ہو۔

# # # 7. **شرعی عدالتوں میں فیصلہ سازی**
اسلامی عدالتیں فیصلے کرتے وقت مدعا علیہ کے حالات، پس منظر، اور نیت کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی مجبوری یا دباؤ کے تحت کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے، تو اسلامی قانون میں نرمی اور انصاف کا اصول اس کے حق میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔

# # # نتیجہ
اسلامی قوانین میں ہر فرد کے لیے گنجائش اور لچک موجود ہے، چاہے وہ کسی بھی مزاج یا حالات کا حامل ہو۔ ان قوانین کا مقصد معاشرتی انصاف، مساوات، اور حقوق کا تحفظ کرنا ہے تاکہ ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

اختلاف رائے کو جینے دو!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جدا سمجھنا فطری ہے لیکن ...
29/08/2024

اختلاف رائے کو جینے دو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدا سمجھنا فطری ہے لیکن یہاں بات کمتری اور برتری کی حد تک چلی جاتی ہے۔ پیدائشی جو شناخت ہمیں ملتی ہے ہم اسی کو ہی کامل اور تمام دیگر شناخت رکھنے والوں سے لاشعوری طور پر افضل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مجموعی طور ہم میں سے کوئی گروہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہماری اصلاح ہو یا کسی کی تنقید کی صورت میں اصلاح کا جو موقع ملتا ہو اس سے فائدہ حاصل کریں بلکہ الٹا اس اختلاف کو بڑی شدت سے دھتکار دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں فکری انتشار عروج پر ہے۔

میرے خیال میں عدم برداشت کی یہ روش موجودہ انتشار کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ کوئی گروہ کسی مخالف یا الگ خیالات رکھنے والے گروہ کا نقطہ نظر سننے کو تیار تک نہیں، جس کی وجہ سے معاشرے کا پرامن رہنا ناممکن نظر آتا ہے۔ معاشرے میں امن کا تعلق براہ راست وہاں رہنے والوں کی نفسیات سے ہوتا ہے اور یہاں واقعہ یہ ہے کہ ہر طرف انتہا پسندی کی بلند و بالا عمارتیں کھڑی کی گئیں ہیں۔ جو گروہ مذہب کے نام پر اٹھے ہیں وہ غیرمذہبی رجحان رکھنے والوں کے لیے اپنے دل میں کوئی گوشہ چھوڑنے کو تیار نہیں اور جو سیکولر و لبرل طبقہ اس انتہا پسند سوچ کے خلاف اٹھا تھا بدقسمتی سے وہ خود اسی انتہا پسند نفسیات کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔

مذہب کے ٹھیکیدار اپنے مابین درجن فرقے بنا کر اسی کوشش میں لگے ہیں کہ مخالف فرقے کی برائی اور خود کی اچھائی ثابت کریں۔ جب اپنے ہی فرقے میں کوئی کمزوری نکل آئے تو بجائے اصولی بحث یا دلیل ماننے کے دوسرے فرقے کی برائیاں گننا شروع کر دیتے ہیں مگر خود احتسابی اور حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے سے گریز ہی کرتے ہیں۔

عدم برداشت کی ممکنہ وجوہات پر نظر دوڑائیں تو ہمارے بوسیدہ نظام تعلیم سب سے پہلی وجہ نظر آتی ہے۔ یہاں سے نئی نسل کی داغ بیل ڈلتی ہے۔ اسی نظام تعلیم سے نکل کر ہماری نسل کی یہ کلیاں بڑے ہو کر یا تو پھول بن سکتے ہیں یا کانٹے بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے عموماً کانٹے ہی بن پاتے ہیں۔

نظام تعلیم پہلے تو مذہبی یعنی مدرسے اور غیرمذہبی یعنی سکول کالج میں منقسم ہے۔ ہر حصہ پھر مزید کئی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے قوم بذات خود ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کئی مدرسوں سے نکلے حضرات معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہب مسلمان بھائیوں پر بڑے آسانی سے جہنم کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ بات فکری اختلاف تک محدود ہوتی تو ایک بات تھی مگر یہاں تو اختلاف ذاتی لڑائی اور مارنے دھاڑنے تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔ ہر دھڑا دوسرے پر اس فدائیت سے حملہ آور ہوتا ہے کہ بس چلے تو مخالف کا وجود تک بھسم کر ڈالے۔

مسئلہ سطحی جذبات پر مبنی معاشرے کا بھی ہے۔ ہم میں سب ایک مخصوص دائرے کے اندر رہ کر کولہو کے بیل کی طرح اس بےبنیاد خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جہاں پیدا ہوئے وہ سب سے اعلی ترین مسلک، قوم، کلچر یا زبان ہے لہذا ہمیں کسی سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی کے بارے جاننے کی۔ ہم کل ہیں باقی سب جز ہیں اور اگر کسی کو کل بننا ہے تو ہماری مخصوص پہچان کو اپنا کر کے ہی بن سکتے ہیں۔ یعنی جو شناخت ہمیں بائی چانس ملی ہے جس کے حاصل کرنے میں ہماری کوئی کوشش تک نہیں اس کے لیے ہم مرنے مارنے کو تیار ہیں۔

یہی روش ہے جس نے ہمیں نئی چیزیں سیکھنے، نئے کلچرز کا مطالعہ کرنے، مختلف اقوام کو پرکھنے اور دیگر ادیان پر تحقیق کرنے سے روک رکھا ہے۔ بعض دفعہ تو اپنے بزرگوں کی طرف سے ایک نوجوان کو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ اپنے مخصوص فکر یا مسلک کے علاوہ کسی کا مطالعہ کرنا یا دلائل سننا اخلاقی جرم ہے کیونکہ فلاں فلاں طبقے کے پاس عجیب عجیب دلائل ہیں جس سے ان کا دماغ بھی بھٹک سکتا ہے! یہ رویہ کس قدر قابل رحم ہے یعنی جب آپ اپنے بچے کو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو بجائے جواب ڈھونڈنے میں مدد کرنے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم معاشرے میں اپنے بچوں کے اذہان کو اس قدر مقید کر دیتے ہیں تب ان کی سوچ صرف جذباتیت کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ ان کے اندر تجزیہ کرنے کی حس ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے مخصوص خ*ل میں اس قدر گرفتار ہو جاتے ہیں کہ پھر کسی دوسرے خیال یا فکر کے آدمی کو بطور انسان بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
از: جاوید حسین آفریدی

15/03/2024

Kya Maslaki Ikhtilafat ka Khatma Mumkin Hai? - کیا مسلکی اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے؟

https://youtu.be/EkXlsP5YpVI

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہہم نے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے۔امت مسلمہ کی ترقی و تعمیر کے راستے میں رکاوٹ بننے والے فک...
14/03/2024

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہم نے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے۔
امت مسلمہ کی ترقی و تعمیر کے راستے میں رکاوٹ بننے والے فکری مسائل کو حل کرنے اور امت کے اندر امت ہونے کا احساس پیدا کرنے کا۔
تفصیلات کے لیے یہ انٹروڈکشن ملاحظہ فرمائیں۔
https://youtu.be/0k_F9d1YZ5k?si=Eb034KTRS1ppP5ss
اور اپنے مشوروں سے نوازیں:
1. کیا آپ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
2. اس کو آگے کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟
3. وہ کون سے مسائل ہیں جن پر پہلے گفتگو ہونی چاہیے؟
4. وہ کون سے مباحث ہیں جن کی معتدل تفہیم کی آپ ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

ذیل میں ہمارے یوٹیوب چینل اور فیس بُک پیج کا لنک موجود ہے۔ ہم سے جڑے رہنے کے لیے سبسکرائب اور فالو کرلیں۔
یوٹیوب: https://www.youtube.com/

فیس بُک پیج: https://www.facebook.com/tameereummat1/

This video was made with Clipchamp

14/03/2024

تکفیر اساس اور تفہیم اساس کیا ہے؟
ان دونوں رویے کا ہماری زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
تکثیری معاشرے میں مسلمان اپنا مقام کیسے بنائے رکھیں؟
تکفیر ازم کے نقصانات کیا ہیں؟
اسلام جیسے فطری دین کو ہم دنیا کے سامنے متعارف کیوں نہ کراسکے؟
تکفیرازم سے نجات کا فارمولا کیا ہے؟

ان سب سوالات کا جواب جاننے کے لیے دیکھیں ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی صاحب سے یہ خصوصی گفتگو۔۔۔۔

14/03/2024

Tameere Ummat Introduction

مسلکی عصبیت کا عفریت جو تعمیر کے ہر راستے پر ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔
05/03/2024

مسلکی عصبیت کا عفریت جو تعمیر کے ہر راستے پر ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔

تعمیر امت :  یعنی امت کی تعمیر وترقی میں حائل فکری مسائل کے حل کی تلاش--------------------------------------------حقائق ...
05/03/2024

تعمیر امت : یعنی امت کی تعمیر وترقی میں حائل فکری مسائل کے حل کی تلاش
--------------------------------------------
حقائق اور مسائل
 امت کی تعمیر و ترقی ہر فرد کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لیکن تعمیر کے ہر راستے پر مسلکی عصبیت کا عفریت ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہے جو اِس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
 مسلکی جھگڑوں اور آپسی نفرت و تعصب نے امت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ دین کی اصل روح فنا ہوتی جارہی ہے۔ پچھلے سو ڈیڑھ سو سالوں سے ہم آپسی خانہ جنگیوں میں مصروف رہے اور دشمنوں نے ہمارے خلاف ایک مضبوط محاذ کھڑا کردیا ہے ۔ اگر ہم بحیثیت اُمت ایک ساتھ کھڑے ہوکر اس طوفان کا مقابلہ کریں تو ممکن ہے کہ ہمارا نقصان کم سے کم ہو۔
 اب جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارےفضلا مسلمانوں کے اندر انتشار کو ہوا دینے، اختلافات کا زہر پھیلانے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ایک عرصے سے استعمال ہو رہے ہیں اور ہمارے یہ فضلا اسلام کے خلاف مواد بیچتے آرہے ہیں۔ تو ایسے میں اُمّت کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے اور وحدت و اعتدال کی طرف بلانے کے لیے مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
 ہم جب بھی اپنی روحانی، تعلیمی یا معاشی تعمیر کی طرف بڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے فکری مسائل کا ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے اور ہم عمل کے بجائے میلاد و فاتحہ، مزارات و مقابر، سنت و بدعت، کفر شرک، عید میلاد و شب برات اور تقلید واجتہاد جیسے فروعی مباحث میں الجھ کر عمل کا موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔ جیساکہ ہم نے شروع میں کہا کہ تعمیر کے ہر راستے پر مسلکی عصبیت اور فکری مباحث ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
 آج عوام سے لے کر خواص تک سبھی ان مسلکی جھگڑوں اور آپسی خانہ جنگیوں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ان بیانات سے آگے ہمیں عملی طور پر کیا کرنا چاہیے؟ ان میں کتنے لوگ سنجیدہ ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ پھر اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو کیا کرنا ہے؟اس پر کیسے عمل ہو؟ ہمارے پاس کوئی ایسا واضح خُطہ یا لائحہ عمل نہیں ہے جس پر چل کر ہم موجودہ بحران سے نبرد آزما ہوسکیں۔

ان مسائل کا حل؟
 تاریخ گواہ ہے کہ اصلاح و فساد کے عمل کا آغاز پہلے اندر سے ہوتا ہے پھر باہر اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔اس لیے ہماری سب سے پہلی کوشش یہ ہوگی کہ :
1. امت کی اندرونی اصلاح کے لیےہم سب مل جل کر تعمیر کے راستے میں آنے والے فکری مسائل اور رکاوٹوں کا معتدل اور واضح حل تلاش کریں اور اس پر صدق دل سے عمل کریں۔
2. ایسے لوگوں کو متعارف کرائیں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں جووحدت و دعوت کے لیے کام کر رہے ہیں۔
3. ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی کرنا جن کے سبب امت میں اتحاد کی فضا قائم ہو۔
ہمارا مشن
ہمارا بنیادی مقصد اور مشن ہے تعمیر کی طرف بڑھنے کے لیے علمی رہنمائی فراہم کرنا اور تعمیر کی راہ میں حائل علمی اور فکری رکاوٹوں کا حل تلاش کرنا۔
ہمارا وِژن
مسلمانوں میں مثبت اور دعوتی طور پر امت کے تصور کو زندہ کرنا اور وحدت امت کی فکر پیدا کرنا۔
آپ کی ذمہ داری
امت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے اس مشن میں آپ ہمارا ساتھ دیں اور ہماری آواز زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں ہمارے مدد کریں۔

Address

Islampur
Islampur
733202

Telephone

+918052484295

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tameere Ummat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Tameere Ummat:

Share