Mufti Harunrashid Qasmi

Mufti Harunrashid Qasmi دیوبندیت نام ہے عاشق رسول ﷺ کا ♥️

*www.fb.com Abna e Deoband*
تھوڑا دیوبندیت کو دیکھتے ہیں آخر یہ ہیں کون۔۔؟؟؟

‏‏1857 کی انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں علماء و مجاہدین کی قیادت کرنے والا اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ علماء کے مرشد کا لقب پانے والا حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ دیوبندی تھا“
برصغیر میں شرک و بدعت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں توحید و سنت کا علم لہرانے والا بانی دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتویؒ دیوبندی تھا“
‏انگریز کے اقتد

ار کے خلاف حضرت نانوتوی کی قیادت میں پہلی عسکری کاروائی کے دوران شہید ہونے والا پہلا مجاہد حافظ محمدضامنؒ دیوبندی تھا“
کفر و دجل اور عیسائیت کا سرخم کرنے والا فقہیہ امت رشید احمد گنگوہیؒ دیوبندی تھا“
انگریز کو کتے کی طرح دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کرنے والا اورتحریک ریشمی رومال کی قیادت و راہنمائی کرنے والا گلستان دیوبند کا پہلا پھول حضرت شیخ الہند محمود حسنؒ دیوبندی تھا“
وطن سے بہت دور جزیره مالٹا میں طویل مدت تک پس دیوار زنداں رہنے والے
شیخ الہندؒ حسین احمد مدنیؒ مولانا عزیز گلؒ و دیگر احبابؒ دیوبندی تھے“
عقائد و نظریات اسلامی کے مقابلے میں کفر و شرک کو مات دینے والا مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ دیوبندی تھا“
‏رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کی دیوار کے سائے میں 18 سال احادیث شریف پڑھانے والا سیدنا حسین احمد مدنیؒ دیوبندی تھا“
امت کی صراط مستقیم پر رہنمائی کے لیے تصانیف کے انبار لگانے والا حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ دیوبندی تھا“
‏ختم نبوت کے منکر جھوٹےمدعی نبوت مرزا قادیانی کوذلیل و رسوا کرکے اس کے کفر کو طشت از بام کرنے والا
انور شاہ کاشمیریؒ دیوبندی تھا“
تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکوں پر دس ہزار لوگوں کی قربانی دینے والوں کی قیادت کرنے والاعطا اللہ شاہ بخاریؒ دیوبندی تھا“
افغانستان کی سرزمین پر خلافتِ راشدہ کا نمونہ پیش کرنے والا ملا عمر مجاہد دیوبندی تھا“
اسلام کا پیغام دنیا میں کونے کونے تک پہچانے والی تبلیغی جماعت کا بانی مولانا الیاسؒ دیوبندی تھا“
فضائل اعمال لکھ کر عام مسلمانوں میں نیک اعمال کی رغبت پیدا کرنے والا شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلویؒ دیوبندی تھا“
قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف معرکتہ آراء مقدمہ لڑ کر سرخرو ہونے والا مفتی محمودؒ دیوبندی تھا“
غالی رافضیت کے کفر کو برسرِعام برہنہ کرنے والا حق نواز جھنگوی دیوبندی تھا“
تحفظ صحابہ کے لیئے اسمبلی میں گرجنے والا اعظم طارق شہید دیوبندی تھا۔
جستس سجاد علی شاہ کی عدالت میں ۴ کھنٹے شیعہ کے کفر پر دلائل دینے والا علامہ علی شیر حیدری دیوبندی تھا۔
آج بھی کشمیر کی وادی میں لڑنے والا جیش محمد کا امیر مولانا مسعود ازہر دیوبندی ہے۔پ

آج ان صاحب سے ملاقات ہوئی یہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں انکے یہاں باربرداری کی خدمت انجام دیتے تھے...
01/12/2025

آج ان صاحب سے ملاقات ہوئی یہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں انکے یہاں باربرداری کی خدمت انجام دیتے تھے
انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک شخص آئے جن کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اور جسم پر صرف ایک تہ بند اس وقت مولانا مدنی کمرہ میں بیٹھے مطالعہ کر رہے تھے اور بہت سے
طلبہ کمرہ کے باہر تھے آتے ہی انہوں نے کہا کہ مدنی کو بلاؤ سارے طلبہ حیرت سے انکی طرف دیکھنے لگے انکے اصرار پہ کہ مدنی کو باہر بلاؤ ایک شخص نے حضرت کو ان کی آمد کی اطلاع دی حضرت باہر تشریف لائے تو انکو دیکھتے ہی انکے پیچھے ہو لیے کچھ دیر کے بعد مولانا مدنی سے کہا کہ حقہ پہ چلم رکھ کر لاؤ مولانا خود اندر سے حقہ تیار کرکے لائے اور چند منٹ کے بعد وہ باہر چلے گئے بہت سے طلبہ انکے پیچھے چل دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے طلبہ نے انکے متعلق جب حضرت مدنی سے دریافت کیا تو بہت دیر کے بعد حضرت مدنی نے بتایا کہ یہ ابدال تھے۔
منقول

بھوپال میں صدر جمعیت مولانا محمود مدنی کا جرأت مندانہ خطاب
01/12/2025

بھوپال میں صدر جمعیت مولانا محمود مدنی کا جرأت مندانہ خطاب

01/12/2025
دیوبند: محض ایک شہر نہیں، ایک عہد کا نامہندوستان کی تاریخ میں ۱۸۵۷ء کا سال خون کی سیاہی سے لکھا گیا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا س...
01/12/2025

دیوبند: محض ایک شہر نہیں، ایک عہد کا نام

ہندوستان کی تاریخ میں ۱۸۵۷ء کا سال خون کی سیاہی سے لکھا گیا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہو چکا تھا، دلی کی گلیاں ویران تھیں اور مسلمانانِ ہند مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ انگریز نہ صرف زمین پر قابض ہو چکا تھا بلکہ وہ ذہنوں اور عقیدوں کو بھی غلام بنانے کے درپے تھا۔ ایسے پُر آشوب دور میں، جب ہر طرف خزاں کا ڈیرا تھا، سہارنپور کے ایک چھوٹے سے قصبے "دیوبند" کی مٹی سے ایک ایسی کونپل پھوٹی جس نے آگے چل کر تناور درخت بننا تھا۔
یہ داستان کسی عالی شان عمارت، سرکاری فنڈز یا شاہی سرپرستی سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ داستان شروع ہوتی ہے "اخلاص" سے۔
انار کا درخت اور خلوص کی بنیاد
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ۱۵ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ کی وہ مبارک صبح تھی جب دیوبند کی "چھتہ مسجد" کے صحن میں ایک انار کے درخت کے سایے میں ایک مدرس اور ایک شاگرد نے اس عظیم تحریک کا آغاز کیا۔ مدرس کا نام ملا محمود اور شاگرد کا نام محمود حسن (جو بعد میں شیخ الہند بنے) تھا۔
نہ کوئی دفتر، نہ کوئی رجسٹر، نہ کوئی شور و غوغا۔ بس ایک اللہ کا نام اور دین کو بچانے کی تڑپ۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، جو اس فکر کے بانی تھے، انہوں نے اس ادارے کی بنیاد ایسی "فقیرانہ شان" اور "قلندرانہ ادا" پر رکھی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ انہوں نے اصول طے کیا کہ یہ ادارہ حکومت کے چندے کا محتاج نہیں ہوگا بلکہ غریب مسلمانوں کی مٹھی بھر امداد اور اللہ کے توکل پر چلے گا۔
دیوبند: ایک فکر، ایک تحریک
دیوبند صرف فقہ اور حدیث پڑھنے کی جگہ نہیں بنی، بلکہ یہ ۱۸۵۷ء کے مجاہدین کی وہ چھاؤنی ثابت ہوئی جہاں قلم اور کردار کے ہتھیار تیار کیے گئے۔ یہاں سے نکلنے والوں نے جہاں مساجد کے ممبروں کو آباد کیا، وہیں انگریز کے خلاف میدانِ جنگ میں بھی صفِ اول میں کھڑے نظر آئے۔
اردو ادب کے حوالے سے دیکھیں تو دیوبند کی نثر اور نظم میں ایک خاص "متانت" اور "شستگی" ہے۔ ان کی تحریروں میں اگرچہ عربی و فارسی کی گہری چھاپ ہے، لیکن بیان اتنا سلیس اور پُر اثر ہے کہ سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی اصلاحی تحریریں ہوں یا مولانا حسین احمد مدنیؒ کے سیاسی خطبات، ہر جگہ زبان کا ایک الگ حسن نظر آتا ہے جو ادب برائے زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔
حاصلِ کلام
دیوبند کی یہ بستی، جسے آج دنیا "ازہر الہند" کے نام سے جانتی ہے، دراصل مسلمانوں کی "اجتماعی خودی" کی بازیافت کا نام ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو آندھیوں میں جلایا گیا اور جس کی روشنی نے ایشیا سے لے کر افریقہ اور یورپ تک علم کے اجالے پھیلائے۔
جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دیوبند کی مٹی نے ایسے ہی دیدہ ور پیدا کیے ہیں جن کا ذکر ہم اگلی اقساط میں تفصیل سے کریں گے۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کا مجسٹریٹ کے سامنے دیے ہوئے ایک بیان کا اقتباس
01/12/2025

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کا مجسٹریٹ کے سامنے دیے ہوئے ایک بیان کا اقتباس

دوبارہ نائب صدرجمعیتہ علماء ہند منتخب ہونے پر ہم  حضرت اقدس مولانا محمد  سلمان صاحب بجنوری نقشبندی دامت برکاتہم کو مبارک...
01/12/2025

دوبارہ نائب صدرجمعیتہ علماء ہند منتخب ہونے پر ہم حضرت اقدس مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری نقشبندی دامت برکاتہم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں 💐

علماء انبیاء کے وارث ہیں ♥️
28/11/2025

علماء انبیاء کے وارث ہیں ♥️

اویسی کی بد زبانی پرآل انڈیا علماء بورڈ کی جانب سے، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کو خط۔۔۔۔۔۔۔۔
28/11/2025

اویسی کی بد زبانی پر
آل انڈیا علماء بورڈ کی جانب سے، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کو خط۔۔۔۔۔۔۔۔

مدرسہ اکّلکوا بھی قانون کی لپیٹ میں:اکّلکُوا کے مدرسہ اشاعت العلوم پر "بی جے پی" کے لیڈر کریٹ سومیا نے الزام لگایا ہے کہ...
28/11/2025

مدرسہ اکّلکوا بھی قانون کی لپیٹ میں:
اکّلکُوا کے مدرسہ اشاعت العلوم پر "بی جے پی" کے لیڈر کریٹ سومیا نے الزام لگایا ہے کہ ادارے کو غیر قانونی غیر ملکی فنڈنگ مل رہی تھی اور فنڈز کا استعمال ملک دشمن سرگرمیوں اور مذہب کی تبدیلی کے لیے کیا جا رہا تھا، مرکزی حکومت نے FCRA ادارے کا لائسنس منسوخ کر دیا ہے اور تقریباً ₹110 کروڑ کی جائیداد ضبط کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
مزید الزامات — جیسے قبائلی زمین پر قبضہ، جعلی مریضوں کا ریکارڈ، اور طلبہ کے داخلوں میں بے ضابطگیاں — اللہ ادارے کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین🤲🏻

🔰 `اکابرِ دیوبند ؒ کیا تھے ؟`(قسط دوم) *از قلم: سابق جسٹس شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ ...
27/11/2025

🔰 `اکابرِ دیوبند ؒ کیا تھے ؟`
(قسط دوم)

*از قلم: سابق جسٹس شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ العالیہ*
_________________________________
2. یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمة الله عليه نے ”ابوحنیفۂ عصر“ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه واقعہ سناتے ہیں کہ:
”حضرت مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھارہے تھے کہ بارش آگئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا گنگوہی رحمة الله عليه سب طلبہ کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اُٹھا کر لے چلیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے“

3. شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم وفضل کا کیا ٹھکانا ؟ لیکن حضرت تھانوی رحمة الله عليه راوی ہیں کہ ”ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمة الله عليه نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہوگئے اور حدیث ”فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد“ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:

”ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔“

مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ: ”یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائز نہیں۔“

حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے ؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کااندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے! حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:

”مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہوگئی، یعنی آپ کی شہادت۔“

چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرمادیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ”غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں“ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کا ترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔“ مولانا رحمة الله عليه نے برجستہ فرمایا کہ ”حدیثِ وحی میں ہے: [یاتینی مثل صلصلة الجرس وہو أشدّ علیّ] (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں ؟ “ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔

4. حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسے کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی، اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمة الله عليه کی تقریر ہوگی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمة الله عليه شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیں آئے تھے۔ جب حضرت رحمة الله عليه کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمة الله عليه کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمة الله عليه کے علمی مقام کا اندازہ ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کرکے فوراً ختم کردیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمة الله عليه موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:
”حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟ “
شیخ الہند رحمة الله عليه نے جواب دیا: ” ہاں! دراصل یہی خیال مجھے بھی آگیا تھا۔“

حضرت علی رضى الله تعالى کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کردی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اُسے زمین پر گراکر اس کے سینے پر سوار ہوگئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہوکر اُس نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علی رضى الله تعالى عنه اُس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہوگئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اُلجھا تھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہوتی۔

حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اپنے اس عمل سے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی یہ سنت تازہ فرمادی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی سے خالص اللہ کے لیے ہورہی تھی لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لیے ہوتی، اس لیے اسے روک دیا۔ سبحان اللّٰہ! (جاری…)

ہاں ! میں مولانا سید ارشد مدنی ہوں۔نازش ہما قاسمی جی ! رہبر، سالار، قائد، سربراہ، رہنما، مرشد، گرو، پیشوا، مقتدا، لیڈر، ...
27/11/2025

ہاں ! میں مولانا سید ارشد مدنی ہوں
۔نازش ہما قاسمی
جی ! رہبر، سالار، قائد، سربراہ، رہنما، مرشد، گرو، پیشوا، مقتدا، لیڈر، سردار، اُپدیشک، ناصح، واعظ، استاد، معلم، مدرس، پادھا، شکشک، ٹیچر، دانشور، صاحب علم وحکمت، صاحب بصیرت، صاحب فراست، گیانی، نالیجبل، ذکی، ذہین، تیز فہم، دانا، عقل مند، دور اندیش، ہوشیار، منکسر مزاج، خلیق، متواضع، بے باک، بے خوف، نڈر، صاف گو، حق گو، راست گو،حق آشنا، حقیقت آشنا، حقیقت شناس، سچا، صادق القول، توحید پرست، حق پرست، موحد، خدا رسیدہ، داعی، مقدس، عابد، زاہد، تپسوی، درویش، پارسا، خدا شناس، عبادت گزار، دین دار، عارف باللہ، بزرگ، پرہیزگار، پاک دامن، صاف باطن، پاک سیرت، صالح، پاکباز، صاحب تقویٰ، تہجد گزار، دھرم چاری، شریف، عظیم، محترم، نیک نام،نیک دل، جہاں رسیدہ، باعزت، باوقار، باتمیز، باشعور، عالی نسب،خوش حال، صاحب ثروت، فارغ البال، خوش طبع، خوش مزاج، خوش ذوق، خوش مذاق، زندہ دل، شائستہ، مہذب، آبرومند، اقبال مند، ذی مرتبت، معتبر، لائق احترام، بھلا مانس، مہمان نواز، فیاض، سخی، تواضع وخاطرداری کرنے والا، آئوبھگت کرنے والا، اہل دل، درد مند، محسن، مربی، سرپرست، ولی، ادیب، سخن ور، سخن داں، سخن شناس، ماہر ز بان، انشاپرداز، مصنف، عالم، فاضل، مفسر، محدث ، صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ دارالعلوم دیوبند وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، امیرالہند، حضرت مولانا سید ارشد مدنی ابن مجاہد آزادی ہند شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ہوں۔...
میری پیدائش سرزمین علم و ہنر، گہوارہ علم وادب سرزمین دیوبند میں آزادی ہند سے چھ سال قبل مجاہد آزادی ہند سرخیل علمائے دیوبند، اسیر مالٹا حسین احمد مدنی کے یہاں ۱۳۶۰ ہجری بمطابق ۱۹۴۱ میں ہوئی۔ تعلیم کا آغاز پانچ سال کی عمر میں کیا، استاذ اول مولانا قاری اصغر علی صاحب تھےآٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا اور آسام کے بانسکنڈی میں حضرت والد محترم کو پہلی محراب سنایا، عربی تعلیم کا آغاز ۱۹۵۵ سے ہوا، دارالعلوم دیوبند میں ۱۹۵۹ میں داخلہ لیا جہاں عربی زبان میں عبور ومہارت کے لیے مولانا وحیدالزماں کیرانوی ؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ، پھر عربی زبان میں مہارت تامہ کے لیے شیخ عبدالوہاب، محمود عبدالوہاب مصری رحمہمااللہ سے استفادہ کیا۔ دارالعلوم سے درس نظامی کی تکمیل ۱۹۶۳ میں ہوئی، معروف اساتذہ کرام میں مولانا سید فخرالدین مرادآبادی، مولانا اعزاز علی امروہوی، علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا جلیل کیروانی، مولانا اختر حسین دیوبندی علیہم الرحمہ شامل ہیں۔ دینی علوم سے فراغت کے بعد بیعت سلوک کے منازل طے کرنے کےلیے برادر کبیر فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی کی رہنمائی حاصل کی اور قلیل عرصے میں ہی بیعت وخلافت کی اجازت سے ہمکنار ہوا، تصوف وسلوک میں مزید پختگی کے لیے مدینہ شریف تشریف لے گیا اور وہاں ۱۴ ماہ تک مسلسل حرم نبیﷺ میں گزار کر روحانیت حاصل کی۔ حصول علم سے فراغت اور سلوک کے منازل طے کرنے کے بعد ۱۹۶۵ میں مدرسہ قاسمیہ گیا بہار، سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور نونہالان ملت کو علوم نبوی کے چشمہ حکمت ومعرفت سے سیراب کرنا شروع کیا۔ ۱۹۶۹ میں فخر المحدثین کے ایماء وارشاد پر جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کی منصب تدریس پر فائز ہوا۔ ۱۹۸۲ میں ارکان شوریٰ کی دعوت پر دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس سنبھالی، اس وقت سے آج تک تقریباً ۴۱ برس سے ایشیاء کی عظیم اسلامی یونیورسٹی اور مسلمانان ہند کے فخروآبرو ،دارالعلوم دیوبند میں حدیث شریف کا درس دے رہا ہوں۔ اس درمیان دارالعلوم دیوبند میں نائب ناظم تعلیمات، ناظم تعلیمات کا عہدہ بھی بحسن وخوبی سنبھالا اور دارالعلوم کے تعلیمی وتربیتی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ۔۲۳؍ مارچ ۱۹۸۲ کو قضیہ دارالعلوم پیش آیا اور دارالعلوم دو حصوں میں بٹ گیا، ۱۹۸۴ میں جمعیۃ کی مجلس عاملہ کا رکن بنایاگیا، ۲۰۰۶ میں فدائے ملت کے وصال کے بعد صدر منتخب ہوا، ۲۰۰۸ میں جمعیۃ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک دھڑے کے صدر قاری عثمان صاحب منصور پوریؒ بنائے گئے اور دوسرے دھڑے کا میں رہا۔ قاری عثمان منصور پوری کے وصال کے بعد بھتیجے محمود مدنی صدر منتخب ہوئے۔ حضرت مفتی سعید پالنپوریؒ (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کے وصال کے بعد اکابرین نے مجھ پر بھروسہ واعتماد کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین کا عہدہ تفویض کیا جسے بحسن وخوبی نبھارہا ہوں۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی شوق اکابرین علمائے دیوبند سے ورثے میں ملا، کئی کتابوں کو تحقیق و تعلیق کے ساتھ شائع کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ اتنا ہی نہیں دینی ماحول میں عصری تعلیم کا نظام قائم کیا اور ۱۹۹۷ میں مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی، اس ٹرسٹ کے تحت مدارس ومکاتب کا ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں جال بچھا ہوا ہے جہاں سے بڑی تعداد میں تشنگان علوم دینیہ وعصریہ فیضاب ہورہے ہیں۔
ہاں میں وہی مولانا سید ارشد مدنی ہوں جو مسلمانان ہند کی آواز ملک وبیرون ممالک میں انتہائی بے باکی کے ساتھ اُٹھاتا رہتا ہوں، ملک کی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو ’جمہوری‘ حق دلانے کےلیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں، عمر کے اس پڑاؤ میں بھی مسلسل فکرمند رہتا ہوں ، مسلمانوں کے تحفظ وبقاء کے لیے حکومت وقت ، ارباب اقتدار، آر ایس ایس لیڈران سے ملاقاتیں تک کرچکا ہوں ، ہاں میں وہی ارشد مدنی ہوں جس نے ۱۲؍ فروری کو دہلی کے رام لیلا میدان میں جمعیۃ علماء ہند کے ۳۴ ویں اجلاس عام میں مسلمانان ہند اور سربراہان مذاہب ومسالک سے طویل خطاب کرتے ہوئے اللہ اوم ، آدم ’منو ‘کو ایک بتایا، منو کی تعلیمات کو خالص توحید پرمبنی قرار دے کر ’گھر واپسی‘ کا نعرہ لگانے والوں کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ’اگر گھر واپسی ہی کرنی ہے تو انہیں کرنی چاہئے ہم تو پہلے سے ہی ’منو‘ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا بی جے پی حکومت سے قبل ۳۰ کروڑ مسلمانوں کی گھر واپسی کی آواز پہلے کبھی نہیں اُٹھی تھی، اس حکومت کے آنے کے بعد فرقہ پرست ذہنیت اتنی آزاد ہوگئی کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہم ۳۰ کروڑ مسلمانوں کو ’گھر واپس‘ (دوبارہ ہندومذہب) کی طرف لے جائیں گے، اس لیے کہ ہندو ان کا گھر ہے، ان کے باپ دادا ہندو تھے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام جسے منو کہاجاتا ہے وہ سرزمین ہند تشریف لائے، ان کی تعلیمات توحید خالص پر مبنی تھی وہ موحد تھے اور ’اوم‘ ایک اللہ کی پرستش کرتے تھے، اس کے سوا نہ کسی کو پوجتے تھے نہ مانتے تھے یہ ہمارا عقیدہ ہے ،اسلام کو ئی نیا دین نہیں ہے، یہ وہی دین ہے جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوتا ہے، آدم سے لے کر نبی آخرالزماں ﷺ تک دین ایک ہی ہے اور آدم علیہ السلام ہمارے پروَج تھے، آبا واجداد تھے، ہمارے ہی نہیں؛ بلکہ تمام انسانوں کے منو، آدم آباؤ واجداد ہیں، ہم آدم سے آدمی کہلائے اور منو سے منش قرار دئیے گئے، ہم ایک ہی آدم کی سنتان واولاد ہیں اور اسی آدم کے توحید خالص پر ایمان رکھتے ہیں پھر ہمیں گھر واپسی کی ضرورت ہی نہیں ۔
میری اس تقریر کے بعد وہیں اسٹیج پر ہی جین دھرم کے مذہبی رہنما نے اعتراض کیا، اور غلط زبان استعمال کرتے ہوئے میرے بیان کو بیہودہ قرار دیا اور دعوت مناظرہ دینے لگا، میڈیا میں بھی شور شرابہ اور ہنگامہ برپا ہے، کچھ لوگ اسے غیر ضروری بیان قرار دے رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ سدبھاؤنا کے اسٹیج سے امن وایکتا کی بات ہونی چاہیے تھی ، کچھ بیان کی حمایت کررہے ہیں، کچھ مخالفت، اور یہ دونوں سلسلہ ہنوز جاری ہے؛ لیکن اتنے بڑے مجمع میں، نعرہ مستانہ اور توحید خالص کی دعوت دینے کا مقصد دوسروں کے مذاہب و ادیان کو برا بھلا کہے بغیر دین اسلام کی حقانیت واضح کرنا، گھر واپسی کا نعرہ لگانے والوں کو منو (آدم) کی تعلیمات سے روشناس کرانا، ملک میں پھیلی انارکی کو دور کرنا، امن وامان کی فضاء برقرار رکھنا، غیر ضروری چیزوں میں الجھنے کے بجائے درست سمت میں سوچنے کی راہ فراہم کرنا تھا اور میں الحمد للہ اپنے مقصد میں صد فیصد کامیاب ہوں۔

Address

JAMKHANDI
Jamkhandi
587301

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mufti Harunrashid Qasmi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mufti Harunrashid Qasmi:

Share