Shakil Ahmad

Shakil Ahmad Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Shakil Ahmad, Digital creator, Katihar.

Addmission open
14/10/2024

Addmission open

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بڑے ہی خوشی و مسرت کے ساتھ ایک خبر دی جا رہی ہے کہ Al- Ahmad Islamic (online) Academy کی...
12/10/2024

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بڑے ہی خوشی و مسرت کے ساتھ ایک خبر دی جا رہی ہے کہ Al- Ahmad Islamic (online) Academy کی طرف اسکول کالج یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کو دین سیکھنے کا سنہرا موقع ہے جو حضرات خواہش مند ہے وہ جلد از جلد رابطہ کرے دیے گئے نمبر پر سیٹیں بہت کم ہیں ایڈمشن کرا کے اپنا نام اندراج کرا لے
ڈائریکٹر : شکیل احمد
پرنسپل : حافظ کوثر عالم بخاری

شیخ محمد عوامہ کے افکار و نظریات  خلاصہ١- محمد عوامہ عقائد کے باب میں تفویضی اشعری ماتریدی ہیں، اور اپنے امام وقدوہ محمد...
20/09/2024

شیخ محمد عوامہ کے افکار و نظریات

خلاصہ

١- محمد عوامہ عقائد کے باب میں تفویضی اشعری ماتریدی ہیں، اور اپنے امام وقدوہ محمد زاہد کوثری کے منہج کے مطابق جہمیہ کی طرح صفات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں اور اثبات کرنے والے سلفیوں کو مجسمہ ومشبہ اور ظاہر پرست کا نام دیتے ہیں اور سلفی ائمہ وعلماء پر طرح طرح کا طعن و تشنیع کرتے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ ہم آیات واحادیث الصفات کو صرف تلاوت کریں گے اور پڑھیں گے لیکن ان کی تفسیر اور معنی ومفہوم بیان نہیں کریں گے کیونکہ اس سے تشبیہ وتجسیم لازم آئے گی، یہ تفویض ہی سلف صالحین کا اجماعی واتفاقی مسلک ہے، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ آیات واحادیث الصفات متشابہات میں سے ہیں جن کی تفسیر میں گمراہ لوگ ہی الجھتے ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں: "نظرات في بعض كتب العقيدة" کے عنوان سے محمد عوامہ کا مضمون،https://youtu.be/RVO41bSZILE?si=AmaQilYBPvNXm-G4)

٢- محمد عوامہ نے کوثری کی اقتداء کرتے ہوئے امام ابن خزیمہ کی "کتاب التوحید"، ابن ابی حاتم کی کتاب "الرد على الجهمية" اور عثمان بن سعید دارمی کی کتاب "نقض الدارمي على بشر المريسي"، اور "الردِّ على الجهمية" پر خوب تنقید کی ہے، اور ان ائمہ کرام کو ظاہر پرست، مشبہ اور حق سے محروم قرار دیا ہے، لکھا ہے دارمی کو حدیث کا کچھ خاص علم نہیں تھا، اور تینوں علم عقیدہ سے نابلد تھے حتیٰ کہ انہوں نے امام ابن خزیمہ اور ابن ابی حاتم سے ان کا اپنا قول نقل کیا ہے کہ ہمیں عقیدہ کا علم نہیں ہے لہٰذا ہمیں اس فن میں نہیں گھسنا چاہیے جس کا علم نہیں ہے، اور ان کے مطابق ابن خزیمہ نے آخری عمر میں رجوع بھی کر لیا تھا یعنی تفویض کے قائل ہو گئے تھے۔ (نظرات في بعض كتب العقيدة)

٣- محمد عوامہ نے صفت وجہ، صورہ، عین، سمع، ید، استواء، رِجل، کلام، ضحک، نزول اور رؤیت باری تعالیٰ وغیرہ کا صراحتاً انکار کیا ہے اور ان صفات کو کتاب التوحید کے اندر ذکر کرنے پر امام ابن خزیمہ پر طعن کیا ہے اور ان کے حق میں امام الائمہ لکھنے کو غلط یا مغالطہ قرار دیا ہے، اسی طرح علو باری تعالیٰ اور صفت استواء علی العرش کے اثبات کرنے پر امام دارمی پر بھی تنقید کی ہے، جبکہ ان صفات کا انکار کرنے اور ان ائمہ کو سب وشتم کرنے کی وجہ سے محمد زاہد کوثری کو امام باور کرایا ہے اور ان کی خوب تعریف کی ہے۔ (نظرات في بعض كتب العقيدة)

٤- عوامہ صاحب نقشبندی صوفی ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ علم التصوف شرعی علوم میں سے ہے، دیگر علوم شرعیہ فقہ، کلام، اور حدیث کی طرح یہ بھی ایک مستقل علم ہے جس کے اپنے خاص قواعد، مبادیات، مناہج، ائمہ کرام اور اپنی خاص تصنیفات ہیں، اس شریف علم کے تعلق سے جو اخذ ورد اور اختلاف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس کی مختلف قسموں کے مابین تفریق نہیں کرتے ہیں جن میں سے ایک پیری مریدی کا علم ہے یعنی ایک شخص کسی بزرگ کی صحبت میں رہ کر تصوف وسلوک کے دقائق ولطائف سیکھتا ہے، اس کے صحیح ہونے میں کسی بھی عالم کا اختلاف نہیں ہے، اسی طرح انہوں نے مشہور ترکی صوفی بزرگ شیخ محمود آفندی نقشبندی کی خوب تعریفیں کی ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں: https://youtu.be/JNwpjAaRGlM?si=i3Dw1YYAoL1WaPXF، https://youtu.be/LJr9Rjy1iWc?si=nXdU7JiqNbyk-SF5)

٥- بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ عوامہ صاحب حزبی تحریکی اخوانی ہیں، اور یہ کوئی بعید بات نہیں ہے کیونکہ ان کے سب سے چہیتے، خاص اور عظیم استاد عبد الفتاح ابو غدہ شام کے اندر اخوان المسلمین کے مراقب عام (جنرل سوپر وائزر) تھے، لہٰذا یہ بدیہی بات ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ توجہ اپنے شاگرد خاص پر ہی صرف کی ہوگی اور شاگرد پر استاد محترم کا اثر بھی ہوا ہوگا، نیز قرضاوی صاحب سے بھی ان کے بڑے گہرے اور دوستانہ تعلقات تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کی بڑی تعریفیں کی ہیں، شیخ ابو عمرو نور الدین السدعی لکھتے ہیں:"محمد عوامہ ایک جامد ومتعصب حنفی شخص ہے، وہ چھوٹے کوثری عبد الفتاح ابو غدہ کے ہونہار شاگردوں میں سے ایک ہے، جو ابو حنیفہ اور اپنے استاد گمراہ کوثری کے حق میں جنونی حد تک متعصب ہے، اور اخوان المسلمین میں شامل ہے، اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے باب میں اشعری ہے" (تنبيه الأريب على بعض أخطاء تحرير تقريب التهذيب ص:١٥٦)

٦- محمد عوامہ اپنے امام کوثری اور استاد ابو غدہ کی طرح انتہائی قسم کا جامد ومتعصب اور کٹر حنفی ملقد ہیں، چنانچہ ان کے فرزند دکتور محیی الدین عوامہ نے لکھا ہے:"میرے والد ہمیشہ لوگوں کو اصل منہج پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن کا عمومی اعتماد متقدمین ائمہ، خصوصاً متبوعہ مذاہب کے اماموں پر برقرار رکھنے کی فکر کرتے ہیں، وہ ان لوگوں کا مکمل طور پر رد کرتے ہیں جو کتاب و سنت کی اتباع کے دعوے کی آڑ میں ان اماموں یا مذاہب پر اعتراض کرتے ہیں، وہ ایسے لوگوں کی کمزوریاں ظاہر کرتے ہیں، ان کی جہالت کو بے نقاب کرتے ہیں اور ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہیں، وہ اس مسئلے میں شیر کی مانند بہادر اور دلیر ہیں، اور کسی بھی صورت میں چاروں مذاہب سے باہر نکلنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں، نہ ہی مذاہب کے درمیان تلفیق کو مانتے ہیں، ان کے نزدیک یہ محض نفس کی خواہشات کے پیچھے لگنا اور دل کی بیماری ہے۔
والد صاحب ایسے لوگوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ طریقہ انسان کو زندقہ (دین سے انحراف)، حرمت کی پامالی اور تقدس سے محرومی تک پہنچا دیتا ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ علمی استقامت کے فقدان اور سیکھنے میں درجہ بندی کی کمی کی نشانی ہے، کیونکہ ابتدا میں یہ لوگ علمی بنیادوں پر مضبوط ہونے کے بجائے سطحی طور پر معاملات کو سیکھتے ہیں اور آخر میں گمراہی کی کھائی میں جا گرتے ہیں۔
میرے والد نے تقلید کی ضرورت کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے اور اس موضوع پر ان کی پہلی اہم کتاب "أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" میں انھوں نے اس مسئلے کی بھرپور وضاحت کی ہے۔ اس کتاب نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا اور علمی فوائد سے مالا مال کیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری کتاب "أدب الاختلاف في مسائل العلم والدين" تحریر کی، جو پہلی کتاب کی طرح ہی شہرت اور علمی بنیاد کا سبب بنی۔" (صفحات مضيئة من حياة سيدي الوالد العلامة محمد عوامة ص: ٨٥)
عوامہ صاحب نے ان دونوں کتابوں کے اندر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے جبکہ ان مذاہب سے خروج اور ترک تقلید حرام، بلکہ الحاد و زندیقیت کا باعث، اور سنت کی عمارت کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہے۔

٧- عوامہ صاحب نے تقلید، تعصب اور فرقہ پرستی کے بجائے حدیث نبوی کو اختلاف کا باعث قرار دیا ہے، جبکہ تقلید اور تمہذب کو تمام اختلافات کا حل باور کرایا ہے، چنانچہ اس کے اثبات کے لئے انہوں نے "أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" کے عنوان سے ایک مستقل کتاب لکھ ڈالی ہے۔
اس کتاب کے رد میں شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللّٰہ نے "أسباب اختلاف الفقهاء الأسباب الحقيقية والمصطنعة" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اس کے مقدمہ میں شیخ لکھتے ہیں:" حال ہی میں اس موضوع پر دکتور مصطفیٰ سعید کی "اثر الاختلاف في القواعد الأصولية في اختلاف الفقهاء" اور شیخ محمد عوامہ کی کتاب " أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" شائع ہوئی، اول الذکر تاحال نظر سے نہیں گزری، البتہ شیخ محمد عوامہ کی کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جو دار السلام قاہرہ سے شائع ہوئی ہے اور ١٦٨ صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کا نام ہی مصنف کے رجحان اور ان کے انداز فکر کا ترجمان ہے۔ غور فرمائیے کہ کتاب کا نام کیا رکھا گیا ہے "أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" کہ ائمہ فقہاء کے اختلاف میں حدیث شریف کا اثر گویا ائمہ فقہاء کے مابین اختلاف کا سبب "حدیث شریف" ہے۔ (معاذ اللّٰہ) حالانکہ حدیث تو اختلافات کے حل کا ایک سبب ہے۔ اللّٰہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ فإن تنازعتم في شئ فردوه إلى الله والرسول (النساء : ٥٩) کہ اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللّٰہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔" مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ "إلى الله" سے مراد "قرآن پاک" اور "والرسول" سے مراد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔" (ابن كثير ١/ ٥١٨، الدر المنشور ٢/ ١٧٨ - فتح القدير ١/ ٤٤٥ ابن جریر ٥/ ١٤٧ وغیرہ) حدیث کی تصحیح و تضعیف اور دیگر بعض قواعد اصولیہ کے مختلف فیہ ہونے کے اعتبار سے اگر اختلاف ہے تو یہ "اصولی" اختلاف ہے۔ حدیث شریف" سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر یہ اختلاف صحیح حدیث کی تفہیم و تعبیر منسوخ و محکم تعارض رواتین حدیث سے دلالت و عدم دلالت یا عدم معرفت و نسیان کے باعث ہے تو کیا یہ وجوہ و اسباب قرآن پاک سے ماخوذ مسائل میں نہیں پائے جاتے؟ آیات احکام کی تقسیم ان کے نسخ و عدم نسخ، دلالت و عدم دلالت کی بناء پر کیا فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں؟ لہذا جب قرآن پاک سے ماخوذ مسائل میں بھی اسی نوعیت کا اختلاف پایا جاتا ہے، تو کل کوئی اسلام اور قرآن سے بیزار منچلا اگر " أثر القرآن الكريم في اختلاف الأئمة الفقهاء" کے نام سے کتاب لکھ دے تو کیا اس کی اس جسارت کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟ اور اسے ایک تحقیقی شاہکار " باور کر لیا جائے گا؟ کلا ثم کلا۔ (اسباب اختلاف الفقہاء: حقیقی ومصنوعی عوامل از: ارشاد الحق اثری ص:١٠-١١)
شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللّٰہ شیخ ارشاد الحق اثری کی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:"میں نے شیخ محمد عوامہ کی کتاب "أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" (احادیث شریفہ کا فقہاء کے اختلاف میں کردار) ١٤٠٥ھ میں پڑھی، یعنی اس کو پڑھتے ہوئے ایک چوتھائی صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سب سے پہلے اس کتاب کا عنوان میرے لیے حیران کن تھا، جس سے تعصب اور جمود کی بو آ رہی تھی۔ لیکن جب میں نے کتاب کا مطالعہ کیا تو طبیعت اسے قبول نہ کر سکی، عقل نے اسے رد کر دیا، اور کانوں نے اس کی باتیں ناپسند کیں کیونکہ اس میں احادیث اور ان کے ماننے والوں کے خلاف ناپسندیدہ باتیں تھیں۔
اس وقت میں علامہ محمد حیات السندی (وفات ١١٦٣ھ) کی کتاب "تحفة الأنام في العمل بحديث خير الأنام" پر تبصرہ کر رہا تھا، اس کتاب کے مقدمے میں "إعلام الموقعين" (١/ ٧) میں ابن قیم الجوزیہ کی عبارت "کچھ لوگ محض تقلید پر مطمئن ہو گئے اور کہا: ﴿إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ﴾ (الزخرف: ٢٣)۔" کی مناسبت سے اس کتاب کے حوالے سے میں نے اپنا تبصرہتحریر کیا، جو درج ذیل تھا: "اس کی بدترین مثال ایک معاصر کتاب ہے جس کا نام ہے 'أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء'، اس کتاب کا نام ہی مصنف کی نیتوں کو ظاہر کر رہا ہے، جیسے کہ ساری غلطی احادیث شریفہ کی ہی ہو، نہ کہ ان لوگوں کی جو احادیث پر عمل نہیں کرتے اور تقلید میں مبتلا ہیں۔ مصنف کی اس گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ وہ جزوی واقعات سے عمومی حکم اخذ کرتا ہے تاکہ تقلید پر عمل پیرا رہنے کی بات کو ثابت کر سکے۔ یہ کتاب لوگوں کو محض تقلید کی طرف مائل کرنے اور انہیں حق قبول کرنے سے روکنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ مزید برآں، یہ کتاب ان لوگوں پر طنز کرتی ہے جو احادیث پر عمل کرنے اور اندھی تقلید چھوڑنے کی دعوت دیتے ہیں، یہ کتاب انہیں جاہل قرار دیتی ہے۔ اس کے مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ آج کل احادیث پر عمل کرنے کی دعوت دینا سنت کے نظام کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ ہم اللہ سے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔
شیخ عبد الحی اللكنوی - رحمہ الله - نے اپنی کتاب "الفوائد البهية في تراجم الحنفية" (ص: ١١٦) میں شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا: اللّٰہ ہی سے شکایت ہے ہمارے زمانے کے جاہلوں کی، جو اس شخص پر طعن کرتے ہیں جو ایک مسئلے میں اپنے امام کی تقلید کو مضبوط دلیل کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے، اور اسے اپنے امام کے مقلدین کی جماعت سے خارج کر دیتے ہیں۔ ان سے کوئی تعجب نہیں کیونکہ وہ عوام ہیں، لیکن حیرت ان لوگوں پر ہے جو علماء کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے چلتے ہیں جیسے جانور...شیخ محمد عوامہ (شامی) شیخ عبد الفتاح أبو غدہ کے شاگردوں میں سے ہیں، اور یہ دونوں استاد محمد زاہد الکوثری کے پیروکار ہیں، جو تجہم کے علَم بردار اور موجودہ دور میں سنت کے بدترین دشمنوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہیں شیخ احمد الغماری المغربي کے الفاظ میں "ابو حنیفہ کا دیوانہ " کہا گیا ہے۔
اگر آپ کو اس جماعت کے کسی فرد کا نام کسی کتاب کے ساتھ یا کسی مضمون میں ذکر ملے، یا اگر یہ لوگ کسی کی تعریف کریں اور اس کو دنیا بھر میں تعریف و تقدیر کے ساتھ پیش کریں، تو ہوشیار رہیں کہ اس کے پیچھے تحقیق، تجرد اور معروضیت کے نام پر احادیث اور ان کے پیروکاروں پر پوشیدہ یا واضح حملہ ہو سکتا ہے، اور سنت و اہل سنت کے خلاف دل میں چھپا ہوا بغض موجود ہو سکتا ہے...اس کے بعد شیخ نے عوامہ صاحب کی چند مکروہ کرتوتوں کا تذکرہ کیا" (أسباب اختلاف الفقهاء: الأسباب الحقيقية والمصطنعة ص:٢٥-٢٧)

علامہ البانی رحمہ اللّٰہ نے نعمان آلوسی کی کتاب "الآيات البينات في عدم سماع الأموات عند الحنفية السادات" کے مقدمہ میں محمد عوامہ اور ان کی اس کتاب پر قدرے تفصیل سے رد کیا ہے، اس کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں، شیخ لکھتے ہیں:"ایک نوجوان نے جس سے میری یہاں بیروت میں شناسائی ہوئی ہے مجھے ایک چھوٹی سی کتاب تحفے میں دی، جو ایک متعصب حنفی نے لکھی ہے، وہ شمال کے حاسد اور کینہ پرور لوگوں میں سے ہے، اس نے اس کتاب کو خاص کر سلفیوں کے رد میں لکھا ہے جو کتاب و سنت کی پیروی اور ائمہ کے لئے تعصب کو چھوڑنے کی دعوت دیتے ہیں، اس کتاب کا عنوان ہے "أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" صرف یہ عنوان ہی، اے معزز قاری، آپ کو بتا دیتا ہے کہ مؤلف حدیث نبوی کی کتنی قدر کرتا ہے، جہاں تک اس کے مشمولات ومواد کی بات ہے تو وہ واضح طور پر کتاب و سنت کی پیروی سے روکنے اور ایک امام کی تقلید پر جمے رہنے کی دعوت ہے نہ کہ ان ائمہ کی پیروی کرنے اور ان کے ان اقوال کو لینے کی جو سنت کے مطابق ہوں، جیسا کہ خود ان ائمہ کی دعوت ہے، جس کی وضاحت میں نے اپنی کتاب ''صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم'' کے مقدمے میں کی ہے، جہاں میں نے ان ائمہ کے اقوال اور ان کے بعد آنے والے ان کے متبعین کے اقوال پر اعتماد کیا ہے، لیکن اس متعصب نے جو اپنی جان پر ظلم کرنے والا اور اپنے ائمہ کا مخالف ہے، کتاب و سنت کو پس پشت ڈال کر صرف نئے سرے سے مذہبی تعصب کو بھڑکانے کا کام کیا ہے، اور یہ سب اس بہانے کے تحت کیا کہ وہ "ائمہ کے بارے میں بدگمانی اور ان کی علمی اور عملی سیرت کو مسخ کرنے" کی مخالفت کر رہا ہے..."(الآيات البينات للآلوسي ت الألباني ص:٦)

٨- عوامہ صاحب ائمہ نے ائمہ سلف کے مشہور قول "إذا صح الحدیث فھو مذھبي" کی توضیح میں فرماتے ہیں کہ صرف صحت حدیث موجب عمل نہیں اس پر کسی کا عمل ہونا بھی ضروری ہے، کسی کو سند صحیح کے ساتھ حدیث دیکھ کر عمل کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔ (أثر الحدیث الشريف ص:٤٠، ٤٩، ٥٦، ٦٧)

٩- محمد عوامہ نے حنفی مذہب کی نصرت وتائید کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق میں وائل بن حجر کی حدیث کے اندر تحریف کرتے ہوئے "تحت السرة" کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، حالانکہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جن دو نسخوں کے اندر اس لفظ کا اضافہ ہے وہ قابل اعتماد نہیں ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اس لفظ کو متن حدیث میں شامل کر دیا ہے، جبکہ اکثر نسخوں میں جو کہ اصلی اور معتمد علیہ ہیں مرفوع حدیث کے اندر یہ اضافہ موجود نہیں ہے اور اس کا اقرار ان کے امام انور شاہ کشمیری صاحب نے بھی کیا ہے، اس تحریف کا آغاز دیوبندی حلقے کی طرف سے ہوا تھا، جو کہ در اصل برصغیر کے مقلد دار النشر والوں کی تحریف کا شاخسانہ تھا۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے شیخ ارشاد الحق اثری کا رسالہ :التحريف في المصنف لابن أبي شيبة جرأة وقحة من الشيخ محمد عوامة)

١٠- عوامہ صاحب کہتے ہیں کہ امام دارقطنی نے کہا ہے کہ صحیح بخاری ومسلم کے اندر جتنی حدیثیں سے ہیں وہ سب صحیح ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے ان دونوں کتابوں کے اندر موجود حدیثیں منجملہ صحیح ہیں، ورنہ خود امام بخاری ومسلم صحیحین کے اندر حدیثوں کو معلول قرار دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ کونسی روایت صحیح ہے اور کونسی معلول، وہ دونوں قارئ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صحیح وسلیم کونسی ہے اور معلول وسقیم کونسی، پس ان دونوں کی کتابیں روایت اور اعلال پر مشتمل ہیں ان میں فقط روایتیں مذکور نہیں ہیں" (https://youtu.be/6_ZFhBMwsnY?si=GKxDVLRxj6oSmEQH) عوامہ صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صحیحین فقط صحیح احادیث کی کتاب نہیں ہے بلکہ ان کے اندر معلول روایتیں بھی ہیں لہذا یہ دونوں کتاب العلل بھی ہیں جیسا کہ حمزہ عبد اللّٰہ ملیباری نے صحیح مسلم کے بارے میں کہا ہے کہ صحیح مسلم علل الدارقطنی وغیرہ کی طرح کتاب العلل بھی ہے۔

١١- عوامہ صاحب نے لکھا ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل جائز ہونے پر متقدمین علماء کا اجماع واتفاق ہے، جبکہ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنا مستحب ہے، اور اس سے مستحب ومکروہ حکم بھی تابت ہو سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے اس دعوے کے اثبات کے لئے "حكم العمل بالحديث الضعيف بين النظرية والتطبيق والدعوى" کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، اس کے اندر انہوں نے علامہ البانی پر رد کیا ہے کیونکہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے جو کہ اہل حدیث کا مسلک ہے۔

اس کتاب پر کئی علمی ملاحظات بھی ہیں مثال کے طور پر: مؤلف نے محدثین کے ضعیف حدیث روایت کرنے اور ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے مابین تفریق نہیں کیا ہے، اسی طرح سند پر حکم لگانے اور حدیث پر حکم لگانے کے مابین تفریق نہیں کیا ہے، اور امام احمد کا قول کہ ضعیف حدیث رائے وقیاس پر مقدم ہے سے استدلال کیا ہے کہ امام احمد ضعیف حدیث سے استدلال کرتے تھے جبکہ امام ابن تیمیہ وغیرہ نے لکھا ہے کہ امام احمد وغیرہ جس ضعیف حدیث کی بات کرتے ہیں وہ متاخرین کی اصطلاح کے مطابق حسن لغیرہ حدیث ہوا کرتی تھی کیونکہ متقدمین کے ہاں حدیث کی صرف دو قسمیں تھیں صحیح جس میں حسن بھی شامل تھی اور ضعیف جس کی دو قسمیں تھیں ضعیف معمول بہ جو کہ ہماری اصطلاح کے مطابق حسن لغیرہ ہے اور ضعیف متروک العمل جو کہ واضح ہے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھیں شیخ ربیع المدخلی کی کتاب: تقسيم الحديث إلى صحيح وحسن وضعيف بين واقع المحدثين ومغالطات المتعصبين رد على أبي غدة ومحمد عوامة)

١٢- اخبار آحاد کی حجیت کے بارے میں عوامہ صاحب کا موقف ملاحظہ فرمائیں، اپنی کتاب "منهج الإمام محمد زاهد الكوثري في نقد الرجال" کے اندر"متون حدیث کے قبول ورد کے بارے میں امام کوثری کا منہج" کی سرخی قائم کرنے کے بعد کوثری کی عبارت نقل کرتے ہیں جس میں کوثری صاحب لکھتے ہیں:"١- اخبار آحاد یہ فرض کرنے کے باوجود کہ ان کے راوی ثقہ ہیں، نہ تو عقل کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور نہ ہی مستفیض (مشہور) روایت کا، چہ جائیکہ متواتر کا، امام ابو حنیفہ کی امامت، امانت اور ان کی فضیلتیں امت میں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، تو ایسی صورت میں وہ خبرِ آحاد جو امت کی اکثریت کے دلوں میں ان کے لئے موجود اس تسلیم شدہ مقام کے خلاف ہو، بذات خود سقوط کے لائق ہے، چاہے اس کے راویوں کے سلسلے میں کوئی علت نہ بھی ہو۔
٢- اسی طرح: جب خبرِ آحاد اس جیسی یا اس سے قوی دیگر خبرِ آحاد سے ٹکرا جائے تو وہ مردود ہوتی ہے، بلکہ صحیح خبرِ آحاد بھی اہلِ علم کے نزدیک مسترد کر دی جاتی ہے جب وہ عقل کے خلاف ہو، جیسا کہ خود خطیب نے "الفقيه والمتفقه" میں ذکر کیا ہے۔
کوثری نے "التأنيب" کے مقدمے میں لکھا ہے: "صحیح روایات مستفیض مشہور روایت کے مقابل نہیں ہو سکتیں، چہ جائیکہ متواتر کے مقابل ہوں۔" (ص:٢١)
اس کے بعد عوامہ صاحب اس عبارت اور کوثری منہج کی تائید اور تعریف کرتے ہیں اور ش*ذ و منکر کی مثال دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح محدثین نے اوثق کے مقابلے میں ثقہ کی روایت کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے اسی طرح عقل کے مقابلے میں اخبار آحاد اور متواتر ومشہور کے مقابلے میں خبر واحد بھی ناقابلِ التفات ہے، نیز "شواهد على صحة هذا المنهج وحقيقته" کے عنوان سے فصل قائم کر کے جرح و تعدیل اور قبول ورد روایت کے بارے میں کوثری کے منہج کی صحت اور حقانیت پر دلائل پیش کئے ہیں۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ عوامہ صاحب نے یہ باتیں بطور مقالہ کوثری کی حیات و خدمات کے تعلق سے منعقد ایک عالمی کانفرنس میں پیش کی تھیں اور ان پر کسی قسم کی تعلیق یا رد نہیں کیا تھا بلکہ الٹا ان کی تائید کی تھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے تعلق سے عوامہ صاحب کے بھی یہی افکار ہیں، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ حنفی اشعری ہیں اور احناف تو ویسے بھی عقائد کے باب میں اخبار آحاد کی حجیت کے منکر ہیں اور اشاعرہ وماتردیہ عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق نقل یا تو ظنی الثبوت ہے یا ظنی الدلالہ جبکہ عقل قطعی الدلالہ ہے لہٰذا قطع ظن پر مقدم ہے، البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی احناف بالخصوص عوامہ صاحب ایک طرف تو ثقہ راویوں سے مروی اخبار آحاد کو ظنی اور ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جواز واستحباب کو ثابت کرنے کے لئے لڑتے جھگڑتے اور بڑی بڑی کتابیں لکھ ڈالتے ہیں!!!

١٣- عوامہ صاحب اپنی تحقیقات میں تحریف اور خرد برد سے کام لیتے ہیں اور اپنے مسلک ومنہج کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے کتابوں پر من مرضی کی تعلیقات لگاتے ہیں جس کی واضح مثال مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق اور اس پر ان کا مقدمہ ہے، اسی طرح کی حرکت انہوں نے "مسند عمر بن عبد العزيز الباغندي" کی تحقیق میں کی ہے، شیخ بکر ابو زید رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب تحریف النصوص (ص:١٧٨-١٧٩) میں لکھا ہے:"١٣٨٧ھ میں "مسند عمر بن عبد العزیز" الباغندی کی تحقیق اور تکمیل محمد عوامہ کے ذریعہ شائع ہوئی ہے، جس میں صفحہ (٢٢٢) پر انہوں نے قاضی بیضاوی سے قبروں پر مساجد بنانے کا جواز نقل کیا ہے، ارواح کی برکت اور فیض حاصل کرنے کی نیت سے، اور اس بات کو فیض القدیر للمناوی (٤/ ٤٦٦) کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
مناوی نے جب اس بات کو نقل کیا تو اس پر تعقب کیا تھا، مگر اس نقل کرنے والے نے مناوی کا تعقب حذف کر دیا ہے۔
یہ دو طرح سے خیانت ہے:
اول: صحیح وسلیم عقیدے میں خیانت، جو قبروں کو مساجد بنانے سے روکتا ہے۔
دوم: مناوی کے اس تعقب کو نظرانداز کرنا جو کمزور بات پر تھا۔
آنے والے ایڈیشن میں -ان شاء اللّٰہ- حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ کی کتاب "تقریب التهذیب" کے بارے میں ایک ایسی تحقیق شائع ہوگی جو مؤلف کے نسخے پر مبنی ہوگی اور اہل سنت کے علماء کی طرف سے اس کی تحقیق اور تدقیق ہوگی، اس میں قارئین کو درج ذیل باتیں نظر آئیں گی:
اول: "تقریب" کے ہندوستانی ایڈیشن (میرے پاس اس کی تین طباعتیں ہیں) اور "مصری" ایڈیشن میں اگر کچھ طباعتی غلطیاں اور دیگر مسائل ہیں، تو "حلبی ایڈیشن" جس کی تحقیق عوامہ نے کی ہے، اس میں مختلف جگہوں پر تقریباً چار سو غلطیاں پائی گئی ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نوٹ کیا ہے۔
اللّٰہ اس کام کو بخیر و عافیت مکمل کرنے اور شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوم: قارئین یہ بھی دیکھیں گے کہ جن کی آوازیں قبروں پر مساجد بنانے کے لئے ارواح اور برکت کے حصول کے قائلین کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، انہیں سلف کے علمی ورثے کی خدمت میں درستگی کی توفیق نہیں ملے گی۔ اللّٰہ ہی مددگار ہے۔"
شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللّٰہ لکھتے ہیں:"اس نے حافظ ابن حجر العسقلانی کی کتاب "تقریب التہذیب" کی تحقیق میں بھی مداخلت کی، اور اس میں کمی بیشی کا ارتکاب کیا، تو علامہ بکر بن عبداللّٰہ ابو زید رحمہ اللّٰہ اس بات کی طرف متوجہ ہوئے، اور شیخ ابو الأشبال احمد شاغف کی "تقریب التہذیب" کی طباعت (صفحہ: ٥) میں ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "اور انہوں نے پوری طرح ان مداخلتوں سے اجتناب کیا ہے جو راویوں کے حقائق کو کبھی دائیں اور کبھی بائیں موڑ دیتی ہیں، تاکہ کچھ مخصوص پس پردہ مقاصد اور مسلکی تعصبات کی خدمت ہو، جیسے آپ شامی مطبوعہ نسخے (عوامہ کی تحقیق) کے مقدمہ اور تعلیقات میں دیکھتے ہیں..."۔
شیخ ابو الأشبال نے کہا: "شیخ بکر ابو زید نے اس طباعت کے اپنے نسخے پر بہت سی تعلیقات لکھیں، جن میں مذکورہ بالا کمیوں کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے، اور اس کی مثالیں اس طباعت کے حواشی اور مذکورہ طباعت کے ساتھ موازنہ کرنے سے واضح ہوتی ہیں۔
محمد عوامہ کی ایک اور سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ "مصنف ابن ابی شیبہ" کی اپنی طباعت میں وائل بن حجر کی حدیث میں "ناف کے نیچے" (تحت السرة) والی عبارت کے اضافے کا دفاع کرتے ہیں، حالانکہ قدیم و جدید بڑے حنفی علماء نے اس کی تردید کی ہے، اور حدیث کے تمام مجموعوں میں وائل بن حجر کی حدیث میں یہ اضافہ موجود نہیں ہے، یہاں تک کہ "مصنف ابن ابی شیبہ" کے ناشر نے جرأت کرتے ہوئے عمدا اپنے مسلک کی حمایت میں یہ اضافہ کیا اور اسے "خدمت سنت" کے نام پر پیش کیا..." (مقدمة أسباب اختلاف الفقهاء: الأسباب الحقيقية والمصطنعة ص:٢٨-٢٩)

١٤-محمد عوامہ کوثری کی طرح سلفی منہج اور ائمہ اہل السنہ والجماعہ کے سخت ترین دشمن ہیں چنانچہ انہوں نے کبار سلفی علماء وائمہ پر طعن و تشنیع کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
- صنعانی اور شوکانی کے بارے میں کہتے ہیں:"شیخ نور الدین عتر نے "إعلام الأنام شرح بلوغ المرام" لکھ کر طلبہ علم اور اساتذہ کو سبل السلام اور اس کے مؤلف صنعانی سے بچایا ہے، اسی طرح ان لوگوں کے فتنوں سے بھی بچایا ہے جو صنعانی کی سبل السلام اور شوکانی کی نیل الاوطار پر پروان چڑھے اور فقہ سیکھے ہیں، صنعانی کا عقدی منہج معروف ہے وہ اہل السنہ میں سے نہیں تھے، انہوں نے کئی صحابہ پر لعنت کی ہے اور صحابہ کے بارے میں انتہائی خطرناک باتیں کی ہیں، اہل علم کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ منتقی الاخبار کی کوئی جامع شرح تصنیف کی جائے جو طلبہ کو نیل الاوطار سے بچائے، کیونکہ شوکانی صنعانی سے کہیں بدتر ہیں" (ملخصا: https://youtu.be/fDvz0VC5N40?si=F_hkx-A39qnnA2WG)

- علامہ صدیق حسن خان کے بارے میں لکھتے ہیں:"دنیا کے عجائبات اور زمانے کی حیرت انگیزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ صديق حسن خان کی طرف درجنوں کتابوں کی تصنیف منسوب کی جاتی ہے، حالانکہ وہ خود ان میں کیا ہے، اس سے بے خبر ہیں، اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان کتابوں میں مسلک اور نظریات کے لحاظ سے تضادات پائے جاتے ہیں!! اور اس جعل سازی میں کامیاب ہونے کا واحد سبب یہ تھا کہ وہ بھوپال کی ملکہ کے شوہر تھے! ایسے شخص کو عظیم آئمہ مثلاً شیخ محمد عابد سندھی جیسے علماء پر حکم لگانے کی اجازت دینا جائز نہیں، شاید کہ کتاب "ابجد العلوم" مکمل طور پر یا اس کا یہ حصہ صديق حسن خان نے کسی ایسے شخص کو لکھنے کے لئے دیا جو حنفی مذہب اور حنفیت سے منحرف تھا، اور اس نے جو چاہا لکھ دیا! تاریخ پردہ اٹھاتی ہے اور کسی کو نہیں بخشتی۔( مقدمة التحقيق للمصنف ابن أبي شيبة ص:٢٩)
- علامہ البانی کی عداوت ونفرت تو انہیں اپنے استاد اعظم عبد الفتاح ابو غدہ اور حبیب الرحمٰن اعظمی سے وراثت میں ملی ہے، اس لئے شیخ البانی پر ان کے سب وشتم، طعن و تشنیع اور الزام تراشیوں کا کوئی شمار ہی نہیں ہے، ان کی ہر کتاب ہر تحقیق اور ہر درس میں شیخ البانی پر اشارۃً یا صراحتاً تنقید ضرور ہوتی ہے، انہوں نے شیخ البانی ہی کے رد میں "أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" اور"حكم العمل بالحديث الضعيف بين النظرية والتطبيق والدعوى" جیسی کتابیں لکھی ہیں۔
انہوں نے شیخ کو متہور، جاہل، لاپرواہ، متمجہد العصر وغیرہ کہا ہے اور لکھا ہے:"اس شخص کا صرف ایک ہی شیخ ہے– جو حلب کے علماء میں سے ہیں – جن سے اس کا صرف اجازہ کے طریق سے تعلق ہے، نہ کہ براہ راست علم حاصل کرنے، صحبت اختیار کرنے اور مسلسل ساتھ رہنے کے طریق سے"
- امام بخاری کے بارے میں لکھتے ہیں:"تیس سال سے میں اپنے طلبہ سے کہہ رہا ہوں:کہ اگر کوئی کہے کہ حافظ ابن حجر صحیح بخاری کے بارے میں امام بخاری سے زیادہ جانتے تھے، تو یہ بے جا بات نہ ہوگی" (مقدمة التحقيق للمصنف ابن أبي شيبة ص:٧٣) یعنی عوامہ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ امام بخاری کو خود اپنی کتاب میں موجود علوم و معارف کا اس طرح ادراک نہیں تھا جس طرح نوی صدی کے ایک عالم حافظ ابن حجر کو تھا، کیونکہ حنفیوں کے نزدیک امام بخاری دوا فروش تھے خود ڈاکٹر نہیں تھے اس لئے انہیں فقہ پر دسترس نہیں تھی۔
اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب "أثر الحديث الشريف ص:١٣٦-١٣٧) کے اندر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحیحین کے اندر امام بخاری اور مسلم نے جو حدیثیں ذکر کی ہیں اس پر ان کے فقہی رجحانات کا بڑا گہرا اثر ہے، چنانچہ جو حدیثیں ان کے فہم کے مطابق ان کے فقہی رجحان کے موافق ہوتیں وہ انہیں اپنی کتاب میں جگہ دیتے اور جو مخالف ہوتیں انہیں جگہ نہ دیتے، گرچہ وہ ان کی شرط کے مطابق صحیح ہی کیوں نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث جسے مسلم روایت کرتے ہیں بسا اوقات اپنے فقہی مسلک کے مخالف ہونے کی وجہ سے بخاری روایت نہیں کرتے ہیں، اس طرح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی فقہی ترجیحات کا ان کے انتخاب حدیث میں پورا عمل دخل رہا ہے، اس بنیاد پر کسی ایسی روایت کو جو صحیحین کے اندر ہے سنن کے اندر موجود کسی روایت پر فقہی ناحیے سے ترجیح دینا درست نہیں ہوگا کیونکہ اس سے بخاری ومسلم کی ترجیح کو دوسرے ائمہ کی فقہی ترجیحات پر ترجیح دینا لازم آئے گا" (اختصاراً)
- علامہ معلمی کے بارے میں لکھتے ہیں:"کتاب "التأنيب" کی اشاعت سے ایک علمی ہنگامہ برپا ہو گیا، جس نے امام ابوحنیفہ کے دشمنوں کو اس کی علمی قوت، احکام کی مضبوطی اور تحقیقی نکات کی عقدی، فقہی تاریخی ہر پہلو سے مضبوطی کے سامنے حیران و پریشان کر دیا، اس پر رد کرنے کے لئے ایک ایسا عالم سامنے آیا جن کے سوا میدان میں کوئی اور نہ تھا، وہ اپنے مکتب فکر کی بنیاد پر کوثری کا جواب دینے کی تیاری کر رہے تھے، لیکن انہوں نے دوسرے مکتب فکر کی بنیاد پر ان پر رد کیا۔ یوں انہوں نے اپنے رد میں دو عصبیتوں کو یکجا کر لیا: اپنے مکتب فکر کی اور دوسرے مکتب فکر کی، اس رد کا نام ہے "التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل"، جس کے مصنف علامہ شیخ عبدالرحمن بن یحیى المعلمي الیماني (١٣١٣-١٣٨٦ھ) رحمہ اللّٰہ ہیں۔ وہ یمن کے شافعی علماء میں سے تھے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ہندوستان میں عثمانی دائرہ معارف حیدرآباد دکن کی کئی مطبوعات کی تحقیق میں گزارا...شیخ معلمی نے "التنكيل" کے ایک انتہائی مختصر خلاصہ کو جلدی سے "طليعة التنكيل" کے نام سے شائع کیا، جو درمیانے سائز کے سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل تھا، انہوں نے اسے مصر میں شائع کرنے کے لئے اپنے دوست شیخ محمد عبد الرزاق حمزہ کے سپرد کیا، اور یہ "التأنيب" کی اشاعت کے آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے!!!(منهج الإمام محمد زاهد الكوثري في نقد الرجال ص:٦٩، ٧٠)...شیخ علامہ معلمی کے کوثری پر رد کرنے کا حقیقی محرک صرف شافعی مکتب فکر کی عصبیت کا جوش تھا، جو حنفی مکتب فکر کی عصبیت کے جوش کے مقابل تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں!(ص:٧٥)...یہ بات مکمل طور پر واضح کرتی ہے کہ معلمی کا کوثری پر رد ایک کٹر شافعی کا رد تھا۔(ص:٧٩)...اس چوتھے حصے میں معلمی کا علم کلام کی کتابوں سے کچھ تعلق نظر آتا ہے، لیکن کہاں مبتدی اور کہاں (منتہی) ماہر فن؟ مجھے یہ کہنے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ معلمی اس حصے میں شکست خوردہ اور پسپا نظر آتے ہیں، خاص طور پر ان پیچیدہ مسائل کے سامنے جن کے تعلق سے اسلامی عقیدے کے تحفظ میں غیرت کا مظاہرہ کرنے میں کوثری اسلام کا علمبردار اور میدان کے شہسوار تھے"(ص:٨٢)
عوامہ صاحب نے اپنی کتاب منهج الإمام محمد زاهد الكوثري کے اندر "ندم المعلمي وتراجعه عن التنكيل" کا عنوان قائم کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ علامہ معلمی اپنی زندگی کے آخری ایام میں کوثری کا رد کرنے اور "التنكيل" نامی کتاب لکھنے پر شرمندہ تھے اور انہوں نے کوثری کے تعلق سے اپنی باتوں سے رجوع کر لیا تھا۔
اسی طرح انہوں نے"الفرق الجوهري بين منهج الرجلين وكتابيهما" کا عنوان قائم کر کے معلمی اور کوثری اور ان کی کتابوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئےلکھا ہے:
اول: معلمی کٹر شافعی ہیں، اس لئے انہیں ابوحنیفہ پر کسی بھی طعن کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خطیب جس نے وہ باتیں بیان کی ہیں جو کوئی بھی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے لئے قبول نہیں کر سکتا، وہ دراصل نرم لہجے میں پیش کی گئی ہیں، اور انہوں نے صرف وہی باتیں پیش کی ہیں جو ان کے نزدیک ثابت یا تقریباً ثابت ہیں، اور جو باتیں ان کے لئے ناقابل قبول تھیں انہیں چھوڑ دیا ہے...
دوم: دونوں شخصیات کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ معلمی کے پاس ایک وسیع تخیل ہے، جو کہانیوں کی مانند ہے، اور یہ تخیل ان کو بعض علمی مسائل میں قطعی فیصلے کرنے کی جرات فراہم کرتا ہے...
اسی طرح انہوں نے ابن ابی شیبہ، خطیب بغدادی، ابن حزم، ابن تیمیہ، عبد الرزاق حمزہ، حامد فقی اور خلیل ہراس وغیرہم پر بھی الزام تراشیاں اور سب وشتم کی ہے۔

١٥- عوامہ صاحب معطلہ وجہمیہ اور اہل بدعت صوفیہ وغیرہ کی خوب تعریفیں کرتے ہیں، ان کے ائمہ ودعات کو امام علامہ اور محدث فقیہ کے القاب سے نوازتے ہیں، مثال کے طور پر عوامہ صاحب کی زاہد کوثری جہمی سے محبت ناقابل بیان ہے، عوامہ نے کوثری کے دفاع اور علامہ معلمی، عبد الرزاق حمزہ اور شیخ البانی وغیرہ کے رد میں "منهج الإمام محمد زاهد الكوثري في نقد الرجال" کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کے اندر انہوں نے کوثری کو امام، علامہ، محدث دوراں، شیخ الاسلام، فقیہ زمانہ، حامی سنت، قامع بدعت اور باطل کے خلاف سینہ سپر مجاہد وغیرہ قرار دیا ہے، اس کتاب کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:...
-جو شخص علامہ کوثری کو پڑھتا ہے اور پس منظر سے واقف نہیں ہوتا، اسے کوثری سخت گیر اور حملہ آور نظر آتے ہیں، لیکن جب قاری حالات اور پس پردہ حقائق کو جان لیتا ہے جیسا کہ آگے "تأنیب الخطيب" کے ذکر میں آئے گا- تو وہ سمجھتا ہے کہ کوثری درحقیقت اس معاصر دور میں سنت، حق اور دین کے حامی وناصر ہیں، اللّٰہ عز وجل نے ان کو اور شیخ الاسلام مصطفی صبري رحمہما اللّٰہ کو ایک عظیم حکمت کے تحت قاہرہ میں بھیجا ـ جو کہ عرب دنیا کا علمی اور فکری مرکز ہے- یعنی مصر میں علم اور فکر کی حفاظت کے لئے، اور اس کے پیچھے خصوصی طور پر عالم عرب اور بالعموم اسلامی دنیا کی حفاظت کے لئے، اور وہ اپنے علمی اور دینی مقام کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، اسی لئے وہ اپنے مخالفین کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ اللّٰہ کے مخالفین سے مقابلہ کر رہے تھے، اور یہ دینِ خدا کی مدد کے لئے تھا، نہ کہ اپنی ذات اور دنیا کے لئے۔ (ص: ٣٧)

اسی طرح انہوں نے شعرانی صوفی، انور شاہ کشمیری، محمد یوسف بنوری، عبد الفتاح ابو غدہ، صوفی محمود آفندی، حبیب الرحمٰن اعظمی، احمد بن صدیق غماری اور عبد اللّٰہ غماری وغیرہم کی خوب تعریفیں کی ہیں اور انہیں امام علامہ وغیرہ کے القاب سے نوازا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ محمد عوامہ ایک متعصب حنفی مقلد، تفویضی اشعری، نقشبدی صوفی، عقیدہ سلف اور ائمہ سلف کے دشمن، اپنے مسلک کی تائید کے لئے نصوص کی حقیقی ومعنوی تحریف کے مرتکب، سلفی علماء پر طعن و تشنیع کرنے والے، حدیث ومسلک اہل حدیث کے بغض میں مبتلا، اور کوثری جیسے امام ضلالت کی تعریف وتائید کرنے والے منحرف شخص ہیں، جن کی بدعات و خرافات بالکل واضح اور ظاہر ہیں۔

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی۔

19/09/2024

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دہلی سے دہلی
ایک بار خدمت کا موقع دیں
حج وعمرہ کرنے والے رابطہ کریں
عمرہ کرنے والوں کے لۓ خاص پیکیج
صرف 85,500 میں 20دن
اور 95,500 میں ایک مہینہ
رابطہ: 8809809798

Address

Katihar
854116

Telephone

+918809809798

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shakil Ahmad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Shakil Ahmad:

Share