23/10/2025
ایک گاؤں میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے اعلان کروایا۔ کہ وہ گاؤں والوں سے ایک بندر 10 روپے میں خریدے گا۔ اس گاؤں کے اردگرد بہت زیادہ بندر رہتے تھے۔ دیہاتی یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے بندر پکڑنا شروع کر دئیے۔ اس اجنبی آدمی نے ایک ہزار بندر 10،10 روپے کے بدلے میں خریدے۔ اب گاؤں میں بندروں کی تعداد کافی کم ہو چکی تھی۔ چند ایک بندر باقی تھے۔ جنہیں پکڑنا بہت دشوار ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
اس وقت اجنبی تاجر نے اعلان کیا کہ اب وہ ایک بندر 20 روپے میں خریدے گا۔ اس سے دیہاتیوں میں ایک بار پھر نیا جزبہ پیدا ہوا۔ اور ایک بار پھر انہوں نے پوری قوت سے بندر پکڑنا شروع کیئے۔۔۔۔
چند دن کے بعد بندر اِکا دُکا ہی نظر آتے۔ اور اس نئے آئے ہوئے تاجر کے بڑے پنجرے میں تقریباً 1300 بندر جمع ہو چکے تھے۔ تاجر نے بندروں کی خریداری میں جب سستی دیکھی۔۔۔۔
تو اس نے فی بندر کی قیمت پہلے 25 روپے مقرر کی اور اگلے ہی دن فی بندر کی قیمت 50 روپے مقرر کر دی۔ اس قیمت میں اس نے صرف 9 بندر خریدے۔ اب جو بندر بھی نگاہ انسانی زد میں آتا تو داخلِ زندان کر دیا جاتا۔ اس کے بعد وہ کسی کام کے سلسلے میں کسی دور دراز شہر چلا گیا۔۔۔۔
اور اسکا اسسٹینٹ کام سنمبھالنے لگا۔ اسکی غیر ماجودگی میں اسکے اسسٹینٹ نے دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا۔ کہ بھائیو اس بڑے پنجرے میں تقریباً 1450 پچاس جانور ہیں۔ جو کہ میرے استاد نے جمع کئے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تم سب کو یہ سارے 35 روپے فی حساب سے بندر بیچ دیتا ہوں۔۔۔۔
جب استاد آئے تو تم لوگ اسے یہ فی بندر 50 روپے کے حساب سے بیچ دینا۔ دیہاتی بڑے خوش ہوئے۔ انہوں اپنی ساری جمع پونچی خرچ کر کے بندر خرید لئے۔ اس کے بعد دیہاتیوں نے نہ اسکے تاجر کو کہیں دیکھا اور نا ہی اسکے اسسٹینٹ کو دیکھا۔۔۔۔
بس ہر جگہ بندر ہی بندر تھے۔ اگر سمجھ آ گئی ہو تو یہی فلسفہ ہے اسٹاک مارکیٹ کا۔ اور اسی کو ہی اسٹاک مارکیٹینگ کہتے ہیں۔