Aawo Deen Sikhen

Aawo Deen Sikhen Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Aawo Deen Sikhen, Digital creator, Mumbai.

جمعہ کی فضیلت -جمعہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار اور سب دنوں سے افضل دن ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب...
11/04/2025

جمعہ کی فضیلت -
جمعہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار اور سب دنوں سے افضل دن ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم (ع) کی تخلیق ہوئی،

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔
جمعہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار اور سب دنوں سے افضل دن ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔
اسی دن حضرت آدم (ع) کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا اور پھر اسی دن ان کو جنت سے نکالا (اور دُنیا میں) بھیجا گیا۔ قیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہوگی۔ جمعہ کے دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس پر بندہ مومن جو دُعا کرے وہ قبول ہوتی ہے۔ نبی پاک (ص) نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔
جمعہ کے دن کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ قرآن مجید میں ایک پوری سورت ''''سورة جمعہ'''' اس دن کے نام سے موجود ہے۔

جمعہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور جو شخص تین جمعہ چھوڑ دیتا ہے اللہ پاک اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے، اور اس کو منافق لکھ دیا جاتا ہے۔ گو کہ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے بچے، مریض اور خاتون ۔
حدیث میں آتا ہے کہ،
ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ (رض) دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے منبر کی لکٹری (یعنی اس کی سیٹرھیوں) پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نماز جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے۔
(صحیح مسلم)
جمعہ مغفرت کا دن
جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

قبولیت کی ساعت
جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس وقت اللہ پاک ہر جائز دعا قبول کرتے ہیں،
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جمعے کے دن ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جسے اگر کوئی بندہ مومن پائے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو اللہ اس کو وہ بھلائی عطا کردیتا ہے۔ (یعنی اس ساعت میں مانگی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے) بخاری و مسلم کی ایک روایت میں صحیح مسلم نے یہ الفاظ مزید نقل کئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ ساعت بہت تھوڑی ہوتی ہے۔

جمعہ کیلئے جلدی آنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کر کے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی (اگر اول وقت مسجد میں پہنچا) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔
لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں، تب صرف نماز کا ثواب ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے جمعہ کے لیے اول وقت جانا ضروری ہے ورنہ یہ نہ ہو کہ کل روز قیامت ہمارے نامہ اعمال سے جمعہ ہی نہ ملے۔
جمعہ کے دن سورة کہف پڑھنا
جمعہ کے دن سورة کہف پڑھنے کی بہت فضیلت ہے،
فرمان نبویﷺ ہے کہ جس نے جمعہ کے دن سورة الکھف پڑھی اسے کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا۔

جمعہ چھوڑنے والے کا انجام
جمعہ کی آذان ہورہی ہے اور منادی کرنے والا علی اعلان کہ رہا ہے کہ آجاؤ سب حقیقی کامیابی کی طرف مگر کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا کہ منادی کرنے والا کتنے بڑے انعام کی طرف سب کو دعوت دے رہا ہ۔. اور یہ دعوت بھی دعوت عام ہے، کسی چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں۔ کسی امیر، غریب یا رنگ و نسل کا کوئی فرق نہیں سب کو بلایا جا رہا ہے۔
مگر اس دعوت کو کوئی سن ہی نہیں رہا یا شاید کوئی سننا ہی نہیں چاہتا۔ ایک طرف دنیاوی کام کاج اور دنیاوی ضرورتیں ہیں جو صرف ایک عارضی اور فانی وقت کیلئے ہے، جن کا انتظام بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو بعد میں نہ ہوپائے سوائے وہ امر جن کی شریعت نے چھوٹ دی ہے، مگر کوئی بھی اپنی ان بے بنیاد اور حقیر چیزوں کو ان حقیر مصروفیات کو ترک نہیں کرتا جانتا بھی ہے کہ یہ منادی سب سے بڑے بادشاہ کے حکم پر کی جا رہی ہے اس پر لبیک کہنا بہت ضروری ہے۔
اپنے ہی مالک سے بغاوت کرتا ہے ، وہ مالک اسے دیکھ بھی رہا ہے اس کے باوجود سرعام بغاوت کرتا ہے۔
ایسے شخص کا انجام عبرتناک ہے،
حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ چھوڑ دیتا ہے وہ ایسی کتاب میں منافق لکھا جاتا ہے جو نہ کبھی مٹائی جاتی ہے اور نہ تبدیل کی جاتی ہے اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جو آدمی تین جمعے چھوڑ دے (یہ وعید اس کے لئے ہے
وہ لوگ جن پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے
جن لوگوں پر نماز جمعہ واجب نہیں ،
حضرت طارق ابن شہاب راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمعہ حق ہے اور جماعت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے علاوہ چار آدمیوں کے غلام جو کسی کی ملک میں ہو عورت بچہ اور مریض (ان پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے)

21/02/2025

رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں سے ہم
وابستہ ہوگئے ترے آستاں سے ہم

ہر رُخ سے ہر جگہ تھیں مصائب کی یورشیں
ان کا کرم نہ ہوتا تو بچتے کہاں سے ہم

ہم ہیں غلام ان کی غلامی پہ ناز ہے
پہچانے جائیں گے اسی نام ونشان سے ہم

سرکارﷺ آپ خود کرم سے نواز دیں
کچھ عرض کر سکیں گے نہ اپنی زباں سے ہم

حق کر سکے ادا جو ثنائے حضور کا
ایسی زباں لائیں تو لائیں کہاں سے ہم

حارج نہیں ہے وسعتِ کون و مکاں کہیں
سنتے ہیں وہ ضرور پکاریں جہاں سے ہم

ایسا سدا بہار ہے داغِ غم نبی
محفوظ ہی رہیں گے ہمیشہ خزاں سے ہم

اندازہ ہے یہ شدت ِ جذبات دیکھ کر
پہنچے اگر نہ آئیں گے واپس وہاں سے ہم

سوئے حرم چلے جو مسرت کے قافلے
روئے لپٹ کے گرد ِ رہِ کارواں سے ہم

ایمان و آگئی ہے یہی بندگی یہی
رکھتے ہیں غم عزیز بہت اپنی جاں سے ہم

خاؔلد درِ حضور اگر ہوگیا نصیب
دونوں جہان لیکے اٹھیں گے وہاں سے ہم

ﷺﷺﷺﷺﷺﷺ

        ❣️❣️خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍۢ🥀🥀یہ انداز تخلیق ، یہ منظم انداز نشونما اس کے اندر پایا جانے و...
13/02/2025

❣️❣️

خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍۢ🥀🥀
یہ انداز تخلیق ، یہ منظم انداز نشونما اس کے اندر پایا جانے وا لا تسلسل ۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا ہے کہ اس پورے نظام کا ایک خالق ہے اور پھر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا عمل اس کے ارادہ مدبرہ کے مطابق ہے۔ یہ نہایت ہی پچیدہ عمل محض اتفاق سے یونہی نہیں ہوجاتا اور نہ یہ پورا عمل بغیر کسی ارادے اور تدبیر کے یونہی اتفاقاً ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کا یہ پہلو کہ اس پورے نظام واقعات میں کبھی بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ انسان کا یہ نظام تخلیق عقلاً کئی دوسرے طریقوں سے ممکن ہے لیکن کبھی یہ طریق کار تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔ یہ پہلوخصوصاً ٓاس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ایک مخصوص ارادہ جو اس نظام کی پشت پر ہے۔

حیات انسانی کی یہ تدریجی نشونما اپنے اس تسلسل کے ساتھ بظاہر ایک اعجوبہ ہے اور اسے صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے کہ اس سورة کے مطابق ایک انسان سیدھی طرح اللہ پر ایمان لے آئے۔

بس یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس تخلیق اور اس نشو نما کو اپنے کمال تک پہنچانے کا تصور دیا جاسکتا ہے۔ صرف ایمان باللہ ہی کی صورت میں دنیا و آخرت کی زندگی با معنی اور با مقصد ہوسکتی ہے۔ صفات مومنین کے بعد یہاں زندگی کی اس عجیب نشونما کے مدارج کو کیوں لایا گیا ہے ؟

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 12) ” ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ، پھر ایک محفوظ جگہ ٹپی کی ہوئی بوند میں تبدیل کیا “۔ یہ آیت انسانی زندگی کی نشونما کے انداز کو نہایت ہی تعین کے ساتھ بتاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان موجود انسانی شکل تک کئی مراحل طے کرکے پہنچتا ہے۔ یو وہ پہلے مٹی سے انسان تک پہنچا ، کیچڑ گویا انسان کی تخلیق درجہ اول ہے۔ اور انسان اپنی موجودہ شکل میں اس عمل تخلیق کا فائنل مرحلہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی قرآن کریم صراحت کرتا ہے۔ ہم انسان کے اس عمل تخلیق کی تصدیق ان سائنسی مشاہدات سے کرنا نہیں چاہتے جنہوں نے اس عمل کو تخلیقی کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کیا ہے کہ انسانی زندگی کس طرح نشونما پاتی ہے۔

قرآن کریم نے تخلیق کس قدر پچیدہ ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیچڑ سے انسان کی تخلیق تک کس قدر تبدیلی ہے ۔ قرآن کریم نے اس سے زیادہ تفصیلات نہیں دی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا مقصد ان موٹے موٹے مدارج تخلیق کے ذکر ہی سے پورا ہوجاتا ہے ۔ رہے موجودہ سائنسی مشاہدات تو ان کے پیش نظر نشونما کے نہایت ہی مفصل مدارج کا بیان ہوتا ہے تاکہ وہ کیچڑ سے مکمل انسان کی تخلیق تک مدارج کو تفصیل سے لیں۔ سائنس دانوں کے مشاہدات درست بھی ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات وہ غلط مشاہدات بھی کرتے ہیں۔ آج زیادہ وہ مدارج بتاتے ہیں اور کل ان میں کمی کردیتے ہیں کیونکہ آلات مشاہدہ میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔

قرآن کریم کبھی تو ان مدارج کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے اور کبھی ان کی تفصیلات دیتا ہے۔ بعض اوقات صرف یہ فقرہ ہوتا ہے۔

و بدا خلق الانسان من طین (32 : 7) ” انسان کی ابتدائی تخلیق مٹی سے کی گئی “۔ اب اس میں مراحل کا ذکر بالکل نہیں ہے اور جس آیت میں تفصیلات دی گئی ہیں اس میں کہا ہے۔

من سللۃ من طین (23 : 12) ” دوسری آیت میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان مٹی سے کس طرح تسلسل کے ساتھ اپنی موجودہ کامل حالت تک پہنچاتو قرآن کریم نے اس کی تفصیلات نہیں دی ہیں اور جیسا کہ ہم نے دوسری جگہ تفصیلات دے دی ہیں یہ امور قرآن کریم کے مقاصد میں شامل ہی نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے جو مدارج حیات بیان کیے ہیں وہ سائنسی مشاہدات کے مطابق بھی ہوسکتے ہیں اور خلاف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمل کسی نامعلوم ذریعہ سے ہوا ہو اور ابھی بھی انسان نے اسے دریافت نہ کیا ہو یا کچھ ایسے فیکٹر ہوں جو ابھی انسان کے علم سے باہر ہوں۔ لیکن قرآن انسان کو جس نظر سے دیکھتا ہے اور یہ دوسرے سائنسی نظریات اسے جن مقاصد کے لیے مشاہدہ کرتی ہیں ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآن کریم انسان کو ایک نہایت ہی مکرم اور برگزیدہ مخلوق قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس ذات کے اندر اللہ کی روح پھونگی گئی ہے اور اس روح ہی نے اسے مٹی سے انسان بنادیا اور اسے دو خصوصیات عطا کیں جن کی وجہ سے انسان کہلایا اور حیوان سے ممتاز قرار پایا یوں قرآن کا نقطہ نظر انسان کے بارے میں مادہ پرستوں سے بالکل جدا ہے اور اللہ کا قول تمام لوگوں سے زیادہ سچا ہے۔

(دیکھئے الانسان بین المادیۃ والاسلام محمد قطب) یہ ہے جنس انسانی کی اصل تخلیق مٹی کے ست سے۔ رہا بعد کا سلسلہ نسل انسانی تو اس کا طریق کا بالکل کار بالکل جدا ہے اور ایک معروف اور مشاہدہ کیا ہواطریقہ ہے۔

ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین (23 : 13) ” پھر ہم نے اسے ایک محفوظ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کردیا ”۔ اللہ نے جنس انسانی (آدم) کو تو مٹی کے ست بنایا۔ رہا سلسلہ تناسل تو اس سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے پانی کے ایک قطرے سے چلایا۔ پانی کا یہ قطرہ مرد صنب سے نکلتا ہے۔ یہ قطرہ رحم مادر میں ٹھرتا ہے۔ یہ پانی کا نہایت ہی چھوٹا نکتہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہزار ہا خلیوں میں سے ایک خلیہ ہوتا ہے اور پانی کے اس قطرے میں یہ خلیے ہزار ہا کی تعداد میں ہوتے ہیں۔

فی قرار مکین (23 : 13) ” محفوظ جگہ میں “ یہ نقطہ رحم میں جاکر رحم کی ہڈیوں کے درمیان ایسی جگہ محفوظ جگہ میں ہوتا ہے کہا اس پر جسم کی حرکات کا کو ئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ جگہ ایسی ہوتی ہے کہ انسان کی پیٹھ اور پیٹ کو جھٹکے اور چوٹیں اور حرکات اور تاثرات پہنچتے ہیں یہ جگہ ان سے محفوظ ہوتی ہے۔

قرآن کریم اس نقطے کو انسان کی تخلیق کا ایک مرحلہ قرار دیتا ہے اس نقطے سے بڑھ کر انسان ایک مکمل انسان بنتا ہے ۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے لیکن یہ عجیب اور قابل غور حقیقت ہے۔ جب اس عظیم الحبثہ انسان کو ہم مختصص کرکے اس نقطے کے اندر وہ تمام انسانی خصائص پائے جاتے ہیں تو پھر ایک کامل انسان اندر سے اس قسم کے اور جینز تخلیق ہوتے رہتے ہیں ۔ سلسلہ تخلیق کا یہ ایک عجیب نظام ہے۔

اس نقطے سے انسان پھر علفہ بن جاتا ہے یعنی خون کا ایک لوتھڑا۔ اس مرحلے میں مرد کا جرثومہ عورت کے انڈے کے ساتھ مکس ہوجاتا ہے اور ابتداء میں رحم مادر کے ساتھ معلق یہ ایک باریک نقطہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ نقطہ رحم مادر کے خون سے غذاپاتا ہے۔ علقہ سے پھر المضغۃ ” خون کی بوٹی “ کی شکل میں آجاتا ہے ۔ بوٹی کی شکل میں اب یہ نقطہ قدرے بڑا ہے ۔ اب یہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ یہ خون کا ایک موٹا ٹکڑا ہوتا ہے ۔

یہ چھوٹی سی مخلوق اپنی اس راہ پر چلتی ہے۔ یہ اپنی ڈگر تبدیل نہیں کرتی۔ نہ اپنی راہ سے ادھر ادھر جاتی ہے ۔ اس کی حرکت معظم اور مرتب ہوتی ہے اور یہ اس ناموس کے مطابق ہوتی ہے جو پہلے سے اللہ نے مقرر کردیا ہے۔۔ یعنی اللہ کی تدبیر و تقدیر کے مطابق ۔ اس کے بعد ہڈیوں مرحلہ آتا ہے۔

فخلقنا المضغۃ عظما (23 : 13) پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ اور اس کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھ آیا۔

فکسونا العظم لحما (23 : 31) ” پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا “۔ ان مراحل کو پڑھ کر اور پھر دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نے کے ان مراحل کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے وہ سائنس دانوں کے مشاہدے میں بہت بعد میں آئی ہے ۔ سائنس دانوں نے بعد میں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہڈیوں کے خلیے اور ہیں ۔ اور گوشت کے خلیے اور ہیں۔ اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ جنین کے اندر ہڈیوں کے خلیے پہلے چڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر گوشت کے خلیے چڑھتے ہیں اور جب تک ہڈیوں کے خلیے مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک گوشت کے خلیے پاپید ہوتے ہیں اور بعد میں جنین کا ڈھانچہ بنتا ہے۔ یہ حیران کن حقیقت ہے جسے جسے قرآن کریم ریکارڈ کرتا ہے۔

فخلقنا المضغۃ عظما فکسونا العظم لحما (23 : 14) ” پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں “ اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۔ ثم انشانہ خلقا اخر (23 : 14) ” پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا “۔ اور یہ مخلوق انسان ہے۔ یہ امتیازی خصوصیات کا حامل ہے ۔ ابتداء مین انسان کا جنین اور حیوان کا جنین جسمانی ساخت کے اعتبار سے ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن آخر میں جاکر انسان کا جنین ایک دوسری مخلوق کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ایک مکرم اور صاحب امتیاز مخلوق ہوتی ہے اور یہ ارتقاء اور ترقی کی بےپناہ استعداد اپنے اندر رکھتی ہے ۔ حیوان کا جنین حیوان کے ہی درجے میں رہ جاتا ہے۔ وہ انسانی خصائص کو اخذ نہیں کرسکتا۔ اور ان کمالات تک نہیں پہنچ پاتا جن تک انسان پہنچتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ انسانی جنین کو متعین اور مخصوص خصوصیات دی گئی ہیں اور یہی خصوصیات ہیں جو بعد کے زمانے مین انسان کو انسانیت کی راہ پر ڈالتی ہیں۔ اس طرح انسان ” ایک دوسری “ مخلوق بن جاتا ہے ۔ اور یہ اس وقت ہی بن جاتا ہے جب یہ جنین اپنے آخری دور میں نشونما میں ہوتا ہے۔ حیوان اپنے آخری دور میں انسان سے پیچھے رہ جاتا ہے اس لیے کہ اس کو انسانی خصوصیات نہیں دی گئیں۔ چناچہ کسی حیوان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے حیوانی مقام سے آگے بڑھ پائے اور اس طرح آگے بڑھتے بڑھتے حیوان سے انسان بن جائے جیسا کہ مادی نطریہ کے قائلین اس پر یقین رکھتے ہیں لیکن انسان اپنی انسانی خصوصیات کے اعتبار سے ایک مقام جا کر رک جاتا ہے اور انسان خلق آخر بن جاتا ہے اور ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے جو اس نے اس کرہ ارض پر ادا کرنی ہیں۔ یہ فرق ان امتیازی خصوصیات کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں ۔ اس معاملے میں یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ حیوانات نے ترقی کرتے کرتے درجہ انسانی تک بلندی حاصل کی ہے۔

نظریہ ارتقاء اسلام کے نظریہ سے متضاد تصور پر قائم ہے۔ یہ نظریہ فرض کرتا ہے کہ موجودہ انسان حیوانی ارتقاء کا ایک درجہ ہے ۔ اور یہ کہ حیوان بھی ترقی کرکے انسان بن سکتا ہے لیکن واقعی صورت حالات یہ ہے کہ واضح طور پر یہ کہ نظریہ محض مفروضہ اور جھوٹ نظر آتا ہے ۔ حیوان کبھی بھی انسانی خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا ۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی حدود میں رہتا ہے ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی نوع کے اندر شکلی اعتبار سے کوئی نوع حیوان ترقی کرلے جس طرح ڈرائون کہتا ہے۔ لیکن ہر نوع اپنے نوع اپنے نوعی حدود کے اندر رہتی ہے وہ نوعی خصوصیات بدل نہیں سکتی کیونکہ ہر نوع حیوانی کی خصوصیات علیحدہ ہوتی ہیں اور کسی خارجی قوت نے اسے دی ہوتی ہیں جبکہ نوع انسانی بالکل ایک علیحدہ نوعیت اور خصوصیات کی حامل ہے اور یہ خصوصیات اسے بعض مخصوص مقاصد کے لیے اللہ کی قوت نے دی ہیں۔

فتبرک اللہ احسن الخلقین (23 : 14) ” بس بڑا ہی با برکت ہے اللہ ، سب کا کاریگروں سے اچھا کاریگر “۔ جس نے انسان کے جنین کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے وہ اس انداز نشونما کے مطابق ایک خود کار نظام کے مطابق آگے برھتا ہے۔ ایک نہایت ہی پچیدہ سنت الیہ کے مطا بق جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ اس کے مراحل میں سے مرحلہ حذف ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان ترقی و کمال مقررہ درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے ۔

لوگ سائنس کے انکشافات کو معجزہ قرار دیتے ہیں اور ان کو سن سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ خصوصا جب انسان ایک ایسا آلہ یا مشین تیار کرتا ہے جو خود کار طریقے کے مطابق چلتا ہے اور انسان کی مداخلت کے بغیر کام کرتا ہے ۔ کیا یہ لوگ اس جنین کو نہیں دیکھتے کہ یہ نہایت ہی خود کار طریقے کے مطابق اپنے مختلف مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ بظاہر ان مراحل سے گزرنے میں اسے گزارنے والا نظر نہیں آتا ۔ جب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ماہیت میں بھی مکمل تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر نظر آتا ہے کہ ان دونوں مراحل میں اس کے اندر ایک تبدیلی آگئی ہے۔ لوگ رات دن ان تغیرات اور واقعات کو دیکھتے ہیں لیکن اپنی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں ، ان کے دل و دماغ اس عظیم خود کار نظام پر غور نہیں کرتے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ ہم اس نظام کے عادی ہوگئے ہیں حالانکہ یہ اپنی جگہ حیرت انگیز نظام ہے۔ محض انسان کی اس پچیدہ تخلیق پر غور و فکر ہی انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہے جس کی تمام خصوصیات ، تمام خدوخال ، اس چھوٹے نکتے کے اندر موجود ہوتے ہیں جو اس قدر چھو ٹا ہوتا ہے کہ انسان خوردبین کے بغیرا سے دیکھ نہیں سکتا ۔ یہ تمام خصوصیات اور تمام خدو خال آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے پھر ہماری نظروں میں آجاتے ہیں ۔ جب انسان بچے کی صورت میں ہوتا ہے تو انسان کے انسانی خصائص نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ پھر ہر بچہ عام انسانی خصائص کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی مخصوص خصوصیات کو بھی وراثت میں پاتا ہے اور یہ دونوں قسم کی خصوصیات اس چھوٹے سے نکتے کے اندر مرکوز ہوتی ہیں۔ غرض یہ عمل جو رات اور دن ہمارے درمیان اور ہمارے سامنے قدرت دہراتی ہے ، انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور انسانی غورو فکر کے لیے اس میں عظیم مواد موجود ہے۔

اب سیاق کلام ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے تاکہ زندگی کے اس سفر کو انتہا تک پہنچا دے ۔ اب زندگی کے ایک نئے مرحلے کا ذکر ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ زندگی جس کی تخلیق اس متی سے کی گئی ہے اس دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتی کیونکہ یہ صرف مٹنی نہیں ہے بلکہ اس میں روح کا آمیزہ کیا گیا ہے ، لہذا اس کو اس سے بھی آگے بڑھنا ہے۔ اس زندگی میں چونکہ عالم بالا کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے اس لیے اس کا آخری منزل یہی جسمانی منزل نہیں ہے ۔ خون اور گوشت کی اس قریبی منزل سے آگے اور جہان بھی ہیں ۔ چناچہ زندگی کا آخری مرحلہ سامنے آتا ہے

شعبان المعظم اہمیت وفضیلت ♥️♥️           شعبان اسلامی مہینوں میں آٹھویں نمبر پر آنے والا مہینا ہے لیکن اپنی لفظی معنویت ...
13/02/2025

شعبان المعظم اہمیت وفضیلت ♥️♥️
شعبان اسلامی مہینوں میں آٹھویں نمبر پر آنے والا مہینا ہے لیکن اپنی لفظی معنویت اور اہمیت کے پیش نظر اس کا شمار ان خا ص مہینوں میں ہوتا ہے جن کاچاند دیکھنا واجب کفایہ ہے۔اس مہینے کے نام سے ہی اس کی اہمیت کا انداز ہوتا ہےکہ اس میں عبادت گزا ر کو شرف وعزت، ،علومرتبت، احسان ونیکی کی توفیق، الفت الٰہی اور قلبی وباطنی نوارنیت کی عطاکے سا تھ ظاہری طور پر بھی رحمت الٰہی کے اثرات اس کے جسمانی خدوخال پر نظر آتے ہیں ۔شعبان المعظم میں عبادت گزار، نیکوکار،خیر کا طلبگار، بھلائی کی خواستگار، اچھائی کاخوگر اپنے ان نیک اعمال کی آبیاری کرتا ہےجن کے بیج رجب المرجب میں بوتا ہے، اس مہینے آخرت کوسنوارنےوالا خیر اور بھلائی کے راستے پر چلنے کےلئے کمربستہ ہوتاہے،اپنے ارادوں کو نیکی سے بہر پوراعمال کی بجاآوری کےلئے عملی جامہ پہناتا ہے کیونکہ اس مہینے عطائے خداوندی کی بے بہا بارشیں اعمال صالحہ کرنے والوں پر چھماچھم برستی ہیں۔نیکی کی توفیق ارزاں ہوتی ہے ،قرآن کی تلاوت سے بنجر زمیں کو سیراب کیا جاتاہے،ذکراللہ سے قلب کی صفائی کااہتمام ہوتاہے اوراس سے متصل مہینے رمضان المبارک کے استقبال کےلئے حسنات سے جسم کی طہارت کا سامان کیاجاتاہے۔اصحاب رسول کے بارے میں آتا ہےکہ وہ شعبان المعظم کے آغاز سے ہی دنیا وی معمولات سے فارغت پاکر اپنے جسموں کو عبادات کا عادی بنانےکےلئے تلاوت قرآن، کثرت نوافل ،توبہ واستغفا ر اور تسبیحات وتکبیرات میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔تعظیم شعبان کی پاسداری سےمسلمانوں پر رحمت الہی کا ایسا نزول ہوتا ہے جیسے پہاڑوں کی چوٹیوں سے تیز رفتار میں آنے والا پانی گھاٹی میں جمع ہوکر سکون پزیر ہوتاہےایسے ہی شعبان کی عظمت کی پیش نظر اس کی تعظیم کرنے والے پر رحمت الہی موسلادھار بارش کی طرح برس کر مؤمن کی دل میں قرار پزیر ہوتی ہےجس سے عبادت کی کلیاں پھوٹی ہے نیکی کے ثمرات لگتے ہیں ۔ایک حدیث میں شعبان کی وجہ تسمیہ کو بیان کرتے ہوئے رسولُ الله صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا سُمِّىَ شَعْبَانُ لِاَنَّهٗ يَنْشَعِبُ فِيْهِ خَيْرٌ كَثِيْرٌ لِلصَّائمِِ فِيْهِ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّة ، یعنی اس مہینے کو “ شعبان “ اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ رکھنے والے کے لئے بہت سی بھلائیاں(شاخوں کی طرح)پھوٹتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ جنت میں جاپہنچتا ہے ۔( التدوین فی اخبار قزوین ، 1 / 153)

شعبان کی اہمیت وفضیلت:
رجب اوررمضان کے بیچ میں تشریف فرما شعبان میں عبادت کرنے کی اہمیت اور فضیلت کےبارے میں بہت سارے فرامین رسول احادیث مبارکہ میں موجود ہیں اور خود سرکار دوعالم کا معمول شریف تھاکہ اس مہینے کثرت سےروزے رکھا کرتے تھے ۔ ایک ارشاد گرامی میں آپ نے فرمایا :’’ جب ماہِ شعبان آجائے تو اپنے جسموں کو پاکیزہ اور اپنی نیتوں کو اچھا رکھو ۔ ‘‘

(مکاشفۃ القلوب ، الباب الحادی بعد المائۃ فی فضل شعبان المبارک،303)

اسلامی مہینا شعبان استغفار، توبہ کرنے اور اللہ کی رحمت پانے کا مہینے ہے لہذا اس عظمت والے مہینے میں اپنے آپ کو نیک اعما ل سے محروم رکھنا اتنہائی محرومی اور بد نصیبی ہےوہ لوگ غفلت میں ہےجو اس مہینے کو پانے کے باوجود اپنے آپ کو رحمت الہی سے دور رکھے ہوئے ہیں۔اس مہینے کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاتا ہےکہ اس مہینے میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس میں آنے والی زندگی کےاعمال صفحہ نامہ اعمال پر مرتب ہوتے ہیں ،گزشتہ سال کی ساری کارکردگیاں پیش خداوندی ہوتی ہیں، سال گزشتہ کےاعمال کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے اور نئے سال کی شروعات نئے اعمال سے ہوتی ہیں۔اب غورطلب بات ہےکہ شعبان کے شروع ہوتےہی کیا ہم توبہ و استغفار سے اپنے اعمال کی بدکاریایوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تاکہ نصف شعبان جب نامہ اعمال کادفتر لپیٹا جائے تو ہمارے دفتر اعمال میں سیاہ کاریوں کی جگہ نیکیاں درج کردی گئیں ہوں اور ہم اپنے رب کے حضور سرخرو ہوں یا اس عظمت نشان مہینے کو بھی غفلت میں گزاردیں اور جب فصل کی کٹائی کا مہینے آئے تو ہم پر گناہوں کا اتنا بوجھ ہوکہ ہم رمضان المبارک کو بھی عبادت میں سستی کرتے ایسے گزاریں کہ بخشش کا سامان بھی ناہوسکے۔الامان الحفیظ۔اے لوگو! اپنے آپ کو گناہوں سے بچاؤ ، نیکی کے راستے پر چلو ،اس مہینے میں تلاوت قرآن کثرت سے کروتاکہ انوار الہی کی تجلی سے سینے کے کینے دور ہوجائیں ، غفلت کی چادر تن سے جداہوجائے اور بدن پر عبادت کی لذت اور کیف کے اثرات ایسے مرتب ہوں کہ پھر دل گناہوں کی طرف نا للچائے۔

تلاوت قرآن کا مہینا
تلاوت قرآن کے مہینے شعبان کےبارے میں حضرت الحسن بن سھل رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہفرماتے ہیں : ماہِ شعبان نے عرض کی : یَا رَبِّ جَعَلْتَنِیْ بَیْنَ شَہْرَیْنِ عَـظِیْمَیْنِ فَمَا جَعَلْتَ لِـیْ یعنی اے میرے رَبّ! تونے مجھے دو عظمت والے مہینوں (ماہِ رجب اور ماہِ رمضان)کے درمیان رکھا ہے تو تُونے میری کیا فضیلت رکھی؟ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : جَعَلْتُ فِیْکَ تِلَاوَۃَ الْقُراٰنِ یعنی میں نے تجھ میں قرآنِ پاک کی تلاوت رکھ دی۔

(لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف، ص ۲۵۹)

آقا کا مہینا
رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شعبانُ الْمُعظَّم کے بارے میں فرمانِ مکرم ہے: شَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اللہ۔ یعنی شعبان میرا مہیناہے اور رَمضان اللہ کا مہینا ہے۔

(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۰۱حدیث۴۸۸۹،آقا کا مہینا، ص۲)

شعبان المعظم کی اہمیت نسبت رسول ملنے کی وجہ سے مزید دوچند ہو جاتی ہے پھر اس مہینے میں شب براءت یعنی عظمت وشان والی رات بھی آتی ہے جس کی فضیلت کےبارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہےحصول برکت کےلئے شب براءت کی فضیلت اور وظائف کے حوالے کچھ نگارشات ویب سائٹ پر پیش کی جاتی ہیں۔

شب براءت:
شعبان کی پندرہویں رات کو شب براءت یعنی جہنم سے نجات دینے والی رات کہا جاتاہےاس کےعلاوہ اس رات کو برکت والی رات، گزشتہ زندگی کے نامہ اعما ل کی پیشی کی رات، رحمت خداوندی کی رات،عطائے رب ذی الجلال و الاکرام کی رات، گناہوں کو مٹانے والی رات، قبولیت دعا کی رات، زندگی بخشنے والی رات،شفاعت کی رات، تعظیم کی رات، قدر ومنزلت والی رات،آسمان دنیاسے خاکدان گیتی پر نزول رحمت الہی کی رات اور فرشتوں کی رات بھی کہا جاتا ہے۔حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: کہ جس طرح اہل ایمان کےلئے عید الفطر اور عید الاضحی کی چاند رات مسرت و شادمانی کا باعث ہوتی ہیں اسی طرح فرشتوں کےلئے بھی دو راتیں عید کی رات کہلاتی ہیں اور وہ دو راتیں شب براءت اور لیلۃ القدر کی راتیں ہوتی ہیں۔(مکاشفۃ القلوب،ص۶۲۴)

خیر وبھلائی والی رات:
شعبان کی 15ویں شب کو رحمت الہی کا منظر کچھ یوں ہوتا ہےکہ آسمان دنیا پر اللہ اپنی شان جل جلالہ کےساتھ جلوہ افروز ہوکر مخلوق پر نظر رحمت ڈالتا ہے اس کی رحمت کی تجلیات ہر اس شخص پر پڑتی ہےجس کادل ایمان کی دولت سے لبریزہو، شرک نے دل مسلم کو گدلا نا کیاہو، پھر اس مؤمن کا دل کینہ سے بھی پاک ہو ، شراب کے ناپاک قطروں سے منھ اور جسم کو ناپاک نہ کیا ہو، والدین کی اطاعت وفرمانبرادی میں بھی پیش پیش ہو تو اس ایمان والے شعبان کی پندرہویں شب میں رحمت وبرکت، بخشش و نجات، قدرومنزلت اور دین ودنیا میں عافیت سے نوازے جاتے ہیں۔

اس رات خیر کے دروازے کھولے جاتے ہیں، بھلائیاں بارش کےقطروں کی طرح اہل زمین پر برستی ہیں، گنہگاروں کوتوبہ و استغفار کے ذریعے رب ذوالجلال کو منانے کا موقع ملتا ہے، عبادت گزار ،شب زندہ دار کو ریاضت ومجاہدات کے اجر سے نوازا جاتا ہے۔لیکن

چند بدنصیب لوگ:
شعبان کی اس عظمت والی رات میں کچھ بد نصیب لوگ بھی ہیں جو نظررحمت سے اس وقت تک محروم رہتے ہیں جب تک وہ اپنے آپ کو گناہوں کے اثرات سے پاک نہیں کرلیتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل ایمان سے خالی ہوتے ہیں، کینہ وبغض کی آگ میں جلتے ہیں ، ماں باپ کی نافرمانی میں مبتلا رہتے ہیں، اللہ کی حرام کردہ چیز شراب پینے کے عادی ہوتے ہیں، قتل ناحق کے مجرم ہوتے ہیں ۔ یہ وہ حرماں نصیب لوگ ہیں جو بخشش والی رات میں بھی بخشش و مغفرت سے دور کردیئے جاتے ہیں۔

فیصلہ کی رات:
سورہ ٔدخان کی چوتھی آیت میں ا رشاد باری تعا لی ہے:

فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)

ترجمۂ کنزالایمان: اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔

اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں حضرت علامہ مولانا شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم صاحب فرماتے ہیں :’’ یاد رہے کہ کئی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ15شعبان کی رات لوگوں کے اُمور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’ کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرہویں شعبان میں کیا ہے؟میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس میں کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’ اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔‘‘

( مشکوۃ المصابیح ، کتاب الصلاۃ ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث ، ۱ / ۲۵۴ ، الحدیث: ۱۳۰۵)

ان احادیث اور ا س آیت میں مطابقت یہ ہے کہ فیصلہ 15شعبان کی رات ہوتا ہے اور شبِ قدر میں وہ فیصلہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہوں نے اس فیصلے کے مطابق عمل کرناہوتا ہے جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’لوگوں کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں یہ فیصلہ ان فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں گے ۔‘‘

(بغوی ، الدخان ، تحت الآیۃ: ۴ ، ۴ / ۱۳۳)‘‘( تفسیر صراط الجنان ،جلدنہم، ص۱۷۵)

اعلان باری تعالی:
نصف شعبان کی رات آسمان دنیا سے ایک خاص اعلان کیا جاتاہےچنانچہ مولائے کائنات مولی مشکلکشا حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللّٰہتعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف نُزولِ رحمت فرماتاہے اور اعلان کرتاہے کہ ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا تاکہ میں اس کوبخش دوں ، ہے کوئی رِزق طلب کرنے والا تاکہ میں اس کورِزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زَدہ تاکہ میں اس کواس سے نجات دوں ۔یہ اعلان طلوعِ فجر تک ہوتا رہتا ہے۔‘‘

(ابن ماجہ،کتاب اقامة الصلاة،باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان،۲/۱۶۰،حدیث:۱۳۸۸)

گویا نصف شعبان کی رات ایک عام اعلان کیا جاتا ہے کہ ہےکوئی مغفرت ، چاہنے والا، ہےکوئی رزق طلبگار، ہےکوئی غم کا مارا،ہے کوئی مصیبت زدہ آجاؤ دررحمت کھلا ہے ،ندامت کے آنسو بہاکر، شرمندہ شرمندہ جبین نیاز کو اپنے مولا کی بارگاہ میں جھکاکر اپنی زندگی کو سنورانے کےلئے دل سے پکار کہ اس کی رحمت کا دریا جوش میں ہے جو مانگے گاملے پر تیری طلب سچی ہو ، تیرا دل بغض وکینہ سے پاک ہو ،شرک کے تعفن نے تجھے زہر آلود نہ کیا ہو ، ماں باپ کو ستاتابھی نہ ہو تو پر دیکھ تیرے آنسو ؤں کی لاج کا برھم کس قدر رکھا جائے گا، تیر ی مانگ کس طرح پوری ہوگی ۔

15 شعبان اور حضور کا عمل مبارک
اُمّ المؤمنحضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً)

ایک روایت میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدہ کی حالت میں ان الفاظ سے دعا فرمائی:’’اَعُوْذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ جَلَّ ثَنَاؤُكَ لَا اَبْلُغُ الثَّنَاءَ عَلَيْكَ اَنْتَ كَمَا اَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ (یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!) میں تیرے عذاب سے تیری مُعافی،تیری ناراضی سےتیری رِضا اورتجھ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں ،تیری تعریف بلند ہے،میں تیری تعریف کا حق اَدا نہیں کرسکتا، تیری حقیقی شان وہی ہے جو تُو نے خُود بیان فرمائی۔‘‘(تاریخ ابن عساکر ،محمد بن احمد ...الخ، ۵۱/۷۳- ۷۲، حدیث: ۵۹۲۳۔)

شعبان المعظم کی پندرہویں شب اور مغرِب کے بعد چھ نوافِل:
معمولاتِ اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سے ہے کہ مغرب کے فرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکعت نفل (نَفْ۔ لْ) دو دو رَکعت کر کے ادا کئے جائیں ۔ پہلی دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے: ’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّان دورَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما ۔ ‘‘ دوسری دو رَکعتوں میں یہ نیت فرمایئے: ’’یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رکعتوں کی بَرکت سے بلاؤں سے میری حفاظت فرما۔ ‘‘ تیسری دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے: ’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ ‘‘ ان 6رَکعتوں میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ، چاہیں تو ہر رَکعت (رَکْ ۔ عَت) میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ کے بعد تین تین بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ لیجئے۔ ہر دو رَکعت کے بعداِکیس بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (پوری سورت) یا ایک بار سُوْرَۂ یٰسٓ شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ (آقا کا مہینا،ص ۲۲)

سال بھر جادو سے حِفاظت
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ166 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’اسلامی زندَگی‘‘ صَفْحَہ135 پرہے: اگر اس رات (یعنی شبِ براء َت) سات پتے بیری (یعنی بیر کے دَرخت ) کے پانی میں جوش د ے کر (جب پانی نہانے کے قابل ہو جائے تو ) غسل کرے اِنْ شَآءَاللہُ الْعَزِیْز تمام سا ل جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔ (آقا کا مہینا،ص ۱۵،۱۶)

دُعائے نصفِ شَعبانُ المُعظَّم
اَلْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ

اَللّٰہُمَّ يَا ذَا الْمَنِّ وَلَا يُمَنُّ عَلَيْهِط يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ ط يَا ذَا الطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ ط لَآاِلٰهَ اِلَّا اَنْتَط ظَهْرُ اللَّاجِيْنَطوَجَارُ الْمُسْتَجِيْرِيْنَط وَاَمَانُ الْخَآئِفِيْنَط اَللّٰہُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِيْ عِنْدَكَ فِيْ اُمِّ الْكِتٰبِ شَقِيًّا اَوْمَحْرُوْمًااَوْمَطْرُوْداًاَوْمُقَتَّرًا عَلَيَّ فِی الرِّزْقِ فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِيْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَ رِزْقِیْط وَاَثْبِتْنِيْ عِنْدَكَ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًالِّلْخَیْرَاتِطفَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِيْ كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِطعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِط (یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ) (پارہ13، الرعد: 39)،اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِط فِيْ لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَّرَمِطاَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّیُبْرَمُطاَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَاءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُط وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُطاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُط وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَطوَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

شعبان المعظم ایک بارپھر ہمارے درمیان رمضان المبارک کی آمد کی خوشیاں لئے تشریف لایا اس مہینے کی قدر ومنزلت کو پیش نظر رکھ کر عبادت کےلئے تمہ تن مشغول ہونا چاہئے تاکہ عبادات کے ثمرات رمضان المبارک میں حاصل کرسکیں ۔

اللہ تعالی ہمیں شعبان المعظم کی تعظیم اور اس مبارک مہینے میں کثرت سے عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے،آمین

Address

Mumbai

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aawo Deen Sikhen posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share