
26/04/2025
(سید سعادت اللہ حسینی)
چند روز قبل، ایک دوپہر ہمارے محترم دوست ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی صاحب مرکز جماعت میں ہمارے دفتر پر تشریف لائے اور ایک بہت خوبصورت تحفہ عنایت فرمایا، یعنی التفسیر المیسر کا اردو ترجمہ۔اس تفسیر کے بارے میں سن رکھا تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ طارق ایوبی صاحب اس کا ترجمہ فرمارہے ہیں۔ لیکن اتنی جلد، ترجمے کی شائع شدہ کاپی ہاتھ میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ تفسیر مشہور سعودی عالم دین اور' لاتحزن' کے مصنف الدکتور عائض القرنی کی ہے اور ترجمہ طارق ایوبی ندوی صاحب کا۔ میں نے وعدہ کرلیا تھا کہ کتاب کو دیکھ کر اپنا تاثر قلم بند کروں گا لیکن اس کے بعد ایسی پیہم مصروفیات درپیش رہیں کہ دیکھنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔اب کتاب کو چیدہ چیدہ دیکھنے کا موقع ملا۔
جگہ جگہ سے کتاب کے بعض حصوں کو پڑھنے کے بعد ، بے حد مسرت ہوئی کہ اردو کے تفسیری لٹریچر میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوا ہے۔ تفسیر کا اسلوب بالکل منفرد ہے۔ عام طور پر مفسرین جب تفسیر لکھتے ہیں تو اصل قرآنی متن کے نیچے ترجمہ لکھتے ہیں اور پھر جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں تفسیری حواشی لکھتے ہیں۔ قرآنی الفاظ کی تحقیق، لغت، صرف و نحو اور نظم کلام سے متعلق مباحث ، احکام و مسائل کا استنباط، تاریخی و سائنسی تحقیقات، نص قرآنی کے مفہوم کے سلسلے میں مختلف اقوال، ان کا موازنہ اور ترجیح، شان نزول کی بحث، متعلق احادیث و روایات اور ان کا جائزہ ، یہ سب مباحث حواشی میں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن سے گہرے استفادے کے لیے ان سب مباحث کی اہمیت مسلم ہے۔ لیکن ایک عام قاری کے لیے جو کلام الہی سے نصیحت حاصل کرنے کا خواہشمند ہو، بعض دفعہ یہ تفصیلات بہت زیادہ بوجھل ہوجاتی ہیں۔مختصر حواشی کے ساتھ جو تراجم موجود ہیں، اُن میں بہت سے مقامات پر کلام الہی کا مطلب سمجھنے کے لیے،یہ ترجمہ کافی نہیں ہوتا۔ اس تفسیر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس حوالے سے بہت اعتدال سے کام لیا گیا ہے۔ نہ زیادہ تفصیل ہے نہ زیادہ اختصار۔
اس لحاظ سے یہ تفسیر ایک عام قاری کی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان کرتی ہے۔ صرف ایک جلد میں پوری تفسیر آگئی ہے۔ ہر آیت کے نیچے مفسر، اس کی مختصر ترجمانی بیان کردیتے ہیں۔ ترجمانی میں آیت کا ترجمہ بھی شامل ہوتا ہے اور اضافی توضیحی الفاظ اور جملے بھی۔
سورہ روم کی آیت وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ کی ترجمانی ملاحظہ ہو۔
"اللہ کی عظمت و قدرت کی یہ بھی نشانی ہے کہ اس نے لوگوں کی راحت کے لیے نیند کو بنایا۔ نیند کیسی عجیب و غریب ایجاد ہے کہ نہ آدمی زندہ ہی رہتا ہے اور نہ مردہ ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ تم رات میں بھی سوتے ہو اور دن میں بھی آرام و سکون کے لیے سوتے ہو۔ اس طرح دن میں اپنے لیے اللہ کا مقدر کیا ہوا رزق تلاش کرتے ہو۔ ان نشانیوں میں قدرت الہی کے کمال و عظمت اور اللہ کے الوہیت کے حق دار ہونے کے بڑے دلائل ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو عبرت کی باتوں کو قبول کرنے ، غور کرنے اور نفع اٹھانے کے لیے سنتے ہیں۔ "
پوری تفسیر کا رنگ یہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے، آسان الفاظ ، تسلسل میں کسی رکاوٹ کے بغیررواں عبارت، اور دل کے تاروں کو مرتعش کرنے والی خوبصورت اور دلنشین زبان و لفظیات، اس تفسیر کے منفرد اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ضمیر غائب Third Personکا استعمال کم سے کم ہے اور پوری تفسیر کی زبان اور اسلوب، راست اللہ کی بندے سے مخاطبت کا اسلوب ہے۔
سورہ انفال کی آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی ترجمانی دیکھیے:
"اے ایمان والو، اگر تم اپنے رب سے ڈروگے اور اس کی اطاعت کروگے اور معصیت و حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچوگے تو اللہ دلوں کو ایک نور عطا فرمائے گا جس کے ذریعے تم حق کو پہچان لوگے اور اس کی اتباع کروگے اور باطل کو پہچان کر اس سے بچ سکوگے۔ تمہیں ایسی قوت تمیز اور امتیازی شان عطا کرے گا جس کے ذریعے تم خیر و شر کے درمیان تمیز کرسکوگے۔ اس لیے کہ فاجر آنکھ و دل کا اندھا ہوتا ہے۔ اس کی عقل رہنمائی نہیں کرتی۔ اس لیے کہ مسلسل مخالفت کے سبب اس کے دل پر پردہ پڑجاتا ہے اور اس پر مرض غالب آجاتا ہے۔ تقویٰ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سابقہ گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ پہلے ہوچکی لغزشوں سے درگذر فرماتا ہے۔ وہ خطاوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ اس لیے کہ وہ بڑی بخشش والا ہے۔ اس کا فضل بہت وسیع و عظیم اور اس کی عطا عام ہے۔ "
اس طرح گہرے اور دقیق مباحث کے بغیر، سادہ زبان اور اسلوب میں اور بہت کم وقت میں قاری قرآن کے مطالب سے واقف ہوجاتا ہے۔ احکام و مسائل کی ضروری تفصیل بھی اس کے سامنے آجاتی ہے۔نظم کلام کی علمی بحثوں کے بغیر محض ترجمانی کے ذریعے ہی فطری انداز سے، مختلف آیات کا باہم ربط اور نظم کلام بھی، واضح ہوجاتا ہے۔
ترجمے کے فن پر ڈاکٹر طارق ایوبی کی غیر معمولی قدرت نے اس ترجمانی کا حسن اور بڑھادیا ہے۔ ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی، ایک جوان العمر عالم دین اور علی گڈھ میں ایک مدرسے کے ذمے دار ہیں۔ دین کی تڑپ، سنجیدگی، بردباری و متانت، وسیع النظری اور وسیع المشربی ، توازن و اعتدال اور علمی وسعت و گہرائی کے ساتھ اللہ نے انہیں نہایت شگفتہ قلم سے نوازا ہے۔ اس تفسیر کا جتنا کچھ حصہ میں دیکھ سکا، اس میں ایک جملہ بھی ایسا نہیں ملا جس پر ترجمے کا گمان ہو۔ عائض القرنی کی خوبصورت عربی نثر کو جس کمال کے ساتھ انہوں نے خوبصورت اردو نثر میں منتقل کیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ اُسی طرح چھوٹے چھوٹے جملے، وہی راست تخاطب کا اسلوب اور وہی دل کے تاروں کو مرتعش کرنے والا انداز بیان اردو ترجمے میں بھی موجود ہے۔
ترجمے کے ساتھ ڈاکٹر ایوبی کا ایک بڑا کنٹری بیوشن ان کی' تعلیقات' ہیں۔ اکثر جگہوں پر تعلیقات کے عنوان سے انہوں نے بڑے خوبصورت اضافے کیے ہیں۔ ان سے مطالب اور واضح ہوجاتے ہیں۔
تفسیر کا ایک بہت قیمتی حصہ سورتوں کا تعارف ہے۔ اردو تفاسیر میں یہ نہایت مفید روایت غالباً مولانا مودودیؒ نے شروع کی تھی۔ اس تفسیر میں سورتوں کا تعارف بہت مختصر ہونے کے باوجود بڑا جامع اور نہایت پاور فل ہے۔ سورہ نساء کا تعارف ملاحظہ فرمائیں۔
"۔۔اس سورہ میں خاص طور پر خواتین کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ یتیموں کے حقوق سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔ معاشرتی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔اس کا زمانہ نزول ۳ ہجری کے اواخر سے ۴ ہجری کے اوائل تک کا ہے۔ یہ سورہ اسلامی نظام کی شفافیت، باریک بینی اور احکام شریعت کے مصالح کو بیان کرتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ مظلوم عورت اور یتیم تھے۔ان کے لیے ایسے واضح احکامات کے ساتھ حقوق کا تعین کرتی ہے کہ دنیا کے پاس اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ معاشرتی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ضمناً اہل کتاب کے رویوں پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔ عدل و انصاف سے متعلق گفتگو کی گئی ہے اور نکاح کے مقاصد بیان کرنے کے ساتھ طلاق کے مسائل اور میراث کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ سورہ کا مرکزی موضوع احکام و مسائل ہے۔ ضمناً قرآنی اسلوب کے تحت تذکیر و تادیب بھی ہے۔ اس سورہ میں حقوق نسواں پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے اس لیے اس کو سورہ نساء یعنی عورتوں کی سورہ کہا گیا ہے۔ "
بعض جگہوں پر پروف کی غلطیاں در آئی ہیں جو امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں درست ہوجائیں گی۔ اگلے ایڈیشن میں سیٹنگ کی کچھ اور اصلاحات ہوجائیں تو افادیت مزید بڑھے گی۔ مثلاً اصل عربی متن کی سیٹنگ اور پیشکش اور زیادہ واضح اور دلکش ہونی چاہیے۔فونٹ سائز بھی بڑھایا جاسکتا ہے تاکہ قاری متن کی تلاوت آسانی سے کرسکے۔ طارق ایوبی صاحب کی تعلیقات قوسین میں درج ہیں اور ط ا کے اشارے کے ساتھ انہیں اصل تفسیر سے جدا کیا گیا ہے۔ کلر نہ سہی کم سے کم فونٹ اور فونٹ سائز تو آسانی سے بدلا جاسکتا ہے جس سے دونوں عبارتیں اور واضح طور پر ممیز ہوسکتی ہیں۔ ہیڈر میں جہاں سورت کا نام درج ہے وہاں سورت کا نمبر بھی درج ہونا چاہیے تاکہ مطلوب آیت آسانی سے تلاش کی جاسکے۔فہرست میں سورت کے نام اور متعلق صفحہ نمبر میں اتنی زیادہ دوری ہے اور سطروں کے درمیان فاصلہ اتنا کم ہے کہ سورت اور اس کے متعلق صفحہ نمبر کو جوڑنےمیں دشواری ہورہی ہے۔ آیات سجدہ میں سجدہ کا ذکر اور زیادہ واضح ہونا چاہیے۔۔۔وغیرہ۔ایک اور گذارش یہ کہ اکثر جگہوں پر تعلیقات نہایت عمدہ اور تفسیر کے مجموعی مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں لیکن بعض جگہوں پر وہ طویل ہوگئی ہیں اور ان میں فقہی و نظری مباحث بھی آگئے ہیں جن سے اس تفسیر کا اصل امتیاز مجروح ہوتا ہے۔ اگر تعلیقات کو انتہائی ضروری توضیحات تک محدود رکھا جائےاور سختی سے یہ اہتمام کیا جائے کہ وہ دو تین سطروں سے تجاوز نہیں کریں گی، نیز مصنف کے اس اصول کا لحاظ رکھا جائے کہ صرف راجح قول کے ذکر تک بات محدود رہے گی دیگر اقوال کے ذکر ، ان کے درمیان موازنے وغیرہ کی علمی بحث کو اس تفسیر میں چھیڑا نہیں جائے گا، تو یہ طریقہ شاید زیادہ مناسب اور تفسیر کے اصل مقصد سے ہم آہنگ ہوگا۔ تفصیلات کے لیے دیگر متعدد تفاسیر موجود ہیں۔
میں مولانا طارق ایوبی کو اس عظیم کام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور مستقبل میں مزید عظیم خدمات کا ان کو ذریعہ بنائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے آمین۔
کتاب کے ناشر ہدایت پبلشرز اور اس کے حوصلہ مند مالک برادرم ابوالاعلی سید سبحانی بھی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ نہایت تیزی وتواتر سے وہ بڑی گراں قدر کتابوں سے اردو دنیا کو مالا مال کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔