Muzammil raza qadri63k

Muzammil raza qadri63k 🖤۞لَااِلٰهَ اِلَّاﷲﷴرَسُواللَّه۞🖤

10/06/2025
19/11/2024

Muzamil Raza Qadri

02/11/2024

New kashmiri naat Shareef by Muzamil raza qadri
#

24/10/2024

ایک عورت کا نکاح ایک عالم دین اسماعیل سے ہوا، جو امام مالک کے شاگرد تھے۔ اس مبارک شادی کی خوشی میں انہیں ایک بیٹا عطا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا۔ کچھ عرصہ بعد اسماعیل کا انتقال ہو گیا، اور بیوی اور اس کا ننھا بیٹا کافی دولت کے ساتھ رہ گئے۔ ماں نے اپنے بیٹے کی اسلامی تربیت کا بیڑا اٹھایا اور شاید چاہتی تھی کہ وہ بھی مسلمانوں کا ایک عالم بنے۔ لیکن افسوس کہ ان کا بیٹا بچپن ہی سے نابینا تھا، اور جب کوئی نابینا ہو تو علم حاصل کرنے کے لیے ایک استاد سے دوسرے استاد تک جانا اور مختلف شہروں کا سفر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

ماں نے دل سے دعا کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مسلسل خالص نیت سے اللہ سے دعا کرتی رہی۔ ایک رات، جب وہ سوئی ہوئی تھی، اس نے خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا جو اسے کہہ رہے تھے: "اے عورت، تمہارے کثرت دعا کی وجہ سے اللہ نے تمہارے بیٹے کی بینائی لوٹا دی ہے"۔ جب وہ جاگی تو دیکھا کہ اس کا بیٹا واقعی دیکھ سکتا تھا۔ سبحان اللہ! جو مصیبت زدہ کی دعا سنتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے۔

جب اللہ نے اس کے بیٹے کو بینائی عطا کی تو ماں نے اسے علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ اللہ نے اس پر علم کا دروازہ کھولا اور وہ ایسا عظیم کتاب لکھنے والا بنا جو دنیا کی سب سے مستند کتابوں میں شامل ہے، یعنی صحیح البخاری۔ جی ہاں، وہ بچہ محمد بن اسماعیل البخاری تھا، جسے اللہ نے علم اور وسیع قلب عطا کیا۔

یہ داستان ان لوگوں کے لیے ہے جو حکیموں اور ڈاکٹروں کے دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں اور انہیں شفا نہیں ملی۔ آسمان کے دروازے کھٹکھٹائیں، اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں، دعا سے مایوس نہ ہوں۔ اللہ اس وقت تک دعاؤں کو سنتا ہے جب تک آپ خود اس سے دعا مانگنے سے تھکتے نہیں۔

اللہ کا ذکر، تسبیح، تحمید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا کبھی نہ بھولیں۔

بسم الله الرحمن الرحيمصلی اللہ علیٰ حبیبہ محمِّد وٰ آلِہ وسلماشقیا را دیده بینا نه بودنیک و بد در دیده شان یکسان نمود(بد...
20/05/2024

بسم الله الرحمن الرحيم
صلی اللہ علیٰ حبیبہ محمِّد وٰ آلِہ وسلم
اشقیا را دیده بینا نه بود
نیک و بد در دیده شان یکسان نمود
(بد بختوں کی دیکھنے والی آنکھ نہ تھی، اچھا اور برا اُن کی آنکھ میں یکساں نظر آیا)
مولانا رومؒ اس شعر میں سابقہ حقیقت کو اور واضح فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اچھے اور بُرے میں تمیزکرنی چاہیے سارے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ فقراء اللہ کی محبت میں شامل ہو کر قرب ِ الٰہی پاچکے ہوتے ہیں اُن کی بات اور ہے اور عوام الناس کی بات اور ہے۔یہاں مولانا رومؒ نے اپنے شعر میں اشقیاء کا لفظ استعمال کیا ہے، یہ شقی سے نکلا ہے جس کے معنیٰ بد بخت کے ہیں۔ تو مولانا رومؒ فرماتے ہیں جو بد بخت ہوتا ہے اُسے دیکھنے والی آنکھ کبھی نہیں ملے گی، یعنی وہ آنکھ جو اُونچ نیچ اور اچھائی یا بُرائی کی تمیز کر سکے۔ گو یا مولانا رومؒ واضح کر رہے ہیں کہ جو اللہ کے ولی اور عام بندے میں تمیز نہیں کر سکتاوہ بدبخت ہے اور بد بخت کو کبھی حق بینی نہیں ملتی، اور نیک اور بد اُس کی آنکھ میں یکساں اور ایک جیسے نظر آتے ہیں، اُس کی بد بختی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کو ایک جیسا سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔
(مخدوم محمود مستوار قلندر)
اقتباس از:اسرار مستوار

Asraar e MastwaarBooks Download   Sharh Bukhari SharifGoing to publish (Soon…) Download Read More Maqam Mahmood Download Read More Silsila Dilbar Download Read More Makeen e Dil Download Read More Asraar e Mastwaar Download Read More Tafseer e Mastwaar Download Read More Mehr e Munawwar Download ...

29/04/2024

TAWEEZ IN THE LIGHT OF MUHADISEEN ....
تعویذ سلف صالحین کی نظر میں۔
کیا تعویذ لٹکانا شرک ہے ؟
اہلحدیث غیرمقلدین ہر قسم کے تعویذات چاہے قرآنی ہوں یا غیر قرآنی سب کو شرک قرار دیتے ہیں۔ اور اس پر انکی بنیادی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا 《"مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ." 》

مفہوم : جس شخص نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔

(السلسلة الصحيحة 2961 ، مسند احمد 16781)

غیر مقلدین اس حدیث میں تمیمہ کا معنی تعویذ کرتے ہیں جوکہ بالکل غلط ہے "تمیمہ کا معنی تعویذ نہیں منکے ہیں" جیساکہ مختلف کتابوں میں مذکور ہے مثلاً

1۔ صاحب منجد لکھتے ہیں:

تمیمہ کی جمع تمائم اور تمیمات آتی ہیں اور تمیمہ منکے یا اس سے ملتی جلتی چیزوں کو کہا جاتا ہے (المنجد ص 64)

2۔ ابن اثیر فرماتے ہیں:

تمائم تمیمہ کی جمع ہے اور وہ منکے ہیں (النھایہ ص 198 ج 1)

3۔ یہی بات طاہر احمد الزاوی کہتے ہیں۔

(القاموس المحیط ص 380 ج 1)

4۔یہی معنی اہلحدیث غیر مقلد شیخ ناصر الدین البانی صاحب نے

حاشیہ مشکوۃ ص 1285 ج 2 پر کیا ہے

5۔6علامہ منذری اور ابو السعادات کا قول فتح المجید ص 120 پر۔

7۔ علامہ قاضی شوکانی یمنی نے نیل الاوطار ص 212 ج 8 پر۔

8۔ امام بیہقی شافعی رحمہ اللہ نے سنن الکبری ص 350 ج 9 پر۔

9۔ امام عبد الرزاق رح نے مصنف عبد الرزاق ص 208 ج 11 پر

10۔ اور ابن حجر شافعی رحمہ اللہ نے فتح الباری ص 166 ج 10 پر

11۔ یہی بات لسان العرب ص 70 ج 12 پر

12۔ الصحاح للجوہری میں ص 1878 ج 5 پر

13۔ اور حاشیہ کنز العمال میں ص 73 ج 10 پر ہے

"کہ تمیمہ کا معنی منکا ہے"۔

14۔ صاحب لسان العرب نے ابومنصور کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ تمائم کی واحد تمیمہ ہے اور وہ منکے ہوتے ہیں۔

15۔ اسی طرح علامہ خلخالی تمیمہ کا معنی بیان فرماتے ہیں: تمیمہ ان ہڈیوں اور منکوں کو کہا جاتا ہے جو بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہیں۔ (فتح المجید ص 127)

16۔ امام زہری ؒ نے فرمایا کہ جس نے تعویذ کو تمیمہ کہا وہ غلطی پر ہے

(المغرب 1/107)

17۔ حضرت عطاء ؒ متوفی 114ھ نے کہا جو تعویذ قرآن مجید سے لکھی جائے اسکو تمائم شمار نہیں کیا جائے گا۔

(شرح السنہ 12/158)

18۔ امام بغوی شافعی فرماتے ہیں: تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ منکے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے۔

(شرح السنۃ 12/157)

لسان العرب کے مصنف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ " اعراب میں اس بات پر کسی کا اختلاف نہیں کہ تمیمہ فی نفسہ منکوں کو کہا جاتا ہے اور یہی مسلک ائمہ لغت کا بھی ہے (لسان العرب ج 12 ص 70)

19: جبکہ "تعویذ" کے لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : 583) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے.

(المنجد : صفحہ 593)

20: امام رازی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ تعویذ جس میں قرآنی آیات اللہ کے اسماء درج ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں۔

(مختار الصحاح 122)

ہم نے تمیمہ اور تعویذ میں فرق اہل لغت سے ثابت کر دیا لہذا ثابت ہوا کے جو حضرات تمیمہ کا معنی تعویذ کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اور اگر بالفرض ان دونوں کو ایک ہی سمجھا جائے تو بھی قرآنی تعویذ شرک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ تمیمہ کا شرک ہونا اصل میں اسکے شرکیہ کلمات اور اس سے جڑے باطل عقیدے پر منحصر ہے۔

مثال کے طور پر حدیث میں آتا ہے کہ

عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك".

ترجمہ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ فرما رہے تھے: ”دم، تمائم اور تولہ سب شرک ہیں“۔ [صحيح] -

[رواه أبو داود وابن ماجه وأحمد]

اب اس حدیث سے کوئی یہ مراد لے کے تمام قسم کے دم شرک ہیں تو یہ غلط ہوگا کیونکہ دم کرنے کی اجازت بلکہ ترغیب خود رسول ﷲﷺ نے دی ہے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر 5732 میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

" اعرضوا علي رقاكم لا باس بالرقى ما لم يكن فيه شرك"

حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ سے روایت ہے، کہا: ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: " اپنے دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو دم میں کوئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔"

قارئین ذرا غور فرمائیں قرانی آیات اور ادعیہ ماثورہ سے دم کے جائز ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں جبکہ یہاں دور جاہلیت کے دم کو بھی آپ ﷺ نے جائز قرار دیا بشرطیکہ شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے۔

قارئین کرام علاج بالقرآن اگر دم سے ہو سکتا ہے تو لکھے ہوئے پاک اور طیب کلمات سے کیوں نہیں ہو سکتا؟! وہاں بھی اس میں تاثیر اذنِ الٰہی سے آتی ہے،اور تعویذ میں بھی حروف و کلمات مؤثر بالذات نہیں، اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جب وہ چاہے۔

لہذا ایسے تعویذ جن میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہ ماثورہ ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب احادیث سے ملتی ہے۔

صحابہ و تابعین کے قول و عمل سے تعویذ کا ثبوت
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے :

’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘

تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے :

’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘

تخریج حدیث:

یہ حدیث ابوداؤد 3893 ،ترمذی 3528 ، نسائی، مسند احمد، مستدرک حاکم وغیرہ کتب میں موجود ہے

حکم حدیث: یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔

1۔امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد لکھا

2۔امام ترمذی نے حسن غریب کہا ہے اور

3غیر مقلد ناصر البانی نے حاشیہ ترمذی میں حسن لکھا ہے۔

شرح حدیث: حدیث مذکور کے تحت شیخ عبدالحق حنفی محدث دہلوی ؒ نے اللمعات میں لکھا ہے:

یہ حدیث دلیل ہے ان تعویذات کے جواز پر جو بچوں کے گلے میں لٹکائے جاتے ہیں اس میں کلام ہے لیکن وہ گنڈے جو زمانہ جاہلیت میں لٹکائے جاتے تھے وہ بلا اختلاف حرام ہیں

(مرعاۃ المفاتیح 239/8)

مذکورہ حدیث کی شرح میں امام ملا علی قاری ؒ حنفی نے تحریر فرمایا ہے۔

یہ دلیل ہے ان تعویذات کو لٹکانے کے جواز پر جن میں اسماء الہی مکتوب ہوں۔

(مرقاۃ المفاتیح 1712/4)

پھر ممنوع تعویذات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

جن تمائم کو لٹکانے کی ممانعت ہے ان سے مراد وہ تعویذات ہیں جن میں جاہلیت کے منتر ہوتے ہیں مثلا شیاطین کے نام اور ایسے الفاظ جن کے معانی معلوم نہیں

(مرقاۃ 2803/7)

1:*جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب ؒ سے ابو عصمہ نے تعویذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں جبکہ تعویذ چمڑے میں سلا ہوا ہو

(مصنف ابن ابی شیبہ 24008)

2: حضرت عطاء سے اس حائضہ کے بارے میں جس نے تعویذ لٹکایا ہو، روایت ہے، فرماتے ہیں کہ اگر تعویذ چمڑے میں ہو تو عورت کو چاہیے کہ اس کو اتار دے اور اگر چاندی کے خ*ل میں ہو تو پھر چاہے تو اتار دے اور چاہے نہ اتارے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ 24009)

3: حضرت جعفر ؒ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کو چمڑے میں لکھا جائے اور پھر اس کو (گلے میں) لٹکایا جائے۔

( ایضاً 24011)

4: حضرت ثویر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت مجاہد، لوگوں کو تعویذ لکھ کردیتے تھے اور پھر وہ تعویذ لوگوں کو پہناتے بھی تھے۔ ( ایضاً 24010)

*5:* حضرت یونس بن خباب ؒ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے اس تعویذ کے بارے میں سوال کیا جو بچوں پر لٹکائے جاتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کی اجازت دی۔

( ایضاً 24016)

6۔ امام دارمی ؒ نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عطاء کی یہ روایت نقل کی ہے:

حضرت عطاء تابعی سے پوچھا گیا کہ حائضہ عورت کے گلے میں تعویذ یا قرآنی سورت لکھ کر لٹکایا جائے تو کیسا ہے؟ انہوں نے کہا اگر چمڑے میں ہو تو اتار دے اور اگر چاندی کے خ*ل میں کے اندر ہو تو کوئی حرج نہیں چاہے اتارے یا نہ اتارے۔ امام دارمیؒ سے کہا گیا کیا آپ کی بھی یہ رائے ہے انہوں نے کہا: ہاں۔

(سنن دارمی 1152)

7۔ حضرت ضحاک سے روایت ہے کہ جس میں قرآن ہو اس کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ نہانے اور قضائے حاجت کے وقت اتار دیا جائے۔

(مصنف ص 43 ج 5)

8۔ ابن سیرین ؒ تعویذات قرانیہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ( ایضاً )

آئمہ مجتہدین کے اقوال:
1: امام احمد بن حنبل ؒ کے صاحب زادے حضرت عبداللہ نے یہ فرمایا ہے:

میں نے اپنے والد کو دیکھا ہے کہ گھبراہٹ اور بخار کے علاج کے لیے تعویذات لکھ کر اپنے گھر والوں اور قربت داروں کو دیتے تھے اور وضع حمل کی آسانی کے لیے کسی پیالے یا ملائم چیز میں تعویذ لکھ کر عورت کو پینے کے لیے دیتے تھے۔ (مسائل الامام احمد 437/1)

۔

2: امام محمد بن مفلح مقدسی متوفی 763ھ نے لکھا ہے۔

میمونی نے کہا کہ میں نے سنا کسی نے امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا کہ مصیبت نازل ہونے پر تعویذات لٹکانا کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں۔ امام ابو داؤد نے کہا میں نے امام احمد بن حنبل ؒ کے ایک چھوٹے بچے کے گلے میں ایک تعویذ دیکھا جو چمڑے میں سلا ہوا تھا۔ خلال نے کہا امام احمد نے بخار کے لیے تعویذ لکھا۔ کراہت نزول بلا سے پہلے تعویذ لٹکانے میں ہے اسی پر عمل ہے (امام احمد کا راجح قول یہی ہے کہ نزول بلا سے پہلے تعویذ لٹکانا مکروہ نہین جیساکہ فقہ حنبلی کی کتابوں سے ظاہر ہے) (الفروع و تصحیح الفروع 248/3)

3: امام ابن تیمیہ ؒ تعویذ کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ تعویذ کے جواز پر جو روایات آئی ہیں ان سے استدلال بھی کیا ہے دیکھیے (مجموع الفتاوی 19/64)

4: امام ابن قیم ؒ نے بھی امام مالک ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ: امام احمد سے تعویذات کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کے ان میں کوئی حرج نہیں۔

( زادالمعاد 572)

امام مالک ؒ کا مذہب

1: مالکی مذہب کے فقیہ ابو الولید محمد بن احمد ابن رشد القرطبی متوفی 520ھ نے لکھا ہے ۔

بیماری میں دم اور تعویذ وہی جائز ہے جو صرف کتاب اللہ کے موافق ہو۔ (البیان والتحصیل 118/17)

2: اسی کتاب میں امام مالک ؒ کا موقف لکھا ہے کہ۔

بچوں، مریض، حمل والیوں، گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کے گلوں میں تعویذات لٹکانا جبکہ قرآنی تعویذات ہوں یا معلوم ہو کہ اللہ کے ذکر اور اس کے ناموں کے تعویذات ہین اور مرض سے شفاء حاصل کرنے کے لیے لٹکایا جائے یا بدنظری اور بیماری سے بچنے کے لیے لٹکایا جائے اس کے جائز ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے اس مسئلے میں امام مالک کا ظاہر قول یہ ہے کہ ایسے تعویذات لٹکانے کی اجازت ہے۔ ( ایضاً 439/1)

3: ابن جریر طبری نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر قرآنی تعویذ کو کسی لوہے کے خ*ل یا چمڑے کے اندر ڈال کر سی لیا جائے اور حائضہ عورتوں یا بچوں کو پہنایا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ اس کے جائز ہونے کی دلیل حضرت عمرو بن شعیب کی روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ ہ انھیں گھبراہٹ سے بچنے کے لیے دعا کے یہ کلمات سکھاتے تھے : أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ أَن يَحْضُرُونَ . حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے بالغ لڑکوں کو یہ دعا سکھاتے تھے اور نابالغوں کے گلوں میں لکھ کر لٹکا دیتے تھے۔ امام ابوداؤد اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

(المجموع شرح المهذب 70/2)

4: فقہ مالکی کے مشہور فقیہ ابو القاسم محمد بن احمد ابن جزی الغرناطی المالکی 741ھ نے یہ لکھاہے۔

قرآن اور ذکر والے تعویزات کو اگر چمڑے میں سی کر مریضوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکائیں تو ایسا کرنا جائز ہے صرف دھاگے میں باندھ کر لٹکانے میں بھلائی نہیں۔ ایسا ہی قرافی نے نقل کیا ہے۔ مریض کے جسم میں لٹکانا جائز ہے اسی طرح مرض اور نظر سے بچنے کے لیے صحیح آدمی کے جسم میں لٹکانا جمہور کے نزدیک جائز ہے (القوانین الفقھیۃ 295)

5: امام قرافی مالکی نے لکھا ہے کہ امام مالک اور فقہاء مالکیہ کا قول یہ ہےکے مرض و صحت دونوں حالتوں میں تعویذ لٹکانا جائز ہے (الذخیرۃ 327/13)

6: قاضی عیاض مالکی ؒ بھی تعویذ کو جائز مانتے ہیں۔ (فتح الباری 12/371)

7: امام ابن عبدالبر مالکی ؒ فرماتے ہیں کے امام مالک نے کہا کہ بیمار کے گلے میں برکت کے طور پر تعویذ ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔

(التمھید 17/161)

8: امام قرطبی ؒ 671ھ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن مجید کو اپنے گلے میں لٹکایا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکی حفاظت فرمائے اور اسکو کسی اور کے سپرد نہیں کریں گے کیونکہ قرآن سے شفاء حاصل کرنے میں اللہ پر توکل ہوتا ہے اور اسی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔

(تفسیر القرطبی 13/162)

امام شافعی کا مذہب

1: امام شافعی ؒ کا مذہب بھی یہی ہے کہ قرآنی کلمات اور ذکر و دعا پر مشتمل تعویذات کا لٹکانا جائز ہے۔ امام شافعی کی کتاب الام میں ہے کہ امام شافعی سے سوال کیا گیا کہ دم اور جھاڑ پھونک کرنا کیسا ہے تو انہوں نے کہا کوئی گناہ نہیں اگر آدمی کتاب اللہ یا معروف زکر اللہ سے دم کرے

(الام 241/7)

2: شارح صحیح مسلم امام نووی ؒ نے امام احمد بن حسین بیہقی شافعی کے حوالے سے یہ لکھا ہے:

جن حدیثوں میں تعویذات لٹکانے سے منع کیا گیا ہے وہاں منع سےمراد یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کی طرح اس نظریہ سے تعویذ لٹکائے کہ تعویذ خود بیماری کو دور کرے گا تو یہ ناجائز بلکہ کفر ہے لیکن اس نظریہ سے لٹکانا کے اللہ کے ذکر سے برکت حاصل ہوگی اور اللہ ہی شفاء عطا فرمائے گا کیونکہ اس کے سوا کوئی مصیبت کو دور کرنے والا شفا دینے والا نہیں تو تعویذ لٹکانے میں کوئی گناہ نہیں ان شاءاللہ تعالیٰ۔ (المجموع شرح المھذب 66/9)

3: حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر

اجماع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:

۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔

۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔

۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔

( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت )

4: امام نووی نے امام عثمان بن عبداللہ ابن الصلاح شافعی 643ھ کے ایک فتوے کو نقل کرتے ہوئے یہ لکھا ہے ۔

ترجمه: جن تعویذات میں قرآن لکھا ہوا ہو اُن کو عورتوں ، بچوں اور مردوں کے گلوں میں لٹکانا جائز ہے۔ اُن کو موم جامہ کر لیا جائے یا چمڑے وغیرہ میں رکھ کر سی لیا جائے اور عورتوں اور غافل لوگوں کو خصوصا تاکید کر دیا جائے کہ انھیں پہن کر بیت الخلا نہ جائیں۔ صحیح یہ ہے کہ اگر تعویذ کو موم جامہ کر لیا جائے یا کپڑے وغیرہ میں لپیٹ لیا جائے تو اُس کو پہن کر بیت الخلاء جانا مکروہ نہیں۔ اس پر منع وارد نہیں۔ (المجموع 84/2)

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا مذہب

1: فقہ حنفی کی معتبر کتاب رد المختار میں مجتبی کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ شفاء کے لیے قرآنی تعویذ کو گلے میں لٹکانا جائز ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے پھر یہ لکھا ہے کہ یہ عمل آجکل جاری ہے اور اس کے جواز پر احادیث و آثار موجود ہیں ( رد المختار ج 6 ص 364)

2: امام محمد ؒ رقیہ یعنی جھاڑ پھونک اور تعویذات وغیرہ کی اجازت کی روایات نقل کرکے لکھتے ہیں۔

ہم اسکو لیتے ہیں ہیں کہ رقیہ ، جھاڑ پھونک اور تعویذات وغیرہ جبکہ ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ہوں جائز ہیں اور یہی قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے (موطا امام محمد 374)

حاصل کلام یہ ہے کہ چاروں مذاہب کے ائمہ کے نزدیک بھی قرآنی تعویذ لکھنا لکھوانا اور جسم میں باندھنا جائز ہے جن حدیثوں میں تعویذ باندھنے کو حرام یا شرک کہا گیا ہے اس سے وہ تعویذ مراد ہے جس میں شرکیہ کلمات ہوں یا زمانہ جاہلیت کی طرح اس میں جادو منتر کے الفاظ ہوں۔

علماء اہلحدیث کے اقوال سے تعویذ کے جواز کا ثبوت:

قارئین کرام ہم نے آثارِ صحابہ و تابعین اور ائمہ اربعہ کے مذاہب سے ثابت کیا کے قرآنی تعویذ لٹکانا جائز ہے اب ہم آپکو غیر مقلدین کے اپنے گھر سے کچھ حوالے پیش کرنے جا رہے ہیں جو تعویذ کے جواز کے قائل ہیں۔

1: غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں بعض تابعین نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کے یہ جائز ہے۔ (فتاوی نذیریہ 298/3)

2: غیر مقلدین کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب نے اس مسئلہ پر کتاب " الداء والدواء کتاب التعویذات " نام کی پوری کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں : تعویذ لکھ کر باندھنے اور دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اس کی اصل حدیثِ پاک میں ہے ۔

(کتابُ التعویذات صفحہ نمبر 85)

3: غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:

مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے راجح یہ ہے کے آیات یا کلمات صحیحہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ہندو ہو یا مسلمان۔ صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔

( فتاوی ثنائیہ 329/1)

4: حافظ عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:

قرآن و حدیث کا لکھا ہوا تعویذ جائز ہے۔

(خطبات بہاولپوری 126/3)

5: غیر مقلدین کے محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی بھی تعویذ لکھ کر دیتے تھے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

غیر مسلم کو تعویذ دیا جا سکتا ہے مگر آیات قرانیہ نہ لکھی ہوں میں (عبداللہ روپڑی) اسکا ترجمہ لکھ کر دے دیتا ہوں یا کچھ اور۔

(فتاوی اہلحدیث 201/1)

6: غیرمقلدین کے مولوی صوفی عبداللہ صاحب دم کرتے تعویذ لکھ کر دیتے اور کہتے پہن لو یا باندھ لو شِفاء ہوگی اور شِفاء مل جاتی اور اپنی بات اللہ سے منوا لیتے ۔ (صُوفی عبد اللہ صفحہ نمبر 404)

7: غیرمقلدین کے مشہور مؤرخ جناب مولوی اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین لکھوی تعویذات دیتے عاشقوں کا ہجوم ہوتا اور بہت پیسہ کماتے تھے ۔

(بزم ارجمنداں صفحہ نمبر 46)

8: قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کو تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے اس پاکیزہ کلام کو یہ بُرا نام دینا غُلو ہے۔ اور لکھا کے تعویذ کا مسئلہ اختلافی ہے۔

(سُنن ابُو داود جلد 4 صفحہ 47 زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث)

جماعت اہلحدیث کا ایک گروہ جن میں اکثر ان کے اکابرین شامل ہیں وہ قرآنی تعویذات کو تمائم کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے اسے جائز کہتے ہیں جبکہ عصر حاضر کا دوسرا گروہ اسکا شدت سے رد کرتا ہے اور اسکو حرام بلکہ شرک و بدعت کہتا ہے۔ گویا اہلحدیث کا وہ گروہ جو اسے جائز قرار دیتا ہے دوسرے گروہ کے نزدیک مشرک و بدعتی ہیں۔

لیکن اہل حدیث حضرات سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی بزرگوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ ہاں ابن تیمیہ ؒ اور ابن اقیم نے تعویذ لٹکانے کو جائز کہہ کر شرک کی تائید کی ہے۔

دیکھئے وہابی مولوی اپنے شیخ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تعلق سے کیا لکھتے ہیں:

حافظ ابن القیم ؒ نے ابن تیمیہ ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی تعویذ کا جواز بیان کیا ہے مگر کتاب وسنت سے دلیل کوئی نہیں دی ، ظاہر ہے کسی کی آراء اور اقوال سے ہمارا گھر پورا نہیں ہوتا۔ کم از کم مسلک اہل حدیث رکھنے والوں کی زبان سے یہ راگ بے سُرا معلوم ہوتا ہے“ ۔ ( تعویذ اور دم ص ۱۹)

ان متشدت غیرمقلدین کا فتوی صرف ان کے اپنے علماء و اکابرین پر ہی نہیں بلکہ امت کے بڑے بڑے محدثین فقہاء ائمہ اربعہ اور صحابہ و تابعین پر بھی پڑتا ہے۔

جیساکہ اہل حدیث مولوی نے لکھا ہے: حضرت عائشہ اور کچھ تابعین سے بھی تعویذ کے حق میں اقوال مروی ہیں مگر یہ شے لائق اعتنا نہیں ۔ احادیث کی موجودگی میں ہمیں کسی کے اقوال کی ضرورت نہیں۔ غیروں کا سہارا لینا صرف مقلدوں کو زیب دیتا ہے۔ (ایضا)

قارئین کرام! دیکھئے کس جرات اور بے باکی کے ساتھ ایک غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور تابعین کرام ؒ کو ”غیر“ ٹھہرا کر دبے انداز میں انھیں مشرک بنا دیا۔ پھر اُس پر ملمع سازی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ”ہم اہل حدیث تو نبی ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں پوری کائنات کو خاطر میں لانے کےروادار نہیں۔" ( تعویذ اور دم ص17)

تعویذ کو مطلقاً شرک قرار دے کر ان غیر مقلدین نے صحابہ و تابعین کو بھی نہیں بخشا۔

اللہ امت مسلمہ کو ان کے شر سے بچائے آمین۔

النعمان سوشل میڈیا سروسز

, الحمدللہ آج ریارت عالیہ حضرت سید سلطان فخر الدین  رحمۃ اللہ علیہ نیوہ پلوامہ پر حاضری کا موقعہ ملا۔
23/04/2024

, الحمدللہ آج ریارت عالیہ حضرت سید سلطان فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ نیوہ پلوامہ پر حاضری کا موقعہ ملا۔

18/04/2024

اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی عظمت کو دلوں میں قائم رکھنے کیلئے اکابر دیوبند کی عبارتوں کو ننگا کرنا ہوگا مگر دیوبندی نجدی تولہ ایسا نہیں چاہتا

Address

Srinagar

Telephone

+917006185290

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muzammil raza qadri63k posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Muzammil raza qadri63k:

Share

Category