Light Ray Of Moon

Light Ray Of Moon Born to express, not to impress. Hi there. I joined Facebook. Happy now? All I do is win, win, win. No matter what �
Too dead to die.

Believer in the power of kindness. Happiness is homemade �
Making every day count. Learning, growing, and evolving.

ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎﺑﺠﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺩﺭ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎﺗﻢ ﻣﻮﺝ ﻣﻮﺝ ﻣﺜﻞِ ﺻﺒﺎ ﮔُﮭﻮﻣﺘﮯ ﺭﮨﻮﮐﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺳ...
06/09/2024

ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ
ﺑﺠﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺩﺭ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺗﻢ ﻣﻮﺝ ﻣﻮﺝ ﻣﺜﻞِ ﺻﺒﺎ ﮔُﮭﻮﻣﺘﮯ ﺭﮨﻮ
ﮐﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﭘﺮ ﺗُﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﻮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﮐﮭﺎﺅ
ﻣﯿﮟ ﺑُﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯽ ﮔﮭﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺍﺑﺮِ ﮔﺮﯾﺰ ﭘﺎ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻏﺮﺽ
ﺳﯿﭙﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﻦ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ گُہر ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﺎﻝِ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﺪﻭ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮈﺍﻝ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺳﭙﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺗﮭﮏ ﮐﮯ ﺩﺷﺖ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﻤﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮯ
ﺗﻨﮩﺎ ﮐﭩﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﭘﺮﻭﯾﻦ ﺷﺎﮐﺮ

حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد:میری عمر اس وقت 35 سال ہے میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمار...
02/09/2024

حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد:
میری عمر اس وقت 35 سال ہے میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے ۔خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا ۔
عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئ ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔
میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھاؤں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح ۔لیکن حیاء اور شرم کی وجہ چپ ہوجاتی ہیں۔
میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں ۔
شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں ۔
کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کےساتھ منہ کالا کرکے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجاؤں کہ لو اب اچھی طرح نبھاؤ اپنے سات پشتوں کا رسم ۔
کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا ۔
میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا ۔۔۔۔
اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سورہے ہوتے ہیں بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کررہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔

اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے جن کا مفھوم یہ تھا ۔
(اگر خدا کا ڈر اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی) (مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی) فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے ۔
۔
اے حاکمِ وقت،
اے میرے ابا حضور،
اے میرے ملک کے مفتی اعظم،
اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب ،
اے میرے شہر کے پیر صاحب میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں ؟
کون میرے درد کو سمجھے گا؟
میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا ۔
۔
اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا ۔
اے لوگو مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند ۔۔
اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا ؟؟؟
یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کےلئے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا۔۔
خدارہ اپنی بچیوں پر رحم کھائے میں نے اکثر لوگوں کے گھر اپاہج معذور بچے دیکھے ہیں جو خاندان در خاندان شادی کے نتیجے میں پیدا ہوتے
باز آجائے ایسے رسومات سے جس کا ہمارے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔

کبھی تھک ہار کے سوگئے، کبھی رات بھر نہ سوئےکبھی ہنس کے غم چھپایا، کبھی مُنہ چُھپا کے روئےمیری داستانِ حسرت وہ سُنا سُنا ...
02/09/2024

کبھی تھک ہار کے سوگئے، کبھی رات بھر نہ سوئے
کبھی ہنس کے غم چھپایا، کبھی مُنہ چُھپا کے روئے

میری داستانِ حسرت وہ سُنا سُنا کے روئے
مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے

شبِ غم کی آپ بیتی جو کہی انجُمن میں
کچھ سن کے ہنس پڑے کچھ مُسکرا کے روئے

میں بےوطن مُسافر ھوں میرا نام بےبسی ہے
میرا کوئی نہیں جو مجھے گلے لگا ک روئے

وہ میرے پاس سے گُزرا میرا حال تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جاؤں وہ دور جا کے روئے

لوگ برابر پیدا ہوتے ہیں، لیکن وہ قسمت اور مال میں مختلف ہوتے ہیں، اور پھر موت انہیں برابری کے مربع میں لوٹا دیتی ہے۔   (...
02/09/2024

لوگ برابر پیدا ہوتے ہیں، لیکن وہ قسمت اور مال میں مختلف ہوتے ہیں، اور پھر موت انہیں برابری کے مربع میں لوٹا دیتی ہے۔ (سینیکا)

کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی۔ اس کا پہلے شوہر سے ایک تین سالہ بیٹا تھا۔ جب اس عورت ...
27/08/2024

کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی۔ اس کا پہلے شوہر سے ایک تین سالہ بیٹا تھا۔ جب اس عورت نے دوسری شادی کی تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے نئے شوہر کے گھر منتقل ہو گئی۔ نیا شوہر بہت امیر تھا، اس لیے اس نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ اس کا بیٹا بھی ان کے ساتھ رہے۔ شروع میں وہ اس بچے کے ساتھ کھیلتا بھی تھا اور اسے اپنا ہی سمجھتا تھا۔

لیکن ایک سال بعد، جب ان کا اپنا بیٹا پیدا ہوا، تو شوہر کی محبت اور توجہ بدلنے لگی۔ اب وہ اپنے سوتیلے بیٹے سے کترانے لگا اور اس کے ساتھ پہلے جیسا سلوک نہیں کرتا تھا۔ اس کا سارا دھیان اب اپنے حقیقی بیٹے پر تھا۔ ایک دن جب وہ کام سے واپس آیا، تو اپنے بیٹے کے لیے ایک نئی سائیکل لے کر آیا۔ ماں کا دل کٹ گیا جب اس نے اپنے یتیم بیٹے کو اپنے چھوٹے بھائی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے پایا۔

ماں نے شوہر سے درخواست کی کہ وہ اپنے سوتیلے بیٹے کے لیے بھی ایک سائیکل خرید دے، لیکن شوہر نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس بچے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر ماں نے دوبارہ اس بارے میں بات کی، تو وہ بچے کو گھر سے نکال دے گا۔ ماں نے اپنے بیٹے کے تحفظ کے لیے یہ بات مان لی۔

وقت گزرتا گیا اور دونوں بچے بڑے ہوگئے۔ شوہر نے اپنے حقیقی بیٹے کو ایک بہترین پرائیویٹ اسکول میں داخل کروا دیا، لیکن سوتیلے بیٹے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، اس لیے اس پر اپنا پیسہ کیوں خرچ کرے؟ اس نے کہا کہ یہ لڑکا نہ تو اس کا نام لے گا اور نہ ہی اسے کوئی فائدہ پہنچائے گا۔

ماں نے غصے سے جواب دیا: "ہاں، وہ شاید تمہارا خون اور گوشت نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے تعلیم سے محروم رکھو اور اسے جہالت کے اندھیرے میں چھوڑ دو۔ کیا تمہارے دل میں ذرا سی بھی رحمت اور شفقت نہیں؟" شوہر نے کہا: "بس بہت ہو چکا، میں اب اس کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اسے اپنے گھر میں نہیں دیکھنا چاہتا۔"

لڑکا اپنی ماں کے پاس آیا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: "ماں، پریشان نہ ہو، کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کے لیے آپ کو رونا پڑے۔ میں تھک چکا ہوں آپ کو روزانہ میری خاطر اس شخص کی توہین برداشت کرتے دیکھ کر۔ آپ کی خوشی کے لیے میں یہ گھر چھوڑ دوں گا۔" وہ لڑکا اپنی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا، اپنے کپڑے اٹھائے اور گھر سے نکل گیا۔ ماں کا دل جیسے آگ میں جلنے لگا۔ اس کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے کہ اس کا بیٹا کہاں جائے گا؟ کہاں رہے گا؟ کہاں کھائے گا؟ اور اگر وہ بیمار پڑ گیا تو کون اس کی دیکھ بھال کرے گا؟

ماں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور دعا کی: "اے اللہ! میں اپنے یتیم بیٹے کو تیرے سپرد کرتی ہوں، اس کی حفاظت فرما اور اسے محفوظ و سلامت واپس لے آ۔"

جب شوہر واپس آیا، تو اس نے دیکھا کہ بیوی خوش اور مطمئن نظر آ رہی ہے۔ اسے حیرت ہوئی کہ بیٹا گھر سے چلا گیا ہے اور پھر بھی بیوی خوش کیوں ہے؟ اس نے پوچھا: "تم خوش کیوں ہو اور اپنے بیٹے کے جانے پر اداس کیوں نہیں ہو؟" بیوی نے مسکرا کر کہا: "میں نے اپنے بیٹے کی حفاظت اس کے سپرد کر دی ہے جو اسے دیکھ بھال اور حفاظت کے قابل ہے، وہ جو کبھی تھکتا نہیں اور کبھی نا امید نہیں ہوتا، اور وہ بغیر کسی اجر کے سب کچھ کر سکتا ہے۔" شوہر نے حیرت سے پوچھا: "وہ کون ہے؟" بیوی نے کہا: "اللہ عز و جل۔"

شوہر نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا: "دنیا باہر رحم نہیں کرتی، اور کوئی بھی بھوکے پر ترس نہیں کھاتا، لگتا ہے تم نے اپنا دماغ کھو دیا ہے۔" وقت گزرتا گیا اور سالوں بعد، ماں کا بیٹا ایک دن واپس آیا، اپنے ہاتھ میں ایک بچہ اور ساتھ ایک عورت کے ساتھ۔

اس نے اپنی ماں کو سلام کیا۔ ماں حیرت اور خوشی سے پوچھتی ہے: "یہ عورت کون ہے اور یہ بچہ کس کا ہے؟" بیٹے نے جواب دیا: "یہ میری بیوی ہے اور یہ میرا بیٹا ہے، اے ماں!" ماں نے پوچھا: "تم نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا، جب تمہارے پاس نہ پیسے تھے اور نہ ہی کوئی پناہ؟"

بیٹے نے کہا: "سچ بتاؤں تو میں خود نہیں جانتا کہ زندگی نے مجھے کہاں پہنچا دیا۔ میں بے یار و مددگار تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کہاں جاؤں۔ پھر میں ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں پہنچا اور وہاں رات گزاری۔ دن میں کام کی تلاش کرتا اور رات کو مسجد میں سوتا تھا۔ امام مسجد کو اپنی کہانی سنائی اور ان سے مسجد میں سونے کی اجازت مانگی، انہوں نے اجازت دے دی اور ہر روز مجھے کھانا دیتے تھے۔ میں شام کو مسجد صاف کرتا تھا اور امام نے مجھے قرآن حفظ کروایا اور دین کی تعلیم دی۔ میں روزانہ مسجد کی لائبریری میں پڑھتا رہتا تھا۔ ایک دن امام بیمار پڑ گئے، تو میں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور اسی دن سے میں لوگوں کا امام بن گیا۔ لوگ مجھے پسند کرنے لگے اور مجھ سے محبت کرنے لگے۔ انہوں نے میرے لیے ایک یتیم لڑکی سے شادی کا انتظام کیا، جس کے پاس صرف اس کی دادی تھی۔ میں نے شادی کی اور کچھ ہی عرصے بعد اس کی دادی کا انتقال ہو گیا۔ بیوی کو اس کی دادی کی وراثت سے زمین کا ایک ٹکڑا ملا، جسے میں نے کاشت کیا اور حالات بہتر ہو گئے، الحمدللہ۔ اب اللہ کے فضل سے میرے پاس بہت سی زرعی زمینیں ہیں، اور اللہ نے مجھے اپنے فضل سے نوازا ہے۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ آپ کی دعائیں میرے ساتھ ہیں، اور اللہ نے آپ کی وجہ سے میری مدد کی۔"

ماں خوشی سے رو پڑی اور جان گئی کہ اللہ نے اس کی دعائیں قبول کیں۔ اس نے اپنے پوتے کو گلے لگایا اور بیٹے نے ماں کے ہاتھ چومے۔ لیکن شوہر کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک دن وہ لڑکا ایک کامیاب اور امیر شخص بن کر واپس آئے گا۔ سبحان اللہ، اللہ ہی رازق ہے اور جسے چاہے بے حساب نوازتا ہے۔ اس یتیم بچے کو اس کی ماں کی دعاؤں اور رضامندی کی بدولت نوازا گیا۔

*اور آخر میں، حضرت نبی کریم ﷺ پر اور ان کی آل و اصحاب اور تابعین پر قیامت تک کے لیے درود و سلام بھیجنا نہ بھولیں۔❤️

کسی نے جبران_خلیل_جبران سے پوچھا!انسانوں میں سب سے حیرت انگیز چیز کیا ہے؟اس نے جواب دیا:انسان بچپن سے بیزار ہو جاتا ہے، ...
23/08/2024

کسی نے جبران_خلیل_جبران سے پوچھا!
انسانوں میں سب سے حیرت انگیز چیز کیا ہے؟
اس نے جواب دیا:
انسان بچپن سے بیزار ہو جاتا ہے، بڑے ہونے کی جلدی کرتا ہے، پھر دوبارہ بچے بننے کی آرزو کرتا ہے، پیسے اکٹھے کرنے کے لیے اپنی صحت برباد کرتا ہے، پھر صحت بحال کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔
وہ اس طرح جیتے ہیں جیسے وہ کبھی نہیں مریں گے، اور ایسے مرتے ہیں جیسے وہ کبھی جیئے ہی نہیں۔"

➖ جبران خلیل جبران

‏ایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے...!!!!ایک دن بادشا...
23/08/2024

‏ایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے...!!!!
ایک دن بادشاہ رعایا کی دیکھ بھال کرنے نکلا اس نے دیکھا ایک نوے سال کی بوڑھی عورت زیتون کے پودے لگا رہی ہے بادشاہ نے کہا تم پانچ دس سال میں مر جاؤ گی اور یہ درخت بیس سال بعد پھل دیں گے تو اتنی مشقت کرنے کا کیا فائدہ؟؟؟
بوڑھی عورت نے جواباً کہا ہم نے جو پھل کھائے وہ ہمارے بڑوں نے لگائے تھے اور اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہماری اولاد کھائے...!!!!
بادشاہ کو اس بوڑھی عورت کی بات پسند آئی حکم دیا اس کو چار سو دینار دے دیئے جائیں...!!!!
جب بوڑھی عورت کو دینار دیئے گئے وہ مسکرانے لگی...!!!!
بادشاہ نے پوچھا کیوں مسکرا رہی ہو؟؟؟
بوڑھی عورت نے کہا کہ زیتون کے درختوں نے بیس سال بعد پھل دینا تھا جبکہ مجھے میرا پھل ابھی مل گیا ہے...!!!!
بادشاہ کو اس کی یہ بات بھی اچھی لگی اور حکم جاری کیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں...!!!!
جب اس عورت کو مزید چار سو دینار دیئے گئے تو وہ پھر مسکرانے لگی...!!!!
بادشاہ نے پوچھا اب کیوں مسکرائی؟؟؟
بوڑھی عورت نے کہا زیتون کا درخت پورے سال میں صرف ایک بار پھل دیتا ہے جبکہ میرے درخت نے دو بار پھل دے دیئے ہیں..!!!!
بادشاہ نے پھر حکم دیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں یہ حکم دیتے ہی بادشاہ تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گیا...!!!!
وزیر نے کہا حضور آپ جلدی سے کیوں نکل آئے؟؟؟
بادشاہ نے کہا اگر میں مزید اس عورت کے پاس رہتا تو میرا سارا خزانہ خالی ہو جاتا مگر عورت کی حکمت بھری باتیں ختم نہ ہوتیں...!!!!
اچھی بات دل موہ لیتی ہے، نرم رویہ دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے حکمت بھرا جملہ بادشاہوں کو بھی قریب لے آتا ہے اچھی بات دنیا میں دوست بڑھاتی اور دشمن کم کرتی ہے اور آخرت میں ثواب کی کثرت کرتی ہے آپ مال و دولت سے سامان خرید سکتے ہیں مگر دِل کی خریداری صرف اچھی بات سے ہو سکتی ہے💯!!

ایک شوہر اور بیوی جانوروں کے باغ میں گئے۔  بیوی نے دیکھا کہ بندر اپنی بیوی کے ساتھ کھیل رہا ہے، تو اس نے شوہر سے کہا: "ک...
22/08/2024

ایک شوہر اور بیوی جانوروں کے باغ میں گئے۔
بیوی نے دیکھا کہ بندر اپنی بیوی کے ساتھ کھیل رہا ہے، تو اس نے شوہر سے کہا: "کتنی خوبصورت محبت کی داستان ہے، کتنی خوشیوں سے بھری ہوئی ہے!"
پھر جب وہ شیروں کے پنجرے کے پاس گئے، تو دیکھا کہ شیر اپنی بیوی سے دور بیٹھا ہے، خاموش اور سنجیدہ۔
بیوی نے شوہر سے کہا: "کتنی غمگین محبت کی کہانی ہے، سب کچھ اداسی سے بھرا ہوا ہے۔"
شوہر نے کہا: "یہ خالی بوتل اٹھا کر شیرنی کی طرف پھینکو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔"
جب بیوی نے بوتل پھینکی تو شیر غصے میں دھاڑتا ہوا اٹھا اور اپنی بیوی کی حفاظت کے لیے آگے بڑھا!
پھر شوہر نے کہا: "اب یہ بوتل بندر کی بیوی کی طرف پھینکو۔"
جب بیوی نے ایسا کیا، تو بندر فوراً اپنی بیوی کو چھوڑ کر بھاگ گیا تاکہ بوتل اس کو نہ لگے!
شوہر نے کہا: "دیکھو، لوگوں کے سامنے جو دکھائی دیتا ہے، اس سے دھوکہ نہ کھاؤ! کچھ لوگ اپنی جعلی جذباتیت سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اپنی محبت کو دل کے اندر چھپائے رکھتے ہیں۔
یاد رکھو:
تنہا رہنے والا خواہشات سے خالی نہیں ہوتا!
پردہ دار عورت جدید فیشن سے ناواقف نہیں ہوتی!
سخاوت کرنے والا پیسے سے نفرت نہیں کرتا!
بلکہ یہ سب لوگ اپنی ذات کے سامنے مضبوط ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
(اور جو اپنے رب کے مقام سے ڈرتا رہا اور نفس کو خواہشات سے روکتا رہا، تو یقیناً جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔) (سورۃ النازعات: 40-41)

میرے محترم قاری:
آپ کا لوگوں کا احترام کرنا اس بات کا مطلب نہیں کہ آپ کو ان کی ضرورت ہے، بلکہ یہ ایک اصول ہے جو آپ اپنے دین اور تربیت سے سیکھتے ہیں۔
اس لیے اپنی اخلاقیات میں مالدار بنو، اپنی قناعت میں امیر بنو، اور اپنے تواضع میں بڑے بنو۔
اور پیٹھ پیچھے بات کرنے والوں کی پرواہ نہ کرو، کیونکہ وہ واقعی تمہارے پیچھے ہیں۔
اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا، تو ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پر درود بھیجیں، جو قیامت کے دن ہمارے شفیع ہوں گے۔

کہتے ہیں ایک اعرابی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی کچھ لوگ اس کے پاس پوچھنے اور سبب معلوم کرنے آئے کہ اُس نے طلاق کیوں دی وہ...
22/08/2024

کہتے ہیں ایک اعرابی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی کچھ لوگ اس کے پاس پوچھنے اور سبب معلوم کرنے آئے کہ اُس نے طلاق کیوں دی وہ کہنے لگا :

کہ وہ ابھی عدت میں ہے ابھی تک وہ میری بیوی ہے مجھے اُس سے رجوع کا حق حاصل ہے میں اگر اس کے عیب تمہارے سامنے بیان کر دوں تو رجوع کیسے کروں گا ..؟؟

لوگوں نے انتظار کیا اور عدت ختم ہوگئی اور اس شخص نے رجوع نہیں کیا لوگ دوبارہ اُس کے پاس آئے تو ،،،

اس نے کہا : اگر میں نے اب اس کے بارے میں کچھ بتایا تو یہ اُس کی شخصیت مسخ کرنے کے مترادف ہوگا اور کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گا !!

لوگوں نے انتظار کیا حتٰی کہ اس عورت کی دوسری جگہ شادی ہوگئی لوگ پھر اُس کے پاس آئے اور طلاق کا سبب پوچھنے لگے اس اعرابی نے کہا :
اب چونکہ وہ کسی اور کی عزت ہے اور مروت کا تقاضا یہ ہے کہ میں پرائی اور اجنبی عورت کے بارے میں اپنی زبان بند رکھوں ۔۔ !!

*یہ تحریر اُن لوگوں کے لیۓ ہے جو اپنی بیوی کی غلطیاں اپنے دوست و احباب کو بتاتے پھرتے ہیں۔*

دوسروں کے عیب چھوڑو ؛؛

کبھی اپنے سامنے بھی آئینہ رکھو ۔۔

‏دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا، انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز ...
21/08/2024

‏دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا،

انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے‘‘

تعلیم شعور دیتی ہے لیکن’’کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں،

’’اگر تعلیم سے روٹی کمائی جا سکتی تو آج دنیا کے تمام پروفیسر ارب پتی ہوتے‘‘

اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں لیکن ان میں ایک بھی پروفیسر ، ڈاکٹر یا ماہر تعلیم شامل نہیں‘‘

’’دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی،

یہ لوگ وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں

چنانچہ یہ لوگ ڈگری ہاتھ میں لیکر نوکری ڈھونڈنے کی بجائے طالب علمی کے دور ہی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں

چنانچہ ان کی کامیابی انھیں کالج یا یونیورسٹی سے اسٹور، کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے‘‘ یہاں وہ محنت سے مقام پاتے ہیں ۔

دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں‘‘

’’ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا

لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں‘‘۔

یاد رکھیے دنیا میں ان نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں

جو یہ سمجھتے ہیں کہ محض تعلیمی قابلیت بتانے والے ڈگری نام کے کاغزی ٹکڑے سے دنیا ان کے قدموں میں ہوگی

تعلیم کے ساتھ ہنر لازم ہے ہنرمندوں کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے

’’ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے
ہنر سیکھیے حالات پر رونے کی بجائے کمائی کے اسباب پیدا کیجیے...!!!
#منقول

ایک خاتون کہتی ہیں کہ میری ایک پڑوسن تھی جو میرے لیے بہن کی طرح تھی۔ جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا اور وہ دو بچوں کے ساتھ ...
21/08/2024

ایک خاتون کہتی ہیں کہ میری ایک پڑوسن تھی جو میرے لیے بہن کی طرح تھی۔ جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا اور وہ دو بچوں کے ساتھ رہ گئی، تو ہماری دوستی اور بھی گہری ہو گئی۔ میرے شوہر کو اس پر اور اس کے بچوں پر رحم آتا تھا، اور وہ ہمیشہ ہمارے گھر میں موجود رہتی تھی۔ ہم اکثر ساتھ مل کر کھانا پکاتے، اور جب میں بیمار ہوتی تو وہ گھر کے کام سنبھالتی۔ جب مجھے بازار جانا ہوتا یا کسی اور کام کے لیے باہر جانا پڑتا، تو میں اپنی چھوٹی بیٹی کو اس کے پاس چھوڑ دیتی تھی۔

شروع میں وہ میرے شوہر کے سامنے شرماتی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس سے باتیں کرنے لگی اور اپنے بالوں کو بھی کھولنے لگی۔ وہ ایک خوبصورت عورت تھی اور ابھی کم عمر بھی تھی۔ پھر ایک دن اتفاقاً مجھے پتا چلا کہ میرا شوہر اس کے گھر جاتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام چیزیں لے کر آتا ہے جو وہ مانگتی تھی۔ جب میں نے اپنے شوہر کا سامنا کیا، تو اس نے کہا کہ وہ اس پر اور اس کے بچوں پر ترس کھاتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم نے مجھے یہ بات کیوں نہیں بتائی، جب کہ میں بھی اس کی مدد کرنے میں کبھی بخل نہیں کرتی تھی۔

اس دن کے بعد سے وہ میرے گھر نہیں آئی، اور جب میں اس کے گھر گئی تو اس نے دروازہ بھی نہیں کھولا۔ یہاں تک کہ اس کے بچوں کو بھی میں نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں اپنی پڑوسن کو نہیں دیکھتی اور نہ ہی وہ اب ہمارے گھر آتی ہے۔ اس نے جواب دیا: "میں نے ہی اسے کہا ہے کہ ہمارے گھر نہ آئے۔" میں نے اس سے پوچھا کیوں؟ تو اس نے کہا: "کیونکہ میں اس سے شادی کرنے والا ہوں۔"

اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم مان جاتی ہو تو میں اس سے شادی کر لوں گا اور تمہیں بھی ساتھ رکھوں گا۔ اگر تم نہ مانو تو میں تمہیں طلاق دے کر تمہیں اور بچوں کو گھر سے نکال دوں گا، اور آخر میں اسی سے شادی کر لوں گا۔ میں نے اس شرط پر رضا مندی ظاہر کی کہ وہ اپنے گھر میں رہے اور میں اپنے گھر میں۔ اس نے اس سے شادی کر لی اور روزانہ اس کے گھر جانے لگا، اور مجھے نظر انداز کرنے لگا۔ کچھ عرصے بعد اس نے مجھے طلاق دے دی اور مجھے اور بچوں کو گھر سے نکال دیا، اور وہ عورت اس گھر میں رہنے لگی۔ اس نے اپنا گھر کرائے پر دے دیا تاکہ وہ پیسہ جمع کر سکے اور اپنے بچوں پر خرچ کر سکے، جبکہ میرا شوہر اس کے اور اس کے بچوں کے اخراجات پورے کرتا رہا اور اپنے بچوں کو بھول گیا۔

میں اپنے والدین کے گھر میں رہنے لگی، اور میرا بڑا بیٹا جو کہ 18 سال کا تھا، فوج میں بھرتی ہو گیا۔ میں نے اپنا سارا زیور بیچ کر ایک گھر کرائے پر لیا، کیونکہ میں اپنے والدین کے گھر میں آرام دہ محسوس نہیں کر رہی تھی۔ میں نے گھر میں کام کرنا شروع کر دیا، لوگوں کے کپڑے سی کر اور مٹھائیاں بنا کر بیچنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرے بچے بڑے ہو گئے اور میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی۔ اس کے والد نے شادی میں شرکت نہیں کی۔ میرے بھائی نے اس سے وکالت نامہ لیا تاکہ ہم اس کی شادی کا عقد کر سکیں، اور اس کا وکیل اس کا ماموں بنا۔

میری چھوٹی بیٹی اپنی پڑھائی میں بہت کامیاب تھی، اور وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں گی۔ حکومت نے مجھے ایک مکان دیا، جس میں میں نے رہائش اختیار کی۔ الحمد للہ، اور اب میں اپنے بیٹے کے لئیے دلہن تلاش کر رہی ہوں۔

جہاں تک میرے سابق شوہر کا تعلق ہے، وہ اب بیمار ہے اور کام کرنے کے قابل نہیں رہا، اور اس کی بیوی ہی اب سب کچھ سنبھالتی ہے۔ اس سے چار بچے بھی پیدا ہوئے۔

میں نے اپنی کہانی اس لئیے سنائی تاکہ آپ سب جان سکیں کہ اس دنیا میں کوئی امانت دار نہیں، نہ ہی کسی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی آپ کو خود سے زیادہ محبت نہیں کرے گا۔ اپنے گھروں میں آنے والوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں بے جا بھروسہ نہ دیں، کیونکہ انسانوں پر بھروسہ کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

اس نـــــــے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘میں نے کہا ’’ا...
20/08/2024

اس نـــــــے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘
میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘
اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘
میں نے کہا ’’اس طرح کہ :
وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہـــــے؟
اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا
اس لیے علامہ اقبال نـــــے کہا تھا:
’’ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‘‘
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہــــے
کہ
’’عورت ایک مسئلہ ہــــــے‘‘
اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھا کہ
’’عورت مسئلہ نہیں
عورت محبت ہے!‘‘
مگر وہ محبت نہیں
جو مرد کرتا ہے!
مرد کے لیے محبت جسم ہے
عورت کے لیے محبت جذبہ ہے
مرد کی محبت جسم کا جال ہے
عورت کی محبت روح کی آزادی ہـــــے
مرد کی محبت مقابلہ ہــــــے
عورت کی محبت عاجزی ہـــــے
مرد کی محبت ایک پل ہـــــے
عورت کی محبت پوری زندگی ہـــــے
مرد کی محبت ایک افسانہ ہــــــے
عورت کی محبت ایک حقیقت ہـــــــے!
سارے شعراء شیکسپئر سے لیکر شیلے تک
اور ہومر سے لیکر ہم تم تک
سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے
صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا:
’’عورت عشق کی استاد ہـــــے‘‘
سب سوچتے رہے کہ
’’آخر عورت کیا چاہتی ہــــــے؟
تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟‘‘
شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ
’’عورت کو محبت چاہیئــــــے
نرم و نازک گرم و گداز
جسم سے ماورا
جنس سے آزاد‘‘
مرد جسم کے جنگل میں
بھٹکتا ہوا ایک بھوکا درندہ ہـــــــے
عورت روح کے چمن میں
اڑتی ہوئی تتلی ہـــــــــــے
جو پیار کی پیاسی ہـــــــے
مرد کے لیے محبت بھوک
اور عورت کے لیے پیار
ایک پیاس ہے!
صرف لطیف جانتا تھا
عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے
اشکوں جیسا سمندر
جو نمکین بھی ہے
اور
حسین بھی ہـــــــے!!
جس میں تلاطم ہــــــــے
جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں
صرف اور صرف الم ہـــــــــے.......!!!!

Address

Srinagar

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Light Ray Of Moon posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category