Sirf behtar zindagi ke liye

  • Home
  • Sirf behtar zindagi ke liye

Sirf behtar zindagi ke liye یہ چینل صرف اور صرف بہتر زندگی کے لئے،فالو کریں۔
Islam ki haqiqi shakal. Follow karen
👇👇 Sirf behtar zindagi

23/12/2023

جمعیت علمائے ہند کا جلسہ رد غیر مقلدیت
جمعیت اور ملت اسلامیہ کے ساتھ خیانت

30/07/2023

۔

17/07/2023

مدارس اسلامیہ سے متعلق چند تجاویز (محمدرحمانی)
(مدارس کے معیار پر بعض احباب کی ایک تحریر کا جواب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عموما جن مدارس کا معیار کمزور ہے اسکے چند اسباب ہیں جو اصلاحی نقطۂ نظر سے یہاں ذکر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ امید کہ اسے احباب مدارس اپنے اوپر لینے کے بجائے اصلاحی تناظر میں سامنے رکھیں گے ۔

۱۔ مدارس اسلامیہ کے بڑے اور چھوٹے تمام ذمہ داران ، اساتذہ اور متعلقین کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہئے ، اخلاص کا فقدان کسی بھی چیز کے زوال کا بنیادی سبب ہوتا ہے ۔

۲ ۔ مدارس اسلامیہ میں امتحان داخلہ ، بقیہ امتحانات ، نمبرات کے اندراج کے ضابطہ اور امتحانات کے دیگر متعلقہ ضوابط کو سختی اور عدل پر مبنی ہونا چاہئے ۔ اسمیں رعایت اور ناانصافی نظام کے زوال کا بنیادی سبب ہے ۔

۳ ۔ مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم کی مضبوطی نیز گاہے بگاہے نصاب پر ایک تجربہ کار کمیٹی کے ذریعہ تبدیلی اور نصاب کا ممکنہ حد تک حق ادا کرنے والے اساتذہ بھی مدارس کے معیار کے لئے بنیادی عنصر ہیں ، لہٰذا اساتذہ کی اچھی تنخواہیں اور مادہ کے متخصص مدرسین کا انتخاب بھی ضروری ہے تاکہ مدرس آسودگی کے ساتھ مادہ کا حق ادا کر سکے ۔

۴۔ طلبہ کے اندر علمی لحاظ سے اعتماد نفس اور علمی جرأت پیدا کرنے کے لئے ماہرین کے زیر اشراف ایسے برامج کا اہتمام کیا جانا چاہئے جسکے اندر منہج سلف کی روشنی میں تنوع پیدا کیا جائے ، انکے لئے مقالہ نگاری اور تقریر نیز کم از کم عربی ، اردو اور انگریزی زبانوں پر قدرت حاصل کرنے کے امکانات پیدا کئے جانے چاہئیں نیز ملکی آئین اور جماعت کی تاریخ اور منہج سلف سے واقفیت اور مہذب وممکنہ کھیل کود کا بھر پور اہتمام کیا جانا چاہئے ۔

۵۔ مدارس اسلامیہ میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات سے انکے والدین اور سرپرستوں کا بالکل لاتعلق ہو جانا اور سارے امور مدارس کی انتظامیہ کے سپرد کردینا بھی معیار تعلیم وتربیت پر منفی اثرات کا بنیادی سبب ہے ۔ لہاذا سرپرستوں کو اپنی ذمہ داری سے بالکل بھی غافل نہیں ہونا چاہئے ۔

۶۔ طلبہ وطالبات کی تعلیم و تربیت سے ذمہ داران اور اساتذہ کا محض درسگاہ تک محدود ہوجانا اور دوسرے اوقات میں بالکل اجنبیت کا رویہ اختیار کر لینا بھی افسوس ناک عمل ہے ، اس سلسلہ میں فرض عین کی ادائیگی کے ساتھ فرض کفایہ کی رعایت رکھنابھی بہت اہم ذمہ داری ہے ۔

۷۔ مدارس اسلامیہ میں برادری یا علاقائیت کو صلاحیتوں پر ترجیح دینا اور اساتذہ کی تقرری نیز دیگر ذمہ داریوں کی تفویض میں قرابت داری اور قربت کو استحقاق پر ترجیح دینا بھی ایک سنگین معاملہ ہے اس سے بھی بالکلیہ اجتناب ہونا چاہئے ۔

۸۔ بلا ضرورت اور کچھ خاص مصلحتوں نیز منہج صحیح کی ترویج کے مقصد وغیرہ کے علاوہ سفارشات اور واسطات سے متعلق بھی ایک مضبوط ضابطہ بنایا جانا معیار کے کنٹرول کے لئے ضروری ہے ، ہر کوئی جب چاہے اور جیسے چاہے نظام میں دخل دیکر جو چاہے کروا لے ، اس سے بھی معیار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

۹۔ تمام مدارس اسلامیہ کا ایک مضبوط دستور العمل ہونا چاہئے جو ماہرین کے ذریعہ تیار کیا جائے اور اسمیں مرور ایام کے ساتھ تجربہ کار کمیٹی ضروری تبدیلی بھی کرتی رہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ اس دستورالعمل پر سختی کے ساتھ عمل ہونا چاہئے ، کسی کی رعایت یا دباؤ میں اس سے تنازل کر لینا معیار کی پستی کا باعث ہوتا ہے ۔

۱۰۔ مالیات اور اکاؤنٹس کا نظام حکومت کے نظام کے تحت صاف ستھرا اور مضبوط ہونا چاہیے اور CA کے ذریعہ اسکو آڈٹ کرنے کا اہتمام بھی ضروری ہے اور پوری شفافیت کے ساتھ اس پر عمل ہونا چاہئے ۔ نیز اس حساس مسئلہ میں کسی کو بھی غیر دستوری اختیار ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔

۱۱۔ مدارس اسلامیہ کا رجسٹریشن اور جائیدادوں کی ملکیت کا نظام نیز ذمہ داران کے انتخاب کا نظام حکومت کے رجسٹریشن ایکٹ اور نظام کے مطابق بالکل واضح اور صاف ستھرا ہونا چاہئے ۔

۱۲۔ مدارس اسلامیہ سے متعلق ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مدارس کو استطاعت کے باوجود مضبوطی فراہم کرنے والے افراد کم اور مدارس پر تنقید کرنے والے افراد زیادہ ہیں ۔ یہاں تک کہ مدارس کے فارغین بھی اگر فراغت کے بعد مدارس سے منسلک نہیں ہیں تو وہ بھی مدارس کو تنقید کا نشانہ ہی بناتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی طاقت بھر مدارس کو مضبوطی فراہم کرنے کا جذبہ ہر مسلمان کے اندر ہونا چاہئے ۔
(محمد رحمانی سنابلی مدنی)

14/07/2023

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
😔😔 گزارش برائے غم میں شامل ہونا😔😔
بڑی ہی دکھ کے ساتھ یہ خبر دی جاتی ہے کہ میں مسلسل کئے دن سے بخار میں مبتلا ہوں اور دوا کھانے کے باوجود بھی بخار صحیح نہیں ہورہاہے،اس کے بعد پھر میں آج بتاریخ ١٤ جولائی ٢٠٢٣ ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے میری آنکھوں کو دیکھ کر بتایا کہ بخار صحیح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بدن میں بہت زیادہ خون کی کمی ہے پھر اس نے مجھے پانچ دن کی دوائی دی،تو الغرض آپ تمام ساتھیوں سے یہی کہنا چاہونگا کہ بالخصوص آپ تمام بھائی میرے لئے دعاء کریں کہ اللہ مجھے جلد از جلد صحت یابی اور تندرستی عطاء فرمائے آمین ۔مصیب و اپیل دعاء: صفت اللہ بن محمد ثناء اللہ۔✍️✍️✍️

خطبہ عید: ایک یا دوحافظ علیم الدین یوسف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ۔______________________________________خطبہ عید کی تعدا...
05/07/2023

خطبہ عید: ایک یا دو

حافظ علیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ۔
______________________________________
خطبہ عید کی تعداد کا مسئلہ ان دنوں زور پکڑنے لگا ہے، برصغیر کے اہل حدیث علما عیدین میں ایک خطبہ کے قائل ہیں جبکہ فقہا کے یہاں معمول بہ دو خطبہ ہے۔
بعض اہل حدیث طلبہ نے مسئلے میں اجماع نقل کرتے ہوئے اہل حدیث علما کو اس مخالف گردانا ہے، لہذا اس مسئلے کی توضیح امر لازم ہو گئی ہے۔
مندرجہ بالا سطور سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ بروقت مسئلہ میں دو اقوال ہیں، راجح قول مندرجہ ذیل ہے:
عیدین کے خطبہ کی تعداد ایک ہے۔ اس قول کے قائل برصغیر کے اہل حدیث علما ہیں۔ اسی کی ترجیح علامہ البانی، ابن عثيمين، مقبل بن ہادی الوادعی رحمہم اللہ نے بھی کی ہے، جبکہ ابن باز رحمہ اللہ نے ایک خطبہ پر رکتفا کرنے والوں پر کسی قسم کی کوئی نکیر نہیں فرمائی۔
https://binbaz.org.sa/fatwas/31490/%D9%87%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%8A%D8%AF-%D8%AE%D8%B7%D8%A8%D8%A9-%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D8%B7%D8%A8%D8%AA%D8%A7%D9%86

دلائل:
پہلی دلیل: ایک خطبہ کے قائلین ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کے الفاظ ہیں: كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَخْرُجُ يَومَ الفِطْرِ والأضْحَى إلى المُصَلَّى، فأوَّلُ شَيءٍ يَبْدَأُ به الصَّلَاةُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، والنَّاسُ جُلُوسٌ علَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ، ويُوصِيهِمْ، ويَأْمُرُهُمْ، فإنْ كانَ يُرِيدُ أنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أوْ يَأْمُرَ بشيءٍ أمَرَ به، ثُمَّ يَنْصَرِفُ.
وجہ استدلال: صحابی رسول نے نبی اکرم ﷺ کے صرف ایکبار قیام کا ذکر کیا، پھر خطبہ کی تکمیل کے بعد انصراف کا تذکرہ ہے، درمیان میں کسی جلوس اور قیام ثانی کا ذکر نہیں ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے صرف ایک خطبہ دیا ہے۔

اس استدلال پر اعتراض کرتے ہوئے فریق ثانی کہتے ہیں کہ: اس حدیث میں ایک خطبہ کی صراحت نہیں آئی ہے۔

جواب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عموماً تمام امور شرعیہ میں اور خصوصاً عیدین کے مسائل میں معمولی باتوں کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے کہ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کاندھے پر ٹیک لگا کر خطبہ دیا، لوگوں کے بیٹھے ہوئے ہونے کا ذکر کیا، کیا وہ نبی اکرم ﷺ سے کے قعود اور قیام ثانی کا تذکرہ ترک کر دیں گے؟
اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ایک صحابی نے ترک کر دیا تو کیا متصور ہے کہ تمام صحابہ کرام اس امر شرعی کے بیان سے خاموش رہ جائیں؟
لہذا قعود اور دوسرے قیام کا عدم ذکر اس کے عدم وجود کو مستلزم ہے۔
جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ ایک خطبہ کی صراحت موجود نہیں ہے بلکہ حدیث محتمل ہے تو اس کا جواب کئی ایک طریقے سے ممکن ہے:
1۔ امام نووی رحمہ اللہ عیدین کے دو خطبوں کے متعلق فرماتے ہیں: "لم يثبت في تكرير الخطبة شيء". عید کے دو خطبوں کے متعلق کوئی ثابت شدہ حدیث موجود نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کے اس کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصل ایک خطبہ ہے، ایک سے زائد کے لئے ثبوت کا ہونا لازم ہے۔
اگر یہ حدیث تعداد کے سلسلے میں محتمل ہوتی تو احتمالا ہی سہی کسی نہ کسی عالم نے اس سے دو خطبوں پر استدلال کیا ہوتا۔
2۔ امام ابن باز، علامہ البانی، علامہ ابن عثيمين اور علامہ مقبل ابن ہادی الوادعی رحمہم اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کو ایک خطبہ کے ثبوت میں صریح مانا ہے۔

دوسری دلیل: ان احادیث سے استدلال جن میں سوار ہو کر خطبہ دینے کا ذکر ہے۔
وجہ استدلال: سواری پر خطبہ دینا اس امر کو مستلزم ہے کہ خطبہ کی تعداد ایک تھی۔
یہی عمل خلفاے راشدین میں سے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے بھی ثابت ہے۔ عن إبراهيم النَّخَعيِّ: كَانَ الإِمَامُ يَوْمَ العِيدِ يَبْدَأُ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَرْكَبُ فَيَخْطُبُ»، ابنُ أبي شيبة في «المصنَّف» (٥٨٦٢).
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عید کے دن امام نماز عید سے ابتدا کرتے تھے پھر سوار ہو کر خطبہ دیتے تھے۔
وعن مَيْسرةَ أبي جميلة قال: «شَهِدْتُ مَعَ عَلِيٍّ العِيدَ، فَلَمَّا صَلَّى خَطَبَ عَلَى رَاحِلَتِهِ»، قَالَ: «وَكَانَ عُثْمَانُ يَفْعَلُهُ» ) ابنُ أبي شيبة في «المصنَّف» (٥٨٥٥)
میسرہ ابو جمیلہ فرماتے ہیں: میں نے نماز عید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ادا کی، آپ نے عید کی نماز مکمل کرنے کے بعد اپنی سواری پر خطبہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
مذکورہ دونوں آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلفاے راشدین کے دور میں ایک خطبہ ہی معمول بہ تھا، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں تھا، کیوں کہ ہمیں عہد صحابہ میں خلفا کے اس عمل پر نکیر کئے جانے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
خلفاے راشدین سے ایک خطبہ کے ثبوت کے لئے بطور شاہد اس اثر کو بھی دلیل بنایا جا سکتا ہے جو عطا رحمہ اللہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: عن ابن جريج قال : قلت لعطاء : متى كان من مضى يخرج أحدهم من بيته يوم الفطر للصلاة ؟ فقال : " كانوا يخرجون حتى يمتد الضحى فيصلون ، ثم يخطبون قليلا سويعة " ، يقلل خطبتهم ؟ قال : " لا يحبسون الناس شيئا " قال : ثم ينزلون فيخرج الناس ؟ قال: «مَا جَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِنْبَرٍ حَتَّى مَاتَ، مَا كَانَ يَخْطُبُ إِلَّا قَائِمًا، فَكَيْفَ يُخْشَى أَنْ يَحْبِسُوا النَّاسَ؟ وَإِنَّمَا كَانُوا يَخْطُبُونَ قِيَامًا لَا يَجْلِسُونَ، إِنَّمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَرْتَقِي أَحَدُهُمْ عَلَى المِنْبَرِ فَيَقُومُ كَمَا هُوَ قَائِمًا، لَا يَجْلِسُ عَلَى المِنْبَرِ حَتَّى يَرْتَقِيَ عَلَيْهِ، وَلَا يَجْلِسُ عَلَيْهِ بَعْدَمَا يَنْزِلُ، وَإِنَّمَا خُطْبَتُهُ جَمِيعًا وَهُوَ قَائِمٌ، إِنَّمَا كَانُوا يَتَشَهَّدُونَ مَرَّةً وَاحِدَةً، الأُولَى»، قَالَ: «لَمْ يَكُنْ مِنْبَرٌ إِلَّا مِنْبَرُ النَّبِيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم حَتَّى جَاءَ مُعَاوِيَةُ حِينَ حَجَّ بِالمِنْبَرِ فَتَرَكَهُ»، قال: «فَلَا يَزَالُونَ يَخْطُبُونَ عَلَى المَنَابِرِ بَعْدُ». (مصنف عبد الرزاق:)۔
وجہ استدلال: عطا رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ یہ ذکر کیا ہے کہ ان کے ان سے قبل زمانے میں خطبہ عید کی تعداد ایک ہی تھی، جیسا کہ ان کے قول: "إِنَّمَا كَانُوا يَتَشَهَّدُونَ مَرَّةً وَاحِدَةً" سے ظاہر ہوتا ہے، نیز دو بار قعود کی نفی کرنا بھی زمانہ سلف میں ایک خطبہ کے رائج ہونے کی دلیل ہے۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ اثر مرسل ہے تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ امام عطا نے اپنے زمانے سے لے کر ما قبل کے ادوار میں سلف کا عمل نقل کیا ہے، لہذا علی الاقل یہ امر تو قطعی طور پر ثابت ہوگا کہ ان کے زمانے میں ایک ہی خطبہ پر عمل ہوتا تھا، نیز انہوں نے اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تعلق سے بھی یہی سنا تھا اور یہ تواتر عملی نقل کرنا ہے۔

سطور بالا میں ذکر کئے گئے آثار صحابہ سے اور امام عطا کے قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عہد صحابہ میں ایک ہی خطبہ کا ثبوت ملتا ہے، اور سلف کا اسی پر عمل بھی تھا، لہذا اس کے بعد کسی اور کے عمل سے دلیل طلب کرنا لا یعنی بات ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَإِنْ خَطَبَ فِي غَيْرِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ خُطْبَةً وَاحِدَةً، وَتَرَكَ الْخُطْبَةَ أَوْ شَيْئًا مِمَّا أَمَرْتُهُ بِهِ فِيهَا فَلَا إعَادَةَ عَلَيْهِ، وَقَدْ أَسَاءَ.
الأم للشافعي - المجلد: 1 - الصفحة: 273 -
اگر جمعہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر صرف ایک خطبہ پر اکتفا کیا اور خطبہ یا بیان کردہ دیگر امور میں سے کچھ ترک کر دیا تو اعادہ لازم نہیں آئے گا البتہ اس نے نامناسب کام کیا۔

واضح ہو کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک خطبہ پر اکتفا کرنے والوں پر بدعت کا حکم نہیں لگایا ہے۔

شیخ مختار شنقیطی حفظہ اللہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا نبی اکرم ﷺ سے عید کا ایک خطبہ ثابت ہے؟
انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: حكي عن بعض السلف رحمة الله عليهم أنه يقول بهذا القول. شرح زاد المستقنع للشنقيطي (74/ 19، بترقيم الشاملة آليا)
بعض سلف رحمہم اللہ سے یہ قول منقول ہے۔

مزعومہ اجماع کی حقیقت:
فریق ثانی نے ابن حزم رحمہ اللہ کے قول "لا خلاف فيه" سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو خطبوں پر اجماع ہے۔
جواب:
1۔ تعجب کی بات ہے کہ جس اجماع سے آج بعض علما دلیل لے رہے ہیں اس سے آج سے قبل 1 ہزار سالوں میں کسی نے بھی دلیل نہیں لی ہے۔ مذاہبِ اربعہ ودیگر علما کے کتابیں پڑھ جائیں، سواے جمعہ پر قیاس یا ضعیف روایت سے استدلال کے کسی نے بھی اجماع کو دلیل نہیں بنایا ہے، جبکہ فقہا کے یہاں اور بالخصوص متاخرین کے یہاں اجماع بیان کرنے اور اس سے استدلال میں تساہل پایا جاتا ہے، مزید یہ کہ امام نووی رحمہ اللہ جو کہ غیر ثابت شدہ اجماعات نقل کرنے میں معروف ہیں انہوں نے بھی اس اجماع کو دلیل نہیں بنایا ہے۔
یہ تمام امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سلف کے نزدیک یہ اجماع ثابت نہیں ہیں، ورنہ ائمہ سلف میں سے کسی ایک نے اس اجماع سے دلیل ضرور اخذ کیا ہوتی۔

2۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کی جانب جس اجماع کی نسبت کی جا رہی ہے وہ قول انہوں نے اپنی کتاب "المحلی" میں ذکر کیا ہے، اور امام ابن حزم رحمہ اللہ صرف اسی اجماع کو اجماع مانتے ہیں جسے انہوں نے اپنی کتاب "مراتب الإجماع" میں ذکر کیا ہے، چنانچہ اس کتاب کی تالیف کا مقصد انہوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ مسائل جن میں اجماع ثابت ہے انہیں ایک جگہ جمع کیا جائے، اور مختلف فیہ مسائل سے انہیں الگ کیا جائے، فرماتے ہیں: وإنا أملنا بعون الله عز وجل، أن نجمع المسائل التي صح فيها الإجماع ونفردها من المسائل التي وقع فيها الخلاف بين العلماء. (مراتب الاجماع: ٢٣).
لہذا ابن حزم رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق "مراتب الاجماع" کے علاوہ ان کی دوسری کتابیں مختلف فیہ مسائل کے ذکر کے لئے مخصوص ہیں، نیز وہ اجماع جو "مراتب الاجماع" میں مذکور نہیں وہ ان نزدیک اجماعی مسئلہ نہیں ہے۔

3۔ اجماع کی جس صورت کو امام ابن حزم رحمہ اللہ حجت مانتے ہیں اور جو شرائط اس کے لئے متعین فرمائے ہیں اس پر مذکورہ مسئلہ کی اجماعی حیثیت مسلم نہیں رہتی۔
فرماتے ہیں: "وصفة الإجماع: هو ما تيقن أنه لا خلاف فيه بين أحد من علماء الإسلام، ونعلم ذلك من حيث علمنا الأخبار التي لا يتخالج فيها شك". (مراتب الاجماع: 28).
اجماع اسے کہتے کہ: جس مسئلے کے سلسلے میں علماے اسلام کے درمیان عدم اختلاف کا علم یقینی ہو جائے، اور ہمیں اس کے ثبوت کا ویسا ہی علم ہو جائے جیسا کہ ان خبروں کے تعلق سے علم یقینی ہوتا ہے جن میں ادنیٰ شک کا بھی احتمال نہ ہو۔
نیز اپنی کتاب "مراتب الاجماع" کے تعلق سے فرماتے ہیں: "وإنما ندخل في هذا الكتاب, الإجماع التام الذي لا مخالف فيه البتة، الذي يعلم كما يعلم أن صلاة الصبح في الأمن والخوف ركعتان". (مراتب الاجماع: ٣٣).
میں اپنی اس کتاب میں اسی اجماع کو جگہ دوں گا جس کا کوئی بھی مخالف قطعی اور یقینی طور پر نہیں ہوگا، جس کا علم یقینی اسی طرح سے حاصل ہو جیسا کہ اس بابت علم یقین ہے کہ نماز فجر، حالت امن اور حالت حرب دونوں میں دو رکعت ہی ادا کی جائے گی"۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا منقولات اس امر کی قطعی دلیل ہیں کہ جس اجماع کو فریق ثانی نے دلیل بنانے کی کوشش کی ہے وہ خود ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اجماعی مسئلہ نہیں ہے۔

4۔ امام ابن باز، امام البانی، امام ابن عثيمين، علامہ مقبل ابن ہادی الوداعی رحمہم اللہ نے اس مسئلے میں کوئی اجماع نقل نہیں کیا، بلکہ جمہور، اکثر، فقہا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں، یہ اس بات کی دلیل کہ معاصرین میں سے کبار علما اس اجماع کو ثابت نہیں مانتے ہیں۔
جس اجماع کو خود صاحب کتاب اجماع نہ مانتے ہوں، جس اجماع سے 1 ہزار سالوں میں کسی نے دلیل نہ لی ہو، وہ اجماع آج کے لوگوں کے نزدیک اجماع قطعی بن گیا۔ یا للعجب۔

5۔ عطا رحمہ اللہ کے اثر سے کم از کم یہ ثابت ضرور ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک بار خطبہ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنا تھا، نیز یہی امام عطا رحمہ اللہ کا بھی قول تھا۔ اور اس ایک قول کا بھی پایا جانا اس مزعومہ اجماع کے ابطال کے لئے کافی ہے۔

6۔ اصول فقہ کا مبتدی طالب علم بھی اس بات سے قطعی طور پر واقف ہوتا ہے کہ اجماع اگر "لا أعلم فيه خلافا" یا "لا خلاف فيه" جیسے الفاظ اجماع کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں، اور اس پر نکیر وہی شخص کر سکتا جسے اصول فقہ کی ابجد کا علم نہ ہو، کیوں کہ جس طرح اجماع کے ثبوت کے لئے شرائط مقرر ہیں اسی طرح معتبر اجماع کے نقل کے لئے چند صیغے ہیں، جن میں اجماع اور اتفاق کا لفظ ہی معتبر ہے، باقی الفاظ اجماع کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں، لہذا اس قسم کے اجماع کو نص پر مقدم کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے۔ (اجماع کو نص پر مقدم کرنے کی بات بعض اصولیوں نے کی ہے، اس موضوع پر کبھی تفصیل سے لکھا جائے گا، ان شاء اللہ)۔

علامہ شنقیطی رحمہ اللہ اجماع کے تعلق سے فرماتے ہیں: "مرادهم بالاجماع الذي يقدم على النص خصوص الاجماع القطعي دون الاجماع الظني، وضابط الاجماع القطعي هو الاجماع القولي، لا
السكوتي، بشرط أن يكون مشاهدا أو منقولا بعدد التواتر في جميع طبقات السند".
وہ اجماع جسے نص پر مقدم کیا جائے گا اس سے ان (بعض اصولیوں) کی مراد اجماع قولی ہے، اجماع سکوتی نہیں، اور اس اجماع قولی کی بھی شرط یہ ہے کہ اجماع جس سند سے منقول ہو اس کے تمام طبقات کے راوی حد تواتر کو پہنچے ہوئے ہوں۔ مذكرة في أصول الفقه (ص: 304)۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بھی اس کے مشابہ قول منقول ہے۔ (مجموع الفتاوی: 19/267-268)۔

شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ اجماع کے الفاظ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "أما نفي الخلاف فلا يلزم منه الاستقراء والاستقصاء لا سيما إذا أضاف ذلك إلى علمه".
https://shkhudheir.com/fatawa/1955711974
جہاں تک بات ہے اس لفظ کے ذریعہ اجماع ذکر کرنے کی کہ: "اس مسئلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا" تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قائل نے تمام اقوال کا استقرا اور استقصا کر لیا ہے، بالخصوص اس وقت جب یہ کہا جائے کہ مجھے اس مسئلے میں اختلاف کا علم نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ: مذکوہ مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ بے بنیاد ہے، علماے مذاہب اربعہ میں سے ابن حزم رحمہ اللہ سے ماقبل نہ کسی عالم نے اجماع ذکر کیا ہے اور نہ ہی ان کے بعد ہزار سال تک کسی عالم نے اس اجماع کو ثابت مانا ہے، جس کی وجہ یقینی طور سے یہی ہے کہ یہ ایک غیر ثابت شدہ اجماع ہے، جس کا دعویٰ بعض علما زور وشور سے کر رہے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے ان طالب علموں پر جو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ایک غیر ثابت شدہ شے سے نص صریح کو ٹھکراتے ہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ سلف میں سے اس رائے کے قائلین کا ذکر کسی کتاب میں نہیں ملتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ سلف میں سے کسی نے اس کے بموجب عمل بھی کیا ہو، بلکہ حدیث فی نفسہ حجت ہے، کسی کے عمل کا ہونا اور نہ ہونا اس کی حجیت کو مشکوک نہیں بنا سکتا۔ (اس موضوع کو بالتفصیل جاننے کے لئے میرا مضمون: "إياك أن تتكلم في مسألة ليس لك فيها إمام" کا درست معنی ومفہوم،ملاحظہ فرمائیں)۔
جہاں تک تواتر عملی کا مسئلہ ہے تو در حقیقت یہ مغالطہ آرائی کی کوشش ہے، اس طرح کے الفاظ اگر مقلدین استعمال کرے تو ہم اسے کوسنے لگ جاتے ہیں اور آج ایک ایسے مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے جو کہ حدیث کے مخالف ہے، اسی تواتر عملی سے مغالطہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تواتر عملی کیا ہے؟
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: التواتر العملي: وهو ما علم من الدين بالضرورة، وتواتر عند المسلمين أن النبي ﷺ فعله أو أمر به أو غير ذلك. وهو الذي ينطبق عليه تعريف الإجماع انطباقا صحيحا، مثل مواقيت الصلاة وعدد ركعاتها، وصلاة الجنازة، والعيدين وحجاب النساء من غير ذي محرم لها ومقادير زكاة المال إلى ما لا يعد ولا يحصى من شرائع الإسلام. (ألفية السيوطي في علم الحديث: 26).
تواتر عملی: دین کا وہ جس سے ہر شخص یقینی طور سے واقف ہو اور مسلمانوں کے نزدیک تواتر کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا ہو کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر عمل کیا ہے یا اس کا حکم دیا ہے، یہی وہ شے ہے جو مکمل طور سے اجماع کی تعریف کے موافق ہے۔ جیسے اوقات نماز کا علم، رکعات کی تعداد کا علم، نماز جنازہ اور نماز عیدین کا علم، غیر محرم سے عورتوں کے پردے کا علم اور زکوٰۃ کی مقدار کا علم۔
اس تعریف سے یہ ثابت ہوا کہ وہ تواتر عملی جس کی حجیت تسلیم کی جاتی ہے وہ اجماع کی ہی صورت ہے، اجماع سے الگ ہٹ کر تواتر عملی کی کوئی صورت نہیں جو حجت اور معتد بہ ہو۔

آخری بات: نیز دو خطبہ اور ان کے درمیان بیٹھنے کو دیگر مذاہب والے اس لئے جائز کہتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنانا جائز ہے، جبکہ عید گاہ میں منبر لے جانے کی ابتدا مروان نے کی تھی، جس پر علما نے بدعت کا فتویٰ لگایا ہے، اور اسی وجہ سے علماے اہل حدیث منبر پر عید کا خطبہ بدعت گردانتے ہیں، لہذا جب منبر لے جانا بدعت ہوا تو بیٹھنے اور دو خطبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

الجواب: المشهور عند العلماء خطبتان، وفي الروايات: ما رأينا إلا خطبة واحدة. لكن العلماء

01/07/2023

اس دور میں اکثر و بیشتر لوگوں کی عجیب بات یہ ہے کہ:گناہ کرنے میں اخلاص سے کام لیتا ہے ،اور پوری جی جان لگا کر اس گناہ کو لوگوں سے چھپاتے رہتے ہیں، جبکہ اس میں اخلاص مطلوب نہیں ہوتا ہے،لیکن جب کوئی چھوٹی اور معمولی سی نیکی کرتا ہے تو اس کو لوگوں کے سامنے بیان اور اس کا اظہار کرتے رہتا ہے،جبکہ اس میں اخلاص مطلوب و مقصود ہوتا ہے۔ الله المستعان 😌😌😌
کاتب :طویلب علم (صفت اللہ بن محمد ثناء اللہ)۔

27/06/2023

*یوم عرفہ اپنا اپنا*
✍🏻ایک بنیادی بات یاد رکھیے۔۔
یوم عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ ہے ، اسکا حاجیوں کے وقوف عرفات سے کوئی تعلق نہیں ...کیونکہ وقوفِ عرفات زوال سے مغرب تک ہے اور روزہ سحری سے مغرب تک - اور حجاج کے وقوفِ عرفات سے اسکے تعلق کی کوئی واضح دلیل نہیں -
جب حاجی وقوف کر رہے ہوتے ہیں تب آسٹریلیا سے پرے "جزائر ہوائی" والے سونے کے لیے بستر پر جا چکے ہوتے ہیں یعنی اگر وہ سعودی چاند کے "مقلد" بھی بن جائیں تو روزہ پہلے ہی رکھ کے کھول چکے ہوں گے ،
اب کیا کریں گے؟
اور جب حاجی عرفات سے نکل کے سو کر خراٹے لے رہے ہوں گے تب تک چلی ، لاطینی امریکہ والے ابھی سو کر اٹھے بھی نہیں ہوتے۔۔۔
ان بے چاروں کا کیا ہو گا ؟
روزہ تو نکل گیا ، روزہ کیا یہاں تو حاجی صاحب بھی نکل گئے ، سوال تو ہے نا ؟
انکے تو دو سال کے گناہ ان کے کھاتے میں ہی رہ گئے اس لیے کہ روزہ کے وقت ان کے ہاں تھی ہی رات - اب اگر اگلے دن رکھتے ہیں۔ تو وقوفِ عرفات سے کیا تعلق جوڑیں گے ؟
ایک اور سوال بھی ہے کہ اگر اس روزے کا حجاج کے وقوف سے تعلق ہوتا تو پہلے ۔۔۔۔تیرہ سو سال امت کے روزے کیا ہوئے ؟
ان کا تو وقوف کا دن کبھی ایک تھا ہی نہیں ،
❓تب کون سا ٹی وی، نیٹ اور ریڈیو ہوتا تھا ؟
تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ

ان کے روزے چونکہ وقوف عرفہ کے ساتھ نہ تھے،تو کیا وہ بے کار ہوئے؟

اب رہا چاند تو اس ضمن میں صحیح بخاری کی حدیث ہے :
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ - صحیح بخاری ، کتاب الصوم
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے 30 دن پورے کر لو۔
یہ ایسی حدیث ہے کہ جس سے تمام اشکالات ختم ہو جاتے ہیں لیکن بعض احباب پھر بھی موجودہ دور کے ذرائع رسل و مواصلات کو لے کے بیٹھے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی :
"موجودہ تیز تر وسائلِ نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے پیشِ نظر ، حجاجِ کرام کے میدانِ عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے ، لہذا یومِ عرفہ کا روزہ بھی اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام ، عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔"
پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ حاجیوں کے وقوف سے یوم عرفہ کے روزے کا تعلق ثابت کیا جائے
دوسرا اعتراض اس موقف پر یہ ہے کہ
"لیبیا ، تیونس اور مراکش چند ممالک ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذوالحجہ کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔"
اب اس مسلے کا ان احباب کے نزدیک کیا حل ہے کہ جو سعودیہ کے وقوف عرفات کو تمام دنیا کے لیے یوم عرفہ قرار دیتے ہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول حدیث عائشہ کے مطابق
" یکم سے نو ذوالحجہ تک روزے رکھتے تھے "
سو سنت نبوی سے الگ سے روزہ تو آپ کو ملے گا نہیں
- *سو الجھائیے مت اور الجھیے بھی مت* ...آرام سے پاکستان کے چاند کے مطابق اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھتے ہوئے روزہ رکھیے ۔

*یومِ عرفہ اپنا اپنا*
کلیم الدین مدنی.

27/06/2023

ومن صيغ التكبير في العيدين الثابتة عن السلف :

- " الله أكبر ، الله أكبر ، الله أكبر ، ولله الحمد ، الله أكبر وأجل ، الله أكبر على ما هدانا " . رواه البيهقي (3/ 315) عن ابن عباس رضي الله عنهما ، وصححه الألباني في "إرواء الغليل" (3/126) .

- وقال ابن حجر : " وأما صيغة التكبير فأصح ما ورد فيه : ما أخرجه عبد الرزاق بسند صحيح عن سلمان قال : " كبروا الله : الله أكبر ، الله أكبر ، الله أكبر كبيراً "

فتح الباري (2/462) .

والالتزام بما ورد عن الصحابة رضي الله عنهم في ذلك أولى .

والله أعلم .
سلف صالحین سے منقول شدہ عیدین کی تکبیرات یہ ہے : "الله أكبر،الله أكبر،الله أكبر،ولله الحمد،الله أكبر وأجل،الله أكبر على ما هدانا ".اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے إبن عباس -رضي الله عنهما-سے اور امام البانی -رحمہ اللہ- نے اس حدیث کو ارواء الغلیل میں صحیح کہا ہے ۔
اور ابن حجر-رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ تکبیرات کے سب سے اصح ترین صیغے جو وارد ہوئی ہے وہ ہے:
"الله أكبر،الله أكبر، الله أكبر كبيرا " فتح الباري.
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو تکبیرات وارد ہوئی ہے اس پر عمل کرنا ہمارے لیے زیادہ افضل ہے ۔والله أعلم.

18/06/2023


#شبهات أهل القرآن والرد عليها.

অধিকাংশ ইসলামি দেশেই হজযাত্রীরা ফিরে আসার সঙ্গে সঙ্গে  পবিত্র ভূমি থেকে ফরজ হজ আদায়ের পর ফরজ হজ পালনকারীকে হজের উপাধি দ...
15/06/2023

অধিকাংশ ইসলামি দেশেই হজযাত্রীরা ফিরে আসার সঙ্গে সঙ্গে পবিত্র ভূমি থেকে ফরজ হজ আদায়ের পর ফরজ হজ পালনকারীকে হজের উপাধি দেওয়া হয় এবং তা সর্বদা তার সাথে লেগে থাকে।এর হুকুম কি?

এটি একটি ভুল; কেননা এর মধ্যে এক ধরনের ভন্ডামি আছে যাকে ওটা বলা হয় না এবং লোকে যেন এটাকে না বলে; কারণ রসূলের সময়ে লোকেরা হাজীকে বলতেন না, “তুমি হাজী।”

আল্লামা ইবনে উসাইমীন, আল্লাহ তার প্রতি রহম করুন » মাজমু’ আল-ফাতাওয়া » 24/204

পরীক্ষায় আপনার কাছে প্রথম যে প্রশ্নটি আসবে তা যদি আপনি জানতেন তবে আপনি এটি মুখস্থ করার জন্য চেষ্টা করতেন, তাহলে আপনি কে...
14/06/2023

পরীক্ষায় আপনার কাছে প্রথম যে প্রশ্নটি আসবে তা যদি আপনি জানতেন তবে আপনি এটি মুখস্থ করার জন্য চেষ্টা করতেন, তাহলে আপনি কেন নামাজ রাখবেন না জেনে রাখুন যে এটিই আপনাকে প্রথম প্রশ্ন করা হবে কিয়ামতের দিন?

12/06/2023

🤍 *مسلمان کا نور*

نبی اکرم ﷺ نے بڑھاپے کے(سفید) بال اکھیڑ نے سے منع کیا، اور فرمایا
إِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ

*'یہ تو مسلمان کا نور ہے'*

📄 جامع ترمذی : 2821 - صحیح.

Address


Telephone

+917667237342

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sirf behtar zindagi ke liye posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Sirf behtar zindagi ke liye:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share