معلومات

معلومات Informazioni di contatto, mappa e indicazioni stradali, modulo di contatto, orari di apertura, servizi, valutazioni, foto, video e annunci di معلومات, Agenzia media/stampa, Bolzano.
(745)

معلومات پیج ایک ایسا بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں آپ کو معلوماتی مواد کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزا اور موٹیویشنل کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں معلوماتی حقائق کے ساتھ ساتھ فکر انگیز مواد بھی پیش کیا جاتا ہے۔ معلومات پیج سے جڑیں رہیں اور اس کو فالو کریں https://www.facebook.com/Dilchasp.info

دلچسپ معلومات: زبردست اور حیرت انگیز معلومات پر مبنی اردو پیج ہے۔ اوپر دیئے گئےپیج کے لنک کو ایک دفعہ وزٹ ک

ریں۔ اگر پسند آئے تو ضرور اس پیج کو لائک کریں تاکہ آپ کو اس پیج کی روزانہ دلچسپ اور حیرت انگیز پوسٹ ملتی رہیں۔ شکریہ

اگر آپ ( دلچسپ و عجیب معلومات) پیج کو پسند کرتے ہیں۔ تو اپنی فرینڈ لسٹ کو بھی اس کی دعوت دیں۔
دعوت کا طریقہ۔
نیچےاس لنک پر کلک کر کے دلچسپ معلوما ت کے پیج پر جائیں۔
https://www.facebook.com/Dilchasp.info
اور
Invite Your Friends to Like This Page
پر
Invite
کے بٹن کو دبا کر اپنے فرینڈز کو دعوت دیں۔ شکریہ

“یہ سبق مجھے میرے والد نے سکھایا تھا۔ میں آج بھی دن رات ان کے لیے شکر ادا کرتا ہوں اور پورے خلوص سے ان کی مغفرت کی دعا ک...
20/12/2025

“یہ سبق مجھے میرے والد نے سکھایا تھا۔ میں آج بھی دن رات ان کے لیے شکر ادا کرتا ہوں اور پورے خلوص سے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔”
وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا، رومال نکالا، ماتھے سے پسینہ پونچھا اور پھر بولنا شروع کیا۔

میرے والد شدید سردی کے عارضے میں مبتلا تھے۔ گھر کے اندر بھی اوور کوٹ اوڑھ کر گھومتے رہتے تھے۔ جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی دھوپ میں بیٹھے رہتے، یہاں تک کہ ان کی جلد جل کر سیاہ ہو جاتی، مگر سردی کا احساس کم نہ ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں بھی وہ لحاف اوڑھ کر سوتے، پاؤں میں دوہری جرابیں پہنتے اور صبح و شام ہیٹر کے سامنے بیٹھنا ان کی عادت تھی۔ سردیوں کا موسم ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اکتوبر آتے ہی وہ کانپنا شروع کر دیتے تھے، اسی لیے ہم ہر سال انہیں اکتوبر سے مارچ تک دبئی منتقل کر دیتے۔ وہ چھ ماہ دبئی اور چھ ماہ لاہور میں گزارتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کڑی آزمائش کے باوجود ان پر بے حد فضل کیا تھا۔ وہ ارب پتی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے، وہ نفع میں بدل جاتی۔ دنیا کے نامور ڈاکٹروں سے ان کا علاج ہوتا رہا، مگر یہ خوفناک بیماری ان کا پیچھا نہ چھوڑ سکی۔ عمر کے آخری حصے میں وہ کچھ سنکی سے ہو گئے تھے۔ روزانہ مجھے اپنے پاس بٹھاتے، میری ٹھوڑی تھام لیتے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتے:
“عبدالمالک، مجھے موت سے بہت خوف آتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ میں چھ فٹ زمین کے نیچے ہوں گا، ہر طرف اندھیرا اور سردی ہو گی، اور میرے جسم پر صرف دو چادریں ہوں گی، تو میری روح لرز جاتی ہے۔”

پھر وہ مجھ سے پوچھتے، “عبدالمالک، کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟”
میں ہر بار فوراً جواب دیتا، “ابا جی، آپ حکم کریں، میں اپنی جان بھی حاضر کر دوں گا۔”
وہ بڑی عاجزی سے کہتے، “بیٹا، کسی عالم سے فتویٰ لے آؤ اور مجھے گرم کپڑوں میں دفن کر دینا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم میری قبر کو گرم رکھنے کا کوئی انتظام ضرور کرنا۔”

میں فوراً ہاں کر دیتا۔ میرے دل میں یہ بات پکی تھی کہ کسی نہ کسی عالم سے اجازت لے لوں گا اور والد کو اوور کوٹ میں دفن کرا دوں گا۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ ان کی قبر گرم اینٹوں سے بنوا دوں گا۔ ہم صاحبِ حیثیت لوگ تھے۔ میں اکثر دل ہی دل میں سوچتا کہ اگر کوئی عالم راضی نہ ہوا تو فتویٰ خرید لوں گا۔ جتنی بھی رقم لگے، میں دینے کو تیار تھا، مگر اپنے والد کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔

وہ ایک لمحے کے لیے رکا، ٹھنڈی سانس بھری اور بولا:
“مگر میں ناکام ہو گیا۔”

میرے والد سن 2000 میں انتقال کر گئے۔ ہم نے انہیں گرم پانی سے غسل دیا، اوور کوٹ پہنایا اور اس کے اوپر کفن لپیٹ دیا۔ جب مولوی صاحب نے اوور کوٹ دیکھا تو انہوں نے جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے ہر طرح کی منت سماجت کی، لالچ بھی دیا، مگر وہ نہ مانے۔ تنگ آ کر میں نے انہیں دھمکی بھی دے دی، تو وہ جنازہ چھوڑ کر چلے گئے۔

اس کے بعد ہم نے کئی مولویوں سے رابطہ کیا، مگر کوئی تیار نہ ہوا۔ آخرکار میں نے خود جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ جب میں والد کی میت کے سامنے کھڑا ہوا تو لوگوں نے میرے پیچھے جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا۔ میں نے ان سے بھی بہت منتیں کیں، لیکن کسی نے ساتھ نہ دیا۔

پھر قبر کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ میں قبر کے اندر انسولیشن کروانا چاہتا تھا، مگر لوگوں نے سخت اعتراض شروع کر دیا۔ پورے شہر میں یہ بات پھیل گئی کہ قبر ہمیشہ اندر سے کچی ہوتی ہے۔ فرعونوں کے سوا آج تک کسی کی قبر اندر سے پکی نہیں بنی۔ یہ بدعت ہے اور ہم اس بدعت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

میں مکمل طور پر بے بس ہو گیا۔ بالآخر مجھے لوگوں کی بات ماننا پڑی۔ والد کا اوور کوٹ بھی اتارنا پڑا اور قبر بھی عام طریقے سے بنانی پڑی۔ انتہائی دکھی دل کے ساتھ میں نے اپنے والد کو دفن کیا اور دیر تک قبر کے پاس بیٹھ کر روتا رہا۔ جب بھی یہ خیال آتا کہ میں اپنے والد کی ایک معمولی سی خواہش بھی پوری نہ کر سکا، تو میرا گلا رندھ جاتا۔

اس کے بعد جب بھی میں والد کی قبر پر جاتا، شرمندگی سے سر جھکا لیتا اور ان سے معافی مانگتا۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک چلتا رہا۔

ایک رات میں گہری نیند میں تھا کہ والد خواب میں آ گئے۔ وہ سفید کفن میں لپٹے ہوئے تھے، شدید سردی میں کانپ رہے تھے اور مجھے پکار رہے تھے:
“عبدالمالک… عبدالمالک… اٹھو اور میری بات سنو۔”

میں نے خواب میں ان کی طرف دیکھا۔ وہ بولے:
“بیٹے، میں تمہیں زندگی کی وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں جو مجھے مرنے کے بعد سمجھ آئی۔”

میں نے عرض کیا، “ابا جی، میں پوری توجہ سے سن رہا ہوں، آپ فرمائیں۔”
انہوں نے کہا:
“بیٹا، میں ارب پتی تھا۔ چیک پر خود دستخط بھی نہیں کرتا تھا، میرے منیجر کرتے تھے۔ میں زمینوں اور جائیدادوں کا مالک تھا، اور مجھے تم جیسے نیک بیٹے بھی ملے تھے۔ مگر یہ سب مل کر بھی میری ایک خواہش پوری نہ کر سکے۔ نہ میں گرم کپڑوں میں دفن ہو سکا، نہ گرم قبر میں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ انسان کی ساری دولت اور ساری اولاد مل کر بھی مرنے کے بعد اس کے کام نہیں آتی۔”

انہوں نے بات جاری رکھی:
“یہ سب اگر مجھے قبر سے پہلے ایک اوور کوٹ نہ پہنا سکے، تو آگے کے سفر میں میرا کیا ساتھ دیتے؟ اسی لیے میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اصل دولت وہ ہے جو مرنے کے بعد بھی فائدہ دے، اور اصل اولاد وہ ہے جو موت کے بعد بھی نفع پہنچائے۔”

میں نے کہا، “ابا جی، آپ کی بات درست ہے، مگر میں پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔”
وہ مسکرائے اور بولے:
“اپنی دولت اور اپنی اولاد کو صالح بنا دو۔ یہ مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آئیں گے، ورنہ یہی چیزیں تمہارے امتحان میں اضافہ کرتی رہیں گی۔”

میں خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔ وہ بولے:
“میں نے ساری زندگی دولت کمائی۔ اس کا ننانوے فیصد دنیا میں چھوڑ آیا، اور وہ حصہ میرے بعد کسی کام کا ثابت نہ ہوا۔ مگر میں نے اس دولت کے ایک فیصد سے یتیم اور غریب بچوں کے لیے اسکول بنایا تھا۔ وہ ایک فیصد آج بھی میرے لیے نفع بخش ہے۔”

انہوں نے مزید کہا:
“اللہ نے مجھے تم سمیت چھ بچے دیے۔ میں نے سب کو عملی زندگی کے لیے تیار کیا۔ یہ سب دنیا دار ہیں، مجھ سے بھی زیادہ کامیاب ہیں اور خوب پیسہ کما رہے ہیں، مگر آج ان میں سے کوئی میرے کام نہیں آ رہا۔ ہاں، میں نے اپنے خاندان کی ایک یتیم بچی کو تعلیم دلوائی تھی۔ وہ ڈاکٹر بن گئی، اور ہفتے میں دو دن غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ ان دو دنوں کا فائدہ مجھے مسلسل مل رہا ہے۔ وہ بچی اور اس کی خدمت میرے لیے صالح ثابت ہو رہی ہے۔”

پھر انہوں نے نصیحت کی:
“میرا مشورہ ہے کہ تم اپنی دولت کا ایک حصہ اپنی ذات پر خرچ کرو اور باقی کو صالح بنا دو۔ یوں تم مرنے کے بعد بھی آسودہ رہو گے۔ اپنی اولاد کو کاروبار کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی شامل کرو۔ یہ صالح اولاد تمہیں صدیوں تک فائدہ دیتی رہے گی۔”

یہ کہہ کر میرے والد کھڑے ہوئے، میرے ماتھے کو چوما اور چلے گئے۔ اسی لمحے میری آنکھ کھل گئی اور میں جاگ کر بیٹھ گیا۔

وہ دوبارہ رکا، لمبا سانس لیا، ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
“بس اسی دن میرے والد نے مجھے زندگی کی صحیح سمت دکھا دی۔ میں نے دولت اور اولاد کو صالح بنانے کا آغاز کر دیا۔ میں نے اپنی کمائی کو ترتیب دیا، دس فیصد الگ کیا، اسے پراپرٹی میں لگایا تاکہ اس کے کرائے سے ہم آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ باقی دولت میں نے اللہ کے نام پر وقف کر دی۔”

وہ بولا:
“میں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں کنویں کھدوائے، اسکول اور ڈسپنسریاں بنوانا شروع کیں۔ دولت کا ایک حصہ یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی مدد کے لیے مخصوص کر دیا۔ یوں میری دولت رفتہ رفتہ صالح بنتی چلی گئی۔”

اس نے مزید کہا:
“اب میں اپنی اولاد کو بھی فلاحی کاموں کی تربیت دے رہا ہوں، تاکہ وہ بھی صالح بنیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن یہی اعمال میری قبر کے لیے ٹھنڈک کا سبب بنیں گے۔”

وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا، “آپ بچوں کو صالح کیسے بنا رہے ہیں؟”
وہ مسکرایا اور بولا:
“میں انہیں یہ سکھا رہا ہوں کہ ہماری کامیابی ہمارا اثاثہ ہوتی ہے۔ جب تک ہم اس اثاثے کا ایک بڑا حصہ صدقہ نہیں کرتے، ہم صالح نہیں بنتے۔”

اس نے وضاحت کی:
“اگر آپ انجینئر ہیں تو اپنی انجینئرنگ کا کچھ حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے رکھیں، اور باقی لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو مفت علاج کو اپنا صدقہ بنا لیں۔ اور اگر آپ تاجر ہیں تو اپنی تجارت کو منافع خوری، ملاوٹ اور بے ایمانی سے پاک کریں۔ یوں آپ صالح بن جائیں گے، اور اس کا فائدہ آپ کو بھی ہو گا اور آپ کے والدین کو بھی۔”

وہ دوبارہ خاموش ہوا۔ میں نے پوچھا، “اب تک اس طرزِ زندگی کا آپ کو کیا فائدہ ملا؟”
وہ مسکرا کر بولا:
“میں اس زندگی میں مطمئن ہوں، اور میرے والد موت کے بعد مطمئن ہیں۔ وہ اکثر خواب میں اوور کوٹ پہنے آتے ہیں، میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بلند آواز میں کہتے ہیں: ‘شاباش عبدالمالک!’ اور میں خوشی سے بھر جاتا ہوں۔” (جاوید چودھری کے کالم سے اقتباس)

20/12/2025

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ دنیا کے ایک کونے میں کچھ غریب کاشتکاروں کی ایک بغاوت، جس کا بظاہر عالمی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، کیسے ہزاروں میل دور امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی وجہ بن گئی؟ یہ کہانی تاریخ کے ان انوکھے موڑ میں سے ایک ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے واقعات بھی عالمی سطح پر غیر متوقع اور عظیم الشان نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ ہے "ہیٹی انقلاب" اور "لوزیانا پرچیز" (Louisiana Purchase) کا ناقابلِ یقین تعلق۔
سن 1791 میں فرانس کی ایک چھوٹی سی کالونی "سینٹ ڈومینگو" (Saint-Domingue)، جو آج کا ہیٹی ہے، میں افریقی غلاموں نے اپنے فرانسیسی آقاوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہ بغاوت ان مظالم اور غیر انسانی سلوک کا نتیجہ تھی جو صدیوں سے غلاموں پر ہو رہے تھے۔ سینٹ ڈومینگو اس وقت دنیا میں چینی اور کافی کی سب سے بڑی پیداوار کرنے والی کالونی تھی اور یہ فرانس کے لیے سونے کی کان تھی۔ یہاں تقریباً 5 لاکھ غلام تھے، جو کہ فرانسیسی مالکان کی تعداد سے دس گنا زیادہ تھے۔
اس بغاوت کی قیادت ٹوساں لوورچر (Toussaint Louverture) نامی ایک سابق غلام نے کی جو ایک غیر معمولی فوجی اور سیاسی بصیرت کا حامل تھا۔ اس نے غلاموں کو منظم کیا، انہیں فوجی تربیت دی اور انہیں فرانسیسی فوج کے خلاف ایک طاقتور مزاحمتی قوت بنا دیا۔ یہ انقلاب کئی سالوں تک جاری رہا، جس میں فرانسیسی، برطانوی اور ہسپانوی افواج نے حصہ لیا، لیکن غلاموں کی آزادی کا جذبہ اور ٹوساں لوورچر کی قیادت ان سب پر بھاری پڑی۔ یہ واحد کامیاب غلاموں کی بغاوت تھی جس نے ایک آزاد ریاست قائم کی۔
اب آتے ہیں امریکہ کی طرف۔ اسی دوران، بحر اوقیانوس کے پار، امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن فرانس سے "لوزیانا" کا علاقہ خریدنے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ لوزیانا ایک وسیع و عریض علاقہ تھا جو آج کے امریکہ کا تقریباً 23 فیصد بنتا ہے اور اس میں مسیسپی دریا کا اہم تجارتی راستہ شامل تھا۔ فرانس کے شہنشاہ نپولین بوناپارٹ، جو اس وقت یورپ کا سب سے طاقتور حکمران تھا، نے یہ علاقہ اسپین سے حاصل کیا تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ لوزیانا کو ایک بڑی نوآبادیاتی سلطنت کا حصہ بنائے گا جس کی بنیاد سینٹ ڈومینگو پر ہوگی۔
نپولین کا منصوبہ تھا کہ وہ سینٹ ڈومینگو کی بغاوت کو کچل کر اسے دوبارہ فرانس کا غلام بنائے گا، اور پھر وہاں سے حاصل ہونے والے وسائل (چینی اور کافی) کی مدد سے لوزیانا کو آباد کرے گا اور اسے اپنی امریکی سلطنت کا مرکز بنائے گا۔ اس نے اپنی بہترین افواج میں سے تقریباً, تیس ہزار فوجی ٹوساں لوورچر اور اس کے غلاموں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے سینٹ ڈومینگو بھیجے۔
لیکن نپولین کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ ہیٹی کے غلاموں نے زبردست مزاحمت کی، اور ساتھ ہی زرد بخار (Yellow Fever) جیسی بیماریوں نے فرانسیسی فوج کو تباہ کر دیا۔ 1803 تک، نپولین اپنی آدھی سے زیادہ فوج گنوا چکا تھا اور سینٹ ڈومینگو کو دوبارہ حاصل کرنے کی اس کی کوششیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی تھیں۔ اس بھاری نقصان اور اپنی ناکامی نے نپولین کو مجبور کیا کہ وہ نوآبادیاتی توسیع کا خیال ترک کر دے۔
یہی وہ فیصلہ کن لمحہ تھا! نپولین اب لوزیانا کو ایک بیکار اور بے معنی علاقہ سمجھنے لگا تھا کیونکہ اس کی امریکی نوآبادیاتی سلطنت کا مرکزی ستون (سینٹ ڈومینگو) اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس کے علاوہ اسے برطانیہ کے ساتھ ایک اور جنگ کی تیاری کے لیے پیسوں کی اشد ضرورت تھی۔ چنانچہ، اس نے صدر جیفرسن کو اچانک پیشکش کی کہ وہ لوزیانا کا پورا علاقہ محض 15 ملین ڈالر میں امریکہ کو فروخت کر دے گا۔
اور بس! امریکہ نے یہ سودا فوراً قبول کر لیا اور یوں اپنی تاریخ کی سب سے بڑی زمین کی خریداری کی۔ اس خریداری سے امریکہ کا رقبہ تقریباً دگنا ہو گیا، اور اسے مغرب کی طرف وسعت دینے کا بے مثال موقع ملا۔ ہیٹی انقلاب، جس نے فرانس کی نوآبادیاتی خواہشات کو خاک میں ملا دیا، بالواسطہ طور پر امریکہ کو ایک براعظمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کر گیا۔
ہیٹی انقلاب دنیا میں غلامی کے خلاف ایک زبردست فتح تھی اور یہ امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی تحریک کے لیے بھی ایک ترغیب بنی۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح آزادی کے لیے لڑنے والے چند غلاموں نے، ہزاروں میل دور، ایک سپر پاور کے مستقبل کو اس طرح تبدیل کر دیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

Read this
20/12/2025

Read this

ظرف اور یقین کی ایک لازوال کہانی

ہماری فیکٹری کے پاس ایک چھوٹا سا بسم اللہ ناشتہ پوائنٹ ہے، جہاں صبح کے وقت تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک دن وہاں ناشتہ کرتے ہوئے میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک شخص بڑے اطمینان سے ناشتہ کرتا ہے اور پھر ہجوم کا فائدہ اٹھا کر، مالک کی نظریں بچا کر چپکے سے پیسے دیے بغیر نکل جاتا ہے۔
میں نے کئی بار یہ مشاہدہ کیا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ ایک دن وہ شخص ناشتہ کر رہا تھا کہ میں نے ہوٹل کے مالک کے کان میں سرگوشی کی: "وہ دیکھو بھائی! یہ شخص روزانہ تمہیں دھوکہ دے کر مفت ناشتہ کر کے نکل جاتا ہے۔ آج میں نے اسے دیکھ لیا ہے، اسے رنگے ہاتھوں پکڑو اور سبق سکھاؤ!"
ہوٹل کا مالک میری بات سن کر غصے ہونے کے بجائے مسکرانے لگا اور دھیمے لہجے میں کہا: "اسے جانے دو، کچھ مت کہنا۔ اس کا حساب بعد میں کریں گے۔"
حسبِ معمول وہ شخص نظریں بچا کر نکل گیا۔ میں نے حیرت سے مالک سے پوچھا: "تم نے اسے کیوں جانے دیا؟ جانتے بوجھتے ہوئے اپنی کمائی کا نقصان کیوں کر رہے ہو؟"
ہوٹل کے مالک نے جو جواب دیا، اس نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور سوچنے کے زاویے بدل دیے۔ اس نے کہا:
"بھائی! آپ اکیلے نہیں ہیں، بہت سے لوگوں نے اسے نوٹ کیا اور مجھے بتایا، بلکہ میں خود بھی اس کی اس حرکت سے واقف ہوں۔ لیکن میں نے اسے کبھی نہیں روکا، کبھی اس کی تذلیل نہیں کی..."
وہ تھوڑا رکا اور پھر بڑی گہری بات کہی: "مجھے لگتا ہے کہ یہ کوئی غریب اور مجبور شخص ہے اور میرے ہوٹل پر یہ جو رونق اور رش ہے، یہ اسی بندے کی دعا کا صدقہ ہے۔ یہ سامنے بیٹھ کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگتا ہوگا کہ 'یا اللہ! اس ہوٹل پر اتنا رش لگا دے کہ میں چپکے سے کھانا کھا سکوں'۔ اللہ اس کی دعا سنتا ہے، تو میرا رزق بڑھا دیتا ہے۔"
اس نے آنکھوں میں نمی کے ساتھ بات ختم کی: "میں اللہ اور اس کے بندے کے درمیان اس 'خفیہ سودے' میں ٹانگ اڑا کر اپنی بدبختی کو دعوت نہیں دینا چاہتا۔ یہ جب تک چاہے آئے، جب تک چاہے کھائے، میرا رب اس کے بہانے مجھے نوازتا رہے گا۔"
کبھی کبھی ہم جسے اپنا نقصان سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہی ہماری برکت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ دوسروں کی ضرورتوں کے لیے اپنا ظرف بڑا کیجیے، اللہ آپ کے رزق کے دروازے وہاں سے کھول دے گا جہاں سے آپ کو گمان بھی نہیں ہوگا۔کسی کی مجبوری کو اس کی ذلت نہ بنائیے، بلکہ اسے اللہ کی طرف سے بھیجا گیا 'وسیلہ' سمجھ کر قبول کیجیے۔

اگر یہ کہانی پسند آئی ہو تو شئیر کریں اور پیج کو لائک کریں۔ شکریہ

19/12/2025

ایک ناول، ایک خواب، اور تاریخ سے پہلے لکھی گئی تباہی

تاریخ کے اوراق میں بعض واقعات ایسے دفن ہیں جو انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ آیا وقت واقعی سیدھی لکیر میں چلتا ہے، یا کبھی کبھی مستقبل کی جھلک ماضی میں بھی دکھا دی جاتی ہے۔ آج میں آپ کو ایک ایسے ہی ناقابلِ یقین اتفاق، یا شاید پیشگی اشارے، کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں جو ادب، خواب اور حقیقت—تینوں کو ایک ہی لکیر پر لا کھڑا کرتا ہے۔
اکثر لوگ ٹائی ٹینک کے دل دہلا دینے والے حادثے سے واقف ہیں۔ 1912ء میں سمندر کی موجوں میں دفن ہونے والا یہ دیو ہیکل جہاز انسانی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش سانحہ ہے۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس حادثے سے چودہ سال پہلے ایک ناول لکھا جا چکا تھا جس کی کہانی حیرت انگیز طور پر ٹائی ٹینک کی قسمت سے ملتی جلتی تھی۔
وہ ناول جو وقت سے پہلے لکھ دیا گیا
1898ء میں امریکی مصنف مورگن رابرٹسن نے ایک ناول تحریر کیا جس کا نام تھا
“Wreck of the Titan”
یعنی ٹائٹن کی تباہی۔
صرف نام ہی نہیں، بلکہ اس ناول کا مرکزی کردار—ایک عظیم الجثہ، ناقابلِ غرق ہونے والا مسافر بردار جہاز—اپنی جسامت، رفتار، شان و شوکت اور انجام، ہر اعتبار سے ٹائی ٹینک کا عکس نظر آتا ہے۔ فرق صرف نام کا تھا: ٹائٹن اور ٹائی ٹینک۔
ناول میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح یہ عظیم جہاز ایک سرد رات، برفانی سمندر میں ایک دیو قامت آئس برگ سے ٹکرا کر نیچے سے چِر جاتا ہے۔ جہاز آہستہ آہستہ پانی میں ڈوبنے لگتا ہے، مسافروں میں افراتفری مچ جاتی ہے، اور سب سے خوفناک حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ لائف بوٹس کی تعداد ناکافی ہے۔
کہانی میں انسان کے دونوں چہرے نمایاں ہوتے ہیں—کہیں خود غرضی اور بے رحمی، تو کہیں ایثار، قربانی اور انسانیت۔ کپتان کی بے بسی، عملے کی بھاگ دوڑ، اور مسافروں کی آخری سانسوں تک جاری جدوجہد—یہ سب کچھ ایسا ہے جیسے مورگن رابرٹسن نے 1912ء کی رات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔
یہ مماثلت محض اتفاق نہیں لگتی، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف نے وقت کی دیوار میں دراڑ ڈال کر مستقبل کی جھلک دیکھ لی ہو۔

اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

19/12/2025

جب زمین کی گہرائی سے 'چیخیں' سنائی دیں: روس کا وہ پراسرار سوراخ (Kola Superdeep Borehole)

اگر "پروجیکٹ موہول" سمندر میں ناکام ہوا تھا جس کے بارے میں معلومات پلس پیج پرپوسٹ ہوچکی ہے، تو روس (سابقہ سوویت یونین) نے اسے خشکی پر کر دکھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ تاریخ کا وہ عجیب و غریب واقعہ ہے جس نے نہ صرف سائنسی ریکارڈ قائم کیے بلکہ دنیا بھر میں خوفناک افواہوں کو بھی جنم دیا۔ اسے "کولہ سپر ڈیپ بوریہول" کہا جاتا ہے۔
آسمان نہیں، پاتال کی طرف دوڑ
1970 میں، سوویت سائنسدانوں نے روس کے ایک دور افتادہ علاقے 'کولہ' میں زمین کے اندر سوراخ کرنا شروع کیا۔ ان کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ انسان زمین کے اندر کتنی گہرائی تک جا سکتا ہے۔ یہ "خلائی دوڑ" (Space Race) جیسی ہی ایک دوڑ تھی، بس فرق یہ تھا کہ اس بار مقابلہ بلندی کا نہیں بلکہ گہرائی کا تھا۔
12 کلومیٹر گہرا سوراخ اور 'جہنم کی آوازیں'
تقریباً 20 سال کی مسلسل محنت کے بعد، 1989 میں یہ سوراخ 12,262 میٹر (تقریباً 12.2 کلومیٹر) کی گہرائی تک پہنچ گیا۔ یہ زمین پر انسان کا کیا گیا سب سے گہرا سوراخ ہے۔
لیکن یہاں ایک عجیب موڑ آیا۔ جب یہ خبر پھیلی کہ روسیوں نے زمین میں اتنا گہرا سوراخ کر دیا ہے، تو ایک افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ سائنسدانوں نے وہاں ایک مائیکروفون نیچے بھیجا تھا جس میں سے ہزاروں انسانوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں، جیسے وہ سوراخ جہنم کے دروازے تک جا پہنچا ہو۔ اگرچہ سائنسدانوں نے بعد میں اسے محض ایک من گھڑت کہانی قرار دیا، لیکن یہ "ویل ٹو ہیل" (Well to Hell) کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔
مشن کیوں روک دیا گیا؟
اس گہرائی پر پہنچ کر سائنسدانوں کو ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی انہیں توقع نہیں تھی:
• ناقابلِ برداشت گرمی: زمین کے اندر درجہ حرارت 180 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ گیا، جو کہ توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ اس گرمی میں ڈرلنگ مشین کے پرزے موم کی طرح نرم ہونے لگے۔
• پتھروں کا رویہ: اتنی گہرائی اور دباؤ پر پتھر ٹھوس رہنے کے بجائے پلاسٹک کی طرح برتاؤ کرنے لگے، جس سے سوراخ کو برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا۔
آخر کار 1992 میں ڈرلنگ روک دی گئی اور 2005 میں اس پروجیکٹ کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا۔ آج وہاں صرف ایک زنگ آلود لوہے کا ڈھکن موجود ہے جسے بولٹوں سے سختی سے بند کر دیا گیا ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کمنٹ باکس میں کریں اور معلومات پلس پیج کو بھی ضرور فالو کریں شکریہ

19/12/2025

جب انسانوں نے زمین کے جگر میں سوراخ کرنے کی کوشش کی: "پروجیکٹ موہول" (Project Mohole)
خلا کی وسعتوں کو ناپنے سے بھی پہلے، انسان نے ایک ایسا مہم جویانہ منصوبہ بنایا جس کا مقصد آسمان نہیں بلکہ زمین کی گہرائی تھا۔ 1950 اور 60 کی دہائی میں سائنسدانوں نے سوچا کہ کیوں نہ زمین کی اوپری پرت (Crust) کو توڑ کر اس کے اندرونی حصے یعنی "مینٹل" (Mantle) تک پہنچا جائے۔ اس عظیم الشان مگر ناکام منصوبے کو "پروجیکٹ موہول" کہا جاتا ہے۔
زمین کا وہ حصہ جہاں تک کوئی نہ پہنچ سکا
زمین کی ساخت پیاز کی تہوں جیسی ہے۔ ہم جس سطح پر رہتے ہیں اسے 'کرسٹ' کہتے ہیں، اور اس کے نیچے 'مینٹل' ہے جو زمین کے کل حجم کا 80 فیصد حصہ بناتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کی سرحد کو "موہوروویچک ڈسکنٹینیوٹی" (Mohorovičić discontinuity) یا مختصراً "موہو" کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اگر وہ وہاں سے پتھر کا نمونہ نکال لیں تو زمین کی پیدائش کے راز کھل جائیں گے۔
سمندر کی تہہ میں سوراخ: ایک ناممکن مشن
خشکی پر زمین کی پرت بہت موٹی ہوتی ہے، اس لیے سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سمندر کی تہہ میں سوراخ کریں گے جہاں یہ پرت پتلی ہوتی ہے۔ 1961 میں میکسیکو کے ساحل کے قریب ایک خاص جہاز "CUSS I" کے ذریعے سمندر کی 12,000 فٹ گہرائی میں ڈرلنگ شروع کی گئی۔
یہ ایک انجینئرنگ کا معجزہ تھا:
• پانی کا دباؤ: اتنی گہرائی میں ڈرلنگ کرنا ایسا ہی تھا جیسے آپ ایک لمبی سوئی سے کسی ہلتی ہوئی چیز میں سوراخ کرنے کی کوشش کریں۔
• پہلی کامیابی: انہوں نے سمندر کی تہہ میں 601 فٹ تک سوراخ کر کے بیسالٹ (Basalt) کے قدیم نمونے حاصل کیے، جو ایک بڑی کامیابی تھی۔
منصوبہ کیوں روک دیا گیا؟
جیسے جیسے ڈرل مزید گہرائی میں جاتی گئی، اخراجات آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ امریکی کانگریس نے اسے "پیسے کا زیاں" قرار دینا شروع کر دیا۔ 1966 میں، جب یہ منصوبہ مینٹل تک پہنچنے سے ابھی بہت دور تھا، اس کی فنڈنگ روک دی گئی اور اسے ختم کر دیا گیا۔
اگرچہ انسان "موہو" تک نہ پہنچ سکا، لیکن اس منصوبے نے سمندری تحقیق اور تیل نکالنے والی جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کبھی کبھی منزل سے زیادہ وہ راستہ اہم ہوتا ہے جو ہم دریافت کے لیے چنتے ہیں۔
اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

19/12/2025

تصور کریں کہ آپ بحر الکاہل کے وسیع و عریض پانی میں ایک جنگی بحری جہاز پر ہیں، اور اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ ایک اور بہت بڑا بحری جہاز جو آپ ہی کے بیڑے کا حصہ ہے، لمحہ بھر کے لیے اپنی جگہ سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد کسی اور مقام پر دوبارہ نمودار ہو جاتا ہے۔ یہ کسی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں بلکہ 1943 میں امریکہ کی نیوی کے ایک مبینہ تجربے سے جڑا وہ افسانہ ہے جسے "فلاڈیلفیا ایکسپیریمنٹ" (The Philadelphia Experiment) کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ آج بھی سازشی نظریات (conspiracy theories) کی دنیا کا ایک سب سے بڑا اور سنسنی خیز معمہ ہے۔
دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی اور امریکہ نازی جرمنی کے U-boats (آبدوزوں) سے اپنے بحری جہازوں کو بچانے کے لیے دن رات ٹیکنالوجی پر کام کر رہا تھا۔ اسی دوران یہ افواہیں پھیلیں کہ امریکی نیوی نے فلاڈیلفیا نیول شپ یارڈ میں ایک انتہائی خفیہ تجربہ کیا، جس کا مقصد بحری جہازوں کو دشمن کے ریڈار سے "پوشیدہ" بنانا تھا۔ اس مقصد کے لیے طاقتور برقی مقناطیسی (electromagnetic) فیلڈز کا استعمال کیا گیا تاکہ روشنی کو موڑ کر جہاز کو ناقابلِ دید بنایا جا سکے۔ کہانیوں کے مطابق، اس تجربے کے لیے USS Eldridge نامی ڈسٹرائر کو منتخب کیا گیا۔
اکتوبر 1943 میں ایک دن، فلاڈیلفیا کے ساحل کے قریب موجود لوگوں نے حیرت انگیز طور پر یہ دیکھا کہ USS Eldridge ایک سبز نیلی چمک میں لپٹ گیا اور پھر آہستہ آہستہ دھندلا کر مکمل طور پر غائب ہو گیا۔ اور صرف اتنا ہی نہیں، کئی سو کلومیٹر دور نورفولک، ورجینیا میں موجود بحری جہازوں کے عملے نے بھی اسی جہاز کو لمحہ بھر کے لیے وہاں نمودار ہوتے دیکھا۔ یہ جہاز واپس فلاڈیلفیا اپنی جگہ پر ظاہر ہوا، لیکن اس کا دوبارہ نمودار ہونا ایک خوفناک حقیقت لے کر آیا۔
جہاز کے عملے کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ہولناک تھا۔ افواہوں کے مطابق، کچھ ملاح جہاز کے ڈھانچے میں ہی پیوست ہو گئے تھے، جیسے وہ دھات کا حصہ بن گئے ہوں۔ کچھ غائب ہو چکے تھے اور پھر کبھی نہیں ملے۔ دیگر ملاح نفسیاتی طور پر شدید متاثر ہوئے، انہیں متلی اور چکر آتے تھے، اور بعض اوقات وہ بغیر کسی وجہ کے اپنی جگہ سے غائب ہو کر پھر سے نمودار ہو جاتے تھے ("blinked out")۔ سب سے خوفناک دعویٰ یہ تھا کہ کچھ ملاحوں کا جہاز کے ساتھ وقت میں سفر ہو گیا تھا، اور وہ مستقبل یا ماضی میں پہنچ گئے تھے۔
یہ کہانی سب سے پہلے کارل ایم ایلن (Carl M. Allen) نامی ایک شخص نے منظر عام پر لائی، جس نے ایک ماہر فلکیات موریس کے. جیسپ کو خطوط لکھ کر اس تجربے کی تفصیلات بیان کیں اور دعویٰ کیا کہ وہ اس تجربے کا عینی شاہد تھا۔ اس کے بعد سے، یہ کہانی بارہا دہرائی گئی اور اس پر کئی کتابیں لکھی گئیں، ڈاکو مینٹریز بنیں اور ہالی ووڈ کی فلمیں بھی بنائی گئیں۔
امریکی نیوی نے ہمیشہ اس تجربے کی سختی سے تردید کی ہے اور اسے محض ایک من گھڑت افسانہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی تجربہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کوئی ریڈار سے بچنے کا طریقہ دریافت کیا گیا تھا۔ سائنسدان بھی اس بات پر متفق ہیں کہ آج کی سائنسی معلومات کے مطابق کسی ٹھوس چیز کو پلک جھپکتے ہی غائب کرنا یا اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹیلی پورٹ کرنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود، "فلاڈیلفیا ایکسپیریمنٹ" کا پراسرار ہالہ آج بھی برقرار ہے، اور بہت سے لوگ آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ حکومتیں ایسی سائنسی حقیقتوں کو چھپاتی ہیں جو عام انسان کے تصور سے باہر ہیں۔
یہ کہانی ہمیں انسانی تجسس، خوف اور سائنس کی لا محدود طاقت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے – کہ کس طرح ایک سائنسی غلط فہمی یا محض ایک افواہ بھی وقت کے ساتھ ایک ایسا سنسنی خیز معمہ بن جاتی ہے جو کئی نسلوں تک لوگوں کے ذہنوں پر چھایا رہتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حقیقت اکثر فکشن سے بھی زیادہ عجیب ہو سکتی ہے۔

اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

19/12/2025

کیا آپ جانتے ہیں کہ پہلا سافٹ ویئر بگ ایک اصلی کیڑا تھا؟
ٹیکنالوجی کا وہ فیکٹ جو کوڈنگ کی دنیا بدل گیا!
________________________________________
آج کل، جب کوئی سافٹ ویئر یا کمپیوٹر پروگرام صحیح طریقے سے کام نہیں کرتا، تو ہم کہتے ہیں کہ اس میں کوئی "بگ" (Bug) آ گیا ہے۔ یہ اصطلاح پوری ٹیکنالوجی کی دنیا میں عام استعمال ہوتی ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ لفظ "بگ" (جس کا مطلب کیڑا ہے) کہاں سے آیا؟
یہ ایک ایسی سچی اور حیرت انگیز تاریخی حقیقت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ کمپیوٹر کی خرابیوں کو بیان کرنے کے لیے اس لفظ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔
گریس ہوپر اور اصلی کیڑا
یہ واقعہ 9 ستمبر 1947 کا ہے، اور اس کا سہرا امریکی کمپیوٹر سائنسدان اور بحریہ کی ایڈمرل گریس ہوپر (Grace Hopper) کو جاتا ہے۔
اس وقت، گریس ہوپر ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک ابتدائی الیکٹرو مکینیکل کمپیوٹر مارک II (Mark II) پر کام کر رہی تھیں۔ یہ کمپیوٹر ایک بڑے کمرے جتنا تھا اور اس میں الیکٹرانک سوئچنگ کے لیے مکینیکل ریلے (Relays) استعمال ہوتے تھے۔
ایک دن، مارک II کمپیوٹر میں غیر متوقع خرابی پیدا ہو گئی اور وہ مسلسل غلط نتائج دینے لگا۔ ٹیم نے کافی دیر تک مشین کو چیک کیا، یہاں تک کہ انہوں نے مشین کے اندرونی حصے کو کھولا۔ وہاں انہیں ایک چھوٹی سی حیران کن چیز ملی:
1. ایک اصلی کیڑا (Moth): انہیں مشین کے ایک ریلے کے اندر ایک چھوٹا سا کیڑا (Moth) مرا ہوا ملا، جو شارٹ سرکٹ کی وجہ بن رہا تھا اور مشین کو صحیح طریقے سے کام کرنے سے روک رہا تھا۔
2. "بگ" کی پیدائش: ٹیم نے اس کیڑے کو مشین کے لاگ بُک (Logbook) میں ٹیپ کر دیا اور اس کے ساتھ مزاحیہ انداز میں ایک نوٹ لکھا: "First actual case of bug being found" (حقیقی طور پر پہلا کیڑا ملا)۔
اس دن سے، کمپیوٹر اور سافٹ ویئر میں کسی بھی غیر متوقع خرابی یا ایرر کو "بگ" (Bug) کہا جانے لگا، اور خرابی کو دور کرنے کے عمل کو "ڈی بگنگ" (Debugging) کہا جانے لگا۔
ایک اصطلاح جو تاریخ بن گئی
اگرچہ "بگ" کی اصطلاح ٹیکنالوجی کی آمد سے قبل بھی مشینوں میں خرابیوں کے لیے استعمال ہوتی تھی (تھامس ایڈیسن نے بھی یہ لفظ استعمال کیا تھا)، لیکن گریس ہوپر کے مارک II کمپیوٹر میں اس کیڑے کی دریافت نے اس اصطلاح کو رسمی طور پر کمپیوٹر انڈسٹری میں مستحکم کر دیا۔
گریس ہوپر، جنہیں "گرینڈما کوبول" (COBOL زبان کی تخلیق میں کردار کی وجہ سے) بھی کہا جاتا ہے، نہ صرف پروگرامنگ کی دنیا کی ایک بانی شخصیت تھیں، بلکہ وہ اس مزاحیہ تاریخی واقعے کے لیے بھی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
اگلی بار جب آپ کا فون ہینگ ہو جائے اور آپ کہیں کہ "بگ آ گیا"، تو یاد کیجئے کہ یہ اصطلاح کسی خیالی چیز سے نہیں بلکہ ایک ایسے اصلی کیڑے سے آئی تھی جو ایک کمرے کے سائز کے کمپیوٹر میں گھس گیا تھا۔ ٹیکنالوجی کا سفر واقعی دلچسپ اور مزاحیہ واقعات سے بھرا ہے!
اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

19/12/2025

جب امریکہ نے بادلوں کو 'ہتھیار' بنا کر جنگ جیتنے کی کوشش کی: "آپریشن پوپائے"

تاریخ میں طاقت کے نشے میں انسان نے کئی بار قدرت کو چیلنج کیا ہے، لیکن ویتنام جنگ کے دوران امریکہ نے جو قدم اٹھایا وہ سائنس اور جنگی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا خفیہ مشن تھا جس کا مقصد گولیوں یا بموں سے نہیں، بلکہ بارش سے دشمن کو شکست دینا تھا۔ اس مشن کا نام تھا "آپریشن پوپائے" (Operation Popeye)۔

بادلوں کی 'کاشت' اور مصنوعی بارش
1967 سے 1972 کے درمیان، امریکی فضائیہ نے ویتنام کے اوپر ہزاروں پروازیں کیں۔ ان جہازوں کا کام دشمن پر بم گرانا نہیں تھا، بلکہ وہ بادلوں کے درمیان ایک خاص کیمیکل "سلور آئیوڈائڈ" (Silver Iodide) چھڑکتے تھے۔ اس عمل کو "کلاؤڈ سیڈنگ" کہا جاتا ہے، جس کا مقصد وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ بارش کروانا تھا۔

امریکہ چاہتا تھا کہ اتنی شدید بارش ہو کہ:

راستے بند ہو جائیں: دشمن کے سپاہیوں (ویت کانگ) کے سپلائی روٹس اور کچے راستے کیچڑ میں بدل جائیں۔

پل ٹوٹ جائیں: سیلابی صورتحال پیدا کر کے پلوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا جائے۔

جنگ کا دورانیہ بڑھ جائے: مون سون کے سیزن کو مصنوعی طور پر طویل کر دیا جائے تاکہ دشمن کی نقل و حرکت محدود ہو جائے۔

"کیچڑ بناؤ، جنگ نہیں"
اس مشن کا سلوگن تھا "Make mud, not war" (کیچڑ بناؤ، جنگ نہیں)۔ پانچ سال تک جاری رہنے والے اس آپریشن کے دوران امریکہ نے تقریباً 2,600 سے زائد بار بادلوں پر یہ کیمیکل چھڑکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ویتنام کے کچھ علاقوں میں مون سون کا دورانیہ 30 سے 45 دن تک بڑھ گیا، جس سے وہاں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔

جب دنیا کو اس کا پتہ چلا
یہ آپریشن اتنا خفیہ تھا کہ خود امریکی صدر کے قریبی مشیروں کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ جب 1971 میں ایک صحافی نے اس راز سے پردہ اٹھایا، تو پوری دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ موسم کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اخلاقی طور پر انتہائی غلط ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف فوج بلکہ عام شہری، کسان اور قدرتی ماحول بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایک نیا قانون بنایا گیا جس کے تحت اب کسی بھی جنگ میں موسم یا ماحول کو بطور ہتھیار استعمال کرنا عالمی جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان اپنی جیت کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے اور کیسے وہ فطرت کے توازن کو بگاڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔

اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

18/12/2025

جب انسانوں نے سمندر کی گہرائی میں بستیاں بسانے کی کوشش کی: 'کونسہیلف' کا وہ انوکھا تجربہ جس نے دنیا کو حیران کر دیا
ہم اکثر خلا میں بستیاں بسانے اور مریخ پر جانے کی باتیں کرتے ہیں، لیکن 1960 کی دہائی میں انسان نے ایک ایسا تجربہ کیا تھا جو اس سے بھی زیادہ پراسرار اور مشکل تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مشہور فرانسیسی محقق جیک کوسٹو (Jacques Cousteau) نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان سمندر کی تہہ میں بالکل اسی طرح رہ سکتا ہے جیسے زمین پر۔ اس مشن کو "کونسہیلف" (Conshelf) کا نام دیا گیا۔

سمندر کے نیچے پہلا 'گھر'
1962 میں، جیک کوسٹو نے سمندر کی سطح سے 33 فٹ نیچے ایک دھاتی سلنڈر نصب کیا جس کا نام "کونسہیلف I" تھا۔ دو غوطہ خوروں نے اس چھوٹے سے گھر میں ایک ہفتہ گزارا۔ یہ کوئی عام قید نہیں تھی، بلکہ اس گھر میں ٹیلی ویژن، ریڈیو اور یہاں تک کہ ایک لائبریری بھی موجود تھی۔ وہ روزانہ سمندر کی تہہ میں باہر نکلتے، تحقیق کرتے اور پھر اپنے اس انوکھے گھر میں واپس آ جاتے۔

سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سمندر کے دباؤ میں رہنے کے باوجود ان کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا، بلکہ ان کے زخم زمین کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بھرنے لگے۔

جب غوطہ خوروں کی آوازیں بدل گئیں
کونسہیلف کے اگلے مرحلے (Conshelf II) میں، بحیرہ احمر کی تہہ میں ایک پوری "کالونی" بنائی گئی جس میں پانچ افراد نے ایک ماہ گزارا۔ یہاں زندگی بہت عجیب تھی:

آواز کا بدلنا: سمندر کے اندر ہوا کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں رہنے والوں کی آوازیں باریک ہو کر "مکی ماؤس" جیسی ہو جاتی تھیں۔

ذائقہ اور بو: زیادہ دباؤ کی وجہ سے انسانی زبان کے ذائقہ چکھنے کی حس بدل گئی اور بو محسوس کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی۔

بالوں کا آہستہ بڑھنا: ایک عجیب مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ سمندر کی تہہ میں رہنے والوں کے سر کے بال اور داڑھی زمین کے مقابلے میں بہت آہستہ بڑھنے لگی۔

ہم سمندر کے نیچے کیوں نہیں بس سکے؟
اگرچہ یہ تجربات کامیاب رہے اور جیک کوسٹو نے ثابت کر دیا کہ انسان سمندر کے نیچے رہ سکتا ہے، لیکن یہ منصوبہ بہت مہنگا تھا۔ اس کے علاوہ، وہاں سورج کی روشنی کی کمی اور مسلسل دباؤ نے انسانوں پر نفسیاتی اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے۔ آخر کار، سائنسی دنیا کی توجہ سمندر سے ہٹ کر خلا کی طرف چلی گئی اور "سمندری شہروں" کا خواب ادھورا رہ گیا۔

آج بھی کونسہیلف کے وہ زنگ آلود ڈھانچے سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں، جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسان نے ایک بار لہروں کے نیچے اپنی دنیا بسانے کی سنجیدہ کوشش کی تھی۔

مزید دلچسپ معلومات کے لئے پیج کو لائک یا فالو کریں۔

Indirizzo

Bolzano

Sito Web

Notifiche

Lasciando la tua email puoi essere il primo a sapere quando معلومات pubblica notizie e promozioni. Il tuo indirizzo email non verrà utilizzato per nessun altro scopo e potrai annullare l'iscrizione in qualsiasi momento.

Contatta L'azienda

Invia un messaggio a معلومات:

Condividi