20/12/2025
“یہ سبق مجھے میرے والد نے سکھایا تھا۔ میں آج بھی دن رات ان کے لیے شکر ادا کرتا ہوں اور پورے خلوص سے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔”
وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا، رومال نکالا، ماتھے سے پسینہ پونچھا اور پھر بولنا شروع کیا۔
میرے والد شدید سردی کے عارضے میں مبتلا تھے۔ گھر کے اندر بھی اوور کوٹ اوڑھ کر گھومتے رہتے تھے۔ جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی دھوپ میں بیٹھے رہتے، یہاں تک کہ ان کی جلد جل کر سیاہ ہو جاتی، مگر سردی کا احساس کم نہ ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں بھی وہ لحاف اوڑھ کر سوتے، پاؤں میں دوہری جرابیں پہنتے اور صبح و شام ہیٹر کے سامنے بیٹھنا ان کی عادت تھی۔ سردیوں کا موسم ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اکتوبر آتے ہی وہ کانپنا شروع کر دیتے تھے، اسی لیے ہم ہر سال انہیں اکتوبر سے مارچ تک دبئی منتقل کر دیتے۔ وہ چھ ماہ دبئی اور چھ ماہ لاہور میں گزارتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کڑی آزمائش کے باوجود ان پر بے حد فضل کیا تھا۔ وہ ارب پتی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے، وہ نفع میں بدل جاتی۔ دنیا کے نامور ڈاکٹروں سے ان کا علاج ہوتا رہا، مگر یہ خوفناک بیماری ان کا پیچھا نہ چھوڑ سکی۔ عمر کے آخری حصے میں وہ کچھ سنکی سے ہو گئے تھے۔ روزانہ مجھے اپنے پاس بٹھاتے، میری ٹھوڑی تھام لیتے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتے:
“عبدالمالک، مجھے موت سے بہت خوف آتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ میں چھ فٹ زمین کے نیچے ہوں گا، ہر طرف اندھیرا اور سردی ہو گی، اور میرے جسم پر صرف دو چادریں ہوں گی، تو میری روح لرز جاتی ہے۔”
پھر وہ مجھ سے پوچھتے، “عبدالمالک، کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟”
میں ہر بار فوراً جواب دیتا، “ابا جی، آپ حکم کریں، میں اپنی جان بھی حاضر کر دوں گا۔”
وہ بڑی عاجزی سے کہتے، “بیٹا، کسی عالم سے فتویٰ لے آؤ اور مجھے گرم کپڑوں میں دفن کر دینا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم میری قبر کو گرم رکھنے کا کوئی انتظام ضرور کرنا۔”
میں فوراً ہاں کر دیتا۔ میرے دل میں یہ بات پکی تھی کہ کسی نہ کسی عالم سے اجازت لے لوں گا اور والد کو اوور کوٹ میں دفن کرا دوں گا۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ ان کی قبر گرم اینٹوں سے بنوا دوں گا۔ ہم صاحبِ حیثیت لوگ تھے۔ میں اکثر دل ہی دل میں سوچتا کہ اگر کوئی عالم راضی نہ ہوا تو فتویٰ خرید لوں گا۔ جتنی بھی رقم لگے، میں دینے کو تیار تھا، مگر اپنے والد کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔
وہ ایک لمحے کے لیے رکا، ٹھنڈی سانس بھری اور بولا:
“مگر میں ناکام ہو گیا۔”
میرے والد سن 2000 میں انتقال کر گئے۔ ہم نے انہیں گرم پانی سے غسل دیا، اوور کوٹ پہنایا اور اس کے اوپر کفن لپیٹ دیا۔ جب مولوی صاحب نے اوور کوٹ دیکھا تو انہوں نے جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے ہر طرح کی منت سماجت کی، لالچ بھی دیا، مگر وہ نہ مانے۔ تنگ آ کر میں نے انہیں دھمکی بھی دے دی، تو وہ جنازہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس کے بعد ہم نے کئی مولویوں سے رابطہ کیا، مگر کوئی تیار نہ ہوا۔ آخرکار میں نے خود جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ جب میں والد کی میت کے سامنے کھڑا ہوا تو لوگوں نے میرے پیچھے جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا۔ میں نے ان سے بھی بہت منتیں کیں، لیکن کسی نے ساتھ نہ دیا۔
پھر قبر کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ میں قبر کے اندر انسولیشن کروانا چاہتا تھا، مگر لوگوں نے سخت اعتراض شروع کر دیا۔ پورے شہر میں یہ بات پھیل گئی کہ قبر ہمیشہ اندر سے کچی ہوتی ہے۔ فرعونوں کے سوا آج تک کسی کی قبر اندر سے پکی نہیں بنی۔ یہ بدعت ہے اور ہم اس بدعت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
میں مکمل طور پر بے بس ہو گیا۔ بالآخر مجھے لوگوں کی بات ماننا پڑی۔ والد کا اوور کوٹ بھی اتارنا پڑا اور قبر بھی عام طریقے سے بنانی پڑی۔ انتہائی دکھی دل کے ساتھ میں نے اپنے والد کو دفن کیا اور دیر تک قبر کے پاس بیٹھ کر روتا رہا۔ جب بھی یہ خیال آتا کہ میں اپنے والد کی ایک معمولی سی خواہش بھی پوری نہ کر سکا، تو میرا گلا رندھ جاتا۔
اس کے بعد جب بھی میں والد کی قبر پر جاتا، شرمندگی سے سر جھکا لیتا اور ان سے معافی مانگتا۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک چلتا رہا۔
ایک رات میں گہری نیند میں تھا کہ والد خواب میں آ گئے۔ وہ سفید کفن میں لپٹے ہوئے تھے، شدید سردی میں کانپ رہے تھے اور مجھے پکار رہے تھے:
“عبدالمالک… عبدالمالک… اٹھو اور میری بات سنو۔”
میں نے خواب میں ان کی طرف دیکھا۔ وہ بولے:
“بیٹے، میں تمہیں زندگی کی وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں جو مجھے مرنے کے بعد سمجھ آئی۔”
میں نے عرض کیا، “ابا جی، میں پوری توجہ سے سن رہا ہوں، آپ فرمائیں۔”
انہوں نے کہا:
“بیٹا، میں ارب پتی تھا۔ چیک پر خود دستخط بھی نہیں کرتا تھا، میرے منیجر کرتے تھے۔ میں زمینوں اور جائیدادوں کا مالک تھا، اور مجھے تم جیسے نیک بیٹے بھی ملے تھے۔ مگر یہ سب مل کر بھی میری ایک خواہش پوری نہ کر سکے۔ نہ میں گرم کپڑوں میں دفن ہو سکا، نہ گرم قبر میں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ انسان کی ساری دولت اور ساری اولاد مل کر بھی مرنے کے بعد اس کے کام نہیں آتی۔”
انہوں نے بات جاری رکھی:
“یہ سب اگر مجھے قبر سے پہلے ایک اوور کوٹ نہ پہنا سکے، تو آگے کے سفر میں میرا کیا ساتھ دیتے؟ اسی لیے میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اصل دولت وہ ہے جو مرنے کے بعد بھی فائدہ دے، اور اصل اولاد وہ ہے جو موت کے بعد بھی نفع پہنچائے۔”
میں نے کہا، “ابا جی، آپ کی بات درست ہے، مگر میں پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔”
وہ مسکرائے اور بولے:
“اپنی دولت اور اپنی اولاد کو صالح بنا دو۔ یہ مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آئیں گے، ورنہ یہی چیزیں تمہارے امتحان میں اضافہ کرتی رہیں گی۔”
میں خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔ وہ بولے:
“میں نے ساری زندگی دولت کمائی۔ اس کا ننانوے فیصد دنیا میں چھوڑ آیا، اور وہ حصہ میرے بعد کسی کام کا ثابت نہ ہوا۔ مگر میں نے اس دولت کے ایک فیصد سے یتیم اور غریب بچوں کے لیے اسکول بنایا تھا۔ وہ ایک فیصد آج بھی میرے لیے نفع بخش ہے۔”
انہوں نے مزید کہا:
“اللہ نے مجھے تم سمیت چھ بچے دیے۔ میں نے سب کو عملی زندگی کے لیے تیار کیا۔ یہ سب دنیا دار ہیں، مجھ سے بھی زیادہ کامیاب ہیں اور خوب پیسہ کما رہے ہیں، مگر آج ان میں سے کوئی میرے کام نہیں آ رہا۔ ہاں، میں نے اپنے خاندان کی ایک یتیم بچی کو تعلیم دلوائی تھی۔ وہ ڈاکٹر بن گئی، اور ہفتے میں دو دن غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ ان دو دنوں کا فائدہ مجھے مسلسل مل رہا ہے۔ وہ بچی اور اس کی خدمت میرے لیے صالح ثابت ہو رہی ہے۔”
پھر انہوں نے نصیحت کی:
“میرا مشورہ ہے کہ تم اپنی دولت کا ایک حصہ اپنی ذات پر خرچ کرو اور باقی کو صالح بنا دو۔ یوں تم مرنے کے بعد بھی آسودہ رہو گے۔ اپنی اولاد کو کاروبار کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی شامل کرو۔ یہ صالح اولاد تمہیں صدیوں تک فائدہ دیتی رہے گی۔”
یہ کہہ کر میرے والد کھڑے ہوئے، میرے ماتھے کو چوما اور چلے گئے۔ اسی لمحے میری آنکھ کھل گئی اور میں جاگ کر بیٹھ گیا۔
وہ دوبارہ رکا، لمبا سانس لیا، ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
“بس اسی دن میرے والد نے مجھے زندگی کی صحیح سمت دکھا دی۔ میں نے دولت اور اولاد کو صالح بنانے کا آغاز کر دیا۔ میں نے اپنی کمائی کو ترتیب دیا، دس فیصد الگ کیا، اسے پراپرٹی میں لگایا تاکہ اس کے کرائے سے ہم آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ باقی دولت میں نے اللہ کے نام پر وقف کر دی۔”
وہ بولا:
“میں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں کنویں کھدوائے، اسکول اور ڈسپنسریاں بنوانا شروع کیں۔ دولت کا ایک حصہ یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی مدد کے لیے مخصوص کر دیا۔ یوں میری دولت رفتہ رفتہ صالح بنتی چلی گئی۔”
اس نے مزید کہا:
“اب میں اپنی اولاد کو بھی فلاحی کاموں کی تربیت دے رہا ہوں، تاکہ وہ بھی صالح بنیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن یہی اعمال میری قبر کے لیے ٹھنڈک کا سبب بنیں گے۔”
وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا، “آپ بچوں کو صالح کیسے بنا رہے ہیں؟”
وہ مسکرایا اور بولا:
“میں انہیں یہ سکھا رہا ہوں کہ ہماری کامیابی ہمارا اثاثہ ہوتی ہے۔ جب تک ہم اس اثاثے کا ایک بڑا حصہ صدقہ نہیں کرتے، ہم صالح نہیں بنتے۔”
اس نے وضاحت کی:
“اگر آپ انجینئر ہیں تو اپنی انجینئرنگ کا کچھ حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے رکھیں، اور باقی لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو مفت علاج کو اپنا صدقہ بنا لیں۔ اور اگر آپ تاجر ہیں تو اپنی تجارت کو منافع خوری، ملاوٹ اور بے ایمانی سے پاک کریں۔ یوں آپ صالح بن جائیں گے، اور اس کا فائدہ آپ کو بھی ہو گا اور آپ کے والدین کو بھی۔”
وہ دوبارہ خاموش ہوا۔ میں نے پوچھا، “اب تک اس طرزِ زندگی کا آپ کو کیا فائدہ ملا؟”
وہ مسکرا کر بولا:
“میں اس زندگی میں مطمئن ہوں، اور میرے والد موت کے بعد مطمئن ہیں۔ وہ اکثر خواب میں اوور کوٹ پہنے آتے ہیں، میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بلند آواز میں کہتے ہیں: ‘شاباش عبدالمالک!’ اور میں خوشی سے بھر جاتا ہوں۔” (جاوید چودھری کے کالم سے اقتباس)