29/07/2025
دنیا کی سب سے بڑی مخلوق وہیل اپنی جسامت کے سبب ہی حیرت کا باعث نہیں، بلکہ اس کے جسمانی افعال بھی کائناتی نظام کے ایک نہایت دقیق توازن کا مظہر ہیں۔۔🐋
آج سائنس یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہیل کا پیشاب اور فضلہ، سمندر کے لئے کسی قدرتی نعمت سے کم نہیں بلکہ یوں کہیے کہ"آبِ حیات"ہے۔۔
تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک بڑی وہیل روزانہ تقریباً 950 لیٹر پیشاب خارج کرتی ہے، اور یہ پیشاب صرف ایک فضلہ نہیں بلکہ سمندر کی زندگی کے لیے ایک قیمتی نامیاتی کھاد کا کردار ادا کرتا ہے۔۔
یہ پیشاب اورفضلہ سمندری پانی میں اہم منرلز،یعنی نائٹروجن، فاسفورس اور آئرن مہیا کرتےہیں، جو پانی میں موجود فائیٹوپلینکٹن (سمندری خوردنی پودے) کی افزائش کیلیے نہایت ضروری ہوتےہیں۔۔
یہ فائیٹوپلینکٹن دراصل سمندر کی بنیاد ہیں۔یہی وہ خوردنی جاندار ہیں جونہ صرف سمندری مخلوق کی خوراک بنتےہیں بلکہ بڑےپیمانےپرکاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے زمین کی فضا کو صاف کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وہیل ہر سال سمندر میں46,000 ٹن بایو ماس اور 4,000 ٹن نائٹروجن تقسیم کرتی ہیں۔۔
ان کی موجودگی کی وجہ سے سمندرسالانہ 18,000 ٹن کاربن فضا سے جذب کرنے کے قابل ہوتا ہے۔۔
یعنی ایک وہیل، جو خود نہ کچھ بولتی ہے، نہ زمین پر رہتی ہےمگر اسکی روزمرہ کی جسمانی سرگرمیاں بھی ماحولیاتی توازن قائم رکھنےکے لیے کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔۔
یہ سب کیا محض حادثاتی ارتقاء کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟کیا اتنا زبردست باہمی ربط رکھنے والا نظام، جس میں پانی، فضا، نباتات، اور جانور سب ایک دوسرے سے جڑے ہوں خود بخود بن سکتا ہے؟
یقیناً نہیں!
قرآن مجید میں بھی اللہ کی تخلیق کردہ نشانیوں پر غور کرنےکی بارہا دعوت دی گئی ہے۔وہیل مچھلی کی مثال ایسی ہی ایک نشانی ہے جو ہمیں سکھاتی ہےکہ اللہ کی کوئی مخلوق، چھوٹی ہو یا بڑی، بیکار نہیں۔ یہاں ہر ذرے کو مقصد دیا گیا ہے۔۔