MGG

MGG My name is Tauqeer Baig. I’m from Kashmir (Pakistan), and now living in Italy. I write poetry and share my thoughts about the social issues .

Writing helps me express what I feel and what I see around me.

01/06/2025

میرے اپنے مجھے کاٹتے جا رہے ہیں
میں شجر ہوں، مجھے چھاؤں دیتے جا رہے ہیں
۔ توقیر بیگ

اٹھو کہ وقت تمہیں آزمانے آیا ہےتمہارا خون بھی اب امتحان میں آیا ہےیہ جبر، یہ لوڈشیڈنگ، یہ مہنگائی کی لہریہ غاصبوں کی حکو...
27/05/2025

اٹھو کہ وقت تمہیں آزمانے آیا ہے
تمہارا خون بھی اب امتحان میں آیا ہے

یہ جبر، یہ لوڈشیڈنگ، یہ مہنگائی کی لہر
یہ غاصبوں کی حکومت، یہ اندھیروں کا قہر

اگر نہ روکو گے اب، تو کل نہیں بچے گا
یہ خواب، یہ خاک، یہ جھنڈا کہیں نہیں بچے گا

پس آؤ! یک زباں ہو کر اعلان کرو
کہ ہم ہی اہلِ وفا ہیں، حق دو یا دفن کرو
۰ توقیر بیگ

13/05/2025

دن کی بیزار سی خاموش فضا میں اکثر
میری آواز کو سنتی ہے فقط ماں ہی
توقیر بیگ

27/04/2025
26/04/2025

ممکن کے خود خاموشی وسنجیدگی میں صدا رہیں گے
یاد رکھنا بچوں کے جوانی میں بال سفید نا ہوں گے
ہم کے اب اداسی کو ایسی مات دیں گے
کہ ہماری سات نسلوں میں بچے اداس نہ ہوں گے توقیر بیگ۔


12/04/2025

~۔ سرپرست

نہیں چلتے ساتھ کہ طورِ دنیا سے بہت انجان ہوں
کِسے بتاوُں کہ میں اِک قیدی فرضِ ذمہ رہا ہوں میں

یہ زندگی تو لگی ہے جیسے بجھی ہوئی چراغاں کی لَو
نہ روشنی کا سہارا رکھا، نہ اندھیروں سے ڈرتا رہا ہوں میں

کبھی جو پوچھو تو کہتا ہوں "سب ٹھیک ہے" مگر حقیقت میں
کِسی زخم کی چُپکاں ہوں، کِسی سانحے کا نشانہ رہا ہوں میں

وہ کہتے ہیں "غمِ دنیا کو اپنے سر پہ مت لو اُٹھا"
مگر یہ سر ہی تو تھا جس پہ سب کا بوجھ اُٹھا رہا ہوں میں
۔ توقیر بیگ




کچھ نئے اشعار !؛-  سوچتا ہوں کے وہ کھول کے پنکھ آزاد  تو پھرے   پھر  درندا صفت   آدم زاد  سے   ڈر  لگتا  ہے  جی کرتا ہے ...
23/03/2025

کچھ نئے اشعار !؛-

سوچتا ہوں کے وہ کھول کے پنکھ آزاد تو پھرے
پھر درندا صفت آدم زاد سے ڈر لگتا ہے

جی کرتا ہے ہو میرا مدفن تو سر زمینِ اجداد پر
پھر بھائی بھائی کو لڑا دے ایسی جائیداد سے ڈر لگتا ہے

دیکھ کر بچوں میں پکتی بھوک مدد کی فریاد تو کرتا ہوں
پھر کرنا پڑے سودا خود ضمیر کا ایسی امداد سے ڈر لگتا ہے

توقیر سچ پڑھتا ہوں جو رشتوں کی کتاب تو
پھر اپنے جیسی اولاد سے ڈر لگتا ہے


04/02/2025

ماں نے اُسے دیکھا، مسکرا کر دیا جواب
بیٹا!محبت ہی ہے زندگی کا حساب
رکھو ہر سانس میں خوشبو، بنو ہر لمحہ اک چراغ،
کہاں سے آئے ہو؟ کیا تھے ؟ نہیں تمہاری پہچان
جو لمحے ہیں جیو ، وہی ہے اصل داستان

یہ دنیا اک دریا، تم موج کی مانند بہو،
ہر پل میں جیو، ہر پل میں رہو
منزل نہیں، سفر کی حقیقت سمجھو،
زندگی سوال نہیں، اک خوبصورت جواب ہے،
جو دل سے دیکھو وہی ماہتاب ہے
- توقیر بیگ

توقیر  میں  متلاشی   ہوں  ایسے  گھر کا    جہاں    جب  بھی  دَر   کھُلے  وہ   پوچھے ،  کیا ہم  ہیں؟
18/10/2024

توقیر میں متلاشی ہوں ایسے گھر کا جہاں
جب بھی دَر کھُلے وہ پوچھے ، کیا ہم ہیں؟

انسان کتنا ہی کتابیں پڑھ کے علم حاصل کر لے وہ مکمل طور پر اپنے سے معاشرے کی بو نہیں مٹا سکتا ہے اور یہ  سکالر اور مفکر ب...
07/10/2024

انسان کتنا ہی کتابیں پڑھ کے علم حاصل کر لے وہ مکمل طور پر اپنے سے معاشرے کی بو نہیں مٹا سکتا ہے اور یہ سکالر اور مفکر بھی ہمارے اِسی معاشرے میں پروان چڑے ہیں جہاں گھر سے لے کر سکول تک بچوں کو خلافِ روایت سوال کرنے پر چُپ بیٹھنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ گویا غلطی اِن بچیوں کی ہی ہے جو اِس معاشرے میں اپنے سوالات رکھ بیٹھیں۔🙂


06/10/2024

• گئے دن
غور و فکر کر کے کہیں جب خود سے ملتا ہوں
تو یادیں چل کر کہیں بچپن میں جا کر کھِلتا ہوں
وہ دن کے جب تھی دنیا ایک خواب سا نگر
نہ کوئی غم ، نہ کوئی فکر ، تھا ہر پل سہانا سفر
بے خوف بے پرواہ جہاں سب اپنا سا تھا
ہر دن نیا تماشا ، ہر پل ایک جادو سا تھا

گلیوں میں دوڑنا ، کبھی درختوں پر چڑھنا
کبھی دوستوں کے سنگ زمین پر ہی پچھڑنا
کاغذ کی کشتیاں ، یہی بارش کا پانی تھا
اِنہی کھڑکیوں سے نِکلنا دل کی خوشی کا بہانا تھا
وہ خواب، وہ باتیں ، وہ قصے ، وہ دنیا نرالی تھی
زمہ داریوں سے بے خبر ، ہر فکر سے خالی تھی

چڑھیوں کی چہچاہٹ ، اُن کے گھونسلے میں زامن
پہچان میں تھے پھولوں کی مہک اور خوشبوئے چمن
کہیں وہ خاک کے گھروندے، کہیں وہ تتلیوں کا پیچھا
کہیں بارشوں میں بھیگنا ، کہیں قوس و قزح کا تماشا

کھیلوں کی وہ مستیاں ، وہ شور شرابے تھے
معصومیت کے عالم میں دل کے عجب ارادے تھے
ٹوٹی سی کھٹیا پر سوچتا تھا سب کا کمرہ ،محل بناؤں گا
بس بڑا ہو جاؤں آنگن میں دولت بچھاؤں گا

کون ہیں ساکت چہرے یاداشت پر زور ڈالتا ہوں
شگوفے تیرے یار تھے توقیر پھر یادوں میں چمکتا ہوں
غور و فکر کر کے کہیں جب خود سے ملتا ہوں
تو یادیں چل کر کہیں بچپن میں جا کر کھِلتا ہوں
۰۔ توقیر بیگ



06/10/2024

Culture isn’t about objects or rituals, it’s about survival. It’s not about keeping everything exactly as it was, but about carrying forward the strength and resilience of who we are. Are we afraid of change because we think our identity will be lost? Or are we afraid that we haven’t yet truly understood what our identity is? This festival isn’t a distraction from our culture, it’s a reflection of it — dynamic, alive, evolving. Do you think freezing our culture in time would make it any more authentic, or would it just make it a relic of something that used to exist?


Sardar Naeem Farooq 👏👏👏

Indirizzo

Rome

Sito Web

Notifiche

Lasciando la tua email puoi essere il primo a sapere quando MGG pubblica notizie e promozioni. Il tuo indirizzo email non verrà utilizzato per nessun altro scopo e potrai annullare l'iscrizione in qualsiasi momento.

Contatta L'azienda

Invia un messaggio a MGG:

Condividi