
22/04/2025
** دل کی دھڑکن**
سردیوں کی ایک شام تھی، ہوا میں خوشبو تھی اور چہرے پر ہلکی سی ٹھنڈک۔ عمار لاہور کے ایک پارک میں اکیلا بیٹھا تھا، کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس کی نظر اکثر کتاب سے اٹھ کر درختوں کے پیچھے ڈوبتے سورج پر ٹک جاتی۔ وہ اپنی زندگی سے بیزار تھا—روٹین، کام، گھر، اور پھر وہی خالی پن۔
اسی لمحے ایک ہلکی سی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ "معاف کیجیے گا، کیا یہ سیٹ خالی ہے؟"
عمار نے نظر اٹھائی تو ایک لڑکی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے، اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ مسکرائی اور بولی، "میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟"
عمار نے جلدی سے اپنی کتاب اٹھائی اور اشارہ کیا۔ "جی، بالکل۔"
لڑکی نے اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر اپنا اسکارف درست کیا۔ "شکریہ۔ میں زینب ہوں۔"
"عمار۔" اس نے مختصر سا جواب دیا۔
زینب نے اس کی کتاب کی طرف دیکھا۔ "یہ کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟"
"یہ غالب کے خطوط ہیں۔"
زینب کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔ "واہ! میں بھی شاعری بہت پسند کرتی ہوں۔"
اور پھر وہ باتوں میں کھو گئے۔ شام ڈھلتی گئی، ستارے چمکنے لگے، لیکن دونوں کو وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔
اس دن کے بعد عمار اور زینب اکثر پارک میں ملتے۔ کبھی کتابیں پڑھتے، کبھی شاعری سناتے، کبھی زندگی کے بارے میں بات کرتے۔ عمار کو زینب کی باتیں سننے کا انتظار رہتا۔ وہ جب بھی مسکراتی، عمار کا دل ایک عجیب سی دھڑکن محسوس کرتا۔
ایک دن زینب نے پوچھا، "عمار، تم نے کبھی محبت کی ہے؟"
عمار نے گہری سانس لی۔ "نہیں... یا شاید میں سمجھ نہیں پایا۔"
زینب مسکرائی۔ "مجھے لگتا ہے محبت وہ احساس ہے جو بغیر بتائے سمجھ آ جاتا ہے۔"
عمار نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اپنا دل دھڑکتا محسوس کیا۔
پھر ایک دن زینب نے بتایا کہ اس کا خاندان کراچی شفٹ ہو رہا ہے۔ عمار کا دل ٹوٹ گیا، لیکن اس نے اپنے جذبات چھپا لیے۔
"تمہاری دوستی میری زندگی کی سب سے خوبصورت تحفہ تھی،" زینب نے کہا۔
عمار نے صرف اتنا کہا، "تمہیں یاد رکھوں گا۔"
سالوں بعد، عمار ایک مشہور مصنف بن چکا تھا۔ اس کی کتابیں لاکھوں لوگوں کے دل چھو رہی تھیں، لیکن اس کا اپنا دل اب بھی اداس تھا۔ ایک دن وہ کراچی کے ایک ادبی میلے میں مدعو کیا گیا۔
میلے میں گھومتے ہوئے اس کی نظر ایک کتاب کے اسٹال پر پڑی۔ وہاں ایک لڑکی کتابیں سجا رہی تھی۔ اس کے بال اب بھی لمبے تھے، آنکھوں میں وہی چمک تھی۔
"زینب؟" عمار نے حیرت سے پوچھا۔
زینب نے مڑ کر دیکھا اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "عمار؟ واقعی تم ہو؟"
اور پھر وقت رک سا گیا۔ دونوں کے درمیان سالوں کی دوری ایک لمحے میں ختم ہو گئی۔
اس رات وہ دونوں ایک کیفے میں بیٹھے تھے۔ زینب نے کہا، "تمہاری کتابیں پڑھی ہیں میں نے۔ تم نے کبھی لکھا ہی نہیں کہ تمہیں کس چیز کی کمی تھی۔"
عمار نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ "کیونکہ وہ چیز تم تھیں۔"
زینب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ "میں نے ہمیشہ تمہارا انتظار کیا۔"
اور پھر دونوں ہاتھ ملائے، دل کی دھڑکنیں ایک ہو گئیں۔
**اختتام**
محبت کبھی وقت یا دوری سے ماند نہیں پڑتی۔ جو دل سے ہو، وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ عمار اور زینب کی کہانی اسی سچائی کی گواہی تھی۔
**❝دل اگر سچا ہو تو ہر دوری محبت کی آزمائش بن جاتی ہے۔❞**
(ختم شد)
---
یہ کہانی محبت، انتظار، اور پھر ملن کی ایک خوبصورت داستان ہے۔ امید ہے آپ کو پسند آئی ہوگی! اگر مزید چاہیے تو پیج کو فالو کریں❤️