Rozana Rang

Rozana Rang "Rangon ki boli, lafzon ki kahani, Rozana Rang ke sang zindagi suhani "

20/07/2025

آج ایل ڈی اے ایونیو 1 میں ایک شخص کو بجلی کا جھٹکا لگا، مگر الحمدللہ وہ محفوظ رہا۔ فوری مدد اور بروقت طبی توجہ سے ایک بڑا حادثہ ٹل گیا۔

🤲 اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

📢 احتیاط بہت ضروری ہے — بجلی کے آلات اور ننگی تاروں سے دور رہیں، خاص طور پر بارش یا نمی کے موسم میں۔

#الحمدللہ

19/07/2025

🌙✨ اقتباس برائے آج ✨🌙

💬
"مطلوب ہمیشہ ساکِت ہوتا ہے،
طالب ہی اُس کے گرد گھومتے ہیں۔"

19/07/2025

🌈 راہ تو بڑی سیدھی ہے، موڑ تو سارے من کے ہیں 🛤️🧠

زندگی کی راہ اکثر بہت واضح ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں ہمیں کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے۔ لیکن مسئلہ راہوں میں نہیں... وہ سارے "موڑ" تو ہمارے اندر ہیں۔

کہیں خوف ہے، کہیں شک۔
کہیں پچھتاوے، کہیں امید۔
کہیں یادیں روک لیتی ہیں، کہیں خواب آگے بڑھنے نہیں دیتے۔

اصل سفر تو من کے موڑوں کا ہے۔

✨ آج ذرا رک کر اپنے دل کے ان موڑوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ شاید راستہ آسان ہو جائے۔





05/05/2025

عقل والوں کے لیے زبردست مثال ہے -
ھم ”تربوز“ خریدتے ہیں مثلاً پانچ کلو کا ایک دانہ.. جب اسے کھاتے ھیں تو پہلے اس کاموٹا چھلکا اتارتے ھیں.. پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکلتا ہے.. یعنی تقریبا بیس فیصد.. کیا ھمیں افسوس ھوتا ہے؟ کیا ھم پریشان ھوتے ھیں؟ کیا ھم سوچتے ھیں کہ ھم تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟..
نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے..
ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی..
ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں..
تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکہ یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے..
یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے ”زکوۃ“ فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک اور ماشرہ بھی خوشحال، اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ. ✍️

09/03/2025
08/03/2025

کبھی ٹُھکرائیے نا ایسے سائل کو
جِسکی آنکھوں نے ہاتھ جوڑے ہُوں

(عدیل)

02/03/2025

کچھ اسباق جو زندگی نے مجھے سکھائے ہیں۔

۔ کسی دوست کو اس کی مشکل میں اس کی درخواست پر ادھار دے کر واپس مانگنا بدترین جرم ہوتا ہے۔ اس کی پاداش میں پرانا تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔

- کاروباری شراکت میں پیسے ڈالنا چاہے سگے بھائی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ایک اور بدترین جرم ہے۔ آپ کو بوقت ضرورت اپنے پیسے واپس مانگنے کو ترلے منت کرنا پڑتے ہیں۔

- زندگی مختصر ہے۔ اپنا وقت ان لوگوں کے ساتھ گذاریں جو آپ کو اچھے لگتے ہوں۔ اپنے اردگرد منفی رجحان رکھنے والوں یا قطعیت پسندوں سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ خود کو بحث و مباحث میں نہ الجھائیں۔ اگر کوئی مصر ہو کہ ہاتھی اڑتا ہے تو اسے کہیں بالکل میں نے تار پر بیٹھا دیکھا تھا۔

۔ سوشل میڈیا آج کے دور میں زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہاں اپنے اردگرد کی صفائی بھی ویسی ہی ضروری ہے جیسی نجی زندگی میں۔ انتہاپسندوں ، وہ چاہے سیاسی ہوں یا مذہبی یا دائیں سوچ کے یا بائیں سوچ کے ، سب سے چھٹکارا حاصل کریں اور معتدل مزاج لوگوں کے ساتھ لنک رہیں۔ دنیا میں کوئی تاریخ، نظریہ، یا بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔

۔ دوسروں کو خوش کرنے کے بارے اتنا نہ سوچیں۔ آپ یقین کریں کہ لوگ اپنا کام نکلوا کر آپ کو بھول جائیں گے۔ یہ میرے ذاتی تجربات ہیں۔ صرف اپنی و اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں کی پرواہ کریں۔

۔ سامنے آنے والے کسی واقعہ، سانحے یا بات کو جذبات کی عینک سے نہ دیکھیں۔ جذبات کا تعلق انسان کے خاص ہارمون سے وابستہ ہے۔ یہ ہارمون سوچنے کی صلاحیت کو دھندلا دیتا ہے۔ کوئی بھی چھوٹا یا بڑا فیصلہ فوری نہ لیں۔ اس پر کچھ دن ہر پہلو سے غور کریں۔ آپ یقین مانیں لوگ دوسرے لوگوں کا جذباتی استحصال کر گزرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ جذباتی انسان ہیں۔

۔ دوستوں کو اتنی اہمیت دیں جتنی وہ آپ کو دیتے ہیں۔ بلاوجہ کسی کے معاملات میں مشورہ نہ دیں جب تک خود آپ سے مشورہ نہ مانگ لیا جائے۔ کسی بھی تعلق کو برابری کی سطح پر رکھیں۔ آپ سے بڑا کوئی وی آئی پی نہیں۔ تعلقات باہمی عزت و احترام کا نام ہے۔ کسی کے لیے بچھے چلے جانا آپ کو اگلے کی نظر میں ٹشو پیپر بنا دیتا ہے۔ لوگ ایسے ہی سوچتے اور ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

۔ اگر کوئی آپ کی پریشانی میں حوصلہ نہیں دے سکتا یا آپ کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتا تو آپ کا بھی حق ہے کہ اس سے اسی طرح کا سلوک روا رکھیں۔ اخلاص، مروت اور احساس سب آج کے زمانے میں کلیشے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ ان سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

۔ جس شخص کے پاس مذہب و سیاست کے علاوہ کوئی تیسرا موضوع نہ ہو اس سے دوری اختیار کریں۔ مذہب و سیاست وہ موضوعات ہیں جو ہر انسان کے مطابق الگ طرح سے ہیں۔ ان پر ریڑھی بان سے لے کر بائیسویں گریڈ کے بابو تک ہر کسی کی اپنی رائے ہے اور ہر کوئی ان موضوعات کا تجزیہ نگار ہے۔ ان موضوعات پر مسلسل لکھنے والے آپ کو کچھ نہیں سکھا سکتے نہ ہی یہ موضوعات کسی کے باہنر ہونے کی سند بن سکتے ہیں۔

۔ کسی بھی امر میں انسانوں کی بیساکھیاں نہ تلاش کریں۔ لوگ اگر آپ کو سہارا دینے کو بیساکھی بنیں گے بھی تو وہ ساری دنیا کو بھی بتائیں گے کہ فلاں کی فلاں وقت فلاں طریقے سے مدد کی تھی۔ اپنی راہ خود تلاشیں۔ اپنے معاملات خود حل کریں۔ ضرورت سے بڑی کوئی طاقت نہیں اور بھوک سے بڑا کوئی موٹیویشنل سپیکر نہیں۔ یہ دونوں آپ کو راہ دکھاتے ہیں باقی آپ کی صلاحیت پر منحصر ہے۔

۔ عزت نفس پر سودے بازی کرنا آسان ترین حل ہوتا ہے۔ یہ آپ کو وقتی مسائل سے نکال سکتا ہے مگر پھر تمام عمر آپ کی عزت کمپرومائز رہتی ہے۔

۔ اگر کوئی کام آپ کے بس نہ ہو تو اگلے کو صاف انکار کر کے اس کا دل توڈ دینا اسے لارا لگائے رکھنے سے بہتر ہے۔ اگر اگلا سمجھدار ہو گا تو آپ کو مزید عزت دے گا اور ناسمجھ ہو گا یا آپ کا استعمال کرنا ہی اس کا مقصد ہو گا تو اس سے جان چھوٹ جائے گی۔

۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنی تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ زندگی کسی کے لیے نہیں رکتی۔ لوگ رونے والے کے ساتھ نہیں روتے صرف ہنسنے والے کے ساتھ ہنستے ہیں۔

۔ اگر وسائل ہوں تو نادار و مستحق لوگوں کی مدد کریں مگر انہیں بھیک پر پلنا نہ سکھائیں۔ مدد اس طرح کریں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہو۔ مدد کا ہر وہ طریقہ جو sustainable نہیں وہ ایسا کنواں ہے جو آپ کا سارا سرمایہ بھی کھا سکتا ہے اور آخر کار پھر مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہوتا ہے۔

۔ غربت ہو یا امارت، خوش رہنا سیکھیں۔ لوگوں کی بے جا پرواہ نہ کریں لوگ نہ آپ کی امارت پہ خوش ہوں گے نہ آپ کی غربت میں آپ کے مددگار بنیں گے۔ خوشی کا تعلق آپ کے اندرونی موسم سے ہوتا ہے اور یہ موسم انسان کو خود بنانا پڑتا ہے۔ سرما کی دھوپ فرصت میں سینکتے رہنا بھی خوشی کا سبب بن سکتا ہے اور مہنگے مالز میں شاپنگ کر کے بھی انسان کو بے چینی گھیرتی ہے۔

۔ غریب کے سامنے اپنی امارت کا ذکر اور امیر کے سامنے اپنے نامساعد حالات کا ذکر ہرگز نہ کریں۔ ایسا کر کے آپ اس کی نظر سے گر جائیں گے۔ہاں کوئی خود حالات معلوم کرنا چاہے تو اس کے کہنے پر ذکرکر دینا نامناسب نہیں۔

۔خونی یا خاندانی رشتوں کے بیچ مالی و گھریلو معاملات میں خود نہ پڑیں جب تلک آپ کو دعوت نہ دی جائے۔ خود سے ری ایکٹ کرنا یا از خود نوٹس لے کر کوئی بات یا عمل کرنا معاملات کو مزید الجھا دیتا ہے اور اگلا اس کو اپنے گھر میں بے جا مداخلت سمجھ سکتا ہے۔

۔آپ سے بڑا کوئی وی آئی پی نہیں۔ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ اکثر لوگ اس کو for granted لے لیتے ہیں۔

۔اگر آپ کی عمر ، قابلیت اور حالات اجازت دیتے ہیں تو جلد از جلد جہاں سینگ سمائے اس ملک کو بھاگ لیں۔ انسان کا وہی معاشرہ ہے جہاں اسے معاشی، قانونی ، جانی اور ریاستی تحفظ میسر ہو۔ باقی جنم بھومی ہے یا آبائی وطن ہے، جہاں پیدا ہونے یا نہ ہونے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہوتا۔

۔زندگی مختصر ہے اس کو انتہائی منظم طریقے سے گزاریں۔ اسے جھگڑوں ، ضد اور انا کی بھینٹ مت چڑھائیں۔

۔قسمت کا انتظار بے وقوفی ہے،اپنا اور زندگی کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں۔

۔کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ اپنی توانائی دوسروں کے پیچھے بھاگنے پر صرف نہ کریں۔ پیراشوٹ سے اترے لوگ کبھی عزت نہیں کما سکتے۔

۔غیر ضروری معاملات، غیر ضروری لوگوں اور غیر ضروری تنقید کو اگنور کرنے کی عادت ڈالیں۔ سنی سنائی باتوں پر طیش میں آنا جہالت ہے۔

۔زندگی کا کوئی بھی بڑا اور اہم فیصلہ لینے سے پہلے اگلے دس سالوں کو ذہن میں رکھیں کہ اس فیصلے کے اچھے یا برے اثرات آنے والے دس سالوں میں کیا ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہنے کو ہے مگر مضمون لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ

کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے

بی ہیپی آلویز۔

01/03/2025

ایک بھارتی سٹینڈ اپ کامیڈین کی ویڈیو دیکھی۔ اس میں وہ کہہ رہا تھا کہ کئی لوگ عجب توتئیے ہوتے ہیں اور اوپر سے extrovert بھی ہوتے ہیں یعنی وہ اجنبیوں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی جہاز میں اسے برابر والی سیٹ پر ایک بندہ ملا۔ بیٹھتے ہی بولا “ بھائی کیسے ہو۔ امریکا نے کینسر کا علاج دریافت کر لیا ہے مگر وہ ویکسین دنیا کو نہیں دے گا خود استعمال کرے گا ۔اب امریکی کینسر سے نہیں مرا کریں گے۔” میں نے سن کر ہممم کر دیا۔ پھر بولا “ آپ کو پتہ ہے امریکا چاند پر نہیں گیا تھا وہ سب سٹوڈیو میں فلم بنائی گئی تھی۔ ہم کو پاگل بناتے ہیں یہ۔” میں نے پھر “جی” کہہ دیا۔ پھر بولا “ بھائی یہ کورونا کے چکر میں وہ لوگ دنیا کی آبادی کم کرنے کا تجربہ کر رہے ہیں”۔ میں نے پھر جی کہہ دیا کہ اب ایسے توتئیے سے کیا بات کرے بندہ۔

کچھ دیر میں پھر بولا “یہ جو زلزلے آتے ہیں وہ تجربے کر رہے ہیں کہ کیسے کسی ملک کو تباہ کر سکتے”۔ میں نے اس کی بک بک سن کر کہا “ہاں ناں بھائی۔ اب یہی دیکھ لو ، کھڑکی سے باہر دیکھو ذرا زمین فلیٹ نظر آ رہی جبکہ وہ کہتے ہیں کہ زمین گول ہے۔ ہم کو توتیا بناتے”۔ یہ سن کر اس توتئیے نے مجھے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ یہ کیسا توتیا ہے اور پھر چپ کر گیا۔

ویڈیو میں اس نے نتیجہ اخذ کرتے کہا “ بھائیو جندگی کا ایک اصول یاد رکھو۔ اگر کوئی توتیا آپ کو مل جائے تو اس کو اس سے بڑا توتیا بن کر ملو۔ وہ آپ کو توتیا سمجھ کر چپ کر جائے گا۔”

اور بیشک ایسا ہی فارمولہ عرصہ دراز سے میں استعمال کر رہا ہوں۔ آپ کو کوئی ایسا چغد ٹکر جائے تو جواباً آپ اسے احساس دلائیں کہ آپ اس سے بڑے چغد ہیں۔ وہ آپ کو حقارت سے دیکھ کر چپ ہو جائے گا۔ ایسوں سے بحث تو ہو نہیں سکتی۔ جیسے مجھے ایک بندہ ٹکرا اور اس نے میرے ہوش اڑا دئیے۔ انتہائی سنجیدہ اور جذباتی ہوتے بولا “ شاہ جی آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے”۔ میں نے حیران ہوتے پوچھا کہ وہ کیسے ؟۔ بولا “ ساحل عدیم صاحب کہتے ہیں کہ دعا فوراً ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے لہذا وہ روشنی کی رفتار سے تیز ہوتی ہے”۔ اب ساحل عدیم کو کیا کہنا وہ لگے رہیں۔ میرے سامنے جو تھا میں نے سوچا اس سے جان چھڑوائی جائے۔ جواباً کہا “ ہاں بھائی۔ دیکھو ناں آسمانی بجلی سے زیادہ پاور فُل موبائل کی ٹارچ ہوتی ہے۔ اِدھر آن کی اُدھر ہر شے فوراً روشن ہو گئی۔” اس نے سن کر مجھے توتیا سمجھا اور چپ کر گیا۔

یہ بیسٹ فارمولہ ہے۔ آپ گدھے کے ساتھ گدھا نہیں بن سکتے۔ وہی بات کہ بقول شخصے اگر کوئی کہے کہ ہاتھی اڑتا ہے تو آپ کہہ دو ہاں میں نے تار پہ بیٹھا دیکھا تھا۔

Address

Male

Telephone

03214596065

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rozana Rang posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share