Aine Don’t forget to share and hit the like button if you had a laugh. Comments on the video please share.

Buy the item  now sale season start now
21/09/2025

Buy the item now sale season start now

Thank you for choosing GOOJODOQ Before buying, you can understand: ❤️Available in Malaysia, shipped from Kuala Lumpur City. All products are in stock and support cash on delivery ❤️Fast delivery (delivered within 2-4 working days) ❤️Brand quality assurance, safe packaging, careful inspec...

Bút this items from my link
21/09/2025

Bút this items from my link

Introducing the latest must-have accessory for all the fashionistas out there - the Amyrahijab Shawl Heavy Chiffon! Made from high-quality chiffon material, this hijab is perfect for adding a touch of elegance to any outfit. The Amyrahijab Shawl Heavy Chiffon features a luxurious and lightweight des...

Join and buy the products
21/09/2025

Join and buy the products

Perfumemaker2 – Minyak Wangi Tahan Lama (30ml) 🇲🇾 Jenama Popular dari Malaysia | 🌏 Wangian Mewah, Harga Mampu Milik Nak bau wangi macam jenama mahal tapi tak nak bayar lebih? Perfumemaker2 ialah minyak wangi inspirasi yang telah terjual lebih 300,000 botol dalam 6 bulan. Kini boleh didapa...

21/09/2025

I love Mohammed ❤️

19/09/2025

ناول : ☆ دھڑکن ☆
قسط : 6............
۔
ہمیشہ کی طرح دعا رات کو اسے اپنے کالج کے اوٹ پٹانگ قصے سنانے میں مصروف تهی. .وہ ہمیشہ اس کی کہانیاں بڑی دلچسپی سے سنتی لیکن اس دن اس کی سوچ کا مرکز دعا نہیں آرب کے دراز پہ رکها وہ کلاک تها جو وہ توڑ چکی تهی..دعا بنا اس کے تاثرات کا جائزہ لیے اسے اپنی کہانی سنانے میں مصروف تهی...
" آج پھر سمن کے پینتالیس فیصد نمبر آئے بیچاری مجھ سے مقابلہ کرنے چلی تهی .ہاہاہاہاہاہا وہ اپنی ہی بات کے اختتام پہ قہقہہ لگا کر ہنس لگی...اچانک کوئی تیزی سے دروازہ کهول کر اندر آیا اس نے اندر آنے والے کو دیکها..وہ آرب تها....
" دعا میرے دراز پہ رکها وہ لندن والا کلاک کہاں ہے.؟.".آرب دعا سے مخاطب تها جب کہ اس کے جسم کا سارا خون خشک ہو گیا..اتنی مہارت سے کی گئی چوری کے پکڑے جانے پہ وہ بے حد شرمندہ تهی..وہ توقع نہیں کر رہی تهی آرب اس کلاک کے غائب ہونے کو محسوس کرے گا..وہ ڈر سے اپنی نگاہیں نیچی کی ہوئی تهی...تو کیا آرب نے وہ پرچی نہیں پڑهی...وہ حیرت سے سوچ رہی تهی....
" دماغ خراب ہے آپ کا مسٹر آرب جمشید اب مجھے یہی ایک کام بچا ہے میں لوگوں کے کمروں میں پڑے کلاک غائب کرتی پهروں...".دعا کو اپنی گفتگو میں دخل اندازی اور خود پہ الزام لگائے جانے پہ بے حد غصہ آیا جس کا وہ کهل کر اظہار بھی کر رہی تهی. ...
وہ تو آرب سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئی...
" تم نے نہیں کیا تو کس نے کیا ہے نجمہ کہتی ہے میں نے نہیں کیا."..آرب اب بھی غصے میں تها..
" تو کیا اب میں آپ کے کمرے میں چوکیداری کرتی پهری کون آ رہا ہے جناب کے کمرے میں اور کون جا رہا ہے .".دعا کا بھی پارہ اوپر چڑھ گیا...
اور وہ جس کی وجہ سے ہہ سب ہوا تها وہ ان دونوں کی لڑائی سے لاتعلق معصوم بن کر دونوں کی باتیں سن رہی تهی....
" تم سے تو بات کرنا بھی فضول ہے .".آرب غصے سے کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا..جبکہ دعا کا موڈ بری طرح خراب ہو چکا تها..وہ دونوں اکثر لڑتے رہتے تهے..
وہ فرشتے کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے کمرے میں لے آئی یہ اس کے ڈرامہ دیکهنے کا وقت تها اور وہ ڈرامہ کے وقت زرا بھی آواز برداشت نہیں کر سکتی تهی..وہ ڈرامے کے مختلف کرداروں کے بارے میں اسے معلومات فراہم کرتی رہی ٹی وی میں اس کی دلچسپی بالکل نہیں تهی بس دعا کو کمپنی دینے کے لیے بیٹهی ہوئی تهی ..آج تو بالکل بھی اس کا دهیان ٹی وی کی طرف نہیں تها....اس کے ذہن میں وہی ایک ہی سوال تها آرب نے پرچی کیوں نہیں پڑهی......
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
رات کافی ہو چکی تهی آرب بیڈ پہ بیٹھ کر لیپ ٹاپ چلاتے ہوئے دفتر کا کوئی کام کر رہا تها..اسے نیند بھی آ رہی تهی لیکن وہ زبردستی جاگ کر مسلسل نیند کو بھگانے کی کوشش میں لگا تها....
اچانک اسے پیاس کا بھی احساس ہوا اس نے اٹھ کر میز پہ رکهے جگ سے اپنے لیے پانی نکالا اور پانی پیتے ہوئے نگاہیں ادهر ادهر پهیر رہا تها..اچانک اس کی نظر دراز میں رکهے اس کاغذ پہ پڑی جو باہر نظر آ رہا تها..اس نے گلاس رکھ کر وہ کاغذ نکالا اور حیرت سے اسے الٹ پلٹ کر دیکهنے لگا. .پهر اسے تجسس ہوئی اس نے وہ کاغذ کهول کر دیکها. .اور اس پہ لکهی تحریر پڑھ کر سکتے میں آ گیا.......
" I am Sorry Arab I Have Brok Your Beautiful Clock. .."
" میں ایسا کرنا نہیں چاہتی تهی لیکن غلطی سے ہو گیا ..میں شام کے وقت بھی آپ کو یہ بات بتانی چاہتی تهی لیکن ہمت نہیں کر پائی.میں نے اپنی غلطی چهپانے کے لیے وہ ٹوٹا ہوا کلاک بیڈ کے نیچے رکهے ڈسٹ بین میں ڈال دیا..لیکن بعد میں مجھے خود احساس ہوا یہ غلط ہے. .میں چوری کر رہی ہوں..غلطی چهوٹی ہو یا بڑی غلطی غلطی ہی کہلاتی ہے.لیکن انسان ہمیشہ مجبور ہو کر ہی غلطی کرتا ہے.مجھے بہت ڈر لگ رہا تها امید ہے آپ مجھے معاف کر دیں گے..".....
حیرت سے وہ کاغذ اس کے ہاتھوں سے گر گیا وہ جانتا تها یہ دعا کی رائٹنگ نہیں ہے اور اگر دعا نے یہ کیا بهی تب بھی وہ سوری کهبی نہیں بولتی..وہ جانتا تها یہ کس نے لکها ہے. ..
اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پهیل گئی..وہ عجیب حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں گهر گیا.اسے یقین نہیں آ رہا تها وہ لڑکی صبح سے اسی بات پہ اداس ہے شام کو بھی جب وہ چائے دینے آئی تو اس نے محسوس کیا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے کچھ پریشان لگی اسے مگر وہ...کہہ نہیں پائی.....
کتنی عجیب لڑکی تهی وہ..ایسے لڑکیاں بهی پائی جاتی ہیں اتنے ترقی یافتہ دور میں. .یہ اکیسویں صدی ہے اور وہ اکیسویں صدی میں ایک ایسی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو ایک معمولی غلطی پہ حد سے زیادہ شرمندہ تهی...اس کے کانوں میں اس لڑکی کے جملے گونجنے لگے. .......
"جی مجھے سیٹ بیلٹ باندهنا نہیں آتا"
اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی. .
" ہاتھ سے کهانا تو سنت رسول صل اللہ علیہ و سلم ہے". .
اس کی حیرت ختم ہی نہیں ہو رہی تهی وہ سب کچھ بهلا کر صرف اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ یہ بھی بهول گیا وہ تهوڑی دیر پہلے آفس کا کتنا ضروری کام کر رہا تها....
وہ لڑکی اسے قدم قدم پہ چونکا رہی تهی.وہ کیسی لڑکی تهی کتنی معصوم کتنی سادہ...
وہ اس کے بارے میں جتنا سوچتا سوچوں کا دریچہ اتنا ہی طویل ہوتا جا رہا تها..وہ آکر بیڈ پہ لیٹ گیا ..اس کی نگاہیں چهت کی طرف تهیں..دماغ کہیں اور تها..کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں. ..وہ خود نہیں سمجھ پا رہا تها کیا ہے اس لڑکی میں جو وہ اس کے بارے میں سوچ رہا تها باوجود اس کے کہ اس پہ ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں. ....
اچانک اسے جیسے کچھ یاد آ گیا..وہ تیزی سے اٹها اور بیڈ کے نیچے پڑا ہوا ڈسٹ بین باہر نکالا ...اس میں سے وہ کانچ کے ٹکڑے دیکهنے لگا اور مسکرا کر اس نے کلاک اٹهایا جو مختلف طریقوں سے مکمل طور پر ٹوٹا ہوا تها...اچانک کلاک پہ لگے خون کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا...اسے حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی تها...وہ تیزی سے اٹها اور کمرے سے باہر نکل گیا...
اس کے قدموں فرشتے کے کمرے کی طرف بڑهنے لگا. ..وہ شاید سو چکی ہو گی یا پھر. ...
جو بھی ہو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا .
تهوڑے وقفے کے بعد اس نے دروازہ کھولا اور آرب کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوا ...آرب اس کی حیرانی کو نظر انداز کرتا ہوا اس کا ہاتھ پکڑ کر غور سے دیکهنے لگا .....
" زخم کیسا ہے آپ کا.."..وہ ہاتھ کو غور سے دیکهتے ہوئے بولا جبکہ وہ کچھ نہیں بولی حیرانی سے بس اسے دیکھ رہی تھی. ....
" فرسٹ ایڈ باکس لاو..؟" اس نے حکمیہ انداز میں کہا..وہ حیرانی سے الماری کے اوپر رکها فرسٹ ایڈ باکس .لائی وہ جانتی تهی وہ کیا کرنے والا ہے مگر وہ حیران تهی اتنی رات کو کیا وہ صرف اس لیے آیا تها..صرف اس کے ہاتھ کے معمولی چوٹ کے لیے. .کیا وہ اس کے لیے اتنی اہم ہے....اس کی دهڑکن بے قابو ہوئی ..
" اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت تهی کها تهوڑی جاتا تمہیں". .وہ مصنوعی غصے سے بولا. ..اس کے ہاتھوں سے باکس لے کر وہ اس کی پٹی کرنے لگا..جب کہ وہ ڈر رہی تهی اتنی رات کو اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا....اس لیے وہ بار بار اپنا ہاتھ پیچهے کهینچ رہی تهی....
" آرام سے رہو" ..نہیں تو دوسرا ہاتھ بهی کانٹ دوں گا" .اسے مذاحمت کرتا ہوا دیکھ کر وہ بولا...کافی دیر تک وہ اس کی پٹی کرتا رہا ایسا لگتا تها یہ تجربہ وہ پہلی بار کر رہا ہے وہ اس کے اس طرح الٹی سیدھی پٹی کرنے پہ دل ہی دل میں مسکرا رہی تهی......
پٹی کرنے کے بعد وہ چلا گیا جبکہ وہ وہیں کهڑی کسی خوبصورت خیال میں کهو گئی........
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
دعا اور بابا جان شام کے وقت لاونج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے تهے.بابا جان نے کوئی نیوز چینل لگائی ہوئی تهی وہ دیکھ دیکھ کر ہی اکتا گئی...اسے نیوز سے شدید نفرت تهی اور تهوڑی ہی دیر میں اس کا پسندیدہ ڈرامہ لگنے والا تها......
" پلیز بابا جان یہ ڈروانئ خبریں بند کر دیں مجھے تو دیکھ دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا ہے."...
"زمینی تنازعے پی دو قبلیوں میں لڑائی.....
حوا کی بیٹی غیرت کے نام پہ قتل.........
وزیراعظم کی ملک واپسی...".
" اف بابا جان پتا نہیں آپ یہ سب کیسے دیکهتے ہیں. .اتنی خبر ڈراونی نہیں ہوتی جتنا ان کے بتانے کا انداز ڈرونا ہے....".بابا جان بس گهور کر اسے دیکهنے لگے لیکن چینل تبدیل نہیں کی.....
" بابا جان پلیز کوئی ڈرامہ لگائیں ناں..".؟ اس نے ایک بار پھر التجا کی...
" تمارے اپنے کمرے میں ٹی وی ہے ناں وہیں جا کر دیکھ لو وہ فضول ڈرامے..جن میں ساس بہو ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نئے نئے طریقے نکالتے ہیں. .یا پھر ہیرو مر جاتا ہے اور دو سال بعد پھر زندہ ہو جاتا ہے پهر مر جاتا ہے..توبہ ہے...یہ ڈرامے پتا نہیں تم کیسے دیکهتی ہو"...
بابا جان نے ڈراموں کا ایسا نقشہ کھینچا وہ کهلکلا کر ہنس پڑی. بابا جان بهی مسکرا دیے.....
" اسلام و علیکم "
سلام کی آواز پہ دونوں نے مسکراتے ہوئے پیچھے دیکها فرشتے اپنا دوپٹہ درست کر رہی تهی..دعا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اسے اپنے ساتھ صوفے پہ بیٹھ جانے کی آفر کی جبکہ بابا جان کے چہرے پہ اچانک سنجیدگی چها گئی....
ایک پل کی بهی تاخیر کے بنا وہ وہاں سے اٹهے اور اپنے کمرے کی جانب قدم بڑها دیے.فرشتے انہیں جاتا ہوا دیکهتی رہ گئی.....
" دیکهو پوجا والا ڈرامہ لگا ہے..".دعا نے اس کی توجہ وہاں سے ہٹائی....اس نے صرف نگاہیں ٹی وی کی طرف پهیر دیں جبکہ دماغ الجها ہوا تها. .....
# # # # # # # # # # # # # # # # #
رات کے وقت دعا اور فرشتے کا چائے پینے پینے کا موڈ بنا تو وہ دونوں کچن میں آ گئیں..فرشتے نے چائے کا پتیلا چولہے پہ رکها...دعا کام تو نہیں کر سکتی تهی اسے بس کام کرتا ہوا دیکھ رہی تھی. ....
اسے گهر کے کاموں میں بالکل بھی دلچسپی نہیں تھی. .وہ خاموش تو کهبی نہیں ہوتی سوائے ڈرامے کے وقت. .وہ ہمیشہ اوٹ پٹانگ باتیں کرتی رہتی..فرشتے اس کی باتوں پہ صرف مسکرا سکتی تهی. .وہ چائے پہ دهیان دینے کے ساتھ ساتھ اس سے باتیں بھی کر رہی تهی....
تهوڑی دیر بعد آرب گنگناتے ہوئے کچن میں داخل ہوا ان دونوں کو وہاں دیکھ کر وہ حیران ہوا ..شاید انہیں اس وقت کچن میں ان دونوں کی توقع ہر گز نہیں تهی...بے اختیار اس کی نگاہیں فرشتے کی طرف گهوم گئیں..جبکہ اس نے شرما کر نگاہیں جهکا لیں..وہ اس کی اس مشرقی ادا پہ مسکرا دیا...
" ارے کهانے کو تو کچھ نہیں ہے میرا تو بهوک سے برا حال ہے."...آرب فریج کهولتے ہوئے بولا. ....
" یہ گهر ہے ہوٹل نہیں یہاں صرف وقت پہ کهانا ملتا ہے .اور اب تو نجمہ بھی سو گئی ہو گی.ایک رات بهوکے رہو گے تب پتا چلے گا."..دعا نے اسے چهیڑنے کی کوشش کی جبکہ فرشتے مسکرا دی...
" ہاں بهئی اس گهر میں کهانا بنانے والی ایک صرف نجمہ ہی ہے اور تو کوئی نہیں ہے. .کاش ہماری بھی کوئی اچھی دوست ہوتی جو رات کے کسی بھی وقت ہمیں ہماری مرضی کی ڈش بنا دیتی.."..آرب نے اپنا جملہ مکمل کر کے معنی خیز نگاہوں سے فرشتے کو دیکها وہ اسے دیکھ کر مسکر دی.......
" آپ کیا کهائیں گے بتا دیں ہم وہی بنا دیں گے.."..فرشتے نے سادگی سے پوچها .....
" ارے واہ..یہ ہوئی ناں بات" ...وہ پرجوش ہو کر بولا .
" کوئی ضرورت نہیں ہے فرشتے اس کی خدمت گزاری کرنے کا ..رہے بهوکا ..تم اسے جانتی نہیں ہو یہ صرف مطلب کا دوست ہے میں اسے اچهے سے جانتی ہوں.."..دعا اسے گهور کر بولی........
"جلو ...جلو...جلنے والا کا منہ کالا. ."..آرب نے اسے لڑنے پہ اکسایا ...جبکہ وہ لڑنے کی بجائے فرشتے کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے باہر لے گئی.. ...
# # # # # # # # # # #$ # # #$ # # # # #
آرب تهکا ہوا اپنے بستر پہ لیٹا ہوا تها..اچانک دستک کی آواز پہ وہ چونکا...اور حیران بھی ہوا کون ہوگا اس وقت ".آ جاو دروازہ کهلا ہے"....
اس نے دروازہ کھلتے اور فرشتے کو اندر آتے دیکها اس کے ہاتھوں میں بریانی کی ٹرے تهے..وہ حیران ہو کر اسے دیکھ رہا تھا. .جبکہ وہ اس کی حیرت کو نظر انداز کر کے ٹرے میز پہ رکهنے لگی. ..
اور پھر اس نے گلاس میں پانی بهر کر رکھ دیا اور لائٹ آن کر دیا...اسے بالکل ایسا لگا جیسے اس کی بیوی اس کے لیے یہ سب کر رہی اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آئی....
جب وہ جانے کے لیے پلٹی تو اس نے صرف " تهینکس" کہا...
وہ بریانی کهانے کی بجائے فرشتے کے بارے میں سوچ رہا تها اس لڑکی کا ہر عمل اسے حیرت میں ڈال رہا تها...وہ لڑکی اتنی رات کو اس کے لیے بریانی بنا کر لے آئی یہ سوچ کر کہ کہیں وہ بهوکا نہ سو جائے ..اس لڑکی کو اس کی اتنی فکر تهی..اس کی تو بهوک مٹ چکی تهی وہ تو کچن والی بات کو بهول بهی چکا تها...جانے کب اسے دعا کی طویل باتوں سے چهٹکارا ملا ہوگا..اور کب وہ کچن میں جا کر یہ سب بنانے لگی...اتنا سوچتی ہے وہ لڑکی اس کے بارے میں. ..اس لڑکی کی قدر اس کی نظروں میں اور بڑھ گئی. ....
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
وہ اتور کی صبح تهی اس لیے سب گهر پہ موجود تهے .وہ آہستہ آہستہ سیڑهیاں اترنے کگی..نیچے لاونج میں سب کی آوازیں آ رہی تهیں سب بیٹهے کسی بات پہ بحث کر رہے تهے ....ایک صوفے پہ بابا جان بیٹهے تهے جبکہ دوسرے صوفے پہ آرب بیٹها تها...رخشندہ وہیں ان کے پاس کهڑی ہوکر گفتگو میں حصہ لے رہی تهی. .وہ جو کہنے جا تہی تهی اس کے لیے اسے بہت ہمت اکهٹا کرنا تها....آرب اسے سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھ چکا تها ..اس لیے وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تها..
وہ چلتے ہوئے بابا جان کے صوفے کے بالکل پاس جا کر کهڑی ہو گئی..اب سب کی نظر اس پہ پڑ چکی تهی سب کے منہ پہ اچانک تالے لگ گئے. .بڑی زور سے چل رہی بحث اس کے آتے ہی ختم ہو گئی.....رخشندہ کے چہرے پر ناگواری چها گئی....
وہ ڈر رہی تهی اور بری طرح کنفیوز تهی ان سب لوگوں کی موجودگی میں وہ کیسے کہہ پائے گی....
" کیسی ہو فرشتے بیٹا....کچھ چاہیے تها..".چچا جمشید کی آواز پہ وہ مراقبے سے باہر آئی...چچا جمشید اسے ہمیشہ حوصلہ اور پیار دیتے تھے. ..وہ ان کے روپ میں اپنے ابو کو زندہ دیکهتی...وہ بات تو بابا جان سے کرنا چاہتی تهی لیکن چچا جان کی ہمدردی پا کر اس نے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا... ...
" چچا جان آج امی کا چالیسواں ہے تو میں اپنے شہر ان کی قبر پہ جانے چاہتی ہوں..".اس نے بسم اللہ پڑھ کر بات شروع کی اور ڈرتے ڈرتے سب کے چہرے دیکهے...بابا جان نے اسے بڑی عجیب نگاہوں سے دیکها...کیا تها ان کی نگاہوں میں. .نفرت..حقارت یا..غصہ.. وہ نا سمجھ سکی...
" ٹهیک ہے بیٹا ..اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے آرب تمہیں کے جائے گا"...چچا جان نے کہہ کر آرب کی طرف دیکها اس نے سر اثبات میں ہلا دیا...رخشندہ اسے غصے اور نفرت سے دیکهتی ہوئی کچن میں چلی گئی..شاید وہ اس کی امی سے اتنی نفرت کرتی تهی وہ ان کا نام بھی نہیں سننا چاہتی تهی. .ظالم بھی خود ہیں اور مظلوم بھی خود ہی بنتے ہیں اس نے اپنے کمرے میں آ کر سوچا...دعا ابهی سوئی ہوئی تھی وہ اتور کو دیر سے جاگتی تهی ..
وہ کپڑے بدل کر دعا کے کمرے میں گئی وہ ابهی بهی گہری نیند میں تهی...بیڈ پہ اس کے پاس جا کر وہ اسے آہستہ آہستہ جھنجوڑنے لگی..کروٹ بدل کر اس نے بھی اپنی آنکهیں کهول لیں. ..فرشتے کو وہ دیکھ کر اس کی آنکهیں مکمل طور پر کهل گئیں..اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی. ........
وہ اس وقت فرشتے کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران تهی پہلے تو کهبی وہ اسے صبح اٹهانے نہیں آئی..اتور کی صبح خود کے جلدی اٹهائے جانے پہ اسے حد سے زیادہ غصہ آتا پتا نہیں آج کیسے ضبط کیے بیٹهی تهی...وہ سوالیہ نگاہوں سے فرشتے کی طرف دیکهنے لگی. .....
وہ اس کی حیران کن نگاہوں کا مطلب سمجهتے ہوئے بولی...
" میں اپنے شہر جا رہی ہوں آج امی کا چالیسواں ہے تم چلو گی میرے ساتھ." ..وہ اپنے آنے کا مقصد بتا کر خاموش ہوئی دعا تو خوشی خوشی اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوئی......
" Ok Well B Ready After Breakfast. ."
دعا تیار ہونے کی بات ایسے کر رہی تهی..جیسے وہ کسی پارٹی میں جا رہی ہو ..وہ دعا کے جوش کو دیکھ کر مسکرا دی...اچانک اسے کمرے میں کسی تیسرے فرد کا سایا نظر آیا...اسے احساس ہی نہ ہوا کب رخشندہ وہاں آئی اور اس نے ان دونوں کی کتنی باتیں سن لیں تهیں..وہ چہرے پہ سنجیدگی لیے فرشتے کو گهور رہی تهی جبکہ دعا بھی حیرت سے منہ کو دیکھ رہی تھی. ..وہ اس سچویشن کو سمجھ ہی نہیں پا رہی تهی...فرشتے سے ان کی نگاہوں کا وار برداشت نہیں ہو سکا اس لیے وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی..اس کے جانے کے بعد رخشندہ دعا پر ٹوٹ پڑی......
" جیسی ماں ویسی بیٹی دوسروں پہ اپنی محبت کا جال بچھانا خوب جانتی ہیں. ..دوسروں کی چیزوں پہ قبضہ جمانا تو اسے وراثت سے ہی ملا ہے".فرشتے کے جانے کے بعد رخشندہ اپنے دل کا غبار نکال رہی تهی ..دعا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی .
" امی آپ کو کیا ہو گیا ہے..خدا کا نام لیں کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں آپ ایسی تو کهبی نہیں تهیں..".دعا حیرت اور صدمے سے ماں کو دیکھ رہی تھی. .
" بس بس زیادہ اس کی طرف داری کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ایک بات اچهی طرح کان کهول کر سن لے تم اس کے ساتھ کہیں نہیں جا رہیں.."وہ حتمی لہجے میں بولی. ....
" امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہوں..وہ اتنے پیار سے درخواست کر رہی تهی میں کیوں نہ جاوں اس کے ساتھ میں تو ضرور جاوں گی اس کے ساتھ. ."..دعا بھی مستحکم انداز میں بولی. ....
" ٹهیک ہے اگر تم اس کے ساتھ گئیں تو میرا مرا ہوا منہ دیکهو گی"...وہ غصے سے کہتی ہوئیں باہر نکل گئیں..دعا حیرت اور پهٹے ہوئے منہ سے اپنی ماں کے بارے میں سوچ رہی تهی.....
فرشتے کے کمرے میں جا کر اس نے بڑے پیار سے اسے یہ کہہ کر آنے سے منع کر دیا کہ اس کے سر میں تهوڑا درد ہے ...وہ نادان نہیں تهی دعا کی ذہانت سے ہزار گنا ذہین تهی ..وہ اچهی طرح سمجھ رہی تهی دعا اس کے ساتھ کیوں نہیں جا رہی...اس نے اپنے آنسو اندر ہی اندر دبا لیے. .....
جاری ہے
کمنٹس کر لیا کرے مہربانی ہوگی اپ لوگوں کی
Copy

19/09/2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم__
☆ دهڑکن ☆
__قسط 5
تحریر ناصر حسین
پوری حویلی میں یونہی بنا مقصد ٹہلتی رہی....
اچانک ایک کمرے کے سامنے گزرتے ہوئے اس کے قدم رک گئے..اس نے تیزی سے چہرہ گهما کر اندر دیکها..وہ کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تها اس میں مختلف خوبصورت پینٹگز لگی ہوئی تهیں..لیکن وہ ان پینٹگز کو نہیں دیوار پہ لگی اس تصویر کو دیکھ رہی تھی. .وہ بڑی دیر تک سانس روک کر اس تصویر کو دیکهتی رہی وہ تصویر اس سے کچھ فاصلے پر تهی اس لیے وہ اسے اچهے سے دیکھ نہیں پا رہی تهی...ایک انجانی کشش اسے اندر کهینچ رہی تهی وہ بنا کچھ سوچے سمجهے اندر چلی آئی..اس کی نظر اب بھی تصویر پر تهیں...وہ آس پاس سے مکمل طور پر لا تعلق تهی...وہ بڑی محبت اور عقیدت سے اس تصویر کو دیکھ رہی تھی. .اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ تهی...
اس تصویر میں تین انسان دکهائی دے رہے تهے اسے..درمیان میں بابا جان کهڑے تهے وہ ان کی بہت پرانی تصویر تهی اس لیے وہ اتنے بوڑهے نہیں لگ رہے تهے اور بابا جان کے بائیں طرف چچا جمشید کهڑے تهے ان کی جوانی کی تصویر تهی وہ ہو بہو اس کے ابو جیسے تهے وہ مسکرا رہے تهے..اور بابا بابا جان کے دائیں طرف. ..اس کے...ابو کهڑے تهے ..وہ بھی مسکرا رہے تهے وہ جوانی میں بہت ہینڈسم تهے..وہ تصویر بہت خوبصورتی سے بنائی گئی تهی...وہ تینوں اس تصویر میں بہت خوش لگ رہے تهے..وہ یک ٹک اپنے ابو کو دیکھ رہی تھی. ..اس نے اپنے ابو کی جوانی کی تصویر کهبی نہیں دیکهی .....
پتا نہیں کیوں زندگی کے طوفان کی زد میں یہ تین لوگ آ گئے اور ایسے جدا ہوئے کہ پهر کهبی مل نہیں سکے..دلوں میں اتنی نفرت پیدا ہو گئی کہ سب ختم ہو گیا. ....
اس نے اپنی انگلیوں سے ابو کی تصویر کو ہاتھ لگائی ان تین آدمیوں میں صرف اس کے ابو نہیں تهے باقی سب ویسے تها صرف اس کے ابو نہیں تهے..کاش یہ وقت ایک بار پھر لوٹ سکتا کاش ایک بار پھر وہ تینوں مل کر ایک ایسی تصویر بناتے .....کاش زندگی واپس لوٹ سکتی یا کاش اس کے ابو کو زندگی مہلت دیتی کہ وہ سب ٹهیک کر دیتے........

اچانک اسے قدموں کی چاپ سنائی دی..اس نے بے دھیانی سے مڑ کر پیچهے دیکها تو جیسے پتهر کی بن گئی..ان تین آدمیوں میں جو تصویر میں کهڑے تهے ان میں سے ایک آدمی بالکل اس کے سامنے کهڑا تها...اس سے چند قدموں کی دوری پہ.....
وہ درمیان والا شخص تها..وہ بے یقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی. ..اس کے ہونٹوں سے آہ کی صورت میں ایک لفظ نکلا....
" بابا جان."...
وہ اب کمرے کو چاروں طرف پاگلوں کی طرح دیکھ رہی تھی. .مطلب. .مطلب. ..یہ بابا جان..بابا جان کا کمرہ ہے..اس کی دهڑکن بے حال ہونے لگی..وہ جس انداز میں اس کمرے میں داخل ہوئی تهی اس نے ایک پل کے لیے بھی تو نہیں سوچا تها یہ بابا جان کا کمرہ ہو گا اور بابا جان اس وقت اپنے کمرے میں موجود بھی ہوں گے....شرم اور ندامت سے اس کی آنکهیں جهکی ہوئی تهیں..اور بابا جان نگاہیں جمائے اسے ہی دیکھ رہے تهے ..وہ ایک پل بھی مزید وہاں نہیں ٹهر سکتی تهی ایک چور نگاہ ان کے چہرے پہ ڈال کر وہ ایک پل میں بهاگ کر اس کمرے سے باہر نکلی اور ساتھ والے کمرے میں گهس گئی.....
اور جلدی سے دروازہ بند کر اپنے دل پہ ہاتھ رکھ دیا دهڑکن ابهی بهی معلوم پر نہیں آئی تهی...وہ حد سے زیادہ گهبرائی ہوئی تھی. ..
"کیا سوچتے ہوں گے بابا جان کتنی بے وقوف اور بدتمیز لڑکی ہے دوسروں کے کمرے میں بنا اجازت گهومتی پهر رہی ہے.".وہ اب خود کو سرزش کرنے کگی اسے خود پہ غصہ آنے لگا. ...خود کو سنبھالنے میں اس کافی وقت لگا....
اب اس نے اس کمرے میں نظریں دوڑانا شروع کر دیں کمرے میں ہر طرف آرب کی تصویریں لگی ہوئی تهیں شاید یہ اسی کا کمرہ تها...وہ یہاں پہلی بار اس کے کمرے میں آئی تهی...مختلف انداز میں مختلف پوز کے ساتھ اس کی اسٹائلش تصویریں لگی تهیں..وہ بڑے غور سے ان تصویروں کو دیکهنے لگی...وہ تهوڑی دیر پہلے ہونے والے عجیب و غریب حادثے کو بهول چکی تهی.پهر دهیان ادهر سے ہٹا تو اس کی نگاہ بستر پر پڑی ..بستر کی چادر پر شکنیں پڑی ہوئی تهیں...اسے اتنے خوبصورت کمرے میں وہ واحد خامی بستر کی شکنیں ہی لگئیں...اس لیے وہ انہیں درست کرنا چاہتی تهی...وہ چادر درست کرنے لگی یہ سوچے بغیر تهوڑی دیر پہلے کیا ہوا تها...وہ اب مسکراتے ہوئے چادر ٹهیک کر رہی تهی اور تصور میں آرب کی تصویر تهی...
چهانک....
کی آواز نے پورے کمرے میں شور پیدا کر دیا..اس نے چونک کر پیچھے دیکها...اور بے ساختہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا ..دراز پہ رکها خوبصورت سٹائلش کلاک ٹوٹ کر زمین بوس ہو چکا تها...اس کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے فرش پہ ادهر ادهر بکهرے ہوئے تهے..شاید چادر ٹهیک کرتے وقت اس کا دوپٹہ کلاک سے ٹکرا گیا...
"یہ..یہ..کیا ہو گیا ..او میرے اللہ اب میں کیا کروں"..وہ بڑبڑائی...ڈر سے برا حال تها ماتهے پہ پسینہ تها ..
آسمان سے گر کهجور میں اٹکا.....
" فرشتے تو ایک نمبر کی پاگل لڑکی ہے اگر کسی کو پتا چل گیا تو یہ سب کرتی پهر رہی ہے تو وہ تیرے بارے میں کیا سوچیں گے. ."
اب وہ خود پہ بری طرح غصہ ہونے لگی. ...اس نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکها اور جلدی جلدی کانچ سمیٹنے لگی. ..اسے ڈر تها کہیں آرب کو پتا نہ چلا جائے وہ کیا نقصان کر چکی ہے..ورنہ وہ تو اسے پاگل ہی سمجهے گا. کانچ سمیٹتے وقت ایک ٹکڑا اس کے ہاتھ کو بھی چبھ گیا اور ہاتھ سے خون نکلنے لگا...وہ ہاتھ کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے کانچ کے ٹکڑے چننے میں لگی تهی...اور بار بار مڑ کر دروازے کو دیکهتی کہیں کوئی آ نہ جائے اور اسے دیکھ نہ لے.......
سارے کانچ سمیٹ کر اس نے ڈسٹ بین میں ڈالے اور ڈسٹ بین بیڈ کے نیچے دهکیل دیا ...اب اسے کهبی پتا نہیں چلے گا کہ اس کا خوبصورت کلاک کس نے توڑا...وہ مطمئن ہو گئی....
" لیکن اگر اسے پتا چلا گیا...تو...؟ اگر اس نے شام کو واپس آکر دیکھ لیا تو ....تو وہ کیا کرے گی"....؟
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #السلام و علیکم "وہ کچن میں آلو کے پراٹھے بنا رہی تهی جب دعا کی آواز پہ چونکی سلام کا جواب دے کر وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی. ....
"کیا بن رہا ہے "....دعا ادهر ادهر برتنوں کے ڈهکن اتار اتار کرئ جائزہ لے رہی تهی....
" آلو کے پراٹهےص بنا رہی ہوں. ."اس نے کام کرنے کے دوران ہی جواب دیا..
"اللہ میاں آلو کے پراٹهے." دعا نے زبردست قسم کی چیخ لگائی..دعا کو آلو کے پراٹهے بہت پسند تهے.. ..
صبح آرب کے کمرے سے نکلنے کے بعد اس نے کچن میں آ کر اپنا ذہن مصروف رکهنے کی کوشش کی. مگر ڈر ابهی بهی ویسے رہی تهی اگر اسے پتا چلا گیا تو وہ کیا سوچے گا...وہ اپنا امیج اس کی نظروں میں خراب کهبی نہیں کرنا چاہتی تهی.....بظاہر وہ نارمل اندز میں کام کر رہی تهی لیکن دل میں ابهی بهی ہلچل مچی ہوئی تهی.....
" دعا میں نے تمہارا کهانا ٹیبل پہ لگا دیا ہے "..رخشندہ کی آواز پہ دعا کے ساتھ ساتھ فرشتے نے بھی مڑ کر دروازے کی طرف دیکها.....
" امی میں آلو کے پراٹهے کهاوں گی فرشتے بڑے مزے کی بنا رہی ہے...."رخشندہ کو جواب دے کر وہ ہیڈ فون لگا کر گانے سننے لگی....
رخشندہ کو یہ بات یقیناً اچهی نہیں لگی...وہ اس ان کے چہرے کو دیکھ کر بھی بتا سکتی تهی اس وقت وہ بہت غصہ ہو رہی ہوں گی اس کے اوپر...وہ فرشتے پہ ایک نفرت بهری نگاہ ڈال کر پیر پٹختے ہوئے باہر چلی گئیں..
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
اب شام ہو چکی تهی..شام کی ہلکی سنہری روشنی ہر طرف پهیلی ہوئی تهی...اس کے قدم کچن کی جانب تهے.صبح والے واقعے کے بعد دل ابهی بهی اپنی نارمل جگہ پہ نہیں تها...اس نے چولہے پہ چائے کا پتیلا رکھ دیا. ..وہ سوچنے بیٹھ گئی آرب کو سچ کیسے بتائے..جهوٹ وہ بول نہیں سکتی اور سچ بتانے کی اسے ہمت نہیں تهی...دل میں ہزار طرح کے وسوسے تهے لیکن جو بھی تها بہرحال اسے سچ تو بتانا ہی تها .اگر اسے خود پتا چلا گیا تو وہ حقیقتاً بہت ناراض ہو گا....مگر وہ اسے کیسے بتائے..وہ تو اس سے ڈر کے مارے زیادہ باتیں بھی نہیں کرتی تو اتنا بڑا سچ اسے کیسے بتائے گی........
" بی بی..جی چائے.."..اس نے چونک کر ایک نگاہ نجمہ پہ ڈالی اور ایک نگاہ چولہے پہ گرتی ہوئی چائے پہ..اس نے فوراً ہاتھ بڑھا کر چولہا بند کر دیا...اور کپ میں چائے نکالنے لگی. .
آرب اس وقت لان میں بیٹها اخبار پڑهنے میں مصروف تها ..کچھ سوچ کر وہ چائے کا کپ اس کے لیے بهر کر اس کے پاس لے گئی..وہ اسے بتانا چاہتی تهی صبح کے واقعے کے بارے میں. .لیکن آہستہ آہستہ اس کی ہمت ٹوٹنے لگی....آرب نے ایک حیران کن نگاہ اس پہ ڈالی اور دوسری اس کے لرزتے ہاتهوں پہ.....
" ارے واہ چائے لائی ہیں آپ میرا چائے پینے کا بہت دل کر رہا تها اس وقت. ..تهینکس..." آرب اس کی جهجک مٹانے کے لیے خود ہی بول پڑا....چائے اس کے ہاتهوں میں تهما کر وہ وہیں کهڑی رہی ...آرب بظاہر اخبار پڑهنے میں مصروف تها لیکن گاہے گاہے اس بهی دیکھ رہا تها.....اچانک آرب کے موبائل کی گهنٹی بجی اور اس کی ساری سوچوں پہ پانی پهر گیا...وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آئی ایسے میں وہ اس سے یہ بات تو نہیں کر سکتی تهی______

کمنٹس کر کیا کرو مہربانی ہوگی

جاری ہے
Copy

11/09/2025

ناول : ☆ دھڑکن ☆
قسط 4...........
دعا آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر رہی تهی رات کا سماں تھا ہر طرف اندھیرا پهیلا ہوا تها سب کمروں کی لائٹس آف تهے شاید سب سو چکے تهے ...وہ پاوں ٹٹولتی ہوئی آہستہ آہستہ نیچے آ رہی تهی ....
" مل گئی تمہیں فرصت.اپنی بہن سے."...؟
اس کے قدم رک گئی اس نے تیزی سے مڑ کر سامنے دیکها رخشندہ ہاتھ باندھے کهڑی تهیں اور حقارت سے اسے دیکھ رہی تهیں....
ان کے لہجے میں کتنی نفرت کتنا زہر تها وہ اچهی طرح سمجھ سکتی تهی .....
" امی آپ. ."...اس نے ادهورے لفظوں میں کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن رخشندہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا. ...
" تمہیں نہیں لگتا دعا تمہیں اس لڑکی سے دور رہنا چاہیے." .انہوں نے غصہ ضبط کر کے تحمل سے کہا...
"امی آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا آپ فرشتے سے اتنی نفرت کیوں کر رہی ہیں. .وہ حیرانی سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی. "....
"اور مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا تم اس لڑکی سے اتنی محبت کیوں کر رہی ہو اس نے کون سا تعویذ گهول کر تمہیں پلا دیا ہے..."..رخشندہ کے لہجے میں نفرت ہی نفرت تهی.....
"بہن ہے وہ میری ..امی کسی کے ماننے یا نا ماننے سے میرا اس کے ساتھ رشتہ نہیں بدلے گا.."..اس کا لہجہ بھی طنزیہ ہو گیا.....
"اچها تو وہ تماری بہن بن گئی بهول گئی اس لڑکی کی ماں نے میرے ساتھ کیا کیا تها ..اس کی وجہ سے میں نے تم نے ہم سب نے کیا کچھ کهو دیا تها...یہ اسی ناگن کی بیٹی ہے جس نے ہماری خوشیوں کو ڈسا تها..".رخشندہ بهرائی آواز میں بولی....
"امی آپ کے ساتھ جو ہوا وہ آپ کی قسمت میں لکها تها کسی کا کوئی قصور نہیں تها ..جو ہونا ہوتا ہے وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے"..دعا نے آگے بڑھ کر رخشندہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دلاسا دینے کی کوشش کی. ..
"کیسے...کیسے مان لوں جو ہوا وہ میری قسمت میں لکها تها اس عورت نے میری آنکهوں کے سامنے مجھ سے میرا سب کچھ چهین لیا ...سارا قصور اسی کا تها..سب اس نے کیا تها میں اسے کهبی معاف نہیں کروں گی.."....وہ شکستہ لہجے میں بولی. .......
"لیکن امی جو ہوا اس میں فرشتے کا تو کوئی قصور نہیں تها "...دعا نے ماں کو سمجهانے کی ایک اور کوشش کی. ...
"تو میرا کیا قصور تھا تمارا کیا قصور تها بابا جان کا کیا قصور تھا ہمیں کس بات کی سزا ملی..غلطی اس نے کی سزا ہم سب کو ملی مجھے تمہیں بابا جان کو..تم اسے معاف کر سکتی ہو میرا دل نہیں مانتا اس عورت کی بیٹی کو اپنانے کو ...تم بتاو تم معاف کر سکتی ہو اس عورت کی بیٹی کو جس نے تماری ماں کی زندگی میں کوئی خوشی نہیں آنے دی.."......رخشندہ آنسو پونچھ کر ایک پل میں وہاں سے چلی گئی......
وہ وہیں کهڑی رہ گئی...بعض اوقات انسان زندگی میں ایسی غلطیاں کرتا ہے جن کے نشان عمر بھر ختم نہیں ہوتے....
ماضی کے اس واقعے کو گزرے ہوئے برسوں بیت چکے تهے لیکن آج بھی سب کے زخم ویسے ہی تازہ تهے...کہیں کوئی تبدیلی نہیں آئی ...زندگی جہاں بیس سال پہلے کهڑی تهی آج بھی وہیں تهیں.....
# # # # # # # # # # # # # # # # # # #
اس کی اچانک آنکھ کهلی اوف نظر سامنے وال کلاک پر پڑی..سوا پانچ ہو رہے تھے وہ دوپٹہ سنبهالتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی. .اس نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی پورا کمرہ روشن ہو گیا....
یہ اس گهر میں اس کی پہلی صبح تهی کتنا مختصر وقفہ تها کل اور آج میں. .کل وہ فلیٹ میں تهی اور آج اتنی بڑی حویلی میں. .....
راتوں رات اس کی زندگی کتنی بدل گئی وہ کہاں سے کہاں آ گئی..وضو کر کے اس نے نماز پڑھی. .نماز کے بعد وہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگی پورا چہرہ آنسو سے بهیگا ہوا تها.....
یا اللہ پتا نہیں کیا مانگوں..میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن میرے پاس مانگنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے..کیا میں اپنی ماں آپ سے واپس مانگوں لیکن وہ تو آپ لے چکے ہیں وہ تو آپ مجھے کهبی نہیں دیں گے....
جائے نماز تہہ کر کے وہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگی قرآن مجید وہ اپنے ساتھ لائی تهی ..قرآن پاک کی تلاوت وہ ہمیشہ کرتی تهی صرف گهر بدلا تها دیواریں بدلی تهیں. .وہ تو وہی تهی......
آدها گهنٹہ تلاوت کرنے کے بعد وہ ٹہلنے کی غرض سے باہر نکل آئی ..سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ زمین پہ پهیل رہیں تهیں..لیکن ہلکا اندهیرا اور گہری خاموشی بھی تهی...
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سیڑھیوں تک آئی..اچانک اس کے چلتے ہوئے قدم رک گئے ..جیسے خون ختم ہو گیا ہو جسم میں. .اندهیرا واقعی زیادہ تها لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ سامنے کهڑے انسان کو نہ دیکھ پاتی...
بابا جان بهی نظریں جمائے اسے ہی دیکھ رہے تهے آگے جانے کی اس کی ہمت نہ ہوئی لرزتے قدموں کے ساتھ وہ واپس پلٹی...اور اپنے کمرے کا دروازہ بند کر صوفے پہ بیٹھ گئی. .....
کافی دیر بعد دعا اسے ناشتے کے لئے بلانے آئی جیسے کل سب کا رویہ تها اس کے بعد وہ نیچے جانے کی ہمت تو نہیں کر سکتی تهی......
اس نے دعا کو ناشتہ اوپر لانے کو کہا .دعا بھی بنا بحث کے ناشتہ اوپر لے آئی..پهر وہ خود بھی اس کے ساتھ ناشتہ کرنے لگی ..ناشتے کے دوران بھی وہ خاموش نہیں ہوئی......
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
ناشتے کے بعد دعا اسے اپنے کمرے میں لے آئی وہ حیرت سے دعا کے کمرے کو دیکھ رہی تھی. .کمرہ کافی بڑا اور شاندار تها..اس کی باتوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ..وہ تو اس کی عجیب و غریب کہانیاں سن سن کر چکرا گئی...وہ بس اس کی باتوں پہ بور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہی تهی...لیکن اچانک دعا ایسے رک گئی جیسے تیز چلتی گاڑی کو اچانک بریک لگا دیا جائے...وہ خاموشی سے وال کلاک دیکھ رہی تھی. .....
" اللہ میاں آٹھ بج گئے میرا ڈرامہ" وہ چیخ مار کر اٹهی اور ہوا کی سی تیزی سے ٹی وی کی طرف بڑهی اور بنا ایک سکینڈ ضائع کیے اس نے ٹی وی آن کر دی...اور صوفے پہ آکر بڑے غور سے ٹی وی دیکهنے لگی. .ایسے جیسے اس پورے کمرے میں اس کے علاوہ دوسرا کوئی وجود ہے ہی نہیں. ..........
وہ بے ساختہ مسکرا دی. .عجیب لڑکی تهی.تهوڑی دیر پہلے چلا چلا کر اپنی یونیورسٹی کے قصے سنا رہی تهی اب ایک پل میں ایسے خاموش ہو گئی جیسے محترمہ کو سانپ سونگھ گیا ہو......
وہ ٹی وی نہیں دیکهتی تهی..ٹی وی میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تهی...کهبی کهبی بور ہونے کی صورت میں وہ کوئی ڈائجسٹ پڑھ لیا کرتی..
اس نے خدا کا شکر ادا کیا چلو کسی بہانے سہی کم از کم اس باتونی لڑکی کی باتوں سے جان تو چهوٹی...
جب تک ڈرامہ لگا ہوا تها اسے سانس لینے کی فرصت بھی مشکل سے ہو رہی تهی..
"اچها اب میں کالج جا رہی ہوں تم اگر بوریت محسوس کرو تو یہ ناولز پڑھ لینا" .خدا خدا کر کے اس نے ٹی وی کی جان چهوڑ دی اور دو تین کتابیں اس کی طرف بڑها دیں...پهر وہ اس کے گالوں پہ پیار کرتے ہوئے کالج روانہ ہو گئی......
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
شام کے وقت وہ دعا کے ساتھ اس کے کمرے میں ہی بیٹهی تهی..دعا کے آگے کتابوں اور نوٹس کا ایک انبہار لگا ہوا تها..اس کے چہرے کی جنجھلاہٹ سے واضح محسوس ہو رہا تها وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی..وہ پیپر پہ کچھ لکهتی اور دو منٹ بعد وہ پیپر پهاڑ دیتی..آج وہ اتنی پریشان لگ رہی تهی اس سے بھی کوئی بات نہیں کر رہی تهی...وہ بس خاموشی سے اس کی یہ کاروائی دیکھ رہی تھی. .....
" اللہ میاں یہ کمیسٹری بنانے والے کو کیڑے پڑیں"...
اب وہ ریاضی ایجاد کرنے والوں کو مختلف القاب سے نواز رہی تهی..وہ بس مسکرا کر رہ گئی...
" کیا ہوا کچھ سمجھ نہیں آ رہا ."..فرشتے نے ہمدردی سے ہوچها....
"کچھ. "...؟ وہ اسے گهور کر دیکھنے لگی....
" فرشتے یہ عذاب ہے کیمسٹری. .دوزخ کے گڑهوں میں سے ایک گڑها...اللہ میاں میں کیا کروں...پتا نہیں کس کم بخت نے یہ سبجیکٹ بنایا....اف میری تو جان نکال دی اس سبجیکٹ نے...اب مجھے کیا پتا...H2so4 کیا ہے یا پانی کا فارمولا کیا ہے گیس کا فارمولا. ..بجلی کا فارمولا. ..پٹرول کا فارمولا. ..ڈیزل کا فارمولا. .اف ..بس پرانے لوگوں کو اور تو کوئی کام تها نہیں اس لیے لکهتے رہتے تھے مختلف فارمولے".....وہ چڑ کر بولی.........
" اچها باقی سبجیکٹس میں کیسی ہو..مطلب وہ تو آسان ہیں. "...اس نے ڈرتے ڈرتے ایک اور سوال کیا..
" ہاں باقی اس کی نسبت ٹهیک ہیں پاسنگ مارکس آ ہی جاتے ہیں. ..لیکن میتھ میرا جانی دشمن ہے تم دیکھ لینا میں جس دن بهی مری ناں میتھ کی وجہ سے ہی مروں گی..."..اس کی شکل رو دینے جیسی بن گئی.....
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
اسے اس گهر میں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تها . زندگی جب چل پڑتی ہے تو کسی کے لیے نہیں رکتی..کهبی اس کی سب سے بڑی تمنا رہی تهی اس حویلی میں آنے کی .لیکن اب جن حالات میں اس کی یہ خواہش پوری ہوئی ہے یہ اس کی سب سے بڑی مجبوری تهی...کهبی کهبی حالات ایسے کروٹ بدلتے ہیں انسان کچھ نہیں کر پاتا ..اور حالات کے ساتھ ساتھ رشتے بھی کروٹ بدلنے لگتے ہیں. .........
اس حویلی میں اس کے پاس سب کچھ تها اسے سب کچھ مل رہا تها..اس کی ہر خواہش پوری ہو رہی تهی لیکن شاید کچھ ادهورا تها کچھ بہت ادهورا. ..اس ادهورے کو وہ کهبی پورا نہیں کر سکتی تهی. .پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا پیسے سے ہر چیز کهبی نہیں خریدی جا سکتی...پیسہ کهبی کسی کو مکمل بنانے کے لیے کافی نہیں ہوتا........
وہ اس گهر میں خود کو اجنبی محسوس کر رہی تهی.وہ کسی کے ساتھ بهی گهل مل نہیں پا رہی تهی سوائے دعا کے ..دعا کے ساتھ اس کی اچهی دوستی ہو چکی تهی اس ایک ہفتے میں دعا کے بارے میں اس کا پہلا نظریہ غلط ثابت ہوا...وہ لڑکی صرف باتیں بہت کرتی ہے باقی دل کی بہت اچهی ہے بہت معصوم. .کهبی کهبی ہم کچھ انسانوں کے بارے میں اپنی رائے غلط قائم کر لیتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہم انہیں سمجھ لیتے ہیں. ..وہ بھی دعا کو سمجھ چکی تهی...وہ ایک شوخ مزاج دل جیت لینے والی لڑکی تهی..اور وہ اس کی بہن بھی تهی اگر سگی نہیں بهی تهی تو کیا ہوا بہن تو بہن ہے اور خون کے رشتے کهبی نہیں بدلتے ....دل اس کے دل کی کیفیت اچهی طرح جانتی تهی اور اس کا دل بہلانے کی کوشش کر رہی تھی. .....
دعا ہمیشہ کی طرح کالج سے واپس آنے کے بعد اسے اپنی مختلف کاروائیاں سناتی..کهبی کا کس کے ساتھ جهگڑا کیا تو کهبی کس کے نوٹس چرائے. .وہ اب اس کے اوٹ پٹانگ قصے سن کر بور نہیں ہوتی تهی وہ آہستہ آہستہ عادی ہونے لگی تهی. .اس کی باتوں کی. .ان دونوں کے درمیان دنیا جہان کے ہر ٹاپک پہ بات ہوتی لیکن جس وجہ سے ان کی زندگی اتنی الجھ گئی ہے اس بارے میں نہ تو کهبی دعا نے بات کی اور نہ کهبی اس نے کریدنے کی کوشش کی. .حالانکہ اس کا دل بہت چاہا وہ اس سے اپنے ابو کے بارے میں پوچهے جنہوں نے اپنی پوری زندگی گزار دی...لیکن اندر ہی اندر وہ اپنی اس خواہش کو دبا لیتی. ..........
باقی سب کا رویہ اس کے ساتھ اول روز جیسا تها..سب اس سے اتنے ہی دور تهے جتنا پہلے دن..اور نہ ہی وہ ان کے قریب ہونے کی کوشش کر رہی تهی..انہوں نے جو کیا تها وہ بهول نہیں سکتی تهی..رخشندہ اس سے نفرت کرتی تهی اور بابا جان بهی اسے دیکھ کر منہ پهیر لیا کرتے تهے...ہاں البتہ جمشید چچا اس سے باتیں کر لیا کرتے تهے کهبی کهبی. ....
آرب کے ساتھ بھی وہ کافی گهل مل گئی تهی . لیکن ایک حد تک..آرب بہت ہی مچیور اور سنجیدہ قسم کا لڑکا تها..لیکن جب وہ شوخی پہ اتر آتا تو دعا کے ساتھ گهنٹوں بیٹھ کر چهیڑ خانی کرتا......
وہ آرب کو دیکھ کر شرماتی تهی..حالانکہ یہ عجیب بات تهی لیکن وہ کهبی اپنے شرمانے کی وجہ نہ سمجھ سکی.....
دن کو آرب آفس چلا جاتا اور دعا کالج وہ گهر میں اکیلی بور ہوتی..پورا گهر کهانے کو دوڑتا اتنے لوگوں کی موجودگی میں وہ خود کو تنہا محسوس کرتی..وہ کهبی اپنے کمرے میں بیٹھ کر کوئی کتاب پڑهتی تو کهبی کچن میں جا کر نجمہ کی مدد کرتی...وہ کهانا بہت شوق سے بناتی تهی ..اور یہ کچن بھی بڑا تها سامان بھی سارا موجود تها تو وہ دل کهول کر اپنا ہر شوق پورا کرتی تهی...اس کے ہاتهوں کی بنائی ڈشسز سبهی بڑے شوق سے کھاتے. .سوائے رخشندہ کے. ..دعا اور آرب تو کهل کر اس کے کهانوں کی تعریفیں بهی کرتے...اور کئی بار فرمائش کر کے اپنی پسندیدہ پکوان بھی بنواتے.........
دعا اور آرب بہت اچهے دوست تهے..وہ لڑتے جھگڑتے ایک دوسرے کے ساتھ چهیڑ خانی بھی کرتے لیکن وہ دونوں بچپن کے دوست تهے..ایک دوسرے کو بہت اچهے سے سمجهتے تهے..وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کے بہت قریب تهے...دعا کے علاوہ آرب کا کوئہ اور دوست نہیں تها ....ایک ہی گهر میں رہتے ہوئے وہ دو بچے جو اکیلے ہوتے تهے ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے...دعا اسے اپنے بچپن کے کئی واقعات سناتی جن میں اکثر وہ اور آرب لڑتے رہتے تهے اور ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کرتے تهے...............
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺻﺒﺢ ﺗﻬﯽ . ﺁﺭﺏ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺎﺋﻞ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﻬﺎ .. ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺎﻝ ﺭﻧﮓ ﭘﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﻓﺎﺋﻞ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮔﺌﯽ. . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﯿﺰﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﺍﻭ ﮐﮯ ﮐﺎ ﺑﭩﻦ ﺩﺑﺎ ﮐﺮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ اﭘﻨﮯ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻓﺎﺋﻞ ﭘﮧ ﺭﮐﻬﯽ ﺗﻬﯿﮟ ."..ﮨﯿﻠﻮ" ...اس نے پین سے کچھ نوٹ کرتے ہوئے ہیلو کہا .
".ﺁﺭﺏ ... ﺟﻠﺪﯼ ... ﮔﻬﺮ ﺁﻭ ﭘﻠﯿﺰ. .".. ﯾﮧ ﻟﺮﺯﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﺗﻬﯽ ...ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮑﭙﺎﮨﭧ ﻭﺍﺿﺢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ....
"ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺩﻋﺎ ﺳﺐ ﭨﻬﯿﮏ ﺗﻮ ﮨﮯ ."..؟اس نے بے تابی سے پوچھا..
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻓﻮﻥ ﮐﭧ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ. .ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻧﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺸﮏ ﭘﺘﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ .. ﻭﮦ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻓﺲ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﮑﺮﯾﭩﺮﯼ ﮐﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﯿﭩﻨﮕﺰ ﮐﯿﻨﺴﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ .... ﺍﻭﺭ ﭘﻬﺮ ﮐﺎﺭ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮔﻬﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﭙﯿﮉ ﺑﮍﮬﺎ
ﺩﯼ. ..ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﯾﺸﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ. .. ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﺎﺭ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻬﮍﯼ ﺗﻬﯽ. ... ﻭﮦ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺑﻬﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﻻﺅﻧﺞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ. ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﺭﺧﺸﻨﺪﮦ ﺳﮯ ﮨﻮﺍ ...
"ﺩﻋﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ چچی ؟" ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﺍﺑﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﺗﯿﺰ ﺗﻬﯽ ... ﺍﺱ ﻧﮯﮔﮭﺒﺮﺍﮨﭧ ﭘﮧ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺭﺧﺸﻨﺪﮦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ . ....
"ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺧﯿﺮﯾﺖ ". .رخشندہ نے حیرت سے اسے دیکھا. .....ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺑﻬﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ ...
ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ. .. ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﻬﯿﮟ ﯾﺎ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮨﯽ
ﺩﯾﮑﻬﺎ .... ﺩﻋﺎ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﮯ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﻬﯽ .. ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﻮﭦ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﺍﺋﯽ ﻓﺮﻭﭨﺲ ﺗﻬﮯ ..... ﺍﺱ ﭘﮧ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮈﺭﺍﺋﯽ ﻓﺮﻭﭦ ﻣﯿﺰ ﭘﮧ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮯ ... ﻭﮦ
ﺍﺑﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ. ...
"ﺁﮔﺌﮯ ﺗﻢ .."ﭼﻠﻮ فرشتے ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﭘﻨﮓ
ﮐﺮﻧﮯ ....ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻘﺮﮦ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻬﺮ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮ ﺩﯼ .....ﻭﮦ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺟﻮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻨﮯ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮨﻮﺋﮯ. ..
ﺁﺭﺏ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺭﯾﻤﻮﭦ ﭼﻬﯿﻦ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﭘﭩﺦﺩﯾﺎ.. ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻬﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻬﮍﺍ ﮐﯿﺎ ...
"Are You ok...?"
".. ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻣﺎﻍ ﺗﻮ ﭨﻬﯿﮏ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻼﯾﺎ ، ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﺧﻮﻥ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ ... ﭘﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻣﯿﭩﻨﮕﺰ ﮐﯿﻨﺴﻞ ﮐﺮ ﮐﮯﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ. ..". ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﺑﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .وہ چلا کر اس سے پوچھ رہا تها. ."
"...ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﯿﺪﻫﮯ ﺳﯿﺪﻫﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﭘﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺁ ﺟﺎﺗﮯ ..". ؟ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭼﻬﮍﺍ ﮐﺮ ﻻ ﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ. ﺟﯿﺴﮯ
ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ. ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﻗﺎﺑﻞِ ﺩﯾﺪ ﺗﻬﯽ ....
".. ﺍﺗﻨﮯ ﺑﻬﯽ ﺍﭼﻬﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ مسٹر آرب صاحب.. ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻮﮈ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ . ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ. ﺍﭼﻬﺎ ﭼﻠﻮ ﺍﺑﻬﯽ ﻧﺨﺮﮮ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ فرشتے ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ. . ﺗﻢ ﺗﺐ ﺗﮏ ﮔﺎﮌﯼ"
ﻧﮑﺎﻟﻮ .....ﻭﮦ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ ...
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﮧ ﺗﻬﯽ
ﻭﮦ ﭘﻮﺭﭺ ﻣﯿﮟ ﮐﻬﮍﺍ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ. .ﺍﺏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﻓﯽ
ﺣﺪ ﺗﮏ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﻬﺎ ...
ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮍ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ' ﺩﻋﺎ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺱ
ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺒﺰ ﮐﺮﺗﺎ ﭘﮩﻨﮯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. ..
ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﮐﺎ ﻣﯿﮏ ﺍﭖ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﮐﻬﮍﺍ ......ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻤﻠﮧ ﺍﺩﻫﻮﺭﺍ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ،ﻟﺐ ﮨﻠﻨﺎ ﺑﻬﻮﻝ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺩﻋﺎ
ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺗﯽ فرشتے ﭘﮧ ﭘﮍﯼ ...
ﺳﺎﺩﮦ ﺳﯽ ﮔﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ
ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ
ﺗﮭﯽ. ..
ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺁﺭﺏ ﺳﮯ ﻣﻠﯿﮟ ﭘﻬﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺷﺮﻣﺎ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺟﻬﮑﺎ ﻟﯿﮟ ...
ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﻍ ﮐﺎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﻼﺏ ، ﮐﺴﯽ ﻣﺼﻮﺭ ﮐﯽ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻏﺰﻝ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ....
ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﻮ ﺩﻝ ﺑﻬﯽ ﺩﻫﮍﮐﻨﺎ ﺑﻬﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ، ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﻬﻢ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺳﻮﺋﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﻮ ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ .بنا میک اپ اس کا چہرہ کتنا شفاف لگ رہا تها .وہ پتا نہیں کن خیالوں میں کهو گیا.......
" ﺍﺏ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺑﻦ ﮐﮯ ﮐﻬﮍﮮ ﮨﻮ ﭼﻠﻮ ﺟﻠﺪﯼ ."....ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ. .ﺍﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﮐﺐ ﺩﻋﺎ ﺍﻭﺭ فرشتےﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﻬﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﯿﮟ
ﺗﮭﯿﮟ. ..ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ...وہ وقفے وقفے سے اسے بیک ویومر سے دیکھ رہا تها جبکہ وہ دعا کے ساتھ باتوں میں مصروف تهی.. ..ﺗﻬﻮﮌﯼ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻬﺎ ..ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﮈ ﺑﮭﯽ
ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ . .. ﻭﮦ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ. ..
ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﺎﻝ ﭘﮧ ﺁﺋﯽ ﺗﻬﯽ ﺍﺱ
ﻟﯿﮯ ﺗﻬﻮﮌﯼ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﻬﯽ ..
ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺩﻋﺎ ﮐﺎ ﺟﻮﺵ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ. . ﻭﮦ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﺎﺗﮫ فرشتے ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺑﻬﯽ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ. .. ﺁﺭﺏ ﺑﺲ ﭨﺎﺋﻢ ﭘﺎﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ
ﺩﻭﮌﺍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ
ﻧﮧ ﺗﮭﯽ. .. ﺩﻋﺎ ﻧﮯ فرشتے ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻬﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﯽ . ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯿﮟ .... ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻮﺗﯿﯿﮏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﻫﮯ ..ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ
ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﻬﺎ .. ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺳﯿﺎﮦ ﺳﺎﮌﮬﯽ ﭘﮧ ﺟﺎ ﭨﮑﯽ ، ﺟﺲ
ﭘﮧ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﺗﻬﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻋﺎ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﮌﮬﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ فرشتے ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺩﻭ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻭﮦ ﮔﻬﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ.. ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻋﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﺩﮐﻬﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
امی: بیٹا فیس بک انسٹا گرام ٹیوٹر اور واٹس اپ کے علاوہ بھی ایک دنیا ہوتی ہے
میں: اچھا لنک سینڈ کریں زرا😂😂😂😂😂😂😂
اب اس میں جوتا مارنے کی کیا ضرورت تھی😢😢
# # # # # # # # # # # # # # # # # # # # #
وہ صبح سے اپنے کمرے میں بیٹهی ناول پڑھ پڑھ کر بور ہو چکی تهی .دعا کالج جا چکی تهی وہ دعا کے جانے کے بعد ہمیشہ یونہی ہی بور ہوتی تهی..اس کی نظریں اس ناول پہ تهیں لیکن دماغ کہیں اور اٹکا ہوا تها کہاں یہ اسے نہیں پتا....وہ ناول سے بیزار ہو چکی تهی اس نے ناول میز پہ رکھ کر ایک ہاتھ سے جمائی روکی اور بیزاری سے چلتی ہوئی اپنے کمرے سے لاؤنج تک آئی ..وہاں بھی بالکل سناٹا تها گهر پہ کوئی نہیں تها..جمشید چچا آفس گئے ہوں گے اور بابا جان واک پہ چلے گئے اور رخشندہ آنٹی شاید آس پاس پڑوس میں گئی ہوں گی...وہ خود ہی خود اندازے لگانے لگی...
اور پوری حویلی میں یونہی بنا مقصد ٹہلتی رہی....
اچانک ایک کمرے کے سامنے گزرتے ہوئے اس کے قدم رک گئے..اس نے تیزی سے چہرہ گهما کر اندر دیکها..وہ کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تها اس میں مختلف خوبصورت پینٹگز لگی ہوئی تهیں..لیکن وہ ان پینٹگز کو نہیں دیوار پہ لگی اس تصویر کو دیکھ رہی تھی. .وہ بڑی دیر تک سانس روک کر اس تصویر کو دیکهتی رہی وہ تصویر اس سے کچھ فاصلے پر تهی اس لیے وہ اسے اچهے سے دیکھ نہیں پا رہی تهی...ایک انجانی کشش اسے اندر کهینچ رہی تهی وہ بنا کچھ سوچے سمجهے اندر چلی آئی..اس کی نظر اب بھی تصویر پر تهیں...وہ آس پاس سے مکمل طور پر لا تعلق تهی...وہ بڑی محبت اور عقیدت سے اس تصویر کو دیکھ رہی تھی. .اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ تهی...
اس تصویر میں تین انسان دکهائی دے رہے تهے اسے..درمیان میں بابا جان کهڑے تهے وہ ان کی بہت پرانی تصویر تهی اس لیے وہ اتنے بوڑهے نہیں لگ رہے تهے اور بابا جان کے بائیں طرف چچا جمشید کهڑے تهے ان کی جوانی کی تصویر تهی وہ ہو بہو اس کے ابو جیسے تهے وہ مسکرا رہے تهے..اور بابا بابا جان کے دائیں طرف. ..اس کے...ابو کهڑے تهے ..وہ بھی مسکرا رہے تهے وہ جوانی میں بہت ہینڈسم تهے..وہ تصویر بہت خوبصورتی سے بنائی گئی تهی...وہ تینوں اس تصویر میں بہت خوش لگ رہے تهے..وہ یک ٹک اپنے ابو کو دیکھ رہی تھی. ..اس نے اپنے ابو کی جوانی کی تصویر کهبی نہیں دیکهی .....
پتا نہیں کیوں زندگی کے طوفان کی زد میں یہ تین لوگ آ گئے اور ایسے جدا ہوئے کہ پهر کهبی مل نہیں سکے..دلوں میں اتنی نفرت پیدا ہو گئی کہ سب ختم ہو گیا. ....
اس نے اپنی انگلیوں سے ابو کی تصویر کو ہاتھ لگائی ان تین آدمیوں میں صرف اس کے ابو نہیں تهے باقی سب ویسے تها صرف اس کے ابو نہیں تهے..کاش یہ وقت ایک بار پھر لوٹ سکتا کاش ایک بار پھر وہ تینوں مل کر ایک ایسی تصویر بناتے .....کاش زندگی واپس لوٹ سکتی یا کاش اس کے ابو کو زندگی مہلت دیتی کہ وہ سب ٹهیک کر دیتے........
اچانک اسے قدموں کی چاپ سنائی دی..اس نے بے دھیانی سے مڑ کر پیچهے دیکها تو جیسے پتهر کی بن گئی..ان تین آدمیوں میں جو تصویر میں کهڑے تهے ان میں سے ایک آدمی بالکل اس کے سامنے کهڑا تها...اس سے چند قدموں کی دوری پہ.....
جاری ہے______

کمنٹس ضرور کر لیا کرے کیونکہ بندے کو حوصلہ مل جاتا ہیں
copy

Address

Kulai
Kuala Lumpur
81000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aine posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share