Urdu Column

Urdu Column ہم روزآنہ پاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والے تمام مشہور کالم نگار کے کالم سینڈ کرتے ہیں۔

05/12/2022

اردو کالم

05-12-2022

30/11/2022

سوچ بدلو۔ زندگی بدلو۔

عون محمد شاہ

ایک شخص کہتا ہے میں جہاز سے اترا اور کسٹم سے گزر کر ٹیکسی لینے سٹینڈ کی طرف چلا۔ جب میرے پاس ایک ٹیکسی رکی تو مجھے جو چیز انوکھی لگی وہ گاڑی کی چمک دمک تھی۔ اس کی پالش دور سے جگمگا رہی تھی۔ ٹیکسی سے ایک سمارٹ ڈرائیور تیزی سے نکلا۔ اس نے سفید شرٹ اور سیاہ پتلون پہنی ہوئی تھی جو کہ تازہ تازہ استری شدہ لگ رہی تھی۔ اس نے صفائی سے سیاہ ٹائی بھی باندھی ہوئی تھی۔ وہ ٹیکسی کی دوسری طرف آیا اور میرے لئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ اس نے ایک خوبصورت کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا!

سر جب تک میں آپ کا سامان ڈگی میں رکھوں، آپ میرا مشن سٹیٹمنٹ پڑھ لیں۔

میں نے آنکھیں میچ لیں۔

یہ کیا ہے؟

میرا نام سائیں ہے، آپ کا ڈرائیور۔ میرا مشن ہے کہ مسافروں کو سب سے مختصر، محفوظ اور سستے رستے سے ان کی منزل تک پہنچاؤں اور ان کو مناسب ماحول فراہم کروں۔

میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ میں نے آس پاس دیکھا تو ٹیکسی کا اندر بھی اتنا ہی صاف تھا جتنا کہ وہ باہر سے جگمگا رہی تھی۔ اس دوران وہ اسٹئرنگ سنبھال چکا تھا۔

سر آپ کافی یا چائے پینا چاہیں گے؟ آپ کے ساتھ ہی دو تھرماس پڑے ہوئے ہیں جن میں چائے اور کافی موجود ہے، میں نے مذاق میں کہا کہ نہیں میں تو کوئی کولڈ ڈرنک پیوں گا۔

وہ بولا سر کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے پاس آگے کولر پڑا ہوا ہے۔ اس میں کوک، لسی، پانی اور اورنج جوس ہے۔ آپ کیا لینا چاہیں گے؟

میں نے لسی کا مطالبہ کیا اور اس نے آگے سے ڈبہ پکڑا دیا۔ میں نے ابھی اسے منہ بھی نہیں لگایا تھا کہ اس نے کہا۔

سر اگر آپ کچھ پڑھنا چاہیں تو میرے پاس اردو اور انگریزی کے اخبار موجود ہیں۔ سر میں نے ائر کنڈیشنر لگا دیا ہے۔ بتائیے گا کہ ٹمپریچر زیادہ یا کم ہو تو آپ کی مرضی کے مطابق کر دوں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے رستے کے بارے میں بتا دیا کہ اس وقت کس رستے پر سے وہ گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس وقت وہاں رش نہیں ہوتا۔ پھر بڑی پتے کی بات پوچھی۔

سر اگر آپ چاہیں تو رستے سے گزرتے ہوئے میں آپ کو اس علاقے کے بارے میں بھی بتا سکتا ہوں اور اگر آپ چاہیں تو آپ اپنی سوچوں میں گم رہ سکتے ہیں۔ وہ شیشے میں دیکھ کر مسکرایا۔

میں نے پوچھا۔ سائیں، کیا تم ہمیشہ سے ایسے ہی ٹیکسی چلاتے رہے ہو؟ اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آئی۔

نہیں سر، یہ کچھ دو سال سے میں نے ایسا شروع کیا ہے، اس سے پانچ سال قبل میں بھی اسی طرح کڑھتا تھا جیسے کہ دوسرے ٹیکسی والے کڑھتے ہیں۔ میں بھی اپنا سارا وقت شکایتیں کرتے گزارا کرتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن کسی سے سنا کہ سوچ کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ یہ سوچ کی طاقت ہوتی ہے کہ آپ بطخ بننا پسند کریں گے کہ عقاب؟ اگر آپ گھر سے مسائل کی توقع کر کے نکلیں گے تو آپ کا سارا دن برا ہی گزرے گا۔ بطخ کی طرح ہر وقت کی ٹیں ٹیں سے کوئی فائدہ نہیں، عقاب کی طرح بلندی پر اڑو تو سارے جہاں سے مختلف لگو گے۔ یہ بات میرے دماغ کو تیر کی طرح لگی اور اس نے میری زندگی بدل دی۔

میں نے سوچا یہ تو میری زندگی ہے۔ میں ہر وقت شکایتوں کا انبار لئے ہوتا تھا اور بطخ کی طرح سے ٹیں ٹیں کرتا رہتا تھا۔ بس میں نے عقاب بننے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو تمام ٹیکسیاں گندی دیکھیں۔ ان کے ڈرائیور گندے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے تھے اور مسافروں کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے۔ ان کے مسافر بھی ان سے بے زار ہوتے تھے۔ کوئی بھی خوش نہیں ہوتا تھا۔ بس میں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے چند تبدیلیاں کیں۔ گاڑی صاف رکھنی شروع کی اور اپنے لباس پر توجہ دی۔ جب گاہکوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی تو میں نے مزید بہتری کی۔ اور اب بھی بہتری کی تلاش ہے۔

میں نے اپنی دلچسپی کے لئے پوچھا کہ کیا اس سے تمہاری آمدنی پر کوئی فرق پڑا؟

سر بڑا فرق پڑا۔ پہلے سال تو میری انکم ڈبل ہوگئی اور اس سال لگتا ہے چار گنا بڑھ جائے گی۔ اب میرے گاہک مجھے فون پر بک کرتے ہیں یا ایس ایم ایس کر کے وقت طے کر لیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے ایک اور ٹیکسی خریدنی پڑے گی اور اپنے جیسے کسی بندے کو اس پر لگانا پڑے گا۔ یہ سائیں تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے بطخ نہیں بننا بلکہ عقاب بننا ہے۔

کیا خیال ہے، اس ہفتے سے عقاب کا سفر نہ شروع کیا جائے؟ سائیں نے مجھے ایک نیا فلسفہ دیا۔

سوچ بدلو۔ زندگی بدلو۔

وہ جو کسی نے کہا ہے نہ کہ کوئی بھی پانی میں گرنے سے نہیں مرتا۔ مرتا وہ اس وقت ہے جب وہ اس مشکل سے نکلنے کے لیۓ ہاتھ پاؤں نہیں مارتا ہے۔

30/11/2022

ملازمین کا استحصال بند کیا جائے

جویریہ ساجد

معاشرے میں استحصال کی بات ہو تو اس پہ آواز ضرور اٹھانی چاہیے چاہے وہ استحصال کوئی بھی طبقہ کر رہا ہو۔ آج میرا ٹاپک کارپوریٹ اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمین کا استحصال ہے۔ یہ سیکٹرز جس طرح اپنے ورکرز اور ملازمین کا استحصال کر رہے ہیں اس پہ بات ہونی چاہیے۔ اس میں سب سے اہم تو جاب سیکیورٹی یا جاب سیفٹی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں جس ادارے کا جب دل چاہتا ہے ملازمین کو اٹھا کے باہر پھینک دیتا ہے۔ ہائر کرنے کے اصول ہوں نا ہوں فائر کرنے کے کوئی اصول نہیں ہیں۔

عموماََ پرانے ورکرز اور ملازمین دن بدن مہنگے ہوتے جاتے ہیں ایک سطح پہ آ کے لگتا ہے کہ ان کی ایک تنخواہ میں آپ دو ورکرز رکھ سکتے ہیں، ٹیلنٹ کی نہ تو کسی کو ضرورت ہے نا فکر گردن پہ بندوق رکھ کے کام نکلوا ہی لیا جاتا ہے۔ دوسری بڑی مصیبت ورک لوڈ اور جاب ٹائمنگز کی ہیں۔ بینکرز بلا تفریق شام چھ، سات بجے سے پہلے گھر نہیں جاتے غضب خدا کا دس دس گھنٹے کی نوکری میں آپ ان کو نچوڑ رہے ہیں، ان کی صحت تباہ کر رہے ہیں اس کے بعد جاب سیفٹی بھی کوئی نہیں۔

تیسرا بڑا مسئلہ پیمنٹس کا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹرز میں اب آٹھ گھنٹے کے بعد کے وقت کو اوور ٹائم شمار کر کے اس پہ ایکسٹرا پیمنٹ بھی نہیں دی جاتی۔ میں اس سلسلے میں آج کچھ مطالبات پیش کر رہی ہوں۔ جن میں سب سے پہلے تو یہ کہ لیبر لاز کی عملداری ممکن بنائی جائے اور کارپوریٹ سیکٹر کو پابند کیا جائے کہ وہ ان لاز کی ہر حال میں پاسداری کریں گے، جن میں

1۔ ورکرز کو جاب سیفٹی فراہم کی جائے انہیں کسی بھی وقت نوکری سے نکالے جانے کے خوف جیسی غیر یقینی صورتحال سے نکالا جائے۔ ہائر اور فائر کرنے کا باقائدہ لائحہ عمل ہو۔ کسی کو شو کاز نوٹس دیے بغیر فارغ نہیں کیا جا سکے۔ اس پہ الزامات کو ثابت کیا جائے اور اسے اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا جائے۔ اس سے دفاتر میں ملازمین کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں، شکایات اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے جیسی حرکتوں کا سدباب ہو سکے گا۔

2۔ جاب ٹائمنگز 8 گھنٹے فکس کیے جائیں اس سے اوپر ہر گھنٹے کی ایکسٹرا پیمنٹ ہو۔ کسی بھی ملازم کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ آٹھ سے زیادہ گھنٹے کام کرے اگر وہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے تو اسے ایکسٹرا پیمنٹ کی جائے۔

3۔ جن دفاتر میں خواتین ورکرز بھی کام کر رہی ہیں وہاں ڈے کئیر کی سہولت لازمی مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو باآسانی جاب پلیس پہ لا سکیں۔

4۔ خواتین ورکرز کو ان کی استطاعت کے مطابق کام دیا جائے۔ پچھلے دنوں ہماری ایک قابل صحافی نے ایک چینل کے لیے جلسے کی کوریج کرتے ہوئے جان کی بازی ہاری۔ سمجھ سے بالاتر ہے خواتین کو کرینز میں بٹھا کے لٹکا کے، چلتے ہوئے کنٹینرز کے پیچھے دوڑا کے اور اس پہ چڑھ کے کوریج کرنے جیسی ڈیوٹیز دینے والوں کو احساس ہے کہ خواتین کی جسمانی استطاعت اتنی ہے بھی یا نہیں؟

5۔ خواتین ورکرز کو تین ماہ کی میٹرنٹی لیو کا قانون اور اس قانون پہ سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جائے مجھے یاد ہے جب میں ایک بہت بڑے کالج میں جاب کرتی تھی وہاں لاہور سے ایک پرنسپل صاحب بھیجے گئے جنہوں نے ہماری دو کولیگز خواتین کو میٹرنٹی لیو تو کیا ایکسٹرا ڈیوٹیز میں ریلکسیشن تک نہیں دی تھی، ایک کولیگ تو کالج سے سیدھا ہسپتال پہنچیں ان کے یہاں چند گھنٹے بعد بیٹی پیدا ہوئی۔ ایک اور کولیگ کے آپریشن میں مسائل ہوئے مگر انہیں پندرہ دن بعد کالج ری جوائن کرنے پہ مجبور کیا گیا ورنہ نوکری سے ہاتھ دھوتیں۔

6۔ اپنے ورکرز کو ڈویلپ کریں ان کو سال میں ایک بار ورکشاپس کروائیں۔ میں نے بنک اور میڈیکل ریپ کے علاؤہ کہیں نہیں دیکھا کہ انہوں نے اپنے ملازمین کو پالش کیا ہو۔ خاص طور پہ میڈیکل ریپ عام سے معمولی دیہاتی لڑکے چند ماہ بعد اتنی اچھی شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں ان کا پہننا اوڑھنا، بات کرنا، سب بدل جاتا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ وہ ہر کچھ عرصے بعد بڑے شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں ان کی ورکشاپس کرواتے ہیں ان کی ٹریننگ کے ساتھ گرومنگ بھی ہوتی ہے جو ان کی قابلیت اور اعتماد میں اضافے کا باعث ہے۔ قابل، ٹرینڈ ورکر آپ کے اپنے بزنس کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ اگر آپ سمجھیں۔

7۔ تمام ورکرز کو سال میں ایک ہفتہ سیاحتی چھٹیاں بھی دی جائیں یہ ورکرز میں ری فیولنگ کا کام کریں گی ان کی استعداد کار بڑھائیں گی۔

ورنہ آپ معاشرے کو کمزور، بیمار، ذہنی طور پہ الجھے ہوئے، پریشان حال، تھوڑے ہی عرصے میں پھٹیچر، بیمار اور تیزی سے بوڑھے ہوتے افراد کے علاؤہ کیا دے رہے ہیں۔ ورکرز آپ کو کیا دے رہے ہیں؟ اس کے ساتھ یہ بھی سوچیں کہ آپ ورکرز کو کیا دے رہے ہیں؟ آپ کے ادارے نے ان کی شخصیت، معیشت، سٹیٹس بہتر کرنے پہ کتنا کام کیا ہے؟ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹرز کو پابند کرے کہ وہ لیبر لاز کی پاسداری کریں۔

30/11/2022

انگریزی میڈیم یا اردو میڈیم

عامر عباس

سابق وفاقی حکومت نے آتے ہی سنگل نیشنل کریکولم یعنی ایک قوم ایک نصاب کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ عملی طور پر بھی اسے لاگو کیا۔ اگرچہ اس میں ابھی بھی کچھ سقم ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقدام لائق تحسین ہے کیونکہ یہ کوئی چھوٹا کام نہیں ہے۔ گزشتہ برس پرائمری تک یہ نصاب لاگو کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ امسال آٹھویں کلاس تک یہ کریکولم نافذ العمل ہوگا۔ سنگل نیشنل کریکولم بھی ایک ارتقائی عمل ہے جس میں بہتری کی گنجائش تو کافی سال تک رہے گی اور آنے والے چند برسوں میں مزید بہتری آتی جائے گی البتہ سب سے اہم کام عملی اقدام تھا جو سابق حکومت نے لے لیا۔

مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان میں ذریعہ تعلیم اردو میڈیم ہے یا انگریزی میڈیم؟ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر نئی آنے والی حکومت پچھلا نظام تعلیم ختم کر کے نیا نظام نافذ کر دیتی ہے۔ ہر سال میڈیم کے ضمن میں نت نئے تجربات کر کے بچوں کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ المیہ ہمارا یہ ہے کہ انگریزی میڈیم پڑھنے کے باوجود ہمارے بچے انگریزی بولنے اور انگریزی لکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ انگریزی ہماری زبان ہی نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اب ہمارا بچہ نہ تو ڈھنگ کی انگریزی بول سکتا ہے اور نہ ہی اپنی قومی زبان اردو۔ "کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا" کے مصداق ہم نے انگریزی سیکھنے کے چکر میں اپنی قومی زبان کو بھی پس پشت ڈال دیا نتیجتاً ہم آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے دماغ سے یہ بات کیوں نہیں نکل سکتی کہ اپنی مادری زبان کو ترویج دئیے بغیر ہم ترقی کبھی بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ زبان بھی کسی ملک کی ثقافت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اگر آپ قومی زبان کو منفی کر دیں تو پیچھے آپ کے پاس بچتا ہی کیا ہے؟

آئین میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ملک کی دفتری زبان اردو کر دی جائے گی اور تمام تر خط و کتابت اردو زبان میں ہوگی مگر ملک کو وجود میں آئے پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم اس پر عمل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ اس وقت ملک میں اردو کی ترویج و ترقی کی ازحد ضروری ہے جس کیلئے ادارے پہلے سے موجود ہیں بس انھیں فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرنے کیلئے ان اداروں کی ذمہ داری لگائی جائے یہ کوئی بہت بڑا کام نہیں ہے کہ ناممکن ہو۔

یہاں میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ اب لگے ہاتھوں کم از کم تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم انگریزی میڈیم کے بجائے بتدریج اردو میڈیم کی طرف شفٹ ہوا جائے بلاشبہ یہ اپنی قومی زبان کی ترویج کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ انگریزی کو بےشک چودھویں تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھا دیا جائے کیونکہ دیگر دنیا کیساتھ چلنے کیلئے انگریزی کو بالکل نظر انداز کر دینا بھی حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔

اس کا بہترین حل یہ ہے کہ انگریزی کے علاوہ تمام مضامین اردو میڈیم میں کر دئیے جائیں اس سے ایک طرف تو اپنی قومی زبان کی ترقی و ترویج میں مدد ملے گی جبکہ دوسری طرف طلبہ کو اپنے مضامین سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی۔ انگریزی کو بطور لازمی مضمون بےشک پڑھاتے رہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پاکستان میں انگریزی تعلیم کا معیار بڑھانے کے ضمن میں بھی ایک بہترین فارمولا موجود ہے۔

جن کلاسز میں انگریزی کا مضمون 100 نمبرز پر مشتمل ہے ان میں تحریری امتحان کیلئے پچاس نمبرز مختص کئے جائیں جبکہ باقی 50 نمبرز سپوکن انگریزی کیلئے مختص کئے جائیں۔ جن کلاسز میں انگریزی کا مضمون 200 نمبرز پر مشتمل ہے وہاں انگریزی کا تحریری امتحان 100 نمبرز اور سپوکن امتحان کے باقی سو نمبرز کر دئیے جائیں۔ اس طرح چند ہی سال میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ملک میں اردو کو کیسے فروغ ملتا ہے اور آپکا میٹرک پاس بچہ انگریزی بھی فر فر بول رہا ہوگا۔

30/11/2022

فرض شناس آفیسر ، امیر خان

ناصر عباس شمیم

یوں تو یہ دنیا انسانوں سے بھری پڑی ہے لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں رہی، دنیا میں انسانیت سب سے بڑی اور انمول چیز ہے اس لئے ہمارے نبیؐ نے فرمایا کہ انسانیت سب سے بڑی اور اہم ہے۔ کعبہ کی حرمت سے زیادہ قلب مومن ہے جس میں ربّ رہتا ہے۔ جس انسان میں انسانیت نہیں وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔

اس دنیا میں اقتدار، عہدے، مال و دولت کی کوئی قدر و قیمت نہیں لیکن یہاں یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ آج کے دور میں لوگ اقتدار، عہدے اور مال دولت کو سب کچھ سمجھتے ہیں بڑا آدمی وہ ہے جس کے پاس انسانیت، رحمدلی ہے۔ ان کے دل میں دوسروں کیلئے درد ہو، حقیقی محبت ہو وہی اعلیٰ ترین انسان اور انسانیت کی معراج ہے۔

میری اپنی ذاتی زندگی میں ایسی خدا شناس شخصیات سے واسطہ پڑا جن کا طرز عمل محبتیں، چاہتیں اور چاہنے کا انداز دیکھ کر میرے دل سے ہر وقت اپنے احباب کیلئے نیک تمنائیں اور دعائیں خودبخود دل سے نکلتی ہیں۔ یوں تو اس جہاں میں میرے چاہنے والے بہت ہیں اسی لئے میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ میں دنیا کا امیر ترین انسان ہوں۔ وہ اس لئے کہ میرے پاس مال، دولت نہیں اس حوالے سے بندہ ناچیز غریب ہے لیکن اپنے دوستوں اور احباب کی محبتوں کی وجہ سے میں اپنے آپ کو دنیا کا امیر ترین انسان سمجھتا ہوں۔

وہ اس لیے بھی کہ میرے تمام احباب باشعور ہیں۔ آج میں اپنا کالم ایک اور چاہنے والے کے حوالے سے لکھ رہا ہوں جو کسی تعریف کے مختاج نہیں۔ وہ شخصیت نہ صرف مجھے نہیں چاہتی بلکہ وہ ہر ایک کو چاہنے والی شخصیت ہے۔ مجھ جیسے ہر غریب طبقے کے لوگ ان کے دوست ہیں، ہر طبقے کے لوگوں کے لیے ان کے دل میں پیار، محبت، عشق اور اہمیت ہے۔

جناب امیر خان صاحب کا تعلق گلگت کے حسین و جمیل علاقہ ضلع نگر سے ہے۔ امیر خان ایک امیر ترین گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ابتدائی تعلیم نگر سے حاصل کرنے بعد ملک کے دیگر شہروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں بحیثیت نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اس وقت بھی غریب اور نادار لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

اس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر بن کر بلتستان کے خوبصورت ضلع شگر میں رہے۔ شگر کے لوگ اب بھی ان کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد روندو میں بھی اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کھرمنگ کے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر بھی رہے۔ کھرمنگ کے معاملے اور عوامی مسائل سے آپ بخوبی آگاہ ہونے اور قابل آفیسر ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان نے آپ کو ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا۔

اس دور میں آپ نے ضلع کھرمنگ کی عوام کے فلاحی کاموں میں بے مثال کردار ادا کیا۔ یہاں کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کئے۔ اس وقت کھرمنگ ضلع کے ہیڈ کوارٹر کا مسئلہ گھمبیر ہوا تھا، ہیڈ کوارٹر کی جگہ کا تعین کرنے میں حکومت اور انتظامیہ کو بڑی مشکلات درپیش تھیں۔ آپ نے اچھے اور بہتر انداز میں ضلع کھرمنگ میں ہیڈ کوارٹر کے مسائل کو اچھے انداز میں حل کر دیا یہ سب آپ کی قابلیت اور اعلیٰ ظرفی کی مثالیں ہیں۔

آج ضلع کھرمنگ کی عوام بھی آپ کی ان خدمات کو یاد کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ ڈپٹی کمشنر کھرمنگ تھے تو بندہ ناچیز نے بطور پی آر او ڈی سی کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ اس وقت آپ اپنے دفتر کے چھوٹے ملازمین سے کبھی سختی سے پیش نہیں آتے تھے بلکہ ہر ایک سے محبت سے پیش آتے۔ اس وقت ضلع کھرمنگ میں ڈی سی آفس میں اکثر ملازمین آپ کے ہاتھوں سے بھرتی بھی ہوئے آج اللہ کے فضل و کرم سے تمام ملازمین ریگولر ہو گئے۔

اس وقت سب کے لبوں سے ان کے حق میں دعائیں نکل رہی ہیں۔ ایک دفعہ ڈی سی کھرمنگ کی گاڑی میں امیر خان صاحب کے ساتھ طولتی سے آ رہے تھے تو ایک راہگیر نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تو امیر خان صاحب نے اپنے ڈرائیور سے ان کو بیٹھانے کیلئے کہا تو وہ بندہ گاڑی کی ڈگی میں بیٹھایا، تو امیر خان نے اس بندے کو آگے سیٹ پر آنے کا کہا اور اپنے ساتھ بیٹھا کر سفر طے کیا اور کہا کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے۔

سب انسان برابر ہیں اگر اس کو ڈگی میں بٹھایا تو بے چارے کو اس سردی میں تکلیف ہوگی اور میرا خدا مجھ سے بہت ناراض ہو جائیگا۔ اس کی رحمدلی کی اور بھی کافی باتیں ہیں اس پر اگر تفصیل سے لکھوں تو بندہ ناچیز کو کئی رجسٹر درکار ہیں۔ یہاں ان کو یاد کرنے اور اپنے دل میں موجود محبت کا اظہار کرنے کے لیے آج یہ کالم لکھ رہا ہوں۔

قارئین میرا ہمیشہ مختلف شخصیات پر کالم لکھنے کا مقصد کسی کو خوش کرنا نہیں یا کسی کو ناراض کرنا بھی نہیں۔ میری ہمیشہ سے یہی عادت رہی ہے کہ میں ہمیشہ زندوں کی قدر کرتا ہوں، زندوں کی قدر کرنا میرا شیوہ ہے اور مردوں کی مغفرت کیلئے دعا کرنا میری عادت ہے۔ لہٰذا آخر میں میری دلی دعا ہے کہ فرض شناس آفیسر ہمارے محترم امیر خان کو مزید ترقی عطا فرمائے۔ اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے

30/11/2022

قدیم یونان میں تھیٹر

ثنا شبیر

قدیم یونان میں تھیٹر اور ڈرامہ نے تقریباً 5ویں صدی قبل مسیح میں ٹریجڈی کے عظیم مصنف سوفوکلس کے ساتھ شکل اختیار کی۔ ان کے ڈراموں میں اور ایک ہی صنف کے ہیرو اور زندگی کے آئیڈیل کو دکھایا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انسان کو عزت اور شہرت کے لیے جینا چاہیے، اس کا عمل جرأت مندانہ اور شاندار تھا اور اس کی زندگی ایک عظیم اور عظیم موت میں عروج پر ہوگی۔ اصل میں، ہیرو کی پہچان خود غرضانہ رویوں اور دوسروں کی خدمت کے بارے میں بہت کم سوچ سے پیدا ہوئی تھی۔

اپنی تحریری اسائنمنٹس میں مدد کی ضرورت ہے۔

جیسے جیسے یونانی شہری ریاستوں اور نوآبادیات کی طرف بڑھے، اپنے شہر کی خدمت کر کے عزت حاصل کرنا ہیرو کا مقدر اور خواہش بن گیا۔ ابتدائی یونانی دنیا کی دوسری بڑی خصوصیت مافوق الفطرت تھی۔ دونوں جہانیں الگ الگ نہیں تھیں، کیونکہ دیوتا اسی دنیا میں رہتے تھے جیسے مردوں کی، اور انہوں نے مردوں کی زندگیوں میں مداخلت کی جیسا کہ انہوں نے انتخاب کیا۔ یہ دیوتا تھے جنہوں نے انسانوں کو تکلیف اور برائی بھیجی۔

سوفوکلز کے ڈراموں میں، دیوتاؤں نے ہیرو کے کردار میں ایک المناک خامی کی وجہ سے ہیرو کے زوال کو جنم دیا۔ یونانی المیہ میں، مصائب سے دنیاوی معاملات اور فرد کا علم ہوا۔ ارسطو نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سامعین کس طرح المناک واقعات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور پھر بھی ایک خوشگوار تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔

ارسطو، یونانی المیے کے مصنفین، Aeschylus، Euripides، اور Sophocles (جن کے Oedipus Rex کو وہ تمام یونانی المیوں میں سے بہترین تصور کرتا تھا) کے کاموں کو تلاش کر کے المیہ کی اپنی تعریف تک پہنچا۔ اس وضاحت کا ان سانحات لکھنے والوں پر بیس صدیوں سے زیادہ گہرا اثر ہے، خاص طور پر شیکسپیئر۔

المیہ کے بارے میں ارسطو کا تجزیہ اس بات کی وضاحت کے ساتھ شروع ہوا کہ اس طرح کے کام کے سامعین پر "کیتھرسس" یا جذبات کو صاف کرنے کے طور پر کیا اثر پڑا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ کیتھرسس دو مخصوص جذبات، ترس اور خوف کی صفائی ہے۔ ہیرو نے بددیانتی یا بددیانتی کی وجہ سے نہیں بلکہ جہالت کی وجہ سے غلطی کی ہے۔ ارسطو نے لفظ "ہمارٹیا" استعمال کیا، جو کہ "المناک عیب" یا جہالت میں سرزد ہونے والا جرم ہے۔

یہ نظمیں گیت کی شاعری ہیں، لائنوں کو گایا جاتا ہے یا گایا جاتا ہے جب کورس آرکسٹرا میں تال کے ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ وہ لکیریں جو کورس کی ایک سمت میں حرکت کے ساتھ ہوتی تھیں انہیں"اسٹروف" کہا جاتا تھا، واپسی کی حرکت کو "اینٹیسٹروفی" کہا جاتا تھا۔ کورل اوڈ میں ایک سے زیادہ اسٹروف یا اینٹی اسٹروف شامل ہو سکتے ہیں۔

یونانی المیہ شراب کے دیوتا، ڈیونیسس، المیہ کے سرپرست دیوتا کے اعزاز میں شروع ہوا۔ پرفارمنس اوپن ایئر تھیٹر میں ہوئی۔ ٹریجڈی کا لفظ "ٹریجڈی" یا "بکری کے گانا" کی اصطلاح سے ماخوذ ہے، جس کا نام بکری کی کھالوں کے لیے رکھا گیا ہے جو کورس نے پرفارمنس میں پہنا تھا۔ پلاٹ بہادری کے دور کے افسانوں سے آئے تھے۔ ٹریجڈی ایک غزل کے بول سے پروان چڑھی، جیسا کہ ارسطو نے کہا، المیہ بڑی حد تک زندگی کی ترس اور شان پر مبنی ہے۔ ڈرامے ڈرامائی تہواروں میں پیش کیے گئے تھے، جن میں سے دو اہم ہیں جنوری میں وائن پریس کی دعوت اور مارچ کے آخر میں سٹی ڈائونیشیا۔

کاروائی کا آغاز تینوں مدمقابل شاعروں کے گانوں اور اداکاروں کے جلوس سے ہوا۔ پھر ایک ہیرالڈ نے شاعروں کے ناموں اور ان کے ڈراموں کے عنوانات کا اعلان کیا۔ اس دن یہ امکان تھا کہ ڈیونیسس ​​کی تصویر کو تھیٹر کے ساتھ واقع اس کے مندر سے ایک جلوس میں اس سڑک کے قریب لے جایا گیا تھا جس سڑک کے قریب اس نے کبھی شمال سے ایتھنز پہنچنے کے لیے لیا تھا، پھر اسے ٹارچ کی روشنی کے ذریعے واپس لایا گیا تھا۔ کارنیول کا جشن، تھیٹر میں ہی، جہاں پرفارمنس کے دوران اس کے پادری نے مرکزی نشست پر قبضہ کیا۔

میلے کے پہلے دن کورسز کے درمیان مقابلے ہوئے جن میں پانچ مردوں کے اور پانچ لڑکوں کے تھے۔ ہر کورس پچاس آدمیوں یا لڑکوں پر مشتمل تھا۔ اگلے تین دنوں میں، ہر صبح ایک "ٹریجک ٹیٹرالوجی" (چار ٹکڑوں پر مشتمل گروپ، ایک ٹرائیلوجی جس کے بعد طنزیہ ڈرامہ ہوتا تھا) پیش کیا گیا۔ اس کا موازنہ الزبیتھن کی عادت سے کیا جاتا ہے جو کسی سانحے کو جگ کے ساتھ فالو کرتے ہیں۔ پیلوپونیشیا کی جنگوں کے دوران، اس کے بعد ہر سہ پہر ایک کامیڈی ہوتی تھی۔

30/11/2022

خوش حالی کی آخری دستک

ابن فاضل

کھانے یا پینے والی ڈبہ بند شاید ہی کوئی ایسی چیز ہوگی جس کے اجزاء ترکیبی میں ایک نام نہ لکھا ہو، سائٹرک ایسڈ۔ ہر طرح کے جوس، سکواش، کولا، جام، جیلی، بسکٹ، مائیونیز، کیچپ، ٹافیاں، یہاں تک کہ چاکلیٹس، کاسمیٹکس، اور ادویات تک میں سائٹرک ایسڈ کا استعمال عام اور ناگزیر ہے۔

سائٹرک ایسڈ جسے عام زبان میں ٹاٹری بھی کہا جاتا ہے، لیموں کے رس میں نو سے دس فیصد پایا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ تجارتی پیمانے پر دنیا بھر میں اس کا استعمال قریب تیس لاکھ ٹن سالانہ ہے جس کی رسد ظاہر ہے کہ لیموں سے ممکن نہیں۔ لہٰذا پچھلے سو سال سے دنیا بھر میں یہ لیموں کی بجائے کم قیمت کھانے کی ویسٹ اشیاء سے بنایا جاتا ہے۔

چقندر سے شکر بنانے کے عمل دوران جو شیرہ حاصل ہوتا ہے وہ سائٹرک ایسڈ یا ٹاٹری بنانے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا خام مال ہے۔ دوسرے نمبر پر گنے سے بننے والا شیرہ اور آلو کے چپس بنانے والی فیکٹریوں کی ویسٹ۔ فصل سے آلو نکالتے وقت فی ایکڑ دو سے ڈھائی من آلو کٹ جاتے ہیں۔ ان کا استعمال صرف جانوروں کے چارہ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ کٹے ہوئے ضائع آلو بھی سائٹرک ایسڈ کی تیاری کے لئے کم قیمت خام مال کے طور پر استعمال کئے جا سکتے ہیں۔

اب آپ جاننا چاہتے ہوں گے کہ ان سب خام مال سے ٹاٹری بھلا بنائی کیسے جا سکتی ہے؟ تو مجھے یقین ہے کہ اس کا تیاری کا طریقہ جان کر آپ حیران و ششدر رہ جائیں گے۔ آپ میں سے قریب ہر شخص نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ اگر کھانے کی کوئی چیز چند روز تک کہیں کھلی فضا میں پڑی رہ جائے تو اس پر کالے سے رنگ کی ایک پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ اس پھپھوندی جس کو ہم پنجابی میں"اُلّی" بھی کہتے ہیں انگریزی میں Aspergillus niger کہا جاتا ہے۔ بس یہی کالی سی پھپھوندی یا aspergillus niger۔ ٹاٹری بنانے کے کام آتی ہے۔

شکر ساز فیکٹری کے ویسٹ شیرے میں چینی کا تناسب پچاس فیصد تک ہوتا ہے۔ اس میں اس کے وزن سے ڈیڑھ گنا پانی اور کچھ کیمیائی مرکبات انتہائی کم مقدار میں ملا کر لوہے یا سٹیل کے ڈرموں میں ڈال اس میں کچھ پھپھوندی شامل کر کے مناسب درجہ حرارت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ سات سے دس دن میں یہ پھپھوندی اس آمیزے میں موجود چینی کو ٹاٹری میں تبدیل کر دیتی ہے۔

جسے بعد میں چونے کے پانی کی مدد سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ چپس بنانے والی یا فیکٹریوں کی ویسٹ، یا کٹے پھٹے بیکار آلوؤں سے ٹاٹری بنانے کے لیے اس ویسٹ کو ابال کر پانی شامل کر کے لئی کی صورت بنا لیتے ہیں۔ اس لئی کو فرمینٹر ٹینک میں ڈال کر اس میں وہی کالی پھپھوندی ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح سات سے دس دن میں آلوؤں میں موجود سارے نشاستہ کو پھپھوندی ٹاٹری میں تبدیل کر دیتی ہے جسے اوپر بتائے گئے طریقے کی مدد سے الگ کر لیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں یہ کام انیس سو سترہ سے ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کہ جس میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مائیکروبیالوجی میں ایم فل کیے فارغ نوجوان نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہوں گے، اپنے استعمال کی سو فیصد ٹاٹری دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ حیرت ہوتی کہ ہمارے جامعات اساتذہ کرام جن میں بیشتر باہر کے ممالک سے پی ایچ ڈی ہوتے ہیں اپنے طلبا کو اس طرح کے چھوٹے قابل عمل پراجیکٹس پر کام کیوں نہیں کرواتے؟

ہمارا اندازہ ہے اس طرح کا پائلٹ پراجیکٹ چند لاکھ روپے میں بنایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کے چار طلبہ مل کر محض اپنے موبائل فون کی قیمت کے برابر سرمایہ سے اس کا پائیلٹ پلانٹ بنا سکتے ہیں۔ معیار کی جانچ اور عمل کی بہتری کے بعد تجارتی پیمانے پر فیکٹری لگانے کے ازاں بعض سرمایہ کاروں کو دعوت دی جا سکتی ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہاں کی اُلّی بھی سوچتی ہوگی کہ یہ کیسے الو ہیں۔ میرا بھی مثبت استعمال نہیں کر سکے، نہیں معلوم ہم کب غیر روایتی سوچ اپنائیں گے۔ نہیں معلوم ہم کب خوشحال ہوں گے؟

30/11/2022

عرب دانش کے موتی ، خطبہ

عامر خاکوانی

عرب سماج، کلچر، ادب اور لوک دانش کا احاطہ کرتی شاندار کتاب بلوغ الارب پچھلے کچھ دنوں سے زیرمطالعہ ہے۔ اس کی چار جلدیں ہیں، اردو سائنس بورڈ نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کی چوتھی جلد میں چند مشہور عرب فصحا، خطبا کا ذکر ہے۔ اس پر ایک کالم پہلے لکھ چکا ہوں، آج چند مزید فصیح عربوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

بلوغ الارب میں ایک بہت مشہور فصیح عرب اکثم بن صیفی التمیمی کے فصیح کلام کی مثالیں نقل ہیں۔ اکثم بن صیفی نے اپنی قوم کو وصیت کرتے ہوئے خطبہ دیا تھا جو بہت مشہور ہوا۔ اکثم کہتا ہے ـ"اے بنی تمیم میری نصیحت کو ضائع نہ کر دینا خواہ میری ذات تم میں نہ بھی رہے۔ عشق بیدار ہے اور عقل سوئی ہوئی ہے۔ خواہشات بے لگام ہیں، دانش مقید ہے۔ نفس آزاد پھرتا ہے، سوچ اور تدبیر مقید ہے۔ یاد رکھو کہ سستی کے باعث اور تدبیر کو ترک کرنے سے دانش تباہ ہوجاتی ہے۔

" جو شخص اوروں سے مشورہ کرے گا، اسے ضرور کوئی نہ کوئی راہ بتانے والا مل جائے گا۔ جو صرف اپنی رائے پر عمل کرتا ہے، وہ ایسے مقامات پر کھڑا ہوتا ہے جہاں سے وہ پھسلتا ہی رہے۔ جو دوسروں کی بات سنے گا، اس کی بات بھی سنی جائے گی۔ لالچ کی بجلیوں کے نیچے لوگوں کی قتل گاہیں ہیں۔ اگر تو مصائب کے مواقع پر غور کرے گا تو دیکھے گا کہ یہ شرفا کی خواب گاہیں ہیں۔ لوگوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا ہی ہدایت کا راستہ ہے۔

"جو ہموار زمین پر چلتا ہے، اسے پھسلنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ حاسد اپنے ہی دل کو تھکاتا ہے۔ اے بنی تمیم حلم کے گھونٹ بھرنا اور صبر کرنا زیادہ شیریں ہے بہ نسبت ا سکے انسان ندامت کا پھل چنے۔ جس نے اپنے مال کو بچانے کے لئے اپنی عزت کو سامنے کر دیا، وہ لوگوں کی مذمت کا نشانہ بنا۔ یا د رکھو کہ زبان کے لگائے ہوئے زخم نیزوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ جب تک کوئی کلمہ منہ سے نکل نہ جائے، تب تک وہ گروی پڑا ہوتا ہے۔ پھر جب نکل جاتا ہے تو نہایت جنگجو شیر اور شعلہ زن ہوتا ہے۔ عقلمند ناصح کی رائے ایسے رہنما کا کام کرتی ہے جو راستے سے نہیں بھٹکتا۔ جنگ کے موقعہ پر رائے کو کام میں لانا نیزہ زنی اور تلوار زنی سے بھی زیادہ کارآمد ہوتا ہے۔ "

کہتے ہیں کہ مشہور سپہ سالار اور سردار یزید بن مہلب اپنے خطبوں، وصیتوں اور نصیحتوں میں بیشتر اوقات اکثم بن صیفی کا طرزعمل اختیار کیا کرتا تھا۔ یزید بن مہلب نے اپنے بیٹے کو جرجان شہر میں اپنا جانشین بناتے ہوئے وصیت کی:"بیٹا میں نے تمہیں اس علاقے میں اپنا جانشین بنایا ہے۔ تمیم کے قبیلے پر نظر رکھنا، ان پر بارش برسانا، ان کے سامنے غرور نہ کرنا، انہیں اپنا قرب عطا نہ کرناورنہ وہ مزید لالچ کرنے لگ جائیں گے۔ انہیں اپنے سے دور بھی نہ کرنا ورنہ وہ تعلقات منقطع کر لیں گے۔

"بیٹا تمہارے باپ کے کچھ کارنامے ہیں، انہیں خراب نہ کرنا کیونکہ انسان کے لئے یہ بات بڑا عیب سمجھی جاتی ہے کہ وہ اپنے باپ کی کھڑی ہوئی عمارت کو گرا دے۔ خونریزی کرنے سے بچنا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی بقا نہیں ہوسکتی۔ لوگوں کی عزتوں کو برا کہنے سے بچنا کیونکہ شریف آدمی اپنی عزت کے عوض کوئی چیز بھی لینے پر راضی نہیں۔ لوگوں کو مارنے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ ایک باقی رہ جانے والی عار اور ایسا کینہ ہے جس کے بدلے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اپنے عاملوں (افسروں)کوان کی بہادری اور فضیلت کی بنا پرمقرر کرنا نہ کہ محض مرضی کے مطابق۔ کسی کو نااہلی اور خیانت کے سوا کسی اور بنا پرمعزول نہ کرنا۔ کسی شخص کو منتخب کرتے ہوئے اس لئے نہ رک جانا کہ تم سے پہلے کوئی شخص اسے منتخب کر چکا ہے کیونکہ تمہیں تو لوگوں کو ان کی ذاتی فصیلیت کی بنا پر منتخب کرنا ہے۔

"لوگوں کو اپنے بہترین آداب پر چلنے کا حکم دینا، وہ اپنی جانوں کے ساتھ تمہاری مدافعت کریں گے۔ جب تم کوئی تحریر لکھو تو اسے کئی بار پڑھو۔ میرے اور تمہارے درمیان جو شخص قاصد بنے، وہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو میری بات بھی سمجھتا ہو اور تمہاری بھی کیونکہ انسان کی تحریر میں اس کی عقل واضح ہوتی ہے اور قاصد اس کا رازدار ہوتا ہے۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ "

عمرو بن کلثوم التغلبی مشہور جاہلی عرب شاعر گزرا ہے، وہ اعلیٰ پائے کا خطیب بھی تھا۔ (یا درہے کہ مشہور افسانوی کردار عمرو عیار کی طرح عمرو کو پڑھنے کا درست طریقہ اردو کے لفظ اَمر کے طرح پڑھنا ہے، ام ر۔)عمرو بن کلثوم کا ایک خطبہ بڑا مشہورہے۔ عمرو کہتا ہے:ـ " خدا کی قسم میں نے جس کسی کو کسی بات کا طعنہ دیا، اس نے مجھے بھی اسی بات کا طعنہ دیا ہے۔ اگر میں نے سچا طعنہ دیا تو اس نے بھی سچا طعنہ دیا۔ اگر میں نے غلط طعنہ دیا تو ا س نے بھی غلط طعنہ دیا۔ جس کسی نے گالی دی، اسے بھی گالی دی گئی، لہذا گالی دینے سے باز رہو، اس سے تمہاری عزتیں بچی رہیں گی۔

" رشتے داری کے تعلقات قائم رکھا کرو، تمہارے گھر آباد رہیں گے۔ پناہ گیر کی عزت کرو، وہ تمہاری اعلیٰ تعریف کرے گا۔ عورتوں کی جگہ کو مردوں سے دور رکھو کیونکہ اس سے غیر محرموں کو دیکھنے سے نگاہیں باز رہتی ہیں اور مرد زیادہ پاک دامن رہ سکتا ہے۔ جو شخص اوروں کی خاطر اس طرح غیرت نہیں کھاتا جیسا وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے تو یہ بھلائی نہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی نے کسی کی بے حرمتی کی ہو اور پھر اس کی نہ ہوئی ہو۔ یاد رکھو دوستی مخالفت سے بہتر ہے۔ جب کوئی شخص بات کہے تو اسے یاد رکھو۔ جب تم کہو تو مختصر کہو کیونکہ بہت باتیں کہنے میں لایعنی باتیں پائی جاتی ہیں۔

"یاد رکھو قوم کا بہترین آدمی وہ ہے جو شفیق اور احسان کرنے والا ہو۔ جو شخص غصے کے وقت سوچتا نہیں، اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ وہ شخص بھی برا ہے جسے کسی برائی سے روکا جائے اور وہ باز نہ آئے۔ کسی سے محبت کرنے میں حد سے زیادہ نہ بڑھ جایا کرو۔ یاد رکھو حلیم الطبع شخص آفات سے بچا رہتا ہے اور تلوار زخم لگاتی ہے۔ "

بلوغ الارب کے مصنف نے ایک بدوی کے خطبے کا ذکر کیا جسے جعفر بن سلیمان نے کسی چشمے کا حاکم بنا دیا تھا۔ بدوی نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، حمد وثنا کے بعد بولا:"دنیا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے ہمیں آخرت تک پہنچا ہے اور آخر ت دار قرار ہے۔ اس لئے تم اس گزرگاہ سے اپنی قرارگاہ کے لئے زادسفر لے لو اور اس خدا کے سامنے جس سے تمہارے اسرار مخفی نہیں ہیں، اپنی پردہ داری نہ کرو۔ اس سے پیشتر کہ تمہارے بدن اس دنیا سے نکل کر چلے جائیں، تم اپنے دلوں کو اس سے نکال لو۔ تم اس دنیا میں زندگی گزار کر چلے جائو گے، مگر تمہیں کسی اور گھر کے لئے پیدا کیا گیا۔ جب کوئی شخص مر جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے کیا چھوڑا؟ جبکہ فرشتے پوچھتے ہیں کہ اس نے کیا کچھ آگے بھیجا ہے؟ خدا تمہارے آباء کا بھلا کرے، کسی قدر مال آگے بھیجا کرو۔ یہ تمہارا قرض ہوگا۔ سارے کا سارا مال پیچھے نہ چھوڑا کرو، یہ تمہارے لئے بار بنے گا۔ "

زمانہ جاہلیت کے ایک فصیح مامور حارثی کی اپنے قبیلے سے کی گئی ایک گفتگو مشہور ہوئی۔ وہ کہتا ہے ـ:"تمہاری نفسانی خواہشات کو تمہارے خوشیاں منانے نے بلند کر دیا ہے اور گدلا پن تمہارے دلوں پر غالب آ گیا ہے، جہالت نے تمہاری نگاہ کو کمزور کر دیا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔ زمین پست ہے اور آسمان بلند، سورج طلوع بھی ہوتا ہے اور غروب بھی۔ بے وقوف مالدار ہے اور ہوشیار کم مال والا۔ نوجوان عین جوانی میں مر جاتا ہے اور نہایت بوڑھا پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوچ کر کے چلے جانے والے واپس نہیں آتے اور جنہیں ٹھیرایا گیا، وہ آگے نہیں بڑھتے۔ ان تمام امور میں خدا کے واضح دلائل ملتے ہیں۔

" اے بھاگنے والے عقلو اور بھڑک اٹھنے والے دل رکھنے والو، تم کدھر بہکے پھر رہے ہواور کس طرف تیزی سے جا رہے ہو؟ اگر دلوں سے پردے اٹھا دئیے جائیں اور آنکھوں کے سامنے سے پردے دور ہوجائیں تو شک کا بادل پھٹ جائے گا اور یقین ظاہر ہوجائے گااور وہ شخص جس پر گمراہی غالب آ چکی ہے، وہ جہالت کے نشے سے جاگے اور ہوش میں آجائے۔ "

یہ تھاجاہلی عرب سماج یعنی پندرہ سو سال قبل کے چند عرب فصحا اور خطبا کا بیان۔ کیسے دانائی اور لوک دانش ان تجربہ کار لوگوں کے لفظوں میں سمائی ہوئی ہے۔ زندگی گزارنے اور نبھانے کے کیسے سنہری اخلاقی اصول۔ دور حاضر کے بڑے پروفیشنل ٹرینراور موٹیویشنل سپیکرز کی تقریروں کی ٹکر کی گفتگو ان اَن پڑھ لوگوں نے پندرہ صدیاں قبل کی اور کیا فصاحت وبلاغت دکھائی۔

30/11/2022

مسائل کی سنگینی کا ہمیں کماحقہ ادراک نہیں

نصرت جاوید

داستانوں میں کمزور اور بے کس افراد کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ جابر سلطانوں کے عروج اقتدار کے دنوں میں سرجھکائے ہوئے بھی وقتاََ فوقتاََ چند پتھر جمع کرتے رہتے ہیں۔ بے تابی سے منتظر رہتے ہیں کہ طاقت کی حتمی علامت بنا شخص کسی کھائی یا کنوئیں میں گرجائے۔ اگر ان کی تمنا کسی روز عملی شکل اختیار کرلے تو کھائی یا کنوئیں میں گرے شخص کی مدد کے بجائے اپنی جیب میں جمع ہوئے پتھر مشکل میں گھرے فرد پر اچھالنا شروع ہوجاتے ہیں۔

دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے طاقت ور لوگوں کے عروج اقتدار میں ذاتی طورپر اکثر میں نے ذلت ورسوائی ہی برداشت کی ہے۔ کامل بے روزگاری کے طویل ایام بھی بارہا بھگتے۔ داستانوں میں بیان کئے بے کسوں کی طرح تاہم پتھر جمع کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ انگریزی کے اس محاورے سے رانجھا راضی رکھا جو مصر رہتا ہے کہ ماضی کا اسیر ہونے کے بجائے آگے بڑھنے کی عادت اپنائی جائے۔ پاکستان جیسے ممالک میں قوت واختیار کی حتمی علامتیں اگرچہ اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد بھی پرسکون زندگی گزارتی ہیں۔ ایوب خان کے چلے جانے کے چند برس بعد بلکہ ہم نے ٹرکوں پر ان کی تصویر کے نیچے "تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد" لکھا ہوا دیکھا۔ ایک وزیر اعظم کو چٹھی نہ لکھنے کی پاداش میں نااہل قرار دینے والے افتخار چودھری صاحب جنرل مشرف کو نومبر2007ءکے دن لگائی "ایمرجنسی پلس" کی وجہ سے عدالتی کٹہرے میں رگیدنا چاہ رہے تھے۔ جنرل صاحب کا بھرم ووقار مگر ان کے ادارے نے برقرار رکھا۔ جنرل یحییٰ خان بھی سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار ہرگز نہیں ٹھہرائے گئے تھے۔ یہ الزام اس دور کے سیاستدانوں کے کاندھوں پر سرکادیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو بالآخر جنرل ضیاءکے لگائے مارشل لاءکے دوران پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا۔

قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد جسٹس منیر نے "نظریہ ضرورت" نامی ترکیب دریافت کی تھی۔ اس ترکیب نے ہمارے ہر فوجی آمر کے لگائے مارشل لاءکو آئینی اور قانونی جواز فراہم کیا۔ کسی سیاستدان کو اقتدار سے نکالنے میں اعلیٰ عدلیہ اکثر کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ ہم ایسے منصفوں کو تاہم اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ احتراماََ انہیں"بابارحمتے" پکارتے ہیں۔ رواں برس کے اپریل میں اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب مذکورہ روایت کو توڑنے کی خواہش میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ ان کے بیانات کا مگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تووہ درحقیقت اعلیٰ عدالتوں کو اپنا "تاریخی کردار" ادا کرنے کو اُکساتے محسوس ہوتے ہیں۔ "چور، لٹیروں اور طاقت ور افراد" کو وہ عدالتی کمک سے گھیرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کی خواہش بارآور نہ ہوئی تو فوری انتخاب کے لئے دباؤ بڑھانا شروع ہوگئے۔ یہ تصور کرنے میں شاید وہ اتنے غلط نہیں کہ تازہ انتخاب انہیں دوتہائی اکثریت سے اقتدارمیں واپس لائیں گے۔ اس کے بعد وہ خود ہی سب سے حساب "برابر" کرلیں گے۔

1997ءمیں تاہم نواز شریف صاحب "ہیوی مینڈیٹ" کے ساتھ اقتدار میں واپس لوٹے تھے۔ اقتدار میں لیکن چند ہی ماہ گزارپائے۔ بالآخر اکتوبر 1999ءہوا اور انہیں دس برس تک پھیلی جلاوطنی سے دو چار ہونا پڑا۔ ربّ کریم عمران خان صاحب کو ایسے انجام سے محفوظ رکھے۔ ان کی حکومت کو "سیم پیج" کی قوت سے مالا مال کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ یہ کالم لکھنے کے روز کمان نئے آرمی چیف کے سپرد کرچکے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کریں گے۔ گزشتہ چند مہینوں سے ان کی صحافیوں کے ساتھ ہوئی "آف دی ریکارڈ" ملاقاتوں کے دوران وہ کئی واقعات سناتے ہوئے باجوہ صاحب کے مبینہ طورپر "گھمنڈی" رویے کی بابت شکوہ کناں رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان میں سے چند واقعات اب وہ عوام کو بھی بتانا شروع ہوجائیں۔ باجوہ صاحب کو اس کی وجہ سے براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ طاقتور ریاستی اداروں میں بیٹھے کئی لوگ مگر "محتاط" ہوجائیں گے۔ عمران خان صاحب کے ناز اٹھانے سے قبل سو بار سوچیں گے۔

باجوہ صاحب کی رخصت سے بہرحال ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ذاتی طورپر میں فقط یہ دیکھنے کا متمنی ہوں کہ ان کے متعارف کردہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والے ریاستی بندوبست کا خلوص سے جائزہ لیتے ہوئے ہم بحیثیت قوم کوئی نئی اور مثبت راہ ڈھونڈ پائیں گے یا نہیں۔ پاکستان کے معاشی مسائل سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں جوکساد بازاری نمودار ہوئی ہے اس کے اثرات ان مسائل کو مزید گھمبیر بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری بدنصیبی یہ بھی ہوئی کہ مون سون کی غیر معمولی بارشوں نے سندھ اور بلوچستان کے تین کروڑ تینتیس لاکھ باسیوں کو بدحال بنادیا ہے۔ صدیوں سے "زرعی" کہلاتا خطہ اب غذائی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مسائل کی سنگینی کا مگر ہمیں کماحقہ ادراک نہیں۔ ہمارے شہری متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد عمران خان صاحب کے بیانیے کی اسیر بن چکی ہے۔ ان کی جانب سے دی "اگلی سرپرائز" کی منتظر ہے۔ دریں اثناءمذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھری "دہشت گردی" ہمارے کئی علاقوں میں ایک بار پھر نمودار ہونے کو انگڑائی لے رہی ہے۔ اس کی بابت روایتی اور سوشل میڈیا میں لیکن کماحقہ گفتگو نہیں ہورہی۔ بہتر یہی ہوگا کہ کھلے اذہان کے ساتھ مذکورہ مسائل کے بارے میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے ہمیں"سیدھی راہ" پر چلانے کے تمام تجربات ابھی تک ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کی اجتماعی بصیرت پر لہٰذا اعتماد کریں اور روشن مستقبل کے راستے تلاش کریں۔

Address

Shadman Colony
Ahmadpur East
63350

Telephone

+923156806297

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Column posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu Column:

Share

Category


Other Newspapers in Ahmadpur East

Show All