Shabab News

Shabab News Instagram : SHABAB_NEWS01
Twitter : SHABAB NEWS OFFICIAL

17/07/2025
"مت سمجھو ہم نے بھلا دیا..."اسیرانِ حریت کی استقامت کو سلام!وہ زنجیریں، جنہیں بھارت نے جیل خانوں میں کشمیری قائدین و کار...
17/07/2025

"مت سمجھو ہم نے بھلا دیا..."

اسیرانِ حریت کی استقامت کو سلام!

وہ زنجیریں، جنہیں بھارت نے جیل خانوں میں کشمیری قائدین و کارکنان حریت کے جسموں پر ڈال رکھا ہے، وقت کے بے رحم اور طویل سفر میں نہ تو ان کے حوصلے توڑ سکیں، نہ ان کی آزادی کی تڑپ کو ماند کر سکیں۔
کشمیری اسیرانِ حریت، جنہوں نے دہائیوں سے بھارتی جبر، اذیت خانوں، تفتیشی سیلوں اور کال کوٹھڑیوں میں رہ کر بھی اپنے نظریے اور اپنی جدوجہد سے انحراف نہیں کیا، آج بھی کشمیری قوم کی غیرت، حمیت اور تاریخ کا تابناک حوالہ ہیں۔

ہم کیسے بھول سکتے ہیں ان عظیم قوم کے سپوتوں کو جنہوں نے اپنے اہل و عیال، اپنے گھربار، اپنی خوشیاں اور اپنی جوانیاں محض اس لیے قربان کر دیں کہ کشمیری قوم آزاد ہو، اور اس کی شناخت، اس کے تشخص اور اس کی منزل کو دنیا تسلیم کرے؟
کون بھول سکتا ہے وہ دن جب ان حریت پسند رہنماؤں اور کارکنان کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا گیا، انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر ان کی ماؤں کے سامنے بے دردی سے مارا گیا، انہیں برسوں برس بغیر کسی جرم کے جیلوں کی سیاہ تنہائیوں میں رکھا گیا، اور ان کی سانسوں پر بھی پہرہ بٹھانے کی کوشش کی گئی؟

مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان اسیرانِ حریت کا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ بھارتی ریاست کی طرف سے کی جانے والی تمام وحشیانہ اذیتیں، ذہنی اور جسمانی تشدد، ان کا عزم توڑ نہ سکے۔ وہ آج بھی سری نگر سے دلی، تہاڑ سے کوٹ بلوال تک، ہر جیل کی دیواروں پر یہ پیغام لکھے ہوئے ہیں:
"ہم حق پر ہیں، ہم کشمیری ہیں، ہم آزادی مانگتے ہیں!"

آج یہ اسیرانِ حریت جن میں شبیر احمد شاہ کا نام سرفہرست ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کے 38 برس بھارتی جیلوں میں گزارے، وہ وہاں مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہیں، جن میں کینسر جیسی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں۔ ان کی صحت دن بہ دن بگڑ رہی ہے، مگر ظالم جابر حکومت نہ تو انہیں کوئی مناسب طبی سہولت فراہم کرتی ہے، نہ علاج کا حق دیتی ہے۔ ان کے لیے ہسپتالوں کے دروازے بند ہیں، دوائیاں نایاب ہیں، اور ہر لمحہ ان کے جسم موت کے قریب دھکیلے جا رہے ہیں۔

لیکن حیرت اور فخر کا مقام یہ ہے کہ ان کا حوصلہ آج بھی زندہ ہے۔ بیماری، تنہائی، کمزوری، تکلیف، درد — ان سب کے باوجود ان کا سر جھکنے کو تیار نہیں۔ ان کی زبان پر آج بھی "آزادی" کا نعرہ ہے، اور ان کا دل آج بھی یقین سے بھرا ہوا ہے کہ کشمیر آزاد ہوگا، انشاءاللہ۔

یہ قیدی نہیں، یہ زندہ تاریخ کے باب ہیں۔ یہ ہر اس مظلوم قوم کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو جبر کے اندھیروں میں اپنے حق کے لیے لڑ رہی ہے۔ ان کے صبر، ان کی استقامت، ان کی قربانی، اور ان کا نظریہ وقت کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ ان اذیتوں اور بیماریوں سے وہ ان کے دل سے "آزادی" کا لفظ چھین سکتا ہے، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
ان اسیرانِ حریت کی استقامت اور پامردی سے آج بھی کشمیری نوجوان نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔

ہم ان کے احسان مند ہیں۔ وہ ہم پر حق رکھتے ہیں کہ ہم ان کا تذکرہ زندہ رکھیں، ان کے لیے دعا گو رہیں، ان کی رہائی کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کریں۔

اور یہاں ایک سوال دنیا کے ضمیر سے:
نیلسن منڈیلا 27 سال قید رہے تو پوری دنیا نے اس کی رہائی کے لیے آواز بلند کی، اسے عالمی ایوارڈز، امن کے انعامات اور عزت سے نوازا، اسے آزادی کا استعارہ بنایا۔ لیکن کشمیری جو چار دہائیوں سے مسلسل بھارتی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں، ان کے لیے دنیا کیوں خاموش ہے؟ ان کے لیے کوئی آواز کیوں بلند نہیں ہوتی؟ ان کا مقدمہ کیوں کسی عالمی ادارے کے ایوان میں نہیں گونجتا؟ یہ وہ سوال ہے جو دنیا کی بے حسی پر نوحہ ہے۔

ہم یہ کہنا چاہتے ہیں:

"مت سمجھو ہم نے بھلا دیا، ہم نے تمہاری زنجیروں کو اپنی آزادی کا تمغہ مانا ہے۔ تم نے جو لہو اور قربانی دی ہے، اس کا ہر قطرہ ہمارے ضمیر میں بیدار ہے۔ تمہاری استقامت ہمارا سرمایۂ حریت ہے۔ تم قیدی نہیں، قوم کے ہیرو ہو!"

کشمیری عوام، حریت قیادت، اور پوری دنیا میں حریت پسند ضمیر آج بھی تمہارے ساتھ کھڑا ہے۔ تمہارے صبر کی داستاں کبھی مٹ نہیں سکتی۔ تمہاری جیلوں کی دیواریں ٹوٹیں گی، تم اپنے گھروں میں آؤ گے، تمہاری آزادی کی صدا دنیا سنے گی۔

سلام ہے تمہاری استقامت کو، تمہاری شجاعت کو، تمہاری قربانی کو!
سلام اس غیرتِ زندہ کو جو آج بھی زنجیروں میں بیماری، اذیت، اور تکلیف سہہ کر بھی زندہ ہے!

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے زیر اہتمام مظفراباد میں ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک شباب المسلمین جموں و کشمیر سٹ...
16/07/2025

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے زیر اہتمام مظفراباد میں ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک شباب المسلمین جموں و کشمیر سٹوڈنٹس ونگ کے قائم مقام چیئرمین عاطف میر کی وفد کے ہمراہ شرکت اور اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تحریک شباب المسلمین جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ونگ کے قائم مقام چیئرمین *عاطف میر* نے مظلوم کشمیری عوام اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی اور اسرائیلی مظالم پر شدید الفاظ میں مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل پامالی عالمی ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بھارت کی جیلوں میں قید کشمیری حریت رہنما، جن میں شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، یاسین ملک، مسرت عالم بٹ مولوی بشیر عرفانی اور دیگر شامل ہیں، نہ صرف غیرقانونی حراست کا شکار ہیں بلکہ انہیں قانونی اور طبی سہولیات سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، جو بین الاقوامی انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عاطف میر نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا صرف لفظوں کا کھیل بن چکا ہے۔ کشمیر کے نہتے عوام کو صرف اس جرم کی

*سوشل میڈیا — جدید دور کی مزاحمتی طاقت* دنیا کے ہر دور میں مزاحمت کے ذرائع بدلتے رہے، مگر مزاحمت کی روح باقی رہی۔ کبھی *...
15/07/2025

*سوشل میڈیا — جدید دور کی مزاحمتی طاقت*

دنیا کے ہر دور میں مزاحمت کے ذرائع بدلتے رہے، مگر مزاحمت کی روح باقی رہی۔ کبھی *پتھر، کبھی قلم، کبھی کتاب، کبھی بینر، اور آج… سوشل میڈیا* ۔
جدید دور میں سوشل میڈیا نہ صرف ایک اطلاعاتی ہتھیار ہے بلکہ یہ *ایک نظریاتی مورچہ، ایک بیداری کی لہر، اور ایک عالمی اسٹیج ہے جس پر مظلوم اپنی آواز کو ظالم کے ایوانوں تک پہنچا سکتا* ہے۔

**جب بندوقوں کی گونج کو الفاظ نے چیلنج کیا*
*
خاص طور پر کشمیر جیسے خطے میں، جہاں روایتی میڈیا پر پابندیاں، انٹرنیٹ کی بندش، اور اظہارِ رائے کی سلبی عام ہو، وہاں سوشل میڈیا نوجوانوں کے لیے ایک ایسی کھڑکی بن گیا ہے جہاں سے وہ دنیا کو اپنے زخم دکھا سکتے ہیں، اپنی صدائیں سنا سکتے ہیں، اور اپنی جدوجہد کا پرچم بلند رکھ سکتے ہیں۔

*شہید برہان مظفر وانیؒ اسی ڈیجیٹل مزاحمت کا پہلا اور بڑا استعارہ* بن کر اُبھرا۔ اس نے بندوق تو اٹھائی، مگر تصویر اور پیغام کے ذریعے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔
برہانؒ نے بندوق کی تصویر اپلوڈ کی تو دنیا نے ایک بار پھر کشمیر کی جدوجہد کو دیکھا، جانا اور محسوس کیا۔ اس کا ہر ویڈیو، ہر پوسٹ، نوجوانوں کے دلوں میں شعور، حوصلہ اور غیرت بن کر اُبھری۔

*طاقت کا توازن بدلتا ہوا*

روایتی طاقت ہمیشہ ہتھیار، میڈیا اور معیشت کے بل بوتے پر ظلم کو چھپانے میں کامیاب رہی ہے، مگر ڈیجیٹل میڈیا نے اس توازن کو چیلنج کر دیا۔ آج ایک مظلوم نوجوان کی ایک ویڈیو پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔
جب کوئی کشمیری نوجوان ٹویٹر پر اپنے علاقے میں جاری فوجی آپریشن کی ویڈیو پوسٹ کرتا ہے، یا جب کوئی ماں اپنے شہید بیٹے کی تصویر کے ساتھ انصاف کی اپیل کرتی ہے، تو یہ پوسٹس صرف الفاظ نہیں ہوتیں — یہ عصرِ حاضر کے گواہ اور مظلوم کی پکار ہوتی ہیں۔

*بیانیے کی جنگ — اور سوشل میڈیا کی فتح*

بھارت نے ہمیشہ اپنی طاقتور میڈیا مشینری کے ذریعے کشمیر میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، مگر سوشل میڈیا نے ان جھوٹے بیانیوں کو چیلنج کیا۔
ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب پر کشمیری نوجوانوں نے اپنے اصل چہرے، اصل کہانیاں، اصل جدوجہد کو دنیا کے سامنے رکھا۔
اور یہ سچ، یہ تصویریں، یہ صدائیں، دنیا کے کانوں، آنکھوں، اور دلوں تک پہنچنے لگیں۔

*جب قابض بھی گھبرایا*

سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بار بار انٹرنیٹ بند کیا، سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائیں، اور یہاں تک کہ بعض نوجوانوں کو صرف پوسٹ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا۔
یہ سب اعتراف ہے اس حقیقت کا کہ آج سچائی کی سب سے بڑی دشمنی جھوٹے بیانیے والوں کو سوشل میڈیا سے ہے۔

*پیغام نوجوانوں کے لیے*

آج کا کشمیری نوجوان صرف میدان میں نہیں، آن لائن بھی مزاحمتی سپاہی ہے۔
اگر برہان وانیؒ نے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے پوری ایک نسل کو بیدار کیا، تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سچائی، نظریہ، اور حوصلے کے ساتھ سوشل میڈیا کو جدوجہد کا ایک منظم ہتھیار بنائیں۔
ہمارے الفاظ، تصاویر، ویڈیوز، اور پوسٹس صرف ڈیجیٹل مواد نہیں بلکہ مزاحمت کا حصہ ہیں۔
*سوشل میڈیا ایک میدانِ جنگ ہے — ایک ایسا مورچہ جہاں بندوق کی جگہ بیانیہ لڑتا ہے، اور سچ بولنے والا سپاہی ہوتا ہے۔*
آج ہمیں برہان وانیؒ کی ڈیجیٹل وراثت کو آگے بڑھانا ہے، اور یہ ثابت کرنا ہے کہ:
" *ہماری آوازیں، ہماری تحریریں، اور ہمارے الفاظ — ظلم کی دیواروں کو ہلا سکتے ہیں*،،
*مشتاق احمد بٹ*
سکریٹری اطلاعات کل جماعتی حریت کانفرنس

*13 جولائی: غیرت، عزیمت اور حریت کا استعارہ* 13 جولائی صرف تاریخ کا ایک عدد نہیں، بلکہ یہ وہ دن ہے جو کشمیر کی مزاحمتی ت...
12/07/2025

*13 جولائی: غیرت، عزیمت اور حریت کا استعارہ*

13 جولائی صرف تاریخ کا ایک عدد نہیں، بلکہ یہ وہ دن ہے جو کشمیر کی مزاحمتی تاریخ میں غیرت، عزیمت اور حریت کی ایک تابندہ علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ دن ہمیں ان 22 کشمیری شہداء کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے 1931ء میں سری نگر کی مرکزی جیل کے باہر اذان مکمل کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں قربان کیں، لیکن سرنگوں نہ ہوئے۔ ان کے پاکیزہ لہو سے جو تحریک اٹھی، وہ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی گلیوں، وادیوں اور پہاڑوں میں گونج رہی ہے۔

*ظلم کے خلاف اذانِ بغاوت*

13 جولائی 1931ء کو جب ایک کشمیری نوجوان کو ڈوگرہ راج کے خلاف خطبہ دینے پر گرفتار کیا گیا، تو عوام کو عدالت کے باہر جمع ہونے کا اشارہ ہوا۔ دورانِ سماعت جب ظہر کی نماز کا وقت آیا تو ایک نوجوان نے اذان دینے کا آغاز کیا۔ ڈوگرہ افواج نے اس پر گولی چلائی، مگر ایک اور نوجوان نے اذان کا تسلسل برقرار رکھا۔ یوں ایک کے بعد ایک، 22 نوجوان گولیوں کا نشانہ بنے، لیکن اذان مکمل ہو کر رہی۔ یہ واقعہ نہ صرف ظلم کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا، بلکہ ایمان، قربانی اور حریت کی اس روح کا مظہر تھا جو کشمیری قوم کی نس نس میں رچی بسی ہے۔

*یہ دن کیوں اہم ہے* ؟

13 جولائی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی کوئی عطیہ نہیں بلکہ اس کے لیے خون دینا پڑتا ہے۔ ان شہداء نے نہ صرف ڈوگرہ آمریت کے خلاف آواز بلند کی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے قربانی، استقامت اور نظریاتی وابستگی کی روشن مثال بھی قائم کی۔ آج جب بھارت کی قابض افواج جدید اسلحہ، کالے قوانین اور سفاک پالیسیوں سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہیں، تو 13 جولائی کا پیغام اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔

آج کا منظرنامہ: نئی شکل میں وہی جبر

آج کشمیر میں حالات بدل چکے ہیں، مگر ظلم کی نوعیت وہی ہے۔ ماضی میں ڈوگرہ آمریت تھی، آج بھارتی قابض حکومت ہے۔ اس وقت اذان جرم تھی، آج سچ بولنا جرم ہے۔ اس وقت جیلوں میں بندش تھی، آج میڈیا پر قدغن ہے۔ لیکن قوم آج بھی وہی ہے — نہ جھکی، نہ بکی، نہ رکی۔

*استعارہِ حریت*

13 جولائی کا دن دراصل ایک فکری استعارہ ہے۔ یہ دن ہمیں غیرت سکھاتا ہے کہ غلامی کی زنجیروں کو قبول کرنا غیرت کے خلاف ہے۔ یہ دن عزیمت سکھاتا ہے کہ اگر اذان دیتے وقت شہید ہونا پڑے تو جھکنے سے بہتر ہے مر جانا۔ اور یہ دن حریت سکھاتا ہے کہ آزادی صرف ایک سیاسی ہدف نہیں، بلکہ ایک عقیدہ، ایک ایمان اور ایک امانت ہے جسے ہر قیمت پر قائم رکھنا ہے۔

*قوم کا امتحان*

آج جب کشمیری نوجوان برہان وانی سے لے کر اننت ناگ، پلوامہ اور شوپیاں کی گلیوں میں شہید ہو رہے ہیں، تو یہ سوال ہمارے ضمیر پر دستک دیتا ہے: کیا ہم ان قربانیوں کے امین بنے؟ کیا ہم نے 13 جولائی کے شہداء کے پیغام کو اپنایا؟ اگر نہیں، تو پھر ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا، اتحاد پیدا کرنا ہوگا، اور حق و باطل کے اس معرکے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

13 جولائی کو محض یادگار نہ بنائیں، اسے زندہ تاریخ بنائیں۔ اس دن کی روح کو اپنی فکر، اپنی سیاست، اپنی صحافت اور اپنی جدوجہد کا محور بنائیں۔ کیونکہ 13 جولائی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جب اذان روکنے کے لیے بندوق اٹھے، تو قوم کو اذان مکمل کرنے والے شہداء کی صف میں کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔
مشتاق احمد بٹ
سکریٹری اطلاعات کل جماعتی حریت کانفرنس

*کشمیر میں سنسرشپ: خاموشی کے پردے میں سچائی کا گلا گھونٹنے کی کوشش* جموں و کشمیر میں آزادیٔ اظہار آج ایک خواب بنتی جا رہ...
09/07/2025

*کشمیر میں سنسرشپ: خاموشی کے پردے میں سچائی کا گلا گھونٹنے کی کوشش*

جموں و کشمیر میں آزادیٔ اظہار آج ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ مقبوضہ خطے میں اب صرف زمین پر ہی نہیں، ذہنوں، زبانوں اور قلموں پر بھی پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار نے اختلافِ رائے کو مٹانے اور سچائی کو دفن کرنے کے لیے جس شدت سے سنسرشپ کے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں، وہ نہ صرف قابلِ مذمت ہیں بلکہ دنیا کے جمہوری دعووں پر ایک بدنما داغ بھی ہیں۔

2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض سیاسی یا آئینی تبدیلی نہیں بلکہ مکمل فکری غلامی کی بنیاد ہے۔ سچ بولنے کی قیمت یہاں جیل کی سلاخیں ہیں، صحافت جرم بن چکی ہے، اور اختلافِ رائے کو بغاوت کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔

*خاموشی، خوف اور نگرانی: اظہار پر پہرہ*

کشمیر میں سنسرشپ اب محض ایک پالیسی نہیں بلکہ ایک مکمل نظام بن چکا ہے، جس کا مقصد "قومی سلامتی" کے نام پر ہر اس آواز کو دبانا ہے جو حق اور حقیقت کی ترجمانی کرے۔ بھارتی ایجنسیاں کشمیریوں کے فون ٹیپ کر رہی ہیں، انٹرنیٹ کی نگرانی ہو رہی ہے، سوشل میڈیا پر سخت کنٹرول ہے، اور یہاں تک کہ عام شہریوں کی آن لائن سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
*
*سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کرنا** ، پوسٹس پر کارروائی کرنا، اور محض آن لائن رائے دینے پر نوجوانوں اور کارکنوں کو گرفتار کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کو کشمیریوں کے سچ سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ یہ سنسرشپ صرف سیکیورٹی کے نام پر نہیں، بلکہ مکمل کنٹرول، جبر اور دباؤ کے لیے ہے۔

*صحافت یا جرم؟*

آج مقبوضہ کشمیر میں ایک ایماندار صحافی بننا گویا مسلسل خطرے میں جینا ہے۔ جو صحافی سچ لکھتے ہیں، وہ یا تو غائب کر دیے جاتے ہیں یا پھر طویل پوچھ گچھ اور مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔ انہیں محض اس بنا پر نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ بھارتی بیانیے کے برخلاف زمینی سچائی بیان کرتے ہیں۔ اخبارت پر دباؤ، ایڈیٹوریل کنٹرول، اور اشتہارات کی بندش جیسے اقدامات بھی سنسرشپ کے وسیع تر نظام کا حصہ ہیں۔

*اختلاف کا گلا گھونٹنے کی حکمت عملی*

مودی حکومت کی پالیسی صاف ہے: کشمیریوں کو بولنے نہ دو، سچ باہر نہ نکلنے دو، اور دنیا کو ایک مصنوعی "نارملسی" کا دھوکہ دو۔ سیاسی رہنماؤں کو "قومی سلامتی" کے بہانے نظر بند کرنا، احتجاج کو غیر قانونی قرار دینا، اور ہر آواز کو شدت پسندی سے جوڑ دینا اسی حکمتِ عملی کے ستون ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ خاموشی بھارت کی جیت ہے؟ ہرگز نہیں! یہ خاموشی کشمیریوں کی رضامندی نہیں بلکہ ایک مسلط کردہ جبر ہے۔ یہ خاموشی اطاعت نہیں، بلکہ خوف کی پیداوار ہے۔

*سنسرشپ: شکست کا اعتراف*

حقیقت یہ ہے کہ جس ریاست کو اپنے بیانیے کے تحفظ کے لیے صحافت، سماجی اظہار اور شہری آزادیوں کا گلا گھونٹنا پڑے، وہ اندر سے کمزور ہوتی ہے، نہ کہ طاقتور۔ سنسرشپ دراصل سچائی کے آگے شکست کا اعلان ہے۔ بھارت کی پے در پے کوششیں، کہ وہ دنیا کی نگاہوں سے کشمیر کا سچ چھپا لے، محض ایک مایوس کن کوشش ہے جو دیر پا نہیں ہو سکتی۔

کشمیر کا سچ: دبایا جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا

بھارت اطلاعات پر پہرے بٹھا کر سچ کو دبانا چاہتا ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ حق کی آواز کبھی مکمل طور پر خاموش نہیں ہوتی۔ کشمیری عوام کے دلوں میں موجود جذبات، ان کی محرومیاں، اور ان کا حقِ خود ارادیت ایک ایسی حقیقت ہے جو سنسرشپ کے پردوں سے نہیں چھپائی جا سکتی۔

دنیا کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کشمیریوں کی خاموشی ان کی رضامندی نہیں بلکہ ان پر مسلط کردہ خوف کی گونج ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ خاموشی چیخ بن کر گونجے گی اور دنیا کو سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں سنسرشپ محض اظہار پر پابندی نہیں، بلکہ انسانی شعور اور حق گوئی کے قتل کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بظاہر خاموشی پیدا کرتا ہے، مگر اندر ہی اندر مزاحمت کو جلا دیتا ہے۔ سچ پر پابندیاں جتنی بھی سخت ہوں، وہ اسے مار نہیں سکتیں — کیونکہ سچ زندہ رہتا ہے، حتیٰ کہ سنسرشپ کے اندھیروں میں بھی۔
مشتاق احمد بٹ
سکریٹری اطلاعات
کل جماعتی حریت کانفرنس

یوم شہداء کشمیر کے حوالے سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے وفد کی مسلم کانفرنس کے راہنما راجہ ثاقب مجید سے ملاقات – عوامی ریل...
08/07/2025

یوم شہداء کشمیر کے حوالے سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے وفد کی مسلم کانفرنس کے راہنما راجہ ثاقب مجید سے ملاقات – عوامی ریلی میں بھرپور شرکت کی یقین دہانی

مظفرآباد: کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے یوم شہداء کشمیر (13 جولائی) کی مناسبت سے مسلم کانفرنس کے چیف آرگنائزر راجہ ثاقب مجید سے ان کے مرکزی دفتر میں ملاقات کی۔ ملاقات کی قیادت کل جماعتی حریت کانفرنس کے سیکریٹری اطلاعات مشتاق احمد بٹ نے کی۔
وفد میں حریت کانفرنس کے سینئر رہنما مشتاق السلام، عبدالمجید میر، سید گلشن اور نذیر احمد کرناہی بھی شامل تھے۔

اس ملاقات کا مقصد 13 جولائی 1931ء کے شہداء کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عوامی ریلی کے سلسلے میں سیاسی و عوامی سطح پر اشتراک کو فروغ دینا تھا۔

حریت وفد نے راجہ ثاقب مجید کو ریلی میں شرکت کی دعوت دی اور انہیں ریلی کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر مشتاق احمد بٹ نے کہا:
13 جولائی تاریخ کشمیر کا سنگ میل ہے۔ یہ دن ہمیں ان عظیم فرزندوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے جامع مسجد سری نگر کے احاطے میں اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر تحریک حریت کشمیر کا باب رقم کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر کشمیری، ہر تنظیم، ہر آواز اس دن کی گونج کو عالمی سطح پر بلند کرے۔"

راجہ ثاقب مجید نے وفد کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

یوم شہداء کشمیر ہماری قومی تاریخ کا ایک مقدس باب ہے۔ ہم مسلم کانفرنس کی سطح پر نہ صرف اس ریلی میں بھرپور شرکت کریں گے بلکہ اپنے کارکنان کو بھی اس میں شامل ہونے کی مکمل ہدایت دیں گے۔ یہ ہماری دینی، قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ان شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھیں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ کشمیری عوام آج بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
اس موقع پر تمام رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ 13 جولائی کی عوامی ریلی کو ایک متحدہ آواز بنایا جائے گا تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکے اور بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔
ریلی میں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات، انسانی حقوق کے کارکنان، طلباء تنظیمیں اور عوام کی بھرپور شرکت متوقع ہے۔

*شہید برہان مظفر وانی کا مشن ہمارے اوپر۔ قرض ہے*: تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ونگمظفرآباد: *تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ...
08/07/2025

*شہید برہان مظفر وانی کا مشن ہمارے اوپر۔ قرض ہے*:
تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ونگ

مظفرآباد: *تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ونگ کے زیر اہتمام عظیم حریت رہنما شہید برہان مظفر وانیؒ کے نویں یومِ شہادت کے موقع پر ایک عظیم الشان اور پُرعزم ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس کی قیادت سٹوڈنٹس ونگ کے چیئرمین منیر احمد کونشی نے کی*۔

ریلی میں شریک نوجوانوں نے آزادی کے حق میں اور بھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف پُرجوش نعرے لگاتے ہوئے برہان وانیؒ کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ شرکاء نے واضح پیغام دیا کہ جب تک بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر سے اپنا غیر قانونی قبضہ ختم نہیں کرتا اور کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق حقِ خودارادیت نہیں دیا جاتا، تب تک نوجوان شہید برہان وانیؒ کے مشن کو ہر محاذ پر جاری رکھیں گے۔

اس موقع پر چیئرمین سٹوڈنٹس ونگ منیر احمد کونشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا
برہان مظفر وانی صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک عزم ایک نظریہ اور ایک بیداری کا نام ہے اُنہوں نے بھارتی ظلم و ستم کے خلاف نوجوانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کی آج کا نوجوان اُس مشن کو امانت سمجھ کر تھامے ہوئے ہے، اور ہم اس راہ میں کوئی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے."

*ریلی میں تحریک کے دیگر مرکزی قائدین بھی شریک ہوئے جن میں صدر سٹوڈنٹس ونگ ریاض احمد اعوان، مرکزی چیف آرگنائزر نصیر احمد میر ، چیف آرگنائزر اسٹوڈنٹس ونگ فیض اللّٰہ درانی، صدر حلقہ لچھراٹ شبیر احمد بٹ، صدر یونیورسٹیز و کالجز آصف درانی، صدر جہلم ویلی فلک خان، جنرل سیکریٹری یونیورسٹیز و کالجز کاشف اعوان، ڈپٹی میڈیا ایڈوائزر عبدالرحمٰن درانی، قاسم خان، عبد الروف ، یونس درانی ، نقاش قریشی اور متعدد دیگر نوجوان شامل تھے*۔
مرکزی
رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ:

بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ کشمیری نوجوان اب نہ جھکیں گے، نہ رکیں گے۔ برہان وانیؒ نے جدوجہد آزادی کو ایک نئی سمت دی، اور اب ہر نوجوان ان کے مشن کا سپاہی ہے۔"

تاہم اس نے آزادیٔ کشمیر کے جذبے کو ایک بار پھر پوری شدت سے اجاگر کر دیا۔
تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ونگ کا یہ اعلان ہے کہ وہ ہر سال برہان وانیؒ کی قربانی کو یاد رکھ کر جدوجہد کو نئی جہت دیں گے۔

*مزاحمت کی علامت: برہان مظفر وانی* 8 جولائی 2016 کا دن مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک ایسا دن بن گیا جب ایک نوجوان...
08/07/2025

*مزاحمت کی علامت: برہان مظفر وانی*

8 جولائی 2016 کا دن مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک ایسا دن بن گیا جب ایک نوجوان نے اپنے خون سے تحریکِ آزادی کو نئی توانائی دی، اور اپنی شہادت سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کشمیری قوم اپنے حقِ خودارادیت کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ برہان مظفر وانی، صرف ایک نام نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک مزاحمت، اور ایک تحریک ہے۔ وہ نوجوان جس نے قلم کی عمر میں بندوق اٹھائی، مگر اس کی گونج صرف گولیوں تک محدود نہ رہی، بلکہ ایک فکری اور نظریاتی تحریک کی صورت میں پورے کشمیر میں پھیل گئی۔

**برہان وانی: نوجوان نسل کی ترجمانی*
*
برہان وانی محض عسکریت پسند نہ تھے، بلکہ وہ کشمیری نوجوانوں کی اس نسل کی علامت تھے جو بھارتی قبضے، انسانی حقوق کی پامالی اور ناانصافیوں سے بیزار ہو چکی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ، باشعور اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نوجوان تھے جنہوں نے سوشل میڈیا کو مزاحمتی پیغام کا ذریعہ بنایا۔ ان کے ویڈیوز اور پیغامات نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں کو جھنجھوڑا اور انہیں جدوجہدِ آزادی میں شمولیت پر آمادہ کیا۔

*الحاقِ پاکستان کا داعی*

برہان وانی نہ صرف بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تھے بلکہ وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے زبردست حامی تھے۔ ان کے نظریے کی بنیاد اسلامی تشخص، نظریہ پاکستان اور برصغیر کی تاریخی تقسیم پر تھی۔ ان کا یہ پیغام بالکل واضح تھا کہ کشمیر پاکستان کا فطری اور نظریاتی حصہ ہے، اور بھارت کی یہاں موجودگی ایک غیرقانونی و جبری تسلط کے سوا کچھ نہیں۔

شہادت، مگر نظریہ زندہ

بھارت نے برہان وانی کو 8 جولائی 2016 کو شہید کر کے یہ سمجھا کہ وہ کشمیریوں کی مزاحمت کو کچل دے گا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ وادی بھر میں زبردست احتجاجی لہر اٹھی، لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، اور سینکڑوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ برہان کی شہادت کشمیریوں کی اجتماعی بیداری کی علامت بن گئی۔

ان کی شہادت نے یہ ثابت کر دیا کہ بھارت برہان کو تو مار سکتا ہے، مگر اس کے نظریے کو نہیں۔ ان کی قربانی نے تحریکِ آزادی کو مہمیز دی اور نوجوانوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔

*برہان: زندہ ہیں، جب تک جدوجہد زندہ ہے*

برہان وانی کشمیریوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ ہر اُس نوجوان کی آنکھوں میں جھلکتے ہیں جو بھارتی ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا عزم رکھتا ہے۔ ان کی نویں برسی پر کشمیریوں نے ایک مرتبہ پھر اس عہد کی تجدید کی کہ شہداء کے مشن کو ادھورا نہیں چھوڑا جائے گا۔ برہان کے نقشِ قدم پر چلنے والے نوجوان آج بھی قابض افواج کے خلاف سینہ سپر ہیں۔

*شہداء کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا*

کشمیر کی تحریکِ آزادی کسی خارجی ایجنڈے یا وقتی سیاست کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک عوامی، نظریاتی اور خالص تحریکی جدوجہد ہے۔ برہان وانی اور ان جیسے ہزاروں شہداء نے اپنے خون سے اس تحریک کو سیراب کیا ہے۔ کشمیری قوم جانتی ہے کہ آزادی قربانی مانگتی ہے، اور وہ ہر قیمت پر اس عظیم مقصد کے لیے کھڑی ہے۔

*بھارت کی شکست ناگزیر ہے*

بھارت اپنی عسکری طاقت، کالے قوانین اور سفارتی جھوٹ کے ذریعے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے، لیکن وہ کشمیریوں کی روح کو شکست نہیں دے سکا۔ قابض طاقتیں تاریخ کے ہر دور میں ناکام ہوئی ہیں، اور بھارت بھی ایک دن کشمیر سے ناکام ہوکر نکلے گا۔ غیر قانونی قبضے کا خاتمہ کشمیریوں کا مقدر ہے۔
برہان مظفر وانی محض ایک شہید کا نام نہیں بلکہ ایک جہدِ مسلسل، ایک شعور، ایک نظریہ، اور ایک مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جن کے نوجوان بیدار ہوں، جن کے دلوں میں آزادی کی تڑپ ہو، اور جن کے سامنے ایک واضح نظریہ ہو، انہیں دنیا کی کوئی طاقت غلام نہیں بنا سکتی۔ کشمیر کی زمین سے جب تک برہان جیسے سپوت جنم لیتے رہیں گے، آزادی کی صبح ضرور طلوع ہو گی۔
*مشتاق احمد بٹ*
سکریٹری اطلاعات کل جماعتی حریت کانفرنس

Address


Telephone

+923449071866

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shabab News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share