08/11/2025
ساڈی اپنی پہتی پیرزئی کا قابلِ فخر بیٹا
فخرِ چھچھ، فخرِ اٹک — پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد
خطۂ مردم خیز چھچھ کے خوبصورت گاؤں پِھیتی سے تعلق رکھنے والے ایک محنتی، بااخلاق اور باکردار استاد کے گھر جنم لینے والے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنی صلاحیت، لگن اور والدین و اساتذہ کی دعاؤں سے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ دیہی پس منظر سے اُٹھنے والا ایک طالبعلم بھی عالمی سطح پر علم و تحقیق کا مینار بن سکتا ہے۔
استادِ محترم ماسٹر نور احمد کے فرزندِ ارجمند نے اپنی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ ہائی اسکول حضرو سے کیا — اور آج وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پلانٹ سائنسز کے پروفیسر اور ڈائریکٹر، چین-پاکستان بایو ڈائیورسٹی اینڈ بایو انرجی ریسرچ سینٹر کے سربراہ ہیں۔
انہوں نے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کر کے ایک روشن مثال قائم کی کہ اگر جذبہ، محنت اور خلوص ہو تو کامیابی کا سفر کسی ادارے کا نہیں بلکہ ارادے کا محتاج ہوتا ہے۔
ان کی علمی و تحقیقی خدمات کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے
65 بین الاقوامی کتابیں، 1000 تحقیقی مقالے
اور 24,000 حوالہ جات (Citations) کے ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
ان کا H-index 77 ہے، جو دنیا کے ممتاز سائنسدانوں میں ان کا مقام واضح کرتا ہے۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں نمایاں ہیں:
تمغۂ امتیاز، صدرِ پاکستان کی جانب سے (2024)
Highly Cited Scientist Award (امریکہ، 2023–24)
اعزازی پروفیسر ایوارڈ (ازبکستان، 2024)
CAS Distinguished Professor Award (چین، 2018 و 2024)
TWAS–USM Award (ملیشیا، 2013)
HEC Young Scientist Award (2019)
SCO Award (شنگھائی تعاون تنظیم، 2025)
اور حال ہی میں انہیں TWAS–UNESCO اکیڈمیشن ایوارڈ (2025) اور TEF ممبرشپ (برطانیہ) جیسے عالمی اعزازات بھی حاصل ہوئے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مشتاق احمد نے یہ علمی و تحقیقی سفر بجلی کی کڑک کی رفتار سے طے کیا — مگر اس میں اُن کی برسوں کی محنت، اخلاص اور علم سے عشق پوشیدہ ہے۔
چھچھ، اٹک اور پاکستان — سب ان کے ایسے فرزندِ زمین پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔
ان کی شخصیت خود ایک ریسرچ پیپر ہے — علم، عزم اور حوصلے کا شاہکار۔