Information Hub

Information Hub finding right path🥰🥰🥰

"مثبت سوچ میں شفا ہے "منفی رویوں کا اثر ہمارے دماغ جسم اور طبیعت پر پڑتا ہے منفی سوچ زبان کے زریعے دوسرے کے دل تک پہنچتی...
17/06/2025

"مثبت سوچ میں شفا ہے "

منفی رویوں کا اثر ہمارے دماغ جسم اور طبیعت پر پڑتا ہے
منفی سوچ زبان کے زریعے دوسرے کے دل تک پہنچتی ہے
جیسا کہ کسی مریض سے کہنا
▪️شفا ملنی ہی نہیں
▪️اس بیماری کا علاج بس اب موت ہی ہے
▪️یہ تو لاعلاج مرض ہے
منفی باتیں بیماریاں بڑھاتی ہیں
انسان کے اندر ڈپریشن ، بے چینی ، خوف اور بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ مسلسل منفی سوچنے سے دماغ کا نیوروجیکل توازن بھی متاثر ہوتا ہے یہ منفی سوچیں اسٹریس ہارمونز کو بڑھاوا دیتی ہیں جس کے سبب بلڈ پریشر کی بیماری گلے پڑتی ہے
انسان دوسرے انسان سے جھگڑنا شروع کر دیتا ہے
چڑچڑاہت طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے
دواؤں کے ڈھیر اس کے سرہانے رکھے رہتے ہیں ایک کے بعد ایک گولی نگلنا گولی سے آرام نہیں تو انجکشن کی جانب دوڑنا یہاں تک کہ سارا دن اسی طرح پورا ہو جاتا ہے
کچھ بیمار ڈاکٹر پر غصہ نکال رہے ہوتے ہیں
کچھ ان دواؤں کے ڈھیر میں دب کر ڈپریشن کے ایسے مریض بن جاتے ہیں کہ اپنے جیسے انسانوں سے بیزار ہو جاتے ہیں لوگوں کو نظر انداز کرنے کے واسطے رات بھر جاگتے ہیں دن میں سوتے ہیں
منفی سوچیں طبیعت میں بدگمانی کا طوفان کھڑا کیے رکھتی ہیں
▪️وہ تو مجھے پوچھتا ہی نہیں
▪️اس نے میرا خیال نہیں کیا
▪️وہ تو ایسا ہی ہے
تحقیقات کے مطابق شکایات طویل منفی باتیں دماغ کے حصے ہیپوکیمپس کو سکیڑ دیتی ہیں
ریسرچ کے مطابق تین منٹ کے مختصر دورانیے میں شکایات کرنا یا سننا ہمارے دماغ کو متاثر کرتا ہے
تو پھر کیا حال ہے ان صحت مندوں کا جن کا مشغلہ ہی فقط دوسروں کو کھودنا یعنی غیبت کے کنویں میں غرق رہنا ہو
انسانی صحت کے پیش نظر ہی غبیبت کو بدترین اخلاق میں شمار کیا جاتا ہے کہ غیبت کرنا تو کجا سننا بھی گناہ ہے
لازم ہے گھر میں کوئی بیمار ہو یا کہ آپ بیمار ہو جہاں منفی بات ہو وہاں فورا اٹھ جائیں اپنی جگہ بدل لیں
بیماری سے نجات کے لیے لازم ہے مثبت سوچ کی جانب قدم بڑھائیں
دعا کی تاثیر اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ اس میں انسان مثبت جملے ادا کررہا ہوتا ہے
جو الفاظ ہمارے منہ سے نکلتے ہیں ان کی تاثیر ہوتی ہے
کوئی اچھی بات ہم سے کردے تو اندر تک خوشی ہوتی ہے
معمولی بات خوبصورت انداز میں کہی جائے تو ویلیو بڑھ جاتی ہے
بیمار پر دعا کا فائدہ ہونے کی وجہ یہی مثبت الفاظ ہیں
رقیہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے کلام سے زیادہ مثبت بات اور کوئی نہیں
جو بیمار اپنی زبان سے ادا کرتا ہے یا کوئی عزیز ان کے سرہانے بیٹھ کر اچھے پاک کلمات اس کے لیے پڑھ رہا ہوتا ہے
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پیغمبر ایوب علیہ السلام سالہاسال بیماری میں مبتلا رہے ان مثبت کلمات کے ذریعے اپنے رب کو پکارا

وَ اَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿ ۸۳﴾ۚ ۖ

ایوب ( علیہ السلام ) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم کسی مریض یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو ، کیونکہ تم جو بات کرتے ہو تو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

لازم ہے بیمار کے پاس جائیں تو اچھی بات کہیں منہ سے نکلی مثبت بات زندگی اور تندرستی کا سبب ہے ۔

03/06/2025

*یومِ عرفہ کا زندگی بدل دینے والا سبق – ضرور پڑھیں*

ایک بھائی نے یہ دل کو چھو لینے والا واقعہ شیئر کیا:

بالکل ایک سال پہلے، میرے سپرمارکیٹ میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی، جس نے میری دکان کے تین چوتھائی سے زیادہ مال کو جلا کر راکھ کر دیا۔

یہ واقعہ یومِ عرفہ سے صرف دو دن پہلے پیش آیا!

آپ تصور کر سکتے ہیں کہ میری حالت کیا تھی — عیدالاضحی قریب تھی، مگر میری دکان، میرا سامان، میرا کاروبار — سب تباہ ہو چکا تھا۔ نہ کوئی عیدی، نہ خوشی، نہ مسرت — صرف غم، پریشانی، اور قرض کا بوجھ۔

اس وقت میری شادی کو صرف دو ماہ ہوئے تھے۔ جلا ہوا مال تقریباً 15,000 ڈالر کے برابر تھا۔ میں سوچنے لگا: اب کیا کروں؟ کیسے اس نقصان کی تلافی ہو؟ کیا اپنی نئی نویلی دلہن سے کہوں کہ اپنا سونا بیچ دے؟ یا کسی سے قرض لوں؟ لیکن کس سے؟

آخرکار میں نے سوچا کہ دوستوں سے قرض لینا بہتر ہے۔ مگر جب بھی کسی دوست سے بات کی، وہ یہی کہتا، “عید قریب ہے، معاف کرنا — اس وقت مدد نہیں کر سکتا۔”

دو دن اسی حالت میں گزر گئے — ذہنی دباؤ اور مایوسی کے ساتھ۔ بمشکل 800 ڈالر جمع کر پایا — جو میرے نقصان کے مقابلے میں ایک قطرہ بھی نہیں تھے۔

اس رات میں گھر واپس جا رہا تھا تو ایک پڑوسی ملا، کہنے لگا:
“عید مبارک بھائی! کل روزہ نہ بھولنا!”

میں نے دل میں سوچا: روزہ؟ اس حال میں؟ مجھے اکیلا چھوڑ دو...

میری بیوی نے میرا دل ہلکا کرنے کے لیے کہا کہ تھوڑی دیر چہل قدمی کرتے ہیں۔ ہم باہر نکلے، مگر میرا دل غم سے بوجھل تھا — میں کسی چیز سے لطف نہیں اٹھا پا رہا تھا۔

جب گھر واپس آئے، تو وہ بولی:
“چلو سحری کی تیاری کرتے ہیں؛ فجر کا وقت قریب ہے۔”

میں نے تلخی سے جواب دیا:
“سحری؟ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا کہ کل یومِ عرفہ ہے!
تم اور میں جیسے دو مختلف دنیاؤں میں جی رہے ہیں۔ کیا سحری؟ کیا عرفہ؟ کیا تمہیں ہماری حالت نظر نہیں آ رہی؟”

اس نے نرمی سے کہا:
“اللہ نے ہمارے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ وہ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ لیکن روزہ ضرور رکھو۔”

اس نے اصرار کیا — اور ہم نے نیت کر کے روزہ رکھ لیا۔

افطار کے وقت، وہ بولی:
“اللہ سے دعا مانگو۔”

میں نے کہا:
“کس چیز کی دعا؟”

کہنے لگی:
“جو دل چاہے، مانگو۔”

میں نے طنزیہ انداز میں کہا:
“کیا مانگوں؟ یہ کہ آسمان سے 15,000 ڈالر آ جائیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟”

وہ بولی:
“جس نے آسمان بنایا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔”

وہ چپ چاپ نماز پڑھنے لگی اور دعا میں مشغول ہو گئی۔ میں نے بھی دعا کی، مگر دل میں صرف وہی 15,000 ڈالر گھوم رہے تھے — میں چاہتا تھا سب کچھ واپس مل جائے۔

مغرب کے ایک گھنٹے بعد، میرے ایک دوست کا فون آیا:
“کافی شاپ آؤ، تم سے ضروری بات کرنی ہے۔”

میں گیا، تو اس نے کہا:
“میرے ایک جاننے والے نے پیسے جمع کیے ہیں اور وہ کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ تم سے بہتر کوئی نہیں لگا مجھے۔”

ہم نے اس شخص کو بلایا — وہ آیا اور کہا:
“میرے پاس 30,000 ڈالر ہیں، اور میں کاروبار میں لگانا چاہتا ہوں۔”

میں نے کہا:
“میری دکان کو 15,000 ڈالر کے مال کی ضرورت ہے۔ کیوں نہ آدھے پیسے مال میں لگاؤ اور آدھے دکان کی تزئین و آرائش میں؟ منافع میں 50/50 کا حصہ ہوگا، جب تک تمہارا اصل سرمایہ پورا واپس نہ ہو جائے۔”

ہم نے معاہدہ کر لیا۔ میں نے دکان دوبارہ بنائی، مال خریدا، اور عید کے بعد دکان کھول دی۔ اس دن میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔

اوہ! میں بھول گیا — دکان میں آگ لگنے سے ایک ہفتہ پہلے میری والدہ کو کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ ٹیسٹ کروا لیے تھے، اور نتائج عرفہ کے دن آنے تھے۔

نتیجے آئے — منفی تھے۔ الحمدللہ، وہ مکمل طور پر صحت مند تھیں!

جب امی کو پتہ چلا، تو وہ خوشی سے پورا دن روتی رہیں — اللہ کا شکر ادا کرتی رہیں۔

دکان دوبارہ کھل گئی، امی شفا یاب ہو گئیں، اور پھر میری بیوی نے فون کر کے بتایا کہ اس نے حمل کا ٹیسٹ کیا ہے — وہ حاملہ ہے!

پھر اُس نے مجھ سے کہا:
“اب سمجھ آیا روزہ رکھنے اور عرفہ کے دن دعا مانگنے کی طاقت کیا ہوتی ہے؟”

میں نے دل میں کہا:
سبحان اللہ!
کچھ دن پہلے لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا ختم ہو گئی ہے، اور آج صرف ایک مخلص دعا سے سب کچھ پلٹ گیا۔

اس دن میں نے اللہ کے سامنے عاجزی کا وہ سبق سیکھا جو کبھی نہیں بھولوں گا۔

اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
کبھی وہ ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم اس کی طرف رجوع کریں، توبہ کریں۔

عید کے بعد کاروبار اچھا چلنے لگا، اور جلد ہی وہ 30,000 ڈالر واپس ہو گئے۔
میں وہ پیسے واپس دینے گیا — مگر تب کہانی میں ایک نیا موڑ آیا۔

اس شخص نے کہا:
“سچ یہ ہے کہ یہ پیسے میرے نہیں تھے۔ کسی شخص نے، جس کی بیوی کینسر سے صحت یاب ہوئی تھی، اللہ کی رضا کے لیے یہ تمہیں دلوائے۔ وہ تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا — گمنام رہ کر۔”

“یہ پیسے تمہارے ہیں — کوئی واپس نہیں مانگے گا۔”

اللہ کی قسم، میں گھر آ کر کمرے میں بند ہو گیا — اور ایک گھنٹہ بچوں کی طرح رویا۔
اللہ کی رحمت اور عنایت پر — جو میں نے محسوس کی۔

اب بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے، آنکھوں سے صرف آنسو نہیں — خون کے آنسو نکلتے ہیں — کہ میں نے رب سے دوری میں وقت گزارا، جب کہ وہ تو ہمیشہ قریب تھا۔

اسی تجربہ نے مجھے یومِ عرفہ، روزہ، دعا، اور اللہ پر اعتماد کا اصل مطلب سکھایا۔
یہ میری زندگی کا نقطۂ آغاز بن گیا — میں نے توبہ کی اور دین سے جُڑ گیا۔

سبق:

> "اللہ کبھی کبھی دینے کے لیئے روکتا ہے، اور روکنے کے لیئے دیتا ہے — یہی اُس کی حکمت ہے۔"

یہ ذوالحجہ کے پہلے دس بابرکت دن ہیں، ہم دعا، توبہ، اور ذکر میں محنت کریں — اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کو نہ بھولیں۔

> رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*"جو کسی کو نیکی کی طرف رہنمائی کرے، اُسے بھی وہی اجر ملے گا جو نیکی کرنے والے کو ملتا ہے۔"*
(مسلم)

اس لیئے اس واقعے کو ضرور دوسروں سے شیئر کریں۔
کیا پتہ آپ کی زندگی ختم ہو جائے — اور آپ کے اعمال نامے میں یہ نیکی کی دعوت باقی رہ جائے۔

✏️ ترجمہ: خیران

کیا ہی خوبصورت واقعہ ہے۔

31/05/2025

گرمی ڈیرہ زیاته شوہ که چاسرہ خپل ذاتی گاڑی یہ موٹر سائکل وی نو په لارہ کښی مزدور سٹوڈنٹس استاد او غریبان خلک راخیجوی چی خلقو ته راخت میلاویگی
🤗😏🙏

28/05/2025

لمحہ فکریہ !!

*لوگ رشوت اور حرام کے پیسے جیب میں ڈال کر مویشی منڈی میں جانوروں کے دانت، دُم اور سینگ چیک کر کے کہتے ہیں اس کی قُربانی جائز نہیں*🖐️

✍️ سبحان خان

28/05/2025

Amazing story of 2025 hajj

*صفر کا موجد کون تھا؟*ایک طالب علم جو روس میں زیرِ تعلیم ہے، بیان کرتا ہے:روس میں اکثر امتحانات کے لیے بلند ترین درجہ بن...
27/05/2025

*صفر کا موجد کون تھا؟*
ایک طالب علم جو روس میں زیرِ تعلیم ہے، بیان کرتا ہے:

روس میں اکثر امتحانات کے لیے بلند ترین درجہ بندی "5" ہے۔ اگر کوئی طالب علم کسی سوال کا جواب نہ دے اور اپنا پرچہ بالکل خالی لوٹا دے، تو بھی اسے پانچ میں سے "2" نمبر دیے جاتے ہیں۔

جب میں نے ماسکو یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا، تو اس نظام سے ناواقف تھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، اور میں نے ڈاکٹر تئودور مدراف سے پوچھا:
"کیا یہ انصاف ہے کہ کوئی طالب علم جو ایک بھی سوال کا جواب نہ دے، اسے آپ ۲ نمبر دیتے ہیں؟ آپ اسے صفر کیوں نہیں دیتے؟ کیا یہ درست طریقہ ہے؟"

انہوں نے جواب دیا:
"ہم کسی انسان کو صفر کیسے دے سکتے ہیں؟
ہم کیسے اس طالب علم کو صفر دے سکتے ہیں جس نے صبح سات بجے بیدار ہو کر تمام لیکچرز میں شرکت کی؟
ہم کیسے اس کو صفر دیں، جب کہ وہ سخت سردی میں، عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کر کے وقت پر امتحان گاہ پہنچا اور کوشش کی کہ سوالات حل کرے؟
ہم اس کی ان راتوں کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں جو اس نے تعلیم کی نذر کیں، اپنی آمدنی سے کاپی قلم خریدے، مطالعہ کے لیے کمپیوٹر لیا؟
ہم اس کو صفر کیسے دیں، جب کہ اس نے زندگی کی دیگر آسائشیں چھوڑ کر طالب علمی کی راہ اپنائی تاکہ وہ اپنے علم کو آگے بڑھا سکے؟

بیٹا! ہم صرف اس وجہ سے کہ اس نے جوابات نہیں دیے، اسے صفر نہیں دیتے۔
ہم کم از کم اس حقیقت کا احترام کرتے ہیں کہ وہ ایک انسان ہے۔ اس کے پاس عقل، شعور اور سوچنے کی صلاحیت ہے۔ اس نے کوشش کی، سعی کی۔ ہمارا یہ نمبر صرف سوالات کے جواب کا عکاس نہیں بلکہ اس انسان کی سعی کی قدردانی کا اظہار ہے۔
یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انسان، انسان ہے، اور وہ کسی نہ کسی درجہ میں مقام اور نمرے کا مستحق ہے۔

میں یہ سن کر بے اختیار رو پڑا، اور میرے پاس جواب دینے کو کوئی لفظ نہ رہا۔
اسی لمحے میں نے پہلی بار *اپنی انسانی قدر* کو محسوس کیا۔

واقعہ یہ ہے کہ "صفر" کا عدد طالب علم کے حوصلے پست کر دیتا ہے۔ وہ فوراً شکست خوردگی کا شکار ہو سکتا ہے اور علم سے مکمل کنارہ کشی کر سکتا ہے۔
جب کسی کی کارکردگی پر "صفر" کا داغ لگ جائے، تو اس کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ وہ خود کو ناکارہ سمجھنے لگتا ہے اور یہ خیال اسے جکڑ لیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں۔

یہ پیغام ہر معلم، ہر استاد اور ہر وہ فرد جو تعلیم و تربیت میں کوئی کردار ادا کرتا ہے، تک ضرور پہنچنا چاہیے:
آیئے! ہم دوبارہ غور کریں کہ ہم اپنے طالب علموں کو کس پیمانے سے پرکھتے ہیں۔۔۔

ہر انسان، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، اپنی زندگی کے مقصد کے لیے مشقت کرتا ہے:

مثلاً ایک خاتون خانہ کھانے پکانے کے لیے کوشش کرتی ہے،

ایک باپ گھر کا خرچ چلانے کے لیے،

مزدور اور ملازم اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے،

سب اپنی بساط بھر محنت کرتے ہیں۔

اگر ان کی کوششیں مطلوبہ معیار پر پوری نہ بھی اتریں تو یہ بے انصافی ہوگی کہ ہم ان کی محنت کو بالکل نظرانداز کر دیں۔

✿ #𝕽𝖔𝖘𝖍𝖓𝖎❥❥🌻

08/05/2025

ایک لڑکا باپ کے انتقال کے بعد اپنی ماں کو اولڈ ہاوس چھوڑ آیا اور مسلسل اس کی خبرگیری کرتا تها-

ایک روز اولڈ ہاوس سے فون آیا کہ تمہاری والدہ کا آخری وقت ہے فورا پہنچو-
ماں کے پاس جاکر بیٹے نے پوچها: اماں آپ کو کچھ چاہیئے جو میں لے آؤں ?

ماں نے کہا:
*بیٹا یہاں اولڈ ہاوس میں کولر خرید کے رکهدینا چونکہ بہت گرمی ہے اور یہاں رہنے والے لوگ بہت تکلیف و پریشانی میں رہتے ہیں-* *ٹوٹے ہوئے شیشوں کو بدلوادینا, تاکہ سردی میں یہ لوگ آرام سے رہیں, صحن میں درخت لگادینا تاکہ اس کے سایہ میں آرام کرسکیں, فریج میں اچھی غذا رکهدینا, کتنی ہی راتیں میں بغیر کھانے کے سوئی ہوں-*

بیٹے نے حیرت سے کہا: اماں! آپ دنیا سے جارہی ہیں اور مجھسے یہ درخواست کررہی ہیں اور پہلے مجھسے شکایت نہیں کی?

ماں نے کہا: ہاں میرے بیٹے! مجهے گرمی, سردی, بھوک پیاس کی عادت ہے لیکن مجھے ڈر ہے جب تیرے بچے ضعیفی میں تجھے یہاں لے کر آئیں تو تجھے تکلیف ہوگی کیونکہ:

*میں نے تجھے بہت ناز و نعم سے پالا تها۔*

07/05/2025

کچھ سوالات ، جن کے جواب جاننے ضروری ہیں،

1 بھارتی میزائلوں نے سینکڑوں کلومیٹر دور سے "سو فیصد ایکوریسی" کے ساتھ ٹارگٹڈ مدارس کو کیسے نشانہ بنایا ؟

2 پاکستان کا اربوں ڈالر کا اینٹی میزائل سسٹم کسی بھی میزائل کو انٹرسیپٹ کرنے میں ناکام کیسے رہا ؟

3 اگر یہ ایئر سٹرائیک تھی تو پھر ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے سوتا رہ گیا جبکہ بالاکوٹ حملے کے وقت تو فوراً بھارتی طیاروں کو انٹرسیپٹ کر لیا تھا۔

4 بھارت نے اتنے اعتماد کے ساتھ پاکستان کے کئی شہروں میں دیدہ دلیری سے حملے کیسے کئے ؟ کیا اسے عالمی سطح پہ کہیں سے یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان تعاون کرے گا ؟

5 امریکی نائب صدر نے کہا تھا کہ بھارت کنٹرولڈ کاروائی کرے اور پاکستان تعاون کرے ۔ کیا بھارت کا پاکستانی مدارس پہ مخصوص تنظیموں پہ اٹیک اور پاکستانی دفاعی نظام کا تماشا دیکھنا اس حکم کی تعمیل تھا ؟

6 پاکستان نے آزاد کشمیر سمیت مختلف مخصوص مذہبی گروہوں کے مدارس خالی کروا دیے تھے ۔ کیا انھیں حملے کی نوعیت کی پیشگی اطلاع تھی ؟ اگر ہاں تو کیا یہ اطلاع بھارت نے دی تھی ؟

7 عطا تارڑ نے آج پارلیمنٹ میں ایک عجیب وغریب تقریر کی اور کہا کہ آئیے مل کر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں ۔ تارڑ جیسے بغضی کی آج کی اچانک تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی وزیر اطلاعات کو آج حملے کی پیشگی اطلاع تھی ۔ پھر تیاری کیوں نہ تھی ؟

8 بھارت بار بار کاروائی کی دھمکیاں دیتا رہا ۔ پاکستان نے کیونکر لائحہ عمل طے نہ کیا کہ کاروائی کی صورت میں فوری جوابی ردعمل کیا ہونا چا ہے

15/02/2025

رولا دینے والی پوسٹ*

*ماں… بس ایک بار سن لو! میں مر رہا ہوں!*

*یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو نارتھ ناظم آباد کراچی کے علاقے میں پیش آیا ۔ یہ محض ایک کہانی نہیں… بلکہ ایک فریاد ہے، جو سنی جاتی تو شاید آج ایک جواں سالہ بیٹا اپنی ماں کی آغوش میں ہوتا، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہنستا کھیلتا۔ لیکن افسوس! اس کی آخری چیخیں، اس کے آخری پیغام… ان تک پہنچے ہی نہیں!*

*وہ خوش تھا، وہ زندہ تھا… مگر قسمت کچھ اور چاہتی تھی۔۔۔*

*یہ کسی اور کے گھر کی کہانی نہیں… یہ ہمارے آس پاس کی حقیقت ہے۔ وہ لڑکا ایک عام دن کی طرح کالج سے گھر آیا تھا، تھکا ہوا مگر مطمئن۔ ماں اور بہن نے جلدی میں اسے بتایا:*

*"ہم کچھ دیر کے لیے مارکیٹ جا رہے ہیں، تب تک تم گھر پر رہنا!"*

*اس نے مسکرا کر سر ہلایا، جیسے ہر فرمان بردار بیٹا اپنی ماں کی بات مان کر کرتا ہے۔*

*ایک فون کال… جو زندگی بچا سکتی تھی!*

*تقریباً آدھے گھنٹے بعد… اچانک اس کے سینے میں ایک عجیب سا درد اٹھا! پہلے ہلکا، پھر شدت اختیار کرتا گیا۔ اس نے ماں اور بہن کو کال کی… ایک بار، دو بار، تین بار… مگر کوئی جواب نہیں!*

*وہ فون کی اسکرین پر مسلسل ماں کا نام دیکھتا رہا… ہر گزرتے لمحے کے ساتھ درد ناقابلِ برداشت ہو رہا تھا۔ اس نے پھر کوشش کی… لیکن ہر بار "call rejected" کی آواز سنائی دی۔ شاید ماں نے سوچا ہوگا کہ وہ گھر سے باہر جانے کے لیے ضد کر رہا ہوگا، شاید بہن نے سمجھا ہوگا کہ وہ بس مذاق کر رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ تھی… کہ وہ مر رہا تھا!*

*آخری سانسیں… آخری التجا!*

*درد سے بےحال ہو کر وہ گھر کے دروازے تک آیا، کسی مدد کے لیے، کسی آہٹ کے انتظار میں… لیکن کوئی نہ تھا! وہ گلی میں گر پڑا، تڑپنے لگا، پڑوسیوں نے اسے اس حال میں دیکھا اور فوراً ہسپتال لے جانے کی کوشش کی… مگر تب تک دیر ہو چکی تھی!*

*جب ماں اور بہن مارکیٹ سے واپس آئیں تو گلی میں رش لگا ہوا تھا۔ لوگ ایک ایمبولینس کے گرد کھڑے تھے۔ ایمبولینس کا دروازہ کھلا اور اندر ایک کفن میں لپٹا وجود نظر آیا… ان کا بیٹا… ان کا بھائی!*

*"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ابھی تو وہ بالکل ٹھیک تھا!"*
*ماں چیخ چیخ کر رونے لگی، بہن اپنے بال نوچنے لگی، مگر وقت کسی کے آنسو نہیں دیکھتا، پچھتاوے کا بوجھ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا وقت گزر جائے۔*

*موبائل میں پڑی آخری چیخ… جو سن لی جاتی تو وہ بچ سکتا تھا!*

*کچھ دن بعد، ماں نے لرزتے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کا موبائل کھولا، اور وہ آواز سنائی دی… جو ہمیشہ کے لیے ان کے دل میں پیوست ہوگئی:*

*"امی، مجھے سینے میں بہت درد ہو رہا ہے… پلیز جلدی واپس آؤ، مجھے ہسپتال لے چلو!"*

*یہ سن کر ماں شدت غم سے دیوار سے جا لگی، بہن زمین پر گر گئی، چیخیں گونج اٹھیں، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا!*

*یہ کہانی مت بھولیں… اسے دوسروں تک پہنچائیں!*

*یہ ایک سبق ہے… ایک وارننگ! جب بھی گھر والوں کی کال آئے، آپ چاہے جتنے بھی مصروف ہوں، اسے فوراً اٹھائیں! شاید وہ مذاق نہ کر رہے ہوں، شاید وہ واقعی کسی مصیبت میں ہوں، شاید وہ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہوں!*

*اس حقیقی واقعے کو آگے پھیلائیں… تاکہ کوئی اور ماں، کوئی اور بہن… ایسی اذیت سے نہ گزرے! ہوسکتا ہے آپ کا ایک فون کال اٹھانا، کسی کی جان بچانے کا ذریعہ بن جائے ۔*

09/02/2025

*بنی اسرائیل کے تین افراد کا واقعہ🍁*

ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول ﷲﷺ نے فرمایا:

کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چناچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آگئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کرسکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔
📚~|[صحیح بخاری: 3464]|

ہمارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہدایت،صحت اور مال ہیں یہ سب ﷲ کا فضل ہے اس میں ہماری کوئ خاصیت نہی!
ان نعمتوں کو ﷲ کی مہربانی مان کر ان کا شکر ادا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔اور ان کو صحیح راہ پر استعمال کرنا امانت داری ہے۔
ایسی اعلیٰ نعمتوں کا غلط کاموں میں ضیاع کرنا ناشکری اور اپنے ہی اوپر ظلم ہے۔

🤲🏼اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں۔

📙~|[الاحقاف: 15]|
*``*

جاپان میں صرف ایک طالبہ کی خاطر 3سال ریلوےاسٹیشن برقرار رہا_لڑکی کی گریجوائشن ہوتے ہی بند کردیا گیا،اس کو کہتے ہیں تعلیم...
04/02/2025

جاپان میں صرف ایک طالبہ کی خاطر 3سال ریلوےاسٹیشن برقرار رہا_
لڑکی کی گریجوائشن ہوتے ہی بند کردیا گیا،
اس کو کہتے ہیں تعلیم کی قدر . . !
یہ جاپان کے شمال میں واقع ایک جزیرہ ہوکائیدو پر قائم کامی شراتاکی نامی ریلوے اسٹیشن ہےگزشتہ تین برس سے اس سٹیشن پر روزانہ صرف ایک مسافر کے لیے دو ٹرینیں رکتی تھی۔جاپان ریلویز نے آج سے تین برس قبل اس اسٹیشن کو دور دراز ہونے اور اس روٹ پر مسافر نہ ہونے کی وجہ سے بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انتظامیہ نے اپنا فیصلہ اس وقت تبدیل کر دیا جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک مسافر ہے جو روزانہ اس ریل گاڑی پر سفر کرتا ہے - اس ویران اسٹیشن پر رکنے والی یہ ریل گاڑی ایک لڑکی کے کالج جانے کا واحد ذریعہ تھی اس وقت جاپان کا یہ ریلوے اسٹیشن صرف ایک مسافر کے لیے پوری طرح سے کام کر رہا تھا اور یہاں روزانہ دو ٹرینیں رکتیں۔ جن کا شیڈول بھی لڑکی کے کالج جانے اور واپس آنے کے وقت کو دیکھ کر مرتب کیا گیا ۔ اگر بعض اوقات اس لڑکی کا سکول دیر سے بند ہوتا تو گاڑی کا شیڈول بھی اس حساب سے چینج کیا جاتا ۔ یہ فیصلہ اگرچہ جاپان ریلویز کے لیے کافی مہنگا ضرور تھا مگر اس سے جاپان نے دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ایک مثال بنی۔

Address

Peshawar

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Information Hub posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share