30/05/2025
اے حور جیسی
جوان لڑکی
محبتوں کا
بیان لڑکی
تُو حسن کی ہے
زبان لڑکی
جنون لڑکی
یقین لڑکی
گمان لڑکی
اے تیر لڑکی
کمان لڑکی
اے نور لڑکی
جہان لڑکی
اے آتشِ دل
فشان لڑکی
اے قلب کا
درمیان لڑکی
اے جانِ جاناں
اے جان لڑکی
خیالِ جاں کا
حساب لڑکی
سوالِ دل کا
جواب لڑکی
شباب لڑکی
شراب لڑکی
سراب لڑکی
حباب لڑکی
سوال دل کا
جواب لڑکی
تُو میرے غم کا
حساب لڑکی
تُو میرے دل کا
نصاب لڑکی
تُو میری دھن ہے
رباب لڑکی
اے شاعری سی
بے تاب لڑکی
اے دھڑکنوں کا
خطاب لڑکی
اے ورق لڑکی
کتاب لڑکی
اے اچھی لڑکی
خراب لڑکی
اے پھول لڑکی
اے خار لڑکی
اے میری جانم
اے میری جاناں
اے میری دھڑکن
اے میری لیلیٰ
اے میری شیریں
اے خواب زادی
گلاب زادی
اے مہ جبینہ
مری حسینہ
اے ناز مینہ
میں جانتا ہوں
میں تجھ سے چھوٹا ہوں عمر میں بھی
یہ عمرِ الفت کی گفتگو ہے
میں جانتا ہوں ہماری ذاتیں
الگ الگ ہیں
میں جانتا ہوں کہ فاصلے ہیں
زمینی رستوں کی بندشیں ہیں
میں جانتا ہوں
ہماری رسمیں
ہمارا کنبہ
ہماری باتیں
جدا جدا ہیں
اے خوب سيرت
جمیل لڑکی
اے خوب صورت
حسین لڑکی
اے حزن کی
ہم نشین لڑکی
اے بھولی بھالی
ذہین لڑکی
اے جانِ جاناں
یہ چھوڑو ذاتیں
یہ خار رستے
زمینی رستوں کی بکھری الجھن
یہ ساری باتیں فضول سی ہیں
میں تیری تعریفِ حسن پر نظم لکھ رہا ہوں
میں جانتا ہوں کہ لفظ کم ہیں
یہ خوب گردن
حسین آنکھیں
یہ خوب زلفیں
حسین باہیں
بیان مشکل ہے لفظ کم ہیں
میں چاہ کر بھی ترے بدن کے کسی بھی حصے کی بات کرنے میں بے زباں ہوں
مگر میں کوشش کروں گا پوری کہ تیرے اوصاف خوب لکھ دوں
میں تیری آنکھوں پہ شعر لکھ دوں یا نظم لکھ دوں کتاب لکھ دوں
میں جو بھی لکھ دوں یہ سب ہی کم ہے
یہ نیم آنکھیں
رباب آنکھیں
یہ خوش نما
ماہ تاب آنکھیں
رخِ محبت پہ تیری آنکھیں
عجب سا منظر بنا رہی ہیں
کہ جیسے کوئی
جوان ہرنی
کسی چمن میں
گلوں کا سایہ
بنی ہوئی ہو
ملوک چہرے
پہ خواب آنکھیں
فسوں سا نغمہ
بجا رہی ہیں
سنا رہی ہیں
کوئی کہانی
کہ جیسے بارش
کے موسموں میں
کسی ابر کا
گلاب قطرہ
ہوا کے شانوں
پہ چل رہا ہو
مچل رہا ہو
بنا رہا ہو
حسین منظر
ہیں آنکھیں ایسی
کہ جیسے کوئی
بہت پرانی
شراب بکھری
ہو لال پھولوں
کی رنگتوں پر
یہ تیر آنکھیں
نظیر آنکھیں
محبتوں کی
وزیر آنکھیں
سعادتوں کی
بشیر آنکھیں
یہ خواب آنکھیں
رخِ مسرت
پہ اِس طرح سے
دمک رہی ہیں
کہ جیسے نکلا
ہو کوئی جگنو
اندھیری راتوں
کے زیر پردوں
کی آہٹوں پر
کہ جیسے نکلا
ہو کوئی پنچھی
بہار موسم
کی سرد راتوں
میں گل کھلانے
ہوا کی لہروں
میں پنکھ کھولے
ٹہل رہا ہو
مچل رہا ہو
میں کیا بتاؤں
ہیں کیسی آنکھیں
ہیں آنکھیں ایسی
کہ جو بھی دیکھے
قفس کا مطلب
سمجھ میں آئے
یہ دَور آنکھیں
شراب آنکھیں
جنہوں نے دیکھا
وہ تیری آنکھوں
کی چاہتوں میں
اسیرِ زنداں ہوئے پڑے ہیں
مچل رہے ہیں
میں کیا بتاؤں
یہ چاند آنکھیں
محبتوں کا نصاب آنکھیں
یہ وہ ہیں آنکھیں
کہ جن پہ میں نے
کبھی لکھا تھا
اِدھر ہیں آنکھیں
اُدھر ہیں آنکھیں
ابر سی آنکھیں
ثمر سی آنکھیں
سپر سی آنکھیں
نگر سی آنکھیں
زبر ہیں آنکھیں
امر ہیں آنکھیں
سحر ہیں آنکھیں
خبر ہیں آنکھیں
ضرر ہیں آنکھیں
میں کیا بتاؤں
ہیں کیسی آنکھیں
کہ ساری دنیا
کی وہ کتابیں
جو آنکھوں پر بس
لکھی ہوئی ہیں
وہ سب کتابیں
بھی تیری آنکھوں
کا آئینہ ہیں
اندھیرے رستے
بھی تیری آنکھوں
کے زیر رہ کر
گزر رہے ہیں
بدلتے موسم بھی
تیری آنکھوںکے پاس
جانے سے ڈر رہے ہیں
کہ رک نہ جائیں
یہ پیار آنکھیں
یہ روشنی کا
مدار آنکھیں
خمار آنکھیں
سکون آنکھیں
قرار آنکھیں
یہ میرے دل کا
حصار آنکھیں
میں جتنی بھی
تعریف کر لوں کم ہے
اگر یہ سب کچھ
بھی تیری آنکھوں
کے سامنے ہو
تو پھر بھی کم ہے
ابھی تو آنکھیں بیان کی ہیں
بہت سی باتیں تو رہ گئی ہیں
ابھی تو زلفیں بھی رہ گئی ہیں
ابھی تو باہیں بھی رہ گئی ہیں
یہ ہونٹ تیرے یہ نرم گیسو
یہ پھول رنگت
گلاب چہرہ
شراب آنکھیں
یہ نرم بازو
ملوک ٹانگیں
تری کمر ہے چنبیلی جیسی
ہیں تیرے بازو بھی موم جیسے
ہیں تیری پلکیں بھی زہر جیسی
نشیلی پلکیں
نشیلے ابرو
نشیلی سانسیں
میں کیا بتاؤں
میں کیا سناؤں
میں کیسے بولوں
میں کیسے لکھوں
قسم خدا کی
کہ چاہ کر بھی
میں تیرے بارے
نہ لکھ سکوں گا