
01/08/2025
معصومیت کا قتل، انصاف کا امتحان:
کھوئی رٹہ، سیدپور سے تعلق رکھنے والی وہ معصوم بچی، جو کل تک ہنستی کھیلتی ایک معصوم زندگی کی علامت تھی، آج ایک سرد لاش بن کر کھیتوں سے برآمد ہوئی۔ ماں کی گود اجڑ گئی، باپ کی آنکھ نم ہو گئی، اور گاؤں کی فضاء ہمیشہ کے لیے سہم گئی۔
اس بچی کا قصور کیا تھا؟ صرف اتنا کہ وہ کمزور تھی؟ یا یہ کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہوئی جہاں درندہ صفت انسان، انسانی شکل میں گھومتے ہیں؟ کیا ہمارا معاشرہ اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ معصوم بچوں کے جنازے بھی اب معمول بنتے جا رہے ہیں؟
ذرائع کے مطابق قاتل گرفتار ہو چکا ہے اور اعترافِ جرم بھی کر چکا ہے۔ اگر یہ درست ہے، تو اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی پوری طاقت استعمال کر کے ایسے درندوں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔ یہ صرف ایک بچی کا کیس نہیں، یہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔
اگر قاتل تاحال آزاد ہے، تو سوال یہ ہے: ہماری پولیس، تفتیشی ادارے اور سیکیورٹی نظام کہاں کھڑا ہے؟ عوام کے دلوں میں غصہ ہے، خوف ہے، اور سب سے بڑھ کر، اعتماد کا فقدان ہے۔
حکومت، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو محض بیانات اور تعزیتوں سے آگے بڑھ کر فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے۔ قاتل کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے جو آنے والے ہر درندہ صفت شخص کے لیے ایک واضح پیغام ہو۔
ورنہ کل کوئی اور بچی، کوئی اور ماں، اور کوئی اور گاؤں اسی دکھ سے دوچار ہو گا... اور ہم صرف الفاظ لکھتے رہیں گے۔