Bahawalpur 4 U

Bahawalpur 4 U Welcome everyone to Bahawalpur 4 U.
بہاولپور کی نیوز اور اپڈیٹس کے لیے پیج لائک کریں۔
Its all about You and Bahawalpur. This channel purely belongs to you.
(1)

Weather, News, Culture/tradition, Buy & Sell available on this channel. WELCOME EVERYONE TO BAHAWALPUR 4 U Official Channel.

iPhone 17 lineup overview 🔥
10/09/2025

iPhone 17 lineup overview 🔥

‏صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم💚ﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴ...
09/09/2025

‏صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم💚
ﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴﷺﷴ

یاماہا نے پاکستان میں مزید موٹر سائیکل کی پیداوار بند کرنے کا اعلان کر دیا
09/09/2025

یاماہا نے پاکستان میں مزید موٹر سائیکل کی پیداوار بند کرنے کا اعلان کر دیا

رشتے داروں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں۔        یہ جملہ آپ کو شائد عجیب سا لگ سکتا ہے، ہاں اگر آپ اپنی اولاد کو ایک نفسیاتی...
09/09/2025

رشتے داروں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں۔
یہ جملہ آپ کو شائد عجیب سا لگ سکتا ہے، ہاں اگر آپ اپنی اولاد کو ایک نفسیاتی و ذہنی دباؤ سے بچانا چاہتے ہیں، تو اپنے رشتے داروں کو اپنے بچوں کو کسی بھی طرح سے تنگ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ میں نے خاص طور پر رشتے دار کیوں لکھا ہے؟ کیونکہ اکثر رشتے دار ہی آپ کے بچوں کے ساتھ آپ کے سامنے ایسے جملے بول سکتے ہیں، آپ کے بچوں کے حلیے پر، ان کی عادات پر، ان کے معاملات پر، غیر مناسب تنقید یا واقعتا سنجیدہ موڈ میں یا ہنسی مذاق میں ایسے بے ہودہ قسم کے سوالات کر سکتے ہیں، جنہیں سن کر ممکن ہے کہ آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا، مگر آپ خاموش رہتے ہیں کیونکہ اگر آپ انہیں ایسے جملے بولنے سے روکیں گے، تو آپ کی رشتہ داری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آپ کا بچہ ایسی کسی کیفیت کا جواب نہیں دے سکتا، مگر آپ ہوشمندی کا مظاہرہ کریں اور انہیں اس تکلیف سے بچائیں۔
بچوں کی شکل کے حوالے سے، ان کے بالوں کے حوالے سے، ان کی رنگت، ان کے جسمانی اعضاء پر، یا کسی بھی نوعیت کے اعتبار سے ان کی عادات کے اعتبار سے ان کے لباس پر اگر آپ کے بچے پر کوئی تنقید کرتا ہے، یا بچے کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اپنے تئیں وہ سمجھا رہا ہوتا ہے لیکن اس کا انداز طنزیہ ہو سکتا ہے، یا اس میں حقارت یا ڈانٹ کی کیفیت موجود ہوسکتی ہے، تب آپ کو لگتا ہے کہ وہ ایک خاندان کا ایک بڑا فرد بطور ایک well wisher کے آپ کے بچے کے ساتھ یہ سب کر رہا ہے۔ اور چلیں مان لیں کہ آپ کو بھی لگ رہا ہو کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ لیکن آپ اپنی رشتہ داری کو قائم رکھنے کے لیے، بزرگ یا کسی بھی رشتہ دار خاتون کی وہ بات برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو "ایک چھوٹا بچہ جو کل اس بات کو یا اس ڈانٹ کو بھول جائے گا" ۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔بچے ایسی باتیں کبھی نہیں بھولتے، اس کا اظہار نہیں کر سکتے وہ ایک "بند بوتل کی طرح ہوتے ہیں اور بوتل بند احساسات کبھی نہیں مرتے، وہ زندہ رہتے ہوئے دفن ہوجاتے ہیں، اور ساری زندگی بعد میں ان بچوں میں احساس کمتری اور بدصورت رویے مختلف صورتوں میں ابھرتے ہیں۔
اس لیے رشتے داروں کو کبھی بھی اپنے بچوں کے بچپن، معصومیت اور خوشی کو مسخ کرنے کی اجازت نہ دیں اور جب بھی آپ کے بچے اپنا بچپن یاد کریں تو وہ اسے خوبصورت احساسات اور رویوں کے ساتھ یاد رکھیں، یہ چیز آپ کے بچوں کی خود اعتمادی کو مجروح کرتی ہے اور ان کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے۔ جو مستقبل میں انہیں نقصان پہنچائی گی، اگر ایسے کسی لمحے میں آپ اپنے کسی رشتہ دار کو موقع پر ہی ٹوک دیں گے ممکن ہے وہ رشتے دار چند روز، ہفتے، مہینے یا سال بھر آپ سے ناراض ہوسکتا ہے، لیکن یہ آپ کے بچے کی نفسیاتی حفاظت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو اس کا بنیادی حق ہے، کہ وہ اپنے آپ کو کم تر محسوس کریں یا اپنے جسم یا شخصیت کے کسی حصے سے نفرت کریں۔ اس لئے ایسے کسی بھی موقع پر رشتہ داروں کو سختی سے منع کریں، اپنے بچوں کے ساتھ کسی کو بھی حدود سے تجاوز نہ کرنے دیں، چاہے وہ مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں بات میں ہو یا عمل میں ہر صورت یہ رویہ ناقابل قبول رکھیں۔
اکثر قریبی عزیز ہی یہ ہمت کرتے ہیں، کہ آپ کے بچوں کو ان کی ہئیت و رنگ کی وجہ سے کسی نامناسب نام سے پکار لیتے ہیں، جیسے موٹو، پتلو، بچوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بہت گھنا ہے، یہ کتنا غیر مناسب لفظ ہے، بچوں کے لئے اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کہ آپ کسی بچے کو ایک طرح سے دھوکے باز کہہ رہے ہیں، بچوں کے بارے میں ایسے الفاظ یا مذاق کرنا سختی سے روکنا چاہئے، جو بچے کے لیے ناپسندیدہ یا تکلیف دہ ہو، یہ سب کرنے والے والے چاہے آپ کی بہن، یا آپ کے بھائی، آپ کی پھوپھی، آپ کی خالہ یا چچا ماموں وغیرہ کوئی بھی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہوں، انہیں بچوں کی جسمانی ساخت پر تبصرہ یا تضحیک کرنے سے سختی سے روکنا چاہئے کہ جیسے آپ کا بچہ اس طرح کیوں نہیں بھاگ سکتا؟ اس کا رنگ ایسا کیوں ہے، اس کا قد عمر کے حساب سے کم ہے، وہ ایسے کیوں پڑھتا ہے، ایسے کیوں کھاتا ہے، وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتا۔ وغیرہ وغیرہ، اصل میں یہ تمام منفی باتیں بچوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کے دماغ میں رہتی ہیں اور اس عمر میں ان کا دماغ اس پر یقین کر لیتا ہے۔
ایسے تمام برے لفظ یا جملے بچوں کے ذہن پر چھا جاتے ہیں، اور وہ مختلف مسائل کی صورت سامنے آتے ہیں، بچوں کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے، اور ان مسائل سے نکلنے میں انہیں وقت لگتا ہے، ایسے ہر برے لفظ یا تنقیدی و تضحیکی جملوں کے اثر کو دور کرنے کے لیے ایک تکیلف دہ مرحلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسے ایک جملے سے انہیں ذہنی طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے 100 اچھے جملوں کی ضرورت پڑے گی۔ اپنے بچوں کا دوسرے بچوں کے ساتھ نہ ہی خود موازنہ کرنا چاہیے نہ ہی کسی اور کا موازنہ کرنے دینا چاہیے، چاہے وہ آپ کے کتنے ہی بہترین رشتہ دار کیوں نہ ہو، کیونکہ ہر بچے کی اپنی شخصیت کی خصوصیات ہوتی ہیں، جو ایک بچے سے دوسرے بچے میں مختلف ہوتی ہیں، اور یہی موازنہ پہلی چیز ہے جو بچے کی شخصیت کو تباہ کرتی ہے اور خود اعتمادی کو کمزور کرتی ہے۔ آخری بات یہی ہے کہ افعال رویوں اور جملوں سے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی ایسی بدمعاشی کو روکیں۔ کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اور خود بھی بحیثیت رشتہ دار آپ دوسروں کے بچوں کے بارے میں جملہ بولتے وقت سو بار سوچیں کہ آپ کے جملے کا اس بچے پر کیا اثر ہوگا۔
تحریر: منصور ندیم

22 بدرہ (بھادوں) کو تارا ⭐ طلوع ہوتا ہے اور دیسی موسمی فورکاسٹ کے مطابق ہم سردیوں میں داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ 22 بدرہ کے...
09/09/2025

22 بدرہ (بھادوں) کو تارا ⭐ طلوع ہوتا ہے اور دیسی موسمی فورکاسٹ کے مطابق ہم سردیوں میں داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ 22 بدرہ کے بعد مکھی مچھر کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور مویشی رکھنے والے دوست پھر مال مویشی کے لئے دھواں نہیں لگاتے۔
22 بدرہ کے ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد اسوج (اَسُوں) شروع ہو جاتا ہے اور اَسُوں میں صبح کے وقت شمال کی طرف سے ہوائیں چلتی ہیں جو کہ نارمل سے ٹھنڈی ہوتی ہیں اور درجہ حرارت گرانے میں کافی مدد دیتی ہیں

سیلابی آفت کے دنوں میں یہ سوال بار بار دل کو چیرتا ہے کہ آخر لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کا رُخ کیوں نہیں کرتے...
09/09/2025

سیلابی آفت کے دنوں میں یہ سوال بار بار دل کو چیرتا ہے کہ آخر لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کا رُخ کیوں نہیں کرتے؟ کیا زندگی سب سے قیمتی متاع اور جان سب سے بڑھ کر عزیز نہیں؟ مگر حقیقت اس سوال سے کہیں زیادہ تلخ اور کہیں زیادہ کربناک ہے۔
کسان کی دُنیا بڑی مختصر مگر اُس کے لیے بڑی قیمتی ہوتی ہے۔ اُس کی دولت کھیت کا چھوٹا سا ٹُکڑا، ٹپکتی چھت والا کچّا مکان، صحن میں بندھے دو چار جانور اور وہ چند برتن ہیں جو نسلوں سے اس کے ساتھ جڑے ہُوئے ہیں۔ اگر وہ اپنا گھر چھوڑ دے تو یہ سب کچھ سیلابی موجوں کی نذر یا درندہ صِفت لُٹیروں کے ہاتھوں برباد ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لینا شاید آسان ہے مگر سب کچھ لُٹا دینا برداشت سے باہر۔
کھیت اور کھلیان اُس کے لیے صرف زمین کا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ آبرو، پہچان اور زندگی کا دوسرا نام ہیں۔ کسان اس اُمید کے سہارے بیٹھا رہتا ہے کہ شاید سیلاب سے بچ جائے اور فصل کے چند تنکے ہی سہی مگر اپنے بچّوں کی شِکم سیری کے لیے کچھ نہ کچھ بچا سکے۔
غُربت بھی اُس کے قدموں کی زنجیر ہے۔ نہ سواری میّسر اور نہ ہی اتنی سکّت کہ کئی دِن یا ہفتے کسی محفوظ مقام پر بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ اُس کے سامنے ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ بے سروسامانی کے ساتھ دربدر ذلیل ہونا بہتر ہے یا اپنے ہی صحن میں ڈوب مرنا؟
ریلیف کیمپس پر عدم اعتماد بھی اُس کے دل میں زہر گھول دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہاں چھت کے نام پر تمبُّو کا ایک ٹُکڑا ہے، کھانے کا بندوبست قلیل اور فقط فوٹو سیشن تک محدُود ہے اور عزّتِ نفس ہر لمحہ مجروح ہوتی ہے۔ ماضی کے یہی تلخ تجربات اُسے اپنی اُجڑی بستی چھوڑنے سے ڈراتے ہیں۔
پھر گاؤں اور آبائی زمین سے ایسا رشتہ ہے جو خون کی ڈور کی طرح ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ وہ اپنی جنم بھومی کو چھوڑنے کو بے وفائی اور کمزوری سمجھتا ہے۔ یہی محبت اور یہی ضِد اُسے پانی کے عذاب میں بھی باندھے رکھتی ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیلاب اچانک لپک کر آتا ہے۔ لمحوں میں بستیوں کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیتا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑتا۔
اور جو لوگ نکلنے کی ہمت کرتے ہیں اُن کے دل ایک اور خوف سے گِھر جاتے ہیں کہ خالی گھروں کو گروہ در گروہ دنداتے پِھرتے لُٹیرے نوچ کھسوٹ جاتے ہیں۔ چھتوں کے ٹی آر اور گارڈر تک اُکھاڑ لیے جاتے ہیں، پانی کی ٹینکیاں اور موٹریں چُرا لی جاتی ہیں، دروازے اور کھڑکیاں تک نوچ کر بیچ دی جاتی ہیں۔ کسان تڑپ کر سوچتا ہے کہ ڈوبتے پانی سے تو شاید چھت بچ جائے مگر ان انسان نما درندوں سے ہرگز نہیں۔
یوں سیلاب کے دنوں میں انسان ایک دل دہلا دینے والے انتخاب کے سامنے کھڑا رہتا ہے کہ یا تو اپنی جان بچا لے اور سب کچھ گَنوا کر ساری زندگی افلاس و لاچاری کی اذیت سہتا رہے یا سب کچھ بچانے کی خاطر اپنی جان کا سودا کر لے۔
یہی وہ المیہ ہے جو سمجھنے والوں کے لیے سوال بن کر دل کو کاٹتا ہے اور سہنے والوں کے لیے ایک ایسا زخم جو کبھی نہیں بھرتا۔

09/09/2025

گنڈہ سنگھ والا سے پانی تاحال کم نا ہوسکا۔۔ حالات سمجھ سے باہر۔۔ شہرنواب کو سیلاب سے بچانے کیلئے سر توڑ کوششیں جاری۔۔۔۔

08/09/2025
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
07/09/2025

(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

Address

Bahawalpur

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bahawalpur 4 U posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share